Ep #8

3.7K 179 46
                                    

حیا رونے کے بعد اٹھتی ہے اور جائےنماز اٹھا کر واپس اسکی جگہ پر رکھتی ہے اور پھر سونے کے لیے جگہ تلاش کرتی ہے .وہ بیڈ کو دیکھتی ہے تو اسے تھوڑی دیر پہلے والا سین یاد آ جاتا ہے جو شاہ بیڈ پر مزے سے لیٹا ہوتا ہے .وہ سر جھٹک کر وہاں سے ایک تکیہ اٹھاتی ہے اور صوفہ پر آ کر لیٹ جاتی ہے . اور سونے کی کوشش کرتی ہے .وہ شاہ ک آنے سے پہلے سونا چاہتی ہوتی ہے . کافی دیر بعد کوشش کر کے آخر کو اسے نیند آ ہی جاتی ہے .... تقریباً رات کے 2 بجے شاہ کمرے میں داخل ہوتا ہے .وہ پورے کمرے میں نظر دورآتا ہے تو حیا اسے صوفہ پر لیٹی نظر آتی ہے . اسے ایک بار پھر غصہ آتا ہے . وہ حیا کو باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر زور سے پھینکتا ہے . کہ حیا کی آنکھ کھل جاتی ہے بلکے وہ ہربرا کر اٹھ جاتی ہے اور اپنے سامنے شاہ کو کھڑا دیکھ کرڈر جاتی ہے اور شاہ بیڈ کے دوسری طرف آ کر بیٹھتا ہے اور اپنی گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتا ہے .حیا اسکے بیٹھتے ہی خود بیڈ سے اٹھنے لگتی ہے کہ شاہ کی دھمکی سن کر واپس بیٹھ جاتی ہے شاہ اسے فوراً کہتا ہے...... "خبردار جو تم بیڈ سے اٹھی تو پھر جو میں کروں گا اسکی زیمدار تم خود ہوگی اگر میں تمھیں وقت دے رہا ہوں اس رشتے کو سمجھنے کے لئے تو بہتر ہے مجھے مت آزماؤ." حیا اسکی بات سن کرڈر جاتی ہے.وہ بیڈ پر یونہی بیٹھی رہتی ہے. جب شاہ اسے کہتا ہے..... "کیا آج ساری رات یونہی بیٹھی رہو گی سونا نہیں ہے ".... وہ فوراً لیٹ جاتی ہے لیکن ایک دم کونے میں ہو کر .
شاہ اسکی اس حرکت پر اور تپ جاتا ہے .اور کھینچ کر اسے اپنی طرف کرتا ہے اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر لیٹ جاتا ہے ۔حیا اس سے پیچھے ہونے کی کوشش کرتی ہے مگر اسکی گرفت اور مضبوط ہو جاتی ہے .
"خوامخواہ خود کو کیوں ہلکان کر رہی ہو میری طاقت سے لڑ نہی سکتی پرنسیس..... سو جاؤ "
حیا کچھ دیر کوشش کرتی ہے مگر اسکے بھاری وجود کو ہلانا اسکے بس کی بات نہی تھی . وہ پہلے ہی تھکی ہاری ہوتی ہے اس کوشش کو چھوڑ کر سونے لگتی ہے اور تھوڑی دیر میں ہی خواب خرگوش کے مزے لینے لگتی ہے .اور شاہ بھی پرسکون نیند سو جاتا ہے شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب وہ اتنی پرسکون نیند سویا ہو .

صبح جب شاہ کی آنکھ کھلتی ہے تو اپنے پاس حیا کو دیکھ کر ایک انجانی سی خوشی ہوتی ہے .وہ سوچتا ہے .
"کب تم میری زندگی کا اتنا ضروری حصّہ ہو گئی مجھے پتا ہی نہی چلا پرنسیس مجھسے ہمیشہ میرے اپنے چھین لئے جاتے ہیں لیکن اس بار میں ایسا کچھ ہونے نہی دوں گا میں تمھیں سات پردوں میں چھپا کر رکھوں گا . کسی کی بھی نظر نہی پڑھنے دوں گا تم پر "
وہ حیا کو دیکھتا ہوا یہ باتیں کر رہا ہوتا ہے شاید شاہ کی نظروں کی تپشش سے حیا کی آنکھ کھل جاتی ہے اور شاہ کو خود سے اتنا قریب دیکھ کر ڈر جاتی ہے اور فوراً اس سے دور ہوتی ہے اور اپنا دوپٹا اٹھا کر ٹھیک کرتی ہے .شاہ بھی اٹھ کر پہلے ڈریسنگ روم میں سے کپڑے نکلتا ہے اور پھر واشروم چلا جاتا ہے .جب واپس آتا ہے تو حیا ابھی تک اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوتی ہے .
"اب سارا دن یہی بیٹھے رہنا ہے ؟"
حیا ایک دم چونک کر شاہ کو دیکھتی ہے اور نفی میں سر ہلا کر واشروم چلی جاتی ہے .اور شاہ باہر چلا جاتا ہے .کچھ دیر بعد جب حیا واشروم سے نکلتی ہے تو روم خالی ہوتا ہے وہ شکر کرتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھتی ہے اور برش نکال کر اپنے بال سلجھانے لگتی ہے . اسکے بال کافی لمبے ہوتے ہیں شاہ جب روم میں داخل ہوتا ہے تو اسکے بال دیکھ کر جیسے مبہوت ہو جاتا ہے .وہ آگے بڑھتا ہے اور حیا کے پیچھے جا کر کھڑا ہو جاتا ہے حیا کو پتا ہوتا ہے کہ شاہ اسکے پیچھے کھڑا ہے مگر وہ اپنے کام میں مگن رہتی ہے تمھیں پتا ہے تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں .اسکی بات سن کر حیا کو شرارت سوجھتی ہے .اسنے سوچ لیا ہوتا ہے کہ اب شاہ سے بدلہ لے گی اسکو اور اسکے گھر والوں کو دی گئی ہر ازیت کا .وہ شاہ کی طرف مرتی ہے اور اسے دیکھ کر مسکراتی ہے اور پھر کہتی ہے .
"جی مجھے پتا ہے کہ میرے بال بہت خوبصورت ہیں سالار بھی یہی کہتا تھا اسے بھی میرے با....
اسکی بات ادھوری رہ جاتی ہے شاہ بہت زور سے اسکو بازو سے پکڑتا ہے اور اپنے قریب کرتا ہے .
"حیا ایک بات آج کان کھول کر سن لو آج کے بعد اگر , اگر تمنے سالار کا نام اپنے زبان سے نکالا تو میں اس شخص کو تمہارے سامنے لا کر جان سے مار ڈالوں گا " یہ کہ کر شاہ اس کا بازو چھوڑ دیتا ہے اور 2 قدم پیچھے ہوتا ہے .حیا بہت ضبط سے آنسو روکے اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہے .
شاہ پھر سے کہتا ہے .
"چلو آؤ ناشتہ کرتے ہیں "
"مجھے بھوک نہی ہے "
یہ کہہ کر حیا بیڈ پر جا کر بیٹھنے لگتی ہے جب شاہ بولتا ہے .
"میں نے تم سے پوچھا ہرگز نہی ہے اور ایسا تو ہو نہی سکتا کل سے کچھ نہ کھایا ہو اور پھر بھی بھوک نہ لگے چلو میرے ساتھ آ کر ناشتہ کرو "
حیا اسکی سنی ان سنی کر دیتی ہے .شاہ اسے غصے سے گھورنے لگتا ہے. اور سختی سے کہتا ہے.
"حیا مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو "
حیا اسکے سخت طریقے سے بولنے پر معصوم سی شکل بنا کر اسے دیکھتی ہے مگر شاہ اسے ویسے ہی گھورتا رہتا ہے تو حیا کو ناچاہتے ہوئے بھی اٹھنا پڑھتا ہے . پھر وہ شاہ کے پیچھے ہی کمرے سے نکلتی ہے وہ کمرے سے نکل کر سیڑیوں سے نیچے اترتے ہیں اور شاہ ہال میں لگی ڈائنینگ ٹیبل کی کرسی حیا کے لئے کھینچتا ہے حیا اس کرسی پر بیٹھ جاتی ہے اور شاہ سکینہ سے کہ کر ناشتہ لیگواتا ہے جو سکینہ فوری لگا دیتی ہے .حیا کھانا کھا کم رہی ہوتی ہے بلکے اسے گھور زیادہ رہی ہوتی ہے .شاہ اسکو ہو دیکھ رہا ہوتا ہے .
"پرنسیس یہ کھانا دیکھنے کے لئے نہی ہے کھانے کے لئے ہے "
"میں نے آپکو پہلے ہی کہا تھا کہ مجھے بھوک نہی ہے "
"چپ کر کے کھانا کھاؤ ورنہ یہ کام بھی مجھے خود کرنا پڑے گا اور مجھے یہ کرنے میں بلکل پرابلم نہی ہوگی "
حیا اسکی بات سن کر فوراً کھانے لگتی ہے اسکی اس حرکت پر شاہ کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے جسے وہ کافی مہارت سے چھپا جاتا ہے . ناشتہ ختم کر کے شاہ حیا سے کہتا ہے .
"مجھے ایک بہت ضروری کام سے جانا ہے کچھ دیر میں آجاؤں گا تم اتنے چاہے پورا گھر دیکھ لو "
یہ کہتے ساتھ ہو شاہ اٹھ کر چلا جاتا ہے .اور پیچھے حیا شکر کرتی ہے کہ اچھا ہوا چلا گیا .اور پھر اٹھ کر پورا گھر دیکھنے لگتی ہے .پہلے کچن میں جاتی ہے کچن بہت خوبصورت اور کافی بڑا ہوتا ہے یہاں بھی زیادہ تر بلیک اینڈ وائٹ کبنیٹس ہوتے ہیں .اسکے بعد وہ باہر لاؤنج میں آتی ہے جسے وہ رات میں ہی دیکھ چکی تھی .لاؤنج سے تھوڑا آگے جا کر 2 کمرے ہوتے ہیں ایک کمرہ کھولتی ہے تو وہ گیسٹ روم ہوتا ہے .جہاں ایک کنگ سائز بیڈ اسکے ساتھ سائیڈ ٹیبلز اور ڈریسنگ ٹیبل بھی ہوتی ہے اور فرنیچر سے میچ ہی 2 صوفہ رکھے ہوتے ہیں جس کے بیچ میں ایک ٹیبل ہوتی ہے .وہ اس روم کو چیک کرنے کے بعد ساتھ والے روم میں آتی ہے جو لاک ہوتا ہے .اسے چھوڑ کر وہ سیڑیاں چڑھ کے اوپر والے پورشن میں جاتی ہے جہاں ایک کمرہ تو شاہ کا ہوتا ہے دوسرا میں جاتی ہے تو وہ اسٹڈی روم ہوتا ہے جہاں بہت ساری فائلز وغیرہ رکھی ہوتی ہیں وہ وہاں سے بھی باہر آ جاتی ہے اور پھر واپس نیچے والے پورشن میں جاتی ہے اور لاؤنج سے ہوتی ہوئی باہر آ جاتی ہے وہاں سے وہ پچھلی طرف لون میں چلی جاتی ہے .جہاں کافی سارے پھول لگے ہوتے ہیں جو کہ سارے حیا کے فیورٹ ہوتے ہیں بلیک روز اور وائٹ اورکڈز حیا کو بہت پسند ہوتے ہیں . اور لون میں یہی دو پھول لگے ہوتے ہیں .حیا انکو دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے لیکن یکدم اداس ہو جاتی ہے اسے یاد آتا ہے اسکی برتھڈے پر ہمیشہ آحد بھائی اس کے لئے سفید اورکڈس لاتے تھے .جس پر وہ بہت خوش ہوتی تھی .وہ وہی گھاس پر بیٹھ جاتی ہے اسکو سارے گھر والے یاد آنے لگتے ہیں .آنسو کب پلکوں کی باڑ توڑ آتے ہیں اسے پتا ہی نہی چلتا .

AashiqueWhere stories live. Discover now