غزل ٢

128 7 2
                                    

تجھے ہی تو مانگ رہا تھا میں
ازاں پھر کب ہوئی کچھ خبر نہیں 

 اچھا بھلا رو رہا تھا میں
آنکھ پھر کب لگی کچھ خبر نہیں

ابھی تو ذکر چھیڑا ہی تھا تیرا
صبح پھر کب ہوئی کچھ خبر نہیں 

تیرا نام لیتے ہی کھل اٹھا تھا میں 
اشکباری پھر کب ہوئی کچھ خبر نہیں 

سیدھا سادہ مزاج تھا میرا
دل لگی پھر کب ہوئی کچھ خبر نہیں 

ع ش ق ہی تو لکھ رہا تھا میں 
تیری تصویر پھر کب بنی کچھ خبر نہیں 

تجھ سے پہلے بھی تو جی رہا تھا میں 
تو لازم پھر کب ہوئی کچھ خبر نہیں 

فرض پڑھے سنت پڑھی اور نفل پڑھے
 تیری تسبیح پھر کب پڑھی کچھ خبر نہیں

عشق والوں کی زندہ مثال تھا میں 
اسے بے اعتباری پھر کب ہوئی کچھ خبر نہیں 

صوفی کی پریم کہانی تو ابھی پروان چڑھنی تھی
زندگانی ختم پھر کب ہوئی کچھ خبر نہیں




ع ش قWhere stories live. Discover now