غزل ۵

66 4 0
                                    

لب یار کی تلخی
ہے درحقیقت ہماری جان پر سختی

اس عہد کے ساتھ کہ اب نا ہوگا
آج ملی ہے ہمیں معافی

عشق میں کب عاشق کی چلی ہے
کھڑا ہونا سرخم ہے عاشقی

محبوب من به من
یہی ہے اصول شاہی

محبوب تو پھر محوب ہے
عاشق مفروضے فرمانبرداری

گوید که محبوب آنها گوید که می
جو یار کی بولی وہ میری بولی

کیوں نہ ہو اس میں نخرا بلا کا
او محبوب است صوفی.

ع ش قWhere stories live. Discover now