episode 3

163 12 0
                                    

ہانیہ اور ارسلان اب عاقب کے سامنے اپنے دانت نکال کر کھڑے تھے۔اور وہ جو سنڈے کے دن بھی اپنا سارا آفس ورک گھر لے آیا تھا'اس وقت مصروف سا اپنے لیپ ٹاپ اور فائلز کے جھڑمٹ میں الجھا ہوا تھا۔
عاقب نے پہلے تو ان دونوں کی حالت کو دیکھا اور پھر ہانیہ کے ہاتھ میں موجود ٹرے کو دیکھا۔عاقب کا قہقہہ اچانک سے ہی فضا میں بلند ہوا تھا۔اگر کوئی جیتا جاگتا لطیفہ اس کی نظر میں تھا تو وہ'وہ دونوں تھے۔
”ارسلان!…یہ اس طرح سے کیوں ہنس رہے ہیں۔میں اچھی تو لگ رہی ہوں نا۔“ہانیہ نے ایک نظر اپنے خراب حلیے کو دیکھتے ہوۓ الٹی کھوپڑی کے مالک ارسلان سے سوال کیا۔
”ہانی مجھے تو ہمیشہ کے جیسی لگ رہی ہو۔یقیناً مجھے دیکھ کر ہنس رہے ہوں گے۔میں کیسا لگ رہا ہوں ہانی؟“ارسلان نے بھی ایک نظر اپنے خراب حُلیے کو دیکھا۔ایپرین اور ٹوپی کو اتارنے کی تو توفیق ہی نہیں کی گئی تھی۔
”تم بھی اچھے لگ رہے ہو ارسلان۔“ہماری محترمہ کے دماغ کا سکریو تو پہلے سے ہی ڈھیلا تھا۔
”تم دونوں……تم دونوں نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے اپنی شکل دیکھو اپنی آئینے۔“عاقب کا تو قہقہہ مانو تھم ہی نہیں رہا تھا۔ہانیہ اور ارسلان نے فوراً سے کمرے میں موجود ڈریسنگ میرر میں جھانک کر دیکھا۔
”میں زیادہ بری تو نہیں لگ رہی۔بس چہرے اور کپڑے خراب ہوگئے ہیں۔اور چشمہ بھی تھوڑا سا خراب ہوگیا ہے۔بس۔“ہانی نے اپنے آپ کو غور سے آئینے میں دیکھا۔
”تھوڑا سا!……یہ تھوڑا سا ہے۔“عاقب ہنستے ہوۓ اچانک شاکڈ ہوا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ہمیں چھوڑیں اور یہ لیں۔یہ میں اور ارسلان آپ کے لیے بنا کر لائیں ہیں۔“ہانیہ نے ٹرے سامنے ٹیبل پہ اس کی فائلز کے درمیان رکھ دی۔
”لیکن کس لیے؟“وہ اچنبھے سے پوچھ رہا تھا۔
”آپ ہانی سے ناراض ہوگئے تھے نا تو اس لیے۔آپ کو منانے کے لیے ہی ہم نے یہ کھانا بنایا ہے۔“جواب ارسلان کی طرف سے آیا تھا جبکہ ہماری پیاری محترمہ ہاتھوں کی انگلیاں چٹخاتی سر جھکاۓ مسکین سی شکل لیے کھڑی تھیں۔
عاقب کو پہلے تو جھٹکا لگا لیکن پھر خوشگورا حیرت کے ساتھ کھانے کی ٹرے اور ان دونوں کو دیکھا۔
”اچھا۔میں ناراض تھا؟“اسے جیسے پھر سے یاد نہ آیا۔
”ہاں بھائی کل ہوۓ تھے نا آپ ناراض ہم دونوں سے۔“ارسلان نے یاد دلوانے کی کوشش کی۔
”اچھا یاد دلوایا۔“عاقب نے ان دونوں کی بےوقوفانہ حرکت پہ انہیں سراہا۔
”ہاں اب ٹیسٹ تو کریں کہ کیسا ہے؟“ہانیہ تھوڑا پرجوش ہوئی۔
”کرتا ہوں جی ٹیسٹ۔“عاقب نے اپنی توجہ ٹرے پہ مرکوز کی اور چائنیز اٹھا لیے۔اور جیسے ہی ایک چمچ منہ میں ڈالا اسے ایسے محسوس ہوا جیسے چاولوں میں شہد گھول دیا ہو۔
”مجھے یقین ہے کہ یہ تم دونوں نے ہی بناۓ ہیں۔“عاقب نے اپنے تاثرات نارمل ظاہر کیے اور پھر وانیلا کیک اٹھا لیا۔اور اسے ٹیسٹ کرتے ہی اسے زور کا اچھو لگا۔
اس نے جلدی سے پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا۔
ارسلان اور ہانیہ تو ہونق بنے بس اسے ہی تک رہے تھے۔
”کیسا بنا ہے؟“ان دونوں کا ایک ساتھ سوال گونجا۔اتنا کچھ دیکھ کے بھی وہ آدھے دماغ سے سٹکے ہوۓ تھے۔
”بہت خوب۔میں نے آج تک ایسا کھانا نہیں کھایا۔“عاقب نے افسوس سے ان دونوں کو دیکھا۔
”سچی؟“وہ دونوں یک دم خوشی سے چہکے۔
”خدا گواہ ہے۔“عاقب جتنا افسوس ان دونوں پہ کرسکتا تھا وہ کم تھا۔
”اب تو آپ ناراض نہیں؟“ہانیہ نے اپنے پتے کا سوال پوچھا۔
”میں پہلے بھی ناراض نہیں تھا۔“عاقب نے کھڑے ہو کر اس کے گال کھینچے۔ہانیہ ایک دم سے انار ہوئی۔
”اچھا۔“وہ سمجھ گئی تھی۔وہ ہمیشہ بہت جلدی سمجھ جاتی تھی۔ہماری محترمہ کو تو پیدائیشی بہت زیادہ سمجھ آتی تھی۔ضرورت سے زیادہ سمجھ آجاتی تھی۔
”پاگل۔“وہ ہنسا تھا۔
اچانک کسی کے کھانسنے کی بہت تیز آواز کمرے میں گونجی۔
ارسلان جو کہ ان دونوں کو مصروف دیکھ منہ میں پانی بھرے اپنے بناۓ گئے کھانے کی طرف متوجہ ہوچکا تھا،یہاں تک صوفے پہ بیٹھا چائیبیز اٹھاۓ مزے سے پہلا لقمہ بھی لے چکا تھا،اب بہت تیزی کے ساتھ زور زور سے کھانس رہا تھا۔
عاقب نے مسکراہٹ لبوں میں دبائی جبکہ ہانیہ محترمہ نے اپنے بھائی کے لیے جٹ پٹ پانی کا گلاس پیش کیا۔
”کیا ہوا ارسلان؟“ہانیہ نے اس سے سوال کیا جو کہ ابھی تک کھانس رہا تھا۔
”دکھ…نہیں رہا…کہ…کہ کھانس رہا ہوں۔“کھانستے ہواۓ اٹک اٹک کر جواب آیا۔پانی کو حلق سے اتارتے ہی جیسے اسے تھوڑا سا سکون ملا۔
”ہانیہ یہ کیا بنایا ہے یار تم نے۔کیک میں نمک کون ڈلتا ہے وہ بھی اتناااا زیادہ!“ارسلان کا دماغ اپنی جگہ پہ نہیں تھا۔
”کیاااا؟“ایسا کیسے ممکن ہے؟“ہانیہ پہلے تو بےیقین ہوئی اور پھر جلدی سے کیک کا سلائس اٹھا کر منہ میں ڈال گئی۔عاقب نے اپنے سر پہ ہاتھ رکھے شاکڈ کی سی کیفیت سے اسے دیکھا۔پانی ختم ہوچکا تھا۔اور ہانیہ اب شدت سے کھانس رہی تھی۔عاقب کا دل مانو سوکھ کر حلق میں آگیا تھا۔وہ جلدی سے دیوانہ وار کمرے سے نیچے کی طرف بھاگا۔
ارسلان بھی فوراً سے اٹھ کر اس کے سامنے کھڑے ہو زور زور سے، زور زور سے، کافی زور سے ہانی کی کمر تھپکنے لگا۔بلکہ ایسا کہنا ٹھیک ہوگا کہ وہ تھپک کم اور اسے تھپڑ زیادہ لگا رہا تھا۔
”ہانی تم ٹھیک ہو۔“ارسلان پریشانی میں کچھ زیادہ ہی اونچا بولنا شروع ہوگیا تھا۔ہانیہ کو اس کی آواز سے اپنے کان کے پردے پھٹتے ہوۓ محسوس ہوۓ۔
”جاہل انسان……آ……آہستہ بولو۔مجھ……مجھے سنتا ہے۔“کھانس کھانس کر اس کی آنکھیں بھی سرخ ہوچکی تھیں۔
”عاقب بیٹا کیا ہوا۔“عاقب کو کچن کی طرف دوڑ لگا کر واپس آتے دیکھ کر ثمینہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔جو کہ اب ان کی سنے بغیر ہی ہاتھ میں پانی کی بوتل لیے اوپر کی طرف بھاگ چکا تھا۔منظور علی شاہ بھی حیران تھے۔
”اللہ خیر کرے۔“وہ دونوں بھی اس کے پیچھے بھاگے۔
عاقب نے جلدی سے کمرے میں قدم رکھا اور ہانیہ کے منہ سے پانی کی بوتل لگائی۔
ہانیہ نے جلدی سے پانی حلق سے اتارا۔عاقب آہستہ آہستہ اب اس کی کمر بھی سہلا رہا تھا۔جبکہ ارسلان تو بس ہونقوں کی طرح کھڑا تھا۔
پانی پینے کے بعد ہانیہ کچھ آرام دہ ہوئی۔
عاقب نے شکر کا سانس خارج کیا اور ہانیہ کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کر بھینجا۔
”میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔“آہستہ سے اس کے ہجاب پہ بوسہ دیتا وہ تھوڑا پرسکون ہوا۔
ارسلان تو ان کا رومانوی انداز دیکھ کر کمر پہ ہاتھ رکھے ادھر اُدھر دیکھ کر کمرے کا جائزہ لینے میں مصروف ہوگیا تھا۔جیسے وہ تو انہیں دیکھ ہی نہیں رہا،جبکہ اس کا سارا دھیان ان دونوں کی طرف ہی تھا اور دل ہی دل میں وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ وہ بھی فیوچر میں اپنی وائف عالیہ کے ساتھ ایسے ہی کرے گا۔اپنے فیوچر کے بارے میں منصوبے بناتا وہ بلاوجہ ہی خوش ہوچکا تھا۔
منظور علی شاہ اور ثمینہ بیگم بھی کمرے میں داخل ہوچکے تھے۔سامنے کا منظر دیکھ انہوں نے بھی اوپر نیچے دیکھنا شروع کر دیا۔
”سنیے!…مجھے لگتا ہے میں نیچے اپنی تسبیح بھول آئی ہوں۔“یہ ثمینہ بیگم کہہ رہی تھیں جن کے ہاتھ میں تسبیح پہلے سے ہی موجود تھی۔
”مجھے لگتا ہے میں بھی اپنا چشمہ نیچے ہی بھول آیا ہوں۔“وہ ہڑبڑا کر بولے اور دونوں نے جلدی سے نیچے کا رُخ کیا۔
ارسلان ابھی بھی کمرے کے نقش و نگار کو حفظ کرنے میں مصروف تھا جب ثمینہ بیگم آئیں اور اسے گھسیٹنے کے سے انداز میں نیچے لے گئیں۔
”شرم آتی ہے تمہیں۔“
”بےشرمی کی بھی حد ہوتی ہے ارسلان۔“
”ہمیں تم سے یہ امید نہیں تھی ارسلان۔“
نیچے آتے ہی منظور علی شاہ اور ثمینہ بیگم نے ارسلان کو اچھا لیکچر جھاڑا اور پھر یہ جا وہ جا۔
ارسلان تو منہ کھولے بس شاکڈ کی سی کیفیت میں ہی کھڑا رہا۔
”رومینس وہ کر رہے تھے یا میں!شرم انہیں آنی چاہیے یا مجھے۔“اب وہ اپنے آپ سے ہی سوال کر رہا تھا۔
”میں جلدی سے عالیہ کو بھی یہ بتاتا ہوں۔“چٹکی بجا کر خوش ہوتے ہوۓ وہ اپنا فون جیب سے نکال چکا تھا۔اور عالیہ کا نمبر ملا کر جلدی سے اس نے فلیجل کی گولی لی۔
(فلیجل کی گولی لینے سے مراد اس نے جی بھر کر اپنا پیٹ ہلکا کیا)

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang