"ادھر آنا ذرا بات سننا میری۔"جنت داور کے کمرے میں چاۓ کا کپ لے کر آئی تھی۔وہ واحد ان کے گھر میں ایسا شخص تھا جس کو رات کے گیارہ بجے چاۓ کی طلب ہوا کرتی تھی،جب سارے نوکر بھی اپنے اپنے کواٹرز میں جاچکے ہوتے تھے۔اس لیے رات کے گیارہ بجے داور کو چاۓ دینے کی ڈیوٹی جنت کی تھی جو کہ شہریار نے لگائی ہوئی تھی۔
"کیا ہے؟"لٹھ مار انداز میں کہا گیا۔
"میرے سر میں شدید درد ہورہی ہے اس لیے جلدی سے تیل لاؤ اور میرے سر کی مالش کرو۔"داور کا لہجہ حکم آمیز تھا اور جنت کے تو سر پہ لگی اور تلوؤں پہ بجھی۔
"نوکر نہیں ہوں تمہاری سمجھ آئی۔"پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا گیا۔
"میں شہریار بھائی کو تمہاری یہ ریکارڈگنگ سناؤں گا۔"داور نے دانت نکالے اور پھر فون میں ریکارڈنگ آن کی۔
ریکارڈنگ سنتے ہی جنت کا منہ کھل گیا۔اس کا داور پہ چیخنا ریکارڈ ہوچکا تھا۔
"بھائی کیا سوچیں گے کہ تمہیں بڑوں سے بات کرنے کی بلکل بھی تمیز نہیں ہے۔اور میں تو تم سے پورا ایک دن بڑا ہوں پورا ایک دن۔"کہہ تو وہ ایسے رہا تھا جیسے دس سال بڑا ہو۔ایک سال کا بھی اتنا ڈفرنس نہیں ہوتا جتنا وہ ایک دن کا بتاتا تھا۔
"داور یہ غلط بات ہے۔فون مجھے دو۔"وہ داور کی طرف بڑھی جو فون ایک ہاتھ میں اچکاۓ کھڑا تھا۔جنت کو بڑھتے دیکھ اس نے فون دوسرے ہاتھ میں اچک لیا اور ہوا میں بلند کردیا۔
"فون مجھے دو داور۔"وہ اچھل اچھل کر فون اچکنے کی کوشش کر رہی تھی۔مگر کہاں داور کا چھ فٹ سے نکلتا قد اور کہاں جنت کا پانچ فٹ چار انچ قد۔
"لے سکتی ہو تو لے کر دکھاؤ۔"داور کا کھیل جاری تھا اور جنت بھی پوری کوشش کر رہی تھی۔
"یہ غلط بات ہے داور۔میں کبھی بھی اس طرح نہیں کرتی۔تمہاری اور میری لڑائی ہوتی ہے تو بھائی کو نہ گھسیٹا کرو۔"وہ عاجز تھی۔لیکن پھر بھی کوشش جاری تھی۔جب اچانک اس کا پیر مڑا اور وہ اپنا بیلنس پرقرار نہ رکھ پائی اور داور کے اوپر گر گئی۔داور جو اس اچانک افتاد سے سنبھلا ہی نہ تھا وہ بھی پیچھے بیڈ پہ جا گرا۔
اب منظر یہ تھا کہ داور بیڈ پہ اور جنت اس کے اوپر۔
جنت کا دل تیزی سے دھڑکا اور پھر اس نے رفتار پکڑ لی۔وہ کبھی داور کے اس قدر قریب نہیں ہوئی تھی۔وہ خجالت کا شکار ہوئی اور سرخ ہوگئی۔
"میرے اوپر سے اٹھو موٹی۔"داور نے اسے کمر سے تھام کر اپنے اوپر سے اٹھا کر بیڈ پہ دھکیلا۔جنت اس کی حرکت پہ ایک بار پھر سرخ ہوئی اور بیڈ پہ سے اٹھ بیٹھی۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے؟"وہ چیخی۔
"اوہ ریئلی۔میرے اوپر گرنے کا شوق تمہیں چڑھا تھا مجھے نہیں۔ویسے بھی آج کل تم کچھ زیادہ ہی گر رہی ہو۔"داور نے یونی والے واقعے پہ چوٹ کی۔
"شٹ اپ۔"وہ ایک بار پھر چیخی۔اسے داور سے اس بات کی بلکل بھی امید نہیں تھی۔جو بھی تھا وہ لڑکی تھی اور اس کی بات سے ہرٹ ہوئی تھی۔
"زیادہ چیخنے کی ضرورت نہیں ہے مجھ پہ چڑیل۔"وہ دوبدو بولا۔
"یہ چڑیل کسے کہا؟"
"آف کارس تمہیں۔"
"میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔"
"روکا کس نے ہے؟"
"بس کر دو، بس کردو۔"شہریار کانوں میں انگلیاں پھساۓ کمرے میں داخل ہوا۔
"مانتا ہوں کہ ہر رات کو گیارہ بجے بھی تم لوگوں کی لڑائی ضرور ہوتی ہے مگر اس بار کچھ زیادہ ہی شور آرہا ہے اور آواز نیچے تک آرہی ہے۔"
"شہریار بھائی میں نے جنت کو کہا کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے اس لیے سر پہ مالش کر دو تو یہ بلاوجہ ہی چیخنے لگی۔میرے پاس ثبوت بھی ہے دکھاؤں آپ کو۔"اس سے پہلے کہ وہ ثبوت کھول کر آگے رکھتا جنت ہڑبڑا کر شہریار کی طرف بڑھی۔
"آپ…آپ جائیں بھائی۔یہ داور تو ایسے ہی کہہ رہا ہے۔"پھر داور کی طرف متوجہ ہوئی۔"میں کر دیتی ہوں نا مالش۔بھائی کو سونے دو کیوں انہیں ڈسٹرب کر رہے ہو۔"
"میری پیاری بہن۔مجھے یہی امید تھی تم سے۔"شہریار اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتا کمرے سے نکل گیا۔جنت نے شکر کا سانس خارج کیا۔
"چلو اب کرو میرے سر میں مالش۔"داور کا انداز ایک بار پھر حکم آمیز تھا۔
"نوکر ہوں کیا؟"وہ واپس اپنی ٹون میں آئی۔
"شہریار بھائی…!" داور نے شہریار کو آواز دینی چاہی تو جنت نے فوراً سے گھبراتے ہوۓ کہا۔
"اچھا اچھا کردیتی ہوں مالش۔"
"جلدی کرو۔"کیا نخرے تھے داور کے۔وہ کشن رکھ کر زمین پہ بیٹھ چکا تھا۔جنت تیل لے آئی تو وہ بھی صوفے پہ بیٹھ گئی۔
"اب کہ منظر کچھ یوں تھا کہ جنت صوفے پہ تھی اور داور کشن رکھے زمین پہ بیٹھا تھا۔
جنت نے مالش شروع کی تو داور کو سکون آنے لگا۔
"ویسے ایک بات ہے ڈفر!…تم چیختی جتنا زیادہ ہو مالش اتنی ہی اچھی کرتی ہو۔"
جنت خاموش رہی،کچھ نہ بولی۔داور نے چہرہ اسی اینگل میں تھوڑا سا پیچھے کیا تو دیکھا جنت کو نیند کے جھونکے آ رہے ہیں۔وہ صبح سے اٹھی ہوئی تھی اور اب تکان کی وجہ سے نیند زیادہ آرہی تھی۔مگر وہ پھر بھی اسی طرح مالش کر رہی تھی۔
"ایسا کرو تم جاؤ۔میرا سر درد ختم ہوگیا۔"داور نے کہا تو جنت نے شکر ادا کیا۔
"تمہاری جنرل نالج کی بک میرے پاس ہے وہ لیتی جانا۔"وہ کہہ کر اٹھا اور اپنی الماری کی طرف بڑھ گیا۔
دو منٹ بات جب وہ کتاب لیے مڑا تو وہ صوفے سے ٹیک لگاۓ سوچکی تھی۔
"جنت اٹھو!"وہ اسے پکارنے لگا مگر وہ ہنوز اسی طرح سوئی رہی۔
"جنت اٹھو!"ایک بار پھر اٹھایا گیا۔
"یہ لڑکی بھی نا آدھا نشہ کر کے سوتی ہے۔"وہ کتاب ٹیبل پہ رکھتا جنت کے پاس گیا۔
ایک لمبا سانس خارج کرنے کے بعد داور نے جنت کی گردن کے پیچھے ایک ہاتھ ڈالا اور دوسرے ہاتھ کو اس کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کر گود میں اٹھا لیا۔
"یہ لڑکی دن بدن بھاری ہوتی جارہی ہے۔"وہ خود سے ہی مخاطب تھا۔کیونکہ اسے روز کا تجربہ تھا۔وہ رات روز اسے کسی نا کسی کام کی وجہ سے روک لیا کرتا تھا،زیادہ تر پڑھائی کی وجہ سے۔اور وہ یوں ہی سوجایا کرتی تھی۔
وہ اسے اسی طرح اٹھاۓ سیڑھیاں اتر رہا تھا۔اور ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ منظر دیکھ کر شہریار مسکرایا تھا۔
وہ دونوں چاہے جتنا بھی لڑ لیں،جتنی بھی ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر لیں مگر خیال دونوں کو ہی ایک دوسرے کا تھا،بس جتاتے نہیں تھے۔
’چاچو کو ہمیشہ افسوس ہوا کرتا تھا ان دونوں کے جھگڑے دیکھ کر۔انہیں لگتا تھا کہ ان دونوں کا نکاح کروا کر انہوں نے غلطی کردی ہے۔مگر وہ شاید غلط ہی سمجھتے تھے۔‘
شہریار سوچ رہا تھا اور پھر صوفے سے اٹھ کر وہ بھی اپنی کمرے کی طرف چل دیا۔
وہ دونوں ہی بارہ سال کے تھے جب ان کا نکاح ہوا تھا اور دونوں ہی اس بات سے واقف تھے۔
داور اسے اسی طرح اٹھاۓ اس کے کمرے میں داخل ہوا اور پھر اسے بیڈ پہ لٹا کر اس کے اوپر لحاف دے دیا۔
وہ کمرے سے جانے ہی لگا تھا کہ ایک خیال کے تہت وہ مڑا اور جنت کے چہرے کو دیکھنے لگا۔پھر آہستہ سے جھک کر اس کا چشمہ اتار کر سائڈ ٹیبل پہ رکھا۔
ایک آخری بار اسے دیکھ کر اس کی چھوٹی سی ناک پہ بوسہ دیا اور وہاں سے چلا گیا۔
کسی احساس کے تہت جنت نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔جلدی سے اٹھ کر ادھر اُدھر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔اپنے آپ کو بیڈ پہ دیکھ کر سمجھ گئی کہ کون لایا ہوگا۔
"ہمیشہ کی طرح ضرور بھائی ہی اٹھا کر لائے ہوں گے۔ورنہ اس داور کا بس چلے تو سیڑھیوں سے ہی پھینک کر پکی پکی اپنی جان چھڑوا لے۔"اپنے آپ سے ہی بڑبڑاتی وہ پھر سے لیٹ گئی۔
بےساختہ اس نے اپنی ناک کو چھوا۔کسی کے لمس کا احساس ہورہا تھا۔پھر سر جھٹک کر دوبارہ سو گئی۔
"تھینکس بھائی۔"صبح کا وقت تھا جب وہ تینوں ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔
"کس لیے؟ْ"شہریار نے بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوۓ پوچھا۔
"ہمیشہ کی طرح کل رات بھی مجھے اٹھا کر کمرے میں پہنچانے کے لیے۔"وہ مسکرا رہی تھی۔شہریار نے کنکھیوں سے داور کو دیکھا جو لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ناشتے میں مصرورف تھا۔
"کوئی بات نہیں۔یہ تو حق تھا۔"شہریار ابھی بھی داور کو ہی دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔
"حق نہیں فرض۔"جنت نے ہنستے ہوۓ تصحیح کی۔
"میں چلتا ہوں اب۔"داور ٹیبل سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"آج جنت کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ڈرائیور چھٹی پہ گیا ہے۔"شہریار کے حکم پہ دونوں کے ہی منہ کھل گئے۔
"داور کے ساتھ اور وہ بھی اس کی بائک پہ؟آپ کو پتہ ہے بھائی یہ کتنی تیز بائک چلاتا ہے۔"جنت نے صاف منع کیا۔
"مجھے بھی تم جیسی چڑیل کو اپنے ساتھ لے جانے کا کوئی شوق نہیں۔"وہ بھی دوبدو بولا۔
"ہاں ہاں جاؤ اپنی اس کھٹارا پہ۔میں بھائی کے ساتھ چلی جاؤں گی۔ہےنا بھائی؟"آخر میں لاڈ سے شہریار کو مخاطب کیا گیا۔
"بلکل نہیں۔میں آج تھوڑا لیٹ آفس جاؤں گا۔اور اگر جلدی بھی جاتا تو تمہیں لے کر بلکل بھی نہ جاتا۔تمہیں پتہ ہے میرا آفس تمہاری یونی سے کتنا دور ہے۔"شہریار نے تو صاف ستھری کر کے جواب دیا تھا۔
جنت کے تاثرات دیکھ کر داور نے مسکراہٹ دبائی۔
"بھائی!…مجھے تو لگتا ہے یہ داور آپ کا سگا بھائی ہے اور میں سوتیلی۔"وہ خفگی سے کہہ رہی تھی۔
"بلکل ایسا ہی ہے ڈفر۔کوئی شک ہے کیا؟"داور کا انداز جتانے والا تھا۔
"دیکھا!…دیکھا آپ نے بھائی۔کس طرح یہ مجھے میرے ناموں سے پکارتا ہے۔"وہ شکایتی انداز میں گویا ہوئی۔
"میں کچھ بھی نہیں سنوں گا۔داور کے ساتھ جاؤ گی تم۔"شہریار نے گویا بات ہی ختم کی اور وہاں سے چلتا بنا۔
جنت بھی غصے سے دانت چباتی اپنا بیگ اٹھا چکی تھی۔داور دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔
"آج تو تمہیں ایسی جنت دکھاؤں گا کہ تمہارا دل ہی نہیں کرے گا میری کھٹارا بائک سے اترنے کو۔"وہ اب اسے چڑا رہا تھا اور جنت کو رونا آنے لگا۔اسے یاد تھا آخری بار جب وہ اس کی بائک پہ بیٹھی تھی تو وہ اسے اچھی خاصی جہنم کی ہواؤں کی سیر کروا چکا تھا۔
"دیکھنا جنت آج میں تمہیں جنت دکھاؤں گا۔"داور اپنی بائک پہ بیٹھتے ہوۓ اس سے مخاطب تھا۔
جنت کے کہے کے مطابق وہ کھٹارا تو بلکل بھی نا تھی۔وہ جدید ماڈل کی نئی ہیوی بائک تھی جو شہریار نے اسے اس کی برتھ ڈے پہ گفٹ دی تھی۔
جنت دل گرفتگی کے ساتھ اس کے پیچھے بیٹھ گئی ۔
"آج دیکھنا تمہیں جنت دکھاؤں گا۔"وہ بار بار ایک ہی بات کہہ کر جنت کو خوفزدہ کر رہا تھا۔
"دیکھو اس بار مجھے مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھنا۔پچھلی بار تم گر گئی تھی اور یاد ہے کتنی چوٹیں آئی تھی۔"داور نے اس کا زخم تازہ کیا۔
جنت جتنی مضبوطی سے اسے پکڑ سکتی تھی پکڑ گئی۔اور آنکھیں زور سے میچ لیں۔
"اوکے جنت!…پھر تیار ہو جنت دیکھنے کے لیے۔"وہ کہتے ہی بائک سٹارٹ کر گیا۔
اب کہ جنت کی چیخیں تھیں،داور تھا اور اس کی تیز رفتاری سے چلتی ہیوی بائک۔جس پہ بٹھا کر وہ اسے جنت کی سیر کروا رہا تھا۔
۞……۞……۞
جاری ہے۔۔
(باقی آئندہ کل)
VOCÊ ESTÁ LENDO
جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)
Humorمیرا پہلا ناول جنونیت ہے یہی'جس کو آپ سب کے پیار اور محبت نے مجھے آگے بڑھانے کا موقع دیا ہے۔اس وجہ سے میں نے سیزن 2 لکھنے کے بارے میں سوچا۔اب ہم ہانیہ عثمان اور عاقب علی شاہ کی کہانی کے ساتھ ساتھ ارسلان علی شاہ کی کہانی کو بھی مکمل کریں گے۔لیکن یاد...