Episode 24

49 5 0
                                    

وہ پانچوں اب دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے،درمیان میں عالیہ کا سوٹ کیس پڑا تھا۔عالیہ اپنے دوپٹے کو رول کیے اس پہ بھاپ دیتی اپنا سر دبا رہی تھی۔ہانیہ اپنے کیے گئے عمل کے بعد منہ لٹکاۓ بیٹھی تھی۔داور دانتوں کی نمائش کرتا عالیہ کو تکلیف میں دیکھ رہا تھا۔جبکہ ارسلان درمیان میں رکھے سوٹ کیس کی زپ کو کبھی بند کر رہا تھا تو کبھی کھول رہا تھا۔ساتھ ساتھ عالیہ کو بھی دیکھ لیا کرتا تھا۔جنت ہانیہ کے بیگ سے چپس چوری کرنے کے بعد اب بڑے مزے سے کھا رہی تھی۔ہانیہ کو کون سا معلوم تھا کہ وہ چپس اس کے تھے۔
"پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے؟"ساری بات سننے کے بعد عالیہ نے پوچھا۔
"ہمیں تو خود ابھی پتہ چلا۔"ارسلان گویا ہوا تھا۔
"تم لوگوں کی وجہ سے مجھے آدھی رات کو فلائٹ لینی پڑی۔معلوم ہے کتنی مشکل سے رٹرن ٹکٹ ملی تھی۔ابھی تک ماما اور بابا کو بھی نہیں بتایا میں نے کہ میں پاکستان آگئی ہوں۔پھپھو کو بھی منع کر دیا تھا میں نے کہ نہ بتائیں۔"وہ بہت افسوس کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
"تو تمہاری پھپھو نے تم سے اتنی جلدی جانے کی وجہ نہیں پوچھی!"جنت نے چپس منہ میں ڈالتے پوچھا۔
"پوچھا تھا نا۔میں نے کہہ دیا کہ گھر والوں کی یاد آرہی ہے وغیرہ وغیرہ۔رونے جو بیٹھی ہوئی تھی ارسلان کی وجہ سے۔کوئی تو بہانہ کرنا تھا نا۔مجبوراً وہ بھی مان گئیں۔میں نے ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ ماما بابا کو نہ بتاۓ،میں انہیں خود سرپرائز دوں گی۔یقین جانو اتنی مشکل سے ایکٹنگ کی تھی نا۔ توبہ توبہ۔"عالیہ نے کانوں کو ہاتھ لگاۓ۔
"تمہاری پھپھو ٹھیک ہوگئیں؟"جنت نے اگلا سوال کیا۔
"ماشااللہ بلکل جوان ہیں ابھی وہ،انہیں کیا ہونا تھا بھلاں۔"ْعالیہ کی زبان پھسلی۔پھر خود ہی دانتوں میں دبا لی۔
"مطلب؟"ارسلان نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔
"سب جھوٹ تھا۔عالیہ کو گھومنے جانا تھا وہاں۔پھپھو کے ساتھ اس کی اچھی دوستی ہے تو اس نے ان کے ساتھ مل کے گیم بنائی اور چلی گئی امریکہ۔اس کی پھپھو نے کال کر کے بلال انکل سے کہا کہ میں بیمار ہوں وغیرہ وغیرہ تو وہ عالیہ کو بھیج دے۔ان کی خدمت کے لیے۔"ہانیہ کی زبان جب کھلی تو چلتی ہی گئی۔ارسلان سمیت سارے ہانیہ کو منہ کھولے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔انہیں تو چار سو چالیس والٹ کا جھٹکا لگا تھا۔عالیہ بھی منہ کھولے تعجب سے اسے دیکھ رہی تھی۔اسے یقین نہ تھا وہ اتنی جلدی پھوٹ دے گی۔عالیہ کا سردرد تو کہیں دور جا سویا تھا۔
"تم نے جھوٹ بولا مجھے سے،ہم سب سے؟"ارسلان آنکھیں پھاڑے اس سے دریافت کر رہا تھا۔
"ہا…ہاں…تو میرا بھی…دل کرتا ہے گھومنے کا۔"عالیہ کی زبان ہی لڑکھڑا اٹھی،"اور ہانی تم اپنی زبان بند نہیں رکھ سکتی کیا؟"
"نہیں۔"ہانی نے اپنے دانتوں کی نمائش کی اور بےفکری سے جنت کے ہاتھ میں موجود چپس کے پیکٹ میں سے چپس اٹھا کر کھانے لگی۔جو کہ اس کے اپنے تھے۔جنت نے اپنا تھوک نگلا تھا۔
"بیٹھے رہو تم سب۔تم سب دھوکے باز ہو۔تم بھی،تم بھی،تم بھی اور تم تو سب سے بڑی دھوکے باز۔"ارسلان نے باری باری سب کی طرف اشارہ کیا اور آخر میں عالیہ کی طرف اشارہ کرکے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔پھر ارسلان یہ جا وہ جا۔عالیہ بھی ہڑبڑا کر فوراً سے اٹھی اور اس کے پیچھے بھاگی۔
"ارسلان سنو تو!…" وہ دونوں اب منظر سے غائب ہوچکے تھے۔
اب داور،جنت اور ہانیہ بیٹھے تھے۔
"جنت!…"ہانیہ نے جنت کو پکارا۔جنت نے اسے دیکھا جو پیار سے اسے ہی مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔
"میرے چپس کھانے کے بعد کیسا محسوس ہورہا ہے۔یقیناً ہلکا ہلکا فیل ہو رہا ہوگا۔ہے نا؟"وہ نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔جنت کا تو گلا ہی سوکھ گیا۔داور نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔
"اس کے بدلے میں تمہارا یہ ناول لے رہی ہوں۔Forty Rules of love۔ٹھیک ہے؟"ہانیہ نے اس کے سامنے اس کا ناول لہرایا۔جنت نے جلدی سے بیگ کھول کے دیکھا تو وہ ناول غائب تھا۔پھر ہانیہ کے ہاتھ میں موجود اپنا ناول دیکھا۔
"ہانی میں نے ابھی وہ پورا نہیں پڑھا۔واپس کرو۔"جنت نے ہاتھ بڑھا کر لینا چاہا لیکن ہانیہ نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔
"شہریار بھائی آپ یہاں۔"ہانیہ نے جنت کی پشت پہ دیکھتے کہا۔اس سے پہلے کہ داور جنت کو کہتا کہ وہ پیچھے نہ دیکھے وہ پیچھے کی طرف گردن گھما چکی تھی۔وہاں نہ شہریار تھا نی شہریار کا کا جن۔ہانیہ گولی کی سی سپیڈ سے اٹھی تھی اور وہاں سے بھاگی تھی۔اس کے بھاگنے کی آواز سن کے اس نے گردن واپس سامنے کی لیکن ہانیہ بھاگ چکی تھی۔جنت فوراً سے اٹھی اور اس کے پیچھے بھاگی۔
"ہانی کی بچی۔"
پیچھے داور قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔کتنا خوبصورت گروپ تھا ان کا۔کسی ایک کے بغیر بھی یہ گروپ ادھورا تھا۔
۞……۞……۞
"ماما…ماما پلیز!…"
"ارسلان بلکل نہیں۔"ثمینہ بیگم نے صاف منع کیا۔
"پلیز ماما۔صرف نکاح۔"ارسلان تو منہ پھاڑ کر اپنے نکاح کی بات کر رہا تھا۔
"ارسلان شرم آنی چاہیے تمہیں۔دماغ سے ہل تو نہیں گئے ہو۔کیسی باتیں کر رہے ہو۔تم ابھی بچے ہو۔"انہوں نے اسے سختی سے ڈپٹا۔ارسلان اس وقت ان کے کمرے میں موجود ان کے گوڈے کے ساتھ لگ کر بیٹھا تھا۔ہماری محترمہ ہمیشہ کی طرح باہر کان لگاۓ کھڑی تھیں۔
"نہیں آرہی شرم۔آپ کو پتہ ہے نا کہ عنایہ مجھے کتنی چھوٹی ہے۔اس کا بھی نکاح ہورہا ہے صرف میں ہی رہ گیا ہوں۔"
"کیونکہ وہ لڑکی ہے۔"انہوں نے آنکھیں دکھائیں۔
"تو عالیہ بھی تو لڑکی ہی ہے۔"اس کی زبان اس بار پھر بےشرمی سے پھسلی تھی۔
"رکو ذرا۔بتاتی ہوں تمہیں۔"انہوں نے بیڈ کے نیچے ادھر اُدھر نظر گھما کر اپنا جوتا تلاش کرنا چاہا تھا ارسلان کو مارنے کے لیے۔
"وہ یہاں نہیں ہے۔میں پہلے ہی باہر رکھ آیا تھا۔"سکون سے بتایا گیا۔باہر کھڑی ہماری محترمہ نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ان کے جوتوں کو دیکھا اور ہنسی دبائی۔
"ارسلان آنے دو تمہارے بابا کو۔اچھی طرح دماغ سیٹ کرواتی ہوں تمہارا۔"وہ غصے سے گویا ہوئی تھیں۔
"ماما اس کا مطلب آپ نہیں مانیں گی؟"وہ جیسے آخری دفعہ پوچھ رہا تھا۔
"ہاں۔"بےدھڑک کہا گیا۔
"ٹھیک ہے پھر۔بات نہ کیجیئے گا مجھ سے۔اور…اور میرا کھانا بنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میں نہیں کھاؤں گا۔اس گھر میں میری کوئی عزت نہیں ہے۔سب صرف بھائی کی سنتے ہیں۔صرف انہیں سے پیار کرتے ہیں۔مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا۔"وہ اچھے طریقے سے ایموشنل بلیک میل کرتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
"بھائی کی بار تو فوراً سے مان گئی تھیں۔میں سگا ہوں نا اس لیے کوئی عزت نہیں ہے میری۔"جاتے جاتے وہ کمرے سے یہ کہنا نہ بھولا۔ثمینہ بیگم تو گھور بھی نہ سکیں اسے۔
اس کے باہر نکلتے ہی ہاتھ میں پکڑا ثمینہ بیگم کا جوتا ہانیہ نے ارسلان کو رسید کیا۔وہ کراہ اٹھا تھا۔
"زیادہ اوور ایکٹنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟"
"تو اور کیا کرتا۔تمہارے شوہر سے ہی بات کرنی پڑے گی اب مجھے۔سارے ان کی ہی سنتے ہیں صرف۔"وہ دونوں اب ثمینہ بیگم کے کمرے سے دور آچکے تھے اور اب آمنے سامنے کھڑے تھے۔
"ہاں۔رات کو کرنا بات تم ان سے۔"ہانیہ کو بھی یہی ٹھیک لگا۔
"لیکن انہیں بھی منانا پڑے گا سب سے پہلے۔کیا کروں میں؟انہیں کیسے مناؤں اب؟"ارسلان نے اضطراب کی سی کیفیت میں سوچنا شروع کیا پھر جھماکے کے ساتھ ہانیہ کو دیکھا۔
ہانیہ بھی سوچ میں ڈوب چکی تھی۔
اب ارسلان چھوٹی چھوٹی آنکھیں کیے اسے معنی خیز نظروں سے گھور رہا تھا۔ہانیہ نے ارسلان کو دیکھ کر ابرو اچکائی جیسے کہنا چاہ رہی ہو،"کیا؟"
"آہم آہم!"ارسلان کھنکارا تو ہانیہ کی مشینیں سپیڈ سے گھومی تھیں۔
"بلکل بھی نہیں ارسلان۔"ہانیہ کا چہرہ لال سرخ ہوا تھا۔
"پلیز!…"
"نہیں نہیں بلکل بھی نہیں۔"ہانیہ کہہ کر تیزی سے وہاں سے نکلی۔ارسلان بھی اس کے پیچھے گیا۔
"پلیز ہانی!تم تو اکلوتی بہن ہو میری۔"اس کا لہجہ سماجت لیے ہوۓ تھا۔ہانیہ نے تیزی سے نفی میں سر ہلانا شروع کر دیا۔
"پلیز ہانی!…صرف تم ہی کر سکتی ہو۔ناجانے ان میں ایسا کیا ہے سب انہیں کی بات مانتے ہیں اور انہیں کی سنتے ہیں اور وہ خود صرف تمہاری ہی سنتے ہیں۔"
ہانیہ لاؤنج میں موجود صوفے پہ بیٹھ چکی تھی۔اور سائڈ پہ پڑا Dawn news کا اخبار اٹھایا اور الٹا ہی پڑھنا شروع کر دیا۔
ارسلان بھی دوسرے صوفے پہ بیٹھ گیا اس کے سامنے۔
"پلیز ہانی۔تم ہی تو سمجھتی ہو صرف مجھے۔اور کوئی نہیں سمجھتا۔"ہانیہ ہنوز الٹا اخبار چہرے کے سامنے کیے بیٹھی رہی تھی۔
"تو کیا تم بھی نہیں مانو گی ہانی؟"ارسلان کی آواز اب آہستہ ہوگئی۔لیکن ہانیہ کا جواب ندارد۔
"مجھے لگا تھا کہ صرف تم سمجھو گی مجھے۔لیکن تم بھی باقی سب جیسی نکلی۔کوئی بھی نہیں سمجھتا مجھے۔"اس کی آواز اب بھرا سی گئی تھی بولتے ہوۓ۔ہانیہ چونکی تھی۔لیکن اب بھی ویسے ہی بیٹھی رہی۔
ارسلان اٹھا اور وہاں سے چلتا بنا۔اب ہانیہ کے سامنے اس کی پشت تھی۔
ہانیہ نے اخبار چہرے کے سامنے سے ہٹایا اور ارسلان کو جاتے ہوۓ دیکھا۔اس کا چڑیا جیسا دل ایک دم سے پھڑپھڑایا۔
"میرا پیارا بھائی۔"وہ خود کو کہتے روک نہ پائی۔
ارسلان کے چہرے پہ فتح کی مسکراہٹ در آئی۔اس نے اپنی کمال اداکاری پہ خود کو سہراہا تھا۔
سب عاقب کی بات سنتے تھے۔اور عاقب کسی کی نہیں سنتا تھا،سواۓ اس لڑکی کے۔اور ہانیہ کو منانا تو بہت آسان تھا۔مطلب کام ہوجانے کی مکمل گرنٹی۔
۞……۞……۞
جاری ہے۔

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang