Episode 18

218 12 3
                                    

وہ سب ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب ہانیہ کا فون بجا۔اور ماشااللہ سے ہانیہ نے بغیر دیکھے ہی فون اٹھا لیا۔
"ہیلو!…"
"ہیلو!ہانی میں۔"آگے سے کہا گیا۔
"کون میں۔میں کسی میں کو نہیں جانتی۔"تڑخ کر جواب دیا گیا تھا۔عاقب سمیت منظور صاحب اور ثمینہ بیگم بھی متوجہ ہوچکے تھے،جبکہ ارسلان مگن انداز میں کھانا کھا رہا تھا۔
"ہانی کی بچی تم نہیں سدھرو گی نا!"عالیہ کا اکتایا ہوا سا جواب آیا۔
"میری بچی ابھی پیدا نہیں ہوئی۔"محترمہ کا جواب تھا کہ کیا،عاقب کو زور کا اچھو لگا تھا۔جبکہ منظور صاحب اور ثمینہ بیگم نے اپنی مسکراہٹوں کو ضبط کیا تھا۔
"ہانی یار!میں عالیہ بات کر رہی ہوں۔"دوسری طرف عالیہ نے اپنا سر پیٹا تھا۔ہانیہ نے جلدی سے فون کان سے ہٹا کر فون کی سکرین پہ نظر دوڑائی تو بیرون ملک کا نمبر تھا۔پھر جلدی سے فون واپس کان کے ساتھ لگایا۔
"اچھا عالیہ یہ تم ہو۔"ہانیہ کے جملے میں اب پرجوشی تھی۔عالیہ کے نام پہ ارسلان کے کان کھڑے ہوگئے۔
"شکر ہے۔ورنہ میں سات سمندر پار کیا گئی تمہاری تو یاداشت ہی کمزور ہو گئی۔"عالیہ اپنے مہمان کمرے میں دائیں سے بائیں چکر لگاتی ہوئی محو گفتگو تھی۔
"میری یاداشت تو پہلے سے ہی کمزور ہے۔"شرما کر پہلے باقی سب کو دیکھا اور پھر بولی۔
ارسلان فوراً سے اپنی چیئر سے کھڑا ہوا تھا اور ٹیبل کی دوسری طرف سے ہاتھ بڑھا کر ہانیہ کے کان سے اس کا فون اچک لیا اور کان کے ساتھ لگا لیا۔
"کیسی ہو عالیہ؟میں ارسلان بات کر رہاں ہوں۔تم خیر خیریت سے پہنچ گئی نا؟"
ہانیہ کا تو منہ ہی کھلا کا کھلا رہ گیا۔ارسلان ان سب کی کڑی نظروں کو اپنے اوپر محسوس کر کے فوراً سے فون سمیت وہاں سے غائب ہوا تھا۔ہانیہ بھی عالیہ کی کال پہ لعنت بھیجتی واپس کھانے میں مصروف ہوگئی۔
عاقب آہستہ سے ہانیہ کی طرف جھکا اور سرگوشی نما انداز میں گویا ہوا۔
"میں سوچ رہا تھا تمہاری خواہش پوری کر ہی دیتے ہیں۔"
"کون سی؟"ہانیہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"بچی پیدا کرنے والی۔"
اس دفعہ ہانیہ شرم سے پوری کی پوری دہکی تھی۔عاقب نے اس کے تاثرات دیکھنے کے بعد مسکرا کر سر جھٹکا۔
۞……۞……۞
"کیسی ہو عالیہ۔میں تمہیں بہت یاد کر رہا ہوں۔"ارسلان کی ترستی ہوئی سی آواز آئی۔عالیہ نے آنکھیں گھومائیں۔
"قسم سے پانچ روپے کٹنا چاہیے تمہاری اس اوور ایکٹنگ کا۔"
"میں…میں سچ کہہ رہا ہوں۔"ارسلان نے اسے یقین دلانا چاہا۔
"ابھی…ابھی صبح ہی ایئر پورٹ پہ چھوڑنے آۓ تھے تم سب مجھے۔"عالیہ کا دانت پیستا ہوا جواب آیا۔
"پھر بھی۔اب تم مہینہ ہم سب سے دور رہو گی۔بہت یاد آؤ گی۔ہانیہ اور میں کیا کریں گے اکیلے یونی میں۔"وہ بہت افسردہ لگتا تھا۔
"اکیلے کہاں ہو گے۔جنت اور داور ہوں گے نا تم لوگوں کے ساتھ۔"
"ہاں۔اس سے مجھے یاد آیا کہ ہانیہ نے کیا تمہیں اپنا پلان بتایا۔"
"کون سا پلان؟"وہ شاید انجان تھی۔
"کیا سچ میں ہانی نے تمہیں نہیں بتایا؟"وہ حیران تھا۔
"نہیں؟"عالیہ متجسس ہوئی۔
"وہ ہانیہ اور میں نے…میرا مطلب صرف ہانیہ کا پلان ہے۔میرا نہیں۔میں تو بس ایک چھوٹا سا بلکل چھوٹا سا کردار ادا کروں گا۔"ارسلان نے تھوک نگلا تھا۔
"کیا مطلب ارسلان۔مجھے سب سچ سچ بتاؤ۔"عالیہ کو کچھ کھٹکا تھا۔
"وہ…وہ نا…"ارسلان کو پسینے آ رہے تھے۔
"کیا ارسلان؟ٹھیک سے بتاؤ۔"
"تم تو جانتی ہی ہو کہ جنت اور داور ایک دوسرے سے کو تھوڑا ناپسند کرتے ہیں۔"ارسلان کو سمجھ نا آئی کہ کیسے بتاۓ۔
"تھوڑا نہیں بلکہ بہت ناپسند کرتے ہیں۔تو پھر؟"عالیہ اکتائی ہوئی لگتی تھی اب۔
"تو میں جنت سے محبت کرتا ہوں۔"عالیہ کے سر پہ تو کوئی پہاڑ آ کر گرا تھا۔
"کیا؟"عالیہ صدمے سے اپنے کمرے میں موجود بیڈ پہ ڈھے جانے والے انداز میں بیٹھی تھی۔
"یار عالیہ میری پوری بات سنو۔میں اس سے محبت کرتا بھی ہوں اور نہیں بھی۔"ارسلان کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کس طرح بتاۓ۔زندگی میں پہلی بار ایسی سچویشن کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
"دھوکے باز…چیٹر…"عالیہ تقریباً رو دینے کو تھی۔
"عالیہ میری پوری بات سنو۔دیکھو!…یہ صرف…"ارسلان اس سے پہلے اپنا جملہ پورا کرتا عالیہ پھر سے بول اٹھی۔
"دھوکے باز انسان!…شادی کی باتیں مجھ سے،فیوچر وائف میں،اور محبت کسی اور سے۔"عالیہ ٹوٹے دل کے ساتھ کہہ رہی تھی،ساتھ ساتھ اب رو بھی رہی تھی۔ارسلان کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔
"تو کیا تمہیں فرق پڑ رہا ہے؟"ارسلان متعجب تھا۔اسے عالیہ کے اس ریئکشن کی توقع نہ تھی۔
"کیا مجھے فرق نہیں پڑنا چاہیے؟تم نے مجھے دھوکے میں رکھا۔میں نے تو تمہارے علاوہ کسی اور کا سوچا بھی نہ تھا۔اور میں تم سے تھوڑا دور کیا گئی تم نے کسی اور کے خواب دیکھنے شروع کردیے۔اور…اور شرم نہ آئی تمہیں کسی اور کی منکوحہ کو ایسی ویسی نظروں سے دیکھنے کی۔وہ داور کی بیوی ہے۔وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے۔بےشک ناپسند کرتا ہے وہ اپنی بیوی کو لیکن محبت پھر بھی کرتا ہے۔کیا تم نے نہیں دیکھا؟"وہ روتے ہوۓ ہچکیاں بھر رہی تھی۔
"دیکھا ہے میں نے۔"ارسلان بھرپور طریقے سے مسکرا رہا تھا۔وہ رو رہی تھی۔لیکن اسے ذرا دکھ نہیں ہوا تھا۔کیونکہ وہ اس کے لیے رو رہی تھی۔
"تو جاہل انسان چُلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔"وہ ایک دم سے دھاڑی تھی اور فون بند کر دیا۔ارسلان نے فون کو کان سے ہٹا کر تھوڑا دور کر کے گھورا۔
"اوۓ ہوۓ…مطلب میری فیوچر وائف کو فرق پڑتا ہے۔"وہ مسکراتے ہوۓ خود سے ہی مخاطب تھا۔لیکن جیسے ہی وہ پیچھے مڑا دروازے میں ہانیہ کھڑی تھی شعلہ آور نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔
ہانی نے دروازے کے پاس ٹیبل پہ پڑا واز اٹھا کر ارسلان کو مارنے کے لیے پھینکا جسے اس نے مہارت سے کیچ کر لیا۔
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتی ارسلان تک آئی۔
"جاہل انسان اسے نہیں بتانا تھا۔"وہ چنگھاری تھی۔
"اوپس!میں نے تو بتا دیا۔"ارسلان نے معصومیت سے کندھے اچکا دیے۔
"اب پورا مہینہ تم سے بات نہیں کرے گی وہ۔"ہانی کا دل چاہا اپنا ہی سر دیوار میں مار لے۔
"تو ٹھیک ہے نا۔اسے میری کمی کا احساس ہونا چاہیے۔"ارسلان کو اب بھی کوئی فرق نہ پڑا۔
"ہاں ہاں۔جب وہ امریکہ سے کوئی گورا اٹھا کر پاکستان لا کر اس سے نکاح پڑھوا لے گی نا تب میں تم سے پوچھوں گی کہ کتنا کمی کا احساس ہوا؟"ہانی اس کے ہاتھ سے واز چھینا اور زور سے ارسلان کے بازو پہ مارا۔لیکن ارسلان خیالوں میں ہی اتنا کھویا تھا کہ اسے درد کا احساس ہی نہیں ہوا۔الٹا وہ مسکرا رہا تھا۔
ہانیہ کو شدید صدمہ لگا تھا۔کیونکہ جتنی زور سے اس نے واز ارسلان کو مارا تھا اسے درد ہونا چاہیے تھا۔
ہانی بیچاری تو یہی سوچ رہی تھی کہ ارسلان کو درد کیوں نہیں ہوا۔اس لیے وہی واز رکھ کر اپنے بازو پہ زور سے مارا تاکہ دیکھ سکے اسے بھی درد ہوا یا نہیں۔
ہانیہ نے جلدی سے دوسرا ہاتھ دانتوں تلے رکھ کر اپنی چیخ کا گلا گھونٹا۔یہ تو وہی بات ہوگئی تھی اپنے پیر پہ کلہاڑا مارنا۔
ہانیہ نے واز کو نیچے زمین پہ رکھا اور وہاں سے بھاگی۔درد بہت شدید تھا۔
"ہاۓ!…عالیہ بھی مجھے پسند کرتی ہے۔"ارسلان سوچ سوچ کر ہی خوش ہورہا تھا۔لیکن جیسے ہی وہ حرکت میں آیا فوراً چیخ اٹھا۔اس کے بازو میں شدید درد ہوا تھا۔
"ہانی!بچ جاؤ تم مجھ سے۔"وہ ضبط سے بولا۔
۞…۞…۞
ہانیہ نے اپنے کمرے میں پہنچ کر رہی دم لیا تھا۔
عاقب صوفے پہ بیٹھا سامنے دیوار پہ نصب ایل۔ای۔ڈی پہ نیوز دیکھ رہا تھا جب ہانیہ کو کراہتے ہوۓ کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔
"ہانی!کیا ہوا؟"عاقب فوراً سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"ہاۓ اللہ جی!بہت درد ہورہا ہے۔"ہانیہ نڈھال ہو کر صوفے پہ بیٹھ گئی۔
"بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے؟"وہ متفکر تھا۔
"وہ بازو پہ مارا ہے۔"وہ اپنا بازو پکڑ کر کہہ رہی تھی۔درد کی شدت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
"کس نے؟ارسلان نے؟اس کی خبر تو میں لیتا ہوں جا کر۔"عاقب اشتعال سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ ہانیہ فوراً سے اس کا بازو تھام کر واپس بٹھایا۔
"ارے اس نے نہیں مارا۔میں نے خود کو خود ہی مارا ہے۔"وہ بتا رہی تھی مگر عاقب کو لگا وہ دماغ سے چل گئی ہے۔
"لیکن کیوں؟"
"میں نے تو ارسلان کو مارا تھا۔اسے درد ہی نہیں ہوا۔وہ تو مسکرا رہا تھا۔جب میں نے خود کو مارا تو بہت درد ہوا۔"وہ وضاحت دے رہی تھی اور عاقب کو غصہ چڑھ گیا۔اور یہ ہوگیا عاقب کا لیکچر شروع۔
"تم پاگل ہوکیا؟خود کو کون مارتا ہے۔نہایت ہی جہالت والی حرکت کی ہے تم نے…"عاقب اور بھی بہت کچھ سنا رہا تھا۔مگر وہ منہ لٹکاۓ سب سن رہی تھی۔
"دکھاؤ!کہاں درد ہے؟"اچھی خاصی جھاڑ پلا کر وہ پھر سے فکر مند ہوا۔
"یہ…یہاں پہ۔"ہانیہ نے بازو کی طرف اشارہ کیا۔آواز میں لڑکھڑاہٹ صاف واضح تھی۔یعنی وہ بس رونے ہی والی تھی۔
"ہانی!ادھر دیکھو۔"عاقب نے اس کی تھوڑی اٹھا کر چہرہ اوپر کیا۔محترمہ کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو منڈلا رہے تھے جو کہ اب باہر بھی نکل آۓ تھے۔
عاقب کو ڈُل کر پیار آیا تھا اس پہ۔
"سوری ہانی!آئندہ سے کچھ نہیں کہوں گا۔"عاقب نے اس کا چہرہ تھام کر انگوٹھے سے آنسو صاف کیے۔
"اتنا کیوں ڈانٹا مجھے؟"وہ خفیف انداز میں استفسار کر رہی تھی۔
"تمہاری فکر ہے اس لیے۔"وہ اس کا سر اپنے سینے کے ساتھ لگاتا ہوا بولا۔
"آئندہ کچھ نہ کہیے گا۔"یہی تو چاہتا تھا محترمہ۔عاقب مسکرا دیا۔
"اچھا نہیں کہتا کچھ۔"عاقب نے اس کا سر اپنے سینے پہ سے اٹھا کر اس کے پھولے ہوۓ دونوں گالوں پہ بوسہ دیا۔پھر آہستہ سے اس کی تھوڑی،پیشانی اور دونوں آنکھوں پہ بوسہ دیا۔
ہانیہ کا سرخ و سپید رنگ ٹماٹر ہوگیا تھا۔بازو کا درد تو کہیں غائب ہی ہوگیا تھا۔عاقب نے کافی اچھی ڈوز دی تھی اسے۔
عاقب بےاختیار ہنس دیا۔
۞……۞……۞
"پوچھیں اس سے بھائی۔کون ہے وہ اشرفیہ؟"وہ تینوں آج پھر لاؤنج میں بیٹھے تھے جب جنت کی شکایتیں شروع ہوگئیں۔
"بتاؤ داور۔کون ہے اشرفیہ؟"شہریار کڑے تیوروں سے پوچھ رہا تھا۔داور تو مزے سے پاپ کارن کھاتے ہوۓ سامنے لگی فلم دیکھ رہا تھا۔
"ایویں ہی جھوٹ بول رہے تھے عاقب بھائی۔"وہ مگن انداز میں بولا۔
"بڑوں کو جھوٹا نہیں کہتے۔بتائیں اسے بھائی۔"جنت نے شہریار کو ٹہوکا دیا۔
"لیکن اللہ کی قسم میں کسی بھی اشرفیہ سے بات نہیں کرہا تھا۔وہ ہی کسی اشرف سے بات کر رہے تھے۔میں نے تو ایسے ہی آکر کہہ دیا تھا کہ وہ کسی اشرفیہ سے بات کر رہے ہیں۔انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا تھا بس۔"داور نے وضاحت دی جس کا شہریار کو یقین آچکا تھا لیکن جنت کو نہیں۔
"بھائی!مجھے یقین ہی نہیں ہے اس پہ۔داور ایک نمبر کا جھوٹا ہے۔"
"گڑیا!شوہر کو بھی جھوٹا نہیں کہتے ہیں۔"شہریار نے جنت کی پہلے کہی ہوئی بات کو داور کے لیے دہرا کر اسے سمجھایا۔
جنت نے داور کو دیکھا جو اب دانتوں کی نمائش کر رہا تھا۔
"آپ ہمیشہ داور کی ہی سائڈ لیتے ہیں۔"جنت کی بات کا اب کسی نے بھی اثر نہ لیا تھا۔
"داور یقیناً اس سین کے بعد اس کی بیوی بھاگ جاۓ۔"شہریار اب جنت کو نظر انداز کیے داور کے ساتھ فلم دیکھنے میں مصروف تھا۔
"لیکن مجھے نہیں لگتا بھائی۔کافی ڈھیٹ بیوی ہے اس کی۔"داور نے بھی کمینٹ پاس کیا۔
"ہوں۔"شہریار نے پاپ کارن اٹھا کر منہ میں ڈالا۔
جنت کو تو کوئی گھاس ہی نہیں ڈال رہا تھا۔وہ غصے سے پیر پٹختی وہاں سے اٹھی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔دروازے کو بند کیا اور بیڈ پہ چت لیٹ گئی۔
"کاش میری کوئی بہن بھی ہوتی۔"
وہ اکیلی لڑکی تھی گھر میں۔شروع دن سے اکیلی ہی رہی تھی۔جب بھی داور اور شہریار مل کر اسے نظر انداز کرتے اس کا یہی دل چاہتا کہ کاش اس کی ایک بہن بھی ہوتی۔
"لیکن اگر عنایہ گھر میں آگئی تو!…تو…مطلب میری پرابلم حل۔کچھ تو کرنا ہی پڑے گا جنت۔"وہ خود سے ہی مخاطب تھی۔
"ہانیہ اور ارسلان کو اپنے ساتھ شامل کرنا پڑے گا۔وہ ہی کچھ کرسکتے ہیں۔نکاح کی بجاۓ سیدھا شادی۔او ماۓ گاڈ۔"وہ خوشی سے دوہری ہونے لگی تھی۔
۞……۞……۞
جنت اور داور کی کلاس ابھی ختم ہوئی تھی۔جنت کلاس سے باہر نکل کر ایک طرف کھڑی ہوگئی اور اپنا چشمہ ہاتھ میں تھامے ٹیشو سے صاف کرنے لگی۔تبھی ہی داور بھی کلاس سے نکل کر اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔
داور نے ایک نظر اس کے چشمے کو دیکھا اور پھر اسے دیکھ کر گویا ہوا۔
"تم کلاس میں بار بار اپنا چشمہ کیوں صاف کر رہی تھی؟"
"بورڈ پہ لکھا ہوا سب کچھ دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔مجھے لگا شاید چشمہ گندا ہوگیا ہے،مگر شاید میری نظر پہلے سے زیادہ کمزور ہوگئی ہے۔"کہہ کر جنت نے واپس اپنا چشمہ آنکھوں پہ چڑھایا۔
"اوہ!…یعنی تمہارے چشمے کا نمبر بڑھ گیا۔پہلے چھ تھا اب تو یقیناً سات ہوگیا ہوگا۔گریٹ۔"داور جیبوں میں ہاتھ ڈالے ابرو اور کندھا دونوں اچکاۓ مسکرا دیا۔
"شرم تو آتی ہی نہیں۔چاہتے ہی یہ ہو کہ اندھی ہو جاؤں۔"وہ غصے سے بولی۔
"ہاں شاید۔"داور نے کہہ کر جنت کی آنکھوں سے چشمہ اتار خود کی آنکھوں پہ چڑھا لیا۔
"اللہ اللہ!…کتنی ویک ہے تمہاری آئی سائڈ۔خیر!…میں تھوڑی دیر بعد میں تمہارا چشمہ تمہیں واپس کر دوں گا۔"داور شرارت سے کہہ کر وہاں سے بھاگا۔
"د…داور!…مجھے چشمے کے بغیر دکھائی نہیں دیتا۔"جنت کا تو دل ہی ڈول گیا تھا اس کے بھاگنے سے۔بےاختیار وہ بھی اس کے پیچھے بھاگی۔سب کچھ دھندلا دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔داور جیسے جیسے دور ہو رہا تھا دھندلا ہوتا جارہا تھا۔جنت کو رونا آنے لگا۔اچانک اسے ٹھوکر لگی اور وہ نیچے گر گئی۔بازو زمین پہ اچانک رگڑنے کی وجہ سے تھوڑا سا چھل گیا تھا۔جنت کا بیگ بھی زمین بوس ہو چکا تھا۔
داور کو جیسے ہی پیچھے سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی وہ رکا اور آنکھوں سے چشمہ اتار کر بادل نخواستہ پیچھے مڑا۔
جنت زمین بوس تھی اور آس پاس سے جاتے سٹوڈنٹ اسے دیکھ کر اپنی ہنسی دبا رہے تھے۔
جنت کافی دل برداشتہ ہوئی تھی۔آنکھوں کے کٹورے بھر آۓ تھے۔اتنی سبکی اسے کبھی محسوس نہ ہوئی تھی،بازو چھل جانے کا درد علیحدہ تھا۔
داور جتنی سپیڈ سے دوڑ کر اس کے قریب آ سکتا تھا وہ آیا۔وہ گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھا،چشمہ زمین پہ رکھا اور جنت کو بازؤں سے تھام کر اٹھایا۔
"تم ٹھیک ہو؟"وہ متفکر ہو کر استفسار کر رہا تھا۔
جنت کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھے۔داور کا دل کٹ سا گیا۔جنت نے ایک طرف پڑا چشمہ اٹھایا،آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور آنکھوں پہ چشمہ چڑھایا۔
داور نے اس کے چھلے ہوۓ بازو کو دیکھا اور تھام لیا۔
"تمہیں تو چوٹ لگی ہے۔"وہ پریشان ہوا۔
"میں…میں ٹھیک ہوں۔"جنت نے بھیگی آواز سے کہا اور بازو واپس کھینچا۔وہ خود کے سہارے اٹھ کھڑی ہوئی داور بھی جلدی سے اٹھا اور اس کا ہاتھ تھاما۔
داور نے ایک نظر آس پاس کھڑے دبی ہنسی کے ساتھ جنت کو گھورتے سٹوڈنٹس کو دیکھا اور اشتعال کے ساتھ زور سے دھاڑا۔
"کوئی تماشہ نہیں لگا ہوا یہاں۔وہ گر گئی ہے جاہلوں۔"
سٹوڈنیس فوراً سے حرکت میں آۓ اور وہاں سے چلتے بنے۔
"چھوڑو داور مجھے۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔"وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتی وہاں سے جانے لگی۔داور آگے بڑھ کر ایک بار پھر اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔
"نہیں ہو تم ٹھیک۔چلو میرے ساتھ۔"داور درشتی سے بولا اور بغیر اس کی سنے اسے کھینچتے ہوۓ وہاں سے لے گیا۔
ہانیہ گراؤنڈ میں کھڑی،دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے سورج کو دیکھنے کی ناکام سی سعی کر رہی تھی۔ارسلان کیفے ٹیریا سے کچھ لینے گیا ہوا تھا۔
"یہ سورج کچھ زیادہ ہی ہوٹ ہو رہا ہے۔"وہ خود سے ہی کہہ رہی تھی۔لیکن جب اسی کوشش میں آنکھیں چندھیا گئیں تو آنکھیں مسلتے سامنے کا منظر دیکھا جہاں داور جنت کو کھینچتے ہوۓ لے کر جا رہا تھا۔
محترمہ کا منہ یک دم کھلکھلا اٹھا اور فوراً سے ان کی طرف بھاگی۔
داور کو یک دم بریک لگی تھی کیونکہ ہانیہ محترمہ اس کے سامنے آچکی تھی۔
"کہاں؟"دونوں ابرو بار بار اچکا کر شرارت سے پوچھا۔
"جنت کو چوٹ لگی ہے۔"داود بتا کر وہاں سے جانے لگا جب ہانیہ نے جنت کا دوسرا ہاتھ تھاما۔جنت کراہ اٹھی تو داور بھی رک گیا۔ہانیہ کی نظر جیسے ہی جنت کے بازو پہ گئی وہ چیخ اٹھی۔
"جنت کو تو چوٹ لگی ہے۔"
"تو وہی تو بتا رہا ہوں۔"داور کا تو سر ہی گھوم گیا۔
"رکو!…میرے پاس منی فرسٹ ایڈ کٹ ہے جو میں ہمیشہ اپنے بیگ میں رکھتی ہوں۔"ہانیہ نے کہہ کر اپنے بیگ میں ہاتھ ڈالا۔
جنت اور داور نے شاکڈ ہو کر اسے دیکھا۔کبھی محترمہ کے بیگ سے کھانے کی چیزیں برآمد ہوتی تھیں تو کبھی لولی پاپ۔لیکن آج تو ماشااللہ سے منی فرسٹ ایڈ کٹ بھی برآمد ہوا تھا۔
"یہ دیکھو۔"ہانیہ نے منی فرسٹ ایڈ کٹ نکالا تو داور نے جھپٹنے والے انداز میں اس سے لیا اور جنت کو کھینچ کر خود بھی نیچے گھاس پہ بیٹھ گیا۔
"دکھاؤ اپنا بازو۔"داور نے کہا تو جنت نے ایک نظر داور کو دیکھا جو تفکر سے اس کے بازو کی جانب دیکھ رہا تھا پھر اپنا بازو اس کی طرف بڑھایا۔
داور نے زخم صاف کیا اور اس پہ اینٹی باؤٹک لگا کر اسے پٹی سے باندھا۔"جنت درد کی وجہ سے سسکتی رہی تھی۔جبکہ ہماری محترمہ خود بھی گھاس پہ بیٹھی چہرہ ہاتھوں میں گراۓ کبھی جنت تو کبھی داور کو دیکھ رہی تھی۔
"ہوگیا۔تھینکس۔"داور نے ہانیہ کا منی فرسٹ ایڈ کٹ اسے واپس کیا۔
ہانیہ نے بولنا شروع کیا۔جنت اور داور چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوۓ۔
"کتنی فکر کرتا ہے داور تمہاری۔کیا تمہیں داور سے محبت نہیں ہوتی؟"
وہ بیگ میں کٹ واپس رکھتے ہوۓ مگن انداز سے کہہ رہی تھی۔جنت اور داور نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔دونوں کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔
"کیا ہورہا ہے؟"ارسلان نے غلط وقت پہ اینٹری ماری تھی۔ہانیہ نے جھٹ سے گردن اٹھا کر کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔جنت اور داور بھی ہڑبڑا کر ارسلان کی جانب متوجہ ہوۓ۔
"تھوڑا لیٹ نہیں آسکتے تھے۔"ہانیہ کو غصہ آیا۔
"لیٹ ہی تو آیا ہوں۔"یہ کہہ کر ارسلان خود بھی نیچے بیٹھ گیا اور کیفے ٹیریا سے لائی ہوئی ساری چیزیں نیچے پھیلا دیں۔
۞……۞……۞
جاری ہے۔۔

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora