Episode # 10

561 34 17
                                    

ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:١٠
۔
"بابا آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔"زوبیا جب سے آٸ تھی احمد صاحب کی گود میں سر رکھ کے باتیں کر رہی تھی اور احمد صاحب خاموشی سے سُن رہے تھے ۔
"ہممم ۔"احمد صاحب نے زوبیا کی بات پر کہا۔
"بابا آپ خاموش کیوں ہیں؟آپ کو میرے واپس آنے کی خوشی نہیں ہوٸ کیا؟"زوبیا نے سوال کیا۔
"ارے میری گڑیا ایسی کوٸ بات نہیں ہے میں تو صرف تمہیں سُن رہا ہوں۔"احمد صاحب نے جھٹ سے کہا۔
"بابا آپ کو پتا ہے خان حویلی پر ویرانی نے ڈیرہ جما لیا ہے کوٸ کتنا ہی مسکرانےکی کوشش کر لے لیکن اُسکی مسکراہٹ میں چھپی ویرانی اور اُداسی نظر آ جاتی ہے۔"زوبیا نے کہا۔
"جانتا ہوں بیٹا۔جوان لاش جس گھر سے نکلتی ہے نا اُس گھر کی اُداسیاں اور ویرانیاں ختم ہونے میں صدیاں لگ جاتیں ہیں ۔اور اگر جانے والا ہی سب کی مسکراہٹ کا سبب ہو تو پھر پیچھے رہ جانے والوں کی اذیت وہ ہی جانتے ہیں ۔"احمد صاحب نے کہہ کر زوبیا کی طرف دیکھا تھا جو آنکھیں بند کیۓ سراُنکی گود میں رکھے لیٹی تھی ۔اِن بند آنکھوں کے پیچھے کی اذیت سے احمد صاحب واقف تھے لیکن وہ چاہ کے بھی اپنی بیٹی کی یہ اذیت کم نہیں کر سکتے تھے۔انہوں نے زوبیا کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اپنا سر بھی بیڈ کراٶن سے ٹیکا دیااور آنکھیں موند لیں ۔
*****
نوراں آج صبح سے کوٸ چوتھی بار پانی کی بوتل بھر کر ٹی وی لاٶنج کے ٹیبل پر رکھ چُکی تھی ۔اور اگلے گھنٹے ہی وہ بوتل نوراں کو خالی ملتی۔بخار کے باعث نوراں کی سفید رنگت سرخ ہو چکی تھی ۔
"نوراں بیٹی مت خود کو تھکاٶ تمہاری طبیعت مزید خراب ہو جاۓ گی ۔"سکینہ بی نے نوراں کو کام سے روکتے ہوۓ کہا۔
"آپ پریشان مت ہوں سکینہ بی میری طبیعت کو کچھ نہیں ہوتا بس آپ جلدی سے صادق چچا کو بُلا لاٸیں۔"نوراں نے فریج سے چکن کے پیکٹ نکالتے ہوۓ کہا۔سکینہ بی نے افسوس سے سر جھٹکا اور صادق کو بُلانے چلی گٸ۔کچھ ہی دیر میں صادق اور سکینہ بی دونوں کیچن میں کھڑے تھے۔
"آپ نے بُلایا بیٹی۔"صادق نے پوچھا۔
"ہاں جی چچا مجھے آپ کی تھوڑی مدد چاہیۓ تھی۔"نوراں نے اپنا رُخ صادق کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔
"جی حکم کریں آپ۔"صادق نے کہا۔
"اچھا چچا یہ بتاٸیں یہاں آس پاس کوٸ بُک سٹور ہے؟"نوراں نے پوچھا۔
"ہاں جی ہے۔ لیکن کیوں؟"صادق نے حیران ہوکر پوچھا جبکہ سکینہ بی نے بھی حیرت سے نوراں کو دیکھا تھا۔
"ارے اتنا حیران کیوں ہو رہیں ہیں میں نے بُک سٹور کا ہی تو پوچھا ہے۔"نوراں نے صادق اور سکینہ بی کی حیرانگی دیکھ کر کہا۔
"اچانک یہ بُک سٹور کہا سے آ گیا نوراں۔"سکینہ بی نے پوچھا۔
"ارے سکینہ بی آپکی نوراں کوٸ ماسٹر شیف تو ہے نہیں ۔اور جن ڈیشیز کے نام خان صاحب دے کر گۓ ہیں اُنکی ترکیب آۓ گی توہی کھانا بنے گا نا ۔اِس لیے بُک سٹور کا پوچھا تاکہ وہاں سے چاٸینز ڈیشیز کی ریسپی بُک منگوا سکوں۔"نوراں نے کہا۔
"تم نے جو بھی کہا ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آیا۔پتا نہیں کیا شیف اور کیا ریسپی؟"سکینہ بی نے کہا جس پر سکینہ اور صادق مسکراۓ تھے۔
"ارے سکینہ بی آپکو سمجھ نہیں آیا تو کیا ہوا مجھے تو سمجھ آ گیا نا بس میں ابھی گیا اور ابھی آیا کھانے پکانے کی کتاب لے کر۔"صادق نے کہا۔
"یہ ہوٸ نا بات اب چچا آپ جلدی سے جاٸیں اور جلدی سے آٸیں۔"نوراں نے صادق سے کہا جس پر صادق نے فوراًعمل کیا۔
"ویسے نوراں بنانا کیا ہے۔"سکینہ بی نے پوچھا۔نوراں نے سامنے شیلف پر پڑا ہوا نوٹ پیڈ اُٹھایا اور پڑھنا شروع کیا۔
"رشین سیلیڈ،چکن فراٸیڈ راٸس،چکن منچورین اور۔"
"یہ کیسے کھانے ہیں جن کا کوٸ ڈھنگ کا نام ہی نہیں ہے۔"سکینہ بی نے نوراں کو بیچ میں ٹوکتے ہوۓ کہا۔
"ارے سکینہ بی یہ تو ابھی بہت سادے کھانے ہیں ابھی تو بہت سے ایسےہیں جن کا نام سُننے کو اوردیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔"نوراں نےنوٹ پیڈ واپس شیلف پر رکھا اورکہا۔
"وہ تو مجھے نام سُن کر ہی اندازہ ہو گیا ہے۔"سکینہ بی نے منہ بنا کر کہا۔
"ہاہاہا آپ سوچیں میں زرا بوتل لے آٶں خالی ہو گٸ ہوگی۔"نوراں نے مسکرا کر کہا اور کیچن سے باہر چلی گٸ۔
*****
"سلام بی بی جان!"صوفیہ نے لان میں بیٹھی بی بی جان کو دیکھ کر کہا۔
"وسلام !آٶ بیٹھو۔"بی بی جان نے سلام کا جواب دینے کے بعد صوفیہ سے کہا۔
"لیں جی بیٹھ گٸ۔"صوفیہ نے کرسی پربیٹھ کر کہا۔
"تیاری ہوگٸ؟"بی بی جان نے پوچھا۔
"ہاں جی تیاری تو ہوگٸ ہے۔لیکن ہم اسلام آباد کے لیے کب نکلیں گے۔؟"صوفیہ نے کہا۔
"ایک دو دن تک ۔لیکن دعا کر وہاں جا کر سب کچھ اچھا رہے۔"بی بی جان نے کہاتھا۔بی بی جان کے لہجے میں صوفیہ کو پریشانی محسوس ہوٸ تھی ۔
"خیریت ہے بی بی جان آپ پریشان لگ رہیں ہیں؟"صوفیہ نے پوچھا۔
"پریشان تو ہوں۔" بی بی جان نے کہا۔
"کیا بات ہے کیوں پریشان ہیں؟"صوفیہ نے بھی پریشانی سے پوچھا۔
"ولی کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے۔"بی بی جان نے کہا۔
"کیا کہہ رہی ہیں آپ یہ؟"صوفیہ نے پریشانی اور حیرانگی کے ملے جلے تاثرات سے کہا۔
"سچ کہہ رہیں ہوں۔"بی بی جان نےکہا۔
"آپ کو کیسے پتا چلا ؟"صوفیہ نے سوال کیا۔
"مجھے ولی نے خود بتایا تھا جس دن وہ واپس آیا تھا۔"بی بی جان نے کہا۔
"بابا سرکار جانتے ہیں؟"صوفیہ نے ایک اور سوال کیا۔
"کچھ دن پہلے ولی کا فون آیا تھا کہہ رہا تھاکہ میں تمہارے بابا سرکار کو اُس لڑکی کے لیے مناٶں ورنہ وہ نوراں کو چھوڑ دے گا ۔اِس لیے مجھے تمہارے بابا سرکار سے بات کرنی پڑی۔"بی بی جان نے کہا۔
"ولی لالا پاگل ہوگۓ ہیں اتنی اچھی بیوی ملنے کے بعد بھی وہ کسی دوسری عورت کواپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچ رہیں ہیں ۔اور بابا سرکار نے کچھ نہیں کہا اِس بارے میں؟"صوفیہ نے غصے سے کہا۔
"تمہارے باباسرکار نے صرف اتنا کہا ہے کہ وہ ولی سے خود بات کریں گے اسلام آباد پہنچ کر ۔"بی بی جان نے کہا۔
"اللّٰہ جی !اگر یہ سب ہی کرنا تھا تو اُس معصوم اور بےگناہ کو کیوں ونی کی بھیڈ چڑھا دیا بابا سرکار نے ۔نجانے یہ بات اُسکے علم میں ہے یا نہیں۔"صوفیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال جکڑتے ہوۓ کہا۔
"اللّٰہ پر یقین رکھو وہ سب کے حق میں بہتر کرے گا۔"بی بی جان نے کہا اور وہاں سے چلی گٸیں۔
*****
نوراں خراب طبیعت کے ساتھ ہی کیچن میں ہلکان ہو رہی تھی اور سکینہ بی کو اُس کی اِس حالت پر ترس آ رہا تھا ۔کیا تھی وہ ونی کی بھیڈ چڑھنے والی ایک بدنصیب لڑکی ،ماں باپ سے دور ایک بیٹی ،شوہر کے لیۓ فقط ایک باندی۔آخر کیاتھی وہ زندگی نے اُس کے ساتھ کیا کیا کچھ نہیں کیا لیکن اُس نے اُف تک نہیں کی۔ باپ کی محبت میں باپ کی زندگی کی خاطر ونی کی بھیڈ چڑھ گٸ لیکن خدا سے اور اپنی زندگی سے ایک گلہ تک نہیں کیا ۔شوہر نے جیسا کہا ویسا کیا اُس کا ہر تنظ ہر طنعہ خاموشی سے برداشت کیا لیکن کبھی قسمت کو نہیں کوسا۔سکینہ بی کیچن میں رکھی ایک چھوٹی میز کےگرد رکھی ایک کرسی پر بیٹھی نوراں کو کام کرتا دیکھ کر سوچ رہی تھیں۔
"نوراں ایک بات پوچھوں۔"سکینہ بی نے نوراں کو مخاطب کر کے کہا۔نوراں جو بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بناۓ ڈوپٹہ گلے میں ڈال کر پیچھے سے باندھے کباب فراٸ کررہی تھی کہ سکینہ بی کے سوال پر پیچھے موڑ کر دیکھا اور کہا۔
"پوچھیں سکینہ بی۔"
"زندگی سے کوٸ گلہ نہیں ہے ،قسمت سے کوٸ شکوہ نہیں ہے۔"سکینہ بی نے پوچھا۔تبھی ولی ہاتھ میں پانی کی خالی بوتل لیۓ کیچن میں داخل ہونے لگا تھا جب سکینہ بی کا سوال اُس کے کانوں میں پڑا اور وہ وہی باہر ہی کھڑا ہو گیا۔سکینہ بی کے سوال پر نوراں ہلکا سا مسکراٸ اور کہا۔
"کیسا گلہ ؟کیسا شکوہ سکینہ بی؟"نوراں نے کہا۔
"زندگی نے تم سے اتنی قربانیاں مانگیں ہیں ۔قسمت نے تمہارے ساتھ اتنے کھیل کھیلیں ہیں تو کیا کبھی خدا سے شکوہ نہیں کیا ؟"سکینہ بی نے پوچھا ۔
"اُس خدا سے کیسا شکوہ اور کیسا گلہ سکینہ بی جس نے مجھے بنایاجو مجھے ستر ماٶں سے ذیادہ محبت کرتا ہے اُس سے کیسا شکوہ اُس سے کیسا گلہ ۔جو میرے مستقبل سے واقف ہے جو وہ جانتا ہے جو میں نہیں جانتی۔جو یہ جانتا ہے کہ میرے حق میں کیا بہتر ہے کیا نہیں اُس سے کیسا گلہ اُس سے کیسا شکوہ ۔اُس سےتو بس التجا ہے کہ اِس آزماٸش میں مجھے ثابت قدم رکھے ۔اُس سے تو بس یہی گزارش ہے کہ اگر میں کہی لڑکھڑا کر گر جاٶ تو مجھے سنبھال لیں ۔اگر میں ٹوٹ جاٶں تو میرے وجود کے ٹکڑے سمیٹنے کی طاقت اور قوت مجھے عطا کر دے۔اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ٹوٹنے نہیں دے گا ۔اور آپ دیکھۓ گا میرا یہ یقین مجھے میرے حصے کی خوشیوں تک لے جاۓ گا۔بیشک وہ خدا اپنے بندے سے اُس کی استطاعت سے بڑھ کر امتحان نہیں لیتا۔"
نوراں نے ہر ایک لفظ پورے یقین اور اطمینان سے کہا تھا ۔جس پر سکینہ بی مسکراٸ تھیں کیونکہ آج اُن کو نوراں کے ہر وقت مسکراتے رہنے کی وجہ سمجھ آگٸ تھی ۔"بیشک جو اپنے معاملات اللّٰہ کے سپرد کر دیتے ہیں وہ اپنی زندگی مطمعن اور پرسکون ہو کر گزارتے ہیں۔"ولی نے نوراں کی بات سُنی تھی اور وہی سے واپس ہو گیا تھا ۔دل پر ایک بوجھ سا آ گرا تھا۔لیکن اُسی ٹاٸم اُسکا فون بجنے لگا تھا ۔ولی نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے فون نکالا اور اٹینڈ کر لیا۔
*****
"خان صاحب ،خان صاحب !"حویلی کا ایک ملازم بھاگتے ہوۓ جلال خان کے پاس آیا تھا ۔جو اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مہمان خانے میں بیٹھے تھے۔
"کیا ہوا فضل ایسے ہانپ کیوں رہے ہوں؟" جلال خان نے فضل کے پھولے ہوۓ سانس کو دیکھ کر کہا۔
"وہ خان جی گھر کے نمبر پر کسی کا فون آیا ہے وہ نہ تو اپنا نام بتا رہا ہے اور نہ ہی کچھ اور بس ایک ہی بات کر رہا ہے کہ اُسے مصطفیٰ خان سے بات کرنی ہے۔"فضل نے بتایا ۔
"ٹھیک ہے تم چلو ہم آتے ہیں اُس سے بات کرتیں ہیں۔"جلال خان نے کہا اور پھر اپنے تمام دوستوں سے معذرت کر کے حویلی کے اندر چلے گۓ جہاں صوفیہ اور بی بی سرکار پہلے ہی فون کے پاس بیٹھیں تھیں۔
"کون ہے؟"جلال خان نے پوچھا۔
"پتا نہیں بابا سرکار آواز سے تو پہچانا نہیں جا رہا اور نام پتا وہ بتا نہیں رہا۔"صوفیہ نے بتایا اور فون کے پاس سے اُٹھ گٸ ۔
جلال خان نے صوفیہ کی جگہ بیٹھ کر فون کان سے لگایا اور اپنی رُعب دار آواز میں سلام کہا۔
"اسلام علیکم!"
دوسری جانب سے کچھ دیر بعد ایک آدمی کی آواز سناٸ دی تھی۔
"وسلام !بڑے خان کیسے ہیں آپ؟"
"ہم ٹھیک ہیں اللہ کے کرم سے آپ کی تعریف ؟"جلال خان نے سوال کا جواب دینے کے بعد سوال کیا ۔
"خان صاحب مصطفیٰ لالا نے تو ہمیں بھلا کر بےمروتی دیکھاٸ ہے آپ تو کم ازکم ایسا مت کریں۔"فون پر موجود دوسری جانب والے شخص نے کہا۔
"اگر میں غلط نہیں ہوں تو تم راشد بات کر رہے ہو۔"جلال خان نے پہنچانتے ہوۓ کہا۔راشد کا نام سُن کر بی بی جان اور صوفیہ کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آٸ تھی۔
"شکر ہے مالک کا عزت رکھ لی اُس نے۔"راشد نے کہا۔
"کیسے ہو برخوردار؟آج ہماری یاد کیسے آ گٸ ؟جلال خان نے مسکرا کر کہا۔
"یاد تو اُنکو کیا جاتا ہے سرکار جو بھولے ہوں آپ تو مجھے کبھی بھولے ہی نہیں ویسے بھی آپ کو اور مصطفیٰ لالا کوکوٸ بھول بھی نہیں سکتا ۔"
"بہت باتیں کرنے لگے ہو برخوردارخیریت تو ہے۔"جلال خان نے پوچھا۔
"باتیں تو کروں گا ہی میری اور مصطفیٰ لالا کی محنت جو رنگ لے آٸ ہے ۔"راشد نے کہا۔
"میں کچھ سمجھا نہیں تم کہنا کیا چاہتے ہو؟"جلال خان نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"حق تو پہلے مصطفیٰ لالا کا ہے کہ وہ یہ خوشی کی خبر سُنےاگر آس پاس ہیں تو بُلا لیں اکھٹے سُنادیتا ہوں۔"راشد نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔
"تم نہیں جانتے مصطفیٰ کہاں ہے؟"جلال خان نے حیرانگی سے پوچھا۔
"وہ علی پور میں ہیں اور میں لاہور میں اور پیچھلے ڈھاٸ ماہ سے میری اُن سے بات بھی نہیں ہوٸ تو مجھے کیسے پتا ہو گا کہ وہ کہاں ہیں۔"راشد نے کہا۔راشد کی بات سُن کر جلال خان نے کچھ نا کہا بس خاموش رہے جس پر راشد نے پھر سے بولا شروع کیا۔
"آپ بُلا لیں مصطفیٰ خان کو پھر میں اکھٹے سُناتا ہو خوشخبری ۔"راشد نے کہا۔
"مصطفیٰ کا انتظار کرو گے تو یہ خوشخبری کبھی کسی کو نہیں سُنا سکو گے ۔"جلال خان نے سرد آہ بھرتے ہوۓ کہا۔
"مطلب!"راشد نے نا سمجھی سے پوچھا۔
"مطلب چھوڑو خبر سُناٶ بہت عرصہ ہوا کوٸ خوشی کی خبر نہیں سُنی رہی بات مصطفیٰ کی تو اُسے تم یہاں آکر بتا دینا تب تک اُسے یہ خبر کوٸ نہیں بتاۓ گا۔"جلال خان نے کہا۔
"چلیں تو پھر سُنیں خبر یہ ہے کہ ہماری علی پور میں پولیس چوکی بنانے کی درخواست منظور کر لی گٸ ہے کچھ دنوں میں عارضی تھانہ تیارہو جاۓ گا جب تک ایک مکمل عمارت تیار نہیں ہوتی اور گاٶں کے سرپنچ کو بھی حکومت کی طرف سے نوٹس بھجوا دیا گیا ہے کہ اب اِس گاٶں میں فیصلے کرنے کا اختیار سرپنچ کو نہیں ہو گا کسی کو بھی کسی بھی قسم کی شکایت کے لیے سرپنچ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہو گی اور نہ ہی گاٶں میں دقیانوسی روایات کی بنا پر کوٸ فیصلہ مانا جاۓ گا اب ہمارے گاٶں اور اُنکے آس پاس کے گاٶں اور علاقوں کو پولیس تحفظ فراہم کرے گی۔"راشد اپنی بات کہہ کر خاموش ہو گیا جب جلال خان بولے۔
"کیا ایک عام آدمی پولیس پر اعتماد کر سکتا ہے ؟کیا پولیس ہم جیسوں کو انصاف دیلواۓ گی؟کیا وہ عدل و انصاف کے داٸرے میں رہ کر اپنے فراٸض سر انجام دیں گے؟"
"دیکھیے خان صاحب ہر ادارے میں اچھے اور بُرے لوگ ہوتے ہیں کچھ بُرے لوگوں کے باعث ہم پولیس پر اعتماد کرنا نہیں چھوڑ سکتے ۔ایک بار پولیس کا ڈر علاقے میں پھیل گیا تو آپ دیکھیۓ گا ہمارے علاقے سے جراٸم کتنی حد تک کم ہو جاٸیں گے ۔پھر کم از کم ہمیں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ونی کی بھیڈ نہیں چڑھانا پڑے گا ۔کوٸ بھی منہ اُٹھا کر ہمارے باپ بھاٸیوں کو قتل نہیں کر جاۓ گا۔اور آپ بے فکر ہو جاٸیں علی پور تھانے کا چارج انسپکڑ راشد سنبھالے گا اور اپنی پوری ایمانداری سے سنبھالے گااور پھرجب ترقی ہوگی تو پھر پورے علاقے میں چارج بھی سنبھالیں گے ان شاء اللہ۔"راشد نے کہا۔
" ان شاء اللہ! اللہ پاک یہ نیا راستہ ہم سب کے لیےمبارک کریں اور تمہیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔"جلال خان نے دل سے دعا دی تھی۔
" ان شاء اللہ جلد ملاقات ہوگی اپنا خیال رکھیۓ گااور مصطفیٰ لالا کو سلام کہیے گا اور شادی کی بہت بہت مبارک باد دیجیۓ گا۔الله حافظ۔"راشد نے کہا۔
"اللہ نگہبان۔"جلال خان نے کہا اور فون رکھ دیا۔
"راشد تھا ؟کیا کہہ رہا تھا ؟"بی بی سرکار نے فون بند ہوتے ہی پوچھا۔
"مصطفیٰ کا خواب پورا ہونے کی خوشخبری سُنا رہا تھا ۔"جلال خان نے نم آنکھوں سے کہا۔
"کون سا خواب ؟"بی بی سرکار نے پوچھا۔
"علی پور کی دقیانوسی روایات کو علی پور سے باہر نکال پھینکنے کاخواب ۔"جلال خان نے کہا اور اُٹھ کر چلے گۓ کیونکہ اب انہیں مصطفیٰ سے ملنا تھا تاکہ وہ راشد کا سلام اُس تک پہنچا سکیں۔
"یا رب تیرا شکر ہے۔"بی بی جان اور صوفیہ نے یک زبان ہو کر کہا۔
*****
"سکینہ بی،سکینہ بی!"ولی سکینہ بی کو آوازیں دیتا ہوا ٹی وی لاٶنج میں پہنچاتھا۔جہاں نوراں پانی کی بھری بوتل میز پر رکھ کر اپنے بازو میز پر ٹیکاۓ کھڑی تھی ۔
سفید کرتے شلوار میں ملبوس بالوں کاڈھیلا سا جوڑا بناۓ دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ آنکھیں بند کیۓوہ وہاں کھڑی تھی۔ولی کو ایسا محسوس ہوا تھا جیسے وہ بیمار ہے ۔ولی نے نوراں کے پاس آ کر گلہ کنکھارا۔جس پر نوراں نےآنکھیں کھول کر ولی کی جانب دیکھا تھا۔
نوراں کی آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہو رہیں تھیں جنہیں دیکھ کر ولی کو تکلیف ہوٸ تھی ۔ولی کے کچھ نہ بولنے پر نوراں نے ولی سے کہا۔
" کھانا تیار ہے جب مہمان آ جاٸیں تو بتا دیجیۓ گا کھانا لگا دیں گے ۔" نوراں نے کہا اور کیچن کی طرف چلی گٸ ۔جبکہ ولی وہی بُت بنا کھڑا رہا ۔
*****
"سلام !احمد صاحب ۔"راشد نے فون پر کسی کو مخاطب کیا۔
"وسلام! راشد صاحب خیریت ہے آج ہم کیسے یاد آ گۓ۔"احمد خان نے کہا۔
"جی سر خیریت ہے ۔بس کچھ دنوں تک واپس جارہا ہوں گھر تو سوچا جاتے ہوۓ آپ سے مل کر آپ کا شکریہ ادا کرتا جاٶں آخر ہماری کامیابی کے پیچھے آپ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔"راشد نے کہا۔
"ارے ایسا نہیں ہے جوان یہ تو تم لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہے ۔تم شکریہ کرنے آ رہے ہو تو مت آنا ہاں اگر ویسے ملنے آنا چاہتے ہو تو ضرور آٶ موسٹ ویلکم مجھے بہت خوشی ہوگی۔"احمد خان نے کہا۔
"ٹھیک ہے سر آپ ایڈریس مجھے میسج کر دیں میں ان شاء اللہ ایک دو دن تک چکر لگاتا ہوں ۔"راشد نے کہا۔
"ٹھیک ہے جوان پھر ملتے ہیں۔ في أمان الله۔"احمد خان نے کہا۔
" في أمان الله سر۔"راشد نے بھی مسکرا کر کہا اور فون بند کر دیا۔
*****
ولی بالوں کو جیل سے سیٹ کیۓ بلیو پینٹ کے ساتھ واٸٹ شرٹ اور بلیو ہی جیکیٹ پہنے اپنی پوری تیاری کے ساتھ لان میں بیٹھا کسی کا انتظار کر رہا تھا ۔لیکن ذہن بھٹک بھٹک کے نوراں کی سُرخ آنکھوں کی جانب جا رہا تھا ولی جتنا اِس خیال کو جھٹکتا یہ خیال اُتنا ہی ولی کو تنگ کرتا۔
"اُسکی آنکھیں اِس قدر سُرخ کیوں تھیں ؟کیا مجھے جا کر پوچھنا چاہیۓ ؟"ولی نے سوچا اوراُٹھ کھڑا ہوا تبھی دروازے سے ایک گاڑی اندر داخل ہوٸ تھی ۔ولی وہی رُک کر گاڑی کو دیکھنے لگا۔تبھی گاڑی میں سے دو نوجوان اُترے دونوں خوبصورت اور پُر وقار شخصیت کے حامل تھے ۔دونوں ہی بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس آنکھوں پر چشمے لگاۓ ولی کی طرف بڑھے تھے ۔ولی نےدونوں کو ہی سنجیدہ تاثرات کے ساتھ دیکھا تھا۔
"ہاۓ مسڑ ولی!"دونوں میں سے ایک نے ولی کے آگے ہاتھ بڑھا کر کہا تھا۔
"ہاۓ مسڑ خاور !اینڈ ویلکم ٹو ہوم۔"ولی نے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا۔
"تھینکس! میٹ آور نیو بزنس پارٹنر مسڑ ڈیویڈ سمتھ۔"خاور نے اپنے ساتھ والے شخص کا تعارف کروایا۔
"ہیلو مسڑ ڈیویڈ !"ولی نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا۔
"ہاۓ مسڑ ولی۔"ڈیویڈ نے بھی خوشدلی سے ہاتھ ملایا۔
"آٸیے اندر چلتے ہیں۔"ولی نے ہاتھ کے اشارے سے دونوں کو اندر چلنے کا کہا۔
*****
صوفیہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تھی گود میں لیپ ٹاپ رکھا تھا ۔جس پر وہ مصطفیٰ خان کی تصویر دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی باتیں بھی کر رہی تھی ۔مصطفیٰ کی ایک تصویر پر آ کر صوفیہ کا ہاتھ رُک گیا تھا ۔تصویر مصطفیٰ کی مہندی سے دو دن پہلے کی تھی جس دن مصطفیٰ فیشل کروا کر آیا تھا اور اس بات پر صوفیہ نے اُس کو خوب چیڑایا تھا ۔
"لالا نوراں کو میں نے جانتے بوجھتے ہوۓ ایک دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُسے نکالنا اب آسان نہیں ہے ۔ولی لالا نے اگر کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا تو میں خود کا سامنا کیسے کروں گی۔لالا سچ کا بوجھ مجھے اندر ہی اندر ختم کر دے گا۔"صوفیہ نے کہا اور تصویر سامنے سے ہٹا دی کیونکہ اُسے مصطفیٰ سے شرم آٸ تھی کہ اُس کی بہن نے وہ کیا جس کا کبھی مصطفیٰ نے گمان بھی نہیں کیا ہوگا۔
لیپ ٹاپ بند کرنے سے پہلے صوفیہ نے ساری میلزچیک کرنا شروع کی تھیں جواُس نے پیچھلے ڈھاٸ ماہ سے چیک نہیں کی تھیں ۔
میل باکس کھولتے ہی جیسے ہی اُس کی نظر پہلی میل پر پڑی صوفیہ حیران رہ گٸ تھی۔
مصطفیٰ کی میل تھی جو آج سے ایک ہفتہ پہلے کی تھی۔
صوفیہ نے جلدی سے میل کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔کیونکہ آج سے پہلے کبھی مصطفیٰ نے صوفیہ کو کوٸ میل نہیں بھیجا۔
"سلام!گڑیا۔۔۔میلز چیک کرتی رہا کرو کوٸ کام کی بھی ہوتی ہے۔یہ میل تمہیں ولی کا اسلام آباد والا گھر مکمل تیار ہونے کے بعد ملے گی ۔کام کی بات یہ ہے کہ میں تمہیں اُس گھر کی سیر کرواٶں گا اور پھر تم ولی کو اُس گھر کی سیر کرواٶ گی ۔کیونکہ بھٸ شادی کے بعد میں مصروف ہو جاٶں گا نا اِس لیے ولی کی سیر تمہارے زمے۔سیر کا طریقہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ تم ولی کے گھر کی سیر میری ڈاٸری پڑھ کر کرو گی۔لیکن لیکن لیکن مسلہ یہ ہے کہ ڈاٸری تمہیں میرے کمرے سے ڈھونڈنی پڑے گی نیلے رنگ کا کور ہے اُس کا اور ملے گی میرے کمرے میں سے ہی لیکن ایگزیکٹ کہاں یہ مجھے یاد نہیں ہے تب تک یاد آ گیا تو بتا دوں گا۔اور مجھے مل گٸ تو خود تمہیں دے دوں گا ۔یہ میل میں نے تمہیں کیوں کی یہ مجھے بھی نہیں پتا دل نے کہا کر دو تو کر دی ۔لکھنا تو خط چاہتا تھا لیکن پھر سوچا خط کا تو رواج ہی نہیں ہے ۔تو اِس لیے ڈیجیٹل خط بھیج دیا۔مجھے ولی کے ریکشنز بتانا گھر دیکھنے کے بعد کے کیونکہ کچھ چیزیںِ ایسی ہیں جو اُسے ایریٹیٹ کریں گی جیسے نیلا اور گلابی رنگ 😛۔ٹھیک ہے اب میں تھک گیا ہوں اور نہیں لکھا جا رہا ۔الله حافظ۔"صوفیہ نے میل پڑھی اور کافی دیر تک اُس کو دیکھتی رہی ۔کیونکہ شاید یہ اُسکے لالا کی اُسکے ساتھ آخری گفتگو تھی ۔صوفیہ نے ہاتھ بڑھا کر سکرین کو چھوا تھا ۔اور ساتھ ہی آنسو آنکھوں سے چھلکے تھے ۔کچھ دیر رونے کے بعد صوفیہ باہر کی طرف بھاگی اور ساتھ ہی بانو کو آوازیں دینے لگی ۔
"بانو ،بانو !"
"جی صوفیہ بی بی خیریت ہے ۔"بانونے کہا۔
"ہاں خیریت ہے جلدی سے کام ختم کر کے مصطفیٰ لالا کے کمرے میں آٶ ۔"صوفیہ نے کہا اور وہی سیڑیوں سے واپس ہو گٸ۔
*****
ولی اپنے مہمانوں کے ساتھ ڈراٸنگ روم میں بیٹھا تھا جب سکینہ بی وہاں آٸ تھی سکینہ بی نے اندر آ کرسلام کیااور ولی کو کھانا لگنے کابتاکر باہر چلی گٸ ۔
"چلیں کھانا ریڈی ہے۔"ولی نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر کہا ۔ولی کے کھڑے ہونےکے بعد خاور اور سمتھ بھی کھڑے ہوگۓ تھے اور ولی کے ساتھ ڈاٸنگ روم کی طرف چل پڑے تھے۔
******
"مجھے وہ ساری فاٸلز چاہیۓ جو مصطفیٰ نے تمہارےپاس رکھواٸ ہے۔"شاہزیب خان آفس میں اپنے سامنے بیٹھے شخص پر دھاڑا تھا۔
"اپنی آواز نیچے رکھ کر بات کرو شاہزیب خان میں تمہارا ملازم نہیں ہوں جو تمہاری بدتمیزی برداشت کروں گا۔"سامنے بیٹھے شخص نے غصے سے کہااور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
"تم مجھے سختی کرنے پر مجبور کر رہےہو وکیل صاحب جو میں نے مانگا ہے وہ مجھے دے دو اور بات ختم کرو۔"شاہزیب نے بھی کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔
"میں آپ کو وہ پیپرز تب تک نہیں دے سکتا جب تک جلال خان اور ولی خان مجھے نہیں کہتے۔"وکیل نے کہا۔
"میں بھی جلال خان کا بیٹا ہوں۔"شاہزیب نے اپنے قدم وکیل کی جانب بڑھاتے ہوۓ کہا۔
"جانتاہوں کہ آپ بھی جلال خان کے بیٹے ہیں مگر افسوس کہ وہ آپ پر اعتبار نہیں کرتے شاہزیب خان صاحب ۔"وکیل نے کہا اور آفس سے باہر نکل گیا ۔وکیل کی باتیں شاہزیب کو تیش دِلاگٸ تھیں اور اُس نے وہاں پڑی ہر چیز تہس نہس کر دی تھی ۔
******
"واٶ !مسٹر ولی کھانا بہت مزے کاتھا ۔"خاور نے کھانے سے فارغ ہوکر کہاتھا۔
"شکریہ یار۔"ولی نے بھی نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوۓکہااور سکینہ بی کو آواز دی ۔
"سکینہ بی!"
نوراں اور سکینہ بی کیچن میں بیٹھی تھی کہ سکینہ بی کو بانو کا فون آ گیا اور وہ کیچن سے باہر فون سُننے چلی گٸ ۔تبھی ولی کی آواز آٸ تھی ۔نوراں نےکچھ دیر سوچا کہ باہر جاۓ یا نہ تبھی ولی کی آواز دوبارہ آٸ۔
"سکینہ بی!"
تو نوراں نے اپنا دوپٹہ صحیح کیا اور داٸنگ روم کی جانب بڑھ گٸ۔
"کچھ چاہیۓ ؟"نوراں نے ڈاٸنگ ہال میں آ کر کہا ۔نوراں کو دیکھ کر ولی کے ماتھے پر بل پڑے تھے لیکن اُس نے اپنے غصے کو قابو میں کرتے ہوۓ کہا۔
"اچھی سی چاۓ بنا کر ڈراٸنگ روم میں بھیجوا دو۔"ولی کے کہتی ہی نوراں واپس کیچن کی طرف بڑھی تھی۔ نوراں کو دیکھ کر خاور کچھ حیران ہوا تھالیکن خاموش رہا ۔جبکہ سمتھ نے ولی کو مخاطب کیا اور پوچھا۔
"Who is she wali?"
سمتھ کے پوچھنے پر ولی اور خاور نے سمتھ کی طرف دیکھا۔جبکہ کے کیچن کی جانب جاتی نوراں کے قدم بھی وہی رُک گۓتھے ۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اُس کے قدم کیوں رُک گۓ شاید وہ سُننا چاہتی کہ ولی اُس شخص سے کیا کہے گا۔
"

میں لڑکی عام سی(مکمل)Where stories live. Discover now