باب : ٢٠

190 16 3
                                    

حال......

"کیسی ہیں؟"وہ سٹول پہ بیٹھا ان سے نظریں ملاۓ بغیر بولا۔راحیل بھی قریب ہی کھڑا تھا۔
زینب ایک دم سے ہچکیاں لے کر رونے لگیں۔اس کا نظریں چرانا،اس کا حال پوچھنا،اس کی آنکھوں کے سوجھے ہوۓ پپوٹے جو کہ اس کے رونے کی چغلی کھا رہے تھے'سب کچھ انہیں اندر ہی اندر انہیں کھانے لگا۔اذیت پہنچانے لگا۔
کچھ بھی کہے بغیر انہوں نے آہستہ سے اپنے کانپتے ہاتھ اٹھا کر جوڑ دیے۔۔حدید جیسے ہی کچھ سمجھا اس کے دل میں ٹیس اٹھی۔اسے قلبی جھٹکا لگا تھا۔
"معاف کر......کر دو میرے بچے۔"ان کے لبوں سے بمشکل الفاظ ادا ہوۓ۔
یہ منظر دیکھ کر راحیل کی آنکھوں سے کوئی تر چیز نکلی اور تیزی سے گال پہ بہہ گئی۔راحیل نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر تر گال کو صاف کیا۔وہ جذباتی ہورہا تھا۔
حدید کی آنکھوں سے بھی جذبات بہہ نکلے۔وہ کچھ دیر چپ رہا اور پھر آہستہ سے اس کے لبوں نے ہلنا شروع کیا۔
"قصور آپ کا نہیں ہے۔قصور میری محبت کا ہے۔"اس نے نظریں اٹھا کر اپنی ماں کی آنکھوں میں جھانکا۔وہ کاٹ دار نظریں۔زینب کے دل کو کچھ ہوا۔"محبت انسان کو در بدر کر کے رول دیتی ہے۔محبت انسان کو بادشاہت کا تاج پہنا کر پیروں تلے روند دیتی ہے۔سارا قصور ہی اس محبت کا ہے۔جینے نہیں دیتی۔اچھے خاصے جیتے ہوۓ انسان کو مار کے رکھ دیتی ہے۔"اس نے ایک گہرا سانس خارج کیا اور کچھ لمحوں کے توقف کے بعد بولا۔
"مجھ سے غلطی ہوگئی۔میں نے سب کو تکلیف پہنچائی۔آپ کو،بابا کو،آپی کو،اور سب سے زیادہ ایمن کو۔معاشرے میں اس کی عزت کی دھجیاں اڑا دیں۔قصوروار نہ ہوتے ہوۓ بھی صرف وہی قصور وار کہلائی گئی۔کتنا بُرا ہوں میں۔"آخر میں اس کی آواز لڑکھڑائی۔گلے میں جیسے آنسؤں کا پھندا اٹکا ہوا تھا۔
"نہیں بچے!...قصور تمہارا نہیں۔ہم سب کا ہے۔"اس کے قریب سے آواز آئی۔وہ ریاض تھے۔راحیل غائب تھا۔اس کی جگہ اب وہ آ گئے تھے۔راحیل جا چکا تھا۔
حدید نے چونک کر انہیں دیکھا۔اور پھر فوراً سے نظریں چرا لیں۔سب کچھ ایک بار پھر سے یاد آچکا تھا۔اب صرف اذیت بچی تھی۔اسے ان سے نفرت ہو رہی تھی نہ محبت۔ابھی احترام باقی تھا۔
"ہمیں معاف کر دو بچے!...ہم سے بہت سی غلطیاں ہو گئیں۔ماں باپ اپنا ہر فرض تو ادا کر لیتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو نہیں سمجھ پاتے۔اس وجہ سے وہ کبھی کبھار بہت سی غلطیاں کر جاتے ہیں۔ہم بھی تمہیں نہیں سمجھ سکے۔غلطی ہماری ہے۔تم کیوں خود کو بُرا کہہ رہے ہو۔"وہ نڈھال کندھوں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے تھے۔ہمت نہیں تھی آج اپنی اس اولاد سے مقابلہ کرنے کی۔ان کی ساری ہمت ان کے بیٹے نے اپنے آنسؤں کے ساتھ بہا دی تھی۔وہ اس کے آگے ہار گئے تھے۔ان کی ضد'انا ایمن کے لیے اپنے بیٹے کی محبت دیکھ کر ہار گئی تھی۔
"ہمیں اپنی غلطی سدھارنے کا ایک موقع چاہیے۔ہم رمضان کے گھر اس کی بیٹی کا رشتہ لے کر جانا چاہتے ہیں۔ہم اسے عزت کے ساتھ رخصت کروا کر لانا چاہتے ہیں۔معاشرے میں جو بےعزتی ہوچکی ہے اس بچی کی'ہم اسے سود سمیت اس کی عزت لوٹانا چاہتے ہیں۔"
ریاض نے اپنی بات مکمل کر کے حدید کو دیکھا جو کہ بےیقینی سے انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔ایک نظر موڑ کر اس نے اپنی ماں کو دیکھا جو کہ مسکرا رہی تھیں۔
حدید اسی آن اٹھا اور اپنے باپ کے گلے لگ گیا۔ریاض اپنی جگہ منجمد ہوگئے۔ایک جگہ ساکت۔انہیں یاد نہیں پڑتا تھا کہ کبھی حدید نے انہیں اس طرح گلے لگایا ہو۔ان کی آنکھیں بےساختہ نم ہوگئیں۔انہوں نے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی اور حدید کے گرد اپنا حصار قائم کر دیا۔اور ہلکا سا اس کی پشت کو تھپکا۔
"میں......میں بتا نہیں سکتا کہ مجھے کس قدر خوشی ہو رہی ہے۔بلکہ......بلکہ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ آپ کہہ رہے ہیں۔آپ سچ ہی کہہ رہے ہیں نا۔آپ...آپ جائیں گے وہاں۔"
وہ ان سے الگ ہوا اور آنکھوں میں امید لیے انہیں دیکھنے لگا۔اس کے چہرے سے خوشی صاف چھلک رہی تھی۔تھوڑی دیر پہلے کی اذیت کا نام و نشان نہ تھا۔
ریاض کو اس وقت وہ چھوٹا سا حدید لگا جو بچپن میں کسی تحفے کے ملنے پہ انتہائی خوش ہوجایا کرتا تھا۔انہیں اس کا بچپن یاد آگیا۔وہ چھوٹا سا حدید'ان سب کا لاڈلا'جس کی ایک فرمائش پہ سارے گھر والے اس پہ نچھاور ہوجایا کرتے تھے۔انہوں نے ہی تو اسے ضدی بنایا تھا۔وہ بہت جھوٹ بولتا تھا'بہت ضدی تھا۔اپنی کرتا تھا کسی کی نہ سنتا تھا۔اس بار وہ پھر اس کی فرمائش پہ نچھاور ہونا چاہتے تھے۔وہ سب بھی اس کی ضد میں پاگل ہونا چاہتے تھے۔
"میں جاؤں گا بچے!..."اس کے سر کا بوسہ لیتے انہوں نے کہا۔
بھلا اولاد کی خوشی سے بڑھ کر بھی تھا ان کے لیے کچھ؟

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن