شادی کی تاریخ رکھ دی جا چکی تھی۔اگلے مہینے کی۔ان سب کی واپسی کا وقت آیا تو سب رخصت ہو لیے۔جنت کسی سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔اور داور…اس کی تو نظر ہی جنت پہ جمی تھی۔جب عاقب اور ہانیہ،ارسلان کو لے کر گھر میں داخل ہوۓ تو ارسلان اور داور کی نظریں ملیں۔ارسلان نے فوراً نظروں کا رخ پھیر لیا۔آنکھوں میں ایک بار پھر تکلیف ابھری تھی۔داور نے اس چیز کو شدت سے محسوس کیا تھا۔داور شرمندہ تھا۔اسے بےحد شرمندگی تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جاۓ۔
"سوری!…"ہانیہ داور کے سامنے اچانک سے برآمد ہوئی تھی۔داور نے تعجب سے اسے دیکھا۔
"مجھے تمہیں تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا۔"وہ شرمندہ سی تھی۔
"اٹس اوکے۔"داور نے اسے جیسے جانے دیا۔
"بلکہ تمہاری ٹانگیں توڑنی چاہیے تھی اور زبان کو ہری مرچ سے مسلنا چاہیے تھا۔"ہانیہ کہہ رہی تھی اور داور اپنی جگہ شاکڈ ہوگیا۔
"خیر اب تم میرے بھائی ہو۔اور ہانیہ جس کو بھائی بنا لیتی اس کی ہر قدم پہ مدد کرتی ہے۔اگر میری ہیلپ چاہیے ہو تو بتا دینا۔"کہتے ساتھ وہ رفو چکر ہوگئی۔
داور کے لبوں کو اچانک مسکراہٹ نے آن چھوا۔
عاقب ہانیہ کو بتا چکا تھا کہ داور شرمندہ ہے۔سب کی واپسی کا وقت ہوا تو سب اپنے گھروں کو چل دیے۔
وہ تینوں بھی اپنے گھر واپس پہنچ چکے تھے۔داور اپنی بائک پہ آیا تھا جبکہ جنت اور شہریار گاڑی میں۔اپنی خوشی میں شہریار اپنی بہن کا مرجھایا ہوا چہرہ ہی نہ دیکھ سکا۔
"جب شادی ہو جاۓ گی تو میرا کیا ہوگا؟بھائی تو مجھے بھول ہی جائیں گے۔اور داور…داور تو پہلے ہی۔"اس کی آنکھوں سے تیزی کے ساتھ آنسو جاری ہوۓ تھے جنہیں اس نے برق رفتاری کے ساتھ صاف کیا تھا۔
"میں تو خالی ہاتھ رہ گئی ہوں۔"اس نے بےاختیار اپنی ہتھیلیوں کو دیکھا اور رخ کھڑکی کی طرف کر لیا۔شہریار ڈرائیو کرتے ہوۓ خوشی میں ناجانے کیا کیا کہہ رہا تھا جس کا جواب جنت 'ہوں،ہاں' میں دے رہی تھی۔
رات کا وقت ہو رہا تھا اور وہ اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھی۔وہ کھڑکی کے پاس زمین پہ بیٹھی تھی اور بازو سامنے کھڑکی میں رکھے ان میں چہرہ گراۓ سامنے چاند کو تک رہی تھی۔دن کا واقعہ بار بار ذہن کی سکرین پہ آرہا تھا اور اس کے رونے کا باعث بن رہا تھا۔چاند کی روشنی میں اس کے آنسو چشمے کے پیچھے سے کسی انمول موتی کی طرح چمک رہے تھے جس کی کسی کو کوئی پرواہ نہ تھی۔
"ماں ہے میرے پاس نہ باپ۔ایک بھائی تھا…اس کی بھی شادی ہو جاۓ گی،پھر ان کی محبت بھی بنٹ جاۓ گی۔اور جو ایک شخص بچا تھا……اس نے تو دل سے ہی اتار دیا مجھے……کسی اور کا کہہ کر۔"وہ آہستہ آہستہ خود سے باتیں کر رہی تھی۔ساتھ ساتھ رو رہی تھی۔
اس کے کمرے میں کوئی داخل ہوا تھا۔مگر وہ سوچوں میں اتنی محو تھی کہ اسے محسوس تک نہ ہوا۔کوئی قدم قدم چلتا اس کے قریب آرہا تھا،مگر وہ ہوش میں ہوتی تو تب محسوس کرتی۔وہ ہولے ہولے کچھ کہہ رہی تھی چاند کو دیکھ کر۔وہ شخص اس کے پیچھے ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔وہ داور تھا۔
داور چہرہ تھوڑا سا آگے لے کر آیا۔جنت کچھ کہہ رہی تھی۔وہ شاید کوئی نظم گُنگنا رہی تھی۔
KAMU SEDANG MEMBACA
جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)
Hài hướcمیرا پہلا ناول جنونیت ہے یہی'جس کو آپ سب کے پیار اور محبت نے مجھے آگے بڑھانے کا موقع دیا ہے۔اس وجہ سے میں نے سیزن 2 لکھنے کے بارے میں سوچا۔اب ہم ہانیہ عثمان اور عاقب علی شاہ کی کہانی کے ساتھ ساتھ ارسلان علی شاہ کی کہانی کو بھی مکمل کریں گے۔لیکن یاد...