episode 15

109 12 1
                                    

ارسلان اور عالیہ جب گھر کے اندر داخپ ہوۓ تو سامنے ہی داور اور جنت دیوار کی اوٹ میں چھپے لاؤنج میں جھانک رہے تھے۔ان دونوں کی پشت ارسلان اور عالیہ کی جانب تھی۔
داخلی دروازے کے آگے راہداری تھی۔جس کے آگے جا کر بائیں جانب ایک سٹیپ اتر کر لاؤنج تھا۔جبکہ دائیں جانب کمروں کی قطار تھی۔
ارسلان اور عالیہ تو داور اور جنت کو دیکھ کر ہڑبڑا ہی گئے۔اس لیے دبے قدم ہو کر راہداری کی دائیں جانب موجود کمرے میں داخل ہو گئے اور دروازے کی اوٹ سے سامنے کا منظر دیکھنے لگے۔
"ماموں شیری بھائی سے یہ بھی تو پوچھیں کہ ان کے گھر میں لوگ کتنے ہیں۔"ہانیہ نے جلدی سے ٹہوکا دیا۔
شہریار سمیت عاقب نے بھی مشکوک سا ہو کر ہانیہ کو دیکھا۔جبکہ باقی سب مسکرا اٹھے تھے۔
"ہاں بیٹا!…کتنے افراد ہے تمہارے گھر میں۔"ارشد صاحب نے مبہم سی مسکراہٹ لیے پوچھا تھا۔کیونکہ ہانیہ ان کو سوال دینے کے بعد اب گردن کڑاۓ ایسے بیٹھی تھی جیسے نانگا پربت سر کر لی ہو۔
"جی…میرے گھر میں ہم تین افراد ہیں۔بابا اور ماما کی ڈیتھ میرے بچپن میں ہی ہوگئی تھی(سب نے افسوس کا تاثر دیا)اور چاچو کی ڈھائی ماہ پہلے ہوچکی ہے(اناللہ وان الہی راجون)۔چاچو کا ایک بیٹا ہے اور میری بہن،ہم تین افراد ہی ہیں بس گھر میں۔چاچی کا انتقال بھی میرے بچن میں ہوگیا تھا۔چاچو نے ہی پالا ہے ہمیں۔"شہریار نے وضاحت دی۔سب نے ہی بہت افسوس کیا۔
داور اور جنت بھی اپنے ماں باپ کے ذکر پہ کافی افسردہ ہوگئے تھے۔جنت کی آنکھوں میں تو موٹے موٹے آنسو بھی آچکے تھے۔داور کی نظر جیسے ہی جنت پہ پڑی ایک چپت اس کے سر پہ رسید کی۔
"ابھی رونے کا وقت نہیں ہے ڈفر۔"
"تم کبھی بھی مجھے نہیں سمجھو گے داور!…"وہ دل گرفتگی سے کہتی داور کا بھی دل دھڑکا گئی۔
"اور تمہاری بہن اور کزن؟…وہ نہیں آۓ؟"رافعہ بیگم نے استفسار کیا۔
"جی وہ۔اس وقت یونی میں ہوتے ہیں،دراصل……"
اس سے پہلے کہ شہریار کچھ کہتا داور چونک گیا اور جلدی سے جنت کی کلائی کو تھامتے دیوار کی اوٹ سے نکل کر لاؤنج میں داخل ہوا۔
"ہم آگئے شہریار بھائی۔"
جنت تو اس کے اچانک کھینچنے پہ ہڑبڑا گئی تھی۔وہ کنفیوزڈ ہوگئی تھی ان سب کی نظریں اپنے اوپر دیکھ کر۔
شہریار کا تو صدمے سے برا حال تھا۔عاقب جو پلیٹ سے کباب اٹھا کر منہ میں ڈالنے لگا تھا اس کا منہ تک جاتا ہاتھ وہیں رک گیا۔
شہریار کو اپنے اوپر آسمان اور پہاڑ دونوں ایک ساتھ گرتے محسوس ہوۓ تھے۔اس کے تو تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ وہ دونوں اچانک ہی پہنچ جائیں گے۔
عاقب نے ایک نظر شہریار کے سپاٹ چہرے کو دیکھا اور کباب واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔
ہانیہ نے مسکرا کر ہونٹ بھینجے داور اور جنت کو دیکھا پھر ٹیڑھی آنکھیں کرکے شہریار اور عاقب کو۔وہ جانتی تھی یہاں سے جانے کے بعد اس کی اچھی خاصی کلاس لی جاۓ گی۔
"ارے،آؤ آؤ بیٹا۔"رافعہ بیگم فوراً سے ان کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
"یہاں بیٹھو۔"انہوں نے بہت تہذیب کے ساتھ انہیں ایل شیپ صوفے پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا جہاں ہانیہ بیٹھی تھی۔
داور اور جنت بےتکلفی سے بیٹھ گئے۔جنت ہانیہ کی دائیں جانب اور داور جنت کی دائیں جانب بیٹھ چکا تھا۔
شہریار نے صدمے سے عاقب کو دیکھا،عاقب نے کندھے اچکا دیے۔جیسے کہہ رہا ہو 'میں نے کچھ نہیں کیا'
اب کہ شہریار نے ہانیہ کو دیکھا جو کہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھاۓ بیٹھی تھی۔دونوں کی نظروں کا تبادلہ ہوا تو ہانیہ نے نہایت ہی معصومیت کے ساتھ کندھے اچکا دیے۔
اور شہریار جان چکا تھا سارا کیا دھرا اسی 'معصومیت' کا ہے۔
"وہ دراصل ہم یونی میں تھے،شہریار بھائی نے کہا تھا کہ سیدھا یونی سے یہیں پہنچ جانا۔"داور نے بتایا تو سب لوگوں نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
"وہ ہم دونوں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے گھر شہریار بھائی کے لیے عنایہ کا رشتہ لینے آۓ ہیں۔"داور نے بغیر کسی تمہید کے کہہ دیا۔اور شہریار کا دل کیا داور اور جنت سمیت ہانیہ کو بھی باہر پھینک دے جو کہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھاۓ مزے سے بیٹھی تھی۔
رافعہ بیگم اور ارشد صاحب کو منظور صاحب پہلے ہی ان کے آنے کی وجہ بتا چکے تھے اس لیے سب ہی ہنس دیے۔وہ دو چھوٹے چھوٹے سے پرزے ایسی بات کرتے ہوۓ بڑے ہی پیارے لگ رہے تھے۔
"ہم سیریس ہیں۔"ان سب کو ہنستے دیکھ داور بولا۔جبت تو بس سر ہلانے کا کام کر رہی تھی۔
"ہم نے کب کہا نہیں ہو۔"ارشد صاحب نے شہریار کو دیکھا اس کے بعد داور کو دیکھ کر مسکراہٹ دبا کر گویا ہوۓ۔شہریار زبردستی مسکرایا تھا۔اسے لگ رہا تھا وہ دونوں کام خراب کر کے ہی جائیں گے۔
"آپ سب کو لگ رہا ہو گا کہ ہم چھوٹے ہیں۔لیکن ہم زیادہ چھوٹے نہیں ہیں۔بیس سال کے ہونے والے ہیں بس۔"فخر سے بتایا گیا۔اور اس بار سب کا قہقہہ گونجا تھا۔
"ناک کٹوائیں گے یہ دونوں میری۔"شہریار بڑبڑایا۔عاقب اس کی بڑبڑاہٹ صاف سن چکا تھا۔
"تمہاری ناک ہے؟دکھاؤ ذرا۔"عاقب نے جانچنے والے انداز میں اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔شہریار نے اسے گھورا۔
"اوہ!…پہلے سے ہی کٹی ہوئی ہے۔"عاقب نے تاسف کا اظہار کیا۔شہریار کا جی چاہا اپنا ہی منہ نوچ لے۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں۔ہم دونوں بیس کے ہونے والے ہیں۔"داور کو لگا وہ سب اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
"ہمیں یقین ہے بیٹا۔"رافعہ بیگم ہنسی کے درمیان بولیں۔
"وہ…تو میں کہہ رہا تھا کہ…"داور اب کہ تھوڑا ہچکچایا تھا۔
"کیا بیٹا؟"ان سب نے اس کی ہچکچاہٹ کو محسوس کرتے پوچھا۔
"تو کیا ہم رشتہ پکا سمجھیں؟"اب کہ داود سیدھا سیدھا بول گیا۔شہریار کا جی چاہا شرم سے ڈوب مرے۔
سارے لوگ یک دم سے سنجیدہ ہو گئے۔
جنت نے ان سب کے تاثرات دیکھ کر اپنا تھوک نگلا۔
"ہم ایک دفعہ سب سے مشورہ کر لیں پھر آپ کو بتاتے ہیں۔دراصل عنایہ ابھی بہت چھوٹی ہے نا۔"ارشد صاحب نے وضاحت کی۔
شہریار کا دل تھا کہ بہت تیزی سے دھڑکنے لگا۔
"تو اس میں کیا ہے۔میں پوری ایکسپلینیشن ساتھ لے کر آیا ہوں۔میری بات غور سے سنیں۔"داور نے بولنا شروع کیا۔شہریار کو تو کوئی کسی کھاتے میں ہی نہیں لے رہا تھا۔
"ابھی آپ کی بیٹی سترہ سال کی ہے(ہانیہ نے بتایا تھا)ہم ابھی صرف نکاح کر دیں گے۔اور…اور پانچ سال بعد رخصتی۔"داور نے کہہ کر ان سب کے تاثرات دیکھے۔جو کہ سوچ میں ڈوب چکے تھے۔
'اللہ!…جب میں بڈھا ہو جاؤں گا تب کروائیں گے رخصتی؟'شہریار سوچ رہا تھا۔
"ہمیں سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔اور ابھی تم دونوں بھی تو بڑے ہو گئے ہو تقریباً۔تم دونوں کے بارے میں بھی تو شہریار نے کچھ سوچ رکھا ہوگا۔"ارشد صاحب گویا ہوۓ۔
"ارے انکل!…ہمارے بارے میں تو شہریار بھائی نے سات سال پہلے ہی سوچ لیا تھا۔"جنت کو پتہ تھا کہ آگے وہ کیا بھونکنے والا ہے اس لیے اسے چونٹیاں کاٹ کاٹ کر چپ رہنے کی تاکید کرنے لگی لیکن داور نے کوئی اثر نہ لیا۔
سب نے ناسمجھی سے ان دونوں کو دیکھا۔
"ارے ہمارا نکاح تو بچپن میں ہی کر دیا تھا۔"داور نے ان سب پہ بجلیاں ہی تو گرائیں تھیں۔
"کس کے ساتھ؟"سب سے زیادہ بڑا جھٹکا تو ہماری محترمہ کو لگا تھا۔
ارسلان اور عالیہ جو ہونقوں کی طرح سامنے کا منظر تاک رہے تھے صدمے سے نیچے گرنے والے ہوگئے۔
"ارے ایک دوسرے کے ساتھ۔"داود نے بتایا تو جنت کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں دفن ہو جاۓ۔
عاقب نے اچنبھے سے ان دونوں کو اور پھر شہریار کو دیکھا جو کہ اپنی جگہ بلکل سپاٹ بیٹھا تھا۔
سب نے ہی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
ارسلان اور عالیہ جلدی جلدی سے دبے قدم ہو کر کمرے سے نکلے اور دیوار کی اوٹ میں چھپ گئے جہاں پہ پہلے داور اور جنت کھڑے تھے۔
"عالیہ یہ تو ہم سب سے بھی دو قدم آگے نکلے۔"ارسلان صدمے کی پہلی ٹرین میں بیٹھ کر نکل گیا تھا۔
"ٹھیک کہا ارسلان۔جتنا یہ لڑتے ہیں میں تو یہ سوچ رہی ہوں فیوچر میں اپنا گزارا کیسے کریں گے یہ دونوں۔"عالیہ نے بھی تبصرہ کیا۔
"اپنے بچے بھی یہ دونوں لڑتے لڑتے ہی پیدا کریں گے۔"ارسلان نے کہا تو اب کہ عالیہ نے اسے گھورا تھا۔
"تم دونوں ایک دوسرے سے نکاح کیسے کر سکتے ہو؟"ہانیہ سکتے کی حالت میں بولی تو سب نے اسے گھورا۔
"میرا مطلب ہے کہ اتنی(دو انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا)اتنی سی عمر میں نکاح کر لیا تم لوگوں نے۔"سب کی گھوریوں کی ہانیہ نے وضاحت کی۔
"ہاں نا…کر لیا نکاح۔"داور نے ایسے کہا جیسے کوئی عام سی بات ہو۔جنت تو شرم سے سر جھکاۓ بیٹھی تھی۔
"تو اب تو آپ سب کو شہریار بھائی پہ بھی ترس کھانا چاہیے،اس لیے کہتا ہوں نکاح کر دیتے ہیں ان کا۔میں اور جنت بہت خوش رکھیں گے عنایہ کو۔لیکن شہریار بھائی کی گرانٹی میں نہیں دیتا۔آپ ان سے ہی لے لیں ان کی گرانٹی۔"داور صاف لفظوں میں کہہ گیا۔
'اللہ اللہ!…کتنا بےشرم بیٹا پیدا کیا ہے چاچو نے'جنت تو سر بھی اٹھا نہیں پا رہی تھی۔
"داور!…"شہریار کی آواز میں تنبیہ تھی۔
"چلیں چھوڑیں شہریار بھائی کو۔ان کی گرانٹی بھی میں ہی دے دیتا ہوں۔اب آپ سب یہ نہ کہیں کہ ہمیں مشورہ کرنے دیں کیونکہ آپ سب بھی یہیں ہیں اور ہم سب بھی۔ابھی مشورہ کر لیں کیونکہ ہم آج جواب لے کر ہی جائیں گے۔"شہریار کی تنبیہ کا کوئی اثر لیے بغیر وہ دو ٹوک بولا۔
ان سب کو سش و پنج میں مبتلا دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے گویا ہوا۔
"دیکھیں میں جواب 'ہاں'  میں ہی لے کر جاؤں گا۔کیونکہ انگوٹھی میں ساتھ لایا ہوں۔"داور نے جلدی سے انگوٹھی ان کے سامنے کی۔ان سب سے زیادہ دھچکا تو جنت اور شہریار کو لگا تھا۔
جنت نے بادل نخواستہ اپنے دائیں ہاتھ کو دیکھا جہاں سے اس کی سونے کی انگوٹھی غائب تھی جو کہ شہریار نے ہی اسے دی تھی۔
جنت کا دل چاہا ان سب کا لحاظ کیے بغیر داور کا سر پھاڑ دے۔
'چور،ڈاکو،بدتمیز،بدلحاظ…' جنت جتنے بھی القابات سے داور کو نواز سکتی تھی نواز رہی تھی۔
"اگر آپ کو شہریار یا ہمارے بارے میں کوئی چھان بین کروانی ہے تو منظور انکل سامنے بیٹھے ہیں۔ان سے پوچھ لیں۔چاچو سے دشمنی کے علاوہ ان کا تعلق اچھا خاصا سیٹ تھا ہمارے ساتھ۔"داور کی زبان کی بریکس فیل ہو چکی تھیں۔سب پریشان نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔شہریار کا تو منہ ہی جام ہوچکا تھا۔
"ارے!…اگر آپ کو اس بات کی فکر ہے کہ انگوٹھی کی ڈبی کہاں ہے تو میں پہلے ہی وضاحت دے دیتا ہوں،یہ سارا کیا دھرا جنت کا ہے(جنت کی طرف اشارہ کیا)اس نے راستے میں آتے ہوۓ گرا دی۔اس سے پوچھیں شہریار بھائی کہ اس نے ڈبی کیوں گرائی؟"
جنت کو تو بس ہرٹ اٹیک ہوتے ہوۓ بچا تھا۔وہ تو شاکڈ سے داور کو دیکھنے میں محو تھی بس۔
اور شہریار بھی کیا کہتا،اسے معلوم تھا کہ وہ انگوٹھی جنت کی ہے۔وہ خود لایا تھا وہ کیسے بھول سکتا تھا۔
"وہ تو ٹھیک ہے بیٹا لیکن ایک دفعہ عنایہ سے تو پوچھ لیں۔"ان سب لوگوں میں سے رافعہ بیگم نے بولنے کی ہمت کی تھی۔ورنہ داور کی پٹر پٹر چلتی زبان کے آگے تو ہانیہ بھی منہ کھولے بیٹھی تھی۔
"ارے پوچھ آئیں نا آپ۔ہم بہت سارا ویٹ کرسکتے ہیں۔اور آنٹی اس زمانے میں لڑکیوں کے اچھے رشتے کہاں ملتے ہیں اس لیے سوچیں۔"داور تو سوچ کر ہی آیا تھا کہ شہریار کا جب تک ایک گھونسا نہیں پڑے گا وہ خاموش ہونے کا نام ہی نہیں لے گا۔
"داور ٹھیک کہہ رہا ہے مامی!…دیکھیں تو سہی شیری بھائی کتنے امیر ہیں۔اوپر سے اتنے اچھے بھی ہیں،ہینڈسم بھی ہیں،عاقب کے کلاس فیلو بھی تھے۔اور مزے کی بات ساس اور سسر بھی نہیں ہیں۔"ہانیہ نے جب بھی منہ کھولا تھا اول فول ہی بکا تھا۔منظور صاحب اور ثمینہ بیگم نے اچنبھے سے ہانیہ کو دیکھا تھا جبکہ باقی سب کے ہونٹوں پہ دبی دبی سی مسکراہٹ آ گئی تھی۔
"بب…بب…بب…میرا مطلب ہے کہ…کہ ہر کوئی اب میرے ساس سسر کی طرح تھوڑی ہوتا ہے،پیارے،خوبصورت بہت اچھے اور مجھ سے پیار کرنے والے۔"ہانیہ نے ہڑبڑا کر وضاحت کی۔یہ بات دل سے کہی گئی تھی۔اب کہ ثمینہ بیگم اور منظور صاحب بھی مسکرا اٹھے تھے۔
'میری تو کبھی بھی اتنی تعریف نہیں کی محترمہ نے جتنی اپنے اس منہ بولے بھائی کی کر دی ہے' عاقب نے کڑھ کے سوچا۔
"ٹھیک ہے۔پھر ہم عنایہ سے مشورہ کر کے ابھی آتے ہیں۔"ارشد صاحب نے اٹھتے ہوۓ کہا اور پھر رافعہ بیگم کو اشارہ کیا جو کہ سر اثبات میں ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔وہ دونوں وہاں سے جا چکے تھے۔
"چلو!…اب ہماری اینٹری کی باری۔"ارسلان نے عالیہ سے کہا عالیہ اس پہلے کے اٹھتی اس کا سر زور سے ارسلان کے سر سے ٹکرایا۔اس اچانک افتاد پہ عالیہ کا سر گھوما اور وہ لڑھکتی لڑھکتی لاؤنج میں گر گئی۔ارسلان نے صدمے سے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
سب کی نظریں سامنے گئی اور ساکت ہوگئیں۔
عالیہ پنجوں کے بل بمشکل اٹھنے لگی تو زلفوں نے اس کے چہرے پہ گھیرا بنا لیا۔
"آہ…چڑیل!…"سب سے پہلے ہمارے محترمہ کی چیخ بلند ہوئی تھی۔اس کے پیچھے پیچھے جنت کی۔
"آہ!…آہ!…چڑیل۔"جنت اور ہانیہ جوتے سمیت ہی خوف سے صوفے پہ چڑھ گئی تھیں۔
ارسلان صدمے سے نکل کر جلدی سے آگے بڑھا اور عالیہ کو اٹھنے میں مدد کرنے لگا۔
جنت اور ہانیہ جو خوف کے ساتھ صوفے پہ اچھل کود کر رہی تھیں(اچھا موقع تھا انجوائمنٹ کا)ارسلان کو دیکھ کر اپنی جگہ منجمد ہو گئیں۔
منظور صاحب اور عاقب تو اپنی جگہ سے ہی اٹھ کھڑے ہوۓ۔ثمینہ بیگم جلدی سے دوڑتے ہوۓ ان دونوں کے پاس گئی تھیں۔
اس سب میں جو اپنی جگہ آرام سے بیٹھا تھا وہ صرف داور تھا۔
"اللہ!……تم یہاں کیا کر رہے ہو ارسلان۔اور یہ کس لڑکی کو اٹھا کر لے آۓ ہو۔"ثمینہ بیگم غصے سے ارسلان پہ چڑھ دوڑیں جو کہ اب عالیہ کو سہارا دے کر کھڑا کر چکا تھا۔
عالیہ کی زلفیں ابھی بھی اس کے چہرے کے آگے آئی ہوئی تھیں۔
"ماما!…یہ عالیہ ہے۔"ارسلان نے بتایا۔
سب نے شاکڈ سے ایک بار پھر عالیہ کو دیکھا۔عالیہ نے اپنے چہرے کے آگے سے زلفیں ہٹائیں تو اب کہ اس کی صورت واضح ہوئی تھی۔
ہانیہ اور جنت کا ماحول کو چیرتا ہوا ایک قہقہہ بلند ہوا تھا۔
باقی سب کی بھی ہنسی نکل گئی۔ثمینہ بیگم نے بمشکل اپنے قہقہے کو روکا تھا۔اسی چکر میں ان کا منہ لال سرخ ہوگیا۔
"تم دونوں سے بھی رہا نہیں گیا۔ہےنا؟"عاقب نے ابرو اچکا کر طنز ہوا میں اچھالا۔
"مجھے تو یہ ارسلان لے کر آیا ہے۔"عالیہ نے سارا الزام ہی ارسلان پہ دھر دیا۔
"میں لایا ہوں؟"ارسلان نے اپنی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
"ہاں ہاں۔یہ کہہ رہا تھا کہ ہانی نے داور اور جنت کو بتا دیا ہے کہ شہریار بھائی عنایہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں،اور اب وہ سب رشتہ مانگنے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔"
ہانیہ کی ہنسی کو ایک دم سے بریک لگی تھی۔ہانیہ نے تھوک نگلا اور پھر نظر شہریار اور عاقب کی طرف گھومائی جو کہ ابرو اچکا کر اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
"جھوٹ بولتے ہیں یہ۔آپ کو مجھ پہ نہیں یقین۔ہانی پہ نہیں یقین؟"ہانیہ جذباتی ہو کر بولی۔
"نہیں۔"صاف جواب آیا۔ہانیہ کا منہ لٹک گیا۔
"اچھا سوری۔"
"بیچاری ہانیہ کو نہ گھسیٹیں۔پہلے آپ ہمیں جواب دیں۔"داور اور جنت اب شہریار کے سامنے کھڑے اس کی خبر لے رہے تھے۔
"سارا قصور اس عاقب کا ہے۔اس نے ہی مجھے منع کیا تھا کہ تم دونوں چھوٹے ہو اس لیے تم دونوں کو بتانا مناسب نہیں۔"شہریار نے بھی سارا الزام عاقب پہ دھر دیا جس نے ایک زور داور مکا اس کی کمر پہ رسید کیا تھا۔
"جھوٹے انسان!…میں نے کب کہا؟"وہ عاقب تھا۔چپ نہیں رہتا تھا۔اور شہریار کو جواب تو وہ ہمیشہ ہاتھوں سے ہی دیتا آیا تھا۔

۞……۞……۞
جاری ہے۔۔۔

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora