اک خواہش اور بھی ہے
کہ پھر عشق ہو اور تجھی سے ہو
کہ پھر حجر ہو تو طویل ہو
کہ پھر امتحان ہو تو شدید ہواک فرمائش اور بھی ہے
کہ پھر ذہر ہو اور ترش ہو
کہ پھر خم ہو اور فرش ہو
کہ پھر ملاقات ہو اور عرش ہواک فریاد اور بھی ہے
کہ اسکی گلی ہو اور نظر اسی سے ملی ہو
کہ میری آنکھ میں جو آنسو ہو اور دل اسکا بھی بےقابو ہو
کہ عشق کا اقرار ہو اور آنکھ اسکی بےقرار ہواک نشا اور بھی ہے
کہ پھر ذکر ہو اور اسی کا ہو
کہ پھر آغوش ہو اور ہوش ہو
کہ پھر وہی کہانی ہو اور صوفی کی زبانی ہو