Last Episode

131 11 0
                                    

"سنیں عاقب!"ہانیہ نے مسلسل آنکھیں جھپکتے چمکتی آنکھوں کے ساتھ عاقب کو متوجہ کیا۔رات کا وقت تھا اور دونوں ہی اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھے۔ہانیہ بیڈ پہ بیٹھی تھی جبکہ عاقب کمرے کے وسط میں کھڑا کسی سے فون پہ بات کر کے ابھی ابھی فارغ ہوا تھا۔
کال ختم ہونے کے بعد وہ جو کھڑا فون میں سے کچھ کھنگال رہا تھا ہانیہ کے اس لب و لہجے پہ ایک دم سے چونکا تھا۔کچھ لمحے ہانیہ کو دیکھنے کے بعد واپس فون میں مصروف ہوگیا۔
"ٹھیک سے بتاؤ کیا بات منوانی ہے اب؟"وہ مصروف سا بولا۔وہ جانتا تھا محترمہ صرف تب ہی ایسے بات کرتی تھی جب کوئی بات منوانی ہو۔
ہانیہ نے خفیف سا ہوکر اسے گھورا۔
"جب جب میں آپ سے پیار سے بات کرنے کی کوشش کروں تو ضروری نہیں کہ مجھے آپ سے کوئی بات منوانی ہو۔"
"تو کیا سچ میں تمہیں مجھ پہ پیار آرہا ہے؟"عاقب کو خوشگوار سی حیرت نے آن چھوا تھا۔
ہانیہ تو شرما ہی گئی۔عاقب پلک جھپک کر اس کے پاس پہنچا تھا۔
"آئی لو یو۔"عاقب نے ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص انداز میں اس کی پیشانی پہ بوسہ دیا اور اس کا سر اپنے سینے سے لگایا۔
کچھ ساعتیں ایسے ہی گزریں تھیں کہ محترمہ کو شاید وہ محبت بھرا پل ہضم نہیں ہوا تھا۔
"ارسلان چاہتا یے کہ اس کا نکاح ہی کر دیں صرف عالیہ سے۔شادی آپ سب جب مرضی کریں لیکن نکاح اب کر دیں۔وہ رو رہا تھا بیچارا۔"
عاقب کے تو سر پہ لگی تلوؤں پہ بجھی۔وہ جھٹ سے ہانیہ سے دور ہوا۔
"دماغ سیٹ ہے اس کا؟اور میں بھی کہوں محترمہ کو مجھ پہ ایسے ہی پیار نہیں آسکتا۔"وہ کڑے تیوروں کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
"اس کی کوئی بھی بات مانتا۔سب صرف آپ کی بات ہی مانتے ہیں۔"
"اور میں تمہاری۔ہے نا؟ایسے ہی کہا ہے نا اس نے؟"وہ درشتگی سے بولا تو ہانیہ نے فوراً سے نفی میں سر ہلایا۔
"میں آپ کو یہ بلکل نہیں بتاؤں گی اس نے بلکل ایسا ہی کہا تھا۔"اور پھر گئی ساری بھینس پانی میں۔
عاقب نے تاسف سے اسے دیکھا۔
"اس بار میں تمہاری ایک بھی بات نہیں مانوں گا ہانی۔"
"تو کیا آپ کو مجھ سے محبت نہیں؟"وہ نچلا ہونٹ باہر نکالے بےچارگی کے ساتھ گویا ہوئی۔
"تمہاری بات نہ ماننے کا یہ مطلب تو نہیں کہ میری محبت تمہارے لیے ختم ہوچکی ہے۔"عاقب کو دکھ ہی تو ہوا تھا۔
"صرف نکاح ہی کی تو بات ہے۔داور اور جنت کا نکاح بھی تو ہوا ہے پہلے سے۔آپ بس گھر والوں سے اور عالیہ کے ماما پاپا سے بات کر لیں اور شہریار بھائی کی شادی میں ہی ان دونوں کا نکاح کر دیں۔کیسا لگا میرا کمال؟"
"بکواس۔"عاقب کے ایک حرف نے ہی سارے پہ پانی پھیر دیا۔
"پلیز!۔"وہ التجا کر رہی تھی جیسے۔
"نہیں۔"
"پلیز عاقب!"
"نہیں۔"
"صرف ڈانٹتے ہی ہیں آپ مجھے۔پیار تو کرتے نہیں ہیں۔نہ مجھ سے نہ ہی ارسلان سے۔بیچارا ارسلان۔کیا اس کا دل نہیں چاہتا کہ اس کی بھی بیوی ہو۔صرف آپ کا دل ہے اس کا دل نہیں ہے۔پورے ناول میں ساروں کا نکاح ہوگیا ہے اور جن کا نہیں ہوا ان کا بھی ہونے والا ہے۔بس ارسلان ہی بچا ہے۔اور آپ ہیں کہ کباب میں ہڈی بن رہے ہیں۔"محترمہ نے جب تقریر کرنا شروع کی تو بند ہی نہ کی۔عاقب تو آنکھیں پھاڑے اسے سن رہا تھا۔
"اچھا بس بس!پیار سے مناؤ گی تو مان جاؤں گا۔اس طرح ریئیکٹ کیوں کر رہی ہو؟"وہ خفگی سے گویا ہوا۔ہانیہ کی آنکھیں چمکیں۔
"پہلے بتاتے نا!"یہ کہتے ساتھ ہی ہانیہ نے عاقب کے گلے میں اپنی بانہوں کا ہار ڈال دیا۔عاقب نے بمشکل مسکراہٹ ضبط کی۔
"مان جائیں نا۔"پیار سے کہا گیا۔
"اگر نہ مانوں تو؟"ابرو اچکا کر پوچھا گیا۔
"تو میں آج کے بعد بیڈ کی بجاۓ صوفے پہ سوؤں گی۔"
عاقب نے تعجب سے اسے دیکھا۔
"فضول مت بکو۔"
"تو مان جائیں نا۔ویسے بھی نیند آرہی ہے مجھے۔"ہانیہ کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ اسے نیند آرہی ہے۔
"لیکن میرا سونے کا موڈ نہیں ہے۔"وہ معنی خیز لہجے میں بولا تو وہ فوراً سے سرخ ہوئی۔
"ٹھیک ہے پھر۔میں جا رہی ہوں صوفے پہ سونے۔"وہ سرخ چہرہ لیے خفگی سے اٹھی تو عاقب نے اس کا بازو تھام لیا۔
"ٹھیک ہے۔میں کل بات کروں گا ماما بابا سے اس بارے میں۔"عاقب کے کہنے کی دیر تھی ہانیہ کی باچھیں کھل گئیں۔
"آئی لو یو،لو یو،لو یو۔"کہتے ہوۓ اس کے لہجے سے خوشی جھلک رہی تھی۔
"آئی لو یو ٹو۔" عاقب نے ایک بار پھر اس کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔
۞……۞……۞
"آج میں اوپر۔آسمان نیچے۔"ارسلان خوشی سے گنگنا رہا تھا۔وہ چاروں بھی اس کے ساتھ ہی تھے۔اس وقت وہ پانچوں یونی کے گراؤنڈ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔
ہانیہ نے منہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور پھر ارسلان کو۔
"زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ارسلان۔کیونکہ آسمان آج بھی اوپر ہی ہے اور تم نیچے۔"کھلا طنز تھا۔جنت نے کھی کھی کرنا فرض سمجھا تھا۔داور بھی سر جھٹک کر مسکرا دیا۔عالیہ بھی کافی خوش تھی۔وہ بھی بےشرمی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنی خوشی کا پتہ دے رہی تھی۔
"جلو مت میری خوشیوں سے۔"ارسلان نے آنکھیں گھما کر کہا تو ہانیہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
"یہ خوشیاں بھی میری وجہ سے ملی ہیں۔"منہ پھاڑ کر اچھی طرح بتایا گیا۔
"اچھا اچھا۔معلوم ہے۔"
"ویسے ایک بات ہے۔ہانی کی بات ہی الگ ہے۔"تعریفی کلمات جنت کی طرف سے آۓ تھے۔ہانیہ کی گردن فخر سے اونچی ہوئی۔
"ہاں یہ تو ہے۔"داور نے بھی تائید کی تو محترمہ کی گردن کچھ زیادہ اونچی ہوئی۔
"آخر بہن کس کی ہے؟"عالیہ نے بال جھٹک کر ایک ادا سے کہا۔
"میری۔"جواب ارسلان سمیت داور اور جنت کی طرف سے بھی آیا تھا۔
اب سب نے ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر گلا پھاڑ دھاڑ کر ہنس دیے۔
خوشیاں آرہی تھیں۔سب ٹھیک تو پہلے ہی تھا لیکن اب زیادہ خوشیاں سمیٹنی تھیں ان سب کو ایک ساتھ۔ایک ہو کر۔شہریار کی شادی کی ڈیٹ فکس ہوچکی تھی۔اور یہ طے پایا گیا تھا کہ ارسلان اور عالیہ کا نکاح بھی عنایہ کی رخصتی والے دن ہی ہوگا۔ایک عاقب کو منانے کی دیر تھی،سب مان گئے تھے۔عالیہ کے بابا اور ماما تو فوراً مان گئے تھے۔بس ایک عاقب کو منانے کی دیر تھی۔بس ایک عاقب کو۔
اور عاقب کو منانے والی صرف ایک تھی۔صرف ایک۔
۞……۞……۞
"ارے یہ مجھے دو ارسلان۔"
"میں نہیں دوں گا۔"
"ارسلان میں کہہ رہی ہوں مجھے اپنا فون دو۔"
"میں نہیں دوں گا ہانی۔"
"شرم کرو ارسلان۔ڈوب کر مر جاؤ۔آج تمہارا نکاح ہے اور تم تیار ہونے کی بجاۓ عالیہ کے ساتھ گپے ہانک رہے ہو۔"ارسلان نے اہنا فون کمر کے پیچھے کیا ہوا تھا اور ہانیہ کمر پہ ایک ہاتھ رکھے دوسرے ہاتھ سامنے کی ارسلان سے فون مانگ رہی تھی۔کال پہ عالیہ تھی اور کال نہ کاٹنے کی وجہ سے وہ سب سن رہی تھی۔وہ خود اس وقت پارلر پہ بیٹھی تھی۔میک اپ آرٹسٹ اسے تیار کر رہی تھی اور وہ کانوں میں air pods گھساۓ ہانیہ اور ارسلان کی نوک جھونک سن رہی تھی۔
"ارسلان فون ہانی کو دو اور جا کر تیار ہو۔شرم کرو۔سب تیار ہیں ایک تم ہی رہتے ہو۔"عاقب کی آمد بھی اچانک سے ہوئی تھی۔وہ تینوں ارسلان کے کمرے میں موجود تھے اس وقت۔
ارسلان نے منہ لٹکا کر اپنا فون ہانیہ کے ہاتھ میں تھمایا۔ہانیہ نے پورے بتس دانتوں کی نمائش کی اور فون کان سے لگاۓ کمرے سے باہر نکل گئی۔کمرے سے دور آ کر وہ رکی پھر فون کا سپیکر منہ کے قریب کر کے جتنا اونچا چلا کر کہہ سکتی تھی کہہ اٹھا۔
"جاہل عورت اب نکاح سے پہلے تمہارا فون آیا تو حشر بگاڑ دوں گی تمہارا۔"کہہ کر فون کاٹ دیا گیا۔
عالیہ تو اتنی تیز آواز پہ ایک دم سے اپنی جگہ سے اچھلی تھی۔میک اپ آرٹسٹ جو اس کے آئی لائنر لگا رہی تھی وہ بھی ڈر گئی۔
عالیہ نے سنبھل کر دل پہ ہاتھ رکھا اور جیسے ہی سامنے آئینے کی طرف دیکھا تو ایک اور دفعہ اس کی فلک شگاف چیخ نکلی۔
آئی لائنر اچھی خاصی بیس کا بیڑا غرق کر چکا تھا۔عالیہ سے زیادہ تو میک اپ آرٹسٹ کو رونا آرہا تھا جسے اب دوبارہ سے یہ سب سیٹ کرنا تھا۔
۞……۞……۞
"جلدی جلدی چلیں اندر ماما بابا انتظار کر رہے ہیں۔"ہانیہ میرج ہال کے داخلی دروازے کی طرف تیزی سے قدم اٹھاتی عاقب اور ارسلان سے کہہ رہی تھی۔آج محترمہ نے سنہری لہنگا پہن رکھا تھا جس پہ میرون لپ سٹک تو غضب ڈھا رہی تھی۔سر پہ میرون اور گولڈن ٹچ کا ہجاب بھی لیا گیا تھا۔عاقب اور ارسلان نے سفید شلوار قمیض کے اوپر ویس کوٹ پہن رکھا تھا۔عاقب نے نیوی بلو جبکہ ارسلان نے کلیجی رنگ کا ویس کوٹ پہنا تھا۔وہ تینوں بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔
"ارے بہنا تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"ابھی ہانیہ نے ہال میں قدم رکھا ہی تھا کہ عظیم اچانک سے سامنے آیا اور خوشگوار حیرت سے اس سے پوچھنے لگا۔ایک لمحہ نہ لگا تھا محترمہ کو اسے پہچاننے میں۔وہ ساری چیزیں بھول جاتی تھی مگر اپنے بناۓ ہوۓ بھائی نہیں بھولتی تھی۔
"ارے بشیر بھائی آپ؟"
"ارے بہنا میں بشیر نہیں میں عظیم ہوں۔بشیر بھی یہیں کہیں ہوگا۔"عظیم نے ادھر اُدھر نظر گھما کر بشیر کو ڈھونڈنا چاہا۔
"ارے بہنا تم یہاں پہ؟"اچانک سے ہی بشیر کی بھی عامد ہوئی۔
"ارے علی بھائی آپ؟"ہانیہ بھائی نہیں بھولتی تھی مگر نام بھول جاتی تھی۔
"ارے بہنا علی میں ہوں وہ بشیر ہے۔"پیچھے سے علی نے آتے ہوئی ہلکی سی چپت اس کے سر پہ لگا کر اپنی طرف متوجہ کیا۔ہانیہ نے منہ کھول کر اسے دیکھا۔
"ارے یہ آپ تینوں یہاں کیا کر رہے ہیں؟"ہانیہ نے متعجب ہو کر پوچھا۔
"ارے ہمارے چھوٹے خان کی شادی ہے نا یہاں پہ۔"سلیقے سے بتایا گیا۔
"شاباش۔دلہا آیا نہیں باراتی پہلے پہنچ گئے۔"عاقب نے قریب آکر طنزاً کہا تو ان سب نے اچھی خاصی اپنے پیلے زرد دانتوں کی نمائش کی۔
"وہ کیا ہے نا چھوٹے خان کہہ رہے تھے ہم پہلے پہنچ جائیں تا کہ اگر کوئی کام وغیرہ ہو چھوٹی بیگم کے گھر والوں کو تو ہم ان کی مدد کر دیں۔"
"ارے واہ!…آپ لوگ تو بہت نیک کام کر رہے ہیں۔"ہانیہ نے داد دی۔
"نیک کام نہیں۔جب سے یہاں آۓ ہیں آس پاس گھومتی نقاب پوش فی میل ویٹریسز کو تاڑی جا رہے ہیں۔"زین نے اپنی آمد کا ثبوت دیا۔عاقب نے تاسف سے مسکرا کر اسے دیکھا پھر آگے بڑھ کر بگل گیر ہوا۔
"میرے خیال سے بارات نہیں آئی ابھی!"عاقب نے پیچھے ہٹ کر طنز کیا۔
"میں تو ہوں ہی بیچ کا بلا۔جب مرضی آؤں کیا فرق پڑتا ہے۔"وہ ہنسا تھا۔
"زیادہ دانت نہ نکالیں زین بھائی!…آپ کی شادی نہیں ہے۔"ہانیہ نے اپنا حصہ ڈالا۔زین کا پہلے تو منہ لٹکا پھر آگے بڑھ کر ہانیہ کے جھکے سر پہ اپنا ہاتھ رکھا۔
"کیا کروں بہنا۔یہ عاقب کو اتنی بار کہا ہے کہ اپنی سیکرٹری سے سیٹنگ کروا دے میری۔"زین نے بےحیائی سے کہا تو عاقب نے اسے گھورا۔
"ارے وہ لاریب۔ارے فکر ہی نہ کریں۔میں ہوں نا۔"ہانیہ نے  نہایت ہی عمدہ طریقے سے گردن کڑا کر کہا۔اب عاقب کی باری تھی ہانیہ کو گھورنے کی۔
"ارے بہنا تم ہی سے ایسی امید تھی۔"زین تو صدقے واری ہوا تھا۔
"بہنا بہنا!…"عظیم،علی اور بشیر نے بڑے پیار سے یک آواز ہو کر ہانیہ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
"وہ…یہاں اتنی ویٹریسز گھوم رہی ہیں۔کسی سے ہماری بھی سیٹنگ شیٹنگ کروا دو۔"وہ تینوں نہایت ہی شرما کر گویا ہوۓ تھے۔
"میں کرواتا ہوں تم لوگوں کی تو۔چلو تم تینوں میرے ساتھ۔"زین نے ان تینوں کو وہاں سے دھکیلتا ہوا لے گیا۔
ہانیہ انہیں ہنستے ہوۓ جاتے دیکھ رہی تھی پھر جیسے ہی مڑی تو سامنے عاقب کھڑا ابرو اچکاۓ اسے ہی دیلھ رہا تھا۔
ہانیہ نے نہایت ہی معصومیت اور مسکین سی شکل بناتے ہوۓ کندھے اچکا دیے۔
۞……۞……۞
بارات آچکی تھی۔نکاح کا وقت بھی آپہنچا تھا۔
جنت اور داور بھی بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔داور نے سفید شلوار کرتا اور سرمئی ویس کوٹ پہن رکھی تھی۔جنت نے سبز کامدار لانگ فراک پہن رکھی تھی۔
داور بار بار اس کے کندھے سے کندھا ٹکراتا اس کی تعریف یں کیے جارہا تھا زندگی میں پہلی دفعہ۔اور وہ تو بس شرماۓ جا رہی تھی…شرماۓ جارہی تھی…شرماۓ جا رہی تھی۔
"کسی کی بہت صلح ہوگئی ہے۔"عاقب نے ان دونوں کے پاس سے گزرتے لقمہ دیا تھا۔وہ دونوں ہنس دیے۔
سٹیج کے سامنے نکاح کا انتظام کیا گیا تھا۔جہاں چار کرسیاں تھی جو کہ دو دو کر کے آمنے سامنے تھیں۔اور درمیان میں ایک پردہ لگایا گیا تھا۔ایک طرف دو کرسیوں پہ عنایہ اود عالیہ بیٹھی تھیں۔عالیہ نے سفید شرارہ پہنا تھا جس پہ سنہری کام کیا گیا تھا جبکہ عنایہ نے مہرون لہنگا جس پہ سر سے پاؤں تک کام ہی کام کیا گیا تھا۔دوسری طرف ارسلان اور شہریار کو بٹھایا گیا تھا۔
سب سے پہلے عنایہ کی طرف سے قبول و ہجاب کا مرحلہ طے پایا گیا اس کے بعد عالیہ سے۔دونوں پہلے تو تھوڑا خجل ہوئیں لیکن اس کے بعد 'قبول ہے' کہہ کر نکاح نامے پہ دستخط کر دیے۔
اس کے بعد شہریار اور ارسلان کی طرف سے قبول و ہجاب کا مرحلہ طے پایا گیا اور اس کے بعد دعا کروائی گئی۔نکاح ہوچکا تھا۔دو جوڑے پاک رشتوں میں بندھ چکے تھے۔
ارسلان اور شہریار تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
"ہاں لکھیں لاریب کا نمبر۔"ہانیہ اپنے نیو ماڈل کا آئی فون نکالے کھڑی تھی۔
"ہاں بتاؤ…"زین نے بھی جلدی سے ڈائلر کھولا۔
"034……"
زین اور ہانیہ ان سب کی خوشیوں سے بےنیاز لاریب کے نمبر لے دے رہے تھے۔
"سب سے پہلے میں اسے فون کر کے کیا کہوں۔"وہ اب ہانیہ سے مشورہ مانگ رہا تھا۔
"اپنے آفس میں جاب کی آفر کرنا۔تھوڑے سے نخرے دکھائے گی۔لیکن زیادہ سیلری کی آفر کریں گے تو…"
"تو وہ مان جاۓ گی۔"زین نے اس کا جملہ اچکا۔
"ارے نہیں…چچ…پھر تو بلکل نہیں مانے گی۔لالچی نہیں ہے۔ایماندار ہے تھوڑی سی۔"ہانیہ نے نفی میں سر ہلایا۔
"تو پھر؟"
"آپ بس آفر کر دیجیئے گا۔جس دن آپ آفر کریں گے اگلے دن میں عاقب کے آفس جا کر باتوں باتوں میں ہی اسے فارغ کر دوں گی۔"ہانیہ نے ہاتھ گھما کر عورتوں والے انداز میں کہا۔
"واہ بہنا!…"زین ہتھیلی پہ کہنی رکھ کر دوسرے ہاتھ کی تین انگلیاں گالوں پہ رکھے شاکڈ ہو کر ہانیہ کو دیکھ رہا تھا۔جس کا دماغ ایسے کاموں میں فالتو ہی چلتا تھا۔ہانیہ کی گردن فخر سے اکڑی۔
اچانک سے کسی نے ہانیہ کے ہاتھ سے فون اچکا تھا۔
ارسلان سامنے کھڑا بتیسی نکالے اسے دیکھ رہا تھا۔
"میرے فون کی بیٹری ڈیڈ ہو چکی ہے اس لیے میں تمہارا فون لے کر جا رہا ہوں۔میں نے عالیہ کے ساتھ مِرر سیلفی لینی ہے۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھاگا تھا۔ہانیہ بھی اس کے پیچھے بھاگی۔
"ارسلان میرا فون واپس کرو۔تم عاقب کا فون لے لو۔"ہانیہ بمشکل اپنا لہنگا سنبھالے اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
"تمہارے اور میرے فون کا کلر سیم ہے۔بھائی کا کلر ڈفرنٹ ہے۔"
وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے سب کی توجہ کھینچ رہے تھے۔
ہانیہ بھی اپنا سنہری لہنگا سنبھالے اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ایسے لگتا تھا بھاگتے بھاگتے وہ وقت میں آگے نکل آئی ہے…بہت آگے…بہت زیادہ آگے…پانچ سال آگے۔
"رک جاؤ!…میں کہہ رہی ہوں رک جاؤ۔"ہانیہ تیزی سے اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔سنہری لہنگا ایک دم سے گلابی لہنگے میں تبدیل ہوچکا تھا اور اس کا میرون ہجاب جامنی رنگ میں تبدیل ہوچکا تھا۔آنکھوں پہ چشمہ اب بھی تھا مگر وہ بھی تبدیل ہوچکا تھا۔
وہ آج بھی ہال میں بھاگتی آس پاس لوگوں کو متوجہ کرنے کا باعث بن رہی تھی۔
آخر وہ بھاگ کس کے پیچھے رہی تھی؟وہ ارسلان تو نہیں تھا…کچھ دھندلاتا سا عکس نمایا ہوا تھا…دھند آہستہ آہستہ چھٹ رہی تھی۔وہ کوئی چار سالہ چھوٹا سا بچہ تھا۔صحت مند اور گول مٹول سا۔دودھیا رنگت اور لٹکتے ہوۓ بھرے بھرے سے گال۔سفید شلوار کرتا اور چھوٹی سی واسکٹ میں وہ کس قدر پیارا لگ رہا تھا بتانے سے قاصر ہے۔اس چھوٹی دنیا کے ہاتھ میں ہانیہ کا سنہری پرس تھا اور وہ بمشکل اپنی چھوٹے چھوٹے قدموں سے بھاگ رہا تھا۔ہانیہ نے اگر لہنگا نہ پہنا ہوتا تو یقیناً اسے جا لیتی۔
"صاقب!" ہانیہ نے اسے پیچھے سے پکارا۔مگر وہ رکنے والی چیز کہاں تھا۔
اچانک کسی نے اس چھوٹی دنیا کو اپنی گود میں اٹھا لیا تھا۔ہانیہ کے قدم دھیمے ہوۓ اور اس نے سکون کا سانس خارج کیا۔کیونکہ اب وہ عاقب کے ہاتھوں میں تھا۔
"ادھر واپس کرو میرا پرس!"ہانیہ نے اس کے ہاتھ سے پرس جھپٹا۔
صاقب نے مسکین سی شکل بنا کر عاقب کو دیکھا جس نے معصومیت سے کندھے اچکا دیے۔
"میں بتا رہا ہوں اپنی اس بیوی کو سمجھا لیں۔"
ہانیہ نے کھا جانے والی نظروں سے صاقب کو دیکھا تھا۔
"کیا ہاں؟…اس طرح کیوں دیکھ رہی ہیں اب۔ایک چاکلیٹ ہی تو مانگی تھی۔"وہ ہانیہ کو پھولے منہ کے ساتھ دیکھتے گویا ہوا۔
"صاقب کے بچے!"وہ دانت پیسے گویا ہوئی تھی۔صاقب کی بولتی بند ہوئی۔اس نے معصوم سی شکل بنا کر عاقب کو دیکھا۔
"دیکھا بابا آپ نے۔جب آپ آفس ہوتے ہیں یہ عورت میرے ساتھ اسی طرح زیادتی کرتی ہے۔آدھی چاکلیٹس یہ کھا جاتی ہیں میری۔"
"اونہوں صاقب۔ماما ہیں تمہاری۔"عاقب نے اسے ٹوکا۔
"شک ہو رہا ہے مجھے۔"وہ بولا تو ہانیہ کا پورا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔عاقب نے تو ادھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
ہانیہ کچھ دیر تو ان دونوں باپ بیٹے کو ایسے ہی دیکھتی رہی۔پھر آہستہ سے مسکرائی۔اور چمکتی آنکھوں سے گویا ہوئی۔
"پچھلے ہفتے صاقب کو ایلیکٹرک کار کس نے لے کر دی تھی؟"
صاقب نے چونک کر ہانیہ کو دیکھا۔عاقب نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔
"ماما نے۔"صاقب آہستہ سے گویا ہوا۔
"اور سنڈے کو صاقب کو ایلیکٹرک موٹربائک کس نے  منگوا کر دی تھی؟"ہانیہ ہنوز اسی طرح مسکراۓ سوال کر رہی تھی۔
"ماما نے۔"اب کہ صاقب کی آواز کچھ اور دھیمی ہوئی۔
"اور تین دن پہلے جب ماما صاقب کو لے کر مال گئی تھی تو اسے ریموٹ کنٹرول کار کس نے لے کر دی تھی؟"
اب کہ صاقب بلکل خاموش ہوگیا۔نچلا ہونٹ باہر نکل آیا تھا۔جلدی سے ہاتھ پھیلا کر ہانیہ کی طرف کیے اور جذباتی ہو کر بولا۔"میری پیاری ماما۔"
عاقب نے گھور کو صاقب کو دیکھا تھا۔پورا ڈرامہ تھا وہ۔بلکل ماں پہ گیا تھا۔
"ہاں!…اب آیا چوہا پہاڑ کے نیچے۔"ہانیہ نے خود کو سہراتے ہوۓ کہا۔
"صاقب!…"عاقب نے زور دے کر اسے پکارا۔صاقب نے یک دم باپ کی جانب دیکھا۔
"اور وہ سب آیا کس کے کریڈٹ کارڈ سے تھا؟"
"بابا کے۔"صاقب تو اچھی طرح پھنسا ہوا تھا۔ہانیہ نے منہ کھول کر عاقب کو دیکھا۔
"تو جو بابا کا ہے وہ ماما کا ہی تو ہے۔اور…اور بابا نے کون سا لے کر دیا۔لے کر تو ماما نے ہی دیا تھا نا۔"اس سے پہلے کہ وہ تینوں کوئی اور بات کرتے ارسلان کی اینٹری ہوئی تھی۔
"شاباش۔لگے رہیں آپ تینوں آج بھی۔یہاں ابھی تک میری دلہن نہیں آئی اور آپ…آپ سب کو اپنی چاکلیٹس اور پرس کی فکریں لگی ہوئی ہیں۔"وہ اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔اس کے نقوش میں کچھ تبدیلی آئی تھی۔اب وہ پانچ سال پہلے والا ارسلان نہیں لگتا تھا،بلکہ پورا مرد لگتا تھا۔
"ماچو!…"صاقب نے اب اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر ارسلان کی طرف کیے۔جیسے عاقب کی گود سے نکل کر ارسلان نے کی گود میں جانا چاہ رہا ہو۔
"آجاؤ بیٹا۔تم بھی آجاؤ۔بس ایک تمہاری ہی کمی تھی میری اس اکتائی ہوئی زندگی میں۔"ارسلان نے اس کے پھیلے ہوۓ ہاتھ دیکھ کر اسے گود میں اٹھایا۔
"ماچی تو آ گئی ہیں ماچو۔میں نے ان کو برائڈل روم میں دیکھا ہے۔"صاقب نے خبر دی۔وہ ارسلان کو چاچو کہتا تھا نہ ماموں۔وہ ان دو لفظوں کو جوڑ کو ماچو بولتا تھا۔عالیہ کے ساتھ بھی یہی تو رشتہ تھا اس کا۔ماچی کا۔"
"کچھ تو شرم کرو ہانی۔جاؤ جا کر لے آؤ عالیہ کو۔اور بھائی آپ۔آپ کو کب سے بابا بلا رہے ہیں۔"اس کو اب یاد آیا تھا۔
"بدتمیز شخص پہلے بتانا تھا نا۔"عاقب کہتا ہوا وہاں سے گیا۔ہانیہ بھی احسان کرنے والے انداز میں برائڈل روم کی طرف چل دی۔
ارسلان نے شکر کا سانس خارج کیا۔
"آپ کو زیادہ جلدی نہیں ہورہی شادی کی!"صاقب نے دانت دکھاتے ہوۓ کہا۔
"جب تیری شادی ہو گی نا تب میں تجھ سے پوچھوں کا صاقب کے بچے۔"ارسلان نے دانت چباۓ۔
"مجھے جلدی نہیں ہے۔اور آپ کو پتہ ہے ماما کہہ رہی تھیں آج میں رات کو ماچی کے ساتھ سو سکتا ہوں۔"خوش ہو کر بتایا گیا۔اس کی خوشی نے ارسلان کے دل پہ انگارے پھینکنے کا کام کیا تھا۔
"تم کباب کی ہڈی کے پیس۔تم میری شادی کے بعد پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔"وہ جل کر گویا ہوا تھا۔ورنہ محبت تو بہت تھی اس سے۔
"احسان مانیے۔آپ کے نکاح کے بعد ہی پیدا ہوا تھا۔ماما نے بتایا مجھے۔"فخریہ بتایا گیا۔
"ہاں۔میرے نکاح کے اگلے ہی دن آپ جناب کی آمد کا معلوم ہوا تھا ہمیں۔"یہ کہتے ہوۓ ارسلان اسی طرح اسے گود میں اٹھاۓ وہاں سے چل دیا۔
"کیا سچ میں؟میں اگلے دن ہی پیدا ہوگیا تھا؟"وہ حیران ہوا تھا کافی۔ان دونوں کی آواز اب دھیمی ہوتی جارہی تھی۔
"ارے نہیں۔"ارسلان نے اس کے سر سے اپنا سر آہستہ سے ٹکرایا۔
"پھر میں کب پیدا ہوا؟"ان دونوں کی آواز اب منظر سے بلکل غائب ہوچکی تھی۔
اب ہم دوسرے منظر کی طرف چلتے ہیں۔جہاں داور سٹیج پہ بیٹھا اکتایا ہوا سا بار بار اپنی کلائی میں باندھی گھڑی کی جانب دیکھ رہا تھا۔
ارسلان صاقب کو گود میں لیے سٹیج پہ چڑھا اور دوسرے صوفے پہ بیٹھ گیا۔صاقب کو بھی قریب ہی بٹھا دیا اور اس کے ہاتھ میں اپنا فون تھما دیا۔
"کتنی دیر ہے؟کہیں یہ لوگ برتن دھلوانے تو نئی لگ گئے ان دونوں سے۔"داور نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
داور کے نقوش پہلے سے سخت ہو گئے تھے۔اب وہ پانچ سال پہلے والے داور سے بلکل مختلف تھا۔
"کہا ہے ہانی سے۔وہ لا رہی ہے۔"
ایک دم سے ہال کی بتیاں بجھ گئیں اب کچھ رنگیں بتیاں ہی جل رہی تھیں۔ایک سپوٹ لائٹ داخلی دروازے کی طرف تھی۔کچھ دیر میں ہی دو سرخ لہنگے اپنے سنہرے کام کے ساتھ چمکے تھے۔آہستہ آہستہ اشکال بھی واضح ہونے لگیں۔
"دھت تیری کی۔"داور اور ارسلان کے منہ سے بےاختیار نکلا۔سٹیج کے قریب کھڑے شہریار نے اپنا گلا کھنکار کر انہیں اپنے جذباتوں پہ کنٹرول رکھنے کی تنقید کی۔
دونوں دلہنوں کے چہرے بڑے  گھونٹ سے ڈھانپ رکھے تھے۔یہ کمال بھی ہماری محترمہ کا تھا۔
"ماچو میں نے دیکھا تھا دونوں ماچیوں کو۔بلکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔"صاقب نے ان دونوں کو آگاہ کیا۔ارسلان اور داور دونوں نے ایک ساتھ ہی اندھیرے میں نیم روشنی کے ساتھ صاقب کو دیکھا۔
"کیا سچ میں؟"ْ وہ دونوں حیران ہوۓ۔
"ہاں۔ایسے لگتا ہے میرے Johnson baby powder سے منہ دھو کر آئی ہوں۔توبہ توبہ۔"صاقب نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاۓ۔داور اور ارسلان نے ایک ساتھ تھوک نگلا۔
"بس شرمندہ نہ کروائیں ہمیں۔باقی جیسے مرضی لگ رہی ہوں۔"ارسلان آہستہ سے بڑبڑایا۔
وہ دونوں سٹیج کے قریب پہنچ چکی تھیں۔فوٹوگرافر اپنی جگہ پہ کھڑا تصویریں کھینچنے کے انتظار میں تھا کہ کب دونوں دلہے اٹھ کر دونوں دلہنوں کا ہاتھ تھام کر انہیں سٹیج پہ لائیں گے۔مگر داور اور ارسلان ہنوز اسی طرح صوفے پہ بیٹھے تھے۔انہیں شاید نہیں بلکل یقیناً نہیں پتہ تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔بےشرموں کی طرح بیٹھے تھے۔سارے کھڑے منہ اٹھا کر ان دونوں کو دیکھ رہے تھے اور وہ دونوں ہونقوں کی طرح دلہنوں کو دیکھ رہے تھے کہ کب شہزادیاں سٹیج پہ چڑھیں گی۔
آخر کار فوٹوگرافر نے ہی ان دونوں کو شرم دلائی۔کہ اٹھیں اور ان کا ہاتھ تھامیں۔ان دونوں کو نہایت ہی شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ کھڑے ہوتے صاقب سٹیج پہ دونوں دلہنوں کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
صاقب نے دیکھتے ہی دیکھتے پہلے ایک دلہن کے سر سے گھونگٹ اٹھایا جس میں عالیہ تھی اور پھر دوسری دلہن کے سر سے گھونگٹ اٹھایا جس میں جنت تھی۔وہ دونوں حسن کا مکمل مجسمہ لگ رہی تھیں آج۔داور اور ارسلان جو اٹھنے والے تھے ان کو دیکھ کر اپنی جگہ بت بنے رہ گئے۔ظاہر ہے حسن کا صدمہ لگنا ہی تھا انہیں اور اس کو سنبھلنے کے لیے وقت چاہیے تھا۔
صاقب نے بازی مارتے ہوۓ اپنا دایاں ہاتھ عالیہ کی طرف بڑھایا اور بایاں ہاتھ جنت کی طرف۔
صاقب کی اس پیاری سی حرکت پہ پورا ہال تالیوں اور قہقہوں سے جھوم اٹھا۔عالیہ اور جنت بھی مسکرا اٹھیں اور اپنے ہاتھ صاقب کے چھوٹے چھوٹے ننھے ننھے ہاتھوں میں تھما دیے۔پھر بغیر اس کے ننھے ہاتھوں میں زور ڈالے وہ خود ہی سنبھلتے ہوۓ سٹیج پہ چڑھ گئیں۔آس پاس لگے اناروں میں سے چنگاریوں کے فوارے نکل رہے تھے اور فوٹوگرافر اس پیارے سے لمحے کو کیمرے میں قید کر رہا تھا۔
ہانیہ زور زور سے تالیاں بجاتی اپنے بیٹے پہ صدقے واری ہورہی تھی۔"اوہ میرا پیارا بیٹا!…"
صاقب نے ایک فلائنگ کس ہانیہ کی طرف اچھالی۔
سارا ہال لطف اندوز ہو کر یہ سب  دیکھ رہا تھا۔
صاقب بازی لے گیا تھا۔اور وہ دونوں منہ اٹھا کر بیٹھے رہ گئے تھے۔
"اب تم دونوں خود کھڑے ہوگے یا ڈولی کا بندوبست کروں؟"شہریار نے ان دونوں کے قریب آ کر سخت لہجے میں کہا تو وہ دونوں فوراً سے کھڑے ہوۓ۔عالیہ ارسلان کے اور جنت داور کے ساتھ آ کر کھڑی ہوچکی تھی۔آس پاس سے 'کلک کلک' کی آوازیں آرہی تھیں۔سب اس منظر کو اپنے اپنے موبائل کیمراز میں محفوظ کر رہے تھے۔کچھ دیر کے بعد وہ دونوں جوڑے صوفے پہ بیٹھ گئے۔صاقب ارسلان اور عالیہ کے درمیان مزے سے بیٹھا تھا۔بھلا کوئی اس کو کچھ کہہ سکتا تھا؟
"کوئی آج بہت پیارا لگ رہا ہے۔"ارسلان نے آہستہ آواز میں کہا۔
"شکریہ۔"عالیہ شرمائی۔
"میں تو صاقب کی بات کر رہا تھا۔"ارسلان نے بیان بدلا۔
عالیہ تو اس کو گھور بھی نہیں سکتی تھی۔
"کوئی آج بہت پیارا لگ رہا ہے۔"اب کہ صاقب نے کہا تھا۔
"شکریہ۔"ارسلان نے گردن ہلا کر تعریف وصول کی۔
"میں تو ماچی کی بات کر رہا تھا۔"صاقب نے بھی بیان بدلا۔عالیہ کو جی بھر کر اس پہ پیار آیا۔ارسلان نے اچھا خاصا اسے گھورا تھا۔مگر کیا کرتا،صاقب تھا ہی اتنا پیارا زیادہ دیر تک اسے گھور ہی نہ سکا۔بلکہ اس کے چہرے کے زاویے جذباتیات میں ڈھلے تھے اسے دیکھ کر۔وہ اتنا پیارا کیوں لگتا تھا آخر؟
ارسلان جھکا اور صاقب کے گال پہ ایک بوسہ دیا۔
"ماشااللہ!میری جان کے ٹکڑے روز اتنے پیارے نہ لگا کرو۔"اب عالیہ سے زیادہ اسے صاقب پیارا لگ رہا تھا۔صاقب تو شرما ہی گیا۔
عالیہ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔
فوٹوگرافی نے اسی لمحے تصویر کلک کی۔اور یہ منظر قید ہوگیا۔
اب ہم دوسرے جوڑے کی آپسی گفتگو کی طرف چلتے ہیں۔
"صاقب تو کہہ رہا تھا آج تم آتے ہوۓ آٹے کے ٹرک میں گر گئی تھی۔"داور نے اسے چھیڑنا چاہا۔
جنت سوچ میں پڑ گئی۔پھر کچھ دیر بعد اچھی طرح سوچ کر بولی۔
"ہاں یاد آیا۔آٹے کے ٹرک میں نہیں واشروم میں گری تھی۔"جنت نے یاد کر کے سر ہلایا۔داور نے تعجب سے اسے دیکھا۔
"لیکن صاقب کو کیسے پتہ چلا؟"جنت نے بغیرے ادھر اُدھر کا لحاظ کیے منہ کھول کر داور کو دیکھا۔اسی لمحے فوٹوگرافر نے ایک تصویر کلک کی۔اور یہ منظر قید ہوگیا۔
"زیادہ جلدی نہیں آگئے تم؟"عاقب زین کے ساتھ بگل گیر ہوا،اس کے بعد شہریار۔
"کیسی ہیں بھابھی صاحبہ؟"عاقب نے لاریب کی طرف دیکھ کر عزت سے پوچھا۔
"الحمدللہ!میں ٹھیک ہوں سر۔آپ سنائیں۔"لاریب آج بھی عاقب کو اتنی ہی عزت دیتی تھی جتنی اس کے آفس میں کام کے دوران دیا کرتی تھی۔
"میں بھی الحمدللہ۔شاہ ویز نہیں آیا کیا؟"
"تمہارا صاحب زادہ لے گیا ہے اسے۔"زین نے جواب دیا۔
"عنایہ!…زرا بات سنو!"شہریار نے عنایہ کو آواز دی جو مہمان عورتوں سے کوئی بات کر رہی تھی۔
شہریار کے آواز دینے پہ عنایہ نے مڑ کر شہریار کی جانب دیکھا۔
عنایہ پہلے سے کافی بڑی ہوچکی تھی۔اب وہ سولہ سترہ سالہ بچی نہیں رہی تھی۔بلکل پورے بائیس سال کی ہوچکی تھی۔وہ ان مہمان عورتوں سے معزرت کرتی شہریار کی طرف آئی۔
"لائبہ بھابھی آئی ہیں ان کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ۔"شہریار نے کہا تو عنایہ مسکراتے ہوۓ اچھے طریقے کے ساتھ لائبہ سے ملی اور اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
اب ہم ایک اور منظر کی طرف چلتے ہیں جہاں عظیم،علی اور بشیر کھڑے ایک ننھے سے بچے کو سنبھال رہے تھے جو بمشکل ہی آٹھ سے نو ماہ کا تھا۔
وہ بچہ بشیر کی گود میں مسلسل روۓ جارہی تھا۔عظیم فیڈر لے کر اس کے سر پہ کھڑا تھا۔اور علی اس بچے کے اوپر کھڑا منہ چڑھا کر اسے ہنسانے کی ناکام سی کوشش کر رہا تھا۔
"اوہو!…ادھر پکڑائیں زاویار کو۔"ہانیہ نے ان کے پاس آ کر زاویار کو ان سے لیا اور اسے چپ کروانے لگی۔
"آپ تینوں سے ایک بچہ نہیں سنبھالا جا رہا تھا۔"ہانیہ نے افسوس کیا اور کچھ ہی دیر میں زاویار چپ ہوگیا۔
"ارے میرا پیارا بیٹا!…کیوں رو رہا تھا۔ہاں!"ہانیہ نے عظیم سے فیڈر لیا اور زاویار کے منہ میں ڈالا۔زاویار اب مزے سے فیڈر پی رہا تھا۔
"ارے واہ بہنا۔ایک منٹ میں بچہ چپ کروادیا۔"علی نے داد دی۔وہ کب سے منہ چڑھا چڑھا کر تھک گیا تھا۔
"دو دو،تین تین بچوں کے باپ ہو کر آپ تینوں سے ایک بچہ نہیں سنبھالا جارہا تھا۔دیکھیں ایسے کرواتے ہیں بچے کو چپ۔"ہانیہ نے انہیں سکھایا۔
"اب ہم گھر جا کر اپنے بچوں پہ 'پریٹس' کریں گے۔"بشیر اپنے چمکتے ہوۓ دانت دکھا کر بولا۔شاید وہ آج اچھی طرح دانتوں کو چمکا کر صاف کر کے آیا تھا۔
"اوہو بشیر بھائی 'پریٹس'نہیں 'پریکٹس'ہوتا ہے۔"ہانیہ نے درستگی کی۔
"ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔"وہ کچھ خجل سا ہوا۔
اتنے میں عنایہ اور لائبہ بھی ان دونوں کے قریب آئیں۔
"ارے لائبہ بھابھی بھی آئیں ہیں۔"ہانیہ نے لائبہ کو دیکھ کر کہا۔
"جی۔"لائبہ مسکرائی۔
"اسے مجھے دیں زرا!"لائبہ نے ہاتھ بڑھا کر زاویار کو گود میں اٹھایا۔ہانیہ نے فیڈر اس کے منہ سے نکال لیا تھا۔
"ماشاللہ!"لائبہ نے دیکھتے ہی کہا۔
"بلکل شہریار بھائی پہ گیا ہے۔"لائبہ کے کہنے کی دیر تھی عنایہ ایک دم سے بلش ہوئی۔
"مجھے دیکھو۔میں آپ کی لائبہ چاچی!"لائبہ نے زاویار سے بات کی تھی وہ ایک دم سے کھلکھلایا۔
"مجھے پتہ چل گیا ہے بشیر!"عظیم نے بشیر کے کان میں سرگوشی کی۔
"کیا؟"
علی کے بھی کان کھڑے ہوگئے۔
"نہایت ہی لُچا ہے یہ۔صرف لڑکیوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔"
علی اور بشیر نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"آپ تینوں جائیں اور کھانا وغیرہ لگوائیں۔عاقب بھائی کی طرف سے آرڈر آیا ہے۔"عنایہ نے ان تینوں کو جانے کا کہا۔
وہ تینوں جو کام سے ہمیشہ بھاگتے تھے منہ لٹکاۓ وہاں سے چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد ہانیہ عنایہ کی جانب متوجہ ہوئی۔
"عنایہ!زرا شہریار بھائی کو بتانا یہ تینوں زاویار کو لُچا کہہ رہے تھے۔میں نے سنا۔"محترمہ نے شکایت لگائی۔کسی نے سنا ہو یا نہ سنا ہو۔ہانیہ کے کان ہمیشہ کھڑے رہتے تھے۔لائبہ ہنس دی۔
ایک دوسرے منظر کی طرف بھی بڑھتے ہیں جہاں وہ چار باپ اپنی ٹیبل کے گرد محفل لگاۓ بیٹھے تھے۔عالیہ کے پاپا،ہانیہ کے پاپا،عنایہ کے پاپا اور منظور علی شاہ۔منظور صاحب کے کچھ بزنس پارٹنر بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔ان کے ٹیبل پہ سب سے زیادہ رونق ہانیہ کے پاپا عثمان صاحب کی تھی۔ان کا قہقہہ ماحول میں چار چاند لگاۓ ہوۓ تھے۔
"ہاہاہاہاہاہا۔"ان کا قہقہہ ایک بار پھر کسی عام سی بات پہ گونجا۔
"ہاہاہاہا۔اب تو ہم چاروں بھی اپنے بچوں کے فرض سے آزاد ہوگئے۔ہاہاہاہا۔"عثمان صاحب کہہ رہے تھے۔
ایک اور ٹیبل پہ عالیہ کی ماما،عنایہ کی ماما،ہانیہ کی ماما اور ثمینہ بیگم اسی طرح کچھ دوسری عورتوں کے ساتھ محفل لگاۓ بیٹھی تھی۔
ان بوڑھے لوگوں کی محفل اب ساری فکروں سے آزاد تھی۔سارے مہمانوں کو ان کے بیٹے،بیٹیاں اور بہوئیں سنبھال رہی تھیں۔انہیں بھلا فکر ہونی تھی؟
اب ہم ایک اور منظر کی جانب چلتے ہیں جہاں صاقب اپنے سے ایک سال چھوٹے شاہ ویز کو ساتھ بٹھاۓ پٹیاں پڑھا رہا تھا۔
"سنو شاہ ویز!…یہ جو لڑکیاں ہوتی ہیں نا۔نہایت ہی چھچھوری ہوتی ہیں۔ان سے دور رہا کرو۔میں نے دیکھا کیسے تم اس لڑکی کو گھور رہے تھے۔"
"چچوری کیا ہوتا ہے؟"شاہ ویز نے اپنی توتلی سی زبان میں معصومانہ سوال کیا۔
"یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ۔بس سمجھ جاؤ تم۔میں نے تو ماما کو ایک لڑکی کو کہتے سنا تھا۔"
"کیا پتہ چوری کا مطلب بوت اچھی ہو۔"شاہ ویز چھچھوری لفظ کو آدھا کھا کھا کر چوری پہ پہنچ گیا تھا۔
"ارے نہیں۔ماما نے اس لڑکی کو غصے میں کہا تھا۔"صاقب ناجانے اور کیا کیا پٹیاں پڑھا رہا تھا اسے کہ فوٹوگرافر نے مائک میں کچھ کہا۔
"دلہا دلہن کی فیملی آجاۓ فیملی شوٹ ہونے لگا ہے۔"
سب پلک جھپکتے سٹیج پہ موجود تھے۔
صاقب کسی بوتل کے جن کی طرح ارسلان کی گود میں موجود تھا۔
زاویار کو داور کی گود میں تھما دیا گیا تھا۔
جس دیوان صوفے پہ داور اور جنت بیٹھے تھے اس کے پیچھے عنایہ کے ماما پاپا اور ہانیہ کے ماما بابا کھڑے تھے۔شہریار اور عنایہ دیوان صوفے پہ داور اور جنت کے دائیں بائیں بیٹھ گئے تھے۔
اور جس دیوان صوفے پہ ارسلان اور عالیہ بیٹھے تھے اس کے پیچھے منظور صاحب،ثمینہ بیگم اور ساتھ عالیہ کے ماما بابا کھڑے تھے۔
عاقب اور ہانیہ بھی دیوان صوفے پہ ارسلان اور عالیہ کے دائیں بائیں بیٹھ چکے تھے۔
عاقب نے اشارے سے زین کی فیملی کو بھی بلایا۔
لائبہ،زین اور درمیان میں شاہ ویز بھی آ کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔
"کوئی رہتا تو نہیں؟"فوٹوگرافر نے استفسار کیا۔
"ہم بھی تو ہیں۔"عظیم،علی اور بشیر ناجانے کہاں سے آگئے تھے۔
شہریار نے اتنی تیزی سے انہیں گھورا تھا جتنی تیزی سے گھورا جاسکتا تھا۔
"ارے آ جائیں آپ بھی۔"ہانیہ کے کہنے کی دیر تھی وہ تینوں چمکتے ہوۓ دانت لیے سٹیج کے درمیان میں چوکڑی مار کے کے بیٹھ گئے۔
فوٹوگرافر نے کیمرے میں دیکھا اور 'کلک' کی آواز سے تصویر کھینچ لی گئی۔
یہ لمحہ بھی ہمیشہ کے لیے قید ہوچکا تھا۔اور یہاں کہانی کا ختتام ہوچکا تھا…بلکہ نہیں…کہانی کا اختتام ابھی باقی تھا۔ابھی تو ان سب کو ایک بہت لمبا سفر طے کرنا تھا۔
عالیہ،ارسلان،داور،جنت اور ہانیہ کی چار سالہ ڈگری کا اختتام ہوچکا تھا۔
ارسلان عاقب کے ساتھ اور داور شہریار کے ساتھ اب بزنس میں انوالو تھے۔عالیہ،جنت اور ہانیہ کی تو جیسے جان چھوٹی تھی۔
ہر چیز بدل چکی تھی ان پانچ سالوں میں۔
کوئی نہیں بدلا تھا تو وہ تھی ہانیہ۔آج بھی ویسے ہی۔ان سب کی ہانی۔ناجانے کتنے ہی بھائیوں کی بہن۔ایک اولاد کی پیدائش نے بھی اسے نہیں بدلا تھا۔اور ہم سب…وہ سب…اسے ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کی کہانی تو اب آگے چلنی تھی۔لیکن میری کہانی کا اختتام آن پہنچا ہے۔میں جس طرح سے اس کہانی کو اس کے اختتام تک پہنچانا چاہیتی تھی، میں نے پہنچا دیا۔میں اپنی اس کہانی کا اختتام چند الفاظوں میں کرنا چاہوں گی۔جو کہ میری کہانی کے ہر جوڑے سے منسلک ہے۔
میری نیکی کا کوئی صلہ ہو جیسے
خزاں میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
تجھے پا کے مجھے یوں لگا
بےگھر کو گھر ملا ہو جیسے

(ختم شد)
(

آپ سب کی محبت کی وجہ سے میں اس کا سیزن ٹو لکھنے پہ مجبور ہوئی۔مجھے خوشی ہے کہ آپ سب نے اس ناول کو بہت پسند کیا۔کافی وقت لگایا میں نے اسے لکھنے میں اس کے لیے معزرت۔مجھے نہیں لگتا اس کا اختتام میں اس سے زیادہ خوبصورت کر سکتی تھی۔اگر آپ کو لگے کہ اس ناول میں کچھ ادھورا ہے تو اس کے لیے بھی معزرت۔مجھے یقین ہے آپ میں سے بہت سوں کو ایسا لگا ہوگا۔مگر میرے لیے کہانی کا یہی اختتام تھا۔آپ سب کے ساتھ اور محبت کا شکریہ)

Has llegado al final de las partes publicadas.

⏰ Última actualización: Dec 28, 2022 ⏰

¡Añade esta historia a tu biblioteca para recibir notificaciones sobre nuevas partes!

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora