اوڑھ کر اسکی یادوں کی چادر
وہ ہے اب صندوق پرولےاک اک چادر یار کی
رکھی ہے اسنے سنبھالےکسے تم عشق کا سبق دیتے ہو
کوئی اسکا دل تو کھولےیہ ہنسی سے آنسو چھپانا ہے ہنر اسکا
کاش وہ بھی کبھی کھل کے رو لےدانتوں میں ہونٹ دبائے نم آنکھوں میں اسکا چہرا
وہ کم بولے، اس میں اسکا یار بولےیہ دنیا جگہ کہاں ہے عاشق کی
اے صوفی تو اب قبر کا ہو لے