Episode # 1

2.2K 53 9
                                    

ناول: میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر
آنکھوں سے شروع ہو کر کہانی الفت تک جا پہنچی
جب ہم کو ہوش آیا تو بات محبت تک جا پہنچی

"ویرے بس ایک دفعہ چلانے دے نا پھر پکا نہیں کہوں گی ۔"نوراں کب سےراشد سے ٹریکٹر چلانے کی ضد کر رہی تھی۔
"نہ نوراں چاچا بشير کو پتا چلا تو بہت غصہ کرے گا۔"راشد نے نوراں کو سمجھانے کی کوشش کی جب کہ وہ جانتا تھا یہ بےسود ہے۔
"خیر تمہارے چاچا بشير کو تو میں دیکھ لو گی ہر بات پہ پابندی لگا رکھی ہے ۔"نوراں نے رُخ دوسری طرف کر کے کہا اور چل پڑی۔
"ارے او نوراں کہا چلی دیکھ میں نے تو منع نہیں کیا نہ وہ تو بشیر چچا سے ڈر لگتا ہے۔" راشد نے اپنی صفائی دی۔
نوراں نے راشد کی بات نظر انداز کی اور چلتی رہی ۔کیونکہ نوراں کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔
"اُوف راشد تو نے ناراض کردیا ہے اب کیا ہو گا نوراں کو منانا کون سا آسان کام ہے۔" راشد نے خود کلامی کی اور نوراں کے پیچھے بھاگا۔
"نوراں میری بات تو سن لے۔"راشد نے پیچھے سے آواز لگاٸ۔
"مجھے منع کیا تم نے ویرے اب دیکھو میں کرتی کیا ہوں ۔"نوراں نے خود کلامی کی اور تھوڑا آگے ایک پانی والے نالے کے پاس رُک گٸ۔
"نوراں ! "راشد نے پکارا ۔
ہاں اب کیا ہے اب جا تو رہی ہوں نہیں چلاتی ٹریکٹر ۔"نوراں نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔
"ارے نوراں ایسی بات نہیں ہے وہ تو ۔"ابھی راشد بول رہا تھا کہ نوراں نے اسکی بات بیچ میں کاٹی۔
"ہاں ہاں کہہ دو میں کھیت میں جب ٹریکٹر چلاتی ہو تو سارا ہل خراب کر دیتی ہو ہنا یہی کہنا چاہتے ہو ،بس ویر جی بس دیکھ لیا آج میں نے بلکہ آپ نے ثابت کر دیا میں واقعی میں آپکی سگہی بہن نہیں ہوں ہن ۔"نوراں نے اپنے لہجے کو سنجيدہ رکھتے ہوۓ کہا لیکن آنکھوں میں شرارت چمک رہی تھی۔
یہ بات سچ تھی کہ نوراں جب بھی کھیتوں میں ٹریکٹر چلاتی تو راشد کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا تھا ۔اور پھر جو بشیر چچا سے ڈانٹ پڑتی سو الگ۔
"اوووے نوراں تو نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تجھے سوتیلی سمجھتا ہو ، میں نے ہمیشہ تجھے سگی بہنوں سے بڑھ کے چاہا ہے ۔"راشد نے ایموشنل ہوتے ہوۓ کہا۔
"اچھا اچھا بس اب رونے نا لگ جانا ۔"نوراں نےہنستے ہوۓ کہا۔
"اب معافی کیسے ملے گی ؟"راشد نے پوچھا۔
"ہاتھ اِدھر کرو ۔"نوراں نے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوۓ کہا۔
"کیوں وجہ!"راشد نے اپنے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے کرتے ہوۓ کہا۔
"ارے میں نے کون سا ہاتھ کاٹ کے دینے کو کہا ہے ۔"نوراں نے کہا۔
"تم سے کوٸ بیر نہیں کیا پتا کاٹ ہی لو جنگلی بلی۔" راشد نے ہاتھ آگے کرتے ہوۓ کہا۔
"اچھا جی اتنی بے اعتباری ہے تو رکھو اپنا ہاتھ اپنے پاس مجھے بھی کوٸ دوستی نہیں کرنی۔" نوراں نے راشد کا ہاتھ جھٹکتے ہوۓ کہا۔
"اچھا اچھا غصہ نا کرو یہ لو ہاتھ ،چاہے تو کاٹ لینا۔" راشد نے اپنے دونوں ہاتھ نوراں کے آگے کرتے ہوۓ کہا۔
"نہیں جی یہ قانون کے ہاتھ مجھ سے سمبھلے گے نہیں۔" نوراں نے کہا۔
"ارے کیوں نہیں سمبھالے جاۓ گے ؟"راشد نے پوچھا۔
"کیونکہ ویرے میں نے سنا ہے قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔"اور اسی کے ساتھ نوراں نے راشد کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے پیچھےجاتے پانی والے نالے میں پیھنکا۔
راشد چونکہ اس حملے کے لیے تیار نہ تھااسی لیے سیدھا پانی میں جا گرا۔
"نوراں پاگل ہو گی ہے کیا؟" راشد نے گھور کر نوراں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
"خود ہی تو پوچھا تھا معافی کیسے ملے گی دیکھوں مل گٸ معافی۔ "نوراں نے آنکھیں مٹکا مٹکا کر کہا۔
"نوراں تو کبھی نہیں سُدھر سکتی ۔"راشد نے پانی سے نکلتے ہوۓ کہا۔
"تو کس نے کہا ہے کہ مجھے سُدھارو۔" نوراں نے لاپرواہی سے کہا۔
"ہم تو ہیں ہی بیوقوف ہنا۔" راشد نے کہا۔
"میں اب کیا کہہ سکتی ہوں۔" نوراں نے منہ بناتے ہوۓ کہا اور ٹریکٹر کی طرف بھاگی۔
"ویرے کھیتوں سے باہر آپ نکالو اور پھر گاٶں تک میں ٹریکٹر چلا کر لے جاٶں گی۔ "
"کیوں مجھے مار پڑوانی ہے نوراں! "راشد نے افسوس سے کہا کیونکہ نوراں کو وہ جانتا تھا جب تک وہ ٹریکٹر چلا نہیں لیتی وہ باز نہیں آۓ گی ۔
"بس ویر جی کہہ دیا نا گاٶں تک میں لے جاٶں گی تو مطلب میں لے جاٶں گی، اب اور بہانے بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔"نوراں نے گویا فیصلہ سُنایا تھا۔
"جو حکم سرکار لیکن جیسے میں کہوں گا ویسے ہی چلاٶ گی تو ٹھیک ہے۔" راشد نے ٹریکٹر کی سیٹ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"ارے ارے ٹھیک ہے ویسا ہی کروں گی جیسا کہو گے اب چلو بھی۔" نوراں نے راشد کے پیچھے ٹریکٹر کی ایک ساٸیڈ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"ویسے ویرجی کب جا رہے ہو شہر؟" نوراں نے پوچھا۔
"بس کل شام کو شہر کے لیے نکلوں گا۔" راشد نے جواب دیا۔
"ہاۓ کتنا مزا آۓ گا نہ جب پولیس کی وردی پہن کر پولیس کی گاڑی میں بیٹھ کر میرا ویر گاٶں آۓ گا نوراں نے پُرجوش ہو کر کہا۔"
ہاں یہ تو ہے مزا تو واقعی بڑا آۓ گا راشد نے جواب دیا۔
"ویرے ایک بات میری یاد رکھنا کہ سب سے پہلے میں گاڑی میں بیٹھ کر پورے گاٶں کا چکر لگاٶں گی پھر کوٸ اور۔" نوراں نے تحکم آمیز لہجے میں کہا۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔" راشد نے مسکرا کر کہا۔
********
نوراں بشیر چچا کی اکلوتی بیٹی تھی جِسے بشیر نے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا۔بشیر اپنے گاٶں کی خان حویلی میں ایک چھوٹا سا ملازم تھا۔غریب ہونے کے باوجود کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاۓ تھے اور اپنی بیٹی کو بھی ایف-اے کروایا تھا۔ نوراں ایف-اے کے امتحان دے کر فارغ تھی اس لیے گھر پر رہ رہ کر بور ہو گٸ تھی اور اپنے باپ کے منع کرنے کے باوجود وہ گھر سے سیر کے لیے نکل گٸ تھی۔
راشد نوراں کے چچا کا بیٹا تھا جو پولیس کی ٹرینیگ کے لیے شہر جا رہا تھا ۔راشد کی دو بہنیں تھی رانیا اور صدف دونوں راشد سے چھوٹی تھی لیکن نوراں کو راشد جتنا پسند کرتا تھا ، رانیا اور صدف اُتنا نوراں کو نہ پسند کرتیں تھی۔
کیونکہ سارا گاوں نوراں کی اچھاٸ اور خوبصورتی کے گُن گاتا تھا۔ اور یہی بات صدف اور رانیا کو کھٹکتی تھی۔
*******
"ہٹ جاٶ سامنے سے اگر میں کسی سے ٹکرا گٸ۔۔۔تو نقصان کی ذمہ دار میں ہر گز نہیں ہوٶں گی۔"کہیں دور سے نوراں کے چِلانے کی آواز سناٸ دی۔
گاٶں کے چوک میں کھڑے رمضان نے نوراں کی آواز سنی اور گاٶں کی طرف بھاگا اور ساتھ ہی منادی شروع کر دی۔
"سنو گاٶں والوں سنو جس جس کو اپنی زندگی اور اپنے بال پچوں کی زندگی پیاری ہےوہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاۓ جلدی کرے جلدی۔"
"ارے او رمضان یہ کیا تماشا شروع کر دیا ہے تو نے ۔"مُنشی چچا نے رمضان کے کاندھے پر چِت رسید کرتے ہوۓ کہا۔
"ارے چچا تمہیں بھی گھر سے باہر ابھی آنا تھا ،جب موت باہر منڈلا رہی ہے چلوشاباش گھر کے اندر چلو۔"رمضان نے تو گویا حکم صادر کیا۔
"تم ہوتے کون ہو مجھے گھر جانے کا کہنے والے بتاٶ زرا ۔" مُنشی چچا نےرمضان کا کان مڑور تے ہوۓ کہا۔
"یار چچا اِسی میں بھلاٸ ہے کیونکہ ہم سب کی دادی ٹریکٹر چلاتی ہوٸ آرہی ہے۔"
ابھی رمضان کا یہ کہنا ہی تھا کہ نوراں کی آواز پھر سے آنا شروع ہوٸ۔
"مُنشی چچا ساٸیڈ لو بیچ گلی میں کھڑے ہو۔" اسکے ساتھ ہی رمضان نےمُنشی چچا کو اور خود کو ایک ساٸیڈ پر کیا اور ٹریکٹر انکے سامنے سے ایسے گزرا جیسے ٹریکٹر نا ہوا کوٸ آندھی یا طوفان ہو یہ جا وہ جا۔
"بس اسی لیے کہہ رہا تھا کہ گھر چلو۔" رمضان نے مُشی چچا کا شانا تھپتپاتے ہوۓ کہا۔
"اللہ اللہ یہ لڑکی آخر کب سُدھرے گی۔" مُنشی چچا نے اپنے ماتھے پر آۓ پسینے کو صاف کرتے ہوۓ کہا۔
"ویسے چچا جس دن یہ لڑکی سُدھر گٸ نا اُس دن قسم سے اِس گاٶں میں سکون ہو جاۓ گا۔" رمضان نے اپنی طرف سے بڑے پتے کی بات کی تھی۔
"سکون کے بچے گاٶں کی رونق ہے نوراں۔" مُنشی چچا نے اپنے گھر کی جانب قدم بڑھاتے ہوۓ کہا۔
********
"نوراں تجھے کتنی بار کہا ہے اگر کوٸ گاڑی کے سامنے آجاۓ تو ہارن دیتے ہیں نہ کے چیخ چیخ کر اُسے سامنے سے ہٹنے کا کہتے ہیں۔" راشد نے کوٸ ستر بار یہ بات دہراٸ تھی پر مجال ہے جو نوراں کسی کی سن لے۔
"ارے ویر جی بس کرو کب سے میرے کان میں چیخے جا رہے ہو۔" نوراں نے ایک جھٹکے سے ٹریکٹر روکتے ہوۓ کہا۔
"تم کون سا سن رہی ہو کب سے کہہ رہا ہوں آہستہ چلاٶ پر نہیں تجھے تو بس اپنی ہی کرنی ہوتی ہے ۔"راشد نے ٹریکٹر سے نیچے اُترتے ہوۓ کہا۔
"ہاں ہاں ایک سارے گاٶں میں، میں ہی کسی کی نہیں سنتی باقی تو سب ایک دوسرے کی بہت جی حضوری کرتے ہیں ہنا ،یہ لو اپنا ٹریکٹر چلی جاٶ گی میں خود گھر ،ہاتھ پاٶں سلامت ہیں میرے ۔"نوراں نے غصے سے راشد سے کہا اور ٹریکٹر سے اُتر گٸ۔
"نوراں چل میرے ساتھ ۔"راشد نے ٹریکٹر پر بیٹھتے ہوۓ کہا ۔
"مر جاٶ گی ، لیکن اب اس پھٹیچر پر نہیں بیٹھوں گی ۔" نوراں نے کہہ کر چلنا شروع کر دیا۔
"نوراں یہ وہی پھٹیچر ہے ،جس کی سواری تو صبح سے کر رہی ہے، اب چل شاباش شام ہو گٸ ہے ۔"راشد نے کہا۔
"تم جاٶ میں خود جا سکتی ہوں۔" نوراں نے کہہ کر چلنا شروع کیا۔
آج تو پھر پیدل ہی جاۓ گی ۔" راشد نے کہہ کر ٹریکٹر سٹارٹ کیا اور نوراں کے پاس سے گزار کر لے گیا۔
راشد کی اس حرکت پہ تو نوراں کا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔
"ارے یہ تو سچ میں چلا گیا ایک دو دفعہ اور کہہ لیتا تو میں ساتھ چلتی۔۔۔اُف اب اتنی دور پیدل جانا پڑے گا۔" نوراں نے دور جاتے ٹریکٹر کو دیکھتے ہوۓ افسوس سے کہا۔
******
آج کل خان حویلی کی چہل پہل عروج پر تھی، ہر طرف گہما گہمی تھی ،پوری کی پوری خان حویلی گیندے کے پھولوں اور برقی قمقوں سے سجی تھی۔کیونکہ خان حویلی کے چشم و چراغ سردار جلال خان کے بیٹے مصطفیٰ جلال خان کی شادی تھی۔
"ارے صوفی ! چھوٹے خان کو کوٸ لینے گیا ہے یا نہیں." انوار بی بی نے اپنی بیٹی صوفیہ کو آواز دے کر پوچھا۔
"ہاں جی! بی بی جان وہ شاہزیب لالا گۓ ہیں چھوٹے لالا کو لینے ۔"صوفیہ نے جواب دیا ۔
"یا میرے خدایا شاہزیب کو کس نے بھیجا ہے؟" بی بی جان نے اپنا ماتھا پیٹتے ہوۓ کہا۔
"بی بی جان آپ کیوں فکر کرتی ہیں وہ خیریت سے چھوٹے لالا کو لے آۓ گے۔"
"کیسے فکر نہ کروں ،تم جانتی نہیں ہو کیا کس قدر بد دماغ انسان ہے کب کس کے ساتھ کیا کر جاۓ اور اوپر سے ولی خان جو اُسکو بلکل پسند نہیں کرتا اُس کو لینے چلا گیا ہے۔"بی بی جان نے افسوس سے کہا۔
"ارے میری پیاری بی بی جان وہ بھاٸ ہیں آپس میں دشمن تھوڑی ہیں جو ایک دوسرے کو نقصان پہنچاۓ۔" مصطفیٰ خان نے اپنی ماں کے سر پر بوسہ دیتے ہوۓ کہا۔
"میں بھی تو کب سے اِنکو یہی سمجھا رہی ہوں ،پریہ سمجھتی ہی نہیں ہیں۔" صوفیہ نے مصطفیٰ کے گال کھینچتے ہوۓ کہا۔
"ارے یہ کیا کر رہی ہو صوفی۔" مصطفیٰ نے اپنا گال مسلتے ہوۓ کہا۔
"کچھ نہیں لالا بس چیک کر رہی ہو کہ فیشل کی کوالٹی اچھی یا بس گزرا ہے ۔" صوفی نے دوبارہ مصطفیٰ کا گال کھینچتے ہوۓ کہا۔
"روکوں تم تمہیں میں بتاتا ہو اِس کی کوالٹی کیسی ہے ۔"اس سے پہلے مصطفیٰ صوفی کے پیچھے بھاگتا صوفی پہلے ہی نو دو گیارہ ہو گٸ۔
"کاش شاہزیب اور ولی بھی تم دنوں کو طرح سب کے ساتھ ہنستے کھیلتے۔"بی بی جان نے مصطفیٰ سے کہا۔
"بی بی جان ہر انسان کا مزاج الگ ہوتا وہ دونوں بھی تھوڑے الگ مزاج کے ہیں۔" مصطفیٰ نے بی بی جان کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا۔
*******
جلال خان اور انوار بی بی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔مصطفیٰ خان ، شاہزیب خان ، ولی خان اور بیٹی صوفیہ جلال ۔جلال خان علی پور گاٶں کے امرإ میں سے تھے لیکن غرور اور تکبر نام کی چیز اِنہیں چُھو کر نہیں گزری تھی۔جلال خان ایک خوش مزاج لیکن اصول پسند انسان تھے۔حق اور سچ کا ساتھ دینے والے ۔اور مصطفیٰ خان بھی اپنے باپ کی طرح ایک خوش مزاج انسان تھا جبکہ شاہزیب اور ولی خان انکے بلکل مخالف ۔شاہزیب خان ایک خود پرست انسان تھا اپنے سے کم حیثیت والوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے والا اعلیٰ درجے کا جھوٹا، مکار اور شرابی انسان ۔جبکہ ولی خان میں یہ سب خصوصیات نہیں پاٸ جاتی تھی لیکن ولی خان بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا اپنی ہر خواہش اور ضد کو پورا کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔
*******
رات کے ساۓ سر پر منڈلا رہے تھے اور شاہزیب خان کی گاڑی اپنی ازلی رفتار سے علی پورکی جانب گامزن تھی۔
"لالا میں خود بھی آ سکتا تھا، آپکو آنے کی ضرورت نہیں تھی۔"ولی نے گاڑی کے باہر دیکھتے ہوۓ کہا۔
"کیوں میرا آنا برا لگا کیا تمہیں؟ "شاہزیب نے سوال کیا۔
"بُرانہیں لگا لیکن اچھا بھی نہیں لگا ۔"ولی نے ہنوز گاڑی کے باہر دیکھتے ہوۓ کہا۔
"او چھوٹے میاں مجھے بھی کوٸ شوق نہیں ہے تمہاری چاکری کرنے کا وہ تو بابا جان نے حکم دیا تھا ، اِس لیے چلا آیا ۔"شاہزیب خان نے قدرے بدتمیزانا لہجے میں کہا۔
"واہ آج آپکو بابا جان کا حکم ماننے کا خیال کیسے آگیا۔" ولی نے اس بار شاہزیب کی طرف دیکھتے ہوۓ تنظیہ لہجے میں کہا۔
"تم کہنا کیا چاہتے ہو زرا کھُل کر کہوں میں بھی تو سنو میں نے بابا جان کا کون سا حکم نہیں مانا ۔"شاہزیب نے سامنے سڑک سے نظریں ہٹا کر کہا۔
"لالا آپ نے آج تک بابا جان کے ہرحکم کی نا فرمانی کی ہے آپ کی وجہ ہمیشہ اُن کا سر جھکا ہے ۔"
"تو انہوں نے بھی آج تک میرے ساتھ ذیادتی کی ہے ۔"
شاہزیب نے ولی کی بات بیچ میں کاٹی تھی۔
"جو لوگ دوسروں کے ساتھ ذیادتی کرتے ہیں وہ اسی لاٸق ہوتے ہیں ۔"ولی نے نفرت بھرے لہجے میں کہہ کر اپنا رُخ باہر کی جانب موڑ لیا۔
"ولی تمہاری ہمت کیسے ہوٸ۔" شاہزیب نے گاڑی کا سٹیرنگ چھوڑ کر ولی کا گریبان پکڑا تھا۔
"لالایہ آپ کیا کر رہے ہیں گاڑی کو سمبھالیں۔" ولی نے اُسکے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتے ہوۓ کہا۔
شاہزیب نے سامنے دیکھا اور ایک جھٹکے سے گاڑی روک دی۔
*******
"پاگل ہو کیا نظر نہیں آتا۔" شاہزیب نے گاڑی سے اُترتے ہوۓ سامنے کھڑی لڑکی کو کہا۔
"مجھے تو خدا کا شکر ہے نظر آتا ہے لیکن شاید تم اس صلاحیت سے محروم ہو۔" لڑکی نے پلٹتے ہوۓ جواب دیا۔
عام سے حلیے میں وہ لڑکی اس رات میں کسی چاند سے کم نہیں لگ رہی تھی سادہ سی بھُورےرنگ کی پھولدار قمیض صاف گھیرے دار شلوار میں ملبوس دوپٹہ سر پہ لپٹے ، بڑی بڑی آنکھیں ،دودہیاں رنگ اور ہاتھوں میں ایک میمنے کو اُٹھاۓ وہ اُس وقت کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
شاہزیب خان خدا کے اِس شہکار کو دیکھنے میں مصروف تھا۔کہ دوبارہ لڑکی کے پکارنے پر ہوش میں آیا۔
"اندھے ہو ، اگر دیکھ نہیں سکتے تو گاڑی لے کر کیوں دوسروں کی جان لینے کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہو۔"لڑکی نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا تاکہ سامنے والے کا منہ دیکھ سکے جو کہ گاڑی کی ہیڈ لاٸیٹ کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا تھا۔
"کیا کہا تم نے میں اندھا ہو مجھے نظر نہیں آتا ۔"شاہزیب نے دو قدم اور لڑکی کی طرف بڑھاتے ہوۓ غصے سے کہا۔
"ہاں ہاں تمہیں کہا ہے آنکھوں کے ساتھ لگتا ہے کان بھی خراب ہیں تمہارے۔" نوراں نے اس بار قدرے اونچا بولتے ہوۓ کہا۔
شاہزیب خان نے دو قدم اور نوراں کی جانب بڑھاۓ اور لاٸٹس کے آگے جا کھڑا ہوا۔اس طرح کہ اب اُسکا سایہ نوراں پر پڑ رہا تھا۔
"ایک بار پھر سے کہو کیا کہہ رہی تھی۔" شاہزیب نے ماتھے پہ بل ڈالتے ہوۓ کہا۔
"اب تو مجھے یقین ہو گیا ہےکہ تم بہرے ہو۔"نوراں نے کہنے کے ساتھ جیسے ہی سامنے والے کا چہرہ دیکھا باقی کا جملہ ہلق میں ہی دم توڑگیا۔
"شاہ ۔۔۔۔شاہ ۔۔۔شاہزیب خان ۔"نوراں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا۔(ایسا ڈر کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ حیرانگی کی وجہ سے ہوا تھا)۔
"ہاں شاہزیب خان۔اب کیوں بولتی بند ہو گٸ۔"
شاہزیب نے داھاڑ کر کہا۔
"اپنا نام تو بہت جلدی سن گیا خان صاحب۔" نوراں نے پھر سے تنظ کرتےہوۓ کہا۔
"نوراں زبان سمبھال کر ورنہ۔"
"ورنہ کیا ہاں ورنہ کیا کرو گے زبان کاٹوں گے، پہلے اِس قابل تو ہو جاٶ پھر ڈرانا۔"نوراں نے شاہزیب کی بات بیچ میں کاٹے ہوۓ کہا۔
"تمہاری اتنی ہمت تم شاہزیب جلال خان سے زبان دارازی کرو ۔"شاہزیب کے تیور پل میں بدلے تھے۔
اور اُسکا ہاتھ نوراں کے منہ کا نقشہ بیگاڑنے کے لیے ہوا میں بلند ہوا تھا۔
*******
جاری ہے
Don't forget to give feedback
Also
like , comment and vote plz......
جزاك اللهُ‎

میں لڑکی عام سی(مکمل)Where stories live. Discover now