عشق کے گھنگھرؤں کی چھنکار سنائی دیتی ہے
پھر کوئی دل ٹوٹا ہے آہ سنائی دیتی ہےخدائی بھی کمال ہے، عرش اب کیوں لال ہے
اسکے آنسوؤں کی قطار دکھائی دیتی ہےپتھر بھی گرد اڑاتے مٹی ہو رہے ہیں
اسکی دھمال میں سچائی دکھائی دیتی ہےکیا حکمت ہے مولا کی مولا جانے
دل ٹوٹنے میں ہی اسکی رضا دکھائی دیتی ہےاسکی باتوں میں دعاؤں میں تاثیر ہے بہت
صدا عرش کو ہلاتی دکھائی دیتی ہےچہرا اسکا پوری کہانی سناتا ہے
اسکی آنکھوں میں اک تصویر دکھائی دیتی ہےگلی چھوڑی ہے یار کی خود کا قتل کیا ہے
ہواؤں میں اب چیخ و پکار دکھائی دیتی ہےسر اٹھاے ہاتھ پھیلائے لگاتار ہے گھومتا
اسکی مسکان میں اسکی دعا دکھائی دیتی ہےڈھول کی تھاپ پر کوئی یونہی نہیں ناچتا
صوفی کے رقص میں جدائی دکھائی دیتی ہے