ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:٩
صبح کی روشنی علی پور پر پھیل چکی تھی ۔آج بہت دنوں بعد بادلوں نے علی پور سے منہ موڑاتھا اور سورج کی کرنیں علی پور پر پڑیں تھیں۔جلال خان ، بی بی جان اور اسفند خان حویلی کے لان میں بیٹھے تھے ۔جب صوفیہ اور زوبیا چاۓ لےکر وہاں آٸیں۔
"واہ بھٸ واہ چاۓ آ گٸ ۔"اسفی نے سیدھے بیٹھتے ہوۓ کہا۔زوبیا نے چاۓ کی ٹرےٹیبل پر رکھی اور چاۓ سرو کرنے لگی۔
"ہاں جی بھٸ کیا باتیں ہو رہیں ہیں؟"صوفیہ نے اپنی کرسی سنبھالتے ہوۓ کہا۔
"کچھ خاص نہیں بس اسفند میاں واپس جانے کا کہہ رہیں ہیں۔"جلال خان نے کپ زوبیا کے ہاتھ سے لیتے ہوۓ کہا۔
"اوہ شکر ہے اِن صاحب کو جانے کا خیال آیا۔"صوفیہ نے کہا۔جس پراسفی نے گھور کرصوفیہ کو دیکھا۔
"بی بی جان اگر آپ کی اجازت ہو تو میں بھی اسفی کے ساتھ روانہ ہو جاٶں۔بابا بہت اُداس ہو گۓ ہیں۔"زوبیا نے بی بی جان کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا۔
"ارے زوبیا تمہیں ہم بعد میں چھوڑ آٸیں گے ۔"بی بی جان کی بجاۓ صوفیہ نے کہا۔
" نہیں صوفیہ !بھاٸ جان کی طعبیت بھی ٹھیک نہیں رہتی اُنہیں بھی زوبیا کی ضرورت ہے۔"بی بی جان نے صوفیہ سے کہا۔ جس پر صوفیہ نے منہ بنا کر بی بی جان کو دیکھا۔
"ٹھیک ہے زوبیا تم تیاری کر لو اسفی تمہیں گھر چھوڑ دے گا۔"بی بی جان نے کہا۔
"جی بی بی جان ۔" زوبیا نے کہا۔
*****
"جمال او جمال !"سکینہ بی کیچن میں کھڑی جمال کو آوازیں دے رہیں تھیں۔
" کیا ہے اماں کیوں صبح صبح شور مچا رکھا ہے۔"جمال نے کیچن میں آ کر کہا۔
"ارے مجھے ناشتہ بنانا ہے مگر یہاں تو کوٸ چولہا ہی نہیں ہے۔"بی بی جان نے پریشانی سے کہا۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے اماں ! یہیں کہیں ہو گا غورسے دیکھو۔"جمال نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوۓکہا۔اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد جمال نے کیچن رینج کو غور سے دیکھا اور کہا۔
"چولہا تو یہ رہا اماں لیکن یہ چلتا کیسے ہے مجھے کوٸ نہیں پتا۔"جمال نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ارے یہ کیسا چولہا ہے یہ تو روٹیوں والا توا ہے۔" سکینہ بی نے چولہے والی پلیٹس کو دیکھ کرکہا۔
"اماں یہ تیرا علی پور نہیں ہے یہ اسلام آباد ہے اسلام آباد یہاں بڑے گھروں میں ہر چیز ایسی ہی ہوتی ہے۔"جمال نے کہا۔
"ارے تو یہ اب کون چلاۓ گا اور میں ناشتہ کیسے بناٶں گی۔"سکینہ بی نے پریشانی سے کہا۔
"کیا ہوا سکینہ بی۔"نوراں نے کیچن کے دروازے سے جھانکتے ہوۓ کہا۔
"وہ بی بی جی یہ ولایتی چولہا ہم دیسی لوگوں کو چلانا نہیں آتا تو اماں پریشان ہے کہ ناشتہ کیسے بناٸیں۔"سکینہ بی کی بجاۓ جمال نے کہا۔
"میں دیکھوں زرا اِس میں ایسی کیا خاص بات ہے۔" نوراں نے آگے ہو کر چولہے کو بغور دیکھا اور پھر اِدھر اُدھر والے دراز کھول کے دیکھنے لگی۔کچھ ہی دیر میں اُسے ایک دراز سے کوکنگ رینج کی کاپی ملی تھی۔اُس نے وہ دیکھی اور پھر کوکنگ رینج کی طرف آٸ۔
”یہ تو ویسا ہی ہے سکینہ بی جیسا حویلی میں ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ اُسکے بٹن سامنے تھے اِس کے بٹن نہیں مل رہے۔"نوراں نے کہا نظریں اب بھی کاپی پر ہی تھیں۔
"مل گیا مل گیا۔" نوراں نے کہا اور آگے بڑھ کر اُس نے نیچے لگےاون اور کوکنگ رینج کے بیچ کے حصے میں لگا بٹن دبایا جس سے بٹنز کےاُوپر لگی ساٸیڈ اوپر ہوگٸ اور کوکنگ رینج کے بٹن نظر آنے لگے نوراں نے اُن میں سے دوسرے بٹن کو پریس کر کے گھومایا اور چولہا خود با خود جل گیا۔
"ہاۓ یہ تو بغیر ماچس اور لاٸیٹر کے جل گیا۔"جمال نے حیرت سے کیا۔
"جمال لالاجادو۔" نوراں نے مسکرا کر کہا۔جس پر سکینہ بی اور جمال بھی مسکراۓ ۔
"بتاٸیں کیا بنانا ہے میں بنا دیتی ہوں۔" نوراں نے سکینہ بی سے کہا۔
"ارے میں بنا لوں گی چھوٹی بی بی جی ۔"سکینہ بی نے پیکٹس سے سامان نکالتے ہوۓ کہا جو کچھ دیر پہلے ہی جمال بازار سے لایاتھا۔
"ارے سکینہ بی پہلےتو مجھے بی بی جی کہنا بند کریں۔مجھے عجیب لگتاہے۔"نوراں نے منہ بناتےہوۓکہا۔
"آپ ہماری چھوٹی بی بی ہیں تو ہم کہیں گے بھی۔"سکینہ بی کے بجاۓ جمال نے کہا۔
"لیکن میں چھوٹی بی بی ہونے سے پہلے آپ کی بہن اور سکینہ بی کی بیٹی ہوں ہے نا سکینہ بی۔"نوراں نے کہا۔
"ہاں جی بلکل بلکل ایسا ہی ہے۔"سکینہ بی نے کہا۔
"تو پھر ۔"
"تو پھر یہ کے ہم نہیں کہیں گے۔"نوراں کی بات کو سمجھتے ہوۓ سکینہ بی نے کہا جس پر جمال ہنستا ہوا باہر چلا گیا اور سکینہ بی اور نوراں کام کرنے لگیں۔
"یہ بتاٸیں چھوٹے خان تیار ہوگۓ یا نہیں۔"سکینہ بی نے نوراں سے پوچھا ۔نوراں کے چاۓ بناتے ہوۓ ہاتھ پل بھر کے لیے رُکےتھے۔
"اُٹھ گۓ ہونگےاُنہیں آفس جانا ہیں آج۔"نوراں نے کہا۔
"سکینہ بی!"
ولی کی آواز آٸ جس پر سکینہ بی نے جلدی سے اپنا کام چھوڑا اور باہر کی جانب بھاگیں۔
"جی چھوٹے سرکار۔"سکینہ بی نےولی کو مخاطب کیا۔
"سکینہ بی مجھے جلدی سے ایک کپ چاۓ کا پلا دیں مجھےدیر ہورہی ہے۔"ولی نے ڈاٸنگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوۓکہا۔
"چھوٹے خان آپ بتادیں ناشتے میں کیا لیں گے میں بنا دیتی ہوں۔"سکینہ بی نے پوچھا۔
"ناشتہ میں آفس میں کروں گا آپ بس چاۓ لے آٸیں۔"ولی نے سکینہ بی سے کہا اور خود موباٸل میں مصروف ہو گیا۔
"یہ چاۓتیارہے سکینہ بی آپ ولی کو جا کردے دیں۔"نوراں نے چاۓکا کپ ڈیش میں رکھ کر سکینہ بی کے آگے کیا۔
"تم خود لے جاٶ گڑیا۔"سکینہ بی نے نوراں سے کہا۔
"آپ لیں جاٸیں یہ نہ ہو کہ مجھے دیکھ کر پیۓ بغیر چلے جاٸیں ۔"نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"جھلی۔" سکینہ بی نے نوراں کے ہاتھ سے ڈیش لیتے ہوۓ کہا اور باہر چلی گٸیں۔
"سکینہ بی!وہ لڑکی کہاں ہے؟" ولی نے نوراں کے بارے میں پوچھا۔
"نوراں کا کہہ رہے ہیں چھوٹے خان۔"سکینہ بی نے پوچھا۔
"جی وہی۔۔۔۔زرا اُسے بلا دیں مجھے بات کرنی ہے ۔"ولی نے سکینہ بی سے کہا ۔
"جی اچھا۔"سکینہ بی کہہ کر کیچن میں آٸیں اور نوراں سے کہا۔
"آپکو چھوٹےخان بلا رہیں ہیں۔"
"مجھے!"نوراں نے حیرانگی سے پوچھا۔
"جی آپکو۔"سکینہ بی نے کہا ۔
"اچھا۔"نوراں نے کہا اور اپنے سر پر چادر کو ٹھیک کیا اور ڈاٸنگ ہال کی جانب چل پڑی۔
"آپ نے بلایا؟"نوراں نے سوال کیا۔
"ہاں بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"ولی نے ہاتھ کے اشارے سے نوراں کو اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔نوراں نے کرسی پیچھے دھکیلی اور بیٹھ گٸ ۔
"دیکھو لڑکی میری بات غور سے سننااور سمجھناکیونکہ میں بار بار بات دھرانے کا عادی نہیں ہوں۔"ولی نےنہایت سنجیدہ انداز میں کہا ۔
"ایک منٹ ایک منٹ آپکی بات میں بعد میں سُنتی ہوں پہلے آپ میری ایک بات سُن لیں۔میں لڑکی ہوں لیکن میرا نام لڑکی نہیں ہےاور یہ میں آپ کو پہلی اور آخری بار بتا رہیں ہوں ۔آٸندہ مجھے نام سے بلاٸیں گے تو بات سُنوں گی ورنہ سمجھ لیجیۓ گا نوراں بہری ہو گٸ ہے۔"نوراں نے ولی کی بات بیچ میں کاٹتے ہوۓ کہا۔جس پر ولی نے سختی سے کہا۔"مجھے میری بات بیچ میں کاٹنے والے سخت ناپسند ہیں۔"
"میں تو پہلے ہی اُس لسٹ میں ٹاپ پر ہوں تو کوٸ فرق نہیں پڑتا۔"نوراں نے پر سکون انداز میں کہا۔
"مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ تم میرے اور اپنے تعلق کے بارے میں حویلی کچھ نہیں بتاٶ گی۔اُن کو یہ لگنا چاہیۓ کہ ہم اپنی اپنی زندگیوں سے خوش نہ سہی لیکن مطمئن ضرور ہیں۔"ولی نے بات شروع کرتے ہوۓ کہا۔
"مطلب ہم جھوٹ بولیں گے ہم اُن کے سامنے دیکھاوا کریں گے۔"نوراں نے بدلے میں پوچھا۔
"کچھ ایسا ہی ہے ۔کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ وہ ہمارے رشتے کو لے کر پریشان ہوں۔"ولی نے کہا۔
"اور سکینہ بی اور جمال کا کیا؟وہ دونوں تو یہاں ہیں ہی اِس مقصد کےلیے کہ یہاں کی اُونچ نیچ کی خبر حویلی دے سکیں ۔"نوراں نے ایک اور سوال کیا۔
"جمال کو میں سمجھا دوں گا اور تم سکینہ بی سے بات کر لینا۔"ولی نے کہا اور چیٸر سے اُٹھ کر جانے لگا تھا کہ نوراں کی آواز پر رُکا ۔
"اور یہ سب کب تک چلے گا؟"نوراں نے ولی کو دیکھے بغیر پوچھا۔
"اِس سب کا جواب صرف وقت کے پاس ہے۔"ولی نے کہا اور باہر کی جانب بڑھ گیا جبکہ نوراں وہیں سر کو ہاتھوں میں تھام کر بیٹھ گٸ تھی۔
"نوراں حوصلے اور ہمت سے کام لے پُتر ایک دن سب ٹھیک ہو جاۓ گا دیکھنا۔نکاح کے رشتے میں بہت طاقت ہوتی ہے۔اِس رشتے میں بندھ کر تو پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں اور اپنے چھوٹے خان تو پھر بہت اچھے ہیں۔"سکینہ بی نے نوراں کے کندھےپرہاتھ رکھ کر کہا۔جس پر نوراں نے سر اُٹھا کر سکینہ بی کو دیکھا اور افسردہ لہجے میں کہا۔"اماں یہاں ہوتیں تو وہ بھی ایسے ہی سمجھاتیں۔"
"میں بھی بلکل تیری ماں جیسی ہوں نوراں جب ماں کی یاد آۓ میرے پاس آ جایا کرنا۔"سکینہ بی نے نوراں کا ماتھا چوم کر کہا۔
"سکینہ بی وہ حویلی!"
"فکر مت کرو میں بی بی سرکار کومطمٸن کردوں گی اور جمال سے بھی کہہ دوں گی کہ وہ یہاں کی کوٸ بات حویلی نہیں بتاۓ گا۔"سکینہ بی نے نوراں کو تسلی دی۔
*****
بشیر شہرِخاموشاں میں کھڑا کسی سے ہمکلام تھا۔آنکھوں سے آنسوں جاری تھے ۔اور وہ بات کرتے کرتے وہی زمین پر بیٹھ گیا۔
"خان صاحب آپ کو کھونے کے بعد میں نے اپنی بیٹی کو بھی کھو دیا ۔میں چاہ کربھی اُس کی حفاظت نہیں کر پایا ۔میں بہت اکیلا تھا میرا اور میری بیٹی کا ساتھ دینےوالا کوٸ نہیں تھا کوٸ نہیں تھا۔مجھے معاف کر دینا مصطفیٰ بیٹا میں آپ سے کیا وعدہ پورا نہیں کر سکا میں بڑے سرکار کوحقیقت نہیں بتا سکتا ۔حقیقت جاننے کےبعد اُنکی آنکھوں کی ویرانی مزید بڑھ جاۓ گی جو میں نہیں دیکھ سکتا ۔مجھے معاف کر دینا بیٹا ۔"بشیر نے روتے ہوۓ مصطفیٰ کی قبر پر آ کر کہاتھا کہ تبھی کسی نے اُسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
*****
کانفرنس روم میں ہر طرف خاموشی تھی فقط ولی جلال خان کی آواز ہر طرف سُناٸ دے رہی تھی ۔وہ اپنی ازلی وجاہت کے ساتھ سربراہی کرسی پر براجمان تھا کالےرنگ کا تھری پیس سوٹ زیب تن کیۓ بالوں کو خوبصورتی سے پیچھے سیٹ کیۓ ہاتھ میں برینڈیڈ گھڑی لگاۓ وہ کسی اہم موضوع پر بات کر رہا تھا اور کانفرنس روم میں موجود تمام نفوس بہت توجہ کے ساتھ ولی کو سُن رہے تھے ۔میٹنگ ختم ہونے کے بعد ولی نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو باہر جانے کا کہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے روم خالی ہو گیا تھا ۔ولی نے ٹاٸ ڈھیلی کی اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں ۔تبھی کوٸ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور ولی کے پاس پہنچ کر اندر آنے والے نے گلا کنکھارا ۔
"اہمممم اہمممم۔"
ولی نے آنکھیں کھول کر سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھا تھا ریڈ کلر کا ٹاپ نیچے واٸٹ کلر کی پینٹ پہنے آنکھوں پر بڑے بڑے گلاسس لگاۓ اور ہونٹوں پر ریڈ ہی کلر کی لیپسٹک لگاۓ فضہ پوری تیاری کے ساتھ سامنے کھڑی تھی ولی نے دیکھا اور آنکھیں پھر سے بند کر لیں۔
"کم آن ولی!اُٹھ جاٶ ہم آلریڈی لیٹ ہیں اور مجھے تو تمہارے جانے کا کوٸ ارادہ ہی نہیں لگ رہا۔"فضہ نے پیچھے سے ولی کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
"چلتے ہیں بس دو منٹ دو مجھے۔"ولی نے اپنے کاندھوں سے فضہ کے ہاتھ ہٹاۓ تھے اور فضہ کی طرف دیکھے بغیر کانفرنس روم سے باہر نکل گیا تھا۔
*****
نوراں اور سکینہ بی ناشتے سے فارغ ہو کر باہر لان میں آٸ تھیں ۔سکینہ بی ایک جانب لگی کرسیوں میں سےایک پر بیٹھ گٸ تھی جبکہ نوراں ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھ رہی تھی کہ صادق وہاں آیا۔
"سلام اماں جی ۔"صادق نے سکینہ بی کو سلام کیا۔
"وسلام۔"سکینہ بی نے جواب دیا ۔
"اماں جی آپ بُرا نہ مناۓ تو کیا میں جان سکتا ہوں آپ مصطفیٰ لالا کے کیا لگتے ہیں؟"صادق نے سکینہ بی سے سوال کیا۔
"بیٹا ہم مصطفیٰ خان اباٸ حویلی میں ملازم ہیں اور اب کچھ عرصے کے لیے میں اور میرا بیٹا یہاں چھوٹے خان کے ساتھ رہنے آۓ ہیں۔"سکینہ بی نے جواب دیا۔
"ماشاءاللہ مجھے خان صاحب نے بتایا کہ وہ مصطفیٰ خان کے چھوٹے بھاٸ ہیں۔ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہیں۔"صادق نے ولی کی تعریف کرتے ہوۓ کہا۔
"ماشاءاللہ۔"سکینہ بی نے بھی جواب میں کہا ۔اتنی دیر میں نوراں اپنا دوپٹہ صحیح کرتی وہاں پہنچ چکی تھی۔صادق نے زرا کی زرا نظر اُٹھا کر نوراں کو دیکھا اور پھر سوالیہ نظروں سےسکینہ بی کی طرف۔
"یہ چھوٹے خان کی دلہن ہے۔"سکینہ بی نے صادق کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ ہمارا خان تو بہت خوش نصیب ہے جو اُسکو اتنی پیاری دلہن ملی ہے ۔"صادق نے نوراں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
"بہت شکریہ چچا۔"نوراں نے کہا۔
"بیٹی کچھ بھی چاہیۓ تو بس حکم کرنا ہے آپ نے سب کچھ آپ تک پہنچ جاۓ گا۔"صادق نے خوشی سے کہا۔
"آپ کا بہت شکریہ چچا۔"نوراں نے کہا۔
*****
بشیر نے پیچھے مڑ کے دیکھا تھا آنکھوں سے آنسو اب بھی جاری تھے ۔
"منشی صاحب آپ!"بشیر نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ پوچھا۔
"مجھے معاف کر دو بشیر میں تمہارا گنہگار ہوں۔"منشی نےبشیر کے سامنے ہاتھ جوڑتےہوۓ کہا۔
"منشی صاحب ایسا مت کریں۔آپکی مجبوری مجھ سے چھُپی نہیں ہے آپ نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا۔ہم دونوں نے اپنی بچیوں کی عزت بچانے کے لیے یہ سب کیا۔آپ نے جھوٹ بولا اور میں نے خاموشی اختیار کی۔اگر ہم دونوں کسی کے گنہگار ہیں تو وہ میری بیٹی ہے ۔آپ کے جھوٹ نے اور میری خاموشی نے میری بیٹی سے اُسکی زندگی چھین لی۔میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس حال میں ہے۔"بشیر نے منشی کے اپنے سامنے بندھے ہوۓ ہاتھوں کو تھام کر کہا۔
"تم سچ کہہ رہے ہو بشیر احمد ہم واقعی نوراں کے گنہگار ہے ۔نجانے اب ہمارے اِس گناہ کی تلافی کیسے ہوگی۔"منشی نے افسوس سے کہا ۔اور بشیر کو گلے سےلگا لیا ۔منشی کو بشیر سے بات کر کے اپنا آپ بہت ہلکا محسوس ہوا تھا ایسا لگا تھا ۔
*****
زوبیا اور اسفی لاہور کی جانب نکل پڑے تھے۔زوبیا کا دل علی پور سے نکلتے ہی تاریک ہو گیا تھا زوبیا کو لگاایسا لگاتھا جیسے کسی نے اُسکی زندگی کی ساری روشنی چھین لی ہو۔علی پور میں رہنے کے سارے خواب جیسے کسی نے جاگتی آنکھوں سے چھین لیۓ ہوں۔زوبیا نے علی پور سے نکلتے وقت اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی علی پور واپس نہیں آۓ گی وہ کبھی یہاں کی تلخ یادوں کو یاد نہیں کرے گی۔لیکن قسمت کا لکھا صرف وقت بتا سکتا ہےاور کون جانے آنے والا وقت کب کس کوکہاں لاکھڑا کرے۔
"زوبیا باجی پھر آپ کب آ رہی ہیں میری شادی پر۔"اسفی نے زوبیاکا موڈ چینج کرنے کے لیےبات شروع کی ۔زوبیا نے پہلے حیرت سے اسفی کی طرف دیکھا جو بہت سنجیدگی کے ساتھ ڈراٸیو کرنے میں مگن تھا۔اور پھر سامنے دیکھتے ہوۓ زوبیا نے بولنا شروع کیا۔
" تمہاری شادی؟"
"ہاں جی بلکل میری اسفند خان کی شادی۔"اسفی نے مسکرا کر کہا۔
" او کس حسینہ کے ساتھ۔"زوبیا نے اپنا رُخ اسفی کی جانب موڑتے ہوۓ کہا۔
"میری زندگی میں تو ایک ہی حسینہ ہے۔"اسفی نے صوفیہ کو سوچتے ہوۓ کہا۔
"میں کیا تمہیں چڑیل لگتی ہوں۔"زوبیا نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ کہا۔
"ارے نہیں نہیں زوبیا باجی آپ بھی حسین ہیں خوبصورت ہیں لیکن !"
"لیکن صوفیہ جتنی نہیں ہے نا۔"زوبیا نے اسفی کی بات بیچ میں کاٹتے ہوۓ کہا۔
"آپ غلط مطلب لے رہی ہیں ۔"اسفی نے جھٹ سے کہا۔
"ہاں جی میں ہی غلط ہوں ٹھیک ہے۔مسڑ اب اکیلے مناٸیے گا صوفی کو شادی کے لیے ۔"زوبیا نے مصنوعی ناراضگی دیکھاتے ہوۓ کہا۔
"ارے میری پیاری بجو!آپ تو مزاق بھی نہیں سمجھتیں بڑی جھلی ہیں آپ۔"اسفی نے بھر پور ایکٹینگ کرتے ہوۓ کہا۔
" چلو چلو نکلو اب نہ آتی ہوٸ میں تمہاری باتوں میں۔"زوبیا نے اپنی مسکراہٹ کو کنٹرول کرتے ہوۓ کہا۔
*****
"ولی!تم اپنی زبان علی پور چھوڑ آۓ ہو۔"فضہ نے کب سے خاموش بیٹھے ولی کو پکارا۔فضہ اور ولی ریسٹورنٹ میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔ولی جب سے آیا تھا خاموش تھا اِس لیے فضہ نے ولی سے کہا تھا۔
"مطلب!"ولی نے نا سمجھی سے پوچھا۔
"مطلب یہ کہ ہم پیچھلے آدھے گھنٹے سے یہاں بیٹھیں ہیں اور تم نے اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا۔"فضہ نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوۓ کہا۔
"سوری یار میں تھوڑا اپ سیٹ ہوں بس اِس لیے خاموش ہوں۔"ولی نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔
"تو یار میں یہاں بیٹھی ہوں شیٸر کرو مجھ سے ۔"فضہ نے ولی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔جسے ولی نے ایک جھٹکے سے پیچھے کھینچ لیا تھا۔ولی نے ایسا کیوں کیا ولی کو خود سمجھ نہیں آیا تھا ۔لیکن فضہ کو ولی کی یہ حرکت چبھی تھی ۔تھبی اُس نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور ولی سے کہا۔
"ولی تم کب مل رہے ہو میرے ڈیڈ سے اور مجھے اپنی فیملی میں کب انٹروڈیوس کروا رہے ہو۔میں اب مذید انتظار نہیں کر سکتی ۔"فضہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"میں تمہارے ڈیڈ سے جلد مِلوں گا لیکن ابھی نہیں ابھی صحیح وقت نہیں ہے اور میں کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا۔"ولی نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوۓ کہا۔
"کم آن ولی !تم نجانے کون سے صحیح وقت کا انتظار کر رہےہو ۔میں مام ،ڈیڈ کو کہہ چکی ہوں کہ تم واپس آ کر اُن سے ملو گےاور تم ہوکے نکھرے ہی کیۓ جا رہے ہو۔"فضہ نے غصے سے کہا تھا۔
"دیکھو فضہ۔"
"مجھے نہ تو کچھ دیکھنا ہے نہ ہی کچھ سمجھنا ہے ۔سوچنا اور سمجھنا اب تمہیں ہے کیونکہ اب ہم تب ملیں گے جب تم مام ڈیڈ سے ملنے کے لیے تیار ہو جاٶ۔"فضہ نےولی کی بات کاٹتے ہوۓ کہا تھا اور کہنے کے بعد وہ رُکی نہیں تھی۔ولی نے بھی اُسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتا تھاکہ وہ اب نہیں رُکے گی۔
"باباسرکار آپ کے فیصلےنے مجھے کہاں لا کھڑا کیا ہے؟"ولی نے افسوس سے کہا تھا اور کار کی چابیاں اُٹھا کر باہر نکل گیا تھا۔
*****
صوفیہ بی بی جان کے کمرے میں ٹہل رہی تھی کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر جس سے بی بی جان کو سخت کوفت ہو رہی تھی۔
"اُف صوفی اُف !اب بس کرو آرام سے بیٹھ جاٶ تمہیں دیکھ کر مجھے چکر آ رہیں ہیں۔"بی بی جان نے تنگ آ کر صوفیہ سے کہا۔
"بی بی جان میں سخت قسم کی بوریت کا شکار ہو رہی ہوں کچھ ہے ہی نہیں کرنے کو نہ کوٸ کام اور نہ ہی کوٸ بات۔"صوفیہ نے افسوس سے کہا۔
"تو تم یوں کرو نہ نوراں کو فون کر کے اُسکی خیریت پوچھ لو۔"بی بی جان نے کہا۔
"او ہاں لیکن نوراں کے پاس تو فون نہیں ہے۔"صوفیہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔
"ارے تو اپنے لالا کو فون کرو حال چال پوچھو اور اُس سے کہو اپنی بیگم کو ایک اچھا سا فون لے کر دے ہم نے اُس سے بات کرنی ہے۔"بی بی جان نے ایک اور مشورہ دیا جس پر صوفیہ نے فوراً عمل کرتے ہوۓ ولی کا نمبر ڈاٸل کیا تھا۔جو دو تین گھنٹیوں کے بعد اُٹھا لیا گیا تھا۔
"اسلام علیکم!لالا کیسےہیں ؟"صوفیہ نے فون اُٹھاتے ہوۓ کہا۔
"وسلام!میں بلکل ٹھیک آپ کیسی ہیں ۔بی بی جان اور بابا سرکار کیسے ہیں۔"ولی نے کہا۔
"الحَمْدُ ِلله لالا سب ٹھیک ہیں ۔آپ بتاۓ نوراں کیسی ہے؟خوش ہے؟"صوفیہ نے پوچھا۔
"ہاں سب ٹھیک ہیں۔"ولی نے کہا۔
"اتنا روکھا جواب لالا۔"صوفیہ نے نوراں کے نام پر ولی کے لہجے میں آٸ بیزاری محسوس کی تھی۔
"میں ڈراٸیو کر رہاہوں صوفیہ کوٸ ضروری بات ہے تو کہو۔"ولی نے بات کو ختم کرنا چاہا تھا۔
"جی بات یہ ہے کہ آج گھر جاتے ہوۓ ایک اچھا سا فون لے کراُس میں سیم ایکٹیو کروا کر نوراں کو دے دیجۓ گا ۔"صوفیہ نے کہا۔
"میرے پاس ٹاٸم نہیں اِن سب کے لیۓ ویسے بھی گھر پر لینڈلاٸن نمبر ہیں میں سینڈ کر دیتا ہوں فون کر لو۔"ولی نے جان چھوڑواتے ہوۓ کہا۔
"مجھے سیم کا نمبر سینڈ کر دیجیۓ گا میں رات آٹھ بجے نوراں کے فون پر کال کروں گی۔"صوفیہ نے کہہ کر فون کاٹ دیا تھا جبکہ ولی نے فون ساتھ والی سیٹ پر پھینک دیا تھااور گاڑی کی رفتار تیز کر دی تھی۔
"بی بی جان لالا اور نوراں ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہ بھی پاٸیں گے ؟کیا لالا کبھی نوراں کو اپنی زندگی میں قبول کریں گے؟"صوفیہ نے پریشانی سے بی بی جان سے پوچھا۔
"ایک دن ایسا ضرور آۓ گا جس دن ولی نوراں کو اپنی زندگی میں شامل کرے گا۔وہ دونوں بھی عام جوڑوں کی طرح اپنی زندگی ہنستے مسکراتے گزاریں گے کیونکہ وہ دونوں ایک پاک اور مضبوط رشتے میں بندھے ہیں۔اور نکاح کے رشتے میں بہت طاقت ہوتی ہے نکاح کا پاکیزہ رشتہ دلوں میں محبت ڈالتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ احساس کا ،محبت کا رشتہ بناتا ہے بس انسان کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے دعا کرو تمہارا لالاوقت گزرنے سے پہلے سب سمجھ جاۓ۔کیونکہ اگر دیر ہو گی تو وہ تہہ دامن رہ جاۓ گا۔"بی بی جان نے کہا۔
" ان شاء اللہ ! ولی لالا جلد اِس بات کو قبول کر لیں گے ۔" صوفیہ نے بی بی جان کے کندھے پر اپنا سر رکھتے ہوۓ کہا۔
" ان شاء اللہ!"بی بی جان نےبھی کہا۔
*****
نوراں کا کمرہ چھوٹا مگر خوبصورت تھا۔ جس کے داخلی دروازے کی داٸیں جانب بیڈ لگا تھا اوربیڈ کے سامنے دیوار پر ایک بڑی ساری کھڑکی تھی جس کے پاس ایک چھوٹا سا کاٶچ رکھا تھا اور بیڈ کے ساتھ والی دیوار کے ساتھ ڈریسنگ لگایا گیا تھا جبکہ دوسری ساٸیڈ والی دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا سا ڈریسنگ روم تھا۔ سارے کمرے میں لاٸیٹ بیلو کلر کیا گیا تھا اور کھڑکی پر پردہ بھی لاٸیٹ بیلو ہی تھا یا یوں کہنا صحیح ہوگا وہاں پڑی ہر چیڑ ہی بیلو تھی جیسے کسی بچے کے لیے سیٹ کیا ہو۔نوراں نہا کر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی تھی ۔لمبے کالے گھنے بال اسکی پشت پر بکھرے تھے۔گرے رنگ کے کرتے شلوار میں اُسکی گوری رنگت اور بھی نکھری نکھری لگ رہی تھی ۔نوراں نے کھڑکی کے پردے ساٸیڈ پر کیۓ تھے اور بیڈ پر رکھی اپنے باپ کی چادر اپنے کاندھوں پر اُوڑھ کر کھڑکی کے پاس آ کھڑی ہوٸ تھی ۔اسلام آباد کے آسمان پر بادل برسنے کے لیے بیتاب تھےٹھیک ویسے ہی جیسے کھڑکی میں کھڑی نوراں کی آنکھ سے آنسو برسنے کے لیے تیار تھے ۔
"اللہ پاک زندگیوں کوآسان کر دے ۔زندگی میں آٸ مشکلات کا سامنے کرنے کی طاقت دے ۔اپنی اِس گنہگار بندی کو اِس آزماٸش کے وقت میں ثابت قدم رکھنا مشکلات کو ختم کر دے میرے مالک اِس سے پہلے قدم لڑکھڑا جاٸیں اِس سےپہلے ہم گمراہ ہو جاٸیں ہمیں تھام کر اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیں میرے اللہ۔ بیشک تو ہی مشکلات سے نکالنے والا ہے۔"نوراں نے آسمان کی جانب دیکھ کر اپنے رب سے التجا کی تھی اور آنسو کو ہاتھ کی پشت سے صاف کیا تھا۔تب ہی ولی کی گاڑی کا ہارن سُناٸ دیا تھا اور بارش کے قطرے بھی کھڑکی پر پڑنا شروع ہوۓ گۓ تھے ۔
اشکِ رواں کی نہر ہے،اورہم ہیں دوستو
اُس بے وفاکا شہرہے،اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں،اور رفتگاں کی یاد
تنہاٸیوں کا زہر ہے،اورہم ہیں دوستو
لاٸ ہے اب اُڑاکےگۓ موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہرہے ،اورہم ہیں دوستو
دل کو ہجوم نکہت مہ سے لہو کیے
راتوں کا پچھلا پہر ہے،اورہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثلِ موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے ،اورہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سراۓدہر ہے،اور ہم ہیں دوستو
منیر نیازی
نوراں نے کھڑکی کے پردے برابر کیۓ تھے کہ کمرے کا دروازہ بجا۔
"آجاٸیں ۔"نوراں نے کہا۔
"بیٹا وہ چھوٹے خان آپ کو بُلا رہیں ہیں۔"سکینہ بی نے دروازہ کھول کر کہا۔
"جی ٹھیک ہے سکینہ بی آپ چلیں میں آتی ہوں۔"نوراں نے سکینہ بی سے کہا۔
"یا اللہ خیر ہو اب بھلا کیوں بُلایا مجھے ۔"نوراں نے دل میں سوچا تھا اور سکینہ بی کے ساتھ ہی باہر نکل گٸ تھی۔
ولی ٹی وی لاٶنج میں آنکھیں موندے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا جب نوراں نے اُسے پکارا۔
"آپ نے بُلایا تھا۔"نوراں کی پکار پر ولی نے آنکھیں کھول کر اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تھا ۔جو اِس وقت بغیر کسی میک کپ کے معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی۔وہ اِس قدر حسین لگ رہی تھی کہ ولی جلال خان آنکھ جھپکنا ہی بھول گیا تھا۔ولی کے اِس طرح دیکھنے سے نوراں کو ایک عجیب سا احساس ہوا تھا۔ولی کی اِس محویت کو توڑنے کے لیے نوراں نے ایک بار پھر سے ولی کو پکارا تھا۔
"آپ نے بُلایا تھا؟"نوراں کی آواز پر ولی نے سر جھٹکا تھا اُسکو اپنی بیساختگی پر غصہ آیا تھا۔اور اُس نے جلدی سے ایک ڈبہ سامنے میز پر اُچھالا تھا ۔
"یہ فون صوفیہ نے تمہیں دینے کو کہا تھا۔سیم ڈال کر اِس کو سیٹ کر دیا ہے اُٹھا لو اِسے ۔"ولی نے روکھے سے لہجے میں کہا ۔
"میں یہ!"نوراں نے کچھ کہنا چاہا تھا لیکن ولی نے بیچ میں ہی اُسکی بات کاٹی اور کہنا شروع کیا ۔
"جانتا ہوں تمہاری اوقات سے زیادہ ہے لیکن میری بہن نے کہا تھا اِس لیۓ دینا پڑاورنہ تمہاری اوقات تو اِس کی شکل دیکھنے کی بھی نہیں ہے ۔"ولی نے تلخ ہوتے ہوۓ کہا اور اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔
"میری اوقات مجھے اچھے سے یاد ہے آپکو بار بار یاد کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔اور ہاں ہم غریب ضرور ہیں بھیکاری نہیں تو آپ اپنی خیرات کہیں اور دےدیں۔نہیں چاہۓ بھیک میں ملی ہوٸ ایک بھی چیز آٸ سمجھ۔"نوراں نے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گٸ ۔پیچھے سے ولی نے ایک زور دار ٹانگ سامنے پڑی ٹیبل کو ماری اور اُس نے دل میں سوچا تھا ۔"تمہیں تمہاری اوقات میں یاد کرواتا ہوں جاہل لڑکی۔"اور سیڑیوں کی جانب بڑھ گیا ۔
*****
وقت تھا کہ پر لگا کر اُڑ رہا تھا آج ولی اور نوراں کے نکاح کو ایک ماہ ہو گیا تھا لیکن وہ دونوں آج بھی وہی کھڑے تھے جہاں پہلے دن کھڑے تھے۔ایک ہی گھر میں رہتے ہوۓ وہ کٸ کٸ دنوں تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھتے تھے نہ ہی کوٸ بات ہوتی اگر کبھی بھولے بھٹکے کوٸ بات چیت ہو بھی جاتی تو اُس میں بھی صرف لڑاٸ جھگڑا ہوتا ۔ولی ہر وہ کوشش کرتا جس سے وہ نوراں کو نیچا دیکھا سکتا تھا ہر بات پر اُسے اُس کے باپ کے قاتل ہونے کا طعنہ دیتا ۔نوراں ہر بات برداشت کر جاتی لیکن جیسے ہی بات نوراں کے باپ پر آتی تو نوراں بھی بھرپور طریقے سے ولی کو جواب دیتی۔فضہ نے بھی پیچھلے ایک ماہ سے ولی سے بات نہیں کی تھی جبکہ ولی دن میں کتنی ہی بار اُسے فون کرتا جو ہر بار فضہ کاٹ دیا کرتی ۔اب ولی نے بھی اُسے فون کرنابند کر دیا تھا۔
اتوار کا دن تھا ولی جاگنگ کر کے گھر آیا تھا اور سامنے ٹیبل پر پڑی پانی کی بوتل اُٹھاٸ تھی اور ایک ہی سانس میں پی گیا تھا۔ٹراٶزر شرٹ پہنےوہ اپنےبالوں کو تولیے سے خشک کرتا سیڑیوں کی جانب بڑھنے لگا تھا جب اُس کی نظر ڈاٸنگ ہال میں کھڑی سکینہ بی پر پڑی تھی۔ولی نے قدم سیڑیوں کی بجاۓ ڈاٸنگ ہال کی طرف موڑے تھے ۔
"کیسی ہیں سکینہ بی۔"ولی نے ڈاٸنگ ٹیبل صاف کرتی سکینہ بی کو مخاطب کرکے کہا۔
"ارے چھوٹے خان آپ !میں ٹھیک ہو آج خیریت ہے۔"سکینہ بی نے حیرانگی اور خوشی کے میلے جُلے تاثرات سے کہا۔
"کیوں میں یہاں نہیں آسکتا کیا؟"ولی ایک کرسی کھینچ کراُس پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"بلکل آ سکتےہیں آپ کا اپنا گھر ہے۔لیکن آج آپ کامزاج کچھ مختلف لگ رہا ہے۔"سکینہ بی نے پوچھا۔
"ہاں جی آج کام کم ہے تو ریلیکس محسوس کر رہا ہوں۔اور ہاں سکینہ بی پانی کی بوتل کا شکریہ جو آپ روزانہ میرے آنے سے پہلے باہر ٹیبل پر رکھتی ہے۔"ولی نے کہا ۔
"پر میں تو کوٸ بوتل نہیں رکھتی۔"سکینہ بی نے کہا۔
"تو پھر کون رکھتا ہے۔"ولی نے پوچھا۔
"نوراں رکھتی ہو گی کیونکہ اُس وقت وہی یہاں ہوتی ہے جس وقت آپ جاگنگ کر کے واپس آتے ہیں۔"سکینہ بی نے وضاحت کی۔
"او اچھا زرا آپ اُسے بُلا لاۓ مجھے کام ہے اُس سے۔"ولی نے سکینہ بی سے کہا جس پر سکینہ بی خوشی خوشی نوراں کے کمرے کی طرف بھاگیں۔
*****
"بابا سرکار ۔"شاہزیب خان نے جلال خان کے کمرے میں آکر پکارا ۔جلال خان جو کوٸ کتاب پڑھنے میں مصروف تھے ۔شاہزیب کی آواز پر اُنہوں نے کتاب ساٸیڈ پر رکھی اور پوری طرح سے اُس کی طرف متوجہ ہوۓ۔
"بولو ۔"جلال خان نے کہا ۔
شاہزیب خان بکھرے بال اور سرخ آنکھیں لیۓ جلال خان کے پاس بیٹھا تھا۔شاہزیب کی حالت دیکھ کر جلال خان کوغصہ آیا تھا لیکن انہوں نے شاہزیب کو کچھ کہا نہیں ۔وہ شاہزیب کے بولنے کے انتظار میں تھے۔
"میں اسلام آباد جا رہا ہوں۔"شاہزیب نے کہا۔
"چلے جاتے بتانے کی زحمت کیوں کی؟"جلال خان کا صبر آہستہ آہستہ جواب دے رہا تھا۔
"تاکہ کل کو اگر آپکے چھوٹے بیٹے کی ازدواجی زندگی میں کوٸ مسلہ آۓ تو آپ مجھ پر الزام مت لگاٸیں کیونکہ میں آپکے بیٹے کے پاس نہیں جا رہا۔"شاہزیب خان نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا۔
"وہ تمہارا بھاٸ بھی ہے شاہزیب خان۔"جلال خان نے کہا۔
"میرا نہ کوٸ بھاٸ ہے اور نہ کوٸ ماں باپ ہیں ۔میری صرف ایک بہن ہے صرف ایک بہن جو مجھے خود کی جان سے زیادہ عزیز ہے اور میرا اِس دنیا میں کوٸ رشتہ نہیں ہے آٸ آپکو سمجھ۔"شاہزیب نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر بلند آواز میں کہا تھا۔
"آواز آہستہ برخوردار تم میرے صبر کو مت آزماٶ کیونکہ جس دن میرا صبر ٹوٹا نا اُس دن تم واقعی اپنے باپ کو کھو دو گے ۔"جلال خان نے شاہزیب کے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔
"آپ جیسا باپ چاہیۓ بھی نہیں جو اپنی اولاد میں فرق کرتا ہو۔"شاہزیب نے کہا۔
"میں نے آج تک اپنے بچوں میں فرق نہیں کیا۔تم سب مجھے عزیز ہو تم سب سے میں برابر محبت کرتا ہو تم سب مجھےاپنی جان سے زیادہ پیارے ہو۔"جلال خان نےکہااور اِس وقت اُنکے لہجے میں باپ کی محبت تھی کچھ دیر پہلے والی سختی کا عنصر کہیں نہیں تھا۔
"ٹھیک ہے مان لیا آپ کے لیے آپ کے سب بچے ایک سے ہیں تو پھر ہر بار میں ہی آپکو غلط کیوں لگتا ہو ؟ہر بار ہر غلطی کی سزا مجھے کیوں؟ہر بارمیں ہی بُرا کیوں؟ہر کام سے مجھے ہی روک ٹوک کیوں شاہزیب یہ مت کرو وہ مت کرو باقی چاہے جو کچھ مرضی کرتے رہیں۔لیکن غلط ہر بار شاہزیب خان کیوں؟"شاہزیب کہتا کہتا بچوں کی طرح رو پڑا تھااور وہی نیچے بیٹھ گیا تھا۔جیسے سالوں سےدل پہ پڑا بوجھ ہٹ گیا ہو ۔
شاہزیب کو ایسے روتا دیکھ کر جلال خان کو کچھ ہوا تھا ۔وہ جلدی سے شاہزیب کے پاس نیچے بیٹھے تھے اور اُسکے گرد اپنے بازو حاٸل کیۓ تھے۔
"تم نے ہمارے بارے میں اور اپنے بھاٸیوں کے بارے میں کتنی غلط راۓ قاٸم کر رکھی ہے شاہزیب۔ہم سب تمہارے خیر خواہ ہے ہم نے ہمیشہ تمہیں اُس کام سے روکا جو غلط تھا۔اور کچھ بھی نہیں میری جان اور اگر پھر بھی تمہیں ہم قصور وار لگتے ہیں تو ٹھیک ہے ہم تم سے معافی مانگ لیتے ہیں۔"جلال خان نے کہنے کے بعد شاہزیب کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے ۔جو شاہزیب نے اُسی وقت تھام لیۓ تھے ۔
"نہیں بابا سرکار معافی تو مجھے آپ سے مانگنی چاہیۓ میں نے آپ کا دل دُکھایا ہے غصے میں نجانے آپ کو کیا کیا کہہ بیٹھا پلیز اپنے اِس بدتمیز بیٹے کو معاف کر دیں۔"شاہزیب نے جلال خان کے ہاتھ نیچے کر کے اپنے ہاتھ اُنکے سامنے جوڑ دیۓ تھے ۔
"جاٶ میں نے تمہیں معاف کیا ۔اب تم اپنا دل اپنے والدین اور بھاٸیوں کی طرف سے صاف کر لو۔"جلال خان نے شاہزیب کا کندھا تھپتھپاتے ہوۓ کہا ۔
"والدین سے کوٸ شکوہ نہیں ہے لیکن جو میرے بھاٸیوں نے میرے ساتھ کرنے کی کوشش کی ہے اُس کے لیے میں اُنہیں کبھی معاف نہیں کرو گا۔اور پلیز مجھے ابھی کوٸ نصیحت نہیں سننی۔"شاہزیب نے کہا اور اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔
"ٹھیک ہے لیکن تم اسلام آباد اگلے ہفتے ہمارے ساتھ جانا ہمیں سی اوف کرنے ۔"جلال خان نے کہا۔
"سی اوف کرنے مطلب !"شاہزیب نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"میں ،تمہاری بی بی جان اور صوفیہ اگلے ہفتے عمرہ پر جا رہیے ہیں۔" جلال خان نے شاہزیب کو بتایا۔
"اچھا !مگر آپ نے مجھے تو کچھ بتایا ہی نہیں یقیناً اپنے لاڈلے ولی کو بتایا ہوگا۔"شایزیب نے پھر گلہ کیا۔
"ارے کسی کو نہیں بتایا بلکہ ولی کو تو وہاں جا کر اسلام آباد اُس کے گھر ہم نے سرپراٸز دینا ہے۔تمہیں اِس لیے نہیں بتایا کیونکہ تم گھر پر نہیں ہوتے جو تمیں کچھ بتایا جاۓ۔"جلال خان نے شایزیب کی غلط فہمی دور کی تھی۔
"ٹھیک ہے پھر اکھٹے چلیں گے۔"شاہزیب کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
"رسی جل گٸ پر بل نہ گیا۔"جلال خان شاہزیب کے جانے کے بعد منہ میں بڑبڑاۓ تھے۔
اور پھر سے کتاب لے کر بیٹھ گۓ تھے۔
*****
"نوراں بیٹی،نوراں بیٹی۔اُٹھ جاٶ صبح کے نو بجنے کو آۓ ہیں اور آپ ابھی تک سو رہی ہیں اُٹھ جاٸیں۔"سکینہ بی نے کمرے میں آکر نوراں کو آوزیں دینا شروع کیں اور ساتھ ساتھ کھڑکی کے پردے ساٸیڈ پہ کرنے لگیں۔
نوراں نے تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھول کر کہا تھا۔
"سکینہ بی مجھے تھوڑی دیر اور سونے دیں پلیز۔"
"ارے لیکن آپ کو چھوٹے خان بُلا رہے ہیں۔"سکینہ بی نے کہا اور نوراں کا بازو پکڑ کر اُٹھانا چاہا تھا تب اُنہیں نوراں کا بازو گرم محسوس ہوا تھا ۔انہوں نے جلدی سے پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا۔نوراںکی پیشانی بھی تپ رہی تھی ۔
"ارے آپکو تو سخت بخار ہے ۔آپ لیٹے میں چھوٹے خان کو بتاتی ہو کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔"سکینہ بی نے پریشانی سے کہا۔
"نہیں سکینہ بی میں بات سُن لیتی ہوں پھر آ کر آرام کرلوں گی۔"نوراں نے سکینہ بی کو روکتے ہوۓ کہا۔پاٶں میں چپل پہن کر دوپٹہ سر پر اُوڑھ کر باہر آ گٸ ۔
"جی۔"نوراں نے ڈاٸنگ ہال میں آکر کہا ساتھ ہی سکینہ بی بھی تھیں ۔
"واہ تو بی بی جی کی صبح ہو ہی گٸ ۔"ولی نے تنظ کرتے ہوۓ کہا جس پر سکینہ بی نے کچھ بولنا چاہا مگر نوراں نے اُنکا ایک ہاتھ پکڑ کر اُنہیں خاموش کروا دیا۔
"جی آپکو کوٸ کام تھا۔"نوراں نے تحمل سے جواب دیا۔
"تمہیں بیویوں والے کام کرنے کا بہت شوق ہے نا تو سوچا آج تم سے کچھ کام کروایا جاۓ۔"ولی کرسی سے اُٹھ کر نوراں کے سامنے آ کھڑا ہو۔
"مطلب !"نوراں نے ناسمجھی سے ولی کو دیکھاتھا۔
"مطلب تھوڑا کام کیا کرو سو سو کے دیکھو آنکھوں کے پپوٹے کیسے سوجے پڑیں ہیں۔"ولی نے نوراں کی سوجی یوٸ آنکھوں کو دیکھ کر کہا تھا۔
"آپ کام کی بات بتاٸیں گے ۔"نوراں نے کہا۔
"کام کی بات یہ ہے کہ یہ بوتل جو روز تم صبح اُٹھ کر میرے جاگنگ سے آنے سے پہلے بھر کر ٹیبل پر رکھتی ہو۔ٹھیک اُسی طرح آج ہر گھنٹے کے بعد مجھے میری بوتل وہاں بھری ہوٸ چاہیۓ اور یہ تم خود کرو گی آٸ سمجھ۔"ولی نے کہہ کربوتل نوراں کے آگے کی تھی ۔جسے نوراں نے تھام لیا تھا۔
"گڈ ۔ایک کام تو ہو گیا اور آج کا دوسرا کام یہ ہے کہ تمہیں میرے کچھ کولیگز کے لیے لنچ تیارکرنا ہے تین بجے تک وہ بھی چاٸنیز۔ اوکے۔" ولی نے دوسرا کام بتایا جس پر سکینہ بی نے بولنا چاہا تھا لیکن نوراں کی وجہ سے کچھ نا بول سکیں۔
"سکینہ بی کیچن میں ایک نوٹ پیڈ رکھا ہے۔ وہ مجھے لا دیں تاکہ میں ڈیشیز کے نام اِن سے لکھوا لوں جو بنانی ہے۔"نوراں نے سکینہ بی سے کہا۔
"جی اچھا سکینہ بی نے کہا اور کیچن کی طرف چلی گٸیں۔
"تمہیں بہت شوق تھا نا بیویوں والے کام کرنے کا اب بھگتو اور ہاں اگر مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تو نتاٸج کی ذمہ دار تم خود ہو گی۔"ولی نے دبی دبی آواز میں دھمکی دی تھی۔
"اب پرواہ نہیں ہے نتاٸج کی جان سے بھی ماریں گے تو خوشی خوشی مر جاٶں گی لیکن اب زبان سے اُف تک نہیں کروں گی۔"نوراں نے کہا اور کیچن کی جانب بڑھ گٸ ۔جبکہ ولی نوراں کے اِس رویے سے پریشان ہوا تھا کیونکہ آج خلافِ توقع وہ خاموش تھی ۔نہ کوٸ بحث کی تھی نہ کوٸ لڑاٸ نہ کوٸ جھگڑا ۔آج اُسکی طبیعت میں ولی کو عجیب سا ٹھراٶ محسوس ہوا تھا ۔کچھ تھا جو ولی کو سمجھ نہیں آیا تھا یا شایداُس نے سمجھنا ہی نہیں چاہا۔
جب یقین ٹوٹتا ہے مان ٹوٹتا ہے،دل پر گویا آسمان ٹوٹتا ہے۔
خاموشی کی ضرب بڑی سخت ہوتی ہے،اندر ہی اندر انسان ٹوٹتا ہے۔
*****
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
NOTE:⬇⬇⬇
I'm over excited for next episode kuch hony ja raha h guess kary kya??sochy sochy or mujhy batay next episode INSHA ALLAH Friday ko ary es waly ko nahi next waly ko ....
And sorry for late...
or ha jnb es episode ky review zarror dejay ga ...
Mid Exams ky leay dua kar dy bhn ky achy achy ho jay...
جزاك اللهُ۔۔۔۔۔😍
VOCÊ ESTÁ LENDO
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasiaکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...