ناول :میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:١٢صوفیہ بی بی جان اور بابا سرکار کے ساتھ اُنکے کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب شاہزیب کمرے میں آیا۔
"میں اندر آ سکتا ہوں"شاہزیب نے پوچھا۔
"آ جاٶ شاہزیب۔"بی بی جان نے اجازت دی۔
"میں کام سے باہر جا رہا ہوں ولی پوچھے تو بتا دیجیۓ گا۔"شاہزیب نےاندر آ کر کہا۔
"کہاں جا رہے ہو۔"جلال خان نے پوچھا۔
"کام ہے ایک ۔"شاہزیب نے کہا اور باہر چلا گیا۔
"نجانے کیوں مجھے اِس لڑکے سے خوف آتا ۔ایسا لگتا ہے یہ ہمیں ایک دن آسمان سے زمین پر لا پھینکے گا۔"جلال خان نے پریشانی سےکہا۔
"پریشان مت ہوں سمجھدار ہے اب وہ کچھ اُلٹا سیدھا نہیں کرے گا۔"بی بی جان نے شاہزیب کی حمایت کی۔
"سمجھدار ہی تو نہیں ہے ۔"صوفیہ منہ میں بڑبڑاٸ تھی ۔
"کیا کہا تم نے۔"بی بی جان نے اُسکی بڑبڑاہٹ سُن کر کہا ۔
"بی بی جان میں کہہ رہی تھی چلیں کہیں گھومنے چلتے ہیں ۔"صوفیہ نے کہا۔
"فیصل مسجد چلیں۔"جلال خان نے کہا ۔
"اوے ہوۓ آج تو بابا سرکار بھی موڈ میں ہیں۔"صوفیہ نے اپنے باپ کو چھیڑتے ہوۓ کہا۔
"ہاں تو بھٸ میں نے فیصل مسجد جانے کا ہی تو کہا ہے۔"جلال خان نے جھٹ سے کہا ۔جس پر صوفیہ اور بی بی جان ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراٸ تھیں۔
"مجھے پتا ہے بابا سرکار آپکا اور بی بی جان کا نکاح کہاں ہوا تھا۔"صوفیہ نے کہاں اور باہر بھاگ گٸ۔
"کیا لڑکی ہے یہ باپ کو بھی نہیں چھوڑتی۔"پیچھے سے جلال خان نے ہنستے ہوۓ کہا۔
*****
ولی اپنے کمرے میں صوفےپر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ کر رہا تھا ۔جب نوراں کمرے میں داخل ہوٸ ولی کو صوفے پر بیٹھا دیکھ کر سامنے کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوٸ تھی ولی نے زرا کی زرا نظر اُس پر ڈالی تھی اور پھر اپنا کام کرنے لگا تھا ۔کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد نوراں صوفے کے قریب آٸ تھی اور ولی سے مخاطب ہوٸ۔
"اُٹھیں یہاں سے !"نوراں نے ہاتھ کے اشارے سے ولی کو اُٹھنے کا کہا۔
"کیوں؟"ولی نے حیرت سے نوراں کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
"آپ سوال بعد میں کیجیۓ گا پہلے یہاں سے اُٹھیں۔"اِس بارنوراں نے غصے سے کہا۔
"یہ میرا کمرہ ہے میں جہاں مرضی بیٹھوں تمہیں کیا تکلیف ہے۔"ولی نے کہا اور پھر لیپ ٹاپ پر جھک گیا۔
"بڑے ہی کوٸ ڈھیٹ انسان ہیں ایک بار کہی بات تو آپکو سمجھ میں ہی نہیں آتی۔اُٹھیں ورنہ یہ اُٹھا کر پھینک دوں گی۔"نوراں نے غصے سے کہاتھا۔ولی نوراں کو دیکھ کر مسکرایا تھا وہ اِس وقت بلکل بچوں کی طرح لڑ رہی تھی ۔
"اِسے لیپ ٹاپ کہتے ہیں۔"ولی نے لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
"آٸ نو مسڑ ولی ناٶ گیٹ اپ ۔"نوراں نے ہاتھ باندھتے ہوۓ کہا۔
"تمہیں انگلش آتی ہے؟"ولی نے کھڑے ہو کر کہا۔
"ہاں جی مسٹر ولی !جیسے ہر انگریزی بولنے والا انگریز نہیں ہوتا ناویسے ہی ہر غریب جاہل نہیں ہوتا۔"نوراں نے ولی کے سامنے کھڑے ہو کر کہا اور پھر صوفے پر بیٹھ گٸ۔
ولی چند لمحے نوراں کو دیکھتا رہا اور پھر پوچھا۔
"تم کس سٹینڈر تک پڑھی ہو۔"ولی نے پوچھا اور وہی نوراں کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔نوراں نے رُخ موڑ کر ولی کو دیکھا تھا اور چیخ کر کہا۔
"پاگل ہو گۓ ہیں یہاں کیوں بیٹھےہیں ؟"
ولی نے حیرت سے نوراں کو دیکھا اور پوچھا۔
"تم۔"
"یہاں مت بیٹھے یہاں میں بیٹھتی ہوں ۔"نوراں نے ولی کی بات سُنے بغیر کہا۔
ولی کو نوراں کی اِس بات کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھااوروہ حیرانگی سے نوراں کو دیکھ رہا تھا جو اپنا سر اپنے ہاتھوں میں دیۓ بیٹھی تھی۔
"ایم سوری !مجھے ایسا ریکٹ نہیں کرنا چاہۓ تھا ۔اور یہ سب اِس لیۓ کہا کہ میرے جانے بعد آپ کو یہ سب چیزیں پھینکنی نہ پڑیں کیونکہ یہ مصطفیٰ لالا کی پسند کی لی گٸیں ہیں۔"نوراں نے ویسے ہی سر جھکا کر کہا۔
ولی نے نوراں کی بات سُنی اور وہاں سے اُٹھ کر باہر آ گیاتھا کیونکہ وہ جان گیاتھا کہ نوراں نے یہ سب کیوں کیا۔ولی کو اپنی اُس حرکت پر ندامت ہوٸ تھی جو اُس نے نکاح کے بعد کی تھی ۔
"اُف نوراں اُف !سر کادرد تجھےتیری ساری تمیز ساری عقل بُھلا دیتا ہے ۔" پیچھے سے نوراں نے اپنی کنپٹیوں کو ملتے ہوۓ کیا۔
*****
شاہزیب اپنے دوست کے ساتھ کیفے میں بیٹھا تھا جب اُسے اپنے سے کچھ فاصلے پر فضہ لغاری نظر آٸ تھی وہ شاید کسی کا انتظار کر رہی تھی۔شاہزیب نے اپنے دوست سے خدا حافظ کہا اور وہاں آیا جہاں فضہ بیٹھی تھی۔
"میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ہونے والی بھابھی جی ۔"شاہزیب نے کہا۔
"پاگل ہو۔"فضہ نے شاہزیب کو دیکھ کر کہا۔
"پاگل تو آپ ہیں جو اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود کسی کی دوسری بیوی بننے پر راضی ہو گٸ ہیں۔"شاہزیب نے کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"تم ہو کون مسڑ؟"فضہ نے شاہزیب کی بات پر تپ کر کہا۔
"ارے آپ کا ہونے والا وہ ۔۔۔کیا کہتے ہیں شوہر کے بھاٸ کو انگلش میں ہاں برادر اِن لا وہ ہوں میں آپکا۔"شاہزیب نے تپانے والے انداز میں کہا۔
"تم ولی کے بھاٸ ہو؟"فضہ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ کہا۔
"ارےواہ جلدی پہچان گٸ آپ تو ۔"شاہزیب نے مسکرا کر کہا۔
"تم کیا کہہ رہے تھے دوسری بیوی۔"فضہ نے پوچھا۔
"بتاتا ہوں پہلے اچھی سی کافی پلاٸیے۔"شاہزیب نے اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پر ٹیکا کر کہا۔شاہزیب کی اِس بات پرفضہ نےہاتھ ہلا کر ویٹر کو بُلایا اور کافی آرڈر کی۔
"اب بولو۔"فضہ نے کہا۔
"آپکے تجسس سے لگ رہا ہے کہ آپکو ولی نے کچھ نہیں بتایا چلو کوٸ نہیں اپنے بھاٸ کی مشکل میں آسان کر دیتا ہوں۔"شاہزیب نے سسپینس پیدا کرتے ہوۓ کہا۔
"صاف بات کرو۔"فضہ نے چیڑ کر کہا۔
"دیکھیں مس فضہ میرا بھاٸ ولی آپ کو پسند کرتا ہے آپ سے شادی بھی کرنا چاہتا ہےجس کہ لیۓ وہ گھر بھی بات کر چُکا ہے بس اب بابا جان کی ہاں کا انتظارہے وہ بھی کچھ دنوں میں ہاں کہہ دیں گے لیکن مجھے لگتا ہے شادی ایک ایسا رشتہ ہے جس میں آپ کو ایک دوسرے کے بارے میں سب کچھ جاننا لازم ہے ۔ہو سکتا ہے ولی یہ بات آپ کو بتانا چاہ رہا ہو لیکن آپ کی بدگمانی اورناراضگی سے ڈر رہا ہو۔"شاہزیب کہہ رہاتھا کہ فضہ نے اُس کی بات کاٹی۔
"مجھے کام کی بات بتاٶ ۔"فضہ نے کہا ۔
"آرام سے بتا رہا ہوں۔آپ یہ تو جانتی ہوں گی کہ ہمارے بھاٸ مصطفیٰ کا قتل ہوا تھا اور ہمارے گاٶں کی روایات کے مطابق قتل کا بدلہ قتل ہوتا ہے یا پھر قاتل کی بیٹی کو ونی میں مانگا جاتا ہے تو ہمارے بابا جان نے بھی ونی مانگی تھی اور اور اُس ونی میں لاٸ گٸ لڑکی کا نکاح ولی سے ہوا تھا۔"شاہزیب نے کہا۔
"مطلب اُس گھر میں جو لڑکی ہے وہ ولی کی بیوی ہے۔"فضہ نے شاہزیب کی بات سُن کر کہا ۔
" جی بلکل ۔"شاہزیب نے فضہ کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا جو خطرناک حد تک سنجیدہ ہو چُکے تھے۔
******
راشد گھر والوں کے لیے شاپنگ کر رہا تھا جب اُسکی نظر کپڑوں کی دوکان پر لٹکتی ایک چادر پر پڑی تھی ۔سفید رنگ کی چادر جس کے چاروں جانب مختلف رنگ کی خوبصورت کڑھاٸ کی گٸ تھی جیسے دیکھ کر راشد کے ذہن میں فوراً نوراں کا خیال آیا تھا اور اُس نے مسکرا کر دوکان کے اندر قدم بڑھاۓ تھے ۔
"لالا یہ چادر کتنے کی ہے؟"راشد نے دوکاندار سے پوچھا۔
"اِس کی قیمت بارہ سو روپے ہے۔"دوکاندار نے کہا۔
"اتنی قیمت میں تو میری اماں پانچ چادریں بنا لیتیں ہیں۔"راشد نے حیرت سے کہا۔
"تو پھر لالا کی جان اماں سے بنوا لے نا۔"دوکاندار نے کہا۔
"لاہورسے تحفہ لے کے جانا ہے اِس لیے خرید رہا ہوں ورنہ کبھی نہ خریدتااتنی مہنگی چادر۔"راشد نے دوکاندار سے کہا۔
"تو پھر پیک کر دوں۔"دوکاندار نے پوچھا۔
"غریب کی جیب اجازت تو نہیں دیتی پر کیا کروں اب پسند آگٸ ہے تو لےلیتا ہوں۔"راشد نے کہا۔
"جی جی لےلیں۔"دوکاندار نے خوش ہو کر کہا۔
"یوں کریں دوہزار کی دودےدیں۔"راشد نے جیب سے پیسے نکال کر کہا۔
"ارے نہیں نہیں جناب یہ تو بہت کم ہیں۔" دوکاندار نے چادر ہاتھ میں پکڑ کر کہا۔
"اتنی دور سے آیاہوں یار کچھ تو خیال کرو ؟"راشد نے معصومانہ انداز میں کہا۔
"چلیں نہ آپکی نہ میری اکیس سو ڈن کریں۔"دوکان دار نے کہا۔
"اتنی بھی خاص نہیں ہے دو ہزار میں دیتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ رکھو اپنے پاس۔"راشد نے کہا اور پیسے اپنی جیب میں ڈال لیۓ ۔
"ارے خان صاحب آپ تو غصہ ہی کر گۓ چلیں دوہزار کی دو لے لیں۔"دوکاندار نے جھٹ سے کہا۔
"تو پھر سوچ کیا رہے ہو پیک کر دو۔"راشد نے مسکرا کر کہا۔
******
ولی ٹی وی لاٶنج میں بیٹھا ٹی وی پر کوٸ نیوز چینل دیکھ رہا تھا جب صوفیہ وہاں آٸ۔
"لالا تیارہو جاٸیں ہم سب فیصل مسجد چل رہیں ہیں۔"صوفیہ نے ولی کے کندھے پر چِت رسید کرتے ہوۓ کہا۔
"یار تمہارا ہاتھ ہےیا ہتھوڑا۔"ولی نے کندھے کو ملتے ہوۓ کہا۔
"یہ تو اب آپکو اندازہ ہو ہی گیا ہو کہ ہاتھ ہے یا ہتھوڑا۔اب باتیں مت بناٸیں اور اُٹھ جاٸیں ۔"صوفیہ نے کہا اور ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی بند کر دیا۔
"یار تم لوگ چلے جاٶ میرا جانا ضروری تو نہیں ہے۔"ولی نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
"توبہ میرے اللہ توبہ کس طرح کے بھاٸ ہیں آپ بہن نے سیر کروانے کاکیا کہہ دیا آپ تو اُکتا ہی گۓ ہیں۔"صوفیہ نے منہ بنا کر کہا اور ولی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گٸ۔
"میں تو بلکل نہیں اکتایا دیکھو آج دوسری چھٹی کی ہے تم لوگوں کے لیے ۔"ولی نے مسکرا کر کہا۔
"گِنوا دیں گِنوا دیں کہ ہماری وجہ سے آپ کاکتنا نقصان ہوا ہے۔"صوفیہ نے لڑنے کے انداز میں کہا۔
"میرامطلب وہ نہیں تھا۔"ولی نے جھٹ سے کہا تھا۔
"لگ گیا مجھے آپ کے مطلب کا پتا نہیں گھومانا تو صاف منع کر دیں یہ بہانے بازیاں تو مت کریں۔"صوفیہ نے غصے سے کہا اور اُٹھ کھڑی ہوٸ۔
"ارے میری بات تو سنو۔"ولی نے بھی کھڑے ہو کر کہا۔
"میرے مصطفیٰ لالا ہوتے اور میں چاند پر بھی جانے کا کہتی تو وہ خوشی خوشی چلنے کے لیے تیار ہو جاتے ۔"صوفیہ نے کہا۔
"ارے میری گڑیا اب رو مت پڑنا ۔تم جہاں جہاں کہو گی ہم وہاں وہاں گھومنے چلیں گے ۔میں ہی پاگل تھا جو ساتھ جانے سے منع کر رہا تھا۔"ولی نے صوفیہ کو مناتے ہوۓ کہا۔
"بس بس اب رہنے دیں یہ لاڈیاں۔"صوفیہ نے مصنوعی ناراضگی دیکھاتے ہوۓ کہا۔
"لالا قربان اپنی لاڈو پے۔"ولی نے صوفیہ کو گلے لگا کر کہا۔
"پہلے تنگ کرتے ہیں پھر پیار ایسے پیار کا کیا فاٸدہ۔"صوفیہ نے بچوں کی طرح روتے ہوۓ کہا۔
"تمیں نظر نہ لگے اِس لیۓ کرتا ہوں تنگ ۔"ولی نے صوفیہ کے آنسو صاف کیے اور کہا۔
"تو پھر ہم تیار ہو جاٸیں ۔"صوفیہ نے کہا ۔
"ہاں ہاں جلدی کرو جلدی ۔"
ولی کے کہتے ہی صوفیہ نے اوپر کی جانب دورڈ لگاٸ تھی ۔
******
"آپ فکر مت کریں ۔ولی کےلیے وہ بس ایک نوکرانی ہے اُس سے زیادہ کچھ نہیں۔"شاہزیب نے کہا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
"ایک ڈیل کرو گے مجھ سے۔"فضہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"میں کوٸ بزنس مین نہیں ہوں فضہ میڈیم۔"شاہزیب نے بالوں کو سیٹ کرتے ہوۓ کہا۔
"مجھے بزنس ڈیل کرنی بھی نہیں ہے مسڑ۔"
"تو؟"شاہزیب نے دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ کر پوچھا۔
"تو یہ کہ تم اُس لڑکی کو ولی کی زندگی سے نکالنے میں میری مدد کرو گے۔"فضہ نے کہا۔
"بھاٸ ہے وہ میرا میں آپ کو اُس گھر میں لانے کے لیے اُس کا پورا ساتھ دوں گا ۔"شاہزیب نے کہا اور چلا گیا۔شاہزیب کے جانے کے بعد فضہ نے غصے سے اپنا ہاتھ میز پر مارا تھا۔
"تم نے مجھے چیٹ کیا ہے ولی تم نے مجھے دوسرے آپشن پر رکھا جبکہ تم جانتے تھے کہ فضہ لغاری کو نفرت ہے آپشنز سے ۔"فضہ نے غصے سے کہا اور وہاں اُٹھ کھڑی ہوٸ۔
*****
ولی اور جلال خان کب سے گاڑی میں بیٹھے گھر کی خواتین کا انتظار کر رہے تھے۔
"اُف خدارا یہ اور کتنی دیر لگاٸیں گی ۔"ولی نے تنگ آ کر کہا۔
"ابھی پندرہ منٹ اور لگیں گے انہیں۔"جلال خان نے اپنی گھڑی پر ٹاٸم دیکھ کر کہا۔
"آپکو کیسے پتا؟"ولی نے حیرانگی سے اپنے
باپ کو دیکھ کر کہا۔
"عمر گزاری ہے بر خوردار اب تک اِن عورتوں کو اتنا تو جان ہی گیا ہوں۔لیکن تمہاری بے چینی دیکھ کر لگتا ہے تمہیں نوراں نے کبھی انتظار نہیں کروایا یا پھر تم کبھی اُسے کہیں لے کر ہی نہیں گۓ۔"جلال خان نے ولی کی طرف دیکھ کر کہا۔ولی نے اُسی وقت اپنا سر جھکا دیا تھا ۔
"بس بابا جان کام کی مصروفيات کی وجہ سے ٹاٸم ہی نہیں ملتا۔"ولی نے شرمندہ ہوتے ہوۓ کہا۔
"ولی نوراں تمہاری بیوی ہے ۔ٹھیک ہے مان لیا وہ حادثاتی طور پر تمہاری زندگی میں شامل ہوٸ ہے لیکن وہ بے قصور ہےجو ہوا اُس میں نوراں کی کوٸ غلطی نہیں ہے۔کسی کے کیۓ کی سزا اُس معصوم کو مت دینا ولی۔اور میں اُمید کرتا ہوں کہ تم میرےکہۓ کا مان رکھو گے۔"جلال خان نے نرم لہجے میں ولی سے کہا۔
"بے فکر ہو جاٸیں بابا سرکار میں آپ کی اُمیدوں پر پورا اُترنے کی کوشش کروں گا۔لیکن مجھے بھی آپ سے کچھ چاہیۓ۔"ولی نے کہا تھا۔
"اِس بارے میں مجھے بھی بات کرنی ہے لیکن ابھی نہیں۔ابھی تو تم ہارن دو تاکہ محترماٸیں باہر آ جاٸیں۔"جلال خان نے کہا۔
*****
زوبیا اپنے کمرے میں لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔جب اُسکا فون بجنا شروع ہوا۔زوبیا نے ہاتھ بڑھا کر پاس پڑا فون اُٹھایا تھا جس پر اسفی کالنگ جگمگا رہا تھا۔زوبیا نے اٹینڈ کیا اور فون کان سے لگا لیا۔
"ہیلو پارٹنر !"اسفی کی آواز آٸ ۔لیکن زوبیا کچھ نہ بولی ۔
"زندہ ہو!"اسفی نے کہا۔اس بار بھی زوبیا خاموش رہی تھی۔
"اوووو ناراض ہو۔"اسفی نے کچھ دیر انتظار کے بعد کہا۔
"نہیں ہونا چاہیۓ کیا؟"زوبیا نے کہا۔
"ہوناچاہیۓ بلکل ہونا چاہیۓ لیکن ناراض ہونے کی کوٸ وجہ بھی تو ہونی چاہیۓ ۔"اسفی نے کہا۔
"تم لوگوں جیسے بے وفادوست ہوں تو ناراض ہونے کے لیے وجہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔"زوبیا نے اُٹھتے ہوۓ کہا۔
"مطلب میرے علاوہ اور کس نے بے وفاٸ کی۔"اسفی نے پوچھا۔
"وہ ہے نا تمہاری محبوبہ قسم سے دونوں ایک جیسے ہو ۔جب سے یہاں آٸ ہوں دونوں میں سے کسی نے بھی فون نہیں کیا مجھے۔"زوبیا نے ناراضگی سے کہا۔
"ہاۓ قسم لے لو بجو میں بلکل بے وفا نہیں ہوں میرا تو فون خراب ہو گیا تھا اِس لیۓ فون نہیں کیا ۔آج بھی شاید نہ کرتا اگر ضروری نہ ہوتا تو۔"اسفی نے کہا۔
"خیریت ہے؟"زوبیا نے پریشان ہو کر پوچھا۔
"وہ صوفیہ لوگ عمرہ پر جارہیں ہیں نا۔"اِس سے پہلے اسفی کچھ بولتا زوبیا نے بیچ میں اُسکی بات کاٹی اور بولنے لگی۔
"بس یہی تمہاری ضروری بات تھی۔"
"پوری بات تو سُن لو بجو یار وہ جا رہے ہیں عمرہ پر اور احمد انکل نے ماما کو فون کیا ہے کہ آپکا رشتہ تلاش کریں تاکہ وہ جلد از جلد آپکی شادی کر سکیں۔"اسفی نے کہا۔
"تو عالیہ انٹی نے کیا کہا؟"زوبیا نے پوچھا۔
"وہ تو جیسے انتظار میں تھی احمد انکل کے فون کے جھٹ سے تین چار رشتے بتا دیں۔"اسفی نے کہا۔
"ٹھیک ہے اسفی میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔"زوبیا نے کہا اور فون کاٹ دیا۔
"یا اللہ ابھی یہ سب نہیں ابھی تو پہلا گھاٶ نہیں بھرا ۔ابھی تو میں مصطفیٰ کو ہی دل سے نہیں نکال سکی ۔ابھی نہیں میرے مالک ابھی نہیں۔"زوبیا نے کہا اور سر اپنے گھٹنوں میں دے دیا۔
******
شام کے ساۓ اسلام آباد پر چھا چکے تھے ۔جلال خان اور ولی مغرب کی نماز ادا کر کے مسجد سے باہر آۓ تھے جہاں نوراں اور باقی سب پہلے سے موجود تھے ۔
"ہاۓ بہت مزا آیا آج شکریہ لالا ہمارے ساتھ آنے کا ۔"صوفیہ نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔
"بس بس ڈرامہ کمپنی بس۔"ولی نے صوفیہ کے سر پر چِت رسید کرتے ہوۓ کہا۔
"چلو بھٸ گھر چلیں ۔میں تو تھک گٸ ہوں۔"بی بی جان نے تھکے ہوۓ انداز میں کہا۔
"آپ لوگ آٸیں آرام سے میں چل کر گاڑی نکالتا ہوں۔"ولی نے کہااور آگے بڑھ گیا۔
"ارے لالا رُکیں ۔"صوفیہ نے ولی کو آواز دے کر روکا۔
"اب کیا ہو؟"ولی نے پلٹتے ہوۓ پوچھا۔
"وہ شاہزیب لالا کا فون آیا تھا وہ بھی آ رہےہیں یہاں پھر اکھٹے چلتے ہیں ۔"صوفیہ کہہ رہی تھی تبھی ولی کا فون بجنا شروع ہو گیا۔ولی نے اپنی قمیض کی جیب سے فون نکلا تھا ۔فضہ کالنگ لکھا آ رہا تھا ۔ولی نے اپنے سامنے کھڑی صوفیہ کودیکھا جو اُسی کی طرف دیکھ رہی تھی اِس لیے ولی نے تھوڑا آگے جا کر فون اٹینڈ کیا تھا۔
*****
شاہزیب نے گاڑی پارک کر کے مسجد کی طرف قدم بڑھاۓ تھے ۔لیکن کچھ ہی قدموں کے بعد وہ رُک گیا تھا۔کہیں سے آواز آٸ تھی کہ "خدا کے گھر کس منہ سے جاٶ گے اے بشرِ بد دماغ ۔"شاہزیب نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا جہاں ایک فقیر ہاتھ میں کٹورا تھامےکھڑا تھا۔چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں چمک تھی۔تن پر پیوند لگا سوٹ تھا اور بکھرے بال تھے لیکن لبوں پر سچاٸ تھی ۔
"یہ جو ابھی تم نے کہا زرا پھر سے کہو۔"شاہزیب نے فقیر سے کہا۔
"خدا کے گھر کس منہ سے جاٶ گے اے بشرِ بد دماغ۔"فقیر نے شاہزیب کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنا جملہ پھر سے دہرایا۔
"صاف صاف کہو کہنا کیا چاہتے ہو؟"شاہزیب نے پیشانی پر بل ڈال کر فقیر سے کہا۔
"تم تو میرے ایک جملے سے ڈر گۓ ۔تم کیا سمجھتے ہو کہ کوٸ کچھ نہیں جانتا وہ۔۔۔وہ وہاں سے سب دیکھ رہا ہے جو تم بھرے مجمے میں کرتے ہو وہ بھی اور جو تم تنہاٸ میں کرتے ہو وہ بھی وہ سب سے باخبر ہے وہ سب کی خبر رکھتا ہے اور ایک دن دیکھنا وہ ظالم کو ایسی عبرت ناک سزا دے گا کہ لوگوں کی روح کانپ جاۓ گی ۔"فقیر نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا کر کہا ۔ فقیر کی آواز شاہزیب کو گونجتی ہوٸ محسوس ہوٸ تھی اُسے ہرطرف سے بس ایک ہی آواز سُناٸ دے رہی تھی کہ "وہ ظالم کو عبرت ناک سزا دے گا "۔شاہزیب وہیں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔
"تمہیں وہ اِسی دنیا میں اپنے پیاروں کی اذیتوں کی سزا دے گا وہ رب ہے وہ مظلوم کو اُس کا حق دیتا ہے اور ظالم کو سزا دیتا ہے۔"فقیر نے شاہزیب کی طرف رُخ کر کے اُونچی آواز میں کہااور مسکراتا ہوا اپنی منزل کی جانب چل پڑا۔
******
"شاہزیب لالا کا فون تھا وہ آ گۓ ہیں اور وہ کہہ رہیں کہ چلنا ہے تو پارکنگ کی طرف آ جاٶ وہ وہی سے ہمیں پِک کر لیں گے۔"صوفیہ نے فون کو پرس میں ڈالتے ہوۓ کہا۔
"ٹھیک ہے پھر ہم سب چلتے ہیں ۔نوراں تم ولی کے ساتھ آ جانا۔"جلال خان نے کہا۔
"ارے بابا سرکار اکھٹے چلتے ہیں ولی بس آتے ہی ہوں گے۔"نوراں نے جلال خان کو روکتے ہوۓ کہا۔
"ارے اُس کافون پتہ نہیں کب بند ہوگا ۔تم آرام سے آ جانا ولی کے ساتھ ہم چلتے ہیں۔"جلال خان نے نوراں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
"ٹھیک ہے بابا سرکار۔"نوراں نے مسکرا کر کہا تھا اور پھر سب باہر کی جانب بڑھ گۓ تھے ۔
سب کے جانے کے بعد نوراں کی نظر وہاں بیٹھے پانچ سالہ بچے پر پڑی تھی جواپنے جوتوں کے تسمے باندھنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔نوراں نے آگے بڑھ کر اُسے کہا ۔
"میں باندھ دوں۔"
بچے نے زرا کی زرا نظر اُٹھا کر اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تھا ۔
"یس پلیز۔"بچے نے کہا۔نوراں مسکراتی ہوٸ بچے کے پاس بیٹھ گٸ اور تسمے باندھنے لگی۔"آپکی مما کہاں ہیں۔" نوراں نے پوچھا۔
"وہ رہیں۔"بچے نے اپنےہاتھ کی انگلی سے اشارہ کر کےبتایا۔نوراں نے بچے کے ہاتھ کے اشارے کی طرف دیکھا جہاں سے ایک عورت ایک پانچ سالہ بچے کو گود میں اُٹھاکر اُنہی کی طرف آتی ہوٸ دیکھاٸ دی تھی۔
"لو جی آپکی مما بھی آ گٸ اور آپ کے لیسس بھی بند ہوگۓ۔"نوراں نے کھڑے ہو کر کہا تھا نوراں کے کھڑے ہوتے ہی وہ بچہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔تبھی اُس بچے کی ماں ہانپتی ہوٸ وہاں پہنچی تھی۔
"عاقب لیسس بندھ گۓ۔"عورت نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔
"یس مما انہوں نے میری ہیلپ کردی تھی۔"عاقب نے نوراں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
"تو پھر آپ نے انہیں تھینکس بولا۔"عاقب کی مما نے عاقب سے کہا۔
"تھینکس آنٹی۔"عاقب نے کہا۔
"یو آر ویلکم۔"نوراں نے عاقب کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔تبھی عاقب کی مما نے گود میں سے عاقب کے بھاٸ ثاقب کو نیچے اُتارا اور نوراں کا شکریہ ادا کیا۔
"آپ کا شکریہ۔"عاقب کی ماں نے کہا۔
"ارےکوٸ بات نہیں۔ماشاءاللہ دونوں بہت خوبصورت ہیں ہو باہو ایک جیسے ہیں۔"نوراں نے دونوں بچوں کو دیکھ کر کہا جو بلکل ایک جیسے تھے گولو مولو سے۔
"بہت شکریہ۔لیکن یہ صرف دیکھنے میں ایک جیسے ہیں ۔ورنہ ایک تو شریف اور معصوم اور دوسرا آفت کا پرکالا بھگا بھگا کہ آج تو دم نکال دیا میرا۔"عاقب کی مما نے کہا۔
"ابھی دم کہاں نکلا ہے مما۔"ثاقب نے لولی پاپ کھاتے ہوۓ کہا۔ثاقب کی اِس بات پر نوراں نے قہقہ لگایا تھا اور ساتھ ہی اُسکے گال بھی کھینچے تھے۔
*****
"ہیلو !"ولی نے فون اٹینڈ کرکے کہا۔
"کہاں ہو؟"فضہ نے جھٹ سے پوچھا ۔
"فیملی کے ساتھ باہر آیا ہوں۔خیریت ہے؟"
"مجھے تم سے ملنا ہے؟"فضہ نے کہا۔
" بابا سرکار کی کل دوپہر کی فلاٸٹ ہے ۔تو کل شام کو ملتے ہیں جہاں تم کہو۔"ولی نے کہا۔
"ٹھیک ہے کل شام کو تمہارے گھرپر ملاقات ہو گی۔"فضہ نےکہا۔
"گھر پر کیوں؟ کہیں باہر ملتے ہیں نا۔"ولی نے کہا۔
"مجھے تمہارا گھر پسند آیا ہے ۔وہاں ملیں گے بیٹھیں گے کافی پیٸں گے۔"فضہ نے کہا۔
"ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔"ولی نے کہا۔
"اوکے سی یوسون۔"فضہ نے کہا اور فون بند کر دیا۔ولی فون بند کر کے کچھ دیر وہی کھڑا کچھ سوچتا رہا اور پھر واپس پلٹا تھا ۔ولی نے اُس جگہ دیکھا جہاں وہ سب کو چھوڑ کر گیا تھا۔لیکن وہاں کوٸ نہیں تھا ولی نے اِدھر اُدھر نظریں گھوماٸ تھیں تبھی اُس کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑی نوراں پر پڑی تھی۔کالے رنگ کےسوٹ پر کالا ہی دوپٹا سر پر لیۓ اور اپنے باپ کی دی ہوٸ چادر کو اپنے گرد لپیٹے وہ بچوں سے بات کرتی ہوٸ مسکرا رہی تھی ۔ولی نے محویت سے نوراں کو دیکھا تھا تبھی نوراں کی نظر اپنے طرف دیکھتے ہوۓ ولی پر پڑی ولی بھی کالے رنگ کی شلوار قمیض زیب تن کیۓ ہوۓ تھا اور بلاشبہ وہ پرکشش مرد نظر آ رہا تھا۔
رات توکالی تھی ہی تھی
میرا چاند بھی کالے جوڑے میں تھا
نوراں نے دیکھا اور عورت سے اجازت لے کر ولی کی طرف آٸ تھی۔نوراں نےولی کے پاس پہنچ کر ولی کو پکارا تھا۔
"چلیں ۔"نوراں کی آوازپر ولی کی محویت ختم ہوٸ تھی۔
"باقی سب؟"ولی نے پوچھا۔
"وہ شاہزیب لالا کے ساتھ چلے گۓ ۔"نوراں نے بتایا۔
"تو تم بھی اُن کے ساتھ چلی جاتی۔"ولی نے کہا۔
"میں بابا جان کے کہنے پر رُکی ہوں۔"نوراں نے دوٹوک کہا ۔
"چلو۔"ولی نے کہا اور آگے بڑھ گیااور نوراں بھی اُس کے پیچھے ہو لی۔
گاڑی کے پاس پہنچ کر ولی نے پہلے نوراں کے لیے آگے کا دروازہ کھولا ۔ولی کی اِس حرکت پر نوراں نے نظریں اُٹھا کر ولی کو دیکھاتھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو بیٹھو ڈراٸیور نہیں ہوں تمہارا۔"ولی نے وضاحت کی تھی۔نوراں کچھ نہ بولی اور گاڑی میں بیٹھ گٸ۔ولی نے دروازہ بند کیا اور اپنے والی ساٸیڈ پر بیٹھا اور گاڑی بھاگا لی۔
******
"ولی سے بات کی آپ نے؟"بی بی جان نے جلال خان سے پوچھا۔
"کیا بات کروں میں اُس سے مجھے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا۔"جلال خان نے پریشانی سے کہا۔
"بات کر کےتو دیکھے ہو سکتا ہے وہ اب اُس لڑکی سے شادی نہ کرنا چاہتا ہو۔"بی بی جان نے کہا۔
"اُس نے مجھے کہا ہے کہ وہ میری باتوں کا مان رکھے گا لیکن اُس کے بدلے اُسے بھی مجھ سے کچھ چاہیے اور یہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہم سے کیا مطالبہ کرے گا۔"جلال خان نے کہا۔
"تو کیا آپ اجازت دے دیں گے اُسے؟"بی بی جان نے پوچھا۔
"تم خود سوچو صوفیہ کی ماں وہ لڑکی جو اُس دن ہم نے دیکھی ہے کیا وہ ہمارے خاندان کے لاٸق ہے۔اور میں ولی کو اجازت دے کر نوراں کو کیا منہ دیکھاٶں گا۔مانا کہ نوراں ونی میں لاٸ گٸ ہے لیکن ہے تو وہ بھی ایک بیٹی ہی جیسے ہمارے لیے ہماری صوفیہ ہے۔ میں کس طرح اُس کا سامنا کروں گا جبکہ میں نے اُس سے وعدہ کیا تھا کہ میں ہرطرح کے حالات میں اُس کے ساتھ ہوں اور ایک باپ بن کر اُس کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔"جلال خان نے افسوس زدہ لہجے میں کہا۔
"لیکن آپ جانتے ہیں ولی کس قدر ضدی ہے اگر وہ فضہ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ ضرور ایسا کرے گااور پھر ہو سکتا ہے اِس کے لیے وہ ہم سب کو چھوڑ دے ۔"بی بی جان نے پریشانی سے کہا۔
"فکر مت کرو میں کرتا ہوں بات ولی سے ہو سکتا ہے وہ مان جاۓ۔"جلال خان نے کہا ۔
*****
گاڑی اشارے پر رُکی ہی تھی کہ ایک دس بارہ سال کا لڑکا ہاتھوں میں گلاب اور چنمبیلی کے گجرے لیۓ ولی والی ساٸیڈ پر آ کھڑا ہوا اور شیشہ نیچے کرنے کا اشارہ کیا۔ولی نے کچھ سوچ کر شیشہ نیچے کیا۔
"سلام بھاٸ ۔"بچے نے مودبانہ انداز میں کہا۔
"وسلام ۔" ولی نے کہا ۔
"بھاٸ دو گجرے رہ گۓ ہیں لے لوباجی کے لیے ۔"بچے نے تیزی سے کہا۔ولی کو بچہ جلدی میں لگا تھا۔
"خیریت ہے بہت جلدی میں ہو۔"ولی نے پوچھا۔
"جی بھاٸ خیریت ہے وہ مجھے پڑھنے جانا ہے ۔دیر سے گیا تو استاد ناراض ہونگے۔" بچے نے کہا۔
"اِس وقت ؟"ولی نے حیرانگی سے پوچھا۔
"ہم محنت کش لوگ ہیں بھاٸ دن میں کماتے ہیں اور رات کو پڑھتے ہیں ۔"بچے نے کہا۔بچے کی بات سُن کر ولی مسکرایا تھا اور اپنے ولیٹ سے پیسے نکال کر بچے کو دیۓ تھے اور اُس کے ہاتھ سے گجرے لیۓ تھے ۔
"بھاٸ یہ بہت زیادہ ہیں میرے گجروں کی قیمت اتنی نہیں ہے۔"بچے نے ہزار کا نوٹ دیکھ کر کہا ۔
"باقی بھی تمہارے ہیں۔"ولی نے کہا۔
"ارے نہیں بھاٸ میں صرف محنت کے پیسے لیتا ہوں بس آپ یہ رکھ لیں اور صرف سو روپے دیں دے۔"بچے نے کہا۔
"ارے لیکن۔"ولی کچھ بولنے لگا تھا کہ نوراں جو کب سے خاموش بیٹھی دونوں کی باتیں سُن رہی تھی اُس نے ولی کی بات بیچ میں کاٹ کر بولنا شروع کیا۔
"گھبراٶ نہیں یہ کوٸ صدقہ ،خیرات نہیں ہے ۔یہ پیسے بھاٸ کی طر ف سے تحفہ ہیں تم اِسے رکھ لو۔"نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"تحفہ ہے تو رکھ لیتا ہوں ۔لیکن ایک منٹ رُکے زرا ۔"بچے نے اشارہ کھُلتا دیکھ کر جلدی سے کہا اور اپنے بازوں میں لٹکے شاپر سے کچھ ڈھونڈھنے لگا ۔ولی اور نوراں دونوں اُسی کو دیکھ رہے تھے۔
"مل گیا۔تحفہ کا بدلہ تحفہ ہوتا ہے تو یہ آپ کے لیۓ باجی۔"بچے نےایک گلاب نوراں کی طرف بڑھایا جو پلاسٹک پیپر میں پیک تھا ۔
"بہت شکریہ ۔" نوراں نے گلاب پکڑ کر کہا۔
"خوش رہیں اور اب جاٸیں کیونکہ میں بھی چلا۔"بچے نے کہا اور بھاگ گیا۔بچے کی یہ حرکت دیکھ کر نوراں اور ولی دونوں مسکراۓ تھے۔ولی نے گاڑی آگے بڑھاٸ اور اپنی گود میں رکھے گجرے اُٹھا کر نوراں کی جانب بڑھاۓ تھے ۔نوراں نے بغیر کچھ کہے وہ گجرے ولی کےہاتھ سے لیۓ تھے اور سامنے ڈیش بورڈ پر رکھ دیۓ تھے ۔جبکہ بچے کا دیا ہوا گلاب اُسکے ہاتھ میں ہی تھا۔نوراں کی یہ حرکت ولی نے بغور دیکھی تھی ۔نجانے کیوں وہ انتظار میں تھا کہ نوراں انہیں رکھے گی اپنے پاس اور مجھ سے بحث کرے گی۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
"تم کم بولنے لگی ہو ۔پہلے تو بہت بولتی تھی بلکہ لڑتی۔"ولی نے نوراں کو خاموش دیکھ کر کہا۔
"پہلے بولنا اچھا لگتا تھا اور اب خاموش رہنا اچھا لگتا ہے ۔"نوراں نے سامنے دیکھتے ہوۓ کہا۔
"اب ایسا کیا ہو گیا ہے۔"ولی نے پوچھا۔
"نوراں نے رُخ موڑ کر ولی کی طرف دیکھا تھا۔ولی نے بھی اُسی وقت نوراں کی طرف دیکھا تھا۔نوراں کی آنکھوں میں ولی کو شکوہ محسوس ہوا تھا جیسے کہہ رہی ہو"جیسے آپ جانتے ہی نہیں کہ اب کیا ہوا ہے۔"نوراں نے اُسی وقت نظریں ہٹاٸیں تھی اور سامنےدیکھنے لگی تھی ولی نے بھی نظریں پھیری اور سامنے دیکھنے لگا۔اُس کے بعد دونوں نے ایک دوسرے سے نہ کوٸ سوال کیا اور نہ ہی کوٸ بات کی۔
******
زوبیا ڈاٸنگ ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی اور ہر چيز پٹخ پٹخ کر ٹیبل پر رکھ رہی تھی احمد صاحب نے اُس کی یہ حرکت نوٹ کی تھی اور وہ جان گۓ تھے کہ زوبیا اُن سے کسی بات پر ناراض ہے۔کھانا لگا کر زوبیا بھی کرسی گھسیٹتی ہوٸ احمد صاحب کے پاس بیٹھ گٸ ۔اور کھانا کھانے لگی۔
"ناراضگی کی وجہ بتا کر ناراض ہونا چاہیۓ ۔کیونکہ ایسے آپ تو ناراض ہوجاتے ہیں اور سامنے والا آپکو منا بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ آپکی ناراضگی کی وجہ نہیں جانتا ۔"احمد صاحب نے کھانا اپنی پلیٹ میں نکالتے ہوۓ کہا۔
"اسفی کا فون آیا تھا۔"زوبیا نے کھانا کھاتے ہوۓ کہا۔
"صحیح صحیح اب مجھے ناراضگی کی وجہ سمجھ میں آگٸ ہے اب آپ ناراض ہو سکتی ہیں۔"احمد صاحب نےتسلی سے کہا۔
"ناراض نہیں ہوں لیکن جو آپ کر رہے ہیں وہ ابھی صحیح نہیں ہے۔"زوبیا نے احمد صاحب کی طرف دیکھ کر کہا۔
"زوبیا میں بوڑھا ہو چُکا ہوں بیٹا اِس لیۓ ہر باپ کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میں اپنی بیٹی کو اپنے گھر خوش دیکھوں۔"احمد صاحب نے کہا۔
"لیکن بابا۔"
"اور زوبیا یہ کوٸ جلدی نہیں ہے ہر کام کرنے میں وقت لگتا اِس لیے تم ابھی سے پریشان ہونا چھوڑ دو۔"احمد صاحب نے زوبیا کا گال تھپک کر کہا۔
"جی بابا۔"زوبیا نے کہا ۔
"اب منہ لٹکا کر مت بیٹھو ورنہ مجھ سے بھی نہیں کھایا جاۓ گا۔"احمد صاحب نے مسکرا کر کہا۔جس پر زوبیا بھی مسکراٸ تھی اور کھانا کھانے لگی تھی۔
*****
شاہزیب لان میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا جب ولی کی گاڑی گھر کے پورچ میں رُکی۔نوراں اپنی ساٸیڈ کا دروازہ کھول کر باہر آٸ تھی ایک ہاتھ میں بچے کا دیا ہوا گلاب تھا اور ایک ہاتھ میں ولی کے دیۓ ہوۓ گجرے نوراں کی نظر زرا کی زرا شاہزیب خان پر گٸ تھی جو اُسے ہی دیکھ رہاتھا اور پھر اندر بڑھ گٸ ۔ولی نے بھی قدم اندر کی جانب بڑھاۓ تھے کہ شاہزیب کی آواز پر رُکا۔
"ولی ۔"شاہزیب نے آواز دی۔ولی نے مڑ کر دیکھااور لان کی جانب بڑھ گیا۔
"ہاں جی لالا۔"ولی نے کہا۔
"بیٹھو تم سے بات کرنی ہے۔"شاہزیب نے ولی کو ہاتھ کے اشارے سے سامنے بیٹھنے کا کہا۔
"جی بولیں کیا بات ہے؟"ولی نے بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"مجھے پراپرٹی پیپرز چاہیٸں جو مصطفیٰ نے بنواۓ تھے۔"شاہزیب نے کہا۔
"میرے پاس تو کوٸ پراپرٹی پیپرز نہیں ہیں۔"ولی نے نا سمجھی سے کہا۔
"جانتا ہوں کہ پیپر تمہارے پاس نہیں ہیں ۔لیکن مجھے وہ لینے میں تمہاری مدد چاہیۓ۔"شاہزیب خان نے کہا۔
"کس قسم کی مدد۔"ولی نے پوچھا۔
"وہ پیپرز مصطفیٰ کے وکیل کے پاس ہیں۔اور وہ وکیل پیپرز مجھے تب تک نہیں دے گا جب تک تم یا بابا سرکار اُس سے نہیں کہو گے۔"شاہزیب نے تفصیل سے بتایا۔
"تو لالا اِس کے لیے آپ کو میرے پاس نہیں بلکہ بابا سرکار کے پاس جانا چاہیۓ تھا ۔"ولی نے کہا۔
"وہ مجھ سے سو طرح کے سوال کریں گے اِس لیے نہیں گیا۔"شاہزیب نے کہا۔
"سوال تو میرے زہن میں بھی ہیں۔"ولی نے کھڑے ہو کر کہا۔
"تمہیں جواب دینے کا پا بند نہیں ہوں میں۔"شاہزیب نے کہا۔
"تو پھر میں بھی بابا کی اجازت کے بغیر وکیل کو پیپرز آپکو دینے کو نہیں کہوں گا۔"ولی نے کہا اور اندر کی جانب قدم بڑھاۓ تھے۔
"ٹھیک ہے مت کہو لیکن رُکو مجھے تم سے ایک اور بھی بات ہے اور مجھے لگتا ہے یہ بات تمہارے علم میں ہونی چاہیۓ۔"شاہزیب نے بیٹھے ہوۓ ہی کہا۔
"کیا بات ؟"ولی نے پلٹ کر پوچھا۔
"بات تمہارےسے جڑے لوگوں کے متعلق ہے تو تھوڑا تحمل سے سننا۔"شاہزیب نے ولی کے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔
"صاف صاف کہیں لالا۔"ولی نے کہا۔
"صاف صاف یہ میرے بھاٸ کہ جس پر تم محبت لُٹاتے پھر رہے ہونا وہ تمہاری محبت کے قابل نہیں ہے۔"شاہزیب نے ولی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"کس کی بات کر رہے ہیں؟"ولی نے پیشانی پر بل ڈال کر پوچھا۔
"تمہاری بیوی کی اور کس کی۔"شاہزیب نے کہا۔
"آپ کو کوٸ غلط فہمی ہوٸ ہےکہ مجھے اُس سے محبت ہے۔"ولی نے کہا۔
"محبت تو تمہیں ہیں وہ الگ بات ہے تم اِس بات کو فراموش کیۓ ہوۓ ہو۔لیکن یاد رکھنا تمہاری بیوی کے گاٶں میں بہت سے عاشق ہیں جو اِسی انتظار میں ہیں کہ کب تم اُسے چھوڑو اور وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اُسے تھام لیں ۔جن میں اُسکے چچازاد کا نام پہلے نمبر پر ہے۔"شاہزیب نے ولی کے گرد چکر کاٹتےہوۓ کہا۔شاہزیب کی بات سُن کر ولی کی دماغ کی رگیں تن گٸ تھیں ۔
"لالا۔"ولی نے اپنے غصےکوقابو میں کرتے ہوۓ کہا۔
"سچ کڑوا لگتا ہے جانتا ہوں لیکن یہی حقیقت ہے ۔اور تم اِس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہو کہ وہ ہمارے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہے اورکچھ نہیں۔"شاہزیب نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
"اور ایک لفظ نہیں سُننا مجھے ۔"ولی نے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔
"نوراں ولد بشیر احمد آج سے تمہاری اذیت شروع۔تمہارے تھپڑ کا لمس آج بھی میرے چہرے کو جھلسا رہا ہے اِسےتب تک راحت نہیں ملے گی جب تک میں تمہارے چہرے کو بھی جھلسا نا دوں۔"شاہزیب نے نفرت سے کہا اور واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔
******
نوراں اندر آٸ اور سب سے پہلے اُس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے گجرے دروازے کے پاس رکھے کنسول پر رکھے اور پھر اُس کمرے میں چلی گٸ جہاں وہ باباسرکار کے آنے سے پہلے رہتی تھی ۔وہاں جا کر اُس نے اُس بچے کے دیۓ ہوۓ گلاب کو اپنی الماری میں رکھا اور باہر آگٸ۔
"آگۓ تم لوگ۔"جلال خان نے نوراں کو دیکھ کر کہا۔
"جی بابا سرکار ۔"نوراں نے جواب دیا۔
"ولی اُپر ہے؟"جلال خان نے پوچھا۔
"پتا نہیں بابا اُوپر ہیں یا باہرلان میں ۔"نوراں نے کہا۔
"چلو ٹھیک ہے میں تمہارے کمرے میں جا رہا ہو اگر ولی باہر ہو تو میرے پاس بھیج دینا اور ہم دنوں کے لیے اچھی سے چاۓ بنا کر دے جانا۔"جلال خان نے کہا۔
"آپ کھانا نہیں کھاٸیں گے ؟"نوراں نے پوچھا ۔
"نہیں ۔"جلال خان نے کہا اور سیڑیاں چڑھنے لگے ۔اور نوراں نے اپنا رُخ لان کی جانب کیا۔
نوراں باہر لان میں آٸ تھی جب ولی شدید غصے میں اُسے اندر آتے ہوۓ نظر آیا۔ولی نے نوراں کے پاس رُک کر اُسکی طرف دیکھا اور اندر بڑھ گیا جبکہ نوراں کو ولی کی آنکھوں میں وحشت نظر آٸ ۔نوراں نے قدم ولی کے پیچھے بڑھاۓ تھے جب شاہزیب کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔
"ابھی مت جاٸیے اپنے شوہر کے پاس بھابھی جی۔"شاہزیب نے نوراں کے پیچھے کھڑے ہو کر کہا۔
"یہ اب آپ مجھے بتاٸیں گے شاہزیب لالا کہ مجھے کب کس کے پاس جانا اور کب کس کے پاس نہیں جانا۔"نوراں پلٹتے ہوۓ کہا۔
"بلکل میں ہی بتاٶں گا کیونکہ تمہاری زندگی کی ڈور اب میرے ہاتھ میں ہے۔"شاہزیب نے جتانے والے انداز میں کہا۔
"زندگی کی ڈور صرف خدا کے ہاتھ میں شاہزیب خان تم جیسے اُوچھے لفنگوں کے ہاتھ میں نہیں۔"نوراں نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
"لیکن تمہاری زندگی میں طوفان برپا میرے ہاتھوں ہی ہوگا۔"شاہزیب نےکہا۔
"اتنی ہمت ہے مجھ میں کہ تمہارے لاۓ گۓ طوفانوں کا سامنا کر سکوں۔"نوراں نے کہا اوراندرکی جانب بڑھ گٸ۔
"تمہاری اور راشد کے عشق کی داستان میں ولی کو سُنا چُکا ہوں۔"شاہزیب نے بلند آواز سے کہا ۔شاہزیب کا کہنا تھا کہ اندر جاتی نوراں کے قدم وہی رُک گۓ تھے حیرت اور ڈر ایک ساتھ نوراں پر حاوی ہوا تھا ۔اُسے ولی کی آنکھوں کی وحشت اب سمجھ آٸ تھی ۔اُس نے شاہزیب کی بات کا کوٸ جواب نہ دیا اور اندر بڑھ گٸ۔
*****
"سکینہ بی کافی کہاں رکھی ہے۔"صوفیہ نے سکینہ بی سے پوچھتے ہوۓ کہا۔
"کافی کیوں کھانا نہیں کھاٸیں گے کیا آپ لوگ ۔"سکینہ بی نے پوچھا۔
"نہیں سکینہ بی ہم لوگوں نے شام کو کھانا کھایا تھا اِس لیے اب بھوک نہیں ہے۔"صوفیہ نے کہا۔
"اچھا ! اور خان صاحب اور بی بی جان بھی نہیں کھاٸیں گے ۔" بی بی جان تو سو گٸیں ہیں اور بابا پتا نہیں کہاں ہے آپ اُن سے پوچھ لیجیۓ گا۔"صوفیہ نے کہا ۔
"اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔کافی اُس کیبنٹ میں ہے ۔"سکینہ بی نے کیبنٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔تبھی نوراں اندر آٸ تھی۔
"آٶ نوراں آٶ ۔۔۔ کافی بنانے لگی ہوں تم پیو گی؟"صوفیہ نے نوراں کو دیکھ کر کہا۔
"نہیں یار تم پیو۔۔۔اور سکینہ بی آپ ولی اور بابا سرکار کے لیے چاۓ بنا دیں۔"نوراں نے تھکے ہوۓ انداز میں کرسی پر بیٹھ کرکہا۔
"طبیعت ٹھیک ہے نوراں تمہاری؟"صوفیہ نوراں کے چہرے کو بغور دیکھ کرکہا۔
"ہاں بس تھوڑا سا سر میں دردہے۔"نوراں نےکہا۔
"توتم جاٶ آرام کرو بابا سرکار اور ولی لالا کو چاۓ میں دے دوں گی۔"صوفیہ نے کہا۔
"نہیں میں لے جاٶ گی کیونکہ دونوں اُوپر ہی ہیں ۔آرام تو تم جا کر کرو کل جانا ہے تم نے۔"نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"ارے ہاں جانے سے یاد آیا میری کچھ چیزیں پیک کرنے والی رہتیں ہیں شکریہ نوراں یاد کروانے کا اور سکینہ بی مجھے بھی چاۓ ہی بنا دیجیۓگا۔"صوفیہ نے جلدی سے کہا اور نوراں کا گال کھینچ کر باہر چلی گٸ۔
******
ولی نے زور دار آواز کے ساتھ اپنےکمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔لیکن جیسے ہی سامنے جلال خان کو بیٹھا دیکھا ولی نےاپنے آپ کو نارمل کیا اور اندر آگیا۔
"آپ یہاں بابا سرکار ! سب خیریت ہے؟"ولی نے اندر آ کر پوچھا۔
"کیا بغیر خیریت کے باپ اپنے بیٹے کے کمرے میں نہیں آسکتا۔"جلال خان نے کہا۔
"بلکل آ سکتے ۔۔۔جب آپ کا دل کرے آپ یہاں آ سکتے ہیں ۔"ولی نے کہا۔
"بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔"جلال خان نے صوفے پراپنے ساتھ بیٹھنے کااشارہ کیا۔
"جی کہیں بابا جان۔"ولی نے ساتھ بیٹھتے ہوۓ کہا۔جلال خان نےرُخ ولی کی طرف سے کرتے ہو کہا۔
"تم واقعی نوراں کو چھوڑ کر دوسری شادی کرنا چاہتےہو۔"جلال خان نے پوچھا۔ولی نے پہلے حیرت سے جلال خان کی طرف دیکھا اور کچھ دیر سوچنے کا بعد ہاں میں گردن ہلا دی۔
"لیکن کیوں؟"جلال خان نےسوال کیا۔
"یہ بات آپ جانتے ہیں بابا سرکار کہ اُس لڑکی کا اِس گھر سے اور مجھ سےرشتہ صرف اور صرف آپکی وجہ سے ہے۔اور بی بی جان کو میں اپنی پسند سے بہت پہلے آگاہ کر چکا تھا ۔"ولی نے آرام سے اپنی بات کہی۔
"وہ لڑکی جس کو تم پسند کرنے کا دعوا کرتے ہو کیا وہ ہماری روایات پر پورا اُترے گی ۔کیا وہ اِس قابل ہے کہ وہ نوراں کی جگہ لے سکے؟"جلال خان نے پوچھا۔
"میں نہیں جانتا کہ وہ ہماری روایات پر پورا اُترے گی یا نہیں۔میں بس یہ جانتا ہوں کہ فضہ اُس گاٶں کی لڑکی سے ہزار گناہ زیادہ بہتر ہے ۔"ولی نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
"تو تم اپنی دوسری شادی کی ضد نہیں چھوڑو گے۔"جلال خان نےولی سے پوچھا تھا۔
تبھی نوراں چاۓ لے کر دروازے تک آٸ تھی لیکن جلال خان کی آواز نےنوراں کے قدم باہر ہی روک دیۓ تھے۔
"فضہ سے شادی میری ضد نہیں ہے خواہش ہےخوشی ہے اور میں آپ سے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیۓ اجازت چاہتا ہوں۔"ولی نے کہا۔ولی کی اِس بات پر باہر کھڑی نوراں کا وجود ساکت ہو گیا تھا آنکھوں میں آنسو بھر گۓ تھے۔نہ قدم آگے بڑھانے کی طاقت رہی تھی اور نہ ہی پیچھے جانے کی۔
"بات میری اجازت سے آگے بڑھ گٸ ہے ولی خان اب تمہیں تمہاری خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی بیوی کی اجازت درکار ہے۔"جلال خان نے کھڑےہو کر کہا۔
"آپ چاہتے ہیں میں اُسکے آگے سوالی بن جاٶ؟"ولی خان نے بھی کھڑے ہو کر کہا۔باہر کھڑی نوراں میں اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ اندر جا کر چاۓ دیتی اُس نے وہی سے قدم واپس لیۓ تھے اور تیزی سے نیچے اُتر گٸ تھی۔
"میں فقط یہ کہہ رہا ہوں کہ تم اپنی محبت سے اپنی خواہش مانگ لو ۔اگر وہ دےتو ساری زندگی اُس کا احسان مت بھولانا اور اگر نہ دے تو زندگی کی دوسری ادھوری خواہشات کی طرح اِس خواہش کو بھی بھول جانا۔کیونکہ خواہشات کے بغیر جینا آسان ہے ولی مگر محبت کے بغیر جینا بہت مشکل ہے۔"جلال خان نے کہا۔
"آپ کہنا کیا چاہتےہیں؟"ولی نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"صرف اتنا کہ دل کی سُنو انّا میں آکر اِس محبت کو مت کھو بیٹھنا جو تمہاری آنکھوں میں مجھے نظر آنے لگی ہے۔"جلال خان کہہ کررُکے نہیں تھے اور کمرے سے باہر چلے گۓ تھے ۔ولی کو ان گنت سوالات کے ساتھ چھوڑ کر۔
******
نوراں نیچے کیچن میں سر جھکاۓ بیٹھی تھی آنکھیں غم کی شدت سےلال ہو چُکی تھی۔دل کی تکلیف حد سے سوا تھی ۔اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اُسے وہاں چوٹ آے گی جہاں کوٸ مرہم کام نہیں کرےگا۔لیکن وہ صبرکے اُس مقام پر تھی جہاں ایک آنسو آنکھ سے نہیں بہا۔
حسرتوں کی حسین قبروں پر پھول برساٶ وقت نازک ہے۔
*******
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
kya wali apni ankhon ma dikhti muhabat ko pehcan pay ga ya Anna ma a ky nora ko apni zindagi sy nikal da ga???
Tuky lagay next kya ho ga....
Don't forget to give feed back ....
Next epi after one week insha Allah.....
جزاك اللهُ
YOU ARE READING
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasyکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...