"سر نے پھر کیا سزا دی تم دونوں کو۔"ہانیہ محترمہ پوچھ رہی تھیں۔
وہ پانچوں اب گروہ کی شکل میں چل رہے تھے۔پانچوں کے ہی منہ لٹکے ہوۓ تھے۔سر نے کافی ستھری کی تھی ان سب کی۔
"سر نے ہفتے بھر کی اسائمنٹ دو دن میں مکمل کرنے کو کہا ہے۔"عالیہ کو رونا آنے لگا۔یعنی دو دن تک کوئی عیاشی نہیں،کوئی فون کا استعمال نہیں۔
"اوہ۔"ان تینوں کو افسوس ہوا۔
"مجھے یقین ہے میری پیاری سی بہن میری اسائمنٹ مکمل کرنے میں میری مدد کرے گی۔"ارسلان محترم نے ہانیہ کو مسکا لگایا۔جبکہ ہانیہ نے تھوک نگلا۔
"وہ…وہ ارسلان مجھے نا گھر میں بہت کام ہوتے ہیں۔میں کیسے تمہاری مدد کروں گی۔"سراسر بہانہ کیا تھا۔
"کون سے کام؟سارے کام تو ماما کرتی ہیں۔"ارسلان کو جھٹکا ہی تو لگا تھا۔اس کی بات سن کر باقی تین کی بھی کھی کھی شروع ہوچکی تھی۔
"اچھا اچھا…کر دوں گی مدد۔پول تو نہ کھولو میری۔"آخری بات اس نے ذرا جھک کرسرگوشی کرتے کی تھی۔"تمہیں پتا ہے نا پھر عالیہ میری ماما کو بتا دے گی۔اور پھر مجھے ڈانٹ پڑے گی۔"
"سمجھ گیا میں۔"ارسلان محترم کافی ہوشیار تھے۔
جنت نے ان کی باتیں سن لی تھی۔اس نے بمشکل ہی اپنا قہقہہ دبایا تھا۔
جنت درمیان میں چل رہی تھی،جبکہ اس کی دائیں جانب ہانیہ اور پھر ارسلان تھا۔ اور بائیں جانب داور اور عالیہ۔
عالیہ کو فکر ہو رہی تھی کہ وہ دو دن میں اپنی اسائمنٹ مکمل کیسے کرے گی۔اور اسی فکر میں اس کا پاؤں سامنے گھاس پہ پڑے پتھر سے ٹکرایا۔وہ گرنے کو تھی جب داور ہاتھ بڑھ کر اس کی کہنی تھام کر اسے بچایا۔
ارسلان اور جنت کا تو منہ ہی کھل گیا۔ارسلان کے تو تن بدن میں آگ لگ چکی تھی۔جبکہ ہانیہ کے دماغ نے تیزی سے کام کرنا شروع کیا تھا۔اس نے جنت کے پاؤں میں پاؤں اڑسا کر اسے گرانے کی کوشش کی تھی تاکہ سب کی توجہ ان دونوں پہ سے نکلے۔وہ ارسلان کا لال بھبھوتا چہرہ دیکھ چکی تھی۔
لیکن ارسلان جو جذبات میں آ کر تیزی سے ان دونوں کی جانب بڑھا تھا،بےاختیار اس نے جنت کو گرنے سے بچایا۔کیونکہ وہ اس کے اوپر ہی گرنے لگی تھی۔یہ اب اچانک اور بےساختہ ہوا تھا۔اور اب تن بدن میں آگ لگنے کی باری عالیہ اور داور کی تھی۔وہ دونوں اب سیدے کھڑے ہو چکے تھے۔
داور کی تو آنکھیں لال سرخ ہوچکی تھیں۔ناجانے کیوں۔
"تم ٹھیک تو ہو؟"اس نے جنت کی خیرت دریافت کی،کیونکہ اس اچانک افتاد میں اس کا چشمہ گھاس پہ گر چکا تھا۔ارسلان نے جھک کر اس کا چشمہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں۔شکریہ۔"جنت نے پھر سے چشمہ آنکھوں پہ چڑھایا۔
"دیکھ کر نہیں چل سکتی تم؟"داور تیزی سے اس کی کہنی تھام کر اپنی طرف کھینچتے بولا۔گرفت اتنی مضبوت تھی کہ جنت کو اس کی انگلیاں اپنی کلائی میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں۔داور کی آنکھوں میں ناجانے کیوں خون اتر آیا تھا۔ایک پل کو تو جنت بھی سہم گئی۔
"یہ آنکھیں کیوں دکھا رہے ہو مجھے۔میں اندھی ہو کر چلوں یا میگنیفائر لگا کر۔تمہیں مسئلہ۔"وہ ہمت مجتمع کرتی اپنی بھڑاس بھی نکال گئی،جو اسے عالیہ کے قریب دیکھ عود آئی تھی۔
"تمہیں بھی ہانی کی طرح چشمے کی ضرورت ہے کیا،جو دیکھ کر نہیں چل سکتی۔"ارسلان کا بس نہیں چل رہا تھا دو تین چماٹ عالیہ کو لگا دے۔
"مطلب کیا ہے تمہارا؟میری نظر خراب ہوگئی ہے۔"وہ منہ کھولے تعجب سے استفسارکر رہی تھا۔
"ہاں۔"صاف جواب آیا۔
وہ دونوں جوڑیاں آپ میں گتھم گتھا تھیں۔جبکہ ہانی محترمہ پرسوچ سی خیالوں میں گم حساب لگا رہی تھی۔
"عالیہ اور ارسلان،جنت اور داور……شادی؟……نہیں نہیں۔داور اور عالیہ،جنت اور ارسلان……ہاں شادی۔اب شادی۔"ہانیہ انگلیوں پہ گنتے ہوۓ جیسے ریاضی کا کوئی سوال حل کر رہی تھی جو کہ اب حل ہوچکا تھا۔اس کے دماغ میں جھماکہ ہوا تھا۔
"آئیڈیا۔"ہانیہ نے چٹکی بجا کر چمکتی آنکھوں سے خود کو مخاطب کیا۔"ایسے نہیں تو ویسے ہی سہی۔"
شادی کے بعد تو ہماری محترمہ کی دماغ کی مشینیں کافی تیز ہوگئیں تھیں۔بڑی سپیڈ سے چلتی تھیں اب تو۔
۞…۞…۞
"کیااااا؟"عاقب کافی شاکڈ ہوا تھا۔وہ صوفے پہ ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا اور ہانیہ اس کے سامنے۔پھر ہانیہ کی بات پہ وہ شاکڈ ہوتا تھوڑا آگے کو ہوا۔
"تھوڑا آہستہ بولیں۔ارسلان سن لے گا۔"ہانیہ دبی آواز میں بولی۔عاقب تھوڑی دیر پہلے ہی ان دونوں کو یونیورسٹی سے آف کے بعد گھر لے کر آیا تھا۔کمرے میں آتے ہی عاقب نے کوٹ اتارا تھا اور تھوڑی دیر آرام کرنے کو صوفے پہ بیٹھا ہی تھا کہ ہانیہ اچھی بیویوں کی طرح اس کے لیے پانی لیے حاضر ہوئی تھی اور خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
پھر اس نے عاقب کو آج کی روداد کے ساتھ اپنا پلان بھی بتایا۔
"ہانی تم ابھی بچی ہو۔اور یہ کیا لوجکس لگانے بیٹھ گئی ہو۔"عاقب کو اس کی سوچ نے کافی حیران کیا تھا۔
"ہاں اور اس بچی سے آپ نے شادی بھی کر لی ہے۔"وہ تپ اٹھی۔
"دیکھو۔تمہاری میری بات اور ہے۔وہ سب ابھی بچے ہیں۔"عاقب نے اسے سمجھانا چاہا۔
"بچے نہیں ہیں الوّ کے پٹھے ہیں(عاقب نے اسے گھورا)اچھا ایسے تو نہ دیکھیں۔میں تو بس کسی کا بھلا کرنا چاہتی تھی۔میں تو بس ساری الٹی لکیریں سیدھی کرنا چاہتی ہوں۔میں تو بس کسی کے لیے مسیحا بننا چاہتی تھی۔میں تو بس یہی چاہتی تھی کہ لڑتے جھگڑتے لوگوں کے درمیان صلح ہوجاۓ۔محبت تو بس بہانہ ہے۔"آخر میں کافی جذباتی ہونے کی اداکاری کی گئی تھی۔اور وہ جو اس کی اداکاری سے واقف تھا اس کے سامنے صوفے سے اٹھ کر اس کے قریب بیٹھ چکا تھا۔ہونٹوں پہ دبی سے مسکان تھی اور آنکھوں میں شرارت۔
"پہلے ہم دونوں کے درمیان تو محبت کا بیج بو دیں آپ۔"وہ ذرا سا جھک کر مخمور لہجے میں اس کے کان کے قریب سرگوشی کر رہا تھا۔ہانیہ کی تو ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔اس نے گرمی کی وجہ سے تھوڑی دیر پہلے ہی اپنا ہجاب ڈھیلا کیا تھا۔غلطی کر دی تھی۔وہ اب ذرا کو جھک کر اس کے کان کی لو چوم رہا تھا۔ہانیہ کا تو جسم ہی کانپ کر رہ گیا۔وہ ہمیشہ اس کی قربت میں گھبرا جایا کرتی تھی۔
"بھائی اور ہانی آپ دونوں کو ماما نیچے کھانے……"
ارسلان کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔دروازہ ناک کرنے کی آج پھر سے توفیق نہیں کی گئی تھی۔
لیکن سامنے کا منظر دیکھ تو مانو گلا ہی خشک ہوگیا۔عاقب فوراً پیچھے ہٹا تھا۔ہانیہ بھی گڑبڑا کر کھڑی ہوچکی تھی۔
"میں نے کچھ نہیں دیکھا۔قسم سے کچھ بھی نہیں دیکھا۔"ارسلان نے بادل نخواستہ سر نفی میں ہلاتے کہا۔عاقب کی گھوری پہ اس نے اپنا گلا تر کیا تھا۔عاقب اشتعال سے اس کی جانب بڑھا تھا۔
"اللہ پاک کی قسم میں آج سے دروازہ ناک کر کے آؤں گا۔"
عاقب اس کے قریب آتا جارہا تھا اور وہ پیچھے ہوتا جارہا تھا۔
وہ دروازے سے ایک قدم ہی باہر نکلا تھا جب عاقب نے زور سے دروازہ بند کیا۔دروازہ بند ہونے کی آواز اتنی ضرور تھی کہ ہانیہ بھی کانپ گئی۔
ارسلان کا تو جسم ہی لرز گیا۔
"ہاہ۔بچ گیا تو ارسلان۔ورنہ بھائی کی شادی سے پہلے تو تھپڑ کھاتا ہی رہتا تھا تو۔شکر ہے ہانی آگئی اس کے سامنے ہی تھوڑی عزت رکھ لیتے ہیں۔"وہ خود سے ہی مخاطب تھا۔
اسے بےساختہ وہ دن یاد آیا جب عاقب کی شادی سے پہلے وہ ایک دفعہ عاقب کی اجازت کے بغیر اس کے کمرے میں گھس گیا تھا وہ بھی گنگناتے ہوۓ۔تب عاقب سے اس کا ایک زبردست تصادم ہوا تھا۔جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں موجود لیپ ٹاپ دھڑام کی آواز سے نیچے گر گیا تھا۔جس کی وجہ سے لیپ ٹاپ کی سکرین چکنا چور ہوچکی تھی۔تب عاقب نے اسے اتنی زور کا تھپڑ مارا تھا کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے تھے۔
وہ دن یاد کر کے بےاختیار وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھ گیا۔
"یا اللہ تیرا شکر ہے۔بچا لیا تو نے۔"اس نے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر شکر ادا کیا۔"پچھلے تھپڑ پہ تو دودن کالج نہیں گیا تھا میں۔ورنہ کالج کے لڑکے مذاق اڑاتے میرا۔نشان ہی اتنا بڑا تھا۔"
خود سے ہی باتیں کرتا وہ نیچے کی جانب چل پڑا۔
"ہانیہ اور عاقب نہیں آۓ تمہارے ساتھ۔"ثمینہ بیگم پوچھ رہی تھیں۔
ارسلان نے ایک نظر سیڑھیوں کی جانب دیکھا پھر ان کے کان میں جھک کر کچھ کہا۔
ثمینہ بیگم نے اپنے دائیں ہاتھ کا تھپڑ ارسلان کے منہ پہ جڑا۔ارسلان گال پہ ہاتھ رکھے،منہ کھولے ہونق بنا انہیں دیکھنے لگا۔وہ اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہیں تھا۔
"بدتمیز۔کسی کے کمرے میں ناک کر کے جایا جاتا ہے۔خاص کر کے میاں بیوی کے کمرے میں۔اور اگر دیکھ ہی لیا تھا تو منہ پھاڑ کر مجھے بتانے کی کیا ضرورت تھی بےشرم۔مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی ارسلان۔"ارسلان کی اچھی خاصی عزت افزائی کرنے کے بعد وہ کچن میں گھس گئیں۔
"اللہ اللہ۔چغلی کرنے کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔"وہ منہ پہ ہاتھ رکھے ایک بار پھر اللہ سے مخاطب تھا۔
اس نے ڈائننگ کے سامنے لگے آئینے میں اچھے سے اپنے گال کی چھان بھی،پھر شکر کا سانس خارج کیا۔
"شکر ہے ماما کا ہاتھ بھاری نہیں ہے عاقب بھائی کی طرح۔ورنہ اچھا خاصا نشان پڑ جاتا۔"آئینے میں عاقب کا چہرہ ابھرا تو اس نے جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔اور یہ پڑا ارسلان کو آج کا دوسرا تھپڑ۔
"یہ تمہارے کمرہ ناک نہ کرنے کے لیے۔"وہ کہہ کر مڑ گیا۔اور ارسلان تو سناٹے میں ہی کھڑا رہ گیا۔
اس نے سیڑھیوں کی جانب دیکھا جہاں ہانیہ کھڑی تھی۔یعنی اس نے دیکھ لیا تھا۔وہ دوڑتی ہوئی ارسلان کے پاس آئی تھی۔
"میں نے قسم سے کچھ نہیں دیکھا ارسلان۔"وہ آہستہ آواز میں کہتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔
"ہاہ۔ہانی نے دیکھ لیا۔اب میری عزت۔"وہ صدمے سے قریب پڑی ڈائیننگ ٹیبل کی چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"اوہ نو۔اب وہ سمجھے گی میں چھوٹا بچہ ہوں۔"اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔
"آہم آہم۔"منظور علی شاہ نے اس کی حالت دیکھی اور کھنکھار کر اسے مخاطب کیا۔وہ بھی ڈئیننگ چیئر کھینچ کر بیٹھ رہے تھے۔
ارسلان نے چہرہ اٹھا کر دیکھا۔
منظور صاحب تھوڑا سا آگے کو جھکے پھر سرگوشی نما انداز میں بولے۔
"ارسلان!…میں نے بھی کچھ نہیں دیکھا قسم سے۔"وہ کہہ رہے تھے اور ارسلان کا دل کیا وہ چھت سے چھلانگ لگا دے۔
"اوہ نو۔یعنی سب نے دیکھ لیا۔"وہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر،انگلیوں میں تھوڑا فاصلہ رکھ کے،ہاتھوں کے پیچھے سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"کیا دیکھا لیا؟"اب عاقب بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ رہا تھا۔
منظور علی شاہ پھر سے اسی انداز میں جھکے اور سرگوشی نما آواز میں بولے۔
"یہی کہ اس کی ماما اور بڑے بھائی نے اسے تھپڑ مارا۔"
عاقب نے ارسلان کو دیکھا جو اب صدمے سے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔انہوں نے تو پہلے والا تھپڑ بھی دیکھ لیا۔اور تو اور اب اسے مشہور کر رہے تھے۔
ارسلان فوراً سے کرسی پہ سے اٹھا۔
"میں اب کسی سے بھی بات نہیں کروں گا۔"وہ ناراضگی جتاتا وہاں سے چلا گیا۔
عاقب کو ندامت نے آن گھیرا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ ارسلان پہلے بھی ایک تھپڑ کھا چکا ہے۔
وہ بھی کرسی پہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں ابھی آیا۔"منظور صاحب سے کہتا وہ ارسلان کے پیچھے چلا گیا۔اگر ارسلان ناراضگی میں کھانا نہیں کھاتا تھا تو ہضم اسے بھی نہیں ہوتا تھا۔اسے اب اسے منانا تھا۔
منظور صاحب مسکرا دیے۔وہ جانتے تھے اپنے بیٹوں کو۔وہ دونوں بھائی ہی ایسے تھے۔ایک ڈانٹنے کا حق تھا تو دوسرے کو ناراض ہونے کا۔مگر ایک دوسرے کی منوانا دونوں کو ہی آتا تھا۔
"عاقب اور ارسلان کہاں گئے؟"ثمینہ بیگم اور ہانیہ کھانے کے ڈونگے اٹھاۓ کچن سے باہر آۓ تو ان دونوں کی موجود گی نہ پاکر پوچھا۔
"وہی تھپڑ تھپڑ کھیل رہے ہیں۔"کہہ کر وہ ہنسے تھے۔ہانیہ اور ثمینہ بیگم کا قہقہہ بھی ماحول پہ چھا گیا۔
۞……۞……۞
جاری ہے۔
(باقی آئندہ کل)
ESTÁS LEYENDO
جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)
Humorمیرا پہلا ناول جنونیت ہے یہی'جس کو آپ سب کے پیار اور محبت نے مجھے آگے بڑھانے کا موقع دیا ہے۔اس وجہ سے میں نے سیزن 2 لکھنے کے بارے میں سوچا۔اب ہم ہانیہ عثمان اور عاقب علی شاہ کی کہانی کے ساتھ ساتھ ارسلان علی شاہ کی کہانی کو بھی مکمل کریں گے۔لیکن یاد...