Episode # 7

652 38 9
                                    

ناول : میں لڑکی عام سی
مصنفہ :سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:٧
۔
۔
نوراں جب سے آٸ تھی ولی خان کے کمرے میں قید تھی۔اُسے کسی کا انتظار نہیں تھا نہ نیند کا نہ ہی کسی اور کا۔ رات ایک بجےکا وقت تھا۔نوراں نے آہستہ آہستہ قدم کھڑکی کی جانب بڑھانے شروع کیے اور کھڑکی کے پاس پہنچ کر اُس نے پردے ساٸیڈ پر کیۓ اور آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھنے لگی ۔
"آج تو چاند نے بھی آنکھ مچولی کا کھیل شروع کر رکھا ہے ۔"نوراں نے چاند کو دیکھتے ہوۓ کہا اور جو بادلوں میں چھپنے کے لیے بے قرار تھا۔
۔
چنتی ہے میرے اشک راتوں کی بھکانیں
محسن لٹا رہا ہوں سر عام چاندنی
۔
نوراں ابھی یہ ہی دیکھ رہی تھی جب دروازہ کھولنے کی آواز آٸ۔اور ولی اندر داخل ہوا۔ولی کے آنے پر نوراں کو گھبراہٹ ہوٸ تھی ایک عجب سا احساس تھا لیکن کیا کوٸ نہیں جانتا تھا۔
ولی کو بھی اندر آکر عجیب سا لگا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی الگ رہا تھا کبھی کوٸ اِس طرح حق سے اُسکے کمرے میں نہیں کھڑا ہوتا تھا جیسے آج نوراں کھڑی تھی ۔ولی نے زرا سی دیر کے لیے نظریں اُٹھا کر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تھا۔اور دیکھتے ہی ولی کے ذہن میں ایک آواز گونجی تھی ۔
"تمہاری بیوی تمہارے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔ بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہے۔"
اور اِسی کے ساتھ ولی کی دماغ کے رگیں تن گٸیں تھیں۔اور اُس نے پورے زور سے دروازے کو بند کیا تھا جس سے ایک زور دار آواز پیدا ہوٸ تھی آواز اِس قدر شدید تھی کہ نوراں کا وجود کانپ گیاتھا۔
"کیسا لگ رہا ہے یہ سب کر کے ؟"ولی نے اپنے شانوں پر سے شال اُتار کر بیڈ پر پھینکتے ہوۓ کہا۔ولی کے اِس سوال پر نوراں نے حیران ہو کر ولی کو دیکھا۔
"میں نے کچھ پوچھا ہے سُناٸ نہیں دیا کیا؟"ولی نے پھر پوچھا مگر اِس بار آواز قدرِ اونچی تھی ۔ نوراں اب پہلے کی نسبت سنبھل چکی تھی اُس نے دو قدم ولی کی جانب اُٹھاۓ اور کہا۔
"کہنا کیا چاہتے ہیں؟"نوراں نے بدلے میں سوال کیا۔
"یہی کہ کیسا لگ رہا ہے سب کو بیوقوف بنا کر؟ویسے کہنا پڑے گا تم نے اور تمہارے باپ نے بہت اچھے سے اپنا کام کیاہے ۔"ولی نے تالی بجا کر کہا۔
"خان صاحب کُھل کر کہیں کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟"نوارں نے کہا۔
"تم لوگوں کے کھیل کی تعریف کررہا ہوں جس میں تم لوگوں کی پرفارمنس شاندار تھی ۔پہلے باپ نے میرے بھاٸ کو قتل کیا اور پھر اپنی بیٹی کو اِس گھر میں بہو بنا کر بھیج دیا ۔واہ!ویسے کس قدر بےغیرت آدمی تھا جس نے اپنی جان بچانے کی خاطر اپنی بیٹی کی زندگی داٶ پر لگا دی۔"ولی نے اپنے بازو کے کف اوپر کرتے ہوۓ آرام دہ انداز میں کہا۔
"زبان سنبھال کر خان صاحب میں اپنے باپ کے خلاف ایک لفظ نہیں سُنو گی ۔"نوراں نے غصے سے کہا۔
"اووو بُرا لگ رہا ہے بیٹی کو باپ کے لیے بہت افسوس ہوا۔"ولی نے نوراں کے پاس آکر کہا۔
"لیکن وہ کیا ہے نہ کہ یہ سب تو اُسے اور تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھااب تو تمہیں سب برداشت کرنا ہے سب۔"ولی نے نوراں کے کان کے قریب جا کر کہا اور ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔
"ہاہاہا بس اتنی سے دھمکی ۔" نوراں نے ہنستے ہوۓ کہا۔جس پر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھتے ہوۓ ولی کے قدم تھم گۓ تھے اور اُس نے پیچھے مُڑ کر نوراں کو دیکھا۔
"تم ہنس رہی ہو۔"ولی نے حیرت سے نوراں کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
"بچوں والی دھمکی پہ ہنسوں نہ تو اور کیاکرو۔"نوراں نے اپنی ہنسی دباتے ہوۓ کہا۔
"بھٸ میں نے تو سُنا تھا خان بڑے جزباتی،خونخوار اور سرپھیرے ہوتے ہیں پر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔"نوراں نے ولی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔ولی نوراں کو اِس قدر پُرسکون دیکھ کر حیران ہوا تھااور اُسے یہ سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ آیا نوراں نے یہ بےعزتی کی ہےیا تعریف۔
"ارے خان صاحب !زیادہ مت سوچیں تعریف تھی یہ لیکن افسوس آپ میں اِن میں سےایک خوبی بھی نہیں ہے۔"نوراں نے ولی کی چادر جو اُس نے بیڈ پر پھینکی تھی اُٹھاکر تہہ کرتے ہوۓ کہا۔
"تم میری چیزوں سے دور رہو۔"ولی نے چادر نوراں کے ہاتھ سے جھپٹتے ہوۓ کہا۔
"ٹھیک ہے ،ٹھیک ہے دور رہوں گی اگر آپ اِس طرح پھیلاوا نہیں کریں گے تو۔"نوراں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے اُٹھو یہاں سے یہ میرا بیڈ ہے اور یہاں۔"ولی کہہ رہا تھا جب نوراں نے اُسکی بات بیچ میں کاٹی۔
"اُف کیا مصیبت ہے لو اُٹھ گٸ اب خوش ۔"نوراں نے کہا۔
"تم اپنی اوقات میں رہو لڑکی یہ مت بھولو کہ تم یہاں کیسے اور کیوں لاٸ گٸ ہو ۔" ولی نے داھاڑ کر کہا۔
"تو میری بھی ایک بات یاد رکھیے گا خان صاحب کہ میں یہاں ولی خان کی بیوی بنا کر لاٸ گٸ ہوں۔اگر قبول ہے میں نے بولا تھا تو قبول ہے ولی خان نے بھی بولا تھا ۔اور اگر آپ کو اتنا ہی مسلہ ہو رہا ہے تو یہاں مجھے کوسنے کی بجاۓ جاٸیے جا کر ولی خان کو کوسیں۔"نوراں نے کہااور جا کر صوفے پر بیٹھ گٸ۔
"زبردستی کی بیوی۔"ولی خان نے کہا۔
جس پر نوراں نے کوٸ ردِعمل نہیں دیا۔اور ولی بھی کہہ کر رُکا نہیں تھا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔
ولی نے جا کر بیسن کا نل کھولا اور منہ پر پانی کے چھیٹے مارے اُسےلگ رہا تھا جیسے غصے سے اُس کا چہرہ جل رہا ہو دو تین بار ولی نے منہ پر پانی کے چھیٹے مارے اور وہی بیسن پر اپنے دونوں ہاتھ جما کر کھڑا ہو گیا۔
"کس قسم کی لڑکی ہے یہ دھمکی دو تو ہنستی ہے یا بدلے میں دھمکی دیتی ہے۔"ولی نے نوراں کے بارے میں سوچا اور پھر سر جھٹک دیا۔
"مجھے کیا جو مرضی کریں میری بلا سے صرف آج کی رات برداشت کرنا ہے کل تو ویسے بھی جان چھوٹ جاۓ گی۔" ولی نے سوچالیکن کون جانے کل کیسا ہو۔
"ولی خان تم مجھے دھمکا کر میرا حوصلہ اور ہمت اور بڑھاٶ گے۔لیکن آج مجھے اتنی سمجھ تو آ گٸ ہے کہ مجھے تم سے ڈیل کیسے کرنا ہے۔"
"تم سے لڑ کر۔"نوراں نےمسکرا کر کہا۔
                         ******
"تمہیں کیا لگتا ہے نوراں تم ہمارے گھر کی بہو بن کر مجھ سے بچ جاٶ گی ۔نہیں نوراں نہیں شاہزیب خان اپنی بے عزتی نہیں بھولا اب تک اور تب تک یہ بےعزتی کا تھپڑ میرے منہ پر پڑتا رہے گا جب تک میں اُس کا بدلہ نہ لے لوں۔"شاہزیب خان نے اپنے ہاتھ کو اپنے منہ پر پھیرتے ہوۓ کہا۔
"اب کی بار ایسا جال بچھاٶں گا کہ کوٸ چاہ کر بھی تمہیں اُس جال سے نہیں نکال پاۓ گا۔" شاہزیب خان نے نفرت سے بھرے لہجے میں کہا۔
                          ******
ولی نہا کر باہر نکلا تھا ٹراٶزرشرٹ پہنے بالوں کو تولیے سے رگڑتے ہوۓاُس نے سامنے صوفے پر دیکھا تھا جہاں نوراں بیٹھی تھی ۔لیکن اب وہاں کوٸ نہیں تھا۔
"اچھا ہوا چلی گٸ۔"ولی نے کہا اور ساتھ ہی بیڈ کی جانب گھوما۔جیسے ہی نظر بیڈ پر پڑی تو ولی کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔نوراں ولی خان کے بیڈ پر کمبل اُوڑھے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھی دوپٹہ ویسے ہی سر پر لےرکھا تھا۔لیکن وہ سوٸ پڑی بہت معصوم لگ  رہی تھی جیسے کوٸ چھوٹی بچی۔
"او ہیلو یہ کیا بدتمیزی ہے اُٹھو یہاں سے ۔" ولی نے اونچی آواز میں کہا۔لیکن نوراں پر کوٸ اثر نہیں ہوا تھا۔
"او جاہل یہ کیا حرکت ہے یہ میرابیڈ ہے یہاں میں سُوں گا۔"ولی نے ایک بار پھر کہا لیکن نتیجہ وہی صفر۔جس پر ولی کو عجیب سی جھنجھلاہٹ ہوٸ۔
"کس قسم کی لڑکی ہے اتنی جلدی اتنی گہری نیند میں کیسے سو سکتی ہے ی۔"ولی نے تولیہ کرسی پر رکھتے ہوۓ کہا۔ولی نے اپنی طرف سے نوراں کو اُٹھانے کی لاکھ کوشش کی لیکن بے سود ۔آخر تنگ آکر ولی نے بیڈ کی دوسری جانب سے تکیہ اُٹھاکر صوفے پر پھینکا اور الماری سے کمبل نکال کر صوفے پر لیٹ گیا۔لیکن صوفے پر لیٹنا بھی کسی جہاد سے کم نہیں تھا۔کیونکہ صوفہ ولی کے لیے بہت چھوٹا تھا۔اگر ٹانگیں اُپر کرتا تو سر نیچے لٹک جاتا اور اگر سر اُپر کرتا تو ٹانگیں نیچے لٹک جاتیں۔
                          ******
الله أكبر کی آواز علی پور کی فضاٶ میں گونجی تھی۔ایک نٸ صبح کا آغاز ایک نٸ امید کا آغاز تھا۔بشیر احمد کے گھر خاموشی کا راج تھا صبح کی ویرانی سے بشیر احمد کو وحشت ہو رہی تھی۔نوراں کی آواز اُس کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔رجو وضو کر کے آٸ اور عادت کے مطابق نوراں کو نماز کے لیے آواز دی۔جب کوٸ آواز پلٹ کرنہ آٸ تو رجو کو اپنی کمزور یاداشت پر افسوس ہوا اب بھلا کون آواز دیتا اب کون اُسے تنگ کرتا تنگ کرنے والی کو تو کل وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ونی کی بھیڈ چڑھا آٸ تھی ۔رجو نے گہرا سانس لیا خود کو سنبھالا اور بشیر کو مخاطب کیا۔
"نوراں کے ابّا مسجد نہیں جانا ؟"رجو نے کہا۔
"نہیں آج سے میں گھر پر ہی نماز ادا کیا کروں گا ۔"بشیر نے کہا۔
"لیکن !"رجو کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گٸ۔
"رجو مجھ میں ابھی لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ۔"بشیر نے کہا اور جانماز بچھا کر نماز کی نیت باندھ لی۔رجو نے بشیر کو دیکھا جو دنوں میں بوڑھا ہو گیا تھا۔رجو کی آنکھ سے دو آنسو ٹوٹ کر گال پر گرِے تھے جسے رجو نے اُسی وقت رگڑ کر صاف کر دیا اور رب کے آگے سجدہ کرنے چل پڑی تھی۔
                        *******
الله أكبرکی آواز نوراں کے کانوں میں پڑی نوراں نے آنکھیں ملتے ہوۓ اِدھر اُدھر دیکھا۔کان رجو کی آواز کے منتظر تھےاور منتظر ہی رہے۔نوراں نے وہی لیٹے ہوۓ سوچا۔
"عجب کھیل ہے زندگی کا۔ کل کیا تھی اور آج کیا ہے ۔فقط ایک لمحہ لگتا ہے زندگی بدلنے میں ۔اور پھر آپ وہ نہیں رہتے جو آپ تھے۔"
"جیسےکل تک نوراں کسی کی بیٹی تھی بس اور آج کسی کی بیوی ہے بہو ہے۔"نوراں نے سوچا اور اُٹھ بیٹھی جیسے ہی نظر بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پر پڑی نوراں کے لب بے ساختہ مسکراۓ تھے۔کیونکہ صوفے پر لیٹےولی کی حالت ہی کچھ ایسی تھی ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھے ہوۓ تھاایک ہاتھ اور ایک ٹانگ صوفے سے نیچے لٹک رہی تھی جبکہ دوسری ٹانگ صوفے کے بازو کے اُوپر پڑی تھی۔ بکھرے بالوں میں وہ نوراں کو ایک بار پھر امریکن بندر لگا تھا۔نوراں نے سر جھٹکا اور اُٹھ کر وضو کرنے چلی گٸ ۔وضو کرنے کے بعد اہم کام تھا جاۓ نماز ڈھونڈھنا ۔
نوراں نے اِدھر اُدھر دیکھنے کہ بعد سوچاکہ
"پتا نہیں یہ امریکن بندر نماز پڑھتا بھی ہے یا نہیں ۔"ابھی نوراں نے سوچا ہی تھا کہ سامنے رکھی کرسی پر پڑے تولیے کے نیچے اُسے نظر آٸ نوراں نے جاۓ نماز بچھاٸ اور نماز ادا کرنے لگی۔نماز ادا کرنے کے بعد اُس نےدعا کے لیے ہاتھ بلند کیۓ اور دعا کرنے لگی۔
"اے میرے خالق و مالک ہر ایک کو اپنے حفاظت میں رکھنا۔اے میرے رب میرے باپ کے لیے آسانیاں پیدا کر اُنکی کھوٸ ہوٸ عزت واپس لوٹا دے۔اللہ پاک سچ سب کے سامنے آ جاۓ ۔اور اللہ پاک مجھے ہمت اور توفیق دے کہ میں اپنے سے جڑے نۓ رشتوں کا احترام کر سکوں انکی خوشیوں کی وجہ بن سکوں۔اللہ پاک بیشک تو سب جانتا ہے تو جانتا تھا ولی میرے لیے ہے تو نے ولی خان کو میری قسمت میں لکھا میرے مالک تو اُن کے دل میں میرے لیے جو نفرت ہے اُسے ختم کر دے۔" نوراں نے کہہ کر دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے اور جاۓ نماز سے اُٹھ گٸ۔اور وہاں رکھے ایک چھوٹے سے بیگ کو اٹھا کر بیڈ پر رکھا اور دیکھنے لگی۔یہ وہ بیگ تھا جو بی بی جان نے اُسے بھیجوایا تھا جس میں نوراں کے لیےکپڑے اور کچھ ضرورت کا سامان تھا ۔
                        ******
"بابا جان کیا میں اندر آ سکتی ہوں۔"صوفیہ نے جلال خان سے اجازت چاہی ۔
"آجاٶ صوفی۔"جلال خان نے اجازت دی۔
"سلام بابا جان !سلام بی بی جان!"صوفیہ نے باری باری کہا۔
"وسلام !"جلال خان نے اور بی بی جان نے ایک ساتھ کہا ۔
"بابا مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔" صوفیہ نے کیا۔
"ٹھیک ہے بات بھی کر لینا۔پہلے یہاں آٶ میرے پاس بیٹھو۔" جلال خان نے صوفیہ کواپنے پاس بلایا۔صوفیہ جا کر اپنے بابا جان کے پاس بیٹھ گٸ۔
"اگر کوٸ پرسنل بات ہےتو میں چلی جاتی ہوں۔" بی بی جان نے مزاح کے انداز میں کہا۔
"ارے نہیں بی بی جان بات آپ دونوں سے کرنی ہے ۔"صوفیہ نے جلدی سے کہا۔
"خیریت ہے۔" جلال خان نے پوچھا۔
"جی بابا !خیریت ہی ہے بس وہ یہ پوچھنا تھا کہ کیا آج ناشتے پر تھوڑا اہتمام کرلیں؟"صوفیہ نے پوچھا۔
"ارے تو کر لیں آپکا اپنا گھر ہے جو مرضی کریں۔"جلال خان نے کہا ۔
" وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں ولی لالا اور نوراں کے لیے کہہ رہی تھی۔"صوفیہ نے وضاحت کی۔
"ہاں صوفیہ ضرور اہتمام کرو۔اُسے اِس گھر میں جو اُسکا مقام ہے وہ دو۔ ناشتے کا بھر پور اہتمام کرو آج ہم سب مل کر دونوں کو ناشتے پر خوش آمدید کہیں گے۔" جلال خان نے کہا۔
"شکریہ بابا۔"صوفیہ نےجلال خان کے گلے لگتے ہوۓ کہا ۔
"جلدی کرو مجھ سے تو اب انتظار نہیں ہو رہا ۔" جلال خان نےکہا۔
"چلو میں بھی ساتھ چلتی ہو تمہارے۔"بی بی جان نے کہا۔
"ارے بی بی جان آپ رہنے دیں میں اور زوبیا کر لیں گے سب۔"صوفیہ نے منع کیا۔
"تم دونوں کیوں؟ کیاصرف تم دونوں کی بھابھی آٸ ہے میری بہو نہیں آٸ کیا۔" بی بی جان نے جلدی سے جتاتے ہوۓ کہا۔
"ہم تو بھول گۓ تھے کہ آپکی بہو بھی ہے وہ ہے نہ بابا۔"صوفیہ نے مسکراتے ہوۓ جلال خان سے کہا۔جس پر جلال خان مسکراۓ اور کہا۔
"اگر آج مصطفیٰ یہاں ہوتا تو تم لوگ اُسکے اور زوبیا کے لیے تیاریاں کر رہے ہوتے۔"
"بابا جان اُداس مت ہوں ۔تقدیر میں یہی لکھاتھا۔اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں وہ ہمیں یوں ہنستا مسکراتا دیکھ کر بہت خوش ہونگے۔"صوفیہ نے کہا۔
"بلکل !وہ تو تھا ہی ایسا دوسروں کی خوشی میں خوش ہونے والا ۔" بی بی جان نے کہا۔
جانے والے چلیں جاتے ہیں ۔اپنی یادیں چھوڑکر۔
                        ******
ولی کی آنکھ کھُلی تو آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ بیٹھا۔”کیا مصیبت ہے ۔“ولی نے اپنے کندھے دباتے ہوۓ کہا اور ساتھ ہی کمرے میں نظر دوڑاٸ تھی ۔نوراں وہاں کہیں نہیں تھی ۔ولی نے شکر کا کلمہ پڑھا اور صوفے کی پشت سےٹیک لگادی ۔ابھی کچھ ہی دیر ہوٸ تھی جب نوراں واشروم سے باہر نکلتی ہوٸ نظر آٸ۔
ہلکے گلابی رنگ کےگھٹنوں تک آتے فراک کے ساتھ کیپری پہنے بالوں کو تولیے سے رگڑتے ہوۓ وہ باہر آٸ تھی جیسے ہی نظر سامنے بیٹھے ولی پر پڑی جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا تو نوراں کو شرمندگی ہوٸ تھی اور اُس نے جلدی سے وہاں بیڈ پر پڑی اپنے باپ کی دی ہوٸ چادرکو اُٹھایا اور اپنے گرد لپیٹ لی ۔
ولی نے ابھی تک نظریں نہیں جھپکی تھیں وہ نوراں کے اُلجھے لمبے بالوں میں وہ کہیں کھو گیاتھا۔اُسے لڑکیوں کے لمبے بال بہت پسند تھےاُس نے فضہ کو بھی بہت کہا لمبے بالوں کا لیکن اُس نے کبھی سُنی ہی نہیں ۔اُسے گاٶں کی سادہ سی لڑکی اُس وقت بہت پیاری لگی تھی جیسے کوٸ نازک سی گڑیا ہو۔چہرے پہ بغیر کسے میک اپ کے نور تھا۔
۔
آنکھیں جھکی جھکی چہرے پہ نور ہے
ظالم کی سادگی میں بھی کتنا غرور ہے
۔
نوراں بھی ولی کے مسلسل دیکھنے سے کنفیوز ہو رہی تھی۔اِس سے پہلے نوراں ولی کو ہوش میں لانے کے لیے کچھ کرتی کمرے کا دروازہ بجا تھا ۔
"کون؟"ولی نے سر جھٹک کر کہا۔
"لالا میں ہوں۔"صوفیہ کی آواز آٸ جس پر ولی نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔
"صبح بخیر ۔" صوفیہ نے ولی کے گلے لگتے ہوۓ کہا۔
"صبح بخیر ۔خیریت ہے آج سورج کہا سے نکل آیا۔"ولی نے صوفیہ کی اِس حرکت پر حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔
"ارے کیوں آپکو اچھا نہیں لگا؟"صوفیہ نے کہا۔
"ایسا نہیں ہے ۔لیکن رات کو جو ہوا۔" ولی نےرات والی بات کی طرف اشارہ کیا۔
"میں نے سوچا لالا جو ہوا سو ہوا ۔اب آپ پر یقین کر کے مسکراتے ہیں کہ آپ ہماری یہ مسکراہٹ قاٸم رکھیں گے۔"صوفیہ نے کہا۔
"جو حکم جناب کا۔"ولی نے بھی مسکرا کر کہا۔
"ارے اب پیچھے ہو جاۓ مجھے اپنی بھابھی کو دیکھنا۔"صوفیہ نے ولی کو پیچھے کرتے ہوۓ کہااور آگے بڑھ گٸ جبکہ پیچھے ولی نے حیران ہو کر کہا۔
"بھابھی!"
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ نوراں بہت پیاری لگ رہی ہو۔" صوفیہ نے نوراں کی بلاٸیں لیتے ہوۓ کہا ۔
"میں کہنے آٸ تھی کہ آپ دونوں جلدی سے نیچے آجاۓ گھر کے تمام افراد ناشتے پر آپکا انتظار کر رہیں ہیں۔"صوفیہ نے کہا ۔
"ٹھیک ہے تم لوگ جاٶ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔"ولی نے کہا۔
"تم لوگ نہیں صرف میں جا رہی ہوں آپ لوگوں کو اکھٹے آنا ہے یہ بابا جان کا آرڈر ہے اوکے ۔"صوفیہ کہہ کر باہر چلی گٸ جب ولی نے دروازہ پھر سے بند کیا۔اور سیدھا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا تب جا کر نوراں کی سانس میں سانس آٸ ۔
                        *******
"اللہ اللہ اِس حویلی کے بھی الگ ہی اصول ہیں خون بہا کہ بدلے میں لاٸ جانے والی لڑکی کے لیے اتنا اہتمام ۔"اسفی نے کیچن کے دروازے میں کھڑے ہو کر کہا۔
"کاش اسفی تم میں تھوڑی سی عقل ہوتی تو تم اِس حویلی کے اصولوں کو سمجھ جاتے۔"صوفیہ نے انڈے باٶل میں توڑتے ہوۓ کہا۔
"لیکن پھر بھی یار یہ سب۔"اسفی نے کہا۔
"تو کیا کریں اسفی اُس لڑکی کو ساری زندگی اُس جرم کی سزا دیتے رہیں جو اُس نے کیا ہی نہیں ہے ۔کیا اُسکا خوشیوں پر کوٸ حق نہیں ہے؟"صوفیہ کی بجاۓ زوبیا نے جواب دیا۔
"لیکن ۔"اسفی نےکچھ کہنا چاہا۔
"لیکن یہ کہ مجرم اُسکا باپ تھا اُس نے مصطفیٰ کو ہم سے چھینا اور ہم نے اُس کی بیٹی کو اُس سے تو مجرم کو تو سزا مل گٸ ہے۔"زوبیا نے کہا۔
" کیا ہو رہا ہے بھٸ آج تو صبح ہی صبح رونق لگی ہوٸ ہے۔"شاہزیب نے کیچن میں آکر کہا۔
"رونق کیوں نہ لگے بھٸ گھرمیں دلہن آٸ ہے اُسکا ویلکم کر رہیں ہیں ۔"صوفیہ نے چیڑانے والے انداز میں کہا۔
"دلہن ! مطلب ہماری بھابھی کے لیے یہ سب کیا جا ریا ہے۔"شاہزیب نے کہا۔
"جی۔" زوبیا نے کہا۔
"اور ہاں لالا پلیز رنگ میں کوٸ بھنگ مت ڈالیے گا۔"صوفیہ نے اپنا کام کرتے ہوۓ کہا۔
" کیا کہا ؟میں رنگ میں بھنگ ڈالتا ہوں۔"شاہزیب نے داھاڑ کر کہا۔
"شاہزیب !"پیچھے سے جلال خان کی آواز آٸ۔
"یہاں آٶ بات کرنی ہے۔" جلال خان نے شاہزیب سے کہا۔
"جی بابا سرکار ۔"شاہزیب خان نے ضبط کرکے کہا اور باپ کے پیچھے چل پڑا۔
                         *******
نوراں نے اپنے بال سلجھاۓ اور گیلے ہونے کی وجہ سے ایک ساٸیڈ پر مانگ نکال کرکھُلے چھوڑ دیے فراک کے ساتھ کا ہلکا سا ریشمی دوپٹہ اُس نے اپنے سر پر اوڑھ لیا اور اپنے باپ کی چادر کو شانوں پر ڈال لیا۔اور صوفے پر بیٹھ کر ولی کا انتظار کرنے لگی۔ولی ڈریسنگ روم سے تیار ہو کر باہر آیا۔بیلو جینز پر واٸٹ شرٹ پہنے وہ ایک پُر کشش مرد لگ رہا تھا ۔
ولی نے ڈریسنگ کے سامنے جا کر بالوں کو جیل سے سیٹ کیا اور اپنی پسندیدہ گھڑی اُٹھا کر کلاٸ پر باندھی۔ابھی پر فیوم لگانا باقی تھا۔
"یہ آدمی کتناٹاٸم لگاتا ہے تیار ہونے میں اُف!"نوراں زیرِ لب بڑبڑاٸ۔
"کچھ کہا کیا تم نے ؟" ولی نے پلٹ کر نوراں سے کہا۔
"ہاں!وہ میں کہہ رہی تھی اگر آپکا میک اپ ہو گیا ہو تو چلیں۔"نوراں نے اُسکی تیاری پر چوٹ کرتے ہوۓ کہا۔ولی جو اپنے اوپر پرفیوم سپرے کررہا تھا نوراں کی اِس بات پر تیش میں آ گیا۔
"تم سمجھتی کیا ہو خود کو ۔"ولی نے پرفیوم کی بوتل بیڈ پر اُچھالتے ہوۓ کہا۔
"میں تو خود کو کچھ نہیں سمجھتی لیکن آپ خود کو ضرورکسی سلطنت کا شہزادہ سمجھتے ہیں ۔"نوراں نے کھڑے ہو کر کہا۔
"تم خود کو کچھ سمجھ بھی نہیں سکتی کیونکہ تم صرف علی پور کی ایک آوارہ ،بدتمیز اور بد لحاظ لڑکی ہو۔"ولی نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
"واہ !آپ تو مجھے کافی اچھے سے جانتے ہیں۔جاننا بھی چاہیے آخر اب توہماراتعلق بھی بہت مضبوط ہے۔"نوراں نے کہا۔
”ہاہاہاہا تعلق !تمہارا اور میرا صرف ایک تعلق ہے کہ تم میرے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہواور بس ۔"ولی نے کہا۔
"آپ کے کہنے سےحقیقت بدل تو نہیں جاۓ گی خان صاحب۔"نوراں نےکہا۔
"تم میرے صبر کا امتحان مت لولڑکی اِس کا انجام بہت بُرا ہوگا۔"ولی نے انگلی اٹھا کر نوراں کو وارنگ دی تھی۔اِس سے پہلےنوراں کچھ کہتی دروازہ بجنا شروع ہو گیا۔
"آ جاٶ ۔"ولی نے اجازت دی۔
"آ جاٸیں ولی لالا سب انتظار کر رہیں ہیں ۔"صوفیہ نے دروازہ کھولتے ہوۓ کہا۔
"ہاں چلو چلیں۔" ولی نے اپنا جیکٹ پہنتے ہوۓ کہا۔
صوفیہ نوراں اور ولی کو لے کر ڈاٸنگ ہال میں آٸ تھی۔
"سلام بابا جان ! سلام بی بی جان!"ولی نے کہا اور اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔
"سلام بڑے سرکار!سلام بی بی سرکار!"نوراں نےسلام کیا۔
"وسلام !خوش رہو۔" بی بی جان نے اپنی جگہ سے اُٹھ کر نوراں کو پیار کیا۔
"یہاں بیٹھو۔"بی بی جان نے اپنے اور ولی کی بیچ والی کرسی کھینچتے ہوۓ کہا۔
"شکریہ! بی بی سرکار۔"نوراں نے کہا۔
"ارے یہ کیا نوراں بچے اب تو ہم آپ کے گھر والے ہیں تو آپ ہمیں باقیوں کی طرح بابا سرکار اور بی بی سرکار کو بی بی جان بُلایا کریں۔"جلال خان نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
"جی بابا سرکار۔" نوراں نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔
"اب شروع کریں ناشتہ یا دلہن صاحبہ کی شکل دیکھ کر ہی اپنا پیٹ بھر لیں ۔" شاہزیب نے تلخی سے کہا۔
"جی جی شروع کریں سب۔"زوبیا نے کہا ۔
"ویسے اسفی !تم مانو یا نہ مانو ولی لالا اور نوراں کی جوڑی بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔"صوفیہ نے اپنے سامنے بیٹھے ولی اور نوراں کو بغور دیکھ کر اپنے ساتھ بیٹھے اسفی سے کہا ۔
" تمہیں سچ بتاٶں میں یہی بات تم سے کہنے والا تھا۔" اسفی نے دھیمی آواز میں کہا۔
"بیشک جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں۔"صوفیہ نے کہا۔
" جیسے ہمارا بنا ہے۔"اسفی نے شرارت سے کہا ۔جس پر صوفیہ نے اسفی کے پیر پر اپنا پیر مارا تھا۔جس پر اسفی نے اُسے گھوری سے نوازا۔
"بابا مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔" ولی نے جلال خان سے کہا۔
"کہو کیا بات ہے۔"جلال خان نے پوچھا۔ولی کہنے لگا تھا کہ ولی کا فون بجنا شروع ہو گیا۔
ڈاٸینگ ٹیبل پر پڑے ولی کے فون کی سکرین نوراں کو صاف دیکھاٸ دے رہی تھی جہاں سےوہ با آسانی سکرین پر آنے والا نام پڑھ سکتی تھی۔
"فضہ کالنگ۔"لکھا آرہا تھا۔
"بابا ضروری کال ہے میں ابھی آتا ہوں۔"ولی نے کرسی سے اُٹھتے ہوۓ کہا۔
"ٹھیک ہے میرے کمرے میں آ جانا۔"جلال خان نے کہا۔
ناشتہ کر کے سب اپنی اپنی جگہ سے اُٹھ گۓ تھے ۔جب اسفی نے گلا کنکھار کر نوراں کو مخاطب کیا۔
"سلام بھابھی! مجھے پہچانتی ہیں آپ؟" اسفی نے پوچھا۔نوراں کو اسفی کا بھابھی کہنا عجیب لگاتھا۔
"جی بلکل پہچانتی ہوں بلکہ بہت اچھی طرح سے جانتی بھی ہوں بہت سُنا ہے آپکے بارے میں۔" نوراں نے صوفیہ کی طرف دیکھتےہوۓ کہا۔
"اہم اہم پھر تو آپ سے دوستی کرنی پڑے گی۔" اسفی نے شرارت سے کہا۔
"وہ میری دوست ہے تم کسی اور کو ڈھونڈھ لو۔"صوفیہ نے نوراں کا بازو پکڑتے ہوۓ کہا۔
"ایسا کہاں لکھا ہے جو تمہارا دوست ہو گا وہ میرادوست نہیں ہو سکتا کیوں زوبیا باجی۔"اسفی نے زوبیا کو گھسیٹا۔
"اِس بات کا فیصلہ تو نوراں کرے گی۔کہ وہ کس کی دوست بنے گی ہے نا نوراں۔ "زوبیا نے کہا۔
"بلکل جی بلکل اور میں آپ سب کی دوست بننا چاہتی ہوں۔" نوراں نے کہا۔
"ہمیں آپکی دوستی قبول ہے۔" اسفی نے کہا۔
" چلیں جی اب کام کر لیں ۔"زوبیا نے کہا۔
"چلو مل کر کرتے ہیں مجھے بتاٸیں مجھے کیا کرنا ہے۔"اسفی نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔
"آپ کیچن میں جاۓ وہاں جو سینک میں برتن رکھیں ہیں وہ دھونا شروع کریں ہم اور لے کر آتے ہیں۔"صوفیہ نے اسفی کو کام بتایا۔
"مجھے کسی نے آواز دی ہے۔میں آتاہوں ابھی۔"اسفی نے بھاگنے کا بہانا بنایا۔
"آیابڑا مل کر کام کرتیں ہیں۔"صوفیہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔
"تم نے بھی تو ڈاٸیریکٹ برتن ہی دھونے کا کہہ دیا تھا بیچارا بھگتا نہ تو کیا کرتا۔"زوبیا نے پلیٹس سمیٹتے ہوۓ کہا۔
                           ******
"بابا سرکار!"ولی نے مخاطب کیا ۔
"ہاں بولو ولی کیا بات ہے۔" جلال خان نے پوچھا۔
"میں آج شام واپس اسلام آباد جارہا ہو۔"ولی نے بتایا۔
"کوٸ خاص وجہ؟"جلال خان نے پوچھا۔
"بابا آپ تو جانتے ہیں بزنس ابھی اسٹیبلیش نہیں ہوا اور میرا بہت کام پینڈینگ ہے۔اِس لیے جارہاہوں ۔"ولی نے وضاحت دی۔
"ٹھیک ہے جاٶ میں تمہیں نہیں روکوں گا لیکن اپنی بیوی کو ساتھ لے کر جاٶ ۔"جلال خان نے تحمل سے کہا ۔
"مگر بابا سرکار!"
"بس ولی ہم نے اپنا فیصلہ سُنا دیا ہے اب تم جاسکتے ہو۔"جلال خان نے ولی کی بات کاٹتے ہوۓ کہا۔ولی نے جلال خان کی بات سُنی اور کمرے سے باہر نکل گیا اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ نوراں کو اپنی زندگی سے نکال پھینکے۔
                          ******
"زوبی چاۓ پلا دو اپنے ہاتھوں کی۔" صوفیہ نے فرماٸش کی۔
"میں بناٶں۔"زوبیا کے بولنے سے پہلے نوراں نے کہا۔
"بکل نہیں۔"زوبیا اور صوفیہ نے یک زبان کہا تھا جس پر تینوں ہنس پڑیں۔
"ارے میں اچھی چاۓ بناتیں ہوں۔"نوراں نے کہا۔
"پتا ہیں ہمیں لیکن پھر بھی نہیں ۔"صوفیہ نے کہا۔تینوں کی بحث کیچن میں جاری تھی جب ولی کی آمد ہوٸ ۔
"صوفیہ بی بی جان کہاں ہیں؟"ولی نے پوچھا۔
"وہ اوپر ہیں شاید ۔"صوفیہ نے جواب دیا ۔
"بانو!"ولی نے بانو کو پکارا۔جو برتن دھونے میں مصروف تھی پلٹ کر ولی کی طرف دیکھا۔
"جی چھوٹے خان۔"بانو نے کہا۔
"یہ کام کر کے اوپر بی بی جان کے پاس آنا۔"ولی نے کہا۔
"جی ٹھیک ہے ۔"بانو نے کہا اور دوبارہ اپنے کام میں لگ گٸ۔
"اور تم صوفیہ !ایک کپ چاۓ کا بھیجوا دو میرے لیے۔"ولی نے حکم دیا اور چلا گیا۔
"واہ بھٸ کیا روب ہے بندے کا۔"نوراں نے ولی کا انداز دیکھ کر کہا۔
"چلو نوراں چاۓ بناٶ اپنے بندے کے لیے اور دے کر آٶ ۔"صوفیہ نے نوراں سے کہا۔
"مجھے نہیں لگتا میرے ہاتھ کی چاۓ پسند آۓ گی اور ویسے بھی تم سے کہا گیا ہے۔"نوراں نے کہا۔
"تم بناٶ تو سہی دیکھنا بہت پسند آۓ گی اُنہیں۔"اب کی بار زوبیا نے کہا۔
                          ******
"بی بی جان !مجھے بات کرنی ہے۔"ولی نے ٹیرس پر بی بی جان کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ہاں بولو ولی۔"بی بی جان نے اجازت دی ۔
"بی بی جان میں واپس جانا چاہتا ہوں بابا جان نے اجازت دے دی ہے لیکن وہ اُس لڑکی کو ساتھ لے کر جانے کی بات کر رہیں ہیں۔میں آپکو پہلے ہی بتا چُکا ہوں بی بی جان میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں اور ویسے بھی یہ جاہل گنوار وہاں جا کر کیا کرے گی۔"ولی نے کہا۔
"ولی اگر رشتوں کا احترام نہیں کر سکتے تو کم از کم اُنکی بیعزتی بھی مت کرو اور یہ مت بھولو کہ وہ لڑکی اب تمہارے نکاح میں ہے۔اور ویسے بھی تمہیں اپنے باباسرکار کی بات ماننی پڑے گی اور اگر تم اپنی بات اُن سے منوانا چاہتے ہو توصحیح یہی ہے کہ تم اُنکی بات مان لو تاکہ کل کو وہ تمہاری بات مان سکیں۔"بی بی جان نے کہا۔
"لیکن اُسے ساتھ لے کر جانا۔"ولی نے بات بیچ میں چھوڑی ۔
"تمہاری بیوی ہے وہ ولی۔"بی بی جان نے کہا۔
"ٹھیک ہے بی بی جان ٹھیک ہے لیکن صرف اِس لیے کہ آپ بابا سرکار سے بات کریں گی کہ مجھے فضہ  پسند ہے اور میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔"ولی نے کہا۔
"حالات کچھ صحیح ہو جاٸیں پھر کریں گےہم اِس بارے میں بات ابھی آپ صرف اپنے بابا کا حکم مانے۔"بی بی جان نے کہا۔
"چھوٹے خان آپ نے بُلایا تھا۔"بانو نے ٹیرس پر آکر کہا۔
"ہاں مجھے کچھ کام کروانا ہے کمرے میں۔"ولی کہہ کر اُٹھ گیا۔
"کب نکلو گے ولی۔“بی بی جان نے پوچھا۔ ”شام میں بی بی جان۔"ولی نے کہا۔
"ٹھیک ہے ۔بانو تم سکینہ بی(بانو کی ماں) سے کہنا کہ تیاری کر لے ولی اور نوراں کے ساتھ شہر جانے کی۔"بی بی جان نے بانو سے کہا۔
"جی بڑی سرکار۔"بانو نے کہا۔
"تم آٶ میرے ساتھ۔"ولی بانو کو کہہ کر چل پڑا اور بانو بھی ولی کے پیچھے ہولی۔
"اے میرے مالک سب اچھا کرنا۔"بی بی جان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
                       *******
"اُف لڑکی اب چل بھی پڑو۔"صوفیہ نے نوراں سے کہا جو چاۓ پکڑے کھڑی تھی۔
"یار صوفیہ تم لے جاٶ مجھے ابھی بیعزتی کروانے کا بلکل شوق نہیں ہو رہا۔"نوراں نے کہا۔
"تو تم ولی لالا سے ڈرتی ہو۔"صوفیہ نے کہا۔
"ڈرتی وہ بھی اُس سے بلکل نہیں۔"نوراں نے کہا۔
"تو پھر ثابت کرو۔"صوفیہ نے نوراں سے کہا۔
" جا رہی ہو۔"نوراں نے کہا اور ولی کے کمرے کی جانب چل پڑی ۔کمرے کے دروازے پر پہنچ کر نوراں نے دروازہ کھولنے کے لیے ہینڈل پر ہاتھ رکھاتھا جب ولی کی آواز اندر سے سُناٸ دی۔
"اِس بیڈ شیٹ کو چینج کرو باتھ روم کے تولیے چینج کرو وہ بالوں والا برش بھی اُٹھا کر باہر پھینک دینا۔"ولی نے بانو کو ہدایت دی۔
"لیکن یہ سب کچھ تو کل ہی تبدیل کیا ہےمیں نے چھوٹے خان بڑی سرکار کے کہنے پر۔"بانو نے ہیچکیچاتے ہوۓ کہا۔
"جتنا کہا ہے اُتنا کرو مجھے اُس جاہل کی چھوٸ ہوٸ ایک چیز بھی اپنے کمرے میں نہیں چاہیۓ۔"ولی نے کہا۔اندرآتی نوراں نے ولی کی بات سُنی تھی اور پھروہی سے واپس ہوگٸ تھی اور نیچے جاتی سیڑیوں میں بیٹھ گٸ تھی ۔ولی کے الفاظ اُسکے کان میں گونجے تھے۔
"مجھے اُس جاہل کی چھوٸ ہوٸ ایک چیز بھی اِس کمرے میں نہیں چاہیۓ۔"
"تم علی پورکی ایک آوارہ ،بدتمیز لڑکی ہو ۔تمہارا اور میرا تعلق صرف یہ ہے کہ تم میرے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہو بس۔" ولی کی آواز نوراں کے کانوں میں گونجی تھی۔نجانے کیوں نوراں کو ولی کے الفاظ سے دُکھ پہنچا تھا۔اُس نے بے اختیار اپنے ہاتھوں کو دیکھتا تھا جس سے اُس نے ولی خان کے کمرے کی چیزوں کو چھوا تھا۔پھراُس نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑا تھا جیسے کچھ مٹانا چاہ رہی ہو۔
کتنی ہمت ہوتی ہےنہ سننے والوں میں ، کتنا اختیار ہوتا ہےنہ بولنے والوں کا ، اور کتنی بےبسی ہوتی ہے سہنے والوں کی۔“
اِس لمحے نوراں بی بےبس کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ اُسے اپنے باپ کے کےلیے یہ سب سہنا تھا۔
”کیا ہوا یہاں کیوں بیٹھی ہو؟“صوفیہ اپنے کمرے کے جانب جا رہی تھی جب اُس نے سیڑیوں میں بیٹھی نوراں کو دیکھا۔
”ویسے ہی کیوں یہاں بیٹھنا منع ہے کیا؟“نوراں نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
”نہیں منع تو نہیں ہے ۔“صوفیہ نے نوراں کے پاس ایک سٹیپ نیچے بیٹھتے ہوۓ کہاتو تبھی اُس کی نظر چاۓ کی کپ کی طرف گٸ جو نوراں ولی کے لیے لاٸ تھی۔
”ارے تم نے لالا کو چاۓ نہیں دی؟“صوفیہ نے پوچھا۔
”نہیں ۔“نوراں نے جواب دیا۔
”کیوں ؟“صوفیہ نے ایک اور سوال پوچھا۔
”کیونکہ یہ ویسی نہیں ہے جیسی وہ پیتے ہیں۔“نوراں نے کہا اور چاۓ کا کپ اُٹھا کے کھڑی ہو گٸ۔
”کہاں؟“صوفیہ نے نوراں کو آواز دے کر پوچھا۔
”کپ رکھ کر آتی ہوں۔“نوراں نے کہا اور کیچن کی جانب بڑھ گٸ۔
”یا اللہ پاک اِس رشتے کو اب ہمیشہ قاٸم رکھیے گا ۔دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیےمحبت ڈال دے میرے مالک۔دونوں کو اِس جہان کی ساری خوشیاں عطا کر۔“صوفیہ نے اللہ سے نوراں اور ولی کے لیے دعا کی اور بی بی جان کے کمرے کی طرف چل پڑی ۔
                          ******
”بڑی سرکار آپ نے یاد کیا تھا۔“سکینہ بی خان حویلی کی ملازمہ نے بی بی جان کے کمرے میں آکر کہا۔بی بی جان جو اپنے پلنگ سے ٹیک لگاۓتسبیح کرنے میں مصروف تھی۔اشارے سےسکینہ بی کو اندر آنے کا کہااور تسبیح ساٸیڈ پر رکھ دی ۔
”کیسی ہو سکینہ۔“بی بی جان نے پوچھا۔
”آپکی دعا ہے بی بی سرکار۔“سکینہ بی نے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھتےہوۓ کہا۔
”تم سے ایک ضروری کام ہے سکینہ۔“بی بی جان نے کہا۔
”آپ حکم کریں بی بی سرکار۔“سکینہ بی نے کہا۔
”تمہیں بانو نے بتا دیا ہوگا سب کہ تمہیں چھوٹے خان اور چھوٹی بی بی کے ساتھ شہر جانا ہے۔“بی بی جان کہہ کر خاموش ہو گٸ۔
”جی مجھے بانو نے بتا دیا تھا میں نے تیاری بھی کر لی ہے جب نکلنا ہو آپ مجھے بتا دیجیۓ گا میں اور جمال (سکینہ بی کا بیٹا)حاضر ہو جاۓ گے۔
”ٹھیک ہے۔لیکن تمہیں وہاں جاکر نوراں کا ہر طرح سےخیال رکھنا ہے تم تو جانتی ہو ولی کو وہ کس قدر ضدی ہے تمہارے سامنے وہ پلا بڑا ہے عورت پر ہاتھ نہیں اُٹھاتا لیکن وہ اپنے الفاظ سے دوسروں کودکھ دینے میں ماہر ہے ۔اور پھر اُنکی شادی جن حالات میں ہوٸ ہے اُس میں ولی سے کسی بھی قسم کی توقع کی جا سکتی ہے۔جبکہ ولی کے مقابلے میں نوراں ایک سُلجھی ہوٸ اور ہمت والی بچی ہے لیکن پھر بھی تم کسی بھی قسم کی اونچ نیچ پر فوراً حویلی اطلاع  بھیجواٶ گی۔“بی بی جان نے سکینہ بی کو ساری ہدایت دی ۔
”بی بی جان آپ فکر مت کریں اللہ پاک سب بہتر کرے گا ۔“سکینہ بی نے کہا ۔
”ٹھیک ہے اب تم جاٶ اور جمال سے بھی کہہ دو شام تک تیاری کر لے۔شام کو نکلیں گے وہ دونوں۔“بی بی جان نے کہا۔
”جیسا آپ کہیں بی بی جان۔“سکینہ بی کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گٸ جب پیچھے سے بی بی جان نے آواز دی۔
”سکینہ!“
”جی بڑی سرکار۔“سکینہ بی نے پلٹ کر کہا۔
”جاتے جاتے نوراں کو میرے کمرے میں بھیجتی جانا۔“ بی بی جان نے کہا۔
”جی ٹھیک ہے۔“سکینہ بی کہہ کر کمرے سے باہر نکل گٸ۔
سکینہ بی خان حویلی کی خاص اور پرانی ملازمہ تھیں اُنکے دو بچے تھے بانو اور جمال ۔سکینہ بی کوجوانی میں ہی بیوگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔تب جلال خان نے سکینہ اور اُسکے بچوں کی ذمہ داری لی تھی اُنکو پڑھایا لکھایا تھا ۔انکو اپنی حویلی میں رہنے کے لیے کواٹر فراہم کیا گیا تھا۔اِس لیے سکینہ بی کو ولی اور نوراں کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیاتھا تاکہ وہ دونوں بچوں کا خیال رکھ سکیں اور تمام تر حالات سے بی بی جان اور جلال  خان کو آگاہ کر سکیں۔
”ارے واہ آج سکینہ بی آٸ ہیں۔خیریت ہے؟“بی بی جان کے کمرے کی طرف جاتی ہوٸ صوفیہ نے سکینہ بی کو دیکھ کر بولا۔
”جی وہ بڑی سرکار نے بلایا تھا کام کے سلسلے میں۔“ سکینہ بی نے جواب دیا ۔
”اوہ! اچھا۔۔۔میں زرا آتی ہوں مجھے بی بی جان سے کام ہے۔“صوفیہ نے سکینہ بی سے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گٸ۔
”بی بی جان سکینہ بی خیریت سے آٸ تھی۔“صوفیہ نے اندر آتے ہی بی بی جان سے سوال کیا۔
”ہاں جی کام تھا اُن سے ہمیں۔“بی بی جان نے اپنی تسبیح اُٹھاتے ہوۓ کہا۔
”کیا کام تھا؟“صوفیہ نے بی بی جان کے پاس بیٹھ کر کہا۔بی بی جان کو مصطفیٰ کےجانے کے بعد آج پُرانی والی صوفیہ نظر آٸ تھی ہر وقت بولنے والی ہروقت لڑنے والی  سوال پر سوال کرنے والی۔بی بی جان نے صوفیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ سوچ رہیں تھیں جب صوفیہ نے پھر سے بی بی جان کو آواز دی۔
”ارے بی بی جان کہاں کھو گٸ؟“
”کہیں نہیں ۔تم کہو کیا کہہ رہی تھی۔“بی بی جان نے مسکرا کر کہا۔
”میں یہ کہہ رہی تھی کہ سکینہ بی سے کیا کام تھا آپکو۔“صوفیہ نے پھر پوچھا۔
”ہاں وہ سکینہ بی ولی اور نوراں کے ساتھ شہر جا رہیں ہیں یہی بتانے کے لیے بلایا تھا۔“بی بی جان نے آنکھیں بند کر کے بیڈ کراٶن سے ٹیک لگاتے ہوۓ کہا۔
”کیا مطلب ہے آپ نوراں کو لالا کے ساتھ بھیج دیں گی ؟“صوفیہ نے حیرت سے پوچھا ۔
”ہاں جی۔“بی بی جان نےآنکھیں کھولے بغیر کہا۔
”لیکن بی بی جان ۔“ صوفیہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی جب بی بی جان ٹیک چھوڑ کر اُسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور کہا۔
”صوفیہ !یہ ہی دونوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایک ساتھ رہیں اور آپ جانتیں ہیں اگر ولی اِس بار اکیلے گۓتواُنکی واپسی بہت مشکل ہے۔“
”شاید آپ ٹھیک کہتی ہیں بی بی جان ۔شاید یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا کاش نوراں کے حصے میں یہ سزا نہ آتی۔“صوفیہ نے بی بی جان کی گود میں سر رکھتے ہوۓ کہا۔
”اللہ پاک کی یہی رضا تھی۔“بی بی جان نے صوفیہ کہ سر میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔
                          *****
”اللہ پاک میرے لیے آسانیاں پیدا کر مجھےاتنی ہمت اتناحوصلہ دے میرے رب کہ تلخ رویوں کو سہہ سکوں میں اِن سخت  لہجوں برداشت کر سکوں۔“نوراں اپنے دونوں ہاتھوں کو شلف پر رکھے سر کو جھکاۓ کھڑی جب کسی نے اُسے آواز دی۔
”نوراں!“
سکینہ بی نے نوراں کو پکارا۔
”ارے سکینہ بی آپ۔کیسی ہیں؟“ نوراں نے پلٹ کرسکینہ بی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
”میں ٹھیک ہوں نوراں۔تو کس قدر خوبصورت لگ رہی ہے۔“سکینہ بی نے نوراں کو دونوں گالوں سے پکڑتے ہوۓ کہا۔
”ارے سکینہ بی یہ تو آپکا پیار ہے۔“نوراں نے مسکرا کر کہا۔
”جتنی تم خوبصورت ہو میری بچی اللہ تمہارے نصیب بھی اتنے ہی اچھے کرے۔“سکینہ بی نے نوراں کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوۓ کہا۔
”آمین۔“نوراں نے مسکرا کر کہا۔

تمہیں بڑی سرکار اپنےکمرے میں بُلا رہیں ہیں۔“سکینہ بی نے نوراں کو بی بی جان کا پیغام دیا۔
”ٹھیک ہے میں جاتی ہوں اُنکے پاس۔“نوراں نے کہا اور بی بی جان کے کمرے کی طرف چل پڑی۔
                          ******
نوراں بی بی جان کے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھے جب کسی نے اُسکی کلاٸ تھام کر اُسے پیچھے کھینچا تھا جس کی وجہ سے اُسکا دوپٹہ سر سے سِرک کر کندھوں پر آ گرا تھا۔جس کی وجہ سے اُسکے کُھلے بال بکھر گۓ تھے اور اُسکی گوری رنگت پر اُسکے کھُلے بکھرے بال بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔
”بہت خوبصورت لگ رہی ہیں بھابھی جان ۔“ شاہزیب نے بھابھی جان پر زور دیتے ہوۓ کہا۔
”ہاتھ چھوڑو میرا بیغیرت آدمی۔“نوراں نے ہاتھ چھوڑوانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا مگر بے سود ۔
”ارے میں نے آپ کو اتنی عزت سے بلایا ہے اور آپ کیا مجھے بیغیرت کہہ رہیں ہیں کتنی بُری بات ہے یہ۔“شاہزیب نے شہد سےمیٹھے لہجے میں کہا۔
”تم اور عزت کیا اچھا لطیفہ ہے۔“نوراں نے تنظ کرتے ہوۓ کہا۔
”ارے اگر ہم اپنے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی کو عزت دے سکتے ہیں تو کیا آپ اپنے شوہر کے بھاٸ کو عزت نہیں دے سکتی۔“شاہزیب نے تنظیہ لہجہ اپناتے ہوۓ کہا۔
”وہ دن دور نہیں شاہزیب خان جس دن تم مجھے بھی اور میرے باپ کو بھی عزت دو گے آٸ سمجھ ۔“ نوراں نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوۓ کہا۔لیکن شاہزیب خان کی گرفت اُسکے ہاتھ پر مزید سخت ہوگٸ تھی ۔جس سے نوراں کی کراہ نکلی تھی ۔
”تم اپنے کیۓ کا حساب دو گی  اپنے منہ سے کہے ایک ایک لفظ کا حساب تم دو گی نوراں بشیر احمد۔“شاہزیب نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
”ہاتھ چھوڑے لالا۔“پیچھے سے ولی کی غصے سے بھری آواز آٸ تھی جو نجانے کب وہاں آکھڑا ہوا تھا۔
                          ******
جاری ہے۔۔۔۔۔
G tu episode Hazir ha ...
ab mujhy achay achay feedback day ta ky ma next b jaldi sy publish karo...😊
۔
۔

اگر آپ بہت ساری مصیبتوں سے گزر رہے ہو
تو ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ستارے کبھی اندھیرے کے بنا نہیں چمکتے۔۔۔۔
                                              جزاك اللهُ‎
التماسِ دعا آپکی پیاری
                                سیدہ فاطمہ نقوی
                           ❤❤❤

میں لڑکی عام سی(مکمل)Where stories live. Discover now