باب : ١٢

192 20 4
                                    

”بڑا خوش لگ رہا ہے،کیا بات ہے ہاں!“وہ آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی کی ناٹ باندھ رہا تھا جب راحیل پر اس کی نظر پڑی۔راحیل اپنے جوتے پہنتے ہوۓ مسلسل مسکرا رہا تھا۔ظاہر ہے آج اس کا اتنا بڑا دن تھا وہ کیسے نہ خوش ہوتا۔جبکہ حدید اس کی خوشی کا باعث جانتے ہوۓ بھی اسے چھیڑ رہا تھا۔
”جیسے تمہیں تو پتا ہی نہیں میں کیوں خوش ہوں۔“وہ خفا ہوا۔
”نہیں مجھے سچ میں نہیں پتا۔“اس نے بےنیازی سے شانے اچکا دیے۔
”میری منگنی ہے آج میں کیسے خوش نا ہوں۔“وہ خفیف انداز میں بولا۔
”منگنی ہے……نکاح تھوڑی۔“اس نے آئینے میں ایک آخری نظڑ ڈال کر اپنا رُخ موڑا۔
”وہ بھی ہو جاۓ گا۔“وہ اپنے جوتے پہن کر کھڑا ہوگیا۔وہ بلکل تیار لگ رہا تھا۔وہ اس وقت سرمئی پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا۔بال پیچھے کو سٹائل سے سیٹ کیے وہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔اوپر سے اس کی خوشی سے بھرپور مسکراہٹ نے کمال کیا ہوا تھا۔ہلکی ہلکی شیو اس پر بہت جچ رہی تھی۔
”خیر!……مجھے ایسے لگتا ہے کہ ایک منگنی پر انسان کو خوش نہیں ہونا چاہیے۔منگنیاں تو ٹوٹ جاتی ہیں۔“وہ  اب بیڈ پر رکھا اپنا کوٹ اٹھا کر پہن رہا تھا۔
”تو،تم کیا چاہتا ہو کہ میری منگنی ٹوٹ جاۓ۔“وہ حیران ہوا۔
”میں نے ایسا تو نہیں کہا۔“اس نے اپنا کوٹ آگے کی طرف جھٹک کر سیٹ کیا۔اب وہ بھی بلکل تیار لگ رہا تھا۔نیوی بلو پینٹ کوٹ میں ملبوس،وجیہہ نقوش کے ساتھ وہ بہت واجب نظر لگ رہا تھا۔ہلکی ہلکی داڑھی اس پر بہت سوٹ کر رہی تھی۔بال ماتھے پر سٹائل سے گرے ہوۓ تھے جو کہ اس  کے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔
”تو پھر مطلب کیا ہے تمہارا؟“وہ اب اس کی کلاس لینے کے فُل موڈ میں تھا۔
”تمہیں منگنی کی بجاۓ نکاح کرنا چاہیے تھا۔“وہ سیدھا مدعے کی بات پر آیا۔
راحیل نے آنکھیں سکیڑ کر اسے گھورا۔”تو پہلے بتاتے۔“
”کیا؟…“اس نے ابرو چکائی۔
”مجھے منگنی نہیں بلکہ نکاح کرنا چاہیے۔“راحیل کو اس کی بات نے دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا۔
”تمہیں خود سمجھ ہونی چاہیے۔“حدید نے ڈریسنگ ٹیبل سے اپنی گھڑی اٹھائی اور کلائی میں پہننے لگا۔
راحیل کی نظریں بےساختہ اس کے ہاتھوں کی حرکت کو دیکھنے لگیں۔”خیر اب تو بہت دیر ہوچکی ہے۔“
حدید کا گھڑی پہنتا ہاتھ ایک دم سے ساکت ہوا۔وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”نہیں……ابھی دیر نہیں ہوئی۔“
راحیل نے بھی اس کے ہاتھوں کی حرکت رُکتے دیکھ اپنی نظروں کا زاویہ اس کے چہرے کی طرف موڑا۔دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں پھر دونوں ہی اچانک سے مسکرا دیے۔
”بڑے تیز ہو تم۔“راحیل کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ آ گئی۔
”افسوس!…تمہیں اب معلوم ہوا؟“وہ پھر سے گھڑی پہننے لگا۔”خیر تم مجھے اپنا اگلا لائحہ اپنا بتاؤ۔“
”یہ کام میں تمہیں سونپتا ہوں۔“راحیل آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے گھڑی لے کر اس کا آخری سٹیپ خود بند کرنے لگا۔
حدید نے ابرو اچکا کر اسے ایسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو،”لائیک سیریسلی؟“
”مجھے لگتا ہے تمہیں مجھ سے زیادہ تجربہ ہے۔“راحیل نے گھڑی کا آخری سٹیپ بند کر کے اس کی جانب دیکھا۔
”اس کے بدلے مجھے کیا ملے گا؟“ وہ اپنا فائدہ بھی تو چاہتا تھا۔وہ حدید ہی کیا جو مفتی میں اس کا کام کر دیتا۔سفارش اور کام میں بہت فرق تھا۔سفارش وہ بھائی کے ناطے کر چکا تھا۔کام نکلوانے کے دوران ہمیشہ کاروباری بننا پڑتا ہے۔
”میری نئی کار تمہاری!“اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔حدید کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt