episode 8

119 11 2
                                    

عاقب ابھی ارسلان کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ارسلان ناراضگی سے منہ پھلاۓ بیڈ پہ بیٹھا۔ٹانگیں چوکڑی انداز میں کیے،تکیہ گود میں رکھے اسے سختی سے بھینجے ہوا تھا۔
عاقب کو دیکھ کر فوراً سے منہ پھیر لیا گیا۔
عاقب چلتا ہوا اس کے بیڈ  تک آیا اور اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔پاؤں زمین پہ ہی تھے۔
کچھ دیر خاموشی کی نذر ہوۓ پھر عاقب نے بولنا شروع کیا۔
"کوئی کہہ رہا تھا کہ اسے نئی گاڑی چاہیے۔"
ارسلان کے کان فوراً سے کھڑے ہوگئے۔مگر اس وقت وہ تھوڑی منتیں کروانا چاہتا تھا عاقب سے اسی ہنوز اسی طرح بیٹھا رہا۔عاقب نے کنکھیوں سے اسے دیکھا اور ہھر مسکراہٹ دبائی۔
"ارسلان!…"عاقب نے نرمی سے ارسلان کو مخاطب کیا۔
"ارسلان!"اب کہ پیار سے مخاطب کیا گیا تھا۔
"ارسلان!"اب کہ عاقب دھاڑا تو ارسلان اپنی جگہ سے اچھلا۔
"جی بھائی۔"ارسلان خوف سے اپنے دونوں گالوں پہ ہاتھ رکھ گیا کہ کہیں دوسرا تھپڑ ہی نا مار دے عاقب۔اسے یوں دیکھ عاقب پھر سے نرم پڑا۔
عاقب نے نرمی سے ارسلان کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
"ناراض ہو مجھ سے؟"وہ شاید پوچھ رہا تھا۔
"جی۔کیونکہ آج میں نے دو تھپڑ کھائیں ہیں۔"ارسلان کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھی جگمگانے لگے تھے۔وہ ہر ایک سامنے اپنی تکلیف چھپا لیتا تھا مگر عاقب کے سامنے نہیں۔
"سوری۔"وہ شرمندگی سے گویا ہوا اور اسے اپنے گلے سے لگایا۔
"بھائی اب میں بچہ نہیں رہا۔"ارسلان کا چہرہ اس وقت ایسا تھا کہ روتا ہوا شخص بھی دیکھ لیتا تو ضرور ہنستا۔
عاقب اس سے الگ ہوا۔"میرے لیے ہمیشہ تم بچے ہی رہو گے۔خیر اب میں چلتا ہوں۔"
عاقب نے اہنے ہاتھ میں موجود چابیوں کو اچھالنا شروع کیا۔ارسلان کی تیز نظریں جب چابیوں پہ گئیں تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"بھائی کیا یہ میری نئی گاڑی کی چابیاں ہیں؟"اس کی نظریں ہنوز چابیوں پہ ہی جمی تھیں۔
"تھیں!…اب نہیں ہیں۔کیونکہ ارسلان کو گاڑی نہیں چاہیے۔"کہہ کر وہ بیڈ پہ سے اٹھا۔
"نہیں بھائی ایسا نہیں ہے۔وہ تو میں ناراض تھا بس اس لیے۔"عاقب کو بیڈ سے اٹھتے دیکھ وہ بھی اٹھ گیا۔اسے اپنی گاڑی اب ناراضگی سے زیادہ عزیز لگ رہی تھی۔
"نہیں تم ناراض ہی اچھے لگ رہے تھے۔ایسا کرو ناراض ہی رہو۔"وہ مسکراہٹ دباۓ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
ارسلان منہ کھولے اسے جاتے ہوۓ دیکھنے لگا۔
"ب…بھائی۔میں تو مذاق کر رہا تھا یار۔"وہ بھاگتا ہوا عاقب کے پیچھے گیا تھا۔
۞……۞……۞
شہریار سربراہی کرسی پہ بیٹھا تھا۔وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس سے سیدھا گھر آیا تھا لنچ کے لیے۔
اس کی دائیں جانب جنت جبکہ بائیں جانب داور بیٹھا تھا۔
"بھائی آپ کو پتہ ہے…"وہ دونوں ایک ساتھ بولے تو شہریار نے باری باری دونوں کو دیکھا جبکہ جنت اور داور نے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔
"کیا پتہ ہے مجھے؟"شہریار نے سلاد کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے پوچھا۔
"آج نا……"وہ پھر سے ایک ساتھ بولے،اور ایک دوسرے کو غصے سے گھورنے لگے۔
"پہلے میں بتاؤں گی۔"جنت نے دبے لہجے میں کہا۔
"پہلے میں بتاؤں گا۔"دانت پیس کر کہا گیا۔
"پہلے میں!…"
"پہلے میں!…"
"ایسا کرو گڑیا! آدھی بات تم بتا دو اور آدھی بات داور بتا دے گا۔"شہریار نے جیسے کھیل ہی ختم کر دیا۔اب وہ جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیل رہا تھا۔َ"چلو گڑیا بتانا شروع کرو۔"شہریار کے کہتے ہی جنت نے پرجوشی سے بتانا شروع کیا۔
"آپ کو پتہ ہے کہ آج ہمیں یونی میں ہانیہ ،عالیہ اور ارسلان ملے تھے۔"
"اچھا!وہ کون ہیں؟"شہریار نے سرسری انداز میں کہا اور پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔ابھی دو ہی گھونٹ حلق میں گئے تھے کہ اچانک ذہن میں بہت زور سے جھماکہ ہوا۔پانی تو کہیں حلق میں ہی جم گیا تھا اور اس کے بعد اسے کافی زور کا اچھو لگا تھا۔
"کیا؟"شہریار کی تو آنکھیں ہی حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔
"ہاں شہریار بھائی! آپ جانتے ہیں نا عاقب علی شاہ کو ان کے بھائی،ان کی بیوی اور ان کی بیوی کی کزن کو۔"داور نے بھی پرجوشی کا مظاہرہ کیا تھا۔
"اور پتہ ہے ہماری ان تینوں سے دوستی بھی ہوگئی۔"جنت نے اطلاع دی تھی جیسے۔
"دوستی بھی کر لی؟"شہریار کو اپنا آپ سولی پہ لٹکتا محسوس ہورہا تھا۔اگر ان دونوں میں سے کسی کو بھی عنایہ کی بھنک لگ گئی تو پورے گھر کو سر پہ اٹھا لیں گے۔
"ہاں بھائی۔شکر ہے میرے بھی کچھ دوست بن گئے۔اور ان سب کو تو آپ جانتے ہیں۔کتنے اچھے ہیں وہ تینوں۔"داور کے الفاظ تھے کہ کیا شہریار کو اپنے آس پاس بم بلاسٹ ہوتے نظر آرہے تھے۔
"اور خاص کر کے ہانیہ۔وہ کتنی اچھی ہے نا،اس کا سینس آف ہیومر کتنا اچھا ہے۔مجھے تو بہت پسند آئی وہ۔"
"ہاں وہ تو ہے۔"اب کہ شہریار بھی جنت سے متفق تھا۔"تمہاری طرح وہ بھی میری بہن ہی ہے۔"
"سیریئسلی بھائی!…"جنت کافی شاکڈ ہوئی۔
"یس آئی ایم سیریس۔"
"ہاں۔مگر وہ کچھ کہنے والی تھی کہ شہریار بھائی نے کچھ دن پہلے عنایہ…"داور کو کچھ کچھ یاد آیا تو کہنے لگا۔شہریار کا تو سانس ہی پھنس گیا۔
"ہاں۔لیکن اس کے بعد ارسلان نے اسے کچھ کہا تو وہ خاموش ہوگئی۔یہ عنایہ کون ہے بھائی؟"اب کہ جنت کو بھی یاد آگیا۔
"وہ…وہ…میں تو کسی عنایہ کو نہیں جانتا۔"شہریار نے جیسے تھوک نگل کر حلق تر کیا تھا۔
"کیا سچ میں؟"اب کہ وہ دونوں مشکوک ہوۓ تھے۔
"ہاں۔میں تو یہ نام ہی پہلی بار سن رہا ہوں۔"شہریار نے تو سرے سے ہی انکار کر دیا۔
"کیا پتہ ہانیہ نے آپ کے لیے کوئی رشتہ دیکھ رکھا ہو۔"داور نے جیسے چٹکی بجا کر پزل حل کیا۔
"ہاں۔ایسا ہوسکتا ہے بھائی۔ویسے وہ لڑکی کیسی ہوگی،جس سے آپ کی شادی ہوگی۔جسٹ امیجن!"جنت نے جیسے خیالی پلاؤ بنانا شروع کر دیا تھا۔اور شہریار نے تو تصور میں عنایہ کو بھی دیکھنا شروع کردیا تھا۔
"بہت معصوم،بہت پیاری،بلکل خاموش سی رہنے والی۔"شہریار تو اپنی ہی لو میں کہے جارہا تھا۔جبکہ جنت اور داور نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا تھا۔
"آہم آہم۔آپ ٹھیک تو ہے نا شہریار بھائی!"داور نے شرارتی لہجے میں کہا۔شہریار خیالوں سے باہر آیا اور باری باری دونوں کے مشکوک تاثرات کو دیکھا۔
"شٹ اپ۔دونوں کھانا کھاؤ۔ایسے ہی باتوں میں لگا دیا ہے مجھے۔معلوم ہے نا تم لوگوں کو مجھے پھر سے آفس جانا ہے۔"شہریار کی ڈانٹ پہ دونوں منہ لٹکاتے ہوۓ کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔
ایک شہریار ہی تو ان دونوں کا سائبان تھا بس۔
داور کے بابا کی دو ماہ پہلے ڈیٹھ ہوچکی تھی۔ہاں وہی چاچو جنہوں نے شہریار اور اپنا سارا بزنس سنبھالا ہوا تھا شہریار کے باپ کی ڈیتھ کے بعد۔
شہریار کے ماما بابا کی ڈیتھ تبھی ہوگئی تھی جب وہ پانچ سال کا تھا۔اور جنت اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ایک سال کی بھی نہیں تھی وہ جب ان دونوں کے ماما بابا انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔شہریار کے بابا گاؤں کے بڑے زمیندار تھے اور دشمنی کے تہت ان کے ماں باپ کو قتل کر دیا گیا تھا۔جن میں داور کی ماں بھی موجود تھی۔وہ بھی قتل ہوئی تھیں۔
حیات خان تب بزنس کے سلسلے میں باہر گئے ہوۓ تھے۔اور تب سے اب تک حیات خان نے ان تینوں کو پالا تھا۔ایک باپ کی طرح۔مگر دو ماہ پہلے ان کی بھی ڈیتھ ہوچکی تھی۔اور اب بس وہ تین رہتے تھے اس محل نما گھر میں۔
۞……۞……۞
رات کا وقت تھا۔یہ منظر ہانیہ اور عاقب کے کمرے کا تھا جہاں ہانیہ اور ارسلان بیڈ پہ بیٹھے ارسلان کی اسائنمنٹ مکمل کر رہے تھے۔عاقب صوفے پہ بیٹھا ٹانگیں میز پہ کینچی کی صورت رکھے ہوۓ تھا۔گود میں لیپ ٹاپ پڑا تھا اور پیشانی پہ لکیریں اُبھری ہوئی تھی۔لیپ ٹاپ انگلیاں تیزی سے چل رہی تھیں۔وہ اپنے آفس کا ہی کوئی کام کرہا تھا۔
"ارسلان سر نے کچھ زیادہ ہی کام نہیں دے دیا تمہیں۔"ان دونوں کا ہی سر درد کر رہا تھا۔نوٹس اور کتابیں بکھیرے سامنے لیپ ٹاپ رکھے وہ اسائمنٹ مکمل کرنے کی ناکام سی کوشش کررہے تھے۔
"میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔لیکن کیا کرسکتے ہیں کرنی تو ہے نا۔"ارسلان کا چہرہ بھی افسردہ تھا۔
"کتنا مشکل ٹاپک دیا ہے سر نے تمہیں۔چن چن کر چیزیں لکھنی پڑ رہی ہیں۔"ہانیہ نے جمائی لی۔وہ تھک گئی تھی۔
"کاش ہمارے ساتھ کوئی بزنس کا سینئر سٹوڈنٹ ہوتا،یا پھر کوئی پروفیسر یا پھر کوئی بزنس مین یا پھر……"ارسلان نے بھی لمبی سی جمائی لی۔
"ہے تو سہی۔عاقب ہیں نا۔لیکن تم کیوں ایسے کہہ رہے ہو؟"ہماری محترمہ کا وہی سست دماغ۔ہانیہ کی بات پہ ارسلان کو جھٹکا لگا تھا۔وہ کیسے یہ بھول گیا تھا۔وہ کتنا بھولکڑ ہوگیا تھا۔اس نے چمکتی آنکھوں سے ہانیہ کو دیکھا پھر عاقب کو۔
ہانیہ نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور پھر دونوں نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
وہ دونوں اب دانتوں کی نمائش کرتے عاقب کے سر پہ کھڑے تھے۔عاقب نے سوالیہ ابرو اچکا کر ان دونوں کو دیکھا۔
"وہ بھائی میں کہہ رہا تھا کہ سر رضوان آج آپ کی بہت تعریف کر رہے تھے۔"ارسلان نے پتہ پھینکا۔
"کوئی نئی بات بتاؤ۔"عاقب کو جیسے فرق نہ پڑا۔اسے معلوم تھا کہ وہ دونوں کس لیے اس کے پاس آۓ ہیں۔
"مجھے لگتا ہے آپ سچ میں تعریف کے قابل ہیں۔"دوسرا پتہ بھی پھینکا گیا۔
"تو؟"عاقب کو اب بھی کوئی فرق نہ پڑا۔
"عاقب مجھے بہت نیند آرہی ہے۔اور ارسلان چاہتا ہے کہ ہم اسائنمنٹ مکمل کر لیں پھر ہی میں سوؤں گی۔آپ اگر تھوڑی سی مدد کر دیتے تو(عاقب نے پھر سے ابرو اچکائی جیسے کہنا چاہ رہا ہو،اچھا)بس تھوڑی سی،اتنی سی۔"ہانیہ نے انگوٹھے اور انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھے التجا کی۔عاقب نے ایک نظر ارسلان کو دیکھا جو ملتجی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا،پھر دوبارہ سے نظریں ہانیہ کی طرف موڑیں۔
"اس کے بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟"عاقب کوئی بھی کام مفت میں کر دے،ایسا ہو نہیں سکتا۔
ہانیہ اس کے قریب صوفے پہ بیٹھ گئی اور اس کا کسرتی بازو تھام کر ملتمس لہجے میں گویا ہوئی۔"پلیز!"
"پلیز!"اب کہ بہت پیار سے کہا گیا۔
"کام کے وقت ہی پیار یاد آتا ہے۔"عاقب نے تاسف سے کہا پھر اس کی پیشانی پہ جھکا اور بوسہ دیا۔ناجانے کیوں اس کی ہر بات پہ پیار آتا تھا۔وہ واحد تھی جسے وہ منع نہیں کرتا تھا۔
"چلو!…"وہ لیپ ٹاپ بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔ہانیہ جو ارسلان کے سامنے کی جانے والی گستاخی پہ سرخ ہورہی تھی عاقب کے ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
ارسلان نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔اس نے پہلی دفعہ ہانیہ کا یہ رنگ دیکھا تھا۔
وہ دونوں ہی اب بیڈ پہ عاقب کے دائیں بائیں جانب بیٹھے ہوۓ تھے۔عاقب کچھ تفصیلات بیان کر رہا تھا جسے وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوۓ سن رہے تھے۔

میں نے تیرا نام دل رکھ دل،میں نے تیرا نام دل رکھ دیا
دھڑکے گا تو مجھ میں صدا،میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

۞……۞……۞
جاری ہے۔۔
(باقی آئندہ کل)
-ناول کی قسط دیر سے دینے کے لیے معذرت-

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Where stories live. Discover now