episode 16

163 10 2
                                    

"آہ!...میری بہن اور کزن کے سامنے تو عزت رکھ لے میری کم از کم۔"شہریار کراہ کر بولا۔
"اور جو میری عزت کا بیرہ غرق کر رہا ہے وہ۔"عاقب نے اسے گھورا۔
"اچھا بھئی!...ہوگئی غلطی۔اور ویسے بھی میرا بڑا ہوں۔اس لیے میں تم دونوں کو بتاؤں یا نہ بتاؤں یہ میری مرضی۔"شہریار گردن کڑا کر جنت اور داور سے مخاطب تھا۔
"بتانے والی کون سی بات ہے؟آپ نے تو چھپائی ہے بات۔صبح تو آپ صاف مکر گئے تھے۔"جنت نے کمر پہ ہاتھ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح کہا۔
"وہ تو...تم دونوں ابھی بچے ہو۔"شہریار ابھی بھی 'بچے' لفظ پہ اٹکا تھا۔
"بچے نہیں ہیں ہم۔"وہ دونوں اونچی اور یک آواز میں بولے۔
"آہستہ بولو!...میں زرا عنایہ کے کمرے میں کان لگا کر آتی ہوں۔"ہانیہ نے ان کے قریب آ کر سرگوشی کی۔پھر پھدکتی پھدکتی عنایہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔عاقب صاف سن چکا تھا کہ محترمہ کیا کہہ کر گئی ہیں۔
"ہانی واپس آؤ۔کسی کی باتیں چھپ کر سننا بری بات ہے۔"عاقب نے پیچھے سے ہانک لگائی مگر محترمہ کسی کی سنے بغیر جا چکی تھی۔
۞...۞...۞
"جیسا آپ لوگ ٹھیک سمجھے بابا!..."عنایہ نے فرمانبرداری سے کہا۔
ہانیہ نے پراپر کان لگاۓ ہوۓ تھے دروازے کے ساتھ۔
"بیٹا کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔تم بتاؤ کہ کیا ہم ہاں کہہ دیں؟"رافعہ بیگم نے ایک اور دفعہ عنایہ سے پوچھا۔
"نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔جیسا آپ لوگ ٹھیک سمجھے۔"وہ ایک بار پھر سے گویا ہوئی۔
"تو کیا ہم ہاں کہہ دیں انہیں؟"ارشد صاحب نے ایک اور بار پوچھا۔
"جی بابا!..."عنایہ نے تھوڑا سا ہچکچا کر کہا۔اسے شرم آ رہی تھی۔رافعہ بیگم اور ارشد صاحب مسکرا دیے پھر اپنی بیٹی کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھا۔
"بیگم!...آپ اسے تیار کر کے باہر لے باہر لے آئیں۔میں ان سب کو جواب سنا دیتا ہوں۔"ارشد صاحب رافعہ بیگم سے مخاطب ہوۓ اور باہر کی طرف قدم بڑھا گئے۔
ہانیہ نے ان کے قدموں کی چاپ سنی تو فوراً وہاں سے ہٹی اور گولی کی سپیڈ سے وہاں سے بھاگی اور لاؤنج میں پہنچ کر ہی دم لیا۔
"کیا سنا پھر تم نے؟"شہریار متجسس سا ہو کر آگے بڑھا۔عاقب سمیت سب نے ہی اپنے کان کھڑے کر لیے تھے۔
ہانیہ نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو سنبھالا اور گویا ہوئی۔
"بس انگوٹھی تیار رکھیں وہ لوگ آرہے ہیں۔اور...اور یہ آپ سب میرے سر پہ کیوں جمع ہوگئے ہیں اپنی اپنی جگہ جا کر بیٹھیں۔"اس نے جب اپنے ارد گرد دیکھا تو سب دائرے کی شکل میں اس کے گرد کان لگاۓ کھڑے تھے۔
سب لوگ کسی بوتل کے جن کی طرح غائب ہوۓ تھے اور اپنی اپنی نشست پہ بیٹھ گئے۔
ارشد صاحب مسکراتے ہوۓ لاؤنج میں داخل ہوۓ اور اپنی جگہ پہ بیٹھ گئے۔ان سب نے بھی مسکرا کر ان کا استقبال کیا۔
کچھ سعاتیں بیتیں تو اشد صاحب گویا ہوۓ۔
"ہمیں یہ رشتہ منظور ہے۔"انہوں نے فیصلہ سنایا تو سب کے چہرے پہ تبسم بکھر گیا۔
"آپ لوگ تھوڑی دیر انتظار کریں عنایہ کو اس کی ماما تیار کر کے لارہی ہیں۔"
جنت اور ہانیہ کی خوشی سے چیخ بلند ہوئی تھی۔حالانکہ محترمہ کو معلوم تھا لیکن پھر بھی اوور ایکٹنگ کرنا ضروری تھا۔
شہریار کا دل مانو چھلانگیں لگا لگا کر اچھل رہا تھا خوشی سے۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ لاؤنج میں کام والی ماسی چاۓ کے کپ ٹرے میں سجاۓ حاضر ہوئی۔سب کو ان کی چاۓ تھماتی وہ واپس چلی گئی۔سب لوگ چاۓ کی چسکیاں بھرنے میں مصروف ہوگئے۔
"ارسلان!...تم کب آۓ؟"ارشد صاحب کی نظر جیسے ہی ارسلان پہ پڑی وہ حیرت بھری خوشی سے بولے۔
"جی بس ابھی دس منٹ پہلے۔اور یہ عالیہ ہے،ہانی کی کزن۔"آخر میں عالیہ کا تعارف کروانا بھی ضروری سمجھا۔
"شکریہ بیٹا بتانے کے لیے۔مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔"وہ مسکراہٹ دبا کر شرارتاً بولے۔
"انکل کو میرا تعارف کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔اچھا!...میں بہت اچھے سے ملی تھی ہانی کی شادی پہ ان سے۔کیوں انکل؟"وہ ایک ادا سے بال جھٹک کر گویا ہوئی اور انکل سے آخر میں تائید چاہی تو ارشد صاحب نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔
"اچھا!...تو تم نے انکل کو یہ نہیں بتایا کہ تم میری کیا لگتی ہو؟"ارسلان نے ابرو اچکا کر تیکھی نظریں کر کے پوچھا۔
"مجھے معلوم ہے۔دوست ہے تمہاری۔"ارشد صاحب نے جواباً کہا۔
"جی نہیں۔فیوچر وائف ہے میری۔"ارسلان نے کالر جھٹک کر کہا۔وہ سب جو چاۓ کی چسکیاں بھرنے میں مصروف تھے چاۓ فوارے کی طرح ان کے منہ سے نکلی تھی۔
عالیہ نے آنکھیں پھاڑے ارسلان کو دیکھا تھا۔وہیں پہ ارشد صاحب بھی ارسلان کو حیرت سے گھورنے لگا۔
ثمینہ بیگم کا بس نہیں چلا تھا کہ وہیں سے جوتا اٹھا کر ارسلان کو کھینچ مارے۔
عاقب اور منظور صاحب ارسلان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھےجیسے آنکھوں سے ہی نگل جائیں گے۔
شہریار،جنت اور داور تینوں ہی بمشکل اپنی ہنسی پہ قاپو پاۓ ہوۓ تھے۔ایسے میں اگر کوئی ارسلان کو بچانے والا تھا تو وہ صرف ہماری محترمہ تھی۔
"ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں اس بیچارے کو۔مذاق کر رہا ہے وہ۔"
"نہیں ہانی میں مذاق نہیں کر رہا۔"ارسلان نے ہانیہ کی بات کاٹی۔
"ارسلان!...تم مذاق کر رہے تھے۔"وہ دانت چبا کر کہتی ارسلان کو باور کر وا گئی۔
"ہاں!...مذاق ہی کر رہا تھا میں۔"ہانیہ کی گھوری کو سمجھتا وہ بات بدل گیا۔
کوئی بھی اس کے مذاق سے مطمئن نہیں ہوا تھا۔
"کوئی بات نہیں۔اگر بچہ عالیہ کو پسند کرتا ہے تو اس میں کوئی بری بات تو نہیں۔"ارشد صاحب نے ماحول کا اثر زائل کیا۔
"وہی تو انکل۔سمجھاۓ ان سب کو۔"ارسلان محترم ایک بار پھر اپنا بیان بدل گئے وہیں پہ ہانیہ کا دل چاہا ساروں کی گرم گرم چاۓ ارسلان کے سر پہ انڈیل دے۔عالیہ اچھے سے ارسلان کو وہاں سے جانے کے بعد شوٹ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
ارشد صاحب سمیت جنت،داور اور شہریار ہنس دیے۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ رافعہ بیگم عنایہ کو لیے لاؤنج میں داخل ہوئیں۔
نفیس سا سوٹ پہنے،ہلکے ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ نہایت ہی معصوم اور خوبصورت ظاہر ہو رہی تھی۔شہریار کا تو دل ہی تھم گیا۔
"آگئی تم؟تمہیں پتہ ہے شہریار بھائی تمہیں دیکھنے کے لیے کتنا بےتاب ہورہے تھے۔"بیچاری عنایہ ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ ارسلان شروع ہوگیا۔شہریار نے تو جیسے ارسلان کو سنا ہی نہیں تھا۔لیکن باقی سب نے ضرور سنا تھا اور ثمینہ بیگم نے تو بہت اچھے سے سنا تھا۔
"ارسلان!...زرا میرے ساتھ آنا۔"ثمینہ بیگم نے دانت پہ دانت جماۓ زبردستی مسکراتے کہا۔
"نہیں۔میں نہیں آؤں گا۔"ارسلان نے آرام سے سر نفی میں ہلایا تو ثمینہ بیگم نے گھورا۔
"مجھے پتہ ہے آپ اکیلے میں لے جا کر مجھے ڈانٹنے والی ہیں۔ہے نا؟...ہےنا؟...میں نے پکڑ لیا آپ کو۔"ارسلان انگلی نچا نچا کر ان سے دریافت کرتا اپنی شامت آپ بلوا رہا تھا۔سب ہی ہنس دیے تھے۔
ثمینہ بیگم اس بار تو گھور بھی نہ سکیں۔انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ گھر جا کر اس کی اچھی خاصی طبیعت صاف کریں گی۔
"ارسلان!...اتنا منہ کھولو کہ باہر جانے کے بعد تم برداشت بھی کر سکو۔"داور نے تھوڑا قریب ہو کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔اور اس بار ارسلان سچ میں چپ ہوگیا تھا۔کیونکہ ثمینہ بیگم سمیت عالیہ بھی اسے پھاڑ کھانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
عنایہ کو بٹھا دیا گیا تھا۔رافعہ بیگم اور ثمینہ بیگم عنایہ کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھی تھیں۔
"انگوٹھی دو بیٹا۔رسم شروع کرتے ہیں۔"ثمینہ بیگم نے کہا تو داور نے انہیں انگوٹھی تھما دی۔شہریار کی طرف سے رسم ثمینہ بیگم ادا کر رہی تھیں۔
عنایہ پلکیں جھکاۓ شرمائی ہوئی سی بیٹھی تھی جبکہ شہریار کی تو نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی سامنے سے۔
"شیری بھائی!...ماشااللہ پڑھ دیں۔آپ تو ایسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہیں ہیں جیسے پہلی دفعہ دیکھا ہو کسی صنفِ نازک کو۔"ہانیہ نے جملہ پھینکا۔شہریار نے مجبوراً نظریں ہٹا لیں۔آج تو اس جوان نسل نے قسم کھا رکھی تھی کہ بڑوں کو ہنسا ہنسا کر انکے گردے فیل کروانے کی۔
ثمینہ بیگم نے انگوٹھی عنایہ کی ہرٹ فنگر میں پہنائی تو سب نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔
یوں ہی قہقہوں ،شرارتوں اور چھیڑ چھاڑ کے ساتھ منگنی کی رسم ادا کر دی گئی۔
ہانیہ اور ارسلان نے شہریار اور عنایہ کو چھیڑ چھیڑ کر ان کا جینا حرام کر دیا تھا۔سب ہی ان کی نوک جھونک دیکھ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔

جنونیت ہے یہی Season 2(بقلم جیاءرانا)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora