السلام علیکم ماں جی اور باباجان وہ ڈائننگ ہال میں انہیں دیکھتے ہوئے بولا جو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ڈنر کے لیے اس کا انتظار کر رہے تھے ۔ وعلیکم السلام بیٹا دونوں بیک وقت پیار سے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولے ۔ سوری میں لیٹ ہو گیا وہ چیئر کھنیچ کر بیٹھتے ہوئے بولا ۔ کوئی بات نہیں بیٹا کھانا شروع کرؤ ماں جی محبت بھرے لہجے میں بولیں ۔ وہ ڈنر ہمیشہ سے ماں جی اور باباجان کے ساتھ کیا کرتا تھا ۔ آپ دونوں سے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جب میں لیٹ ہو جاؤں تو آپ ڈنر شروع کر دیا کریں ۔ برخوردار آپ بھی جانتے ہیں گھر میں آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے بغیر کھانے کی عادت نہیں ہے وہ اس کی پلیٹ میں سالن ڈالتے ہوئے بولے تھے ۔ باباجان آپ کیوں زحمت کر رہے ہیں میں خود سالن ڈال لیتا کبھی کبھی تو آپ مجھے شرمندہ کر دیتے ہیں انہیں پیار سے دیکھتے ہوئے بولا ۔ بیٹا بھلا اس میں شرمندگی والی کیا بات ہے چلو اب خاموشی سے کھانا کھاؤ ۔ باپ بیٹے کی باتیں سن کر ماں جی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ چھا گئی ۔
بیٹا کچھ دیر تک میرے پاس سٹڈی روم میں چلے آنا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔ وہ ڈنر کر کے اٹھ ہی رہا تھا کہ بابا جان بولے تھے ۔ " جی ٹھیک ہے باباجان "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دستک دیتا ہوا سٹڈی روم میں داخل ہوا تھا ۔ آؤ بیٹا بیٹھو وہ شانی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے تھے ۔ انہوں نے اپنے سامنے چیئر پر بیٹھے شانی کو غور سے دیکھا جسے وقت نے بہت بدل دیا تھا ، خوبصورت چہرے پر گھنی مونچھوں ، داڑھی اور آنکھوں پر نظر والے چشمہ میں اضافہ ہو گیا تھا باباجان ایسے کیا دیکھ رہے ہیں وہ ان کو خاموش دیکھ کر بولا تھا ۔ دیکھ رہا ہوں وقت کے ساتھ ساتھ ماشاءاللہ سے میرا بیٹا بہت خوبصورت ہو گیا ہے ۔ بابا جان کی بات پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھائی تھی ۔ اچھا بیٹا میں تم سے ایک بات کرنا چاہ رہا تھا وہ اس بار سنجیدگی سے بولے ۔ جی باباجان کجیئے اس کے لیے آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے وہ عقیدت سے بولا تھا ۔ بیٹا مجھے یقین ہے جو بات میں کرنا چاہ رہا ہوں کچھ عرصہ پہلے کی طرح آج تم میری بات نہیں ٹالو گئے ۔ جی بابا جان میں بھلا آپ کی کوئی بات کیسے ٹال سکتا ہوں وہ انہیں دیکھتے ہوئے فرمابرداری سے بولا ۔ بیٹا کسی کو بھولنے کے لیے پانچ سال بہت ہوتے ہیں میں اب تمہارے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں ہمارا کیا پتہ آج تمہارے سامنے زندہ ہیں کل ہوں یا نہ ہمارے بعد تمہارا کیا ہو گا کون تمہارا خیال رکھے گا ۔ باباجان آپ کیسی بات کر رہے ہیں ان کی بات پر اس کا دل تڑپ سا گیا ۔ اللہ نہ کرے کبھی آپ دونوں کو کچھ ہو وہ چئیر سے اٹھ کر گھٹنوں کے بل ان کے پاس بیٹھے ہوئے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولا تھا ۔ اللہ تعالی آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رکھیں میری زندگی بھی آپ دونوں کو لگ جائے آپ جانتے ہیں آپ دونوں ہی میری زندگی ہیں پھر کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ بیٹا حقیقت کو جھٹلایا تو نہیں جا سکتا یہ تو زندگی کی حقیقت ہے ہر کسی کو ایک دن یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہے ہم اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے تو نہیں آئیں ہیں وہ اس کے بالوں کو سنوارتے ہوئے سمجھتے ہوئے بولے تھے ۔ وہ اس بار خاموش رہا اس کی آنکھوں سے آنسو کے چند قطرے ان کے ہاتھ پر گرئے تھے ۔ یہ کیا یار تم تو بچوں کی طرح رونا شروع ہو گئے ۔ چلو اٹھو تمہاری ماں کو پتہ چلا نہ میری وجہ سے تمہاری آنکھوں میں آنسو آئیں ہیں تو میری تو خیر نہیں ہے تم تو جانتے ہو میں کسی سے نہیں ڈرتا سوائے تمہاری ماں سے وہ اسے شانوں سے تھام کر اٹھاتے ہوئے مسکرا کر بولے تھے ۔ ہر شوہر کیا اپنی بیوی سے آپکی طرح ہی ڈرتا ہے وہ بھی اس بار باباجان کی خاطر آنکھوں پر لگا چشمہ اتار کر مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔ ہاں تمہیں بھی شادی کے بعد تجربہ ہو جائے گا انہوں نے مسکراتے ہوئے شانی کے چہرے کو دیکھا ۔ جو ایک ہاتھ میں چشمہ تھامے دوسرے ہاتھ سے آنسو صاف کر رہا تھا ۔ یار ویسے میں نہیں جانتا تھا کہ میرے بیٹے کا دل بھی لڑکیوں کی طرح نازک ہو گا باباجان نے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے مذاقاً کہا ۔
"بابا جان اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں سے مضبوط بنایا ہے لیکن یہ جو دل ہوتا نا سب کا ایک جیسا نازک سا ہوتا ہے کسی بھی بات پر جتنی تکلیف کسی عورت کے دل کو ہوتی ہے اتنی تکلیف مرد کو بھی ہوتی ہے بس فرق یہ ہوتا ہے مرد سب کے سامنے اپنی تکلیف ظاہر نہیں کرتا ۔" اس نے اپنا چشمہ رومال سے صاف کرتے ہوئے آنکھوں پر لگاتے ہوئے کہا ۔ بھئی ہمارے بیٹے کو بہت باتیں آ گئی ہیں چلو ہم بھی آج آپ کی بات مان لیتے ہیں ۔ باباجان مجھے تو بس اتنا پتہ ہے آپ دونوں سے اور آپا سے بہت محبت کرتا ہوں آپ لوگوں کو تھوڑی بہت تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتا جب آپ کو بابا کھانسی بھی آتی ہے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے میں اپنی زندگی سے وابستہ لوگوں سے بے حد محبت کرتا ہوں وہ چیئر پر بیٹھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں بولا تھا ۔ بھئی ہم بھی جانتے ہیں ہمارا بیٹا کسی کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اور ہم سے بے پناہ محبت کرتا ہے اس لیے تو اپنے دکھ تکلیف بھی ہم سے شئیر نہیں کرتا وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔ نہیں باباجان ایسی بات نہیں ہے جیسے آپ سوچ رہے ہیں ۔ اوکے اب ذرا اس بات پر آتے ہیں جو میں تم سے کرنا چاہ رہا تھا ۔
"جی باباجان "بیٹا اب تمہیں شادی کر لینی چائیے تمہاری فکر میں تمہاری ماں بھی بیمار رہنے لگی ہیں مجھے سے ان کو گلہ ہے کہ میں تم سے بات نہیں کرتا ہوں بات کرنے کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے جو ان کے سامنے سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا ۔ "بیٹا کیا تم اپنی ماں کی خوش کے لیے میرج کر سکتے ہو ؟ " اس بار ان کے لہجے میں التجا سی تھی ۔
اس نے سر اٹھا کر باباجان پر نگاہ ڈالی اوکے باباجان میں شادی کے لیے تیار ہوں اس نے کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے مدہم لہجے میں کہا کیونکہ وہ اس بار ان کے التجائیہ لہجے کو انکار نہیں کر سکا تھا اسے بھی لگا تھا باباجان ٹھیک ہی کہتے ہیں اس وقت اسے ایک شرمندگی سے بھی ہوئی کہ وہ آج تک صرف اپنے بارے میں سوچتا آیا ہے کبھی ان کی خوشی کے بارے میں خیال کیوں نہیں آیا ۔ سچ بابا جان کے چہرے سے خوشی جھلکنے لگی انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کا بیٹا شادی کے لیے تیار ہو گیا ہے ۔ لیکن میری ایک شرط ہے ۔ بیٹا بس تم نے شادی کے لیے ہامی بھر لی ہے ہمارے لیے تو یہی بہت ہے تمہاری ہر شرط ہمیں منظور ہے وہ محبت بھرے لہجے میں بولے تھے ۔ بابا جان میں چاہتا ہوں میری شادی سادگی سے ہو اور آپ ولیمہ پر سب کو انوائٹ کر لیجئے گا وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔ اوکے بیٹا جیسے تمہاری مرضی میں تمہاری ماں کو بھی سمجھا دؤں گا ۔ "شکریہ بابا جان ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شانی اس وقت آفس میں بیٹھا ہوا تھا سامنے ٹیبل پر پڑے لیپ ٹاپ کو آف کرنے ہی لگا تھا کہ کوئی خیال آتے ہی سکائپ آن کر کے سحرش کو کال کرنے لگا ۔ اس نے فوراً کال ریسو کی تھی سکرین پر اس کی تصویر نمودار ہوئی میں کب سے انتظار کر رہی ہوں تم اب آن لائن ہو رہے ہو وہ غصے سے گھورتی ہوئی بولی تھی یہ دیکھو میرا پیارا سا بیٹا بھی صبح سے کہہ رہا تھا مجھے آج شانی گلاسز والے چاچو سے بات کرنی ہے وہ اپنے تین سالہ بیٹے کے پیشانی پر پیار سے بوسہ دیتی ہوئی بولی تھی ۔ سوری سحرش کچھ کام میں مصروف تھا وہ سر کھجاتے ہوئے بولا ۔ "اوکے شانی " بیٹا چاچو کو ہائے بولو ۔ انگریزوں کے ملک میں رہے کر اس کو بھی انگلش ہی سیکھا رہے ہو وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔ نہیں جی میرا پیارا سا بیٹا انگلش اردو دونوں بول لیتا ہے وہ لاڈ بھرے انداز میں بولی تھی ۔ اوئے شہزادے تمہاری ماں کیا ٹھیک کہہ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے پیار سے کہا ۔ " بیٹا بولو ہاں "۔ ایک تو میرا بیٹا شرما جاتا ہے صبح سے شانی چاچو چاچو کر رہا تھا اب بات ہی نہیں کر رہا ہے وہ مسکراتی ہوئی بولی ۔ اچھا جی اور سناؤ کیا حال ہے ۔ میں تو ٹھیک ہوں تم بتاو ۔ بس ٹھیک ہوں ۔ ویسے شانی پانچ سالوں میں بہت بدل گئے ہو خاموش سے سنجیدہ مزاج کے ہو گئے ہو ۔ بھئی اس عمر میں سنجیدگی نہیں آئی گئی تو اور کب آئی گئی وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔ لو جی بات تو ایسے کر رہے ہو جیسے بوڑھے ہو چکے ہو ۔ خیر لڑکا بھی نہیں رہا ۔ اچھا شادی کب کر رہے ہو ۔ اس کا دل چاہ بہت جلد بول دے لیکن اسے پتہ تھا کہ وہ آنے کی ضدی کرے گئی اس لیے پھر بتانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے وہ اس بار چڑ کر بولا ایک تو مجھے سے زیادہ تم سب کو میری شادی کی کیوں پڑی ہوئی ہے ۔ کیونکہ ہم سب تمہیں ہمیشہ سے خوش دیکھنا چاہتے ہیں پتہ نہیں تمہیں کیا ہو گیا ہے شانی وہ سنجیدگی سے بولی ۔ میں نے زندگی میں سنجیدگی کیا اختیار کر لی ہے اور تم سب پتہ نہیں کیا سوچنے لگے ہو وقت کے ساتھ ساتھ ہر انسان میں تھوڑی بہت تبدیلی تو آتی رہتی ہے وہ جھنجلاتے ہوئے بولا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی کہ آپ کا بیٹا شادی کے لیے تیار ہو گیا ہے باباجان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے بولے تھے ۔ خوشی تو بہت ہوئی ہے لیکن مجھے شرط والی بات بالکل اچھی نہیں لگی ہے خاندان والے کیا کہیں گئے ہم تو شادیوں پر بلاتے رہے ہیں اور اپنے وقت اکلوتے بیٹے کی شادی پر بلایا بھی نہیں ہے میں نے خود سوچا تھا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کرؤں گئی وہ اس بار ناراضگی سے بولیں تھیں ۔ آپ خاندان والوں کی کوئی فکر نہ کریں ولیمہ پر سب کو انوائٹ کر دیں گئے اور سب اب تک آپ کے بیٹے کے مزاج کو سمجھ چکے ہیں ۔ آپ کے لیے تو یہی خوشی بہت زیادہ ہے کہ آپ کا بیٹا شادی کے لیے تیار ہو گیا اور اللہ تعالی بھی سادگی کو پسند کرتے ہیں ۔ چند قریبی رشتے دار تو ہوں گے نا یہی بہت ہے باباجان نرم لہجے میں سمجھتے ہوئے بولے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بھی ہر بار ہمارے پیچھے بھاگے چلے آتے ہو وہ عادل کو گھورتے ہوئے بولی تھی ۔ ڈئیر کزن میں اپنی پیاری سے بہن کے گھر آتا ہوں اس خوشی فہمی میں نہ رہو کہ میں تمہارے پیچھے آتا ہوں وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا تھا ۔ حالانکہ وہ ہمیشہ سائرہ کی وجہ سے ہی کراچی سے پیرس سب کچھ چھوڑ کر چلا آتا تھا ۔ رات کے نو بج رہے تھے وہ دونوں اس وقت پیرس کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے ۔ سائرہ اس وقت جینز شرٹ کے ساتھ بلیک کوٹ میں ملبوس تھی گلے میں مفلر لپیٹا ہوا تھا ۔ عادل نیلی جینز اور وائٹ جرسی میں ملبوس کافی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ ہمیشہ تمہیں بھی بھابی سے اس وقت ہی کیوں ملنے آتے ہو جب ہم آتے ہیں ۔ تمہیں تو میرا شکریہ ادا کرنا چائیے کہ میں کمپنی دینے چلے آتا ہوں ورنہ تو گھر میں بند بور ہوتی رہتی ۔ ہونہہ میں کیوں شکریہ ادا کرؤں میری بلا سے تم ابھی واپس چلے جاؤ ۔ کیا کرؤں تمہیں اکیلا چھوڑ بھی نہیں سکتا وہ شوخ لہجے میں بولا تھا ۔ بس بس اب یہ ڈرامے بازی بند کرؤ وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہوئے چڑ کر بولی تھی ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی ۔
عادل اس کی پھپھو کا بیٹا اور بھابی کا بھائی تھا ایک کزن کی حیثیت سے دونوں میں کافی بے تکلفی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیگم جی آج بہت خوش لگ رہی ہیں کیا بات ہے حسن نے آفس بیگ صوفے پر رکھتے ہوئے اسے دیکھ کر کہا ۔ کیونکہ میں آج بہت خوش ہوں آخر کار شانی شادی کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے وہ اس کا کوٹ اٹھاتے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے میں بولی ۔ بھئی یہ تو بہت خوشی کی بات ہے پھر تو آپ کو مبارک باد دیتے ہیں اس نے شوز اتارتے ہوئے کہا ۔ غیر مبارک وہ مسکرا کر بولی ۔ ویسے شادی کس سے ہو رہی ہے ۔ ابھی یہ تو ٹھیک پتہ نہیں ہے اگر اس کی کوئی پسند نہ ہوئی تو ماں جی کہہ رہی تھیں عفت خالہ کی بیٹی کو بہو بناؤں گئی ۔
شانی ڈنر کے بعد لاؤنج میں ماں جی اور بابا جان کے پاس بیٹھا باتوں میں مصروف تھا ۔ "بیٹا اگر تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو بتا دؤ "؟ ماں جی میری تو کوئی پسند نہیں ہے آپ جس لڑکی سے کہیں گئی میں میرج کر لوں گا اس بار مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔ بیگم جی اب تو آپ کو اپنے بیٹے سے کوئی شکوہ نہیں ہے نا وہ نیوز چینل لگاتے ہوئے بولے تھے ۔ پہلے بھی کوئی شکوہ نہیں تھا میں تو بس اپنے بیٹے کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں وہ شانی کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر بولیں ۔ ویسے بیگم آپ اب اپنے بیٹے کی شادی کسی سے کرنا چاہ رہی ہیں ہمیں بھی تو پتہ چلے ۔ میں عفت بہن کی بیٹی عائشہ کو بہو بناؤ گئی ماشاءاللہ سے عائشہ بیٹی بہت اچھی اور سب کا خیال رکھنے والی ہے ۔ ہاں کہہ تو اب ٹھیک رہی ہیں ہم جب بھی جاتے ہیں ماں باپ کی طرح خیال رکھتی ہے ۔ شانی تو عائشہ کا نام سنتے ہی شاکڈ رہے گیا وہ دونوں شانی سے بے خبر عائشہ کے بارے میں باتیں کرنے میں مصروف تھے ۔ بیٹا تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ماں جی اسے کی طرف متوجہ ہوتی ہوئیں بولیں ۔ ماں جی ہم دونوں کی عمروں میں بہت فرق ہے میں تیس سال کا ہو رہا ہوں اور عائشہ تو چوبیس سال کی ہو گئی ۔ بیٹا عمروں کے فرق سے کچھ نہیں ہوتا اپنے بابا جان کو دیکھ لو یہ بھی تو مجھے سے بڑے ہیں وہ اسے سمجھتی ہوئیں بولیں ہاں برخوردار تمہاری ماں ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ وہ اس بار خاموش رہا اوکے پھر جیسے آپ کو مناسب لگے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو عائشہ اور اقراء باہر آؤ تمہاری خالہ آئی ہوئی ہیں ان کو سلام کرؤ وہ کمرے میں داخل ہوتی ہوئیں بولیں ۔ جی امی جان ہم ابھی آ ہی رہی تھیں عائشہ سر پر دوپٹہ لیتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اقراء چلو بھی اب اس شیشے کی جان چھوڑ دؤ وہ اسے دیکھ کر بولی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی بال سنوارنے اور خود کو دیکھنے میں مصروف تھی ۔ آف آپی آپ تو ایسی کہہ رہی ہیں جیسے میں صبح سے یہاں کھڑی ہوں وہ جھنجلاتی ہوئی بولی ۔ اچھا اب چلو بھئی امی کیا سوچ رہی ہوں گئی میں بلانے گئی ہوں تو بھی اب نہیں آ رہی ہیں ۔ اوکے چلیں وہ دوپٹہ سر پر لیتی ہوئی پھر سے شیشے میں خود کو ایک نگاہ دیکھ کر بولی ۔
السلام علیکم خالہ دونوں ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی ہوئیں بولیں ۔ وعلیکم السلام بیٹا وہ پیار سے دونوں کو دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔ بابا جان نے شفقت سے دونوں کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ سلام کرنے کے بعد دونوں سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں ۔ کیسی ہو بیٹا ؟ ٹھیک خالہ آپ بتائیں عائشہ مدہم لہجے میں بولی تھی ۔ بھئی ہم بھی ٹھیک ہیں ۔ کچھ دیر بعد دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں اور کچن کا رخ کیا ۔ چلو اقراء تم چائے بناؤ میں شامی کباب فرائی کر لیتی ہوں وہ فریزر کھولتی ہوئی بولی تھی ۔ اوکے آپی وہ فرمابرداری سے بولی تھی ۔
عمارا بیٹی نظر نہیں آ رہی ہے جی باجی وہ کچھ دنوں سے میکے گئی ہوئی ہے وہ اپنی بہو کے بارے میں بتاتی ہوئیں بولیں ۔ اصل میں اسلم ہم آج آپ سے خاص بات کرنے آئے تھے اس بار بابا جان بولے تھے ۔ جی قاسم ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم اپنے شان کے لیے آپ کی بیٹی عائشہ کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں ۔ یہ بات سنتے ہی عفت خالہ کے چہرے سے خوشی جھلکنے لگی انہیں ہمیشہ سے شان بہت پسند تھا ۔ عائشہ آپ کی ہی بیٹی ہے ہم بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے کیوں بیگم خالوجان خوشی سے بولے تھے ۔ کیونکہ وہ خود آج کل عائشہ کے رشتے کے بارے میں سوچ رہے تھے جی بالکل اسلم ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ ان کی بات سن کر باباجان اور ماں جی کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر چھا گئی ۔ " بہت شکریہ بھائی صاحب " باجی اس میں شکریہ کی کیا بات ہے وہ اپنی بہن کو دیکھتی ہوئیں بولیں ۔ ہماری طرف سے تو ہاں ہے عائشہ سے پوچھ کر پھر آپ کو کنفرم بتا دیں گے ۔اقراء ٹرائی لے جاؤ وہ سب چیزیں ٹرائی میں سجاتی ہوئی بولی ۔
عفت خالہ کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔ بڑے بیٹے باسط کی شادی ہو چکی ہے اس کا تین سالہ بیٹا بھی ہے ۔ عائشہ ابھی ماسٹر کر کے فری ہوئی ہے اور سب سے چھوٹی اقراء ابھی بی ایس سی کر رہی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شانی ریسٹورنٹ میں لانچ کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا شکر ہے میرے یار تو شادی پر تیار ہو گیا ہم تو کب سے تیری شادی کا انتظار کر رہے تھے ہم تیرے ساتھ کہ بچوں کے باپ بن گئے ہیں تو ابھی ایسے گھوم رہا تھا ۔ مجھے دیکھ کر تمہیں آزادی یاد آتی ہو گئی اس لیے شکر کر رہے ہو شانی نے شریر لہجے میں کہا ۔ ہاہاہاہاہا نہیں یارا دونوں نے بیک وقت قہقہہ لگایا ۔ ہم تو تجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے بول رہے تھے اس بار شاہد بولا تھا ۔ شادی کر کسی سے رہا ہے ۔ ہاں یار یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں ہے کہیں سائرہ رضا تو نہیں ہے ۔ نہیں شاہد یار اس کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بولا تھا ۔ وہ تو تجھ سے محبت کرتی ہے خوبصورت بھی ہے پھر کیوں نہیں سوچ سکتا ۔ وسیم یار میرے لیے خوبصورتی کوئی اہمیت نہیں رکھتی نہ ہی میں اس کے لیے ایسے جذبات رکھتا ہوں اور شادی ماں جی اور باباجان کی خوشی کے لیے کر رہا ہوں تو لڑکی بھی ان کی پسند کی ہو گئی ۔ شانی یار تو سائرہ کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہا ہے جب شادی ہی کرنی ہے تو سائرہ سے کر لیتا وہ تجھے بہت چاہتی ہے اور کئی بار شادی کی پیشکش بھی کر چکی ہے جب اسے تیری میرج کے بارے میں پتہ چلا تو جانتا ہے اسے بہت تکلیف ہو گی اس بار شاہد سائرہ کی فکر کرتے ہوئے ہمدردی سے بولا تھا ۔ سچ بتاؤ تو شاہد یار میں خود بھی ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں جسے میں بالکل نہیں جانتا ہوں ۔ سائرہ سے میں اس لیے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کا کزن عادل اسے سے محبت کرتا ہے میں چاہتا ہوں وہ شادی بھی اسے سے کرے جو خوشیاں عادل اسے دے پائے گا میں اسے اپنی زندگی میں شامل کر کے کبھی نہیں دے پاؤں گا اس نے سنجیدگی سے کہا ۔ قسم سے یار عجیب آدمی ہے تو ویسے کسی نے بتایا عادل سائرہ کو پسند کرتا ہے اس بار وسیم بولا تھا ۔ سائرہ نے خود ہی بتایا تھا وہ ویٹر کو آواز دیتے ہوئے بولا " جی سر " یار کھانا کا بل بھی بتا دؤ اور تین کپ چائے لے کر آؤ ۔ یارو میں تو ایک بات کہتا ہوں اور بالکل ٹھیک کہتا ہوں ۔ وہ کون سی دونوں نے سوالیہ نظروں سے وسیم کو دیکھا ۔
"وہ یہ کے لڑکا اور لڑکی کبھی بیسٹ فرینڈ نہیں ہو سکتے کیونکہ کہ دوستی کو محبت میں بدلتے وقت نہیں لگتا دونوں میں سے کوئی ایک محبت میں ضرور مطلع ہوتا ہے کوئی یا تو تیری طرح اظہار نہیں کر سکتا یا کوئی کر بھی دے تو بعض اوقات وہ تیری طرح یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ میں تمہیں صرف دوست سمجھتا ہوں اور کبھی اس دوستی کی وجہ سے گھر تباہ ہوتے ہیں دونوں راضی ہوں تو گھر والے نہیں مانتے ہیں اور اس کی وجہ سے خود کشی بھی کر لیتے ہیں اس لیے میں تو لڑکا اور لڑکی کی دوستی کے خلاف ہوں اور ارینج میرج کے حق میں ہوں ۔" اس نے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔
ہاں یار شاید تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہے شانی اس بار شکست خور لہجے میں بولا تھا ۔ وسیم یار جیسے تو کہہ رہا ہے ایسے بہت کم ہوتا ہے وہ اختلاف کرتے ہوئے کہنے لگا ۔ شاہد تیری لو میرج ہو گئی ہے نا اس لیے بول رہا ہے اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے مسکرا کر کہا ۔ سامنے ٹیبل پر پڑے سیل فون کی بجنے والی بیل نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ چند لمحے کے لیے خاموش ہو گئے ۔ شانی نے سیل فون اٹھاتے ہوئے کال اٹینڈ کی ۔ ہیلو شانی کیسے ہو ۔ میں ٹھیک تم بتاؤ ۔ میں بھی ٹھیک ہوں ۔ اچھا سائرہ کچھ دوستوں کے ساتھ مصروف ہوں میں کچھ دیر تک گھر جا کر کال کرتا ہوں ۔ اوکے بائے میں انتظار کرؤں گی ۔ "اوکے بائے" ایسی بھی کیا باتیں تھیں جو ہمارے سامنے نہیں ہو سکتی تھیں شاہد نے شریر لہجے میں کہا ۔ میرے یار میں تم دونوں سے ملنے آیا ہوں اگر اب یہاں بیٹھ کر اس سے باتوں میں مصروف ہو جاتا تو تم دونوں نے ہی گلہ کرنا تھا کہ ہمارے سے ملنے آئے ہو یا سائرہ سے باتیں کرنے آئے ہو جواباً مسکرا کر بولا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
Benaam Mohabbat ( بے نام محبت )
RomanceComplete Novel The topic of Love and Sacrifice