Episode # 13

583 41 11
                                    

ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:١٣

نوراں نیچے کیچن میں سر جھکاۓ بیٹھی تھی آنکھیں غم کی شدت سےلال ہو چُکی تھی۔دل کی تکلیف حد سے سوا تھی ۔اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اُسے وہاں چوٹ آے گی جہاں کوٸ مرہم کام نہیں کرےگا۔لیکن وہ صبرکے اُس مقام پر تھی جہاں ایک آنسو آنکھ سے نہیں بہا۔
"نوراں یہاں کیا کر رہی ہو؟"بی بی جان نے نوراں کو دیکھ کرکہا۔بی بی جان کی آواز پر نوراں نے خود کو سنبھالا تھا اور بی بی جان کی جانب دیکھ کرکہا۔
"کچھ نہیں بی بی جان بس یہ کپ رکھنے آٸ تھی۔آپ کو کچھ چاہیۓتھا ؟"
"پانی چاہیۓ تھا وہی لینے آٸ تھی میں۔"بی بی جان نے کہا۔نوراں نے جلدی سے پانی کا بھرا جگ اُٹھایا اور بی بی جان کی طرف بڑھی۔
"آۓ میں رکھ آتی ہوں پانی۔"نوراں نے کہا۔
"نہیں تم جا کر آرام کرو میں یہ لے جاٶ گی۔"بی بی جان نے نوراں کے ہاتھ سے جگ لیتے ہوۓکہا۔
"ٹھیک ہے بی بی جان !شب بخیر۔"نوراں نے کہا اور کیچن سے باہر آگٸ ۔اور اُوپر کی جانب قدم بڑھا دیۓ۔
*****
ولی بیڈ کراٶن سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا جب شاہزیب کی آواز اُسے پورے کمرے میں گونجتی ہوٸ محسوس ہوٸ تھی۔"تمہاری بیوی پر پورا گاٶں عاشق ہے ۔"ولی نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھےتھے نجانے کیوں اُسے شاہزیب کے اِس جملے سے تکلیف ہوٸ تھی ۔تبھی نوراں کمرے کادروازہ کھول کر اندر داخل ہوٸ تھی ۔ولی کی نظر نوراں پر تھی تبھی نوراں نے ولی کی طرف دیکھا تھا ۔ایک لمحے کے لیۓ دونوں کی نظریں ملیں تھی لیکن الگے ہی لمحے دونوں نے اپنی نظروں کا رُخ تبدیل کر لیا تھا ۔ولی کا دل چاہا تھا کہ وہ نوراں کو جنجھوڑ کر پوچھ لے کہ سچ کیا ہے۔ کیا وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے؟یا کوٸ اُس سے محبت کرتاہے ؟لیکن ہر بار کی طرح اِس بار بھی انّا آڑے آ گٸ تھی۔نوراں نے بھی ولی سے کوٸ بات نہیں کی کیونکہ وہ فیصلہ کر چُکی تھی کہ اُسے کیا کرنا ہے اور صوفے پر لحاف اوڑھ کر لیٹ گٸ۔
بڑا دشوار ہوتا ہے!

زرا سا فیصلہ کرنا
کہ جیون کی کہانی کو
بیانِ بے زبانی کو
کہاں سے یاد رکھنا ہے
کہاں سے بھول جانا ہے

کِسے کتنا بتاناہے
کس سے کتنا چھپانا ہے
کہاں رو رو کے ہنسنا ہے
کہاں ہنس ہنس کہ رونا ہے

کہاں آواز دینی ہے
کہاں خاموش رہنا ہے
کہاں رستہ بدلنا ہے
کہاں سے لوٹ جانا ہے

بڑا دشوار ہوتا ہے

******
صبح کی روشنی اسلام آباد پر چھا چُکی تھی۔لیکن آج روشنی عام دنوں کی نسبت کچھ کم تھی ۔کیونکہ آج آسمان پر بادلوں نے بھی اپنا ڈیرہ جما رکھا تھا۔آج کا دن زندگیوں میں کون سا رنگ بھرے گا اور کون سا نہیں اِس سے سب انجان تھے۔
سب نیچے ٹی وی لاٶنج میں موجود تھے۔جب جلال خان نے باہر لان کی جانب جاتی ہوٸ نوراں کو آواز دی۔
"نوراں!"
نوراں نے پلٹ کر جلال خان کی طرف دیکھا اور کہا۔
"جی بابا سرکار !"
"یہاں آٶ !"جلال خان کی بجاۓ بی بی جان نے نوراں سے کہا۔نوراں نے اچھا کہا اور بی بی جان کی جانب بڑھ گٸ ۔
"یہاں بیٹھو نوراں ۔"بی بی جان نے اپنے پاس اشارہ کرتےہوۓ کہا۔نوراں نے پہلے بی بی جان کو بغور دیکھا اور پھر بغیر کچھ کہے بیٹھ گٸ۔
"تمہارے ابّا نے تمہارے لیۓ کچھ بھیجوایا تھا لیکن مجھے دینا یاد ہی نہیں رہا ۔"بی بی جان نے اپنے پاس رکھےایک چھوٹے بیگ سے کچھ نکالتےہوۓ کہا۔
"می۔۔۔می۔۔۔میرےابّا نے ۔"نوراں نے لڑکھڑاتی ہوٸ زبان سے کہا۔
"ہاں نوراں تمہارے ابّانے ۔"صوفیہ نے پیچھے سے نوراں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کرکہا تبھی بی بی جان نے رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں نوراں کے آگے کی تھی۔چوڑیاں دیکھ کر نوراں کی آنکھ سے آنسو چھلکے تھے۔کیونکہ اُسے ہمیشہ سے ہی کانچ کی چوڑیاں پسند تھی لیکن یہ بات اُس کے علاوہ کوٸ نہیں جانتا تھا۔آج تک نوراں نے کانچ کی چوڑیاں نہیں پہنی تھیں صرف اُنکے ٹوٹ جانے کے خوف سے ۔
"نوراں تم تو کبھی نہیں روتی یار تو پھر آج کیوں رو رہی ہو۔"صوفیہ نے نوراں کا کاندھا دبا کر کہا۔
"کچھ نہیں بس ابّا اماں کی یاد آگٸ تھی۔"نوراں نے کہا اور ہاتھ بڑھا کر بی بی جان سے چوڑیاں تھامی تھیں۔
"یاد آرہی ہے تو تیاری کر لو واپسی ہم تمہیں ساتھ لے کرگاٶں جاٸیں گے۔کیوں بابا سرکار؟"صوفیہ نے آخر میں جلال خان سے تاٸید چاہی۔
"ہاں ہاں بلکل نوراں تم ہمارے ساتھ چلو گی."جلال خان نے کہا۔
"جیسا آپ کہیں بابا سرکار۔"نوراں نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوٸ تبھی جلال خان نے نوراں کو پکارا۔
"نوراں! ولی سے بولو جلدی تیار ہوکر آۓ نیچے آۓ ۔"
"جی بابا سرکار۔"نوراں نے کہا اور سیڑیوں کی جانب بڑھ گٸ ۔
"ولی سے بات ہوٸ آپ کی؟"بی بی جان نے نوراں کے جاتے ہی جلال خان سے پوچھا۔
"ہوٸ تھی۔"جلال خان نے کہا۔
"تو کیا کہا اُس نے؟" بی بی جان نٕے پریشانی سے پوچھا۔
"وہی ضدہے اُس کی ۔"جلال خان نے کہا۔
"آپ نے اجازت دے دی؟"بی بی جان کی بجاۓ صوفیہ نے پوچھا۔
"اُسےکسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے صوفی۔لیکن پھر بھی میں نے اُسےکہا ہے کہ اگر نوراں اجازت دے دےتو کر لو شادی ۔"جلال خان نے کہا۔
"لیکن بابا سرکار!"صوفیہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن جلال خان نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا۔
"لیکن کچھ نہیں ۔۔۔اب اِس پر کوٸ بحث نہیں ہوگی۔واپس آجاۓ پھر سوچے گے کہ کیا کرنا ہے۔ابھی جاٶ اور جا کر شاہزیب کو اُٹھا کر آٶ۔"جلال خان نے کہا۔
*****
ولی صوفے پر بیٹھا جوتے کے تسمیں باندھنے میں مصروف تھا جب نوراں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوٸ تھی ۔نوراں نے اندر آ کر ولی کو دیکھا اور دروازے میں ہی کھڑے ہوۓ کہا۔
"نیچے آ جاۓ بابا سرکار بُلا رہیں ہیں ۔"
نوراں کے کہنے پر ولی نے نظریں اُٹھا کر نوراں کو دیکھا تھا ۔کل والے کالے رنگ کے سیلوٹ زدہ سوٹ پہنے بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں باندھےاور دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ سُرخ آنکھیں لیۓ ولی کے سامنے کھڑی تھی ۔نوراں کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ولی کو کچھ ہوا تھا ۔
"تمہاری آنکھیں!"
"جلدی آ جاۓ بابا سرکار انتظار کر رہے ہیں۔"نوراں نے ولی کی بات کو بیچ میں کاٹا اور اپنی بات دہرا کر باہر چلی گٸ ۔ولی کو نوراں کا یہ رویہ کچھ عجیب لگا تھا ۔
*****
"اسلام علیکم سر!"راشد نے کسی سے فون پر کہا۔
"وسلام! کیسے ہو جوان؟"دوسری جانب والے نے کہا۔
"آپ کی دعا ہیں سر ۔آپ بتاۓ آپ کیسے ہیں؟"راشد نے جواب کے بعد سوال کہا۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں ۔تم بتاٶ کیسے یاد کیا؟اور ہاں یہ مجھے سر سر کہنا بند کرو میں تم سے سینیر ہوں لیکن سر تو نہیں ہوں بھٸ تمہارا۔"دوسری جانب والے نے کہا۔
"ہاہاہا میں توآپ کو عزت دےرہا تھا نہیں چاہیۓ تو ٹھیک ہے۔"راشد نے مسکرا کر کہا ۔
"ہاہاہاہاہا یہ بھی صحیح ہے جناب ۔اب بتاۓ کیسے یاد کیا؟"دوسری جانب والے نے کہا۔
"بس دل کر رہاتھا کسی دوست سے بات کرنے کا تو آپ کو فون کر لیا۔"راشد نے کہا۔
"بہت اچھا کیا۔ تو بتاٶ کہا پہنچی ہے ٹرینگ۔"راشد کے دوست موحد نے پوچھا۔
"سب ختم ہو گیا بس اب تو چارج سنبھالنا باقی رہ گیا ہے۔"راشد نے خوش ہو کر کہا۔
"واہ یہ توبہت اچھی بات ہے۔یہ بتاٶ گھر پر سب سے زیادہ کسے یاد کیا اِن کچھ مہینوں میں۔"موحد نے کہا۔
"سب کو ۔"راشد نے کہا۔
"ہاہاہاہا جی نہیں یہ تو سراسر جھوٹ ہے تم نےایک تو مصطفیٰ لالا کو بہت یاد کیا ہے اور کسی اور بھی کیا ہے لیکن میں اُسے جانتا نہیں ہوں۔"موحد نے راشد کو چھیڑتے ہوۓ کہا۔
"مصطفیٰ لالا کی تو واقعی بہت یاد آٸ ۔نجانے کیوں اتنے مہینوں میں اُنہوں نے کوٸ رابطہ کیوں نہیں کیا۔"راشد نے سوچتے ہوۓ کہا۔
"وہ تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے ہوں گے نا یار۔"موحد نے کہا۔
"ہو سکتا ہے۔"راشد نے سر آہ بھرتے ہوۓ کہا۔
"اب بتاٶ دوسرے نمبر پر کسےیاد کیا؟اور ہاں سچ بتانا۔"موحد نے پھر سے وہی سوال کیا۔
"ہمممم دوسرے نمبر پر اپنے ٹریکٹر کو ۔"راشد نے ہنستے ہوۓ کہا دوسری جانب موحد کا قہقہ بھی بے ساختہ تھا۔
"تم نہیں سُدھروں گے۔"موحد نے کہا۔
"ارے اب تو سچ بولا ہے یار۔"راشد نے معصومانہ انداز میں کہا۔
"سچ تو کہا لیکن بیچ کی بات تو پھربھی کھا گیا۔"موحدنے کہا۔
"کھانے سے مجھے کھانا یاد آ گیا یار ۔چلو پھر بعد میں بات کرتے ہیں۔"راشد نے بہانہ بنایا۔
"ٹھیک مگر کھاکھا کر اپنی توند نہ نکلوا لےنا۔"موحد نے کہا اورفوراً سے پہلے فون کاٹ دیا۔موحد کی اِس حرکت پر راشد نے فون کو کان سے ہٹا کر دیکھا تھا جہاں کال ڈسکنکٹنگ لکھا آ رہا تھا۔راشد دیکھ کر مسکرایا اور فون کوساٸیڈ پر رکھ دیااورکچھ سوچنے لگا۔
موحد راشد کو ٹرینگ سنٹر میں ملا تھا موحد اُس سے سینیر تھا ۔موحد نے بہت ساری جگہوں پر راشد کا دوست بن کر مدد کی تھی اور آہستہ آہستہ دونوں میں گہری دوستی ہو گٸ تھی ۔جو موحد کی ٹرینگ ختم ہونے کے بعد ویسے ہی قاٸم تھی۔
*****
صوفیہ نے زوردار دھماکے کے ساتھ شاہزیب کے کمرے کا دروازہ کھولا اور شاہزیب کو اُٹھانے کےلیے اندر داخل ہوٸ۔جو اُوندھے منہ بیڈ پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔
"لالا اُٹھے بابا سرکار بُلا رہیں ہیں۔"صوفیہ نے شاہزیب کے بیڈ کے پاس کھڑے ہو کر آواز دی تھی ۔جسکا شاہزیب پر کوٸ اثر نہیں ہوا تھا۔
"لالا اُٹھے ۔"صوفیہ نے اب کی بار شاہزیب کے منہ سے کمبل اُتار کرکہا ۔جس پر شاہزیب نے پل بھر کےلیے آنکھیں کھولیں تھی اور پھر سے کروٹ لے کر سو گیا تھا۔
"لالا اُٹھ جاۓ ورنہ اب کی بار پانی کا جگ آپکو اُٹھاۓ گا۔"صوفیہ نے دھمکی دے کر کہا اور پھر سے شاہزیب کے اُوپر سے کمبل کھینچا۔
"کیا بدتمیزی ہے صوفی؟"شاہزیب نے آنکھیں مسلتے ہوۓ کہا۔
"ہماری فلاٸیٹ کا ٹاٸم ہو گیا ہے تو بابا سرکار آپکا پوچھ رہیں ہیں ۔"صوفیہ نے کہا۔
"اُن سے کہوں کہ میں اٸیر پورٹ نہیں آ رہا ولی کے ساتھ چلیں جاۓ۔"شاہزیب نے ہنوز لیٹے ہوۓ بند آنکھوں سے جواب دیا۔
"ٹھیک ہے۔"صوفیہ نے کہا اور دروازے کی جانب بڑھ گٸ جب پیچھے سے شاہزیب کی آواز آٸ ۔
"تم یہی چاہتی تھی نہ کہ میں اٸیر پورٹ مت آٶ تم لوگوں کے ساتھ۔"
شاہزیب کی آواز پر صوفیہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا۔
"بلکل میں یہی چاہتی تھی کہ اِس مبارک سفر میں آپ کے ناپاک قدم شامل نہ ہوں۔"
"تم جانتی ہو صوفی تم مصطفیٰ اور ولی سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی ہو۔" شاہزیب نے صوفیہ کی بات کو نظر انداز کیا اور بیڈ کراٶن سے ٹیک لگا کر اپنی بات کہی۔
"سوچ ہے آپ کی۔"صوفیہ نے کہا۔
"بلکل میری سوچ سے بڑھ کر تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔تبھی تو آج تک اپنی زبان کو تالا لگا کر گھوم رہی ہو۔"شاہزیب نے کہا۔
"کہنا کیا چاہتے ہیں؟"صوفیہ نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
"یہی کہ تم مجھ سے اتنی محبت کرتی ہو کہ کسی کو اُس رات کی حقیقت کی بھنک بھی نہیں لگنے دیتی کہ اُس رات مصطفیٰ لالا کے ساتھ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ "شاہزیب نے نے آرام دہ انداز میں کہا۔
"بھول ہے آپ کی کہ یہ سب آپ کی محبت میں کیا ہے میں نے ۔وہ رات وہ لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کس طرح آپ مصطفیٰ لالاکو موت کے گھاٹ اُتار کر بھاگ گۓ تھے ۔میں اِن آنکھوں کو آج بھی نوچتی ہوں جن آنکھوں سے میں نے ایک بھاٸ کو دوسرے بھاٸ پر گولی چلاتے دیکھا تھا۔میں اگر خاموش تھی تو اپنے ماں باپ کے لیے کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاۓ گے اُن کا بیٹا ہی اُنکے بڑے بیٹے کا قتل ہے ۔اور آپ کہتے ہیں میں نے آپ کی محبت میں یہ سب کیا تو تُف ہے آپکی سوچ پر۔"صوفیہ غصےسے کہہ رہی تھی اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو بھی جاری تھے ۔جبکہ شاہزیب ویسےہی پُر سکون بیٹھا تھا۔
"صوفیہ تم ۔۔۔۔"
اِس سے پہلے شاہزیب کچھ کہتا صوفیہ نے اپنے آنسو صاف کر کے پھر سے بولنا شروع کیا۔
"اور ایک لفظ نہیں سُننا مجھے آپ سےاور نہ ہی کچھ کہنا ہے گھن آتی ہے مجھے آپ سے ۔پہلے ہی آپ کا جرم چھپا چھپا کر میں اندر ہی اندر مرتی جا رہی ہوں ۔جتنی بار نوراں کو دیکھتی ہوں اُتنی ہی بار خود سے گھِن آتی ہے کہ میں نے اپنے بھاٸ کو بچانے کے لیے ایک معصوم کو ونی کی بھیڈ چڑھا دیا۔بشیر چچا کو اپنی وفا داری کی سزا ملی ۔اور نجانے کتنے ہی مظالم میں میں آپ کے ساتھ برابر کی شریک ہوں۔"صوفیہ کہہ کررُکی نہیں اور تیزی سے باہر کی جانب بڑھی تھی ۔جیسے ہی صوفیہ نے باہر جانےکے لیے دروازہ کھولا تو اپنے سامنے نوراں کو کھڑا دیکھ کر پل بھر کےلیے صوفیہ کا وجود ساکت ہو گیا تھا ۔نوراں کی سرُخ آنکھوں میں ہزار شکوے تھے۔اُس کی آنکھیں چیخ چیخ کر صوفیہ سے سوال کر رہیں تھی ۔کبھی نہ رونے والی نوراں کی آنکھوں سے آج مسلسل آنسو بہہ رہے تھے ۔لیکن زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا اور اُس نے اپنے قدم یہ کہہ کر واپس لیۓ تھے۔
"سب نیچے انتظار کر رہے ہیں۔"
"نوراں!"صوفیہ نے بمشکل کہا تھا۔
نوراں نے پلٹ کر صوفیہ کی طرف دیکھا اور صوفیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔
"معافی مت مانگنا ابھی ، کیونکہ ابھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ تمہیں معافی دے سکوں۔بس اتنا کہوں گی کہ آج تم نے اپنےاِن ہاتھوں سے اپنی نوراں کے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیۓ ہیں ۔اب دعا کرنا کہ خدا مجھے اِن ٹکڑوں کو سمیٹنے کی طاقت دےتاکہ تمہیں معاف کر سکوں۔"نوراں نےکہا اور صوفیہ کا گال تھپتھپا کر نیچے کی جانب بڑھ گٸ۔جبکہ صوفیہ نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تھا جو کچھ دیر پہلے نوراں کے ہاتھوں میں تھے۔
*****
"ہیلو بجو!"اسفی نے زوبیا کے کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھول کر کہا۔زوبیا جو کوٸ کتاب پڑھنے میں مصروف تھی دروازے کی آواز پر سہم کر سیدھی ہوٸ۔
"بدتمیز یہ کیا طریقہ ہے کسی کےکمرے میں گھسنے کا ۔"زوبیا نے سختی سے اسفی کو کہا۔
"ارے بہن کے کمرے میں آنےکے لیے پہلے درخواست دینی ہو گی کیااب۔"اسفی نے بیڈ پر بیٹھ کر کہا۔
"جی اجازت لینی ہو گی۔"زوبیا نے کہا۔
"اب توآگیا ہو اگلی بار سوچوں گااجازت لینے کا۔"اسفی نے اپنے دانتوں کی نماٸش کرتےہوۓکہا۔جس پر زوبیا نے گھور کر اُسے دیکھا اور کہا۔
"کیا کام ہے؟"
"ارے بغیر کام کے نہیں آ سکتا کیا میں۔"اسفی نے معصومانہ صورت بنا کر کہا۔
"آسکتے ہو پر تم آتے نہیں ہو تو اب بتاٶ کیا کام ہے۔"زوبیا نے کتاب کو بند کر کے کہا۔
"وہ نا ۔"اسفی نے ہچکیچاتے ہوۓ کہا۔
"یا اللہ خیر آج اسفند خان کچھ کہتےہوۓ ہچکیچا رہے ہیں اللہ اللہ ۔"زوبیا نے اپنا منہ اوپر کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔
"ارے ہچکیچا نہیں رہا بس یہ سوچ رہا ہوں کہ آپ یہ کام کریں گی بھی یانہیں۔"اسفی نے کہا۔
"کام بتاٶ گے تو فیصلہ ہوگا کہ کام کرنا ہے یا نہیں۔"زوبیا نے کہا۔
"زیادہ کچھ نہیں ہے وہ بس ایک دفعہ صوفی سے بات کروا دیں۔"اسفی نے کہا۔
"ہاہاہاہا نہیں۔"زوبیا نے ہنس کر کہا اور کتاب اُٹھا کر بیڈ سے اُٹھ گٸ۔
"بجو یوں مت کرو ۔وہ فون نہیں اُٹھا رہی اِس لیے آپ کے پاس آیا ہوں پلیز۔"اسفی نے زوبیا کا راستہ روک کر کہا۔
"تو وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہتے ہو گی ۔"زوبیا نے کہا۔
"یہی تو پتا کرنا ہے کہ ناراض ہے تو ناراضگی ہے کس بات کی ۔"اسفی نے جھٹ سے کہا۔
"ہاۓۓۓ میرا بھاٸ ٹینشن سے آدھا ہو گیا ہے۔"زوبیا نے مسکرا کر کہا جس پراسفی نے رونےوالا منہ بنایا۔
"چلو ہٹو ساٸیڈ پر۔"زوبیا نے کہا۔
"پہلے بات ۔"اسفی نے کہا۔
"مت ہٹو کھڑے رہویہاں۔"زوبیا نے کہا اور پھر سے بیڈ پربیٹھ گٸ ۔
"پلیزپلیزایک بار ۔"اسفی نے نیچے زوبیا کے پاس بیٹھ کر کہا۔
"نہیں۔"زوبیا نے یک لفظی جواب دیا۔
"آپکو میری قسم بجو۔"اسفی نے اپنا آخری ہتھیار استمعال کیا ۔
"یار اسفی۔"زوبیا نے ہار مانتے ہوۓ کہا۔
"یہ لیں فون جلدی کریں انکی فلاٸٹ کا ٹاٸم ہونے والا ہےاور احمد انکل بھی آنے والے ہیں۔"اسفی نے زوبیا کا فون اُسکے ہاتھ میں دیتے ہوۓ کہا۔زوبیا نے پہلے اس اسفی کی صورت کو دیکھا جو اِس وقت بلکل چھوٹے بچے کی طرح لگ رہا تھا اور پھر سر جھٹک کر صوفیہ کا نمبر ڈاٸل کیا اور فون سپیکر پر ڈال دیا ۔
صوفیہ نیچے جانے سے پہلے اپنے کمرے میں آٸ تھی ۔منہ دھو کر اپنے آپکو نارمل کرکے وہ بیڈ پر بیٹھی ہی تھی جب اُسکا فون بجنا شروع ہوا۔صوفیہ نے فون اُٹھایا اور کان سے لگا کر زوبیا کے بولنے کا انتظار کرنے لگی۔
"ہیلو!"زوبیا کہا۔
"ہاں جی۔"صوفیہ نے جواب دیا۔
"کیسی ہو ؟تیاری ہوگٸ ہے؟"زوبیا نے اسفی کی طرف دیکھ کر کہا اسفی بھی اپنی ساری توجہ فون پر لگاۓ بیٹھا تھا۔
دوسری طرف صوفیہ سے ایک لفظ کہنامحال ہو رہاتھااور آنسو آنکھوں سے بہنا شروع ہو گۓ تھے۔
"صوفی!"زوبیا کی آواز نہ آنے پر صوفیہ نے پھر اُسے پکارا۔
"زوبیا دعا کرو مجھے خدا معاف کر دے۔"صوفیہ نے روتے ہوۓ کہا۔صوفیہ کی آواز پر زوبیا اور اسفی نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا۔
"کیا ہواہے صوفی؟"زوبیا نے پریشانی سے پوچھا۔
"کچھ نہیں ہوا بس دعا کرنا ہمارے واپس آنے تک سب ٹھیک رہے۔"صوفیہ نے آنسو صاف کرتےہوۓ کہا۔
"ریلیکس ہو جاٶ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو گا۔"زوبیا نے کہا۔
"ٹھیک ہے پھر بات ہو گی۔۔۔الله حافظ۔"صوفیہ نے کہا اور فون کاٹ دیا۔زوبیا نے فون ساٸیڈ پر رکھا اور اسفی کی طرف دیکھا جو زوبیا کو ہی دیکھ رہا تھا۔
"تمہاری کوٸ سیریس لڑاٸ ہوٸ ہے کیا صوفیہ سے؟"زوبیا نے تفتیش کرنے والے انداز میں اسفی سے پوچھا۔
"آپکو لگتا ہےبجو مں اُس سے لڑ سکتا ہوں؟"اسفی نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا۔
"تو پھر کچھ ہی دیر میں اُسے کیا ہو گیا صبح جب میرےسے بات کر رہی تھی تب تو بلکل فریش اور بہت خوش تھی۔"زوبیا نے سوچتے ہوۓ کہا۔
"ضرور کسی سےلڑ پڑی ہو گی ۔"اسفی نے کہا اور کھڑا ہو گیا۔
"ہو سکتا ہے۔"زوبیا نے بھی کاندھے اُچکاتے ہوۓ کہا۔
*****
"کتنی دیر لگادی تم نے صوفیہ اور یہ شاہزیب کہاں ہے؟"جلال خان نے صوفیہ کو دیکھ کر کہا۔
"وہ ہمارے ساتھ نہیں آ رہے۔"صوفیہ نے کہا۔
"کیوں؟اور یہ تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے روٸ ہو کیا؟شاہزیب سے جھگڑا ہوا ہے؟"بی بی جان نے صوفیہ کا اُترا ہوا منہ دیکھ کر کہا۔صوفیہ کی نظر زرا کی زرا اپنے سامنے کھڑی نوراں پر پڑی تھی جو بلکل یوں کھڑی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔نوراں کو دیکھ کر صوفیہ نے اُسی پل نظریں جھُکا لیں تھی ۔
"کچھ نہیں ہوا بی بی جان ۔"صوفیہ نے کہا۔
"پریشان مت ہو بی بی جان آپ کو پتا ہے اِس کی اور شاہزیب کی بنتی نہیں ہے اُس نے کچھ کہہ دیا ہوا گا اور میڈیم کے آنسو بہنا شروع ہو گۓ ہوں گے ہےنا۔"ولی نے شرارت سے کہا۔
"ہاں تووہ مت مجھے کچھ کہا کریں ۔"صوفیہ نے رندھی ہوٸ آواز میں کہا۔
"اچھا کوٸ بات نہیں بھاٸ ہے وہ تمہارا ہو جاتا ہے۔اب رونا بند کرو اور چلو ٹاٸم ہو گیا ہے فلاٸٹ کا۔"جلال خان نے کہا۔
"جی جی بلکل ۔"ولی نے اپنی گھڑی پر ٹاٸم دیکھ کر کہا۔
"تم آ رہی ہو ساتھ بیٹا۔"بی بی جان نے نوراں سے پوچھا۔
"نہیں بی بی جان آپ لوگ جاۓ ۔۔۔اللہ پاک آپ لوگوں کو خیریت سے واپس لاۓ۔"نوراں نے بی بی کے ہاتھ کا بوسہ لے کر کہا۔
"خوش رہو۔"بی بی جان نے بھی نوراں کے سر پر پیار دے کر کہا۔
"اللہ پاک تمہیں خوش رکھے ۔"جلال خان نے بھی نوراں کے سر پر پیار دے کر کہااور باہر نکل گۓ۔
صوفیہ آگے بڑھ کر نوراں کے گلے لگی اور کہا۔
"ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا نوراں ۔"صوفیہ نے نوراں سے کہا اور اُس سے الگ ہوگٸ ۔ نوراں نے صوفیہ کا ہاتھ تھاما اور کہا۔
"تمہاری اِس غلطی سے نوراں نے نوراں کو کھو دیا صوفی۔اور معاف کرنے کے لیے پرانی نوراں کا یہاں ہونا ضروری ہے۔"نوراں نے بھراٸ ہوٸ آواز میں کہا۔تبھی باہر سےولی کی آواز آٸ تھی ۔
"آجاٶ صوفی دیر ہو رہی ہے۔"ولی کی آواز پر نوراں نے صوفیہ کے ہاتھ چھوڑے اور کیچن کی جانب بڑھ گٸ۔صوفیہ چند لمحے وہی کھڑی رہی اور پھر آہستہ سے قدم باہر کی جانب بڑھا دیۓ۔
*****
ولی کی گاڑی کو ابھی گھر سے نکلے کچھ دیر ہی ہوٸ تھی کہ فضہ کی گاڑی گھر میں داخل ہوٸ۔بلیک پینٹ شرٹ پر بلیک کوٹ پہنے ہونٹوں کا سرخ لیپسکٹ سے سجاۓ اور آنکھوں پر سیاہ گلاسس لگاۓ وہ گاڑی سے باہر نکلی تھی ۔نوراں ٹی وی لاٶنج میں اپنا سر گھٹنوں میں دیۓ بیٹھی تھی جب فضہ اندر داخل ہوٸ۔نوراں نے کسی کی آہٹ پا کر دروازے ک جانب دیکھا تھا۔فضہ نے بھی نوراں کو دیکھ کر اپنے گلاسس اُتارے اور آگے بڑھی ۔فضہ کو دیکھ کر نوراں بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہوٸ تھی۔
"ہاۓ !مسزولی۔"فضہ نے بظاہر خوش اخلاقی سے کہا۔نوراں نے حیرانگی سے پہلے فضہ کو دیکھا اور پھر بولی۔
"خان صاحب گھر پر نہیں ہے ۔"
"ارے یہ خان صاحب کیا ہوتا ہے۔یوں کہو نا کہ ولی گھر پر نہیں ہے۔"فضہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"آپ کو انتظار کرنا ہے تو آپ کر سکتی ہیں میں چاۓ بھجواتی ہو۔"نوراں نے فضہ کی بات کو مکمل نظر انداز کرتے ہوۓ کہا۔
"کون سی اداٸیں دیکھا کر ولی کے ساتھ اب تک ٹکی ہوٸ ہو۔"فضہ نے وہ بات کہہ دی جس کے لیے وہ یہاں آٸ تھی۔فضہ کی بات پر نوراں کے دماغ کی رگیں تن گٸ تھی اُس نے چند قدم فضہ کی جانب بڑھاۓ اور کہا۔
"اداٸیں دیکھانے کی ضرورت تم جیسی لڑکیوں کو ہوتی ہے۔"
"ماٸنڈ یور لینگیویج۔"فضہ نے کہا ۔
"واہ آپ کسی کو بیغیرت کہوں وہ ٹھیک اور اگر کوٸ اپنےدفاع میں بولے تو ماٸنڈ یور لینگیویج۔"نوراں فضہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہا۔
"اپنی اوقات میں رہو بھولوں مت کہ تم ونی میں لاٸ گٸ ایک باندی ہو ۔"فضہ کی آواز اونچی ہوٸ تھی۔
"آواز نیچے۔۔۔ یہ جیسے تم نے باندی بولا ہے نا وہ ولی خان سے نکاح کر کے یہاں لاٸ گٸ ہے ۔"نوراں نے کہا۔
"بہت مان ہے ولی کی بیوی ہونے پرتمہیں ۔۔۔۔بس کچھ دن اور پھر ولی تمہیں اِس مان سے بھی دستبردار کر دےگا۔"فضہ نےکہا تلخی سے کہا۔
"تم جانتی ہو ولی کی زندگی میں تمہاری شمولیت فقط میری رضامندی سے ممکن ہے۔میں چاہوں تو تم ولی کی زندگی میں لا سکتی ہوں اور میں نہ چاہوں تو نہیں۔"نوراں نے مضبوط لہجے میں کہا۔نوراں کی اِس بات پر فضہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"ارے ارے پریشان نہ ہو تمہیں ولی دیامیں نے۔"نوراں نے کہہ کرفضہ کا گال تھپتھپایا اور اپنےکمرے کی جانب بڑھ گٸ۔
*****
ولی سب کوخدا حافظ کہہ کر واپس پلٹا ہی تھا کہ صوفیہ نے اُسے آواز دی۔
"لالا!"
ولی نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو صوفیہ اُسی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔
"کیا ہوا؟" ولی نے پوچھا۔صوفیہ نے پہلے ولی کو دیکھا اور پھر اپنا سیدھا ہاتھ ولی کی طرف بڑھا دیا۔ولی نے ناسمجھی سے صوفیہ کے ہاتھ کو دیکھا۔
"وعدہ چاہیۓ ایک؟"صوفیہ نے کہا۔
"کیسا وعدہ؟"ولی نے پوچھا۔
"ہاتھ تو لاٸیں پھر بتاتی ہوں۔"صوفیہ نے کہا۔ولی نے اپنا سیدھا ہاتھ صوفیہ کے ہاتھ پر رکھا۔
"وعدہ کریں جب تک ہم واپس نہیں آتے نوراں کو کچھ نہیں کہیۓ گے ۔"صوفیہ نے کہا۔
"مطلب!"ولی نے نا سمجھی سے پوچھا۔
"مطلب صرف یہ ہے کہ وہ چاہیۓ آپ کوجو کچھ مرضی کہے آپ اُسے کچھ نہیں کہیں گے۔اُسکا خیال رکھے گے۔اُسے خوش رکھنے کی کوشش کریں گے ۔"صوفیہ نے جلدی سے کہا۔
"ٹھیک ہے لیکن ہوا کیا ہے؟"ولی نے صوفیہ کے تاثرات دیکھ کر کہا۔
"کچھ ہے لالا جو آپ کا جاننا بہت ضروری ہے لیکن ابھی وقت نہیں ہے اِس لیے جب تک ہم واپس نہیں آ جاتے تب تک آپ کو صبر سے اور سمجھداری سے کام لینا ہے۔"صوفیہ نے کہا اور واپس پلٹ گٸ کیونکہ وہ اپنی بات مکمل کر چُکی تھی اور وہ جانتی تھی کہ وہاں کھڑے ہونے کامطلب مذید سوالوں کا سامنا کرنا ہے اِس لیے وہ اپنی بات کہہ کر واپس آگٸ۔
******
فضہ نے اپنا ہاتھ اپنے گال پر رکھا تھا جو ابھی کچھ دیر پہلے نوراں تھپتھپا کر گٸ تھی۔ فضہ کا چہرہ غصے کی وجہ سے سرخ ہو چُکا تھا۔فضہ نے وہی سے قدم واپس لیۓ تھے کہ تبھی اُس کی نظر دروازےکے پاس پڑے کنسول پر پڑی جس پر گجرے رکھے تھے۔فضہ نے ہاتھ بڑھا کر وہ گجرے وہاں سے اُٹھاۓ تھے ۔تبھی ولی اندر داخل ہوا اور دروازے کے پاس کھڑی فضہ کو دیکھ کر حیران بھی ہوا تھا ۔
"تم یہاں!"ولی نے فضہ کو دیکھ کر پوچھا ۔
"حیران ہو رہے ہو مجھے یہاں دیکھ کر ۔"فضہ نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا ۔تبھی ولی کی نظر فضہ کے ہاتھ میں پکڑے گجروں پر پڑی تھی اور اُسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
"میں تمہیں سب بتاتا ہوں؟"ولی نے کہا۔
"کیا بتاٶ گے مجھے ہاں بولو یہ بتاٶ گے کہ میں ولی خان کسی سے شادی کر چکا ہوں۔"فضہ نے چیخ کر کہا۔
"آرام سےبیٹھ کر میری بات سنو۔تمہیں حقیقت کا نہیں پتا۔"ولی نے فضہ سے کہا۔
"واہ آرام سے ۔۔۔تم اب بھی مجھے آرام سے بات کرنے کا مشورہ دے رہے ہو اور مجھے سب پتا ہے ولی خان مجبوری میں کی گٸ شادی اب تمہاری محبت بن چُکی ہے ۔"فضہ نے ہاتھ میں پکڑے گجرے ولی کی طرف اُچھالتےہوۓ کہا۔
"فضہ تمہیں غلط فہمی ہوٸ ہے۔ایسا کچھ نہیں ہے۔اور نوراں سے شادی مجبوری تھی ۔۔۔ تمہیں پانے کےلیےمجھے بابا جان کی بات ماننی پڑی۔ "ولی نے فضہ کو سمجھاتےہوۓ کہا۔
"مجھے پانے کے لیے ولی ۔۔۔۔تم نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔اور وہ تمہاری دو کوڑی کی بیوی میرے سامنے کھڑے ہو کر کہتی ہے جاٶ میں نے تمہیں ولی دیا اُسے بتا دینا میں بھیک میں ملی ہوٸ چیزنہیں لیتی ۔اور تم ایک بات یاد رکھنا ولی خان کہ فضہ لغاری اُسےچیٹ کرنے والوں کو برباد کرنے کا ہنر جانتی ہے۔"فضہ نے غصے سے بھری اُونچی آواز میں کہا اور باہر کی جانب قدم بڑھا دیۓ۔
"فضہ!"ولی نے پکارا۔
ولی کی پکار پر فضہ رُکی تھی لیکن پلٹی نہیں تھی۔
"تمہیں ایک موقع اور دیتی ہوں ولی ۔۔۔جس دن اُس لڑکی کو اپنی زندگی سے اور اِس گھر سے نکال دو اُس دن میرے پاس آ جانا میں تمہیں پہلے جیسی ہی ملوں گی۔"فضہ نے کہا اور گھر سے باہر نکل گٸ۔فضہ کےجانے کے بعد ولی نے اپنا ہاتھ پاس پڑے کنسول پر مارا تھا۔
*****
زوبیا اور اسفی کمرے میں منہ لٹکاۓ بیٹھے تھے جب احمد صاحب وہاں آۓ۔
"خیریت ہے دونوں کے منہ پربارہ کیوں بجے ہوۓ ہیں؟"احمد صاحب نے دونوں کے اُترے ہوۓ منہ دیکھ کر کہا۔
"اسفی اُداس ہے اور میں اِس اُداسی میں اُسکا ساتھ دے رہی ہوں۔"زوبیا نے کہا جس پر اسفی نے گھور کر زوبیا کو دیکھا ۔
"کیا ہوا ہے اسفی کو۔"احمد صاحب نے دونوں کے سامنے پڑے صوفے پربیٹھ کر کہا۔
"محبوبہ سے بات نہیں ہوٸ اِس لیۓ جناب کا منہ لٹکا ہوا ہے۔"زوبیا نے کہا اور اُٹھ کر باہر بھاگ گٸ۔
"بجو !"اسفی نے پیچھے سے شرما کر زوبیا کو آواز دی۔جس پراحمد صاحب نے قہقہ لگایا تھا۔
"پریشان مت ہو جوان میں مذاق سمجھتا ہو۔"احمد صاحب نے مسکرا کر اسفی سے کہا۔
"بجو بھی نا بس۔۔۔۔۔خیر اب میں چلتا ہوں پھر ملاقات ہو گی۔"اسفی نے کھڑے ہو کر کہا۔
"آتے جاتے رہا کرو۔۔۔۔زوبیا خوش ہوجاتی ہے۔اورامی کو بھی کہنا کہ ہمارے لیۓ وقت نکال لیا کرے۔"احمدصاحب نے خوش اخلاقی سے کہا۔
"کہہ دوں گا میں امی سے لیکن اِس بات پر آپ بھی زرا نظرِثانی کریں۔"اسفی نے کہا۔
"ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ضرور ۔"احمدصاحب نے کہا اور اسفی کو گلے لگا کر خداحافظ کہا۔اسفی کے جاتے ہی زوبیا چاۓ کا کپ لے کر آٸ تھی اور احمد صاحب کے سامنے رکھا تھااور پوچھا۔
"چلا گیا اسفی؟"
"ہاں چلا گیا۔"احمد صاحب نے جواب دیا۔
"کیسا رہا آج کا دن ؟" زوبیا نے سوال کیا۔
"تھکن سے بھرا۔"احمد صاحب نے چاۓ کا کپ اُٹھاتے ہوۓ کہا۔
"سر دبا دوں؟"زوبیا نے کہا۔
"ارے نہیں نہیں۔"احمد صاحب نے منع کیا۔
"کل مہمان آرہے ہیں گھر پر کچھ تو اچھا سا کھانا تیار کر لینا؟" احمد صاحب نے کہا۔
"کون آ رہا ہے؟"زوبیا نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔
"تمہیں دیکھنے کوٸ نہیں آ رہا ۔۔۔۔میرےکچھ دوست آ رہے ہیں۔"احمد صاحب نے زوبیا کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔
"او اچھا اچھا۔"زوبیا نے سکون کا سانس لے کر کہا۔جس پر احمد صاحب نے مسکرا کر بیٹی کو دیکھا۔
*****
شام کے ساۓ اسلام آباد پر چھا چُکے تھے ۔ہر کوٸ اپنے آشیانے کی طرف جا رہا تھا۔آج کی شام ولی کو اپنے اُوپر حاوی ہوتی ہوٸ محسوس ہو رہی تھی۔عجب بے چینی تھی۔دل تھا کہ ڈھلتے سورج کی طرح ڈوبتا ہی جا رہاتھا۔وہ اپنی حالت کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ایک طرف فضہ اور شاہزیب کی آوازیں اُسکی سماعتوں میں گونج رہیں تھیں۔اور دوسری طرف نوراں کی خاموشی ولی کو چُبھ رہی تھی۔
"یا اللہ میرے دل کو سکون دے ۔"ولی نے کہا اور اپنے کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر کاٹنے لگا تھا۔لیکن پھر بھی سکون نہ ملنےپر ولی نے نیچے کی جانب قدم بڑھاۓ تھے۔
*****
نوراں نے نماز کے لیے جاۓنماز بچھاٸ اور نماز ادا کرنے کے لیے کھڑی ہو گٸ تھی ۔آنسو مسلسل نوراں کے گال بھیگو رہے تھے۔ نوراں نے ہاتھ کی پشت سے انہیں صاف کیا اور نیت باندھ لی۔لیکن بے سود ایسا لگ رہا تھا کہ آنسوٶں نے تو جیسے اِن آنکھوں سے دوستی کر لی ہے۔
تبھی ولی نوراں کےکمرے کے دروازے کے پاس سے گزرا تھا ۔ولی کو چوڑیوں کے کھنکنے کی آہٹ سُناٸ دی تھی۔ولی کے قدم رُکے تھے ولی نے نہ چاہتے ہوۓ بھی قدم واپس لیۓ تھے اور عین نوراں کے کمرے کے دروازے کے پاس جا کھڑا ہوا تھا۔چوڑیوں کےکھنکنے کی آواز پھر سے آٸ تھی اِس بار ولی نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا تھا اور اندر داخل ہوا تھا۔نوراں کی پشت ولی کی جانب تھی ولی نے چند قدم اور بڑھاۓاور وہاں رکھے کاٶچ پر بیٹھ گیا۔کالے رنگ کے حجاب میں لپٹا نوراں کا چہرہ ولی کے دل کو اور بے چین کرگیا تھا۔نوراں نے دعا کےلیے ہاتھ اُٹھاۓ تھے تو ہاتھ میں اُسکے باپ کی دی ہوٸ کانچ کی رنگ برنگی چوڑیاں پھر سے کھنکھناٸیں تھیں ۔ولی کی نظر نوراں کے ہاتھوں پر ٹِک گٸ تھی ۔دعا مانگتے ہاتھوں میں آنسو اکھٹے ہونا شروع ہو گۓ تھے ۔ولی نے حیرت سے نوراں کے چہرے کو دیکھاتھا جو رب کی بارگاہ میں آنسوٶں سے تر تھا۔

میں لڑکی عام سی(مکمل)Where stories live. Discover now