غزل ١٠

52 2 0
                                    

عشق کے گھنگھرؤں کی چھنکار سنائی دیتی ہے
پھر کوئی دل ٹوٹا ہے آہ سنائی دیتی ہے

خدائی بھی کمال ہے، عرش اب کیوں لال ہے
اسکے آنسوؤں کی قطار دکھائی دیتی ہے

پتھر بھی گرد اڑاتے مٹی ہو رہے ہیں
اسکی دھمال میں سچائی دکھائی دیتی ہے

کیا حکمت  ہے مولا کی مولا جانے
دل ٹوٹنے میں ہی اسکی رضا دکھائی دیتی ہے

اسکی باتوں میں دعاؤں میں تاثیر ہے بہت
صدا عرش کو ہلاتی دکھائی دیتی ہے

چہرا اسکا پوری کہانی سناتا ہے
اسکی آنکھوں میں اک تصویر دکھائی دیتی ہے

گلی چھوڑی ہے یار کی خود کا قتل کیا ہے
ہواؤں میں اب چیخ و پکار دکھائی دیتی ہے

سر اٹھاے ہاتھ پھیلائے لگاتار ہے گھومتا
اسکی مسکان میں اسکی دعا دکھائی دیتی ہے

ڈھول کی تھاپ پر کوئی یونہی نہیں ناچتا
صوفی کے رقص میں جدائی دکھائی دیتی ہے

ع ش قWhere stories live. Discover now