ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
آخری قسط (حصہ اول )
۔
۔
رستہ بھی کھٹن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
ساۓ سے مگر اُس کو محبت بھی بڑی تھیخیمے نہ کوٸ میرے مسافر کے جلاۓ
زخمی تھا بہت پاٶں مسافت بہت تھیبارش کی دعاٶں میں نمی آنکھ کی مل جاۓ
جزبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھیکچھ تو تیرے موسم مجھے راس کم آۓ
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھیپھولوں کا بکھرنا تومقدر ہی تھا لیکن
کچھ اِس میں ہواٶں کی سیاست بھی بہت تھیاِس ترک رفاقت پر پریشان تو ہوں لیکن
اب تک کے تیرے ساتھ پر حیرت بھی بہت تھیخوش آۓ تجھے شہر منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی
پروین شاکر
۔۔
"جھوٹ ۔۔۔۔جھوٹ نہیں بولا تھا ولی میں نے ۔میں نے وہ کہا تھا جو سچ تھا۔میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا تھا ۔"بارش میں کھڑی نوراں نے اپنے آپ سے کہا تھا ۔ہر طرف اندھیرے کا راج تھا ۔انجان شہر کے انجان راستوں سے نوراں کو وحشت ہو رہی تھی ۔قدم زمین میں گڑ سے گۓ تھے آگے جانے کے لیے آمادہ ہی نہیں تھے ۔اور پیچھے نوراں جانا نہیں چاہتی تھی ۔بارش کا زور آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا تھا ۔نوراں نے ہمت باندھی تھی اور کچھ سوچ کر قدم آگے بڑھاۓ تھے ۔انجام سے بے پرواہ وہ ایک جانب چل پڑی تھی ۔
******
صبح کے ساۓ ہر طرف چھا چُکے تھے ۔بارش کے بعد ہر چیز جیسے دُھل سی گٸ تھی ۔آسمان صاف تھا۔اسلام آباد کے سر سبز درخت الگ ہی رُت میں لہرا رہے تھے ۔ہر کوٸ اِس نٸ تبدیلی پر خوش کن نظر آ رہاتھا۔لیکن کچھ لوگ تھے جن کے دل کی میل کو بارش صاف کرنے میں ناکام رہی تھی ۔خان ہاٶس میں سناٹا تھا ۔سکینہ بی اپنے کواٹر میں تھیں جمال کو بھی اُنہوں نے اندر جانے سے منع کر رکھا تھا۔صادق خان بھی صبح سے اُداس چہرہ لیۓ گیٹ پر بیٹھا ۔گو کے ہر کوٸ اپنی ناراضگی اور غصے کا اظہار کر رہاتھا۔
شاہزیب اپنے کمرے میں تھا ۔رات کے واقعہِ سے اُسے زیادہ خوشی نہیں ہوٸ تھی۔وہ یہ سب نہیں چاہتا تھا۔
"ولی کس قدر بیوقوف نکلا ۔میرا سارا کا سارا کھیل بگاڑ دیا اُس کے غصے نے۔"شاہزیب نے بالوں میں برش کرتے ہوۓ کہا۔
"نوراں کو یہ بات کیسے پتا چلی آخر وہ کس طرح جانتی تھی اِس سچ کے بارے میں یا۔۔۔۔۔صوفی نے۔۔شِٹ اگر صوفی نے نوراں کو یہ سب بتایا تو وہ واپس آ کر بہت واویلا کرے گی اور تو اور ہو سکتا ہے وہ سچ سب کو بتا دے۔"شاہزیب نے اپنے آپ کو آٸینے میں دیکھ کر کہا۔
"نہیں شاہزیب تو ایسا ہونے نہیں دے سکتے تمہیں اپنے آپ کو بچانے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔"شاہزیب نے خود سے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
*****
ولی اپنے کمرے میں گلاس وال کے سامنے کھڑا تھا رات والے حلیۓ میں بکھرے بالوں کے ساتھ وہ ساری رات کا جگا ہوا لگ رہا تھا۔
"تمہارا بھاٸ شاہزیب خان مصطفیٰ خان کا قاتل ہے۔میں نے جو کہا وہ سچ تھا۔"نوراں کی آواز ولی کو سُناٸ دی تھی اور یہ وہ آواز تھی جس نے رات سے ولی کو پریشان کر رکھا تھا اور اِسی آواز کی وجہ سے ولی ساری رات سو نہیں پایا تھا۔
ایک طرف دل بیچین تھا نوراں کے لیۓ ۔نادم تھا اپنی رات کی گٸ جسارت پر ۔اُسے دیۓ گۓ اپنے پہلے لمس پر شرمندہ تھا ۔وہ اپنے آپ پر شرمندہ تھا کہ وہ کیسے کسی لڑکی پر ہاتھ اُٹھا سکتا ہے۔کیسے وہ کسی لڑکی کو یوں رات میں اکیلے بے یارو مدد گار چھوڑ سکتا ہے۔ جہاں اُسے شرمندگی تھی وہی انّا بھی تھی رات سے کتنی ہی بار خیال آیا کہ جا کر نوراں کواندر لے آۓ پر اّنا نے ہر بار یہ کہہ کر اُسے روک دیا کہ تم اُس کو گھر واپس کیسے لا سکتے ہو جس نے تمہارے سامنے تمہارے بھاٸ پر تمہارے ہی بھاٸ کے قتل کا الزام لگایا ہو ۔
تم کس حق سے اُسے واپس لاٶ گے تم کس اُمید پر اُسے واپس لاٶں گے ۔تم نے جو کیا وہی صحیح تھا تمہیں اُس کے ساتھ وہی کرنا چاہیۓ تھا جو تم نے کیا۔دماغ تھا کہ اُسے بار بارصحیح ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا۔
ولی ابھی یہی سب سوچ رہا تھا کہ شاہزیب کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔دروازہ کھولنے کی آواز پر ولی نے مُڑ کر دروازے کر جانب دیکھا تھا۔اور پھر سے باہر دیکھنے لگا۔
"اب پچھتا کیوں رہے ہو ؟"شاہزیب نے ولی کے پاس پڑے صوفے پر بیٹھ کر کہا۔
"بھول ہے آپکی کہ میں پچھتا رہا ہوں۔"ولی نے باہر دیکھتے ہوۓ جواب دیا۔
"تمہاری حالت بتا رہی کہ تم ساری رات نہیں سوۓ۔۔۔۔۔ تو ساری رات سے اب تک جشن تو منا نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔ تو ظاہر سی بات ہے سوگ ہی منا رہے ہوں گے۔"شاہزیب نے ولی کی طرف دیکھ کر کہا۔
"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ مجھے سوگ مناناپڑے۔"ولی نے اب کی بار رُخ شاہزیب کی طرف کیا تھا۔
"دیکھ ولی تجھے اِس کیۓ کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔بابا جان کی اور بی بی جان کی ناراضگی مول لینی ہو گی ،صوفیہ کو تو کیا جواب دے گا ۔اور سب سے بڑھ کر تو نوراں کے گھر والوں کو کیا کہے گا کہ وہ کہاں ہے ۔اور ہو سکتا ہے بابا سرکار تمہیں فضہ سے شادی کی اجازت بھی نہ دیں تو بہتری اِسی میں ہے کہ نوراں کو گھر لےآٶ اور بابا سرکار اور بی بی جان کے سامنے بیٹھ کر بات کو کلیٸر کرو۔"شاہزیب نے کہا۔
"مجھے اب فضہ سے شادی کے لیے کسی کی اجازت نہیں چاہیۓ اب میں وہ کروں گا جو مجھے صحیح لگے گا۔اور جہاں تک بات اُس لڑکی کے گھر والوں کی ہے تو مجھے نہیں لگتا ایسی کوٸ نوبت آۓ گی وہ لڑکی اپنے گھر ہی جاۓ گی یہاں سے ۔"ولی کہتا ہوا اپنے ڈیسنگ روم کی جانب بڑھا تھا ۔
"اور وہ اپنے گھر کیسے جاۓ گی ؟تم نے کون سا مال و اسباب دے کر اُسے رُخصت کیا ہے؟"شاہزیب نے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا کر پوچھا۔
"وہ اُس کا مسلہ ہے میرا نہیں ۔" ولی نے بے پرواہی سے کہا۔
"تم نے آدھی رات کو اُس کو بے گھر کیا تھا۔اگر اُس کے ساتھ کچھ ؟"شاہزیب نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔شاہزیب کی بات نے ولی کے الماری میں چلتے ہاتھ ساکت کر دیۓ تھے۔اُس نے بے یقینی سےشاہزیب کو دیکھا تھا۔
"آپ ؟"ولی نے فقط اتنا کہا۔
"جانتا ہوں تم حیران ہو کہ میں اُس کے الزام کے بعد بھی اُسکی فکر کیوں کر رہا ہوں ۔تو اِس کی وجہ صرف تم ہو ۔میں نہیں چاہتا کہ تمہارے نام کے ساتھ جُڑے لوگ کسی مصیبت میں پڑے اور اُن کے ساتھ تم بھی مصیبت میں پھنس جاٶ۔"شاہزیب نے وضاحت دی۔
"مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آیا لالا کہ اُس نے یہ کیوں کیا؟"ولی نے سوال کیا۔
"اُس کے ایسا کرنے کی کچھ وجوہات پہلے کے تعلقات ہیں جو تم بھی جانتے ہو کچھ اچھے نہیں تھے اور اب وہ تھک گٸ ہو گی اِس سزا سے تو یہاں سے راہِ فرار چاہتی ہو گی جو تم نے اُسے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی۔"شاہزیب نے وضاحت کی ۔
"اچھا ہوا اُس کی بھی جان چھوٹی اور ہماری بھی۔"ولی نے بیزاری دیکھاتے ہوۓ کہا۔
"تمہاری شکل پر لکھا ہے کہ تم پریشان ہو ولی لیکن ظاہر نہیں کر رہے۔"شاہزیب نے کھڑے ہو کر کہا۔ولی نے کپڑے نکال کر ساٸیڈ پر رکھے تھے اور شاہزیب کی جانب مُڑا تھا ۔
"صبح فضہ کا فون آیا تھا ۔اپنے مام ڈیڈ سے ملنے ملنےکے لیے بُلایا ہے میں جا رہا ہوں ۔اگر آپ اُس لڑکی کو لانا چاہتے ہیں تو لے آۓ لیکن مجھ سے کوٸ توقع مت رکھیں ۔"ولی نے کہا اور واش روم کی جانب بڑھ گیا۔
"یہ ہوٸ نہ بات چھوٹے خان ۔"شاہزیب نے ولی کے جانے کے بعد مسکرا کر کہا۔
"لالا!"
شاہزیب کمرے سے باہر جا رہاتھا جب ولی نے واش روم سے باہر نکل کر اُسے پکارا۔
"ہاں!کیا ہے؟" شاہزیب نے پلٹ کر جواب دیا۔
"مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا۔۔۔۔۔جو رات والے واقع کی وجہ سے نہیں پوچھ سکا۔"ولی نے شاہزیب کے قریب جا کرکہا۔
"ہاں پوچھو!"
"پیچھلے ایک ہفتہ سے آپ کہاں تھے؟"ولی کے سوال کرتے ہی شاہزیب کو پسینہ آنا شروع ہو گیا تھا جیسے کوٸ چوری پکڑی گٸ ہو۔
"جہاں بھی ہوں تمہیں اِس سے مطلب؟"شاہزیب نے جھٹ سے کہا۔
"مطلب ہے لالا!مطلب ہے۔ہمیں پتا ہونا چاہیۓ کہ آپ کہاں تھے ۔یا کم ازکم آپ کو یہ علم ہونا چاہیۓ تھا کہ آپ کے پیچھے کیا کیا ہوگیا۔"ولی نے غصے سے کہا۔
"مجھے مت سیکھاٶ۔"شاہزیب نے بھی ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔
"آپکو واقعی کچھ نہیں پتا۔"ولی نے تنظیہ انداز میں کہا۔
"صاف صاف کہو۔"شاہزیب نے کہا۔
"احمد انکل کی ڈیتھ ہوگٸ تھی کچھ دنوں پہلے۔"ولی نے بتایا۔
"کیا بکواس کر رہےہو تم ولی!"شاہزیب نے بے یقینی سے کہا۔
"وہی کہا جو سچ تھا۔"
"تو مجھے کیوں نہیں بتایا اور ۔۔۔۔اور زوبیا کو ساتھ کیوں نہیں لاۓ؟"شاہزیب نے سوال کیا۔
"آپ کو کیسے بتاتا نہ تو آپکا فون مل رہا تھا نہ ہی یہ پتا تھا کہ آپ ہیں کہاں ۔۔۔۔۔اور زوبیا کی احمد انکل نے شادی کر دی۔"ولی نے دبے دبے غصے سے کہا۔
"شادی؟ کس سے اور کب؟"شاہزیب نے حیرت سے پوچھا۔
"ہسپتال میں نکاح پڑھایا گیا تھا اُنکا ۔۔۔۔کسی راشد سے۔"ولی نے کوفت سے راشد کا نام لیا تھا۔
"اووو تو وہ صاحب ۔۔۔اپنی محبوبہ کے پیچھے پیچھے خان حویلی تک آ پہنچے ہیں۔"شاہزیب نے کہا نہیں فقط سوچا ۔کیونکہ ابھی کچھ بھی کہنا آگ کو مذید بھڑکانے کا کام کرے گا ۔اور شاہزیب اِس وقت کیسی مصیبت کو مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ابھی اُسے ایک اچھا بھاٸ بن کر اپنے بھاٸ کا گھر بچانا تھا۔تاکہ خود کو ہر طرح سے بچا سکے۔
"اوہ اچھا۔۔۔۔باقی باتیں بعد میں کرتے ہیں میں پہلے زرا نوراں کو پتا لگوا لوں۔"شاہزیب نے کہا اور ولی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کمرے سے باہر چلا گیا۔
*******
احمد ہاٶس میں بھی زوبیا کی رخصتی کی تیاری مکمل ہو چُکی تھی۔زوبیا نے اپنے باپ کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور راشد کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی تھی۔
"راشد تم گاڑی لےجاتے؟"سلیمان صاحب نے راشد سے کے گلے لگ کر کہا۔
"بہت شکریہ انکل !اِس کی ضرورت نہیں ہے۔"راشد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"جیسے تمہاری مرضی۔"سلیمان صاحب نے کہا۔
"راشد !بہت نازوں سے پالا ہے زوبیا کو احمد بھاٸ نے۔دُنیا ک ہر خوشی لاکر اُس کے قدموں میں ڈال دیا کرتےتھے۔لیکن وہ کہتے ہیں نہ ماں باپ اولاد کو سب کچھ دے سکتے ہیں لیکن نصیب نہیں۔نصیب نے اُسے توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔اُسے سمیٹنا اب تمہارا کام ہے ۔احمد بھاٸ نے جس بھروسے اور مان سے تمہیں اپنی بیٹی سونپی ہے ہم امید کرتے ہیں اُنکا وہ مان ہمیشہ برقرار رہے گا۔"عالیہ نے راشد کو نصیحت کی تھی۔
"پھوپھو! اپنے بیٹے پر یقین رکھیں۔۔۔۔ ان شاء اللہ زوبیا اب ایک ہنسی ،مسکراتی پُر سکون زندگی گزارے گی۔"راشد نے اطمینان دیلوایا۔
تبھی اسفی اور زوبیا وہاں آۓتھے ۔نیلے رنگ کی سادہ شلوار قمیض پہنے اور سفید دوپٹہ سر پر لۓ۔آنکھوں میں نمی لیۓ اُس نے سلیمان صاحب کو خدا حافظ بولا تھا۔
"اللّٰہ کی امان میں جاٶ گڑیا !خدا تمہیں دنیا جہان کی خوشیاں دے ۔"سلیمان صاحب نے سر پر پیار دے کر کہا۔سلیمان صاحب سے ملنے کے بعد زوبیا نے رُخ عالیہ کی جانب موڑا تھا۔
"زوبیا !یہ گھر ہمیشہ تمہارا منتظر رہے گا۔جب بھی دل چاہٶ تم یہاں آ سکتی ہو۔ہم سب سے ملنے۔"عالیہ نے زوبیا کو گلے لگا کر کہا۔
"بس کریں یار ۔۔۔۔اور آپ لوگ کتنا روۓ گے۔"اسفی نے اُکتانے کی ایکٹنگ کر کے کہا۔جس پر سب نے مسکرا کر اسفی طرف دیکھا تھا۔
"بجو !میں اسفند خان تمہارا بھاٸ ہو ۔کبھی بھی کوٸ بھی بات ہو تو بھاٸ سےکہہ دیا کرنا ۔یقین جانو کبھی مایوس نہیں کرو گا۔"کہتےہوۓ اسفی کی آنکھیں بھی نم ہو گٸ تھیں۔
"دوسروں کو چُپ کروانے والے خودروتے ہوۓ اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔اور آپ لوگوں کا جب دل چاہۓ آپ لوگ علی پور آ کر مل سکتے ہیں۔"راشد نے اسفی کے کاندھے پر تھپکی دے کر کہا۔
"اُس کی تو آپ فکر مت کریں ۔۔۔بہت تنگ کرو گا میں آپکوآخرسالا جوہوں۔"اسفی نے راشد کو گلے لگا کر کہا۔
اور دونوں قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔
"چلیں ٹرین کا ٹاٸم ہو گیا ہے۔"راشد نے کہا۔
"ہاں جی آۓ۔"اسفی نے کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
عالیہ نے ہاتھ میں پکڑی ایک چادر زوبیا کے کاندھوں پر ڈالی اور اُسے رُخصت کیا ۔
******
"صادق!"
شاہزیب نے صادق کو آواز لگاٸ تھی۔
صادق خان بھاگتا ہوا شاہزیب کے پاس پہنچا تھا۔
"گیٹ پر تم ڈیوٹی کرتے ہو؟" شاہزیب نے پوچھا۔
"جی صاحب جی!"صادق نے کہا۔
"تو نوراں کاکچھ عطا پتا کہاں گٸ یا سکینہ بی کے ساتھ اندر ہے وہ؟"شاہزیب نے آنکھوں پر کالے رنگ کے گاسس لگا کر کہا۔
"نہیں صاحب وہ اندر نہیں آٸ ۔۔۔۔میں اُنکو لینے گیا بھی تھا لیکن وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے چلی گٸ۔"صادق نے تفصیل سے آگاہ کیا ۔
"ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں۔"شاہزیب نے کہا اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔
******
ولی خان نیلے رنگ کاتھری پیس پہنے بالوں کو جیل سے پیچھے کیۓ ہاتھ میں ایک عدر ورسٹ واچ پہنے ایک پُرکشش مرد نظر آ رہا تھا۔ولی تیار ہو کر نیچے آیا تھا۔نیچے کی خاموشی اور سناٹا ولی کو چُبھا تھا۔ ولی نے قدم کیچن کی جانب بڑھاۓ تھے ۔وہاں بھی کسی کو نہ پانے کے بعد اُس نے اپنے پیروں کا رُخ سکینہ بی کے کواٹر کے طرف مُڑا تھا۔
سکینہ بی کے کواٹر پر پہنچ کر ولی نے دستک دی تھی اور ہاتھ میں باندھی گھڑی پر وقت دیکھا تھا۔
کچھ ہی لمحے انتظار کرنے کے بعد جمال نے اندر سے دروازہ کھولا تھا۔
"سلام !چھوٹے خان ۔۔۔آپ یہاں؟"جمال نے ولی کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر کہا۔
"وسلام!جمال سکینہ بی ؟"ولی نے فقط اتنا کہا۔
"نہیں چھوٹے خان آپ اماں سے ابھی مت ملیں وہ آپ پربہت غصہ ہیں ۔اور یہی غصہ اُنکی طبیعت کو بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے۔"جمال نے کہا۔
"فکر مت کرو جمال وہ میرے لیے بھی ماں جیسی ہیں۔"ولی نے جمال کا کاندھا تھپتھپایا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔
"چھوٹے خان وہی پر رُک جاۓ ۔۔۔آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔"سکینہ بی نے ولی کو اندر آتا دیکھ کر کہا۔سکینہ بی کی آواز پرولی کے قدم وہی دہلیزپر ہی رُک گۓ تھے۔اُس نے بےیقینی کے ساتھ سکینہ بی کو دیکھا تھا جو سامنے رکھی ایک چار پاٸ پر بیٹھی تھی ۔
"سکینہ بی!"ولی نے پُکارا۔
"چھوٹے خان ہم آپ کے نوکر آپ کے غلام ہیں۔اِس لیۓ نہیں چاہتے کہ آپ کو کچھ ایسا کہہ جاۓ جس سے آپ کو دُکھ ہو اور ہمیں پچھتاوا۔"سکینہ بی نے نم آنکھوں سے کہا۔
"سکینہ بی !آپ میری بات تو سُنے!"ولی نے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"چھوٹے خان آپ مجھے اپنی صفاٸ مت دے کیونکہ مجھے کچھ نہیں جاننا کہ آپ نے وہ سب کیوں کیا؟ وہ آپکا اور آپکی بیوی کاذاتی معاملہ ہے اور نہ ہی میں بڑے خان اور بی بی سرکار کو کچھ بتاٶ گی ۔لیکن چھوٹے خان کوٸ بھی قدم اُٹھانے سے پہلے آپکو ایک بار نوراں سے پوچھنا چاہیۓتھا کہ آخر اُس نے یہ سب کیوں کیا۔"سکینہ بی نے کہا۔
"سکینہ بی جب آپ کو سب پتا ہوتو آپ سامنے والے سے کیا پوچھے گے۔"ولی نے کہا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
"چھوٹے خان جج بھی سزاۓ موت سُنانے سے پہلے ایک بار مجرم کو صفاٸ کا موقع ضرور دیتا ہے اور ولی پُتر ایک دن آۓ گا تجھے اُس کی محبت بہت یاد آۓ گی جب کوٸ تیری چاہتوں کو ٹھکراۓ گا ۔" سکینہ بی نے پیچھے سے کہا۔سکینہ بی کی آواز پر ولی کے بڑھتے قدم کچھ پل کے لیے رُکے تھے ۔لیکن وہ جلد ہی آگے بڑھ گیا تھا ۔
******
راشد اور زوبیا علی پور کے سٹیشن پر کھڑےتھے ۔سارا سفر دونوں کا خاموشی سے گزرا تھا۔راشد اپنے ذہن میں گھر والوں کو مطمن کرنے کا منصوبہ تیار کر چُکا تھا اور زوبیا خود کو نٸ جگہ اور نۓ رشتوں میں ڈھالنے کے لیے تیار کر رہی تھی۔راشد نے ایک ٹیکسی رُوکی اور زوبیا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔زوبیا گاڑی کی کھڑکیوں سے علی پور کی اُن گلیوں اور سڑکوں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔جنہیں اُس نے کبھی نہ دیکھنےکا وعدہ کیا تھا لیکن قسمت انسان کو ہر بار وہاں سے آزماتی ہے جہاں سے انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔
"پریشان ہیں؟"راشد نے زوبیا سے پوچھا۔
"ڈر لگ رہا ہے۔"زوبیا نے باہردیکھتےہوۓ ہی جواب دیا۔
"فکر مت کریں ۔۔۔اور اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھیں ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوگا۔"راشد نے تسلی دی۔
"مجھے علی پور سے خوف آتا ہے ۔۔۔۔میں نے یہاں بہت کچھ کھویا ہے۔"زوبیا نے نم آنکھوں سے کہا۔
"مایوس نہیں ہوتے۔۔۔وہ رب اپنے بندوں سے اگر کچھ لیتا ہے تو بدلے میں اُس سے بڑھ کر عطا کرتا ہے۔"راشد نے مسکرا کر کہا۔
تبھی گاڑی ایک چھوٹی سی گلی کے باہر رُکی تھی۔راشد نے گہرا سانس لیا تھا اور دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر آیاتھا۔اتنے مہینوں بعد وہ اپنے گھر آیا تھا اپنوں کے پاس ۔لیکن فضا میں اُسے ایک عجیب سے گھٹن محسوس ہوٸ تھی۔گھر جاتے ہوۓ دل ڈر رہاتھا ۔اِس سب کی وجہ وہ انجان تھا۔
راشد نے دوسری طرف جا کر زوبیا کی ساٸیڈکا دروازہ کھولا اور زوبیا کو باہر آنے کا کہا۔زوبیا نے باہر آ کے اپنے اردگرد نظر دوڑاٸ تھی۔
"لالا سامان نکال دیا؟"راشد نے ڈراٸیور سے پوچھا۔
"ہاں راشد بھاٶ نکل دیا ۔"ڈراٸیور نے راشد سے کہا اور اپنا کرایہ لے کر وہاں سے چلا گیا۔
"یہ علی پور تو ہے لیکن یہاں سب کچھ خان حویلی جیسا نہیں ہے۔"راشد نے بیگ اُٹھاتےہوۓ کہا۔راشد کی اِس بات پر زوبیا نے ناسمجھی سے راشد کی طرف دیکھا۔
"میرا مطلب ہے ۔۔۔ہمارا گھر بہت چھوٹا سا ہے شروع ہوتا نہیں ہے اور ختم۔"راشد نے مسکرا کر اپنے گھر کی جانب قدم بڑھاۓ تھے۔اور زوبیا نے بھی اُسکی پیروی کی تھی۔
"بڑے گھر کا خواب نہیں ہے۔۔۔۔سکون سے بھرے گھر کا خواب ہے۔"زوبیا نے مدھم آواز سے کہا ۔
زوبیا کی بات پر راشد ہلکا سا مسکرایا تھا ۔اور ایک لوہے کےسرخ رنگ کے دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا اور دروازے پر دستک دی تھی۔
******
ولی اپنی پوری تیاری سے لغاری ویلا میں داخل ہوا تھا۔ایک عظیم اور عالی شان بنگلہ ۔ولی گاڑی سے نکل کر اندر کی جانب بڑھاتھا کہ ایک ملازم نے آکر اُس سے اُس کی پہچان پوچھی۔
"سر آپکو کس سے ملنا ہے؟"ملازم نے پوچھا۔
"میں فضہ لغاری کا گیسٹ ہوں ۔اُنہیں جا کر انفام کریں کہ ولی خان آیا ہے۔"ولی نے ملازم سے کہا۔
"شیور سر!آپ اندر ڈراٸنگ روم میں انتظار کریں میں میم کو آپکا مسیج پہنچاتاہوں۔"ملازم نے کہا اور وہاں سے چلا گیا ۔ولی کو ابھی اندر گۓ چند منٹ ہی گزرے تھے۔کہ فضہ کے والد اور والدہ وہاں آۓ تھے۔
"اسلام و علیکم!"ولی نے کھڑے ہو کر سلام کیا۔
"ہیلو!پلیز سیٹ ڈاٶن۔"فضہ کے باپ لغاری صاحب نے ولی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"شکریہ!"ولی نے کہا اور بیٹھ گیا ۔
اِس سے پہلے لغاری صاحب اور ولی میں گفتگو کا آغاز ہوتا ۔فضہ وہاں آ پہنچی۔
لال رنگ کی ساڑی زیب تن کیۓ بالوں کو کمر پر پھیلاۓ ،ہونٹوں کو بھی لال رنگ سے سجاۓ،آنکھوں پر بھر پور میک اَپ کیۓ وہ کسی شخص کا ہاتھ تھامے وہاں آٸ تھی۔
فضہ کو اُس آدمی کے ساتھ دیکھ ولی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہو گیا تھا۔
"ارے کھڑے کیوں ہو گۓ۔۔۔بیٹھو بیٹھو۔"فضہ نے ولی کو بیٹھنے کے لیۓ کہااور خود ولی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گٸ۔
"کیسے ہو؟"فضہ نے ولی سے پوچھا۔
"ٹھیک ہوں۔۔۔آپ سب کیسے ہیں ؟"ولی نے جواب کے بعد سوال کیا۔
"ہم تو بہت اچھے ہیں اور مزے میں ہیں۔۔۔تم بتاٶ وہ کیاجو کہا تھا؟"فضہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"تم یہ کیسے بات کر رہی ہو؟"ولی نے ایک نظر اپنے پاس بیٹھے فضہ کے ماں باپ پر ڈال کر کہا۔
"فکر مت کرو یہ سب اِس سب کے عادی ہیں۔تم سوال کاجواب دو۔"فضہ نے اپنی جگہ سے کھڑےہو کر کہا۔
" جیسا تم نے کہا تھا ویسا ہی ہوا ہے۔"ولی نے کہا ۔
"گڈ ویری گڈ ۔۔۔۔اب میں آپ لوگوں کا تعارف کرواتی ہوں۔۔۔۔۔بابا ،ماما اور فراز یہ ہیں مسڑ ولی ۔"فضہ نے کہا۔
"اور مسڑ ولی! یہ ہیں میرے ماما،بابا اور میرے پیارے ہسبینڈ۔"فضہ نے اپنے گھروالوں کا تعارف کروایا تھا ۔فضہ کے اِس تعارف پر ولی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔
"تم یہ کیا کہہ رہی ہو۔"ولی نے بے یقینی سے کہا۔
"ارے یار!وہی کہہ رہی ہوں جو سچ ہے۔۔۔۔کیوں تمہیں سُن کر خوشی نہیں ہوٸ؟"فضہ نے تنظیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ولی کے لبوں پر بلکل خاموشی چھا گٸ تھی۔
"یہ سوچنے کی غلطی مت کرنا ولی خان کہ میں نے تمہیں چیٹ کیا۔۔۔بلکہ چیٹ تو تم نے مجھےکیا میری جگہ کسی اور عورت کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا ۔مجھے تم نے سیکینڈ آپشن پر رکھا جب کے تم جانتے تھے کہ مجھے آپشنز نہیں پسند پھر بھی تم نے یہ سب کیا۔"فضہ نے ولی کے سامنے کھڑےہو کر کہا۔
"میں نے وہ سب مجبوری میں کیا تھا فضہ ۔۔۔۔نوراں سے شادی میری مجبوری تھی ۔۔۔۔اور اب تو اُسے بھی میں اپنی زندگی سے نکال چُکا ہوں۔"ولی نے کہا۔
"ولی صرف زندگی سے نکالا ہے تم نےاُسے۔۔۔۔وہ بھی نہ جانے کس وجہ سےلیکن ولی وہ تمہارے دل میں ہمیشہ کے لیے اپنا گھر کر گٸ ہے۔"فضہ نے ولی کے سینے پر اُنگی مار کر کہا۔
"اور تمہیں یہاں بُلانے کا مقصد صرف اور صرف یہ بتانا تھا کہ فضہ لغاری کسی ایسی جگہ پر نہیں رہ سکتی جہاں پہلے سےہی کوٸ اور مکین ہو۔اور میں نے وہ مسیج بھی تمہیں اپنے نکاح والے دن کیا تھا تاکہ تمہیں دھتکار سکوں اور کچھ نہیں۔"فضہ نے اپنی بات مکمل کی۔
"شادی مبارک ہوں ۔"ولی نے اپنا ہاتھ فضہ کے آگے بڑھاکر کہا۔
"تمہیں بھی۔"فضہ نے ہاتھ تھام کر کہا۔
ولی نے فراز کو اور فضہ کے ماں باپ کو بھی فضہ کی شادی کی مبارک دی اور باہر چلا آیا۔باہر آتے ہی اُس نے سب سے پہلے اپنی ٹاٸ کی ناٹ ڈھیلی کی اور کوٹ اُتار کر گاڑی کی بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر پھینکا۔
تبھی فراز وہاں آیا تھا ۔اور ولی کو آواز لگاٸ تھی۔
"مسڑ ولی!"
فراز کی آواز پر ولی نے مُڑ اُسکی طرف دیکھا تھا۔
"مسڑ ولی!مجھے نہیں پتا آپ کا اور فضہ کا تعلق کیا تھا اُس کی نوعیت کیا تھی؟لیکن میں اُسے بہت عرصے سے پسند کرتا ہوں اِس لیۓ اُس کے ایک بار کہنے سے میں شادی کے لیے مان گیا۔اور آپ سے صرف یہی کہوں گا کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی میں صرف کچھ سیکھانے آتے ہیں ۔مجھے فضہ نے بتایا کیسے آپ نے اُس کے کہنے پر اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیا ۔اور اب آپ بھی وہی کھڑے ہیں جہاں آپکی بیوی کبھی کھڑی ہو گی۔جب آپ نے اُسے اپنی زندگی سے نکالا تب اُسے کیسا لگا ہو گا۔اور آپ تو شاید فضہ سے محبت بھی نہیں کرتے کیونکہ اگر کرتے ہوتے تو اِس وقت یوں ایک مضبوط آدمی کی طرح نہ کھڑے ہوتے بلکہ گِر کر ریزہ ریزہ ہو چُکے ہوتے ۔اور اگر بھابھی آپ سے محبت کرتیں ہوٸ تو سوچیۓ اُن پر اُس وقت کیا بیتی ہو گی جب آپ نے اُن کے ساتھ یہ سب کیا جو ابھی فضہ نے آپ کے ساتھ کیا۔"فراز نے نا چاہتے ہوۓ بھی ولی کے دل میں گیلٹ پیدا کر دیا تھا۔
"بہت شکریہ ۔۔۔اللہ تمہیں خوش رکھے ۔"ولی نے کہا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل آیا۔
ESTÁS LEYENDO
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasíaکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...