ویسے اتنے دن سے سپین آئی ہو اور مجھے سے آج ملنی آ رہی ہو وہ شکایت کن لہجے میں بولی ۔ یار آج ہی بارسلونا سے ویلینسیا آئی ہوں اور کچھ دیر ریسٹ کرنے کے بعد سیدھا تمہارے گھر آئی ہوں ۔ وہ اس وقت اپنی کالج فرینڈ کومل کے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی کومل کے پاپا سپین کے شہر ویلینسیا میں ہی ایک کمپنی میں جاب کرتے تھے پھر کچھ سالوں بعد اپنا بزنس شروع کیا جس میں وہ کافی کامیاب رہے یہی وجہ تھی کہ پھر پوری فیملی کے ساتھ ہی سپین شفٹ ہو گئے ۔ "ویسے رہے کہاں رہی ہو ؟" ہوٹل میں ہی روم لیا ہے وہ کافی کی چسکی لگاتی ہوئی بولی ۔ میرے ہوتے ہوئے اکیلے ہوٹل میں رہنے کی کیا ضرورت ہے بس آج میں تمہیں یہاں سے نہیں جانے دؤں گئی محبت بھرے لہجے میں بولی ۔ تھینکس یار لیکن سوری میں تمہارے گھر نہیں رہے سکتی ویسے بھی اکیلی کب ہوں میرے ساتھ کزن ہے وہ معذرت کرنے لگی یوں اس کے گھر رہنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی وہ اسے کے موڈ کو جانتی تھی اس لیے پھر زیادہ اسرار نہیں کیا ۔ ویسے میں ابھی پوچھنے والی تھی تمہارے ساتھ ہینڈسم لڑکا کون تھا ۔ میری پھپھو کا بیٹا اور بھابی کا بھائی ہے ۔ فرانس میں ہی بھابی سے ملنے آیا تھا پھر اسے میں نے ہی کہا ہے کہ میرے ساتھ سپین چلے آؤ ۔ سچ کہہ رہی ہو یا کوئی اور چکر ہے اس نے معنی خیز نظروں سے دیکھا ۔ اس نے گھورا جو تم سوچ رہی ہو ایسا کوئی چکر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شانی نائٹ ڈریس میں ملبوس راکنگ چئیر پر بیٹھا کب سے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا "کاش کے سحرش سگریٹ کی دھوئیں کی طرح تمہاری یادوں کو اس دل سے نکال باہر کرتا ۔" وسیم ٹھیک ہی کہتا تھا ۔ سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے آنکھیں موندے چئیر کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے وہ پھر سے ماضی میں کھو گیا تھا ۔
یار سن کچھ دنوں تک ہمارے ایم بی اے کے فائنل ایگزامز شروع ہونے والے ہیں اور پھر سب نے مصروف ہو جانا ہے ۔ میرے بھائی آج تو اپنی محبت کا اظہار کر دے ۔ وہ دونوں اس وقت یونیورسٹی کی کینٹین میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔ یار اتنی جلدی بھی کیا ہے یونیورسٹی چھوڑ رہے ہیں شہر تو نہیں چھوڑ رہے نا یونیورسٹی سے باہر بھی ہماری عام ملاقات ہوتی ہے ۔ میرے بھائی کیا پتہ اس کے فائنل ایگزامز کے ہوتے ہی اس کے گھر والے شادی کر دیں اس نے خدشات ظاہر کیے ۔وسیم یار آپ اتنی جلدی بھی اس کی شادی نہیں ہوتی میں جانتا ہوں ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ مجھے بتا دیتی اس کی بات کو جھٹلاتے ہوئے لاپرواہ سے کہنے لگا ۔ پھر عشق کا روگ سینے سے لگا کر میرے پاس نہ آنا سمجھا ۔ ہاہاہاہاہا فکر نہ کر تیرے پاس تو ہر گز نہیں آؤں گا اس کی بات کو مذاق میں اڑتے ہوئے اسے انداز نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں یہ بات سچ ہونے والی ہے ۔ شانی سچ بتاؤ تو مجھے لگتا ہے تو محبت کا اظہار کرنے سے ڈرتا ہے ورنہ آج ایک ساتھ سٹڈی کرتے ہوئے کئی سال ہونے والے ہیں تو پہلے دن ہی اسے اپنا دل دے بیٹھا تھا لیکن کبھی اس بار میں کچھ کہہ نہیں سکا یہ کیسی محبت ہے ۔ ہاں میرے خیال میں شاید تو ٹھیک کہتا ہے اس بار گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے کہا ۔ تم دونوں یہاں گپیں لگانے میں مصروف ہو میں ساری یونیورسٹی میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی اور یہ لیلا مجنوں کہاں گئے ہیں وہ سامنے ٹیبل پر کتابیں رکھتی ہوئی مصروف سے انداز میں بولی اور ان کے ساتھ بیٹھ گئی ۔ کلاس ختم ہوتے ہی تم پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی تھی پھر ہم دونوں کینٹین چلے آئے وہ دونوں لائبریری سے کوئی کتاب ایشو کروانے چلے گئے شانی نے اسے دیکھتےہوئے کہا ۔ ہاں وہ عینی کی بچی سے میں اپنے نوٹس لینے چلی گئی تھی لے کر بھول جاتی ہے کہ واپس بھی کرنے ہوتے ہیں دیکھو تم دونوں میرے نوٹس کا کیا حال کر دیا ہے یہ چائے کا نشان دیکھ رہے ہو پتہ نہیں کیا کرتی رہی ہے وہ ان دونوں کے سامنے غصے سے بولی جارہی تھی میرے بس چلے تو اس کو شوٹ کر دؤں ۔ سحرش میڈم یہی غصہ جو ہمارے سامنے نکال رہی ہو عینی بی بی پر نکالنا تھا نا وسیم نے اس کے نوٹس ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے کہا ۔ ہاں تو اس پر بھی نکال آئی ہوں میرے اتنی خوبصورت لکھائی اور میری محنت سے بنے ہوئے نوٹس کا کوئی برا حال کر دے بھلا میں اس کو ایسے چھوڑ سکتی ہوں ۔ شانی نے اس کو غور سے دیکھا گرین رنگ کے شلوار قمیض سوٹ میں ملبوس گلے میں دوپٹہ اور سلیقے سے سر پر سکارف اوڑھے خوش شکل چہرے پر غصہ اس روپ میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔ اور یہ تم مجھے ایسے کیوں گھور رہے ہو وہ اس بار شانی کے چہرے پر نظریں جمائے بولی تھی ۔ میں دیکھ رہا تھا غصے میں تم اور بھی حسین لگتی ہو لبوں پر شریر مسکراہٹ سجائے اپنی دل کی بات اس سے کہہ بیٹھا ۔ اف شانی تمہیں مذاق سوج رہا ہے یہاں میرے نوٹس خراب ہو گئے ہیں تم سے تو یہی نہیں ہوا افسوس ہی کر دؤں وہ اس بار ناراضگی سے بولی ۔ "اوکے بھئی سوری ۔" ۔ کیا ہوا ہے کیوں شور مچا رکھا ہے ۔ لو جی لیلا مجنوں بھی آ گئے یار ہونا کیا ہے اس بار عینی نے سحرش کے نوٹس خراب کر دئیے ہیں ۔ سحرش یار مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی تم اسے نوٹس دیتی کیوں ہو جب کے تمہیں پتہ ہے وہ کسی نا کسی کے نوٹس ضرور خراب کرتی ہے اس بار سحرش کے سامنے ہی مریم بیٹھتی ہوئی بولی تھی ۔ مریم یار کیا کرؤ جب وہ مانگنے آتی ہے تو مجھے سمجھ نہیں آتی اب کیسے انکار کرؤں ۔ اسی منہ سے کر دیا کرؤ اور کیسے شاہد ہاتھ میں موجود کتاب بند کرتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا ۔ اچھا بس چھوڑو یار جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا اب جلدی سے کچھ منگوا دؤ میرا تو بھوک سے برا حال ہو رہا ہے صبح اس شاہد کی وجہ سے ٹھیک سے ناشتہ نہیں کیا ۔ ہاں مریم میرے پیٹ میں بھی چوہے دور رہے ہیں صبح صرف ایک سلائس ایک چائے کے کپ کے ساتھ لیا تھا ۔ چھوٹے کینٹین میں کام کرتے بارہ سالہ بچے کو شانی نے آواز دی ۔ مریم تم تو بہت کھاتی ہو صبح میرے سامنے ہی اچھا بھلا ناشتہ کیا تھا ۔ ہائے اللہ شاہد صرف ایک پراٹھا آملیٹ کے ساتھ ایک گلاس دودھ لیا تھا جلدی جلدی کی رٹ میں تم نے کہاں سے ٹھیک سے ناشتہ کرنے دیا تھا زیادہ کھانے پینے کی شوقین مریم فوراً اپنی صفائی میں بولی تھی ۔ " جی بھائی " بچہ نے پاس آتے ہوئے کہا ۔ ہاں یار پانچ گرم گرم ڈبل سموسہ پلیٹ اور ساتھ دودھ پتی والی چائے لے کر آؤ روکو ایک برگر بھی لے آنا اس بار مریم بولی تھی ۔ قسم سے مریم تم بہت کھاتی ہو میرے ایک بات سن لو مجھے موٹی بیوی نہیں چاہیے شاہد نے اسے تنگ کرنے کے لیے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا ۔ روک جاؤ میں تائی امی کو تمہاری شکایت لگاؤں گئی اپنے آپ کو کبھی آئینے میں غور سے دیکھا خود کتنے موٹے ہو ۔ وہ تینوں خاموشی سے بیٹھے ان کی نوک جھوک سے محفوظ ہو رہے تھے ۔ ایک بات تو بتاؤ میرج سے پہلے تم دونوں کا یہ حال ہے ہر بات پر جھگڑا شروع ہو جاتا ہے شادی کے بعد کیا کرؤ گئے سحرش نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ سحرش یار میں کہاں جھگڑا کرتی ہوں تمہیں تو پتہ ہے ہمیشہ یہی شروع کرتا ہے وہ مسکین سی صورت بناتے ہوئے بولی تھی ۔ مجھے پہلے پتہ تھا سارا الزام مجھے مصوم بندے پر آنا ہے ۔ یار شاہد بس کرؤ سموسے آ گئے ہیں خاموشی سے کھاؤ ۔ ہونہہ تم تو مجھے سے اب بات نہ کرنا بڑے آئے مصوم وہ غصے سے شاہد کو گھورتی ہوئی بولی ۔ویسے یار مجنوں آپس کی بات ہے لڑکیاں کھاتی بہت ہیں ۔ مریم اور سحرش نے غصے سے گھورا ۔ تم دونوں مجھے یوں گھور کر نہ دیکھو میں تمہاری بات تھوڑی نا کر رہا ہوں ۔
وہ پانچوں ہی بہت اچھے دوست تھے شاہد اور مریم کزن ہونے کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھے فائنل ایگزامز کے بعد دونوں کی شادی ہونے والی تھی ایک دوسرے سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ جھگڑتے بھی بہت تھے وسیم اور سحرش دونوں کو اکثر لیلا مجنوں کے نام سے پکارتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد سے روم کا لاک لگا دینا کوئی کام ہو تو تمہیں بالکل باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے تمہارے روم کے ساتھ ہی میرا روم ہے مجھے کال کر دینا میں آ جاؤں گا ۔ اف عادل میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں اپنا خیال رکھ سکتی ہوں اور اتنی عقل تو مجھے بھی ہے کہ رات کو روم لاک کر کے سونا ہے ہر روز یہ نصیحت نہ کیا کرؤ وہ چڑ کر بولی تھی ۔ وہ ابھی ڈنر کر کے آئے تھے اپنے روم میں جانے سے پہلے اسے کے روم میں کھڑا ہمیشہ کی طرح نصیحت کرنا نہیں بھولا تھا ۔ اوکے یوں منہ نہ بناؤ میں اپنے روم میں جا رہا ہوں گڈ نائٹ اور ہاں اب روم لاک کر دؤ اس نے پھر سے باہر نکالتے ہوئے کہا ۔ گڈ نائٹ یہ لڑکا بھی نا کبھی نہیں بدل سکتا وہ روم لاک کرتے ہوئے منہ میں بڑبڑائی تھی ۔ اف مجھے تو نیند بھی نہیں آ رہی ہے کیا کرؤں ایک بار پھر سے کروٹ بدلتے ہوئے سوچنی لگی تھی ہوں شانی کو کال کرتی ہوں سیل فون پر نظر پڑتے ہی اسے شانی کا خیال آیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلسل بجنے والی سیل فون کی بیل نے اسے چونکا دیا تھا آنکھوں کو مسلتے ہوئے اس نے پاس پڑا چشمہ اٹھا کر آنکھوں پر لگایا اور پھر کال اٹینڈ کرتے ہوئے ٹریس پر جا کھڑا ہوا ۔ اس کے کانوں میں سائرہ کی آواز گونجی "ہیلو شانی کیسے ہو ؟" ٹھیک ہوں تم بتاؤ ۔ میں بھی ٹھیک ہوں ۔ کیا کر رہے تھے ۔ "کچھ خاص نہیں ۔" سو تو نہیں رہے تھے ۔ نہیں اس نے مدہم لہجے میں کہا مجھے تمہاری آواز سے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم اس وقت اداس ہو ۔ "نہیں تو ۔" اس کی بات کو جھٹلاتے ہوئے کہا ۔ ایسی ہی بات ہے اب تم نہ مانو یہ اور بات ہے ۔ کچھ طیبعت ٹھیک نہیں ہے نزلہ لگا ہوا ہے جو تم سوچ رہی ہو تو ایسی بات نہیں ہے وہ صرف اس کی بات کو ٹالنے لگا تھا ۔ اچھا پھر میڈیسن لی ہے نا اس بار وہ قدرے فکر مندی سے بولی ۔ نہیں اب طبیعت اتنی بھی خراب نہیں ہے ۔ شانی بہت لاپرواہ ہو ۔ اچھا تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں تمہیں سپین کیسا لگا ہے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولا ۔ اچھا ہے اور بہت بڑا ہے دس پندرہ دن میں تو پورا سپین گھوم نہیں سکتے وہ جوش سے بتانے لگی ہم کل ہی بارسلونا سے ویلینسیا آئے ہیں ۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا سپین میں میری کالج فرینڈ رہتی ہے تو ویلینسیا آتے ہی سب سے پہلے اس کے گھر گئی اور آج سارا دن گھومتے رہے ہیں پتہ نہیں اب کل کہاں جاتے ہیں ۔ اچھا واپسی کب ہے اس نے آسمان پر موجود ستاروں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ کیا میری یاد آ رہی ہے وہ مسکرا کر بولی ۔ نہیں بھلا میں تمہیں کیوں یاد کرؤں گا ۔ ہاں سچی میں تو بھول گئی میں ہی صرف پاگل ہوں جو تمہیں یاد کرتی رہتی ہوں وہ ناراضگی سے بولی تھی ۔ بھئی ناراض کیوں ہو رہی ہو میں تو مذاق کر رہا تھا بھلا میں اتنی اچھی لڑکی کو بھول سکتا ہوں ۔ پھر پہلے ایسے کیوں بول رہے تھے ۔ وہ تو تمہیں ویسے تنگ کر رہا تھا اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ "اچھا جی ۔" جی بتایا نہیں پھر کب واپسی ہے ۔ دو نومبر کو واپسی ہے وہ واپسی کی ڈیٹ بتانے لگی ۔ پھر ابھی تو کچھ دن ہیں ۔ ہاں ویسے تم کیوں پوچھ رہے ہو ۔ بس کیا کریں تمہاری یاد بہت آ رہی تھی اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا ۔ اب مجھے سے جھوٹ بھی بولنے لگے ہو ۔ ہاہاہاہاہا جواباً اس نے قہقہہ لگایا اظہار نہ کریں تو بھی شکایت اظہار کریں تو بھی الزام اب تم ہی بتاؤ میں کیا کرؤں ۔ دل میں جو ہو وہی کہہ دیا کرؤ تو مجھے زیادہ خوشی ہو گئی اس نے سنجیدگی سے کہا ۔ "دل کی بات کہوں تو تم میری بہت اچھی فرینڈ ہو تم سے بات کرنا اچھا لگتا ہے یہ بھی سچ ہے کہ میں تمہیں کبھی بھی نہیں بھول سکتا ۔ " اچھا یہ سچ ہے ۔ جی یہ سچ ہی ہے اچھا سوری اب پھر بات ہو گئی رات کافی ہو گئی میں سونے لگا ہوں صبح جلدی اٹھنا بھی ہوتا ہے ۔
"اوکے گڈ نائٹ "
"گڈ نائٹ اپنا خیال رکھنا ۔" چلو اچھا ہے میری شادی کے بعد ہی واپسی ہے وہ سیل فون آف کرتے ہوئے منہ میں بڑبڑایا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ یہ کیا آج پھر تم صبح صبح کچن میں پہنچ گئی ہو چلو شاباش تم آرام سے بیٹھو میں خود ہی سب کا ناشتہ تیار کر لوں گئی عمارا بھابی عائشہ کو کچن میں دیکھتے ہی اپنائیت سے بولیں تھیں ۔ بھابی میں آج کل کون سا زیادہ کام کرتی ہوں ایک ناشتہ ہی تو آپ کے ساتھ مل کر تیار کرتی ہوں وہ آملیٹ بناتی ہوئی مصروف سے انداز میں بولی تھی ۔ امی جان نے تمہیں سختی سے منع کیا ہے کہ اب کوئی کام نہیں کرنا انہوں نے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گئی بلکہ تمہیں تو اب مایوں میں بیٹھ جانا چاہیے تمہاری شادی میں صرف دس دن رہتے ہیں وہ دوسرا چولہا جلاتی ہوئیں بولیں تھیں ۔ مایوں میں ابھی سے بیٹھنے کی بھابی بات ہی مت کریں مجھے تو ایک جگہ جم کر بالکل نہیں بیٹھا جاتا وہ منہ بناتی ہوئی بولی تھی ۔ اب بیٹھنا تو پڑے گا بھابی مسکراتی ہوئی بولیں تھیں ۔
اوکے ماں جی میں چلتا ہوں اس نے کلائی میں موجود واچ پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے کہا جو صبح کے ساٹھے آٹھ بجا رہی تھی ۔ بیٹا ٹھیک سے ناشتہ تو کرؤ ۔ بس ماں جی میرا ناشتہ ہو گیا ہے آج آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں ۔ اچھا بیٹا آج کوشش کرنا شام کو جلدی آفس سے آ جانا مجھے شوروم لے جانا ایک گاڑی لینی ہے اور تمہاری ماں بتا رہی تھیں تم نے ابھی اپنی شادی کی شاپنگ نہیں کی تو وہ بھی آج باپ بیٹا مل کر کر لیں گئے باباجان اسے پیار سے دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔ اوکے باباجان میں آ جاؤں گا لیکن یہ نیو گاڑی کس کے لیے لے رہے ہیں ہمارے پاس تو پہلے سے ہی نیو ماڈل کی دو گاڑیاں ہیں اس نے سوال کیا ۔ شانی بیٹا یہ نیو گاڑی تو میں اپنی اکلوتی پیاری سی بہو کو منہ دکھائی میں گفٹ کرؤں گا ۔ اوکے بابا جان ویسے میں اتنا تو جانتا ہوں شادی کے بعد آپ کی بہو نے مجھے ہی گفٹ کرنی ہے وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ شانی بیٹا یہ تم کیسے جانتے ہو ماں جی بھی مسکرا کر بولیں ۔ ماں جی زیادہ تو نہیں لیکن تھوڑا بہت اس کے مزاج کو جانتا ہوں اس نے آفس بیگ اٹھاتے ہوئے کہا اوکے خدا حافظ اب چلتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریحانہ میڈم کسی فنکشن کے انویٹیشن کارڈ بانٹ رہی ہو تنویر نے اس کے ہاتھوں میں کارڈ دیکھتے ہوئے کہا اپنی شادی کے انویٹیشن کارڈ بانٹ رہی ہیں کیا تمہیں پتہ نہیں ہیں تنویر کے کیبن کے ساتھ ہی بیٹھے سرفراز نے شریر لہجے میں کہا ۔ ہائے ریحانہ ایسا ظلم کر کے ہمارے ارمانوں کا خون مت کجیئے تنویر مصنوعی غمگین سے صورت بناتے ہوئے بولا تھا ۔ میرے بھائی حوصلہ کر تو اپنا شہزاد ہے میرا وعدہ تیرے لیے کوئی شہزادی میں تلاش کرؤں گا ۔ تم دونوں یہ ڈرامے بازی بند کرؤ اس نے دونوں کو گھورتے ہوئے سخت لہجے میں کہا یہ لو انویٹیشن کارڈ ہمارے باس شان قاسم کے ولیمے کی تقریب کے ہیں ۔ کیا سچی دونوں نے حیرت سے کارڈ کو دیکھا ۔ ہاں بھئی پہلے تو مجھے بھی یقین نہیں آیا جب سر نے انویٹیشن کارڈ دئیے تو پھر مجھے یقین کرنا پڑا ۔ یہ باس کی شادی کہیں سائرہ رضا سے تو نہیں ہو رہی ہے جو اکثر ہمارے آفس آتی رہتی ہیں تنویر نے کارڈ دیکھ کر سوچتے ہوئے کہا ۔ اتنا تو مجھے بھی نہیں پتہ ہے کہ کس سے ہو رہی ہے ۔ جس سے بھی ہو رہی ہے چلو شکر ہے ہمارے باس کو بھی شادی کا خیال آ گیا اب اس بہانے ہمیں بھی باس کے چہرے پر سنجیدگی کی جگہ مسکراہٹ نظر آئی گئی سرفراز نے خوشی سے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری پیاری سے گڑیا رو مت ابھی ماما آ رہی ہے شاہد اپنی دو سالہ بیٹی عروج کو اٹھائے جو مسلسل رو رہی تھی خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہوئے لاؤنج میں ٹہل رہا تھا ۔ مریم کھانا تیار ہو گیا ہے تو جلدی سے آ جاؤ میری گڑیا خاموش ہی نہیں ہو رہی ہے وہ لاؤنج میں ہی کھڑے ہو کر اسے آواز دیتے ہوئے بولا تھا ۔ بس میں ابھی دو منٹ میں آ رہی ہوں ۔ بس بس میری گڑیا ابھی آپ کی ماما آ رہی ہے یہ کہتے ہوئے پیار سے اس کے گال پر بوسہ دیا ۔ صاحب جی آپ سے شان قاسم صاحب ملنے آئے ہیں میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا ہے چوکیدار نے لاؤنج میں نمودار ہوتے ہوئے کہا ۔ ٹھیک ہے تم چلو میں ابھی آ رہا ہوں ۔ یہ لو اب اس کو سنبھالو ڈرائنگ روم میں شانی آیا ہوں میں اس کے پاس جا رہا ہوں اسے بھیج کر خود کچن کی طرف بڑھ گیا ۔ میں بھی بس آ ہی رہی تھی بس بس ماما آ گئی وہ ننھی عروج کو اپنی گود میں لیتی ہوئی بولی تھی ۔ یہ اس کا فیڈر ذرا مجھے پکڑا دیں مریم سامنے ہی ٹیبل پر پڑے فیڈر کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی تھی ۔ یار یہ اتنی رو کیوں رہی ہے وہ اس کے ہمراہ ہی کچن سے نکالتے ہوئے پریشانی سے بولا تھا ۔ آپ کے ہوتے ہوئے تو سو کر اٹھی ہے نیند میں ڈر گئی ہے کچھ ابھی بخار بھی ہے میں ابھی اس کو دودھ پلاتی ہوں ابھی رونا بند کر دے گئی آپ پریشان نہ ہوں وہ اسے تسلی دیتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور اس نے اپنا رخ ڈرائنگ روم کی طرف کیا ۔
السلام علیکم شانی آج ہمارا گھر کیسے یاد آ گیا شاہد نے گلے ملتے ہوئے شکوہ کیا کیونکہ وہ اس کے گھر زیادہ تر سال میں تین چار بار ہی آتا تھا ۔ وعلیکم السلام میں نے سوچا اپنے دوستوں کو خود ہی اپنی شادی کا انویٹیشن کارڈ دے کر آتا ہوں بس اس لیے چلا آیا ۔ ہاں بھئی کسی کام کے بغیر تمہیں ہماری یاد آتی ہی کہاں ہے وہ مصنوعی شکوہ کن لہجے میں بولتے ہوئے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا ۔ شاہد یار ایسی بات نہیں ہے تو جانتا ہے آجکل میں کم ہی کہیں آتا جاتا ہوں بھلا کوئی اپنی جگری یاروں کو بھی بھول سکتا ہے اس بار محبت بھرے لہجے میں کہا ۔ ہاں یار اتنا تو میں بھی جانتا ہوں میرا یار کبھی کسی کو نہیں بھول سکتا مذاق کر رہا تھا ۔ اچھا اور سناؤ کیا حال چال ہے آج میری بھابی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ ہاں یار کچھ بچی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کب سے رو رہی تھی بس اسی کے ساتھ مصروف ہے ۔ کیوں کیا ہوا ہے ۔ یار یہی موسمی بخار کچھ دنوں سے ہو رہا ہے کچھ دن تو بڑا پریشان کیا اللہ کا شکر ہے اب پہلے سے بہتر ہے ۔ میرے یار فکر نہ کر انشاءاللہ بالکل ٹھیک ہو جائے گئی ۔ اور آج تمہارے گھر میں خاموشی سی ہے کیا سب کہیں گئے ہوئے ہیں اس گھر میں چھائی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے کہا ۔ ہاں یار اصل میں آج صبح ہی سب گاؤں گئے ہیں کزن کی شادی تھی ۔ تم نہیں گئے ۔ جانا تو تھا لیکن عروج کی طیبعت خراب تھی جس کی وجہ سے ہم گھر روک گئے ہیں ۔ چل تو بیٹھ میں چائے کا کہہ کر آتا ہوں ۔ نہیں یار آرام سے بیٹھ جا بھابی بچی کو سنبھال رہی ہے اسے تکلیف نہ دے ویسے بھی یار ابھی وسیم کے گھر سے آ رہا ہوں چائے پانی پی کر ہی آیا ہوں مزید کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے وہ اسے روکتے ہوئے بولا تھا ۔ بچی کو میں سنبھال لوں گا ویسے بھی تم کون سا روز روز آتے ہو اب ایسے میں تمہیں نہیں جانے دؤں گا وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اوئے یار روک جا ادھر میرے پاس آرام سے بیٹھ جائے اس نے پھر سے اٹھ کر صوفے پر اسے بیٹھاتے ہوئے کہا ۔ یہ تو مجھے روک کر اچھا نہیں کر رہا اس نے ناراضگی سے دیکھا ۔ یار ناراض نہ ہو اب چائے پی لی تو ڈنر نہیں ہو گا تو جانتا ہے ڈنر نہیں کرؤں گا تو ماں جی ناراض ہو جاتی ہیں انشاءاللہ زندگی ہوئی تو میرا وعدہ شادی کے بعد سب سے پہلے تیری بھابی کے ساتھ تیرے گھر آؤں گا اسے کی ناراضگی دور کرنے کے لیے یقین دلانے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے ساٹھے آٹھ بج رہے تھے ۔ قاسم ہاؤس رنگ برنگی لائٹوں سے جگمگا رہا تھا پورے گھر کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور اس وقت گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا آج شانی کی سہرا بندی کی رسم ہوئی تھی ۔ شانی یار رک جا اس کا کزن زبیر بھاگ کر اس کی طرف آیا ۔ وہ جو گاڑی کا لاک کھولنے لگا تھا وہ چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوا " جی کیا بات ہے " کہاں جانے کا ارادہ ہے اس نے غور سے اسے دیکھا اس وقت وائٹ شلوار قمیض سوٹ زیب تن کیے جیل لگا کر بالوں کو سلیقے سے جمائے پاؤں میں پشاوری چپل اس حلیے میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔ بس ذرا ضروری کام سے جا رہا تھا کیا کوئی کام تھا ۔ بھئی میں تمہارا شہ بالا ہوں تم جہاں بھی جاؤ گئے اب میں تمہارے ساتھ جاؤں گا ۔ اچھا اس نے مسکرا کر دیکھا ۔ اف زبیر آپ یہاں کھڑے ہیں میں آپ کو پورے گھر میں ڈھونڈتی پھیر رہی تھی ۔ کیوں سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوا ۔ یہ اپنے بیٹے کو سنبھالیں کب سے مجھے تنگ کر رہا ہے کہ چیز لے دیں وہ جھنجلاہٹ بھرے لہجے میں بولی ۔ بھابی آپ فکر نہ کریں اب یہ آپ کو تنگ نہیں کرئے گا ہم کچھ کام سے باہر جا رہے ہیں اسے بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں اس سے پہلے کہ زبیر کچھ کہتا شانی بول پڑا تھا ۔ "چلیں ٹھیک ہے ۔ " وہ یہ کہتی ہوئیں اپنے چھ سالہ بیٹے رضوان کو ان پاس چھوڑ کر چلی گئی ۔ چلو رضوان بیٹا گاڑی میں بیٹھ جاؤ وہ گاڑی کا پیچھے والا دروازہ کھولتے ہوئے پیار سے بولا ۔ فوجی صاحب آپ بھی بیٹھ جائیں ۔ ہاں بیٹھ ہی رہا ہوں ۔ اوئے میرے کاکے زیادہ اپنی ماں کو تنگ نہ کیا کر کبھی کبھی اسے غصہ بھی آ جاتا ہے جو بعد میں ہم دونوں پر نکالتا ہے ۔ میں تو تنگ نہیں کر رہا تھا میں نے تو بس یہی کہا تھا چیز لینی ہے تنگ تو آپ کی کاکی کر رہی تھی پیچھے بیٹھا شریر رضوان کہاں خاموش رہنے والا تھا فوراً اپنی صفائی میں بولا تھا ۔ تمہارا بیٹا تم پر ہی گیا ہے ڈرائیونگ کرتے ہوئے شانی نے مسکرا کر کہا ۔
زبیر اس کے تایا ابو کا بیٹا ہونے کے ساتھ بچپن سے ہی بہت اچھا دوست بھی تھا اسے آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا انیس سال کی عمر میں ہی اس نے آرمی جوائن کر لی تھی اس کی شادی کو آٹھ سال ہو چکے تھے اللہ تعالی نے اسے ایک بیٹے اور بیٹی کی نعمت سے بھی نوازا تھا ۔ اس لیے شانی ہمیشہ اسے فوجی کہہ کر پکارتا تھا وہ دو دن پہلے ہی پشاور سے آیا تھا ۔
میں کل سے ہی تجھ سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا لیکن تو اکیلا مل ہی نہیں رہا تھا اس لیے تیرے ساتھ آ رہا ہوں وہ اب اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہنے لگا ۔ میں بس مارکیٹ تک ہی جا رہا تھا سوچا تیری ہونے والی بھابی کے لیے سیل فون خرید لوں ۔ منہ دکھائی میں سیل فون دیتے ہوئے اچھا لگے گا اس نے اپنی طرف سے شرم دلائی ۔ اب میں نے یہ بھی نہیں کہا ۔ اچھا پھر منہ دکھائی میں کیا دے رہا تھا ۔ اچھا تو یہی بات کل سے کرنا چاہ رہا تھا ۔ بابا یہ منہ دکھائی کیا ہوتی ہے شریر رضوان ان دونوں کی باتوں کو غور سے سنتے ہوئے کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا ۔ اس نے گھور کر اپنے بیٹے کو دیکھا یہ جو میں آپ کو دیکھ رہا ہوں یہی ہوتی ہے سمجھ گئے نا ۔ تو پھر مجھے بھی سیل فون لے کے دیں وہ میرے سکول والے دوست دانش کے پاس بھی ہے ۔ اس کی بات سن کر شانی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ چھا گئی ۔ خاموشی سے بیٹھ جاؤ ورنہ چیز بھی نہیں ملی گئی اسے جھڑتے ہوئے کہا ۔ شانی یار پہلے تو میرا کام کر دے تیرا بھلا ہو جائے گا یہ سامنے جو شاپ نظر آ رہی ہے یہاں پر گاڑی روک دے پہلے اس کو چیز دلا کر گھر چھوڑتے ہیں پھر کہیں چلتے ہیں وہ جھنجلا کر بولا تھا ۔ " اوکے ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بول اب کیا بات کرنا چاہ رہا تھا وہ دونوں اس وقت ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ پہلے تو مجھے یہ بتا اس رشتے سے تو خوش ہے اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ میں خوش ہوں یا نہیں میں خود اپنی کفیت نہیں جانتا لیکن اب تھک گیا ہوں عائشہ کا ہاتھ تھام کر میں اپنے ماضی کو بھول جانا چاہتا ہوں جسے آج تک نہیں بھول پایا ہوں اس نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے افسردہ سے لہجے میں کہا ۔ میری دعا ہے میرا یار ہمیشہ خوش رہے تم نے اچھا فیصلہ کیا مجھے امید ہے تو عائشہ کے سنگ اپنا ماضی بھول جائے گا اس نے اپنے بچپن کے دوست کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ کاش کے تیری یہ بات سچ ہو جائے ورنہ اسے کی یادیں آج تک مجھے سونے نہیں دیتی ہیں افسردہ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر چھا گئی ۔ اسے اس وقت اپنی دوست کی حالت پر بہت ترس آیا لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی آج تک کچھ نہیں کر سکا تھا ۔ تو اب بھی اسے سے رابطے میں ہے ۔ میں رابطہ نہیں رکھنا چاہتا تو بھی یہ بات جانتا ہے لیکن وہ ایک بیسٹ فرینڈ کی حثیت سے مجھے نہیں بھولتی ہے بتا اس میں میرا کیا قصور ہے اس نے شکست خور لہجے میں کہا ۔ یار جب تک تو اس سے رابطے میں رہے گا تو پھر کیسے بھول پائے گا یہ بات تو کیوں نہیں سمجھتا ہے ۔ یار میں اب اسے کیا کہوں وہ مجھے ایک اچھے دوست اور بھائی کی طرح سمجھتی ہے میں اسے اب کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا فرض کیا کہہ بھی دؤ تو وہ وجہ پوچھے گئی تو کیا جواب دؤں گا اور میں یہ بھی کبھی نہیں چاہوں گا کہ اسے میری باتوں سے دکھ پہنچے وہ بے بسی سے بولا تھا ۔ اچھا ٹھیک ہے تو اسے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میری ایک بات یاد رکھنا عائشہ بھابی کو کبھی یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں کسی اور لڑکی سے محبت کرتا ہوں "کیونکہ ایک بیوی کبھی یہ بات پسند نہیں کرے گئی اس کا شوہر کسی اور سے محبت کرتا ہو"۔ وہ اسے سمجھنے لگا ۔ "میں کسی کو دھوکا دے کر اپنی نئی زندگی شروع نہیں کر سکتا میں کل رات ہی اسے بتا دؤں گا کہ میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں چاہیے اس کے بعد مجھے سے وہ نفرت کرتی رہی اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا ۔"
تو پاگل ہو گیا ہے اس نے حیرت سے دیکھا اس کا دل ٹوٹ جائے گا ۔ نہیں میں پاگل نہیں ہوں اور اب اٹھ جا گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر ہو گئی ہے بس بابا کی بھی کال آ گئی سیل فون کی سکرین پر جگمگاتے نمبر کو دیکھ کر کہا ۔" جی باباجان میں ابھی آ رہا ہوں ماں جی کو کہہ دیجئیے گا پریشان نہ ہوں ۔" اس نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے کہا ۔
اٹھ جا اب مجھے ایسے گھور کر نہ دیکھ فکر نہ کر تیری بھابی کو ہمیشہ خوش رکھوں گا اور کیا پتہ مجھے اس سے محبت بھی ہو جائے ۔ اب میری بات بھی سن لے اگر کبھی تیری وجہ سے میری بھابی کی آنکھ میں ایک بھی آنسو آیا نا تجھے میں نہیں چھوڑوں گا وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے وارننگ دینے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ییلو رنگ کے خوبصورت سے سوٹ میں ملبوس عائشہ اپنی کزنز کے جھرمٹ میں شرمائی سی بیٹھی خوبصورت ہاتھوں پر مہندی لگوانے میں مصروف تھی اس کے ساتھ چند شریر کزنز ہسی مذاق بھی کر رہی تھیں ۔ سمرہ آپی میری پیاری آپی کو اتنی پیاری مہندی لگائیے گا کہ سب دیکھتے رہے جائیں وہ عائشہ کو پیار سے دیکھتی ہوئی بولی ۔ بس تم دیکھتی جاؤ آج تمہاری آپی کو میں اتنی پیاری مہندی لگاؤں گئی شان بھائی تو دیکھتے رہے جائیں گئے اس کے ہاتھ پر مہارت سے ڈئزائن بناتی ہوئی بولی تھی ۔
پاپا یہ بھی رکھ دؤ ننھا صیام بیڈ پر رکھے کھلونے کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا ۔ بیٹا وہاں نانو دادو نے آپ کے لیے بہت سے کھلونے لے کر رکھے ہوئے ہیں وہاں ان سے کھیلنا ٹھیک ہے نا وہ اپنے بیٹے کو پیار سے سمجھتے ہوئے بیگ کی زپ بند کرنے لگا ویسے بھی ایک بیگ تو تمہاری ماما کے گفٹ سے فل ہو گیا ہے ۔ جی گفٹ کے ساتھ اس بیگ میں آپ کے بیٹے کے ڈریس بھی ہیں کمرے میں داخل ہوتی سارش یہ بات سنتی ہی فوراً بولی تھی ۔ پھر بھی تین بیگ تو ہو گئے ہیں ۔ ان کی کل صبح کی فلائیٹ تھی اس لیے پیکنگ کرنے میں مصروف تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ سے عائشہ تم تو بہت پیاری لگ رہی ہو عمارا بھابی اس کا دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی بولی تھی ہلکے میک اپ بھاری زیورات اور سرخ عروسی لہنگے میں ملبوس بہت خوبصورت لگ رہی تھی کچھ دیر پہلے ہی پالر والی تیار کر کے گئی تھی ۔ بھابی خود بھی ساڑھی میں ملبوس خوبصورت لگ رہی تھیں ۔ میری آپی پہلے سے ہی بہت پیاری ہیں اور دلہن کے روپ میں اور حسین لگ رہی ہیں وہ محبت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی عائشہ سر جھکائے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ بھابی یہ کمیرہ پکڑیں اور جلدی سے آپی کے ساتھ میری پکز بنا دیں اقراء خود بھی آج براؤن رنگ کے کڑھائی والے نفیس سے سوٹ میں ملبوس ہلکے میک اپ کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ چلیں بس دو ہی بہت ہیں اب آپ کیمرہ مجھے پکڑا دیں میں آپ کی بھی بنا دؤں عائشہ کے پاس سے اٹھتی ہوئی بولی تھی ۔ آپی تھوڑا اوپر دیکھیں چہرے پر مسکراہٹ لائیں بھابی آپ تھوڑی ساتھ ہو جائیں کیمرہ پکڑے تصویر بناتی ہوئی بولی تھی ۔ اوہو بھئی میرا ویٹ بھی نہیں کیا اور اکیلے اکیلے پکز بنا رہی ہو ان کی ایک کزن کمرے میں داخل ہوتی ہوئی تھی اف آپی آپ کتنی پیار لگ رہی ہیں ۔ اچھا تم دونوں یہاں ہو نا میرے آنے تک کہیں جانا نہیں میں ذرا عبداللہ کو دیکھ لوں باسط کو تنگ ہی نہ کر رہا ہو عمارا بھابی ساڑھی کا پلو سنبھالتی ہوئی بولیں تھیں ۔ جی بھابی آپ فکر نہ کریں میں اپنی آپی کے پاس ہی ہوں ۔
ماشاءاللہ سے میرا شانی تو آج بہت خوبصورت لگ رہا ہے اللہ تعالی نظر بد سے بچائے ماں جی اس کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئیں بولیں تھیں ۔ کریمی رنگ کی شروانی زیب تن کیے پاؤں میں کھوسہ پہنے وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ میری دعا ہے میرا بیٹا ہمیشہ یوں ہی مسکراتے رہے ماں جی پیار سے دیکھتی ہوئیں بولیں ۔ بھئی باقی باتیں بعد میں کر لجیئے گا اب چلیں بارات کی روانگی کا ٹائم ہو گیا ہے بابا جان کمرے میں جھانکتے ہوئے بولے تھے ۔ ایک ہی شہر میں اور گھر نزدیک ہونے کی وجہ سے شام چار بجے بارات کی روانگی تھی ۔ بس چاچو ہم آ ہی رہے تھے زبیر شیشے میں اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے بولا تھا وہ اس وقت براؤن رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس کافی ہینڈسم تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات کا شاندار استقبال کیا گیا باراتیوں کو بیٹھانے کے لیے لان میں ہی مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ انتظام کیا گیا تھا ۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہی مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کر دیا ۔
بیٹا اب چادر کروا دؤ نکاح خواں آتا ہی ہو گا عفت خالہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئیں بولیں تھیں ۔ جی امی جان میں ابھی کروا دیتی ہوں عمارا بھابی پاس بیڈ پر ہی پڑی چادر کو اٹھاتی ہوئیں بولیں تھیں ۔ نکاح خواں باسط اور عائشہ کے چاچا کے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوا تھا ۔ سر جھکائے بیٹھی عائشہ نے نکاح نامہ پر کانپتے ہاتھوں سے سائن کیے تھے ۔ نکاح کے ہوتے ہی ہر طرف مبارک باد کی آوازیں گونجی تھیں ۔ سٹیج پر دونوں کو ایک ساتھ بیٹھانے سے پہلے دودھ پلائی کی رسم کے لیے شانی کو ڈرائنگ روم میں لایا گیا تھا ۔ جہاں وہ زبیر کے ہمراہ صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کزنز کے جھرمٹ نے ان کو گھیرا ہوا تھا اس وقت چند لڑکے بھی موجود تھے ۔ اقراء نے رسم شروع کی تھی ۔ مٹھائی کھلانے اور دودھ پلانے کے بعد ہی پیسوں کا مطالبہ کیا تھا ۔ چلیں بھائی اب جلدی سے آپ پچاس ہزار روپے نکالیں ۔ لڑکی کم کرؤ اتنے تو ہم بھی نہیں دیں گئے زبیر فوراً ہی بولا تھا ۔ چلیں زبیر اقراء ٹھیک کہہ رہی ہے جلدی سے اب دے دیں ہم پانچوں کو کم از کم دس ہزار تو آئیں ۔ بیگم جی آپ یہاں کیا کر رہی ہیں آپ تو ہماری پارٹی کی ہیں زبیر نے اپنی بیوی کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا ۔ جی میں دونوں پارٹی سے ہوں عائشہ میری بھی بہن ہے ۔ لڑکیوں جہاں زبیر بھائی ہوں وہاں تم لوگوں کو بیس ہزار بھی مل جائیں تو بڑی بات ہے ان کے پاس ہی کھڑا ایک کزن لبوں پر مسکراہٹ سجائے بولا تھا ۔ اچھا یہ لو پچیس ہزار بس اب خاموشی سے رکھ لو شانی بھی اس وقت لبوں پر مسکراہٹ سجائے بیٹھا تھا ۔ نہیں بھئی یہ تو بہت کم ہیں ۔ یار جتنے تیرے پاس ہیں بس دے دؤ شانی نے زبیر کے کان میں سرگوشی کی تھی ۔ میرے بھائی تو بس خاموشی سے بیٹھا رہے جواباً اس نے کہا ۔ یہ سرگوشیاں بعد میں کجیئے گا اقراء کے ساتھ ہی کھڑی ایک کزن بولی تھی ۔ ہمارے دولہا میاں کو کیوں تنگ کر رہے ہو اب جانے بھی دؤ باسط نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔ ہم نے بھائی ان کو روکا ہی کب ہے پیسے دیں اور جائیں ۔ ہم تو دے رہے ہیں اب تم لڑکیاں ہی نہیں لے رہی ہو ۔ لڑکیوں اچھے بچو کی طرح جتنے دے رہے ہیں تم لے لو ۔ بھائی آپ ان کی سفارش نہ کریں لڑکیوں نے فوراََ ان کی بات رد کی تھی ۔ اچھا اقراء یہ لیں اس بار شانی نے مزید دس ہزار جیب سے نکالتے ہوئے دے تھے اب تو جانے دیں ہماری جیب ہی خالی ہو گئی ہے ۔ چلیں بھئی آپ ان کو جانے دیں میرے خیال میں تو پینتیس ہزار بھی بہت زیادہ ہیں ویسے بھی ان کی جیبیں خالی ہو گئی ہیں مزید کچھ نہیں ملنا والا ہے ۔ چلیں آپ بھی کیا یاد کریں گئے باسط بھائی کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں ۔ ہم تو ویسے بھی تم لڑکیوں کو نہیں بھولیں گئے اچھا بھلا ہمیں لوٹ لیا ہے زبیر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔
دونوں کو اب ایک ساتھ سٹیج پر بیٹھایا گیا ۔ دونوں ہی ایک ساتھ بیٹھے بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔ سب ہی ان کی بہت تعریف کر رہے تھے ۔ سب کزنز نے دونوں کے ساتھ تصویریں بنائی ۔ چلیں بھئی رخصتی کا ٹائم ہو گیا ہے مغربی کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں خالو جان پاس آتے ہوئے بولے تھے ۔ عفت بیگم بس کریں یوں نہیں روتے بیٹی کو خوشی خوشی رخصت کرتے ہیں عفت خالہ عائشہ کے گلے لگتے ہی رونے لگی تھیں خالو انہیں سمجھتے ہوئے بولے تھے ۔ عائشہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے پاس ہی کھڑی اقراء بھی گلے ملتے ہوئے رو پڑی تھی آخر وہ بچپن سے عائشہ کے ساتھ رہے رہی تھی اپنی آپی کی رخصتی پر اسے بہت رونا آ رہا تھا بھابی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے ۔ اقراء چپ کرؤ بیٹا یوں نہیں روتے ہیں عائشہ کون سا ہم سے دور جا رہی ہے ایک ہی تو شہر ہے خالوجان اسے یوں روتا دیکھ کر بولے تھے ۔ باسط نے بھی پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اسے بھی رونا تو آ رہا تھا لیکن آنسو ضبط کیے کھڑے تھا آخر وہ اس کی پیاری بہن تھی ۔ میری دعا ہے بیٹی ہمیشہ خوش رہو آخر میں خالوجان نے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے قرآن پاک کے سائے میں رخصت کیا تھا ۔ گلاب کے پھولوں سے سجائی ہوئی گاڑی میں وہ ماں جی اور آپا کے ساتھ پیچھے بیٹھی ہوئی تھی ابھی بھی اس کی آنکھیں نم تھیں ۔ زبیر گاڑی چلا رہا تھا اس کے ساتھ ہی شانی بیٹھا ہوا تھا ۔ اسے رخصت کرنے کے بعد گاڑی کو گیٹ سے نکالتے دیکھ کر خالوجان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے جنہیں انہوں نے انگلی کے پوروں سے صاف کیا آخر وہ اس گھر کی رونق اور ان کی لاڈلی بیٹی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچتے ہی آپا اور ماں جی نے دلہن کو کمرے میں پہنچایا جسے گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا اس وقت کمرہ گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد ہی سب کزنز دلہن کو دیکھنے کے لیے پھر سے اکٹھی ہو گئی تھیں کچھ دلہن کے ساتھ پکز بنا رہی تھیں سب منہ دکھائی میں گفٹس دے رہے تھے ۔ کھلے دروازے سے شانی کمرے میں داخل ہوا تھا ۔ اس کی طرف سب نے حیرت سے دیکھا ۔ ہم نے ابھی دلہن کو ٹھیک سے بٹھایا ہی نہیں ہے اور آپ ابھی سے کمرے میں پہنچ گئے ہیں اس دیکھتے ہی ایک کزن شریر لہجے میں بولی ۔ میں شروانی چینج کرنے آیا تھا اس نے ایک نگاہ سامنے بیٹھی عائشہ پر ڈالی جو پلکیں جھکائے بیٹھی تھی اور پھر قدم اٹھاتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا کلائی میں موجود گولڈن کلر کی واچ کو اتار کر رکھنے لگا ۔ بھئی یہ کیا بھائی ابھی تو ہم نے آپ اور بھابی کی پکز بنانی ہیں وہ منہ بناتی ہوئی بولی ۔ اور کتنی پکز بناؤں گئے اتنی تو بن گئی ہیں وہ بہت ہیں ۔ آپ کے بیڈروم میں تو نہیں بنائی ہیں ۔ کچھ نہیں ہوتا شانی بنوا لینا آپا اسے دیکھتی ہوئیں بولیں ۔ ابھی تو چینج کر کے مغرب کی نماز پڑھنے لگا ہوں پھر آ کر دیکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہوئے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا ۔ وہ پہلے بھی دن میں دو یا تین نمازیں پڑھ لیا کرتا تھا لیکن کچھ سالوں سے باقاعدگی سے پڑھنے لگا تھا چاہیے آفس میں ہو یا کسی تقریب میں اس نے کبھی کوئی نماز قضا نہیں کی تھی یہی وجہ تھی کہ اپنی میرج کے دن بھی نماز کو نہیں بھولا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہد بیٹا تم ابھی تک یہاں بیٹھے ہو ان کی فلائیٹ تو پہنچنے والی ہو گئی ہاجرہ بیگم جو کسی کام سے اپنے روم سے باہر آئیں تھیں فہد کو لاؤنج میں آرام سے بیٹھے دیکھ کر بولیں تھیں ۔ ممی آپ بھول گئی ہیں شاید کہ ان کی فلائیٹ لیٹ ہو گئی تھی ظاہر ہے پاکستان میں بھی اب لیٹ ہی پہنچے گئیں میں یہاں سے سات بجے جاؤں گا امید ہے آٹھ بجے تک ان کی فلائیٹ پہنچ جائے گئی ۔ " اوکے بیٹا ۔" ہاجرہ بیگم واپس اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں ۔ سب گھر والوں کے چہرے پر آج ایک خوشی تھی آخر سحرش اس گھر کی ایک ہی بیٹی ہونے کی وجہ سے سب کی بہت لاڈلی تھی تو دوسری طرف عمران بھی اپنے بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلا تھا آخر وہ دو سال بعد پاکستان آ رہے تھے ۔
وہ سڈنی تعلیم حاصل کرنے کے عرض سے گیا تھا لیکن تعلیم مکمل ہوتے ہی وہاں اپنے فرینڈ کے ساتھ مل کر لیدر انڈسٹریز کا بزنس شروع کیا جو بہت کامیاب رہا ۔ گھر والے اس بات کے خلاف تھے کہ اپنے اتنے بڑے بزنس کے ہوتے ہوئے وہاں ہم سب سے دور رہے کر بزنس کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ لیکن وہ ضدی طبیعت کا مالک تھا جو کام وہ سوچ لیتا تھا ہمیشہ کر کے ہی چھوڑتا تھا اس لیے ہمیشہ کی طرح سب اس کی ضد کے آگے ہار گئے تھے ۔
عباد اور سجاد دو بھائی تھے دونوں ہی ایک تین فلور پر مشتمل بہت بڑے اور خوبصورت بنگلے میں رہائش پذیر تھے ۔ بڑے بھائی عباد کو اللہ تعالی نے تین بیٹوں سے نوازا تھا اور سجاد کو بھی اللہ تعالی نے ایک بیٹے اور بیٹی کی نعمت سے نوازا تھا ۔ ماشاءاللہ سے سب کی ہی شادیاں ہو چکی تھیں اور ایک ہی گھر میں سب مل جل کر ہسی خوشی رہ رہے تھے ۔ بہت سی انڈسٹریز کے مالک تھے ان کے بیٹے ہی آجکل بزنس سنبھال رہے تھے کبھی کبھی وہ چکر لگانے چلے جاتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن آپ نے شانی کو کہیں دیکھا ہے پتہ نہیں مجھے کہیں نظر ہی نہیں آ رہا ہے ماں جی بلا رہی تھیں کہ میرے ساتھ ڈنر کر لیتا دوپہر کو بھی لانچ نہیں کیا آپا لاؤنج میں داخل ہوتی ہوئیں سامنے صوفے پر بیٹھے حسن سے مخاطب ہوئیں تھیں جو اپنے چند کزنز کے ساتھ بیٹھا باتوں میں مصروف تھا ۔ وہ اور زبیر میرے خیال میں کافی دیر پہلے عشا کی نماز پڑھنے مسجد میں جا رہے تھے اب آتے ہی ہوں گئے وہ آپا کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا تھا ۔ جی ٹھیک ہے پھر جب آئیں تو دونوں کو آپ کہہ دیجیئے گا کہ ڈنر کر لیں گئے ۔
"جی ٹھیک ہے۔ "
جس وقت باباجان اور ماں جی ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے وہ دلہن کے روپ میں بیڈ پر شرمائی سی بیٹھی ہوئی تھی ۔ صرف آپا ہی پاس بیٹھیں اس کے ساتھ تھوڑی بہت باتیں کرنے میں مصروف تھیں جواباً وہ دھیمے سے لہجے میں بولی رہی تھی ۔ ماشاءاللہ سے بھئی ہمارے بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے بابا جان اور ماں جی دونوں پیار سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔ جیسے ہی میں فری ہوا تو مجھے خیال آیا کہ میں نے تو اپنی پیاری سے بہو کو دیکھا ہی نہیں ہے اور یہ لیں اپنا گفٹ انہوں نے گاڑی کی چابی اس کی طرف بڑھائی ۔ اس نے جھجکتے ہوئے تھام لی پھر آپا نے اس سے لے کر بیڈ کی سائیڈ دراز پر رکھ دیں ۔ ماں جی نے بھی گولڈ کے خوبصورت گنگن نرمی سے اس کی کلائی میں پہنائے تھے ۔ کبھی بھی شان سے کوئی شکایت ہو تو بلاجھجک مجھے سے کہہ دینا باباجان بولے تھے ۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے جیتی رہو بیٹی ہمیشہ خوش رہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے ساٹھےگیارہ بج رہے تھے جب شانی دستک دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور دروازے کو لاک لگاتے ہوئے آگے بڑھ گیا گلاب کے پھولوں کی خوشبو نے اس کا استقبال کیا ۔ وہ جو تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی دستک سنتے ہی جلدی سے سیدھی ہو بیٹھی ۔
شانی کے قدموں کی چاپ سنتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ۔ السلام علیکم وہ سلام کرتے ہوئے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔ وعلیکم السلام اس نے مدہم لہجے میں کہا ۔ "کیسی ہیں آپ ؟" اسے نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے بولا اور ایک لمحے کے لیے دیکھتا رہے گا اس میں تو کوئی شک نہیں تھا کہ وہ پہلے سے ہی بہت خوبصورت تھی آج دلہن کے روپ میں پلکیں جھکائے گبھرائی سے بیٹھی بہت حسین لگ رہی تھی ۔
"جی ٹھیک" اس کے لہجے میں گبھراہٹ سی تھی ۔ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے خوبصورت سی گولڈ کی رنگ جس پر اس کا نام خوبصورتی سے لکھا ہوا تھا نرمی سے اسے پہنائی میں چاہوں گا کہ میرے نام کی یہ رنگ ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں رہے ۔ ماشاءاللہ سے اس میں کوئی شک نہیں ہے آج آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں ۔ بھئی اپنی پلکیں اٹھا کر اب مجھے بھی دیکھ لیں میری شکل اتنی بری بھی نہیں ہے اس نے شریر لہجے میں کہا ۔ مجھے سے گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے آج سے میں آپ کا بہت اچھا دوست اور آپ کا مجازی خدا ہوں کبھی بھی کوئی بھی بات ہو مجھے سے شیئر کر سکتی ہیں وہ لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا ۔ اس نے آہستگی سے پلکیں اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے شانی کو دیکھا جس کے چہرے پر ہر وقت سنجیدگی چھائی ہوتی تھی وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے اور نرمی سے گفتگو کرتا کوئی اور شانی ہی لگ رہا تھا ۔ جی نظر لگانے کا ارادہ ہے اسے خاموشی سے اپنی طرف دیکھتے دیکھ کر شریر لہجے میں بولا تھا ۔ اس بات پر وہ جھنپ سی گئی اور نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی ۔ مذاق کر رہا تھا مجھے لگتا ہے آپ نے میری بات کو سیریس ہی لے لیا ہے اب تو آپ کو مجھے دیکھنے کا حق حاصل ہے اس بار اسے پیار سے دیکھتے ہوئے بولا ۔ میں نئی زندگی شروع کرنے سے پہلے اپنے بارے میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں میں پہلے سے ہی معافی چاہتا ہوں شاید میری باتوں سے آپ کو بہت تکلیف ہو اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔ اس نے حیرت سے دیکھا کہ پتہ نہیں کون سی ایسی بات کرنے جا رہا ہے جس کے لیے پہلے سے ہی معافی مانگ رہا ہے ۔ " میں کسی اور لڑکی سے محبت کرتا ہوں ایک ایسی لڑکی سے جس کی شادی کو بھی پانچ سال ہو چکے ہیں میں چاہتے ہوئے بھی آج تک اس کو نہیں بھول پایا ہوں اور آج تک میں نے شادی صرف اس لیے نہیں کی کیوں کہ میں کسی لڑکی کو دھوکا نہیں دینا چاہتا تھا لیکن اس بار میں ماں جی کی ضد کے آگے ہار گیا اور میں خود بھی اب تھک چکا ہوں آپ کا ہاتھ تھام کر ماضی کو بھول جانا چاہتا ہوں کیا آپ میرا ساتھ دیں گئی ۔ " اس بار جس محبت اور چاہ سے کہا اس انداز پر عائشہ کا دل بے حد زور سے دھڑکا گیا ۔
اسے اس وقت کوئی بکھرا ہوا سا شانی لگ رہا تھا جس امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس نے لمحوں میں ہی فیصلہ کر لیا کہ اسے کیا کہنا ہے ۔
"جی آج سے آپ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ پائیں گئے مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کسی اور سے محبت کرتے ہیں کیونکہ میں جانتی ہوں دل پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا ۔" اسے دیکھتی ہوئی پر اعتمادی سے مدہم لہجے میں بولی تھی ۔ مجھے اپنی پیاری سے وائف سے یہی امید تھی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ بہت سمجھدار ہیں انشاءاللہ میں کبھی آپ کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرؤں گا اور میں چاہوں گا کبھی آپ کو مجھ سے شکایت نہ ہو وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔مجھے آج سے ہمیشہ اس دن کا انتظار رہے گا جس دن میں آپ سے شدید محبت کرنے لگوں گا ۔ وہ خاموشی سے اس کی باتیں سننے لگی اسے شانی کی یہ بات اچھی لگی کہ اس نے صاف گوئی سے دل کی بات بتا دی تھی ۔
میرے خیال میں میری گفتگو خاصی طویل ہو گئی ہے آپ بھی صبح سے بھاری عروسی جوڑے میں ملبوس بیٹھی ہیں آپ بھی کافی تھک چکی ہوں گئی اب آپ ڈریس چینج کر لیں یہ کہتے ہوئے وہ اس کے مہندی سے سجے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے جاتے ہوئے باہر ٹیرس کی طرف بڑھ گیا ۔ وہ اسے باہر کی طرف جاتے دیکھ کر اپنے ریڈ کلر کے عروسی لہنگے کو سنبھالتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھتے ہوئے سب سے پہلے اس نے خود کو بھاری دوپٹے سے آزاد کیا پھر احتیاط سے زیورات کو اتار کر رکھنے کے بعد ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شانی کی جب آنکھیں کھلیں تو کمرے میں ابھی بھی تاریکی چھائی ہوئی تھی فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں اسے فجر کی اذانوں کے وقت ہی اٹھنے کی عادت تھی پھر کبھی نماز پڑھ کر سو جایا کرتا تھا یہی وجہ تھی وہ آج بھی اسی وقت بیدار ہو گیا ۔ آنکھوں کو مسلتے ہوئے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے اس نے ایک نظر اپنے ساتھ لیٹے وجود پر ڈالی جو دنیا سے بے نیاز مٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی پھر کمبل سائیڈ پر کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا رخ واش روم کی جانب کیا ۔
وہ فجر کی نماز کے بعد ہمیشہ کی طرح مسجد میں ہی قرآن پاک کی تلاوت کرنے بیٹھ گیا تھا ۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو ساٹھے چھ بج چکے تھے اس وقت لاؤنج میں کوئی موجود نہیں تھا البتہ کچن میں سے آپا کی آوازیں آ رہی تھیں اس نے خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے کا رخ کیا ۔ جائے نماز رکھنے کے بعد نماز کے انداز میں لپیٹے دوپٹے کو سر سے اتارتے ہوئے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا بیٹھی اور نم بالوں کو سنوارنے لگی ۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اس کی نظر سامنے عائشہ پر پڑی جو کمر تک آتے خوبصورت بالوں کو سنوار رہی تھی ۔ " السلام علیکم گڈ مارننگ " اسے دیکھتے ہوئے خوشگوار موڈ میں کہا ۔ وعلیکم السلام وہ مدہم لہجے میں بولی اس کی موجودگی میں کنفیوز ہونے لگی ۔ پھر غیر ارادی طور پر شیشے میں ایک نظر اس کے عکس کو دیکھا اس وقت براؤن شلوار قمیض سوٹ میں ملبوس سر پر وائٹ ٹوپی کی ہوئی آنکھوں پر چشمہ اس حیلے میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔ سائیڈ دراز پر ٹوپی اتارا کر رکھتے ہوئے اس نے سیل فون آن کیا ۔ اس کی طرف ابھی قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ سیل فون کی بجنے والی بیل نے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ سیل فون کی سکرین پر وسیم کا نمبر جگمگا رہا تھا ۔ آج صبح صبح کیسے کال آ گئی خیریت ہو وہ منہ میں بڑبڑایا اور کال اٹینڈ کرتے ہوئے ٹیرس کی جانب بڑھ گیا ۔ وہ بھی بالوں کو سنوارنے کے بعد ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی ۔ جی السلام علیکم خیریت تو ہے وہ پریشانی سے بولا ۔ وعلیکم السلام میرے یار اللہ کے کرم سے خریت ہی ہے وہ خوشگوار موڈ میں بولا تھا ۔ پھر بتا سکتا ہے اس وقت کیوں کال کی میں تو پریشان ہی ہو گیا تھا اس نے قدرے ناراضگی سے کہا ۔ ہائے افسوس میرے یار ابھی تو تیری شادی کو گزرے ایک دن ہی نہیں ہوا اور تو تو بھابی کی محبت میں اپنے جگری یار کو بھول گیا اب ہم تجھے بغیر وجہ کے کال بھی نہیں کر سکتے وہ مصنوعی غمگین لہجے میں بولا ۔ کبھی تو نے اس وقت کال نہیں کی اس لیے پوچھ رہا تھا اب زیادہ ڈرامے بازی نہ کر میں سمجھ گیا ہوں تم نے آج کال صرف مجھے تنگ کرنے کے لیے ہی کی ہے ۔ ہاہاہاہاہا ٹھیک سمجھا سوچا آج گڈ مارننگ بول دؤں اور ساتھ مبارک باد بھی دے دؤ تو بھی آج سے ہماری صف میں شامل ہو گیا ہے ۔ مجھے لگتا ہے شادی کی جتنی مجھے خوش نہیں ہوئی ہو گی جتنی تجھے ہو رہی ہے وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔ ہاں یہ بھی تو نے غلط نہیں کہا ہے بس تیرے چہرے پر جو اس وقت مسکراہٹ ہے ہمیشہ میں یہی دیکھنا چاہتا ہوں اس بار محبت بھرے لہجے میں کہا ۔ وسیم اب بس بھی کر دیں بیچارے کو کیوں صبح صبح تنگ کر رہے ہیں وہ اس کے سامنے پڑی ٹیبل سے چائے کا خالی کپ اٹھاتی ہوئی بولی تھی ۔ میرے خیال میں بھابی ٹھیک کہہ رہی ہیں سیل فون میں ان کی آواز سنتے ہی بولا تھا ۔ میں نے تجھے ابھی تنگ کیا ہی کہاں ہے وہ مزید اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا ۔ اچھا ٹھیک ہے لیکن میں ابھی کال بند کرنا لگا ہوں تیری بھابی کیا سوچ رہی ہو گئی کہ پتہ نہیں صبح صبح کس سے میں سیل فون پر مصروف ہو گیا ہوں ۔ اوہو بھابی سے ابھی سے ڈرنے لگے ہو میرے بھائی تم بھی بہت جلد زن مرید کے لقب سے پکارے جاؤ گئے اس نے شریر لہجے میں کہا ۔ تو کبھی نہیں بدل سکتا اوکے بائے مسکراتے ہوئے اس نے خود ہی کال آف کر دی کیونکہ وہ جانتا تھا جب وہ ایک بار شروع ہوتا ہے تو پھر مشکل سے ہی خاموش ہوتا ہے ۔ سیل فون کو دیکھتے ہوئے اس کے لبوں پر بھی مسکراہٹ چھا گئی جہاں رابطہ منقطع ہو چکا تھا ۔
اس کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ وہ اس وقت ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی گرین رنگ کے بھاری کڑھائی والے سوٹ میں ملبوس سلیقے سے سر پر دوپٹہ اوڑھے خوبصورت کلائیوں میں چوڑیاں پہن رہی تھی ۔ اسے نظروں کی تپش نے احساس دلایا وہ اس کی طرف ہی متوجہ ہے وہ کنفیوز سی ہونے لگی ۔ کچھ دیر بعد شیشے میں خود پر ایک نگاہ ڈال کر اٹھ کھڑی ہوئی اور بیڈ کی دوسری جانب آ کر خاموشی سے بیٹھ گئی ۔ بھئی ہماری بیگم تو خود ہی اتنی جلدی تیار ہو گئی ہیں وہ اس کے حسین روپ کو دیکھتے ہوئے شوخ سے لہجے میں بولا تھا ۔ " جی " وہ صرف یہی کہہ سکی ۔ ہم کچھ دیر بیٹھ کر باتیں ہی کر لیتے ہیں میرے خیال میں ابھی ناشتہ بھی تیار ہو رہا ہے اس نے وال کلاک کو دیکھتے ہوئے کہا جہاں پر سات بج رہے تھے اور یہ لیں اپنا سیل فون وہ بیڈ کی سائیڈ دراز سے نیو آئی فون ساون اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا تھا اس میں سیم بھی موجود ہے میں نے اپنا نمبر بھی سیو کر دیا ہے ۔ اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے لے لیا تھا " تھینکس " جواباً شکریہ ادا کرنا نہیں بھولی تھی ۔ تھینکس سن کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ چھا گئی جو اسے پھر سے کنفیوز کر گئی تھی ۔ اس کی گبھراہٹ کو دیکھتے ہوئے اس کا دل چاہ اسے تنگ کرے ۔ اچھا ایک بات تو بتائیں آپ اس دن مجھے دیکھتے ہی بھاگ کیوں گئیں اب مجھے دیکھ ہی لیا تھا تو سلام کر کے تو چلی جاتیں وہ مسکراہٹ ضبط کیے بولا ۔ وہ ... وہ مجھے امی جان سے کچھ کام تھا تو میں ان کو ڈھونڈ رہی تھی اس سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا جواب دے وہ تو یہ بات بھول چکی تھی اس وقت گبھرائی سی ہاتھوں پر نظریں جمائے اس روپ میں اسے عائشہ بہت اچھی لگ رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
Benaam Mohabbat ( بے نام محبت )
RomanceComplete Novel The topic of Love and Sacrifice