ارسلان کمرے سے باہر نکلنے کے بعد بغیر ادھر اُدھر دیکھے گھر سے باہر نکل گیا تھا۔چلتے چلتے ناجانے وہ کتنی دور نکل آیا تھا۔تیز دھوپ میں چلتے چلتے وہ تقریباً پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔وہ ایک گھنے درخت کے نیچے رک گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔اس کی آنکھوں سے بھی پسینہ ٹپک رہا تھا۔مگر شاید نہیں ،وہ کچھ اور تھا۔
سینے میں عجب سی تکلیف ہورہی تھی۔اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے جیب سے فون نکالا اور عالیہ کا نمبر ملا لیا۔ناجانے کیوں اسے یقین تھا کہ اب عالیہ فون اٹھا لے گی،اسے یقین تھا جیسے سترہ دنوں میں اب پہلی بار وہ فون اٹھا لے گی۔اور ایسا ہی ہوا۔تین چار رنگز کے بعد فون اٹھا لیا تھا۔
"ہیلو…"عالیہ کا لہجہ سخت تھا۔ارسلان کو جی بھر کے رونا آیا،اس کے لہجے سے نہیں،بلکہ اس کی آواز سن کے۔
"کیسی ہو؟"اپنے آنسؤں کا گلا گھونٹے وہ بس اتنا ہی پوچھ سکا۔
"تم سے مطلب۔اور تم نے بس…یہ پوچھنے کے لیے مجھے…مجھے فون کیا؟"عالیہ چاہتی تو فون کاٹ سکتی تھی،لیکن ارسلان کے ان دو سوالیہ لفظوں میں اسے کچھ محسوس ہوا۔اسے کچھ اندیشہ ہورہا تھا۔
"تم کب واپس آؤ گی؟"ارسلان نے اپنے ناک کی ہڈی کو چٹکی میں بھر کے جیسے خود پہ قابو پاتے پوچھا۔اور عالیہ کو جیسے اب یقین ہوگیا کہ کچھ ہوا ہے۔پریشانی سے اس کے ماتھے پہ سلوٹیں پڑیں۔
"کیا ہوا ارسلان؟سب ٹھیک ہے؟"اب کہ اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔
"ہاں…سب…سب ٹھیک ہے۔"اس نے خوشگوار ہونے کی کمال اداکاری کی تھی۔مگر دوسری طرف عالیہ تھی جس کی محبت کا دعٰوے دار تھا وہ۔وہ کیسے نہ پہچانتی۔
"کچھ ہوا ہے کیا ارسلان؟"وہ مضطرب تھی اور تذذب کا چکار تھی۔ارسلان خاموش رہا۔
"ارسلان پلیز بتاؤ کچھ ہوا ہے کیا؟میرا دل گھبرا رہا ہے۔"وہ پریشانی سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"عالیہ…!"ارسلان نے اس کا نام پکارا اس کے بعد ارسلان کے ضبط کے سارے بنددھن ٹوٹ گئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔عالیہ جہاں کھڑی تھی وہیں منجمد ہوگئی۔بلکل ساکت۔جیسے کوئی پتھر کو مجسمہ ہو۔
"سب…خراب ہو گیا عالیہ…سب کچھ…خراب کردیا میں نے۔"وہ ہچکیوں کے درمیان بولا۔
دوسری طرف عالیہ کی آنکھیں بھی لباب پانیوں سے بھر گئیں۔اسے جیسے معلوم ہوگیا تھا کہ کیا ہوا ہوگا۔
سترہ دن پہلے کی ہانیہ کے ساتھ کی گئی گفتگو اس کے ذہن میں گھومی۔
"لیکن ہانی! ارسلان تو کہہ رہا تھا کہ وہ جنت کو پسند کرتا ہے۔"
"دماغ سے چل گیا ہے وہ۔ایویں ہی تمہیں جیلس کروا رہا ہے،اور تم ہوگئی۔"
"سہی کہا میں ہوگئی۔"عالیہ کا منہ لٹک چکا تھا۔
"کیا سچ میں؟"ہانیہ متعجب تھی۔
"ن…ن…نہیں…کس نے…کہا تم سے۔"کہتے ہوۓ اس کی زبان لڑکھڑائی۔
"ہاں تم کہاں جیلس ہوگی۔"ہانیہ نے افسوس سے کہا۔
"ہاں…میں کہاں جیلس ہوئی ہوں گی۔"عالیہ کھسیانی ہنسی ہنس کر بولی۔
"آگ۔"
"کیا آگ؟"عالیہ نا سمجھی۔
"بلکہ تمہیں تو آگ لگی ہوگی آگ۔"ہانیہ نے کمال اداکاری سے کہا اور قہقہہ لگا کر ہنس دی۔عالیہ نے کان نے سے فون ہٹا کر کر فون کو گھورا۔پھر چند سیکنڈز بعد واپس کان سے لگا لیا۔
"شٹ اپ ہانی۔"وہ چلائی۔
"اوکے اوکے۔"ہانیہ نے اپنی ہنسی کو بریک لگائی۔
"ویسے ہانی،یہ ٹھیک نہیں ہے۔تم لوگ یہ نہ کرو۔اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو!"عالیہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"ارے نہیں ہوگی اونچ نیچ۔بلکہ مزہ آۓ گا۔دیکھنا تم…ہم نے تو شیری بھائی اور عاقب سے بھی پرمیشن لے لی ہے۔"
"لیکن پھر بھی۔میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کچھ غلط ہوجاۓ گا۔پلیز ہانی ایسا ویسا کچھ نہ کرو۔یہ…یہ پلان ٹھیک نہیں۔داور پہلے ہی غصے کا تیز ہے۔اور جنت پہ تو ویسے ہی بہت لگتا ہے وہ۔کہیں پاس ہونے کی بجاۓ دور نا ہو جائیں وہ دونوں۔اور اس طرح تو داور ارسلان کو ناپسند کرنے لگے گا۔دوستی خراب ہوجاۓ گی۔"ان سب میں عالیہ ہی تو کچھ عقل مند تھی۔
"اب تم جیلس ہورہی ہو عالیہ۔"ہانیہ نے آنکھیں گھومائیں۔
"ایسا کچھ نہیں ہے ہانی۔میں تمہیں وارن کررہی ہوں بس۔"
"اچھا!جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔"ہانیہ نے ٹال مٹول کی۔
"دیکھو ہانی!…"وہ اس سے پہلے کچھ اور کہتی ہانیہ بول پڑی۔
"اس کے علاوہ بھی کوئی بات کر لو۔ایک ہی موضوع پکڑ کر بیٹھ گئی ہو۔"
عالیہ خاموش ہوگئی۔یہ طے تھا کہ وہ سمجھنے والی نہیں تھی۔اس لیے عالیہ نے بھی سر جھٹک کر اگلی بات شروع کی۔
"اس ارسلان سے تو میں پورا مہینہ بات نہیں کروں گی۔تب چلے گا اسے پتہ۔مجھے کچھ بھی نہیں بتایا اس نے۔سارے مرچ مسالحے لگا کر بتائیں ہیں۔اور تم بھی اسے نہ بتانا کہ تم نے مجھے سب بتا دیا ہے۔"
"ہاں ہاں بےفکر رہو۔"
سترہ دن کی گفتگو کسی دھند کی طرح چھٹ چکی تھی۔اب صرف ارسلان کے رونے کی آواز فون میں سے آرہی تھی۔
"کیا ہوا ہے ارسلان؟پلیز نہ رو۔"وہ خود بھی ضبط باندھے بول رہی تھی۔ارسلان کا رونا دل کو بےقرار کیے ہوۓ تھے۔اگر وہ رو وہا تھا تو آنکھوں سے اس کی بھی آنسو بہہ رہے تھے۔
"داور!…داور نے مجھ پہ اور جنت پہ…بہت غلیظ قسم کے الزام لگاۓ ہیں۔"وہ بمشکل کہہ پا رہا تھا۔یہ کہتے ہوۓ دل کٹ رہا تھا۔عالیہ نے تکلیف سے آنکھیں بند کی۔جس کا ڈر تھا وہ ہی ہوا تھا۔
"تم فکر نہ کرو ارسلان۔میں کل ہی واپس آرہی ہوں۔"اب عالیہ کی برداشت سے باہر تھا سب۔کاش وہ اس کے پاس ہوتی۔اولسے دلاسہ دیتی،اس کے آنسو صاف کرتی۔اور داور…داور کو تو گریبان سے پکڑ لیتی اور پوچھتی کہ آخر کیوں؟…تمہیں شرم نہ آئی اپنی بیوی اور ارسلان پہ اس طرح کی الزام تراشی کرتے ہوۓ۔
"جلدی آ جاؤ عالیہ!…یہاں…یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔سب بہت برے ہیں۔سب۔"وہ شدت سے کہہ رہا تھا۔اسے قریب ہی ایک گاڑی آتی دکھائی دے رہی تھی۔وہ عاقب کی گاڑی تھی۔
۞……۞……۞
"جنت!ْ…خاموش ہوجاؤ۔سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔"ہانیہ اسے دلاسے دے رہی تھی مگر وہ مسلسل روۓ جارہی تھی۔
"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا اب۔سب خراب ہوگیا۔سب کچھ۔داور…"آخر میں اس کا نام لیتے ہوۓ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں،"داور نے ایسا کیوں کہا؟"
"دماغ کی مشینیں خراب ہوگئی ہیں اس کی۔اس لیے ٹھیک سے کام نہیں کررہا۔"ہانیہ نے مشتعل ہو کر کہا۔جنت روتے ہوۓ نفی میں سر ہلا گئی۔
"نہیں۔وہ پورے ہوش و حواس میں تھا۔"کہتے ہوۓ وہ پھر ہچکیوں کے ساتھ رو دی۔
"اس داور کو تو میں…"ہانیہ کہتے ہوۓ بجلی کی رفتار سے اٹھی تا کہ داور کو ایک اور عدد تھپڑ جڑ سکے۔جنت نے بادل نخواستہ اس کا ہاتھ تھاما اور نفی میں سر ہلایا۔
"اسے کچھ نہ کہو۔شاید غلطی ہم لوگوں کی ہی ہے۔"وہ بےبسی سے گویا ہوئی۔ہانیہ نے خفیف سا ہو کر اسے دیکھا۔
"اب جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔"جنت نے کہتے پوۓ اپنے آنسو بےدردی سے صاف کیے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں اپنی وجہ سے اپنے بھائی کی خوشیاں خراب ہونے نہیں دے سکتی۔بھائی ہمیں باہر موجود نہ پا کر پریشان ہو رہے ہوں گے۔ہمیں چلنا چاہیے۔"یہ کہتے ساتھ وہ بھاگتے ہوۓ کمرے سے نکل گئی۔ہانیہ بھی گہرا سانس لیتی باہر کی طرف بڑھ گئی۔شاید جنت ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔
"کہاں تھے تم لوگ؟"وہ سب اتفاق سے اکٹھے ہی لاؤنج میں داخل ہوۓ،جب ثمینہ بیگم نے پوچھا۔
داور نے جنت کو دیکھا اسی پل جنت نے بھی اپنی لرزتی ہوئی پلکیں سنبھال کر اسے دیکھا تھا۔وہ ایک ہی نگاہ میں داور کا دل پسیج گئی تھی۔جنت کی نظروں نے اپنا کام کرتے ہی واپس نظریں جھکا لیں۔
"وہ ہم…وہ ہم کھیل رہے تھے۔"ہانیہ نے کیا بہانہ گھڑا تھا۔ثمینہ بیگم کے ساتھ عاقب کی بھی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔
"کھیل رہے تھے۔"ثمینہ نے اس کی بات دہرا کر عاقب کو دیکھا جس نے فوراً سے نظروں کا رخ موڑ لیا۔
'اُف!کیا سوچ رہی ہوں گی ماما کہ میں بھی ان کے ساتھ کھیل رہا تھا'عاقب نے کڑھ کے سوچا۔
"ہاں۔لڈو کھیل رہے تھے ہم۔عنایہ کے کمرے میں نظر آ گئی تو دل کر پڑا۔"ہانیہ نے ایک اور لقمہ دیا۔
" شہریار اور عنایہ کب سے تم لوگوں کا انتظار کر رہے تھے اور تم سب غائب تھے۔"وہ خفا ہوئیں۔
ہانیہ نے ایک نظر صوفوں پہ قریب قریب بیٹھے عنایہ اور شہریار کر دیکھا جو آپس میں گفتگو میں محو تھے۔پھر ثمینہ بیگم کو۔
"لگ تو نہیں رہا۔"
ثمینہ بیگم نے بھی نظریں موڑ کر شہریار اور عنایہ کو دیکھا پھر اپنی مسکراہٹ دبا لی۔شہریار کب سے عنایہ کا سر کھا رہا تھا اور وہ بیچاری تو بس شرماۓ جا رہی تھی۔
"اور ارسلان کدھر ہے؟"ثمینہ بیگم نے ان میں ارسلان کو نہ پا کر پوچھا۔وہ سب چونکے اور ایک دوسرے کو دیکھا۔جیسے ایک دوسرے سے دریافت کر ہے ہوں کہ ارسلان کدھر ہے؟
"ارے ارسلان کو تو میں نے تھوڑی دیر پہلے گھر سے باہر نکلتے دیکھا تھا۔میرا فون بھی اس کے پاس ہے۔میں نے ایک ضروری کال بھی کرنی تھی۔"منظور صاحب ان کے قریب آ کر گویا ہوۓ۔
"اوہ شٹ۔"وہ سب بےآواز بولے۔
"یہ آپ میرے فون سے بات کر لیں۔ارسلان کہہ رہا تھا کہ دل گھبرا رہا ہے اس کا۔شاید اسی لیے باہر گیا۔میں اسے لے کر آتا ہوں۔"عاقب نے اپنا فون انہیں تھمایا اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔
"میں…میں بھی دیکھ کر آتی ہوں۔"ہانیہ بھی عاقب کے پیچھے بھاگی۔
"لو جی یہ تو چلے گئے۔اب تم دونوں تو آؤ۔بیٹھو۔تھوڑی گپ شپ لگاؤ۔"ثمینہ بیگم اب شہریار اور جنت سے مخاطب تھیں۔وہ دونوں مصنوعی مسکراہٹ لبوں پہ سجاۓ صوفے پہ جا کر بیٹھ گئی۔دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔
۞……۞……۞
گاڑی روک کر عاقب اور ہانیہ دونوں باہر نکلے اور گاڑی کا دروازہ بند کرتے ارسلان کی طرف آۓ۔ارسلان نے فون کان سے ہٹا دیا لیکن کاٹا نہیں۔
"تم ٹھیک ہو؟"عاقب اس کے چہرے کو تھامے پوچھ رہا تھا۔جس کی حالت قابل رحم تھی۔ارسلان نے بمشکل سر اثبات میں ہلایا۔عاقب نے اسے گلے سے لگایا۔گلے لگنے کی دیر تھی وہ ایک بات پھر رو دیا۔اس کی حالت دیکھ ہانیہ بھی رونے والی ہوگئی۔
عاقب نے لب بھینج کر ضبط کیا۔
"کچھ نہیں ہوا۔بھول جاؤ سب جو آج ہوا۔"عاقب نے اسے دلاسہ دیا اور اس کا چہرہ اٹھا کر اس کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔
"چلو چلیں۔سب پریشان ہو رہے ہیں۔"ارسلان نے اثبات میں سر ہلایا۔عاقب نے مسکرا کر اس کے بال بگاڑے اور وہ تینوں ہی کار کی طرف چل دیے۔
عاقب کی آواز سن کر عالیہ کو تسلی ہوئی اور اس نے کال کاٹ دی۔لیکن وہ یہ طے کر چکی تھی کہ کل ہی وہ واپس جاۓ گی اور داور کو سارے گندے القابات سے نوازے گی۔
"ہم اس داور سے اب کبھی بات نہیں کریں گے ارسلان۔"ہانیہ پچھلی نشست پہ بیٹھی کہہ رہی تھی۔ارسلان خاموش رہا۔
"ارسلان تم روتے ہوۓ اچھے لگ رہے تھے ویسے۔"ہانیہ نے اپنی طرف سے تعریف کی تھی جیسے۔عاقب ہنس دیا۔ارسلان نے ان دونوں کو ہی باری باری گھورا تھا۔
"تم عالیہ سے فون پہ بات کر رہے تھے؟"ہانیہ نے سوال کیا۔وہ دور سے ہی اپنی تیز نظروں سے اسے گاڑی میں بیٹھے دیکھ چکی تھی کہ محترم کسی سے بات کر رہے تھے۔
"ہوں۔"ارسلان نے بس اتنا کہا۔
"اوہ!…تو تم اس کے سامنے بھی رو رہے تھے۔"ہانیہ نے سمجھ کر سر ہلایا۔ارسلان نے اب کی بار پورا پیچھے مڑ کر اسے گھورا۔لیکن ہانیہ اس کی گھوری کا اثر لیے بغیر بولی۔
"واہ ارسلان۔رونے کے بعد تو تمہارے چہرے پہ پیارا والا گلو بھی آچکا ہے۔"
ہانیہ نے کی زبان ٹر ٹر چل رہی تھی۔عاقب نے گاڑی چلاتے ہوۓ بمشکل اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا۔
ارسلان نے غصے سے سر جھٹک کر سامنے منہ موڑ لیا اور گیلا سانس اندر کو کھینچا۔
"ویسے ارسلان اگر تم…"ہانیہ اب آگے جو کہنے والی تھی ارسلان اس کے لیے تیار تھا اس لیے آہستہ سے ڈیش بورڈ پہ پڑا ٹیشو کا ڈبہ اٹھایا،عاقب نے غور سے اس کی اس حرکت کو نوٹ کیا تھا،"… اگر تم روز صبح صبح رو لیا کرو تو……روز پیارے لگو گے۔"آخر میں چٹکی بجا کر جیسے کمال کیا تھا۔عاقب کا قہقہہ بےاختیار تھے۔
ارسلان نے ٹیشو نکل کر ہانیہ کے کھلے ہوۓ منہ میں ٹھونسے تھے جس سے وہ گلا پھاڑ کر ہنس رہی تھی۔
۞……۞……۞
جاری ہے۔
BẠN ĐANG ĐỌC
جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)
Hài hướcمیرا پہلا ناول جنونیت ہے یہی'جس کو آپ سب کے پیار اور محبت نے مجھے آگے بڑھانے کا موقع دیا ہے۔اس وجہ سے میں نے سیزن 2 لکھنے کے بارے میں سوچا۔اب ہم ہانیہ عثمان اور عاقب علی شاہ کی کہانی کے ساتھ ساتھ ارسلان علی شاہ کی کہانی کو بھی مکمل کریں گے۔لیکن یاد...