لب یار کی تلخی
ہے درحقیقت ہماری جان پر سختیاس عہد کے ساتھ کہ اب نا ہوگا
آج ملی ہے ہمیں معافیعشق میں کب عاشق کی چلی ہے
کھڑا ہونا سرخم ہے عاشقیمحبوب من به من
یہی ہے اصول شاہیمحبوب تو پھر محوب ہے
عاشق مفروضے فرمانبرداریگوید که محبوب آنها گوید که می
جو یار کی بولی وہ میری بولیکیوں نہ ہو اس میں نخرا بلا کا
او محبوب است صوفی.