"اب تو بتا دیں ہم جا کہاں رہے ہیں آخر؟"یونی سے باہر نکل کر ہانیہ نے عاجزی سے عاقب کو مخاطب کیا۔
"ہم ماموں کے گھر جا رہے ہیں شہریار کے لیے عنایہ کا رشتہ مانگنے۔"عاقب کا کہنا ہی تھا کہ محترمہ کا منہ کھل گیا۔
"کیا مذاق کر رہے ہیں آپ؟"اسے مذاق ہی لگا تھا۔
"ہاں۔"عاقب نے مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"اوہ۔میں بھی کہوں میری کہاں اتنی اہمیت کہ ایک رشتہ لینے کسی کے گھر بھیج دیں۔"اب کہ وہ مایوس ہوئی تھی۔عاقب کو بےجا اس پہ پیار آیا۔
عاقب نے اس کے دونوں گال چٹکیوں میں بھرے۔
"اس پورے ناول میں صرف تمہاری ہی تو اہمیت ہے محترمہ۔"وہ سرگوشی نما انداز میں بولا۔مگر ہانیہ بمشکل ہی سن پائی اور ناسمجھی کے ساتھ عاقب کو دیکھنے لگی۔
"دراصل شہریار کا فون آیا تھا۔وہ کہہ رہا تھا کہ جلدی سے ہانی کو لے کر میرے گھر پہنچو۔ہم عنایہ کے گھر رشتہ مانگنے جا رہے ہیں۔مگر میں نے اسے بعد میں فون کر کے کہہ دیا تھا کہ ہم سیدھا عنایہ کے گھر پہنچیں گے وہ بھی سیدھا وہیں پہنچے اور میں نے ماما بابا کو ساری بات فون پہ سمجھا دی ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ عنایہ کے گھر پہنچ جائیں۔اور اب میں تمہیں بھی لینے آیا ہوں۔"عاقب نے ساری بات اس کے گوش گزار دی۔
"اچھا!…تو کیا ہم جنت اور داور کو بھی ساتھ لے چلیں؟"وہ خوشی سے اچھلتے ہوۓ پوچھنے لگی۔خوشی تو جیسے آؤٹ آف کنٹرول ہو رہی تھی۔
"نہیں۔"منفی جواب آیا۔
"اوکے۔"ہانیہ کا چہرہ اتر گیا۔
"ان کو ابھی شہریار کے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں بتانا۔شہریار کہہ رہا تھا کہ وہ خود بتاۓ گا۔"عاقب نے سمجھایا۔
پھر وہ جانے ہی لگے تھے کہ ہانیہ بول اٹھی۔
"وہ میں اپنی ایک چیز اندد بھول آئی ہوں۔میں لے کر آتی ہوں۔"کہتے ہی وہ یونی کے اندر بھاگی۔
"ہانی ارسلان لے آئے گا وہ چیز۔"عاقب نے ہءچھے سے صدا لگائی۔
"وہ چیز ارسلان کے پاس نہیں ہے۔"وہ مڑے بغیر بولی اور تیزی سے بھاگنے لگی۔
"اُف!…یہ لڑکی بھی نا!" وہ خود سے گویا ہوا۔
۞……۞……۞
وہ چاروں ابھی بھی اسی جگہ کھڑے تھے جب بھاگتی ہوئی ہانیہ کو اپنے پاس آتے دیکھا۔
"تم دونوں کو میں نے ایک خبر دینی ہے۔"ان کے قریب پہنچتے ہی صرف داور اور جنت کو مخاطب کیا۔
ان دونوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ساتھ میں ارسلان اور عالیہ کے بھی۔
"تم دونوں پرے ہٹو۔ناراض ہوں میں تم دونوں سے۔"غصے سے ارسلان اور عالیہ کو کہا۔جن کا چہرہ ندامت سے جھک گیا۔وہ جانتے تھے کہ وہ کیوں ناراض تھی۔ان دونوں بے ہی ہانی کو اکیلا چھوڑنے کے لیے توبہ کی۔
"ادھر آؤ میرے ساتھ پھر بتاتی ہوں۔ورنہ یہ ارسلان اور عالیہ سن لیں گے۔"کسی چھوٹے بچے کی طرح کہا گیا۔ارسلان اور عالیہ کا چہرہ شرمندگی سے جھک گیا۔
"اب ہانی ایسا کرے گی ہمارے ساتھ۔"ارسلان نے آہستہ آواز میں کہا۔
"ہماری ہی غلطی ہے۔ہمیں اسے اکیلا چھوڑ کر نہیں بھاگنا چاہیے تھے۔"عالیہ نے اپنی غلطی مانی۔
"ٹھیک کہہ رہی یوں۔"ارسلان نے بھی باس کی تائید میں سر ہلایا۔
ہانیہ،جنت اور داور اب دور جا کھڑے ہوۓ تھے۔ہانیہ نے آہستہ اور سرگوشی نما انداز میں ان دونوں سے پتہ نہیں کیا بات کی کہ دونوں کے ہی منہ،آنکھیں سب کچھ پھٹ گیا۔
"کیا؟…"
"ہاں جی۔اب میرا آگے کا پلان سنو!"
ہانیہ نے اپنا پلان بھی ان کے گوش گزار دیا۔
"اب میں چلتی ہوں۔اس سے پہلے کہ میرے شوہر صاحب دندناتے ہوۓ یہاں پہنچ جائیں۔"کہتے ساتھ ہی ہانیہ پیچھے مڑی تو سامنے عاقب کھڑا تھا۔ہانیہ کے پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔
"پہنچ گیا ہوں میں یہاں بھی دندناتا دبدناتا۔"عاقب نے کھلی ہوا میں طنز چھوڑا۔
"وہ تو میں …وہ تو میں……"ہانیہ کو سمجھ ہی نہ آئی کہ کیا کہے۔پیچھے کھڑے جنت اور داور کے گلے بھی خشک ہوچکے تھے۔
"جلدی کرو محترمہ جو چیز لینی ہے لے لو۔بہت دیر ہورہی ہے۔"عاقب نے ہاتھ میں پہنی گھڑی کی طرف دیکھا اور ہانیہ کو اشارہ کیا۔
"ہاں ہاں!…بس چلیں۔میں نے اپنی وہ چیز جنت سے لی ہے۔"ہانیہ نے شکر کا کلمہ پڑھا کہ عاقب نے کچھ سنا نہیں۔
"تم نے کیا چیز لینی تھی جنت سے؟"گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ عاقب نے پوچھا۔
"وہ……وہ……وہ کچھ پرسنل چیز ہے۔"جلدی سے بہانہ گھڑ دیا گیا۔
"شوہر سے کون سی چیز پرسنل رہتی ہے۔"عاقب کا کہنا ہی تھا کہ محترمہ سرخ ہو گئیں۔
"وہ میری تھوڑی پرسنل ہے۔وہ تو جنت کی تھی۔"اپنی شرم پہ قابو پانے کے لیے بےاختیار ہی اس کی آواز اونچی ہوگئی۔
"اچھا اچھا!…نہیں پوچھتا کچھ۔"عاقب نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور سٹیرنگ پہ ہاتھ رکھ دیے اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
ابھی گاڑی آدھے راستے میں بھی نہیں پہنچی تھی کہ ہانیہ نے اپنی سائڈ والے شیشے سے دیکھا کہ ایک ہیوی بائک تیزی سے گزری ہے۔اور یہیں پہ محترمہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
اس سے پہلے کہ وہ ہیوی بائک عاقب کی نظر میں آتی ہماری محترمہ زور سے چیخ اٹھیں۔
"گاڑی روکیں۔"
عاقب نے لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر بریک پہ پاؤں رکھ دیا۔گاڑی جھٹکا کھا کر رک گئی۔وہ دونوں بھی جھٹکے سے آگے ہوۓ تھے مگر سیٹ بیلٹ کی وجہ سے بچت ہوگئی۔
"کیا ہوا؟"عاقب نے حیرت سے پوچھا۔
"وہ…میرا دل گھبرا رہا ہے۔"محترمہ نے بیوقوفی کے ساتھ بہانے بنانے میں بھی پی۔ایچ۔ڈی کر رکھی تھی۔
عاقب نے فوراً سے گاڑی کے آٹومیٹک شیشے کھول دیے۔
"اب ٹھیک ہے؟"وہ ہانی کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرے متفکر انداز میں استفسار کر رہا تھا۔
ہانی نے لمبے لمبے سانس لینے کی اداکاری کی۔
"ہاں اب ٹھیک ہوں۔شاید بند گاڑی میں دل گھبرا رہا تھا۔"اگر ارسلان اور عالیہ اس کی یہ اداکاری دیکھ لیتے تو یقیناً غش کھا کر گر جاتے۔اور اگر یہ اداکاری کسی فلم کا ڈائریکٹر دیکھ لیتا تو فلم میں رول ملنے کے بھی آثار تھے۔
"اوہ پاگل انسان بائک روکو۔"جنت نے داور سے کہا۔اس نے ہانیہ کو گاڑی میں دیکھ لیا تھا۔
"کیوں؟"داور اچنبھے سے پوچھنے لگا۔
"ارے پیچھے جو گاڑی آرہی تھی اس میں ہانی اور عاقب بھائی ہیں۔"جنت نے کہا تو داور نے جھٹ سے بائک روک دی۔
"کیا؟"داور شاکڈ ہوا۔
"ہاں ہاں!…جلدی سے بائک کو چھپاؤ اور خود بھی چھپو۔ان کے گزرتے ہم بھی پیچھے ہو لیں گے۔"
"ہاں ہاں۔"داور نے جلدی سے بائک کو گھسیٹا اور درخت کے پیچھے کھڑا کر کے خود بھی چھپ کر کھڑے ہوگئے۔
"پاگل انسان تم آہستہ بائک نہیں چلا سکتے تھے۔"وہ غصہ ہوئی۔
"اوہ ہیلو میڈم!…یہ کوئی چلتی پھرتی عام سی بائک نہیں ہے بلکہ داور کی ہیوی بائک ہے۔اور …یہ…یہ پاگل کسے کہا؟"
"ہم ایسا کرتے ہیں گھر چلتے ہیں۔تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک ہے ہانی۔"عاقب نے اس کا سر اپنے سینے پہ رکھ کر تھپکتے ہوۓ کہا۔وہ فکرمند تھا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں۔"اچانک سے ہی ہانیہ میں بجلی کی سی تیزی آگئی تھی۔اپنا سر فوراً سے اٹھا کر تسلی کروانی چاہی۔
"دیکھیں میں تو بلکل فٹ ہوں۔شہریار بھائی بیچارے ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔"عاقب کو اس کا انداز اس بچے کی طرح لگا جس کی طبیعت خراب بھی ہو تو بھی اسے اپنی پسندیدہ جگہ جانے کی ضد رہتی ہے۔
"ٹھیک ہے۔مگر میں اس حق میں نہیں ہوں کہ تمہاری طبیعت خراب ہونے پہ بھی ہم ماموں گھر جائیں۔"اس نے جھک کر ہانی کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔
"کوئی نہیں کوئی نہیں۔بیچارے شہریار بھائی کے کتنے ارمان ہوں گے آج کے۔اب آنسو تو نہیں کر سکتے نا ان کے ارمانوں کو۔ہاہ۔"اپنی بات پوری کر کے آخر میں گہرا سانس لیا گیا۔
"ہاں!دوسروں کے ارمانوں کا خیال ہے لیکن شوہر کے ارمانوں کا نہیں۔"کہتے ہی وہ گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔
"آف کارس تمہیں۔"جنت نے درخت کی اوٹ میں سے سامنے سڑک کو دیکھتے جواب دیا۔
"میں تمہاری زبان کھینچ لوں گا۔"وہ بھی درخت کی اوٹ میں سے چھپ کر سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا مگر مقابلے بازی جاری تھی۔
"تو روکا کس نے ہے؟"
"جنت تم…"
وہ یوں ہی لڑتے جھگڑتے رہتے اگر سامنے سے عاقب کی گاڑی نہ گزرتی۔
"اچھا بعد میں یہیں سے کنٹینیو کریں گے ابھی نکلتے ہیں۔"جنت نے کہا تو داور نے بھی 'ٹھیک ہے' کہہ کر گردن اثبات میں ہلائی۔
اور دونوں ہی بائک پہ بیٹھ کر نکل لیے۔
"زیادہ پیچھے نہ چلانا بائک گاڑی کے ورنہ عاقب بھائی دیکھ لیں گے پاگل انسان۔"جنت نے خدشہ ظاہر کیا۔
"ہاں ہاں پتہ ہے مجھے ڈفر،بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔"داور بھی کہاں چپ رہتا۔
"یہ لوگ آخر جا کہاں رہے ہیں ارسلان؟"عالیہ نے ارسلان کو مخاطب کیا۔
وہ دونوں بھی کہاں پیچھے رہتے۔آ گئے ان کے پیچھے چھپ کر۔
وہ دونوں اس وقت ایک عام سی بائک پہ موجود تھے جو کہ ارسلان نے اپنے کلاس میٹ سے ادھاری مانگ لی تھی۔
"یہ ہی تو پتہ کرنے جا رہے ہیں عالیہ۔"ارسلان تپے ہوۓ لہجے میں بولا۔
"اچھا اچھا!…غصہ تو نہ کرو۔"عالیہ نے منہ بسورا۔
"تو اور کیا کروں!…کب سے ایک ہی سوال کری جا رہی ہو،مجھے پتہ ہوتا تو قسم سے ضرور بتاتا۔"ارسلان نے کہہ کر سرجھٹکا۔
"زیادہ باتیں نہ کرو اور بائک چلانے پہ فوکس کرو۔"عالیہ بھی دوبدو بولی۔
اب منظر کچھ یوں تھا کہ عاقب کی گاڑی آگے تھی اس کے پیچھے ایک اور گاڑی تھی جس کے پیچھے داور نے اپنی بائک لگائی ہوئی تھی تا کہ عاقب کی نظروں میں نا آ جائیں۔داور کی گاڑی کے پیچھے ایک اور گاڑی تھی جس کے پیچھے ارسلان نے اپنی ادھار پہ مانگی ہوئی گاڑی لگائی ہوئی تھی۔
عاقب کا فون بجا تو اس نے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ تھام کر دوسرے ہاتھ سے ڈیش بوڑڈ پہ پڑا فون اٹھایا۔شہریار کی کال تھی۔عاقب نے فون کان سے لگایا۔
"ہیلو!…"
"پہنچ رہے ہو یا قیامت تک کا انتظار کروں۔"لٹھ مار انداز میں کہا گیا۔
"اب کیا جہاز بن جاؤں۔"عاقب نے بھی کڑھ کے جواب دیا۔
"بن سکتے ہو تو وہ بھی بن جاؤ مگر پہنچو جلدی۔میں تمہارے ماموں کے گھر کے باہر کھڑا ہوں اور قسم سے سارے آتے جاتے لوگ مجھے مشکوک نظروں سے گھور رہے ہیں۔"
شہریار نے اپنی گاڑی کے پاس سے گزرتی دو عورتوں کو دیکھ کر کہا جو اسے دیکھ کر چہ مگوئیاں کر رہی تھیں۔وہ اس وقت عنایہ کے گھر کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا۔
"آرہا ہوں۔تمہیں بھی تو صبر نہیں ہے۔اور اب اگر مجھے فون کر کے تنگ کیا تو یقیناً نہیں آؤں گا۔"عاقب نے کہتے ہی فون کاٹ کر ڈیش بورڈ پہ پھینک دیا۔
"کیا کہہ رہے تھے شہریار بھائی؟"چہک کر پوچھا گیا۔
"طنز کر رہا تھا۔کہہ رہا تھا جہاز بھی خرید لو۔"
"تو کیا آپ اب سچ میں خریدیں گے۔"صدا کی بیوقوف ہانیہ کا اپنے جیسا چہکتا ہوا سوال آیا تھا۔
"ہاں دماغ خراب ہوگیا ہے نا میرا۔"عاقب نے عام سے انداز میں کہا۔
"پاگل انسان تھوڑا آہستہ چلاؤ۔"جنت داور پہ چیخی۔
"کیوں؟تمہارا پیٹرول لگ رہا ہے۔"یہ آیا داور کا لہراتا ہوا طنز۔
"لگنا بھی نہیں چاہیے۔تمہاری پاکٹ منی میری پاکٹ منی سے دگنی ہے ہے۔"چبا چبا کر کہا گیا۔
"کیونکہ تم تو مزے سے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں یونی پہنچ جاتی ہو،بائک پہ پیٹرول تو میرا ہی لگتا ہےنا۔"داور نے جل بھن کر کہا۔
"ارسلان تمہیں اتنا تو معلوم ہونا ہی چاہیے کہ یہ راستہ آخر جاتا کہاں کو ہے؟"عالیہ نے تنگ کر پوچھا۔
"معلوم ہے نا۔یہ راستہ ماموں کے گھر کو جاتا ہے۔"آرام سے جواب آیا تھا اور عالیہ کا دل چاہا ارسلان کا سر ہی پھاڑ دے۔
"جاہل انسان تو وہ تمہارے ماموں کے گھر ہی تو جا رہے ہیں۔"
"لیکن کیوں؟"
"کیونکہ دماغ خراب ہوگیا ہے ان کا۔"عالیہ نے 'ٹھاہ' کر کے جواب مارا تھا۔
۞……۞……۞
جاری ہے۔۔
YOU ARE READING
جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)
Humorمیرا پہلا ناول جنونیت ہے یہی'جس کو آپ سب کے پیار اور محبت نے مجھے آگے بڑھانے کا موقع دیا ہے۔اس وجہ سے میں نے سیزن 2 لکھنے کے بارے میں سوچا۔اب ہم ہانیہ عثمان اور عاقب علی شاہ کی کہانی کے ساتھ ساتھ ارسلان علی شاہ کی کہانی کو بھی مکمل کریں گے۔لیکن یاد...