”یار!خاموش ہوجا۔مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔“راحیل کے منہ سے بمشکل الفاظ ادا ہوۓ۔
”میری تکلیف کا کیا ہاں؟“وہ تڑخ کر بولا۔”تم لوگوں کو بس اپنی تکلیفیں ہی دکھائی دیتی ہیں میری تکلیف کا کچھ نہیں۔حدید تو ہے ہی لاوارث۔“
اس کی آخری بات سب کے دل ایک ساتھ چیر گئی۔وہ کیسے خود کو لاوارث کہہ رہا تھا۔
”کس نے کہا تو لاوارث ہے؟خبردار جو آئندہ ایسی ویسی بات بولی تو،خدا کی قسم ہاتھ اٹھ جاۓ گا میرا۔میں تیرا بڑا بھائی پہلے ہوں اور دوست بعد میں،سمجھا؟“راحیل نے سیدھا ہی اسے جھڑک دیا۔اس بار حدید خاموش تھا،بس اس کے آنسو اور ہچکیاں آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔
ریاض مرے قدموں سے سیڑھیاں اترنے لگے۔ایک لمحے کو وہ زینب کے پہلو میں رکے،اور انہیں کرب میں ڈوبی لال سُرخ آنکھوں سے دیکھا۔زینب کا دل مانو انگاروں پر رکھ کر چھوڑ دیا گیا ہو۔یہ عمل صرف کچھ لمحوں کا تھا اس کے بعد ریاض نے اپنی نظریں سامنے کی طرف موڑیں اور آہستہ آہستہ زینے اترنے لگے۔سیڑھیوں سے اترنے کے بعد وہ کسی سے بھی نظریں ملائے بغیر اپنے کمرے کی جانب چل دیے۔کمرے کا دروازہ دھاڑ کی آواز سے بند ہوا تھا۔زینب نے غم سے اپنی آنکھیں بھینجی،اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر زینے چڑھنے لگیں۔انہیں زندگی میں پہلی دفعہ اپنے بیٹے کا سامنا کرنے سے خوف آ رہا تھا۔
”اچھا چل اب خاموش ہوجا۔ان شاءاللہ سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا۔میں کروں گا نا سب سے بات،ماما بابا سے،آپی سے اور ایمن سے۔“راحیل نے آہستہ سے اس کے سر پہ بوسہ دے کر اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
حدید جھٹ سے اس سے دور ہوا،آنکھوں میں اب کرب کی جگہ بےیقینی،امید اور ایک آس نے لے لی تھی۔
”سچ؟تم ایمن سے بات کرو گے نا؟“
اسے اب بھی ایمن کی فکر لاحق تھی۔گھر والے بےشک بھاڑ میں جائیں۔
راحیل نے آہستہ سے سر اثبات میں ہلا کر اسے تسلی دی۔
”اسے بتانا کہ حدید مجبور تھا۔اسے بتانا کہ اس کے گھر والے بہت ظالم ہیں۔“لڑکھڑاتی زبان سے کہتا وہ ان سب کو بےبس کر گیا۔اچانک حدید کی نظروں نے راحیل کی پشت سے پیچھے جھانکا۔زینب اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔حدید نے نفرت سے اپنی نظروں کا رخ موڑ لیا۔زینب کا دل تو اس کی حالت دیکھ کر ہی اجڑ چکا تھا کہ اب اس کے اس طرح نظریں موڑنے سے انہیں دل کسی کھائی میں جاتا ہوا محسوس ہوا۔انہیں لگا وہ اولادوں میں بہت زیادہ فرق کر بیٹھیں ہیں۔اور ہاں انہیں ٹھیک لگ رہا تھا۔کیونکہ وہ اولادوں میں بہت زیادہ فرق کر بیٹھی تھیں۔انہوں نے حدید پر گوہر کو ترجیح دی تھی۔
”راحیل!اپنی ماں سے کہو کہ میری نظروں سے دور چلی جائیں۔میں نہیں چاہتا کہ مجھے ان سے نفرت ہو جاۓ۔“
راحیل بےانتہا چونکا تھا پھر بےاختیار اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔اس کی آنکھیں حیرت سے ایک دم پھٹ گئیں۔
زینب کو اس ماحول سے اب گھٹن ہونے لگی تھی۔وہ کیا کہہ رہا تھا؟کیا وہ اس کی ماں نہیں تھیں؟کیا ماں سے بھی کسی کو نفرت ہوتی ہے؟انہیں اپنے دل پر بوجھ بڑھتا ہوا محسوس ہورہا تھا،اچانک ان کے دل میں ایک شدید درد اٹھا تھا۔انہوں نے بےساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔دل کا درد شدید بڑھتا جا رہا تھا۔ان کے چہرے کے زاویے شدید درد کا تاثر لے چکے تھے۔وہ آہستہ آہستہ نڈھال ہونے لگی تھیں۔
”امّی!“
راحیل انہیں ایسی حالت میں دیکھ کر ایک دم سے چیخا۔
زینب کے کان بلکل مفلوج ہوچکے تھے۔انہیں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا،انہیں بس راحیل کے لب وا ہوتے نظر آۓ تھے پھر انہیں اپنا دھڑ زمین کو چھوتا ہوا محسوس ہوا۔سارے منظر دھندلا چکے تھے۔دھندلی آنکھوں سے انہیں راحیل اپنی طرف دوڑ کر آتا ہوا دکھائی دیا۔انہوں نے دیکھا کہ حدید ان کی طرف نہیں بڑھا تھا۔وہ ویسے ہی اپنی جگہ پہ ساکت کھڑا تھا۔اور یہ تکلیف زیادہ بڑی تھی۔انہیں محسوس ہوا کہ کوئی ان کا گال تھپک رہا ہے۔وہ یہ نہ دیکھ سکیں کہ کون تھا،ان کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں،مگر شاید وہ راحیل تھا۔
مگر کاش وہ دیکھ لیتیں کہ وہ راحیل نہیں تھا۔وہ حدید تھا۔
YOU ARE READING
"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)
Mystery / Thrillerیہ "محبت" وہ کہانی جو کہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزری ہے۔یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے،جس کو میں ناول میں لکھے اپنے الفاظوں کے ذریعے آپ سب کے سامنے پیش کرنا چاہوں گی۔اس کے کردار تو حقیقی ہیں لیکن نام فرضی۔ یہ وہ کہانی ہے جس میں،میں نے اپنی نظروں کے سام...