"علینہ!…آج دیکھنا میں تم سے سارے اگلے پچھلے بدلے لے لوں گی۔ایمبولینس کو ابھی فون کرنا ہے تو جلدی جلدی سے کر لو۔کیونکہ آج تم نے معذور ہو کر جانا ہے۔"محترمہ نے باکسن کے سٹائل میں فل مکے بنا کر دکھاۓ تھے۔
"دماغ ٹھکانے پہ ہی ہے نا۔یا شادی کے بعد وہ بھی اڑ گیا ہے۔"علینہ نے طنز کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
"علینہ!ْ…قسم سے آج تو ختم ہے۔"محترمہ اس سے پہلے کے آگے بڑھ کر دو تین اسے جڑ دیتی اس سے پہلے ہی ارسلان تیزی سے آگے بڑھ اور سرگوشی نما آواز میں بولا۔
"ہانیہ!……اللہ کی قسم ہے تمہیں آج پیچھے مڑ کر دیکھ لو۔"
"کیوں؟پیچھے سر رضوان کھڑے ہیں کیا؟"ہانیہ نے تو مانو کوئی اثر ہی نہیں لیا تھا اس کی بات کا۔
"نہیں۔"ارسلان کی دبی دبی سی آواز نکلی۔
"تو کیا پھر ڈین کھڑے ہیں؟"ہانیہ عاجز ہوئی۔
"نہیں ان سے بھی بڑی چیز کھڑی ہے پیچھے۔"ارسلان کے تاثرات ہی ٹینشن سے بگڑ چکے تھے۔
"افوہ ارسلان! پھر پیچھے ہٹو۔وقت برباد کر دیا میرا۔ابھی اس علینہ کی دھلائی کرنے دو مجھے۔"
"اسے بعد میں دھو دینا بیگم!…"پیچھے سے عاقب کی آواز ابھری تو ہانیہ اپنی جگہ ساکت و جامد ہو گئی۔
عاقب کافی غصے میں کھڑا تھا اور ہانیہ کی پیچھے مڑنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔عالیہ اور ارسلان کا گلا بھی خشک ہو گیا تھا۔جبکہ داور اور جنت اتنا تو سمجھ ہی چکے تھے کہ وہ شخص اور کوئی نہیں بلکہ ہانیہ کا شوہر عاقب علی شاہ ہے۔
علینہ ہانیہ کے تاثرات دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی۔
ہانیہ نے سختی کے ساتھ اپنی آنکھیں بھینجی اور ہمت کرتے آہستہ سے پیچھے مڑی۔پھر تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھول کر عاقب کو دیکھا جو بپھرا کھڑا تھا۔
ہانیہ نے خوف سے آنکھیں بھینج کر دوبارہ کھولیں۔
خوف اور شرمندگی سے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔
عاقب نے ایک ابرو اچکائی جیسے اس کی گنڈہ گردی کی وجہ دریافت کرنا چاہ رہا ہو۔
"میں…میں نے قسم سے…کچھ بھی نہیں کیا۔وہ تو…وہ تو(تھوک نگلا)یہ جو علینہ ہےنا سارا قصور ہی اسی کا ہے۔"آخر میں سارا الزام علینہ کے سر پہ دھر دیا گیا جس کا منہ کھل گیا تھا۔
"ہاں ہاں۔سارا قصور علینہ کا ہی تھا۔"عالیہ اور ارسلان نے بھی اس کی تائید میں سر ہلایا۔
"ہاں ہاں۔بیچاری ہانیہ کا تو کوئی قصور ہی نہیں۔"اب کہ داور اور جنت نے بھی ہانیہ کی تائید کی۔
"عالیہ اور ارسلان کا تو مجھے پتہ ہے لیکن تم دونوں نئی بلائیں بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئی ہو۔"عاقب نے سنجیدگی اور رعب دار لہجے میں کہا تو جنت اود داور کی گردنیں جھک گئیں۔
"ہانی ادھر آؤ۔"عاقب نے انگلی کے اشارے سے ہانیہ کو اپنے پاس آنے کا کہا جو سر جھکاۓ کھڑی تھی۔اسے پتہ تھا اب اس کے شوہر کے ہاتھوں اس کی عزت افزائی ہونے والی ہے۔
اسے ہنوز اپنی جگہ کھڑا دیکھ کر عاقب نے تیز آواز میں ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"ہانیہ عاقب شاہ! میں نے کہا ہے کہ یہاں آؤ۔"
ہانیہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی عاقب کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔اور پھر عاقب نے اپنا نہ ختم ہونے والا لیکچر شروع کر دیا۔
"کتنی بار کہا ہے ہانی کے اب بڑی ہو جاؤ۔"
"میں اب جمپ لگا کر تو پچس تیس سال کی نہیں ہوسکتی نا۔آہستہ آہستہ ہی ہوں گی۔اب اللہ نے رول ہی ایسا بنایا ہے تو اس میں میرا کیا قصور۔"عاقب کی گھوری پہ اس کی بولتی بند ہوگئی،پھر آہستہ سے بولی۔
"سوری!…"
"تم نے قسم اٹھا لی ہے ہانی کہ اب تم نے نہیں سدھرنا۔"اور ایک بار پھر سے عاقب کا لیکچر شروع ہوگیا۔
وہ چاروں بےچارگی سے ہانیہ کو دیکھ رہے تھے جو اکیلے ہی ڈانٹ سن رہی تھی،جبکہ علینہ فل انجواۓ کر رہی تھی۔
"چلو چلیں۔میں تمہیں لینے آیا ہوں۔"اچھی خاصی ہانیہکو جھاڑ پلا کر وہ اب اصل موضوع پہ آیا۔
"لیکن کیوں؟"ہانیہ متذزب ہوئی۔
"باہر چل کر بتاتا ہوں۔"عاقب نے ایک نظر جنت اور داور کو دیکھ کر کہا۔
"اچھا تو کیا ارسلان بھی ہمارے ساتھ چلے گا؟"نیا سوال آیا۔
اس کا سوال تھا کہ کیا،عاقب نے ایک غصے بھری گھوری سے ارسلان کو نوازا جیسے سارا قصور اسی کا ہو۔
ارسلان لا منہ لٹک گیا'اب اس میں میرا کیا قصور'
"نہیں اسے میں بعد میں لے جاؤں گا۔"عاقب نے جواباً۔
"کیوں؟کیا ہم کوئی پرسنل ڈیٹ پہ جا رہے ہیں؟"ہانیہ چہکی۔جبکہ باقی سب نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔
عاقب تو اس کی بات سن کر ہی سب کے سامنے سٹپٹا سا گیا تھا۔
"ہانی!…ایسی باتیں سب کے سامنے نہیں کرتے۔"عاقب دبے دبے لہجے میں اسے باور کروایا۔
"اچھا!…چلیں پھر چلتے ہیں۔"وہ افسردہ ہوئی۔وہ کسی پرسنل ڈیٹ کی توقع کر رہی تھی۔
عاقب اسے لیے وہاں سے جا ہی رہا تھا کہ کب سے خاموش کھڑی علینہ کی آواز گونجی جسے سن کر سب نے ہی حیرت اور غصے سے علینہ کو دیکھا اس کے بعد جاتی ہوئی ہانیہ۔
"اسے بس اس کا جلاد شوہر ہی قابو کر سکتا ہے۔"
ہانیہ اشتعال میں فوراً سے مڑی تھی۔غصہ تو عاقب کو بھی اس بار آیا تھا۔
عاقب کا خیال کیے بغیر ہانیہ گولی کی سی سپیڈ سے علینہ کی طرف بڑھی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ علینہ کا منہ نوچ لیتی جنت اور عالیہ نے آگے بڑھ کر اسے قابو کیا۔
"چھوڑو مجھے۔اس علینہ کی تو ایسی کی تیسی۔"ہانیہ بےقابو ہوتی جارہی تھی۔
اس بار تو علینہ بھی سہم گئی۔
ارسلان اور داور نے تو اپنے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھ لیے تھے اور انگلیوں کے درمیان سے منہ کھولے سامنے کا منظر دیکھ رہے تھے۔
عاقب تو اپنی بیوی کا یہ جلال روپ دیکھ کر ہکا بکا کھڑا تھا۔
"چلو فروہ یہاں سے۔مجھے منہ ہی نہیں لگنا اس پاگل کے۔"علینہ نے اپنے خوف پہ قابو پاتے ہوۓ اپنے ساتھ کھڑی سہیلی کو مخاطب کیا اور وہاں سے جانے لگی۔
"پاگل ہوگا تمہارا پورا خاندان تم سمیت سائیکو پیتھ عورت۔"لو جی!اب تو ہانیہ نے اسے عورت ہونے کا خطاب بھی دے دیا تھا۔
علینہ بغیر پیچھے مڑے آگے ہی جا رہی تھی۔
اپنے آپ کو عالیہ اور جنت سے چھڑواتی وہ ایک بار پھر تیزی سے علینہ کی طرف بھاگی اور جتنی زور سے ہوسکتا تھا اس نے علینہ کو دھکا دیا تھا۔
شاید آج گھاس کو پانی دیا گیا تھا جس کی وجہ سے گراؤنڈ میں تھوڑی بیٹھی ہوئی جگہ پہ کیچڑ تھا۔
اور ہاں آپ سب کے خیال کے عین مطابق علینہ اس گدلے پانی میں گر چکی تھی۔اور کیچڑ آلود ہو چکی تھی۔
عالیہ اور جنت تو ابھی تک شاکڈ میں تھیں کہ ہانیہ محترمہ ان کے ہاتھوں سے نکل کیسے گئی تھی۔
"ہاااہ!…"ارسلان اور داور نے شاکڈ سے اپنی آنکھوں کے آگے بھی ہاتھ رکھ لیے تھے۔
عاقب نے علینہ کو اس کیچڑ زدہ پانی میں دیکھ کر آنکھیں ہی میچ لی تھیں۔اسے ہانیہ سے بلکل بھی یہ توقع نہیں تھی۔
علینہ بمشکل کھڑی ہوئی تھی اور ہونقوں کی طرح اہنے سراپے کو دیکھ رہی تھی جو مکمل کیچڑ میں لت پت تھا۔
فروہ جو کہ علینہ کی دوست تھی فوراً اس سے دور ہوئی تھی۔
"علینہ تھوڑا دور رہنا مجھ سے۔میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔"
علینہ نے اچنبھے سے اپنی اس واحد دوست کو دیکھا تھا جو اس سے کترا رہی تھی۔
"اوپس!…سوری علینہ۔میرا دھیان نہیں تھا۔میرا ارادہ تمہیں گرانے کا نہیں تھا۔وہ تو غلطی سے ہوگیا۔"ہانیہ بھرپور اداکاری کا مظاہرہ کر رہی تھی،"خیر میں چلتی ہوں۔میرے شوہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔"
"چلیں!…"ہانیہ نے ساکت کھڑے عاقب کا ہاتھ تھام کر پیار سے پوچھا جیسے کچھ دیر پہلے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
"چلو محترمہ!…اس سے پہلے کہ کوئی اور گل کھِلا دو۔"عاقب اپنے حواسوں میں آیا تو تاسف سے سر جھٹک کر کہنے لگا۔
"ہوں۔"ہانیہ ڈھیٹ انداز میں مسکرائی اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمقدم ہوتے ہوۓ چل دیے۔
علینہ نے انہیں جاتے دیکھا تو انتقام کی آگ میں جلتے وہ تیزی سے ہانیہ کی جانب بڑھی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ ہانیہ تک پہنچتی عالیہ اور جنت ہاتھ باندھے اس کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔
"پہلے ہم سے تو نپٹ لو میڈم۔"
وہ دونوں ابرو اچکا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی۔اس سے پہلے کہ علینہ اپنے گدلے ہاتھ ان کے کپڑوں کو لگا کر ان کے کپڑے خراب کرتی،جنت نے اس کا دایاں ہاتھ جبکہ عالیہ نے اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کر تیزی سے مڑوڑا اور اس کی پشت کے ساتھ لگا دیا۔علینہ تو بس کراہ کر رہ گئی۔
"اللہ معاف کرے۔یہ عورتیں ہیں یا جنگلی بلیاں؟"داور بےیقین سا ہوکر سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔
"میرے دوست!…یہ لڑکیاں ہیں لڑکیاں۔"ارسلان نے بہت اہم بات بتائی جو شاید داور کو بھی ابھی معلوم ہوئی تھی۔
داور نے ٹیڑھی آنکھیں کر کے اسے دیکھا۔
"مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔"طنزً کہا گیا۔
"شکل سے لگ بھی رہا تھا۔"ارسلان نے دوبدو جواب دیا۔
پھر دونوں نے ہی ٹیڑھی آنکھیں کر کے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر زور دار قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔
"ہاں تو علینہ میڈم ہم کہہ رہے تھے کہ اپنے آپ کو زرا سا کنٹرول میں رکھا کرو۔دن بدن کچھ زیادہ ہی خراب ہورہی ہو۔"عالیہ اسے اسی طرح تھامے بولی۔
"ہوں۔زیادہ اچھلا نہ کرو۔اچھلنے کا کام مینڈک کا ہوتا ہے۔"جنت نے بھی فلسفہ جھاڑا اور پھر دونوں نے ہی علینہ کو چھوڑ دیا۔
علینہ غصے سے انہیں دیکھتی پیر پٹخ کر وہاں سے چل دی۔
آس پاس سے جاتے ہوۓ لوگ علینہ کو دبی دبی ہنسی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔علینہ کو بےحد شرمندگی ہوئی۔
۞………۞………۞
جاری ہے۔۔
(باقی آئندہ کل)
ESTÁS LEYENDO
جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)
Humorمیرا پہلا ناول جنونیت ہے یہی'جس کو آپ سب کے پیار اور محبت نے مجھے آگے بڑھانے کا موقع دیا ہے۔اس وجہ سے میں نے سیزن 2 لکھنے کے بارے میں سوچا۔اب ہم ہانیہ عثمان اور عاقب علی شاہ کی کہانی کے ساتھ ساتھ ارسلان علی شاہ کی کہانی کو بھی مکمل کریں گے۔لیکن یاد...