غزل ٨

61 3 0
                                    

اوڑھ کر اسکی یادوں کی چادر
وہ ہے اب صندوق پرولے

اک اک چادر یار کی
رکھی ہے اسنے سنبھالے

کسے تم عشق کا سبق دیتے ہو
کوئی اسکا دل تو کھولے

یہ ہنسی سے آنسو چھپانا ہے ہنر اسکا
کاش وہ بھی کبھی کھل کے رو لے

دانتوں میں ہونٹ دبائے نم آنکھوں میں اسکا چہرا
وہ کم بولے، اس میں اسکا یار بولے

یہ دنیا جگہ کہاں ہے عاشق کی
اے صوفی تو اب قبر کا ہو لے

ع ش قWhere stories live. Discover now