episode 5

137 11 2
                                    

"دیکھو۔لڑو تو نہیں۔لڑنے سے کیا ہوگا!اگر تم دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہے تو سلجھا لو نا آپس میں۔اس طرح لڑو تو نہیں۔"
عالیہ انہیں سمجھا رہی تھی۔اگر ارسلان اور ہانی سنتے تو یہ ضرور کہتے کہ "دیکھو تو سہی،سمجھا کون رہا ہے؟"
عالیہ کی بات سن ان دونوں نے عجیب سی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"پھر دونوں ہی یک آواز بولے۔"امپوسیبل۔"
"جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے یہ جھگڑا نہیں سلجھا۔اب کیا خاک سلجھے گا؟"وہ لڑکی اب کہہ رہی تھی۔
باب کٹ ہیئر،آنکھوں پہ چکور سا چشمہ ہونٹوں کے نیچے اور کونے میں بنا سیاہ تِل اس لڑکی کو پرکشش بنا رہا تھا۔گوری رنگت اور سبز آنکھیں اس کے پٹھان خاندان سے تعلق کا پتہ دے رہی تھی۔
"تم جیسی بندریا سے صلح کا شوق کسے ہے بھلاں۔"وہ لڑکا بھی تیز لہجے میں گویا ہوا۔
بھوری آنکھیں اور گوری رنگت،ہلکی ہلکی داڑھی میں بھورے بال پیچھے کو سیٹ کیے وہ بھی کوئی پٹھان ہی تھا۔البتہ بولی ان دونوں کی اردو ہی تھی۔
"یہ بندریا کس کو بولا؟"
"آف کورس تمہیں۔"
"شکل بگاڑ دوں گی میں تمہاری۔"
"روکا کس نے ہے۔"
شاید وہ دونوں ہی حساب برابر کرنے میں ماہر تھے۔
"اللہ معاف کرے۔بہت منہوس لگ رہے ہو تم تینوں۔"یہ ہانیہ تھی۔ان تینوں کی نظر فوراً سامنے گئی جہاں سے آواز آئی تھی۔
اب وہ دونوں بلائیں بھی ان کے سر پہ کھڑی تھیں۔
اس لڑکی اور لڑکے کی آنکھوں میں اجنبی سا تاثر تھا۔جبکہ عالیہ نے شکر کا سانس خارج کیا۔
"شکر ہے تم دونوں آ گئے۔"
"ہمارے بغیر ہی تم نئے دوست بنا رہی ہو۔شرم نہیں آتی تمہیں۔"ارسلان جذباتی ہو رہا تھا۔
"شٹ اپ۔"عالیہ نے آنکھیں گھمائیں۔
"اوکے۔"ارسلان فوراً سے چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔
"اور تم دونوں کون ہو۔اور میری دوست کے ساتھ کیا کررہے ہو؟تنگ کر رہے تھے نا میری دوست کو؟"ہانیہ نے فوراً سے آستین اوپر چڑھانی شروع کی۔ارادہ لڑائی کا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ دونوں کچھ کہتے عالیہ بول اٹھی۔
"ارے نہیں۔ایسی بات نہیں ہے۔یہ دونوں تو……"
اس کے بعد عالیہ نے انہیں ساری روداد سنا دی جسے سن کر ان کے منہ سے " اوہ " خارج ہوا۔تو وہ لوگ غلط سمجھے تھے۔
"کیا تم دونوں بہن بھائی ہو؟"ارسلان کا سوال تھا یا کیا۔ان دونوں کو ایسے لگا جیسے ابھی الٹی آ جاۓ گی۔
"یخ۔اللہ نہ کرے کہ یہ میرا بھائی ہوتا۔"اس لڑکی نے دہل کر دل پہ ہاتھ رکھا۔
"الحمد للہ کہ یہ میری بہن نہیں ہے۔یا اللہ تیرا شکر ہے۔"اس لڑکے نے بھی آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے صدا لگائی۔
"تو پھر تم دونوں ایک دوسرے کے کیا لگتے ہو؟"وہ تینوں ایک ساتھ حیرانی سے سوال کر بیٹھے۔
"دشمن جمع کزن۔"جواب لڑکے کی طرف سے آیا تھا۔
"اوہ۔تو تم دونوں کزنز ہو۔"ان تینوں نے سمجھ کر سر ہلایا۔
" کاش یہ بھی نہ ہوتے۔"اب کہ لڑکی نے کہا تھا۔
"اگر تم دونوں کزن نہ ہوتے تو دوست ہوتے،دوست نہ ہوتے تو لوّبرڈز ہوتے،لوّبڑڈز نہ ہوتے تو میاں بیوی ہوتے۔تم دونوں میں کوئی نا کوئی تعلق ضرور ہوتا۔"یہ ہانیہ کا فلسفہ تھا جو وہ جھاڑ بھی چکی تھی۔
جبکہ وہ دونوں تو غش کھاتے بچے تھے۔
"دوست!لوّبرڈز!میاں بیوی!یخ۔کتنے بُرے لگ رہے ہیں یہ الفاظ ہمارے لیے۔توبہ۔"لڑکے نے تو کانوں کو ہی ہاتھ لگا لیے۔
"تم جیسے بندر کو تو میں اپنا ملازم بھی نہ رکھوں۔"وہ لڑکی بھی چڑ گئی۔
"الحمدللہ۔اتنے برے دن نہیں آۓ میرے۔"وہ لڑکا بھی تڑخ تڑخ کر جواب دیتا تھا۔
"تم بندر کے کچھ لگتے تمہیں تو میں……"
"میں شہریار بھائی کو بتاؤں گا کہ تم نے مجھے آج دو دفعہ بندر اور ایک دفعہ جاہل کہا۔"
اس لڑکی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ لڑکا کالر جھاڑ کر اسے دھمکی دے چکا تھا۔
"خبردار!جو بھائی سے میری شکایت کی تو۔"
"کروں گا۔کروں گا۔سو دفعہ کروں گا۔"
وہ تینوں جو ہونقوں کی طرح ان دونوں کو ایک دفعہ پھر سے جھگڑتے دیکھ رہے تھے،شہریار کے نام پہ چونکے تھے۔
"شہریار بھائی؟"ہانیہ کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
"پٹھانوں جیسی صورت اور آواز میں لچک۔"ارسلان بھی جیسے کچھ حساب لگا رہا تھا۔
"اور اس لڑکی کی شکل بھی تو…"عالیہ کچھ کہتے کہتے رکی۔
"اس کا مطلب ہے کہ……"ہانیہ کی دماغ کی زندگ لگی مشینوں نے بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
"یہ شہریار بھائی کی بہن ہے۔"وہ تینوں ایک ساتھ بولتے بلکل شاکڈ ہوچکے تھے۔
وہ دونوں جو آپس کی جنگ میں الجھے ہوۓ تھے ان کے جملے پہ یک دم تھمے تھے۔
"کیا مطلب تم لوگوں کا؟تم لوگ شہریار بھائی کو جانتے ہو؟"وہ لڑکا حیران ہوا تھا۔جبکہ وہ لڑکی چہکی تھی۔
"کیا تم لوگ سچ میں بھائی کو جانتے ہو؟"
"ہاں۔ہم جانتے ہیں۔بہت اچھے سے جانتے ہیں۔"جواب ارسلان کی طرف سے آیا تھا۔
"ہاں۔ابھی ہفتہ پہلے ہی تو شہریار بھائی نے عنایہ کے گھر رشتہ……"اس سے پہلے کہ ہماری محترمہ شہریار کی بہن کے سامنے شہریار کا بھانڈا پھوڑتی ارسلان محترم تیزی سے اس کی طرف لپکے اور سرگوشی نما انداز میں بولا۔
"ہانی ہر بات نہیں بتاتے ہوتے۔"
"اچھا اچھا۔"محترمہ نے فوراً سے سمجھ کر سر ہلایا تھا۔
"ہوں۔"ارسلان اب واپس اپنی جگہ پہ کھڑا ہوچکا تھا۔
"دراصل میں منظور علی شاہ کا بیٹا اور عاقب علی شاہ کا بھائی ارسلان علی شاہ ہوں۔"ارسلان نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"اوہ۔میں داور حیات خان ہوں۔حیات خان کا بیٹا اور شہریار احمد خان کا کزن۔"داور نے بھی مصافحہ کے لیے بڑھایا گیا ہاتھ تھام کر بتایا۔
"لیکن شاہ انڈسٹری سے تو خان انڈسٹری کی لڑائی چل رہی تھی۔"وہ لڑکی پرسوچ انداز میں بولی۔
"اب صلح ہوگئی ہے۔"داور نے کڑھ کے جواب دیا۔
"لیکن بھائی نے تو مجھے کچھ نہیں بتایا۔"وہ لڑکی سوچ سوچ کر ہی الجھ رہی تھی۔
"اب شہریار بھائی ہر بات تمہیں تھوڑی بتاتے ہیں ڈفر۔"وہ چڑانے والے انداز میں بولا۔اور وہ چڑ بھی گئی۔
"یہ ڈفر کس کو بولا؟"
"آف کارس تمہیں۔"
"میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔"
"روکا کس نے ہے؟"
ہانیہ اور ارسلان کی نظر تو پنڈولم کی طرح ان دونوں کی طرف گھوم رہی تھی۔جبکہ عالیہ تو سر پکڑ کر ہی بیٹھ گئی۔وہ جو ہر بات میں سے جھگڑنے کے لیے موضوع نکال لیا کرتے تھے،وہ ساتھ کیسے رہتے ہوں گے۔اُف۔
"بس کر جاؤ۔بس کر جاؤ۔یہ ہاتھ ہیں تم لوگوں کے آگے۔"ارسلان نے ہاتھ جوڑ کر جیسے منت کی۔
"میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔یہ ہمیشہ مجھ سے پنگے لیتا ہے۔"
"اوہ۔اللہ بچاۓ۔دیکھو تو سہی،کہہ کون رہا ہے۔"
نہ داور باز آ رہا تھا اور نہ وہ لڑکی۔
"میں آج ہی جا کر بھائی……"
ہانیہ نے فوراً سے جا کر اس لڑکی کے منہ میں اپنا لولی پوپ دیا۔جس کی وجہ سے اس کی چلتی زبان کو بھی تالا لگ گیا۔
لڑکی نے حیران نظروں سے ہانیہ کو دیکھا۔اور ساتھ ساتھ لولی پوپ بھی چوسنا شروع کر دیا۔
"مزے کا ہےنا؟"ہماری محترمہ نے بڑی دلچسپی سے استفسار کیا تھا۔
"کافی مزے کا ہے۔ویسے کون سا فلیور ہے؟"
"پتہ نہیں۔تمہیں کیا لگتا ہے کون سا فلیور ہے؟"
لڑکی نے اندازہ لگانا شروع کیا۔"شاید،کولا؟"
"ہاں۔وہی فلیور ہے۔میرا فیورٹ۔"ہانیہ نے خوشگواریت سے بتایا اور اس کے بعد اپنی نظروں کا رُخ داور کی طرف کیا جس کی نظریں اس لڑکی کو دیے گئے لولی پاپ پر تھیں۔
"میرے پاس ایک اور بھی ہے۔کیا تمہیں بھی دوں۔"ہانیہ نے اس کا جواب سنے بغیر ہی بیگ سے دوسرا لولی پاپ بھی نکال کیا۔
"ن…نہیں۔میں نہیں……"اس سے پہلے کہ داور منع کرتا ہماری محترمہ نے لولی پاپ کا ریپر کھول کر اس کے منہ میں بھی ڈال دیا۔
اب وہ دونوں ہی لولی پاپ چوس رہے تھے۔
"ٹیسٹ تو اچھا ہے ویسے۔"داور نے تعریف کی۔
ارسلان اور عالیہ اپنی جگہ منجمد تھے۔ہماری محترمہ وہ کام کر لیتی تھی جو ان کو بھی نہ آتا ہوتا تھا۔اور اس وقت وہ ان دونوں کو چپ کروانے کا کام کافی اچھے سے انجام دے چکی تھی۔
"ویسے تم نے اپنے بارے میں ابھی تک نہیں بتایا؟"ہانیہ نے اس لڑکی کو مخاطب کیا۔
"اوہ۔سوری۔میرا نام جنت ہے۔جنت احمد خان۔شہریار احمد خان کی چھوٹی اور اکلوتی بہن۔ویسے اس کے لیے شکریہ۔"جنت نے لولی پاپ کی طرف اشارہ کیا۔
"اٹس اوکے۔ایسے تحائف تو میں دیتی رہتی ہوں۔"گردن کڑا کر بتایا گیا۔جبکہ جنت نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔اسے وہ پسند آئی تھی۔
"کون سا ڈپارٹمنٹ ہے تم لوگوں کا؟"اب کہ سوال عالیہ کی طرف سے آیا تھا۔
"بی۔ایس میتھ۔سیکنڈ سمسٹر۔"جواب داور نے دیا تھا۔اس کے بعد لولی پاپ واپس منہ میں ڈال لیا۔
"دونوں؟"ارسلان حیران ہوا۔
"بدقسمتی سے۔بھائی نے یہ کہہ کر ایک ساتھ ایڈمیشن کروایا تھا کہ ہم ایک دوسرے پر نظر رکھیں گے۔اور اسی وجہ سے آج تک میرا کوئی دوست نہیں بنا۔کیونکہ داور،بھائی کو جا کر میری ہر دوست کی شکایت لگا دیتا ہے کہ وہ ایسی ہے اور وہ ایسی۔"
جنت کی بات سن کر ان سب کو تاسف ہوا تھا۔جبکہ داور کو تو آگ لگی تھی آگ۔
"اللہ معاف کرے۔اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔اس کی وجہ سے آج تک میرا کوئی دوست نہیں بنا۔کیونکہ یہ شہریار بھائی کو میرے دوستوں کی شکایت کرتے ہوئے ان پہ الزام دھرتی تھی۔"
"اوہ۔"ان تینوں کو داور کی کہانی سن کر بھی افسوس ہوا تھا۔
"تم لوگ ہماری گینگ میں شامل ہوجاؤ۔"ہانیہ نے مفتی کا مشورہ دیا تھا۔
"سچ میں۔تمہاری گینگ کا لیڈر کون ہے؟"جنت پرجوش دکھائی دیتی تھی۔
"ہماری گینگ کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ہم سب ہی اپنی گینگ کے لیڈر خود ہیں۔"
"اوکے۔میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوں۔"داور کی طرف سے ہاں ہوگئی تھی۔اور اب جنت کیوں پیچھے رہتی۔
"میں بھی تیار ہوں۔"
"اوکے۔تو سب ہاتھ ملاؤ۔"ارسلان نے ہاتھ سامنے پھیلایا۔جس پہ عالیہ نے ہاتھ رکھا،پھر ہانیہ نے،پھر جنت نے اور اس کے بعد آخر میں داور نے۔
"اوکے۔تو ٹیم تیار ہے؟"ارسلان نے روایتی استفسار کیا۔
"تیار ہے۔"ان سب نے ایک ساتھ اونچی آواز میں کہا اور ہاتھ فضا میں بلند کر دیے۔
آس پاس سے جاتے ہوۓ سٹوڈنٹس نے دلچسپی سے انہیں دیکھا تھا۔ان میں سے کچھ تو ان تینوں کو جانتے تھے۔یعنی ان کی شرارتوں سے واقف تھے۔مگر اب ان کی ٹیم میں دو لوگوں کا اضافہ ہوتے دیکھ انہوں نے بس سر جھٹکا تھا۔اب ان کی شامت پکی تھی۔یہ تو طے تھا۔کیونکہ اب خطرہ کافی بڑا ہوچکا تھا۔
اب وہ تین نہیں پانچ ہوگئے تھے۔

آگئی ہے ایک اور
محبت کی داستان
آپ سب کو
دکھانے کے لیے
یہ بتانے کے لیے
کہ جنونیت کا
جو قصہ ہے
وہ ختم نہیں ہوا
جو قصہ ختم ہوتا ہے
تو پھر ایک نیا شروع ہوتا ہے
اور جو شروع ہوا ہے
وہ ہے ارسلان اور عالیہ کا
جنت اور داور کا
شہریار اور عنایہ کا
کہ ختم تو
عاقب اور ہانیہ کا
بھی نہیں ہوا
کہ شروع ہوتا ہے جب
یہ جنونیت کا قصہ
تو پھر سے شروع ہوتا ہے
وہ پچھلا قصہ

جاری ہے۔۔
(باقی آئندہ کل)

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Where stories live. Discover now