ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:١١نوراں نے ولی کےکمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا جو کچھ ہی لمحوں کے بعد کھل گیا تھا۔ولی نوراں کو اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران ہواتھا ۔
"وہ آپ سے کوٸ ملنے آیا ہے۔"نوراں نے کہا۔
"کون؟"ولی نے اپنے کف کےبٹن بند کرتے ہوۓ پوچھا۔
"کوٸ انگریزنی ہے۔" نوراں نے کہا اور پلٹ گٸ۔
"بات سنو۔"ولی نے نوراں کو آواز دی ۔ولی کی آواز پر نوراں پلٹی تھی ۔
ولی اُس کے قریب آیا تھا اورکہا۔
"ہر انگریزی بولنے والا انگریز نہیں ہوتا جاہل۔"ولی کہہ کررُکا نہیں تھا بلکہ نیچے کی جانب بڑھ گیا تھا۔نیچے فضہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی ۔جیسے ہی ولی کو سیڑیوں سے نیچے آتے دیکھا تو فوراً اُٹھ کھڑی ہوٸ اور تیزی سے سیڑیوں کی طرف بڑھی تھی ۔
"تم یہاں کیسے؟"ولی نے نیچے آکر فضہ سے سوال کیا۔
"تمہارے آفس گٸ تھی پتہ چلا کہ تم وہاں نہیں ہو تو ایڈریس لے کر یہاں آ گٸ۔"فضہ نے مسکرا کر کہا۔
"کوٸ کام تھا؟"ولی نے لاپرواہی دیکھاتے ہوۓ کہا ۔فضہ کو اِس طرح ولی کا نظر انداز کرنا چبھاتھا۔اُس نے ولی کا ہاتھ تھاما اور کہا۔
"جانتی ہوں غلطی کی ہے میں نے مجھے تم پر رشتے کو لے کر پریشر نہیں ڈالنا چاہیۓ تھا۔پلیز فارگیو می ۔"
"ٹھیک ہے ۔"ولی نے کہا۔
"ارے یار ایسے کیسے ٹھیک ہے تھوڑا مسکرا کر کہو۔"فضہ نے کہا۔
"اوکے جناب ٹھیک ہے۔"ولی نے مسکراکر کہا۔
اور صوفے پر بیٹھ کر سکینہ بی کو آواز دے کر بُلایا اور چاۓ لانے کا کہا۔نوراں نے اوپر سے یہ سب دیکھا تھا ۔اور پھر خاموشی سے کیچن میں چلی آٸ تھی۔
"یہ کون ہے بے حیا؟"سکینہ بی نے نوراں سے پوچھا۔
"ارے سکینہ بی بے حیا مت کہیۓ آپ کے چھوٹے خان کے دل رانی ہے۔"نوراں نے جگ سے پانی گلاس میں ڈالتے ہوۓکہا۔نوراں کی بات سُن کر سکینہ بی کا کام کرتا ہاتھ پل بھر کے لیۓ رُکا تھا اور وہ نوراں کی طرف پلٹیں تھیں۔
"پاگل ہو گٸ ہو نوراں جانتی ہو کہ کیاکہہ رہی ہو ۔"سکینہ بی نے حیرانگی سےکہا۔
"سچ کہہ رہی ہوں سکینہ بی ۔"نوراں نے کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گٸ۔
"تمہیں ضرور کوٸ غلط فہمی ہوٸ ہے ۔ہوگی کوٸ میٹگ موٹگ والی ۔"سکینہ بی نےچاۓ کا پانی چولہے پر چڑھاتے ہوۓ کہا۔
"محبت اپنے رقیب کو پہچاننے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتی سکینہ بی۔"نوراں نے سامنے دیکھتے ہوۓ کہا اورساتھ ہی نوراں کی آنکھیں آنسوٶں سے بھر گٸ تھیں۔
سکینہ بی نے نوراں کو دیکھا اور بھاگ کر اُسکے پاس آٸ تھیں ۔
"نوراں تو کیوں رو رہی ہے؟"سکینہ بی نے نوراں کو اپنے ساتھ لگا کرکہا۔
"ابھی تو میں نے رونا شروع ہی نہیں کیا سکینہ بی ابھی تو صرف آنسوٶں آنکھوں میں جمع ہوۓ ہیں ۔جس دن یہ آنکھ سے نکل آۓ اُس دن سمجھ لیجیۓ گا نوراں کا صبر نوراں کی ہمت ختم ہوگٸ ۔"نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"تو کیوں روۓ گی کبھی پاگل ۔خدا کبھی تیری آنکھ میں آنسو نہ لاۓ ۔"سکینہ بی نے کہا۔
"سکینہ بی میری آخری اُمید بھی آج ہاتھ میں سے ریت کی طرح پھیسل گٸ ہے اوراصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے ۔خدا سے دعا کریں کہ وہ مجھے ہمت اور طاقت دے اِس امتحان کو پورا کرنے کےلیے۔"نوراں نے کہا۔
"تو فکر مت کر نوراں۔"سکینہ بی نے نوراں کے سر پر بوسہ دیتے ہوۓ کہا۔نوراں نے سکینہ بی کی طرف مسکرا کردیکھا اور اُٹھ کر چاۓ کی طرف آٸ اور جلدی جلدی چاۓ تیار کرنےلگی اور ساتھ میں سکینہ بی سے کہنے لگی۔
"فکر تو ہو گی سکینہ بی کیونکہ محبت میں ہارجسم سے جان نکال لیتی ہے ۔"
"نوراں!"
"آپ فکر مت کریں آرام سےناشتہ کریں اُنکو چاۓ میں دے آتی ہوں۔"نوراں نے سکینہ بی کی بات بیچ میں کاٹی اور چاۓ دو کپوں میں ڈال کرڈیش میں رکھی اور باہر کی جانب بڑھ گٸ۔
"میں جانتی ہوں جب تم بہت بولتی ہو تو تب تم اندر سے ٹوٹ رہی ہوتی ہو تم اپنے اندر کے شور کو کم کرنے کے لیے بات بے بات بولتی ہو لیکن مجھے اِس شور کے بعد کی خاموشی سے ڈر لگتا ہےنوراں ۔"سکینہ بی نے نم آنکھوں سے کہا تھا اور پھر اپنا کام کرنے لگی۔
محبت دھندھ میں لپٹی ہوٸ وادی کاموسم ہے
چمکتی ہےتو سورج ہے برستی ہےتو رِم جھم ہے
محبت نام ہے کتنے مسلسل امتحانوں کا
محبت کر نہیں سکتاجس میں حوصلہ کم ہے
محبت کرنےوالوں کو صدامسکان نہیں ملتی
محبت کرنےوالوں کی زراسی آنکھ بھی نم ہے
محبت زندگی میں زندگی کا ایک نغمہ ہے
مگر یہ موت کی دہلیز پر صدیوں کاماتم ہے۔
*****
"تمہیں آج کیسے یاد آگٸ میری ۔"ولی نے فضہ سے پوچھا۔
"یار ولی تم سے ملنے آٸ ہوں اور بتانے آٸ ہو کہ جلدی کچھ کرو ورنہ میرے بابا میرا رشتہ کہیں اور کر دیں گے۔"فضہ نے کہا۔
"وہ کہیں بھی رشتہ کر دیں گے تمہارا اور تم یہ ہونے دو گی۔"ولی نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوۓ کہا۔
"Of course not yar."
فضہ نے کہا۔اور پھر دونوں ہی قہقہ لگا کر ہنس پڑے ۔
"ڈونٹ وری میں کل ہی انکل آنٹی سے مل لوں گا۔"ولی نے کہا۔
"سیریسلی۔"فضہ کو یقین نہیں آیا تھا۔
"ہاں جی سیریسلی۔"ولی نے مسکرا کر کہا۔
"اور مجھے کب اپنے پیرنٹس سے ملواٶ گے۔"فضہ نے پوچھا۔
"پہلے میں تمہارے پیرنٹس سے تو مل لوں پھر تمہیں بھی ملوا دوں گا۔"ولی نے کہا تھا تبھی نوراں چاۓ لے کر ٹی وی لاٶنج میں پہنچی تھی جہاں ولی اور فضہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ نوراں نے دونوں کے بیچ میں موجود ٹیبل پر چاۓ رکھی تھیں اِس سارے دورانیے میں فضہ نے نوراں کو بغود دیکھا تھا گرین کلر کی شلوار قمیض میں اُس کی رنگت اور بھی کھل رہی تھی ۔نوراں نے کپ دونوں کے آگے رکھ کر پلٹی تھی ۔تب فضہ نے ولی سے پوچھا تھا۔
"Who is she?"
ولی نے کہنے کے لیۓ لب کھولے ہی تھے کہ نوراں پلٹی اور کہا۔
"I'm made of this house."
نوراں نے کہا اور وہاں سے چلی گٸ جبکہ نوراں کے انگلش بولنے پر ولی سٹپٹا کر رہ گیا تھا ۔اور فضہ کو نوراں کا رویہ بلکل اچھا نہیں لگا تھا۔
*****
"لالاآپکو راستہ نہیں آتا تھا تو آۓ کیوں کب سے ہمیں اِدھر اُدھر گھما رہے ہیں۔"شاہزیب کی گاڑی کو اسلام آباد میں داخل ہوۓ آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا لیکن ابھی تک وہ ولی کے گھر نہیں پہنچے تھے جس پر صوفیہ کو سخت کوفت ہوٸ تھی۔
"تو تم چلا لو تمہیں تو مصطفیٰ نے راستہ بھی بتایا ہوگا۔"شاہزیب نے کہا۔
"ویری فنی۔"صوفیہ نے منہ بنا کر کہا۔
"لڑنا بند کرو دونوں۔اور اگر راستے کا نہیں پتا چل رہا تو ولی کو فون کر لو۔"بی بی جان نے کہا۔
"نہیں ولی لالا کو کوٸ فون نہیں کرے گا۔سارا کا سارا سرپراٸز برباد ہوجاۓ گ۔"صوفیہ نے کہا۔
"دس منٹ صبر کر لو ہم بس پہنچنے ہی والے ہیں۔"شاہزیب نے کہا اور گاڑی ایک سوسائٹی کے اندر داخل ہوگٸ۔
******
"چلو اب میں چلتی ہوں کل ملیں گے۔"فضہ نے اپنا بیگ اُٹھاتے ہوۓ کہا۔
"ہاں بلکل میں تو آج خود تمہاری وجہ سے لیٹ ہو گیا ہوں۔"ولی نے بھی اُٹھتے ہوۓ کہا۔
تبھی جمال نوراں کو آوازیں لگاتا ہوا اندر داخل ہوا تھا ۔
"نوراں بی بی ،نوراں بی بی!"
"کیا ہوا ہے جمال نے کیا شور مچایا ہوا ہے۔"ولی نے سختی سے جمال کو کہا۔
"وہ چھوٹے خان جلدی سے باہر آٸیے۔"جمال نے ولی سےکہا تبھی سکینہ بی اور نوراں جمال کی آواز سُن کر باہر آٸیں تھیں ۔
"ہوا کیا ہے؟"ولی نے پھر پوچھا۔جمال نے ولی کو مکمل نظر انداز کیا اور نوراں سے کہا۔
"نوراں بی بی جلدی سے باہر آٸیے جلدی سے کوٸ آپ کا اور ولی صاحب کا باہر انتظار کر رہا ہے۔"جمال نے کہا اور باہر بھاگ گیا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے ولی یہ نوکر اِس نوکرانی کو اتنی عزت سے کیوں بُلا رہا ہے اور باہر کوٸ تم دونوں سے ملنے کیوں آیا ہے۔"فضہ کو لگا تھا کہ کچھ ایسا ہےجو ولی اُس سے چھُپا رہا ہے۔
"ایسا کچھ نہیں ہے تم زیادہ مت سوچو۔"ولی نے کہا اور باہر کی طرف بڑھ گیا ۔جبکہ نوراں اور سکینہ بی پہلے ہی جا چُکی تھیں۔
نوراں اور سکینہ بی نے جیسے ہی باہر کھڑے لوگوں کو دیکھا تھا تو اُنکی خوشی کی انتہا نہیں تھی ۔نوراں نے آگے بڑھ کر جلال خان کو بی بی سرکار کو سلام کیا تھا۔
"اسلام علیکم!بابا سرکار بی بی جان ۔"
"وسلام !گڑیا ۔"جلال خان نے نوراں کو پیار دے کر کہا۔اور بی بی جان سے گلے ملنے کے بعد نوراں صوفیہ کی طرف بڑھی تھی۔
اور دونوں ایسے ملی تھیں جیسے کوٸ بچھڑی بہنیں صدیوں کے بعد ملی ہوں۔
"کیسی ہو لڑکی۔"صوفیہ نے نوراں کے گلے لگ کر کہا۔
"تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو۔"نوراں نے بھی مسکرا کر کہا۔
"نوراں ولی کہاں ہے؟"بی بی جان نے سوال کیا ۔
"میں یہاں ہوں بی بی جان ۔"نوراں کے جواب دینے سے پہلے ہی ولی کی آواز آٸ تھی ۔ولی کے پیچھے ہی فضہ کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔ولی نے سب سے ملنے کے بعد سب کو اندر چلنے کا کہا تھا ۔
"اندر جاتے ہوۓ جلال خان کے ساتھ ساتھ سب کی نظر دروازے پر کھڑی فضہ پر پڑی تھی۔سب کی نظروں میں سوال دیکھ کر ولی نے فضہ کا تعارف کروایا تھا۔
"یہ فضہ لغاری ہیں میری بزنس پارٹنر۔"ولی نے کہا۔
"ہیلو ایوری ون۔"فضہ نے مسکرا کر کہا۔
"جیتی رہو ۔"بی بی جان نے کہا تھا۔
"میں چلتی ہوں ولی تم فیملی کو ٹاٸم دو اور کل کی میٹنگ کو بھول مت جانا باۓ۔"فضہ نے کہااور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گٸ ۔اور باقی سب بھی اندر کی جانب بڑھ گۓ سواۓ ولی اور شاہزیب کے۔
"بزنس پارٹنر ہے یا ہونے والی لاٸف پارٹنر۔"شاہزیب نے آنکھ مار کر ولی سے کہا ۔
"ہو سکتا ہے۔"ولی نے بھی مسکرا کر کہا۔
"فکر ناٹ چھوٹے لالا !بابا سرکار مان جاٸیں گے۔"شاہزیب نے ولی کا کندھا تھپتھپاتے ہوۓ کہا اور پھر دونوں اندر بڑھ گۓ ۔
*****
فضہ تیز رفتار سے گاڑی چلا رہی تھی اور ساتھ ہی بار بار کسی کو فون بھی کررہی تھی جو کچھ ہی دیر میں اُٹھا لیا گیا تھا۔
"یس مس فضہ !"خاور نے فون اُٹھاتے ہی کہا۔
"خاور مجھے ملناہےتم سے۔"فضہ نے گاڑی کی سپیڈ سلو کرتے ہوۓ کہا ۔
"کیوں خریت ہے؟"خاور نے حیرت سے پوچھا۔
"خیریت ہے یا نہیں وہ تو مل کر ہی پتا چلےگا تم بتاٶ مل رہے ہو یا نہیں۔"فضہ نے غضے سے کہا۔
"ٹھیک ہے ایک میٹنگ ہے میری اُس کے بعد فری ہوں پھر ملتا ہوں۔"خاور نےکہا۔
"ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی۔"فضہ نے کہا اور فون بند کر کرے ساتھ والی سیٹ پر پھینک دیا۔
******
سب لوگ ٹی وی لاٶنج میں موجود تھے ۔سکینہ بی اور نوراں چاۓ کا اہتمام کرنے کیچن میں گٸ تھیں۔
ولی جلال خان کے ساتھ صوفے پر بیٹھا تھا ۔صوفیہ اور بی بی جان اُنکے سامنے والے صوفے پر اور شاہزیب خان سب سے تھوڑا دور ٹی وی لان کی گلاس وال کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھا باہر دیکھ رہاتھا۔
"آپ لوگ آرہےتھے تو مجھے اطلاع تو کر دے دیتے۔"ولی نے کہا۔
"ہم تو اطلاع دینے لگے تھے مگر یہ تمہاری بہن ہے نا اِس نے دینے ہی نہیں دی۔"جلال خان نے صوفیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
"کیوں ؟"ولی نے پوچھا۔
"ارے آپ کو بتا دیتے تو چھاپہ کیسے مارتے۔"صوفیہ نے کہا۔
"تو تم چھاپہ مارنے آٸ ہو۔"ولی نے مسکرا کر پوچھا۔
"اور نہیں تو کیا بھٸ مجھے پتا کرنا تھا کہیں میرا بھاٸ میری بھابھی پر ظلم تو نہیں کر رہا۔"صوفیہ نے نوراں کو آتے دیکھ کے کہا۔
"تو جناب نے کیا دیکھا؟"ولی نے پوچھا۔
"ارے وہی دیکھا جو آپ نے دیکھایا کہ آپ نے نوراں کو بہت خوش رکھا ہوا ہے ۔"صوفیہ کی بات سُن کے نوراں کا جلال خان کو چاۓ کا کپ پکڑاتا ہاتھ پل بھر کے لیۓ تھما تھا اور نظریں ولی کی طرف اُٹھیں تھیں ۔ولی کی نظریں بھی نوراں کی طرف گٸ تھیں پل بھر کے لیے نظروں کا تصادم ہوا تھا اور پھر دونوں ہی نظریں جھکا گۓ تھے ۔ایک کو ڈر تھا کہ کہیں آنکھوں میں آٸ شکاٸت نہ پڑھ لی جاۓ اور ایک کو ڈر تھا کہیں آنکھوں میں شرمندگی نہ دیکھ لی جاۓ۔
سب کو چاۓ دینے کے بعد نوراں نے ایک چاۓ کا کپ اُٹھایا اور شاہزیب کی طرف بڑھی تھی اور کپ شاہزیب کے سامنے پڑے ٹیبل پر رکھ دیا تھا ۔شاہزیب کی نظریں ہنوز باہر کی جانب دیکھ رہیں تھی۔جیسے ہی نوراں کپ رکھ کر واپس ہوٸ تھی کہ شاہزیب کی آواز کانوں میں پڑی۔
"اپنے لیے سوتن بھی اپنے جیسی پسند کی ہے بھابھی جان۔"شاہزیب نے چاۓ کا کپ اُٹھاتےہوۓ کہا۔جس پر نوراں نے غصے سے شاہزیب کی طرف دیکھا تھا اور سب کے پاس چلی گٸ تھی ۔
"تو گویا بھابھی جان یہ بات جانتی ہیں۔ویری گڈ۔"شاہزیب نے چاۓ کی چُسکی لے کر کہا تھا۔
*****
فضہ کیفے میں بیٹھی خاور کا کا انتظار کر رہی تھی چہرے پر ازحد سنجیدگی تھی۔کچھ ہی دیر میں گرے کلر کا پینٹ کورٹ پہنے خاور وہاں آیا تھااور فضہ کے سامنے والی چیٸرکھینچ کر بیٹھ گیا۔
"خیریت مس فضہ آج آپ نے ہمیں کیسے یاد کیا؟" خاور نے پوچھا۔
"کچھ پوچھنا ہے تم سے۔"فضہ نے کہا۔
"حکم کریں ۔"خاور نے مسکرا کر کہا۔
"ولی کے گھر میں جو لڑکی ہے وہ کون ہے؟"
فضہ نے پوچھا۔
"ولی کے مطابق نوکرانی ہے وہ۔"خاور نے کہا۔
"کیا وہ تمہیں نوکرانی لگتی ہے؟"فضہ نے ایک اور سوال کیا۔
"شکل و صورت سے تو وہ سُنڈریلا لگتی ہے لیکن سُنڈریلا کی طرح وہ بھی نوکرانی ہی ہے۔"خاور نے کہا۔
"مطلب یہ ہوا کہ وہ کسی بھی وقت شہزادے کو مجھ سے چھین سکتی ہے۔"فضہ نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔
"میں کیا کہہ سکتا ہوں۔"خاور نے کندھے اُچکاتے ہوۓ کہا۔
"شکریہ اپنا وقت دینے کے لیے مسڑ خاور ۔"فضہ نے کہا اور وہاں سے واک آٶٹ کر گٸ۔
"عجیب پاگل لڑکی ہے۔" پیچھے سے خاور بڑبڑیا تھا۔
*****
"کھانا بہت مزے کا ہے نوراں ۔"بی بی جان نے کھانے سے فارغ ہو کر نوراں سے کہا۔
"بہت شکریہ بی بی جان۔"نوراں نے کہا۔
"ارے ایسے ہی تعریف کردی ہے پہلی بار بہو کے ہاتھ کا کھانا کھایا ہے کوٸ انعام تو دو۔"جلال خان نے کہا۔
"اِس کی ضرورت نہیں ہے بی بی جان ۔"نوراں نے کہا۔
"ارے لےلو نوراں پھر پتا نہیں ساس تعریف کرے یا نہیں۔"صوفیہ نے شرارت سے کہا۔
تبھی بی بی جان نے اپنے ہاتھ سے دو کڑے اُتارے اور نوراں کی جانب بڑھاۓ تھے ۔
"نہیں بی بی جان میں یہ نہیں لے سکتی یہ آپ کے ہیں۔"نوراں نے منع کیا۔
"یہ میرے تھے آج سے تمہارے ہیں۔"بی بی جان نے کہا۔
"لیکن پھر بھی بی بی جان میں یہ نہیں لے سکتی کیونکہ میں اِنکی حقدار نہیں ہوں۔"نوراں نے کہا۔
شاہزیب نے ولی کی جانب دیکھا جو اپنی اپنی پلیٹ پر جھکا بیٹھا تھا اور کہا۔
"ولی بولو نہ بھابھی کو کے لے لیں۔"شاہزیب نے کہا۔ولی نے پہلے شاہزیب کی طرف دیکھا اور پھر اپنے سامنے بیٹھی نوراں اور بی بی جان کو اور کہا۔
"لے لو بی بی جان اتنے پیار سے دے رہیں ہیں۔"ولی نے کہا۔
"چلو اب تو ولی نے بھی کہہ دیا نوراں بیٹا اب تو لے لو۔"جلال خان نے کہا۔
"جی ۔"نوراں نے کہہ کر ہتھیلی آگے کی تھی جس پر سکینہ بی نے کڑے رکھ دیۓ تھے ۔اور پھر صوفیہ کی سیٹی کی آواز گونجی تھی جس پر سب نے صوفیہ کو گھور کر دیکھا اور پھر سب ہنس دیۓ ۔کھانے سے فارغ ہو کر چاۓ کا دور چلا تھا سب چاۓ کی چُسکیوں سے لطف اندوز ہورہے تھے جب صوفیہ اٹھ کھڑی ہوٸ اور ٹہل ٹہل کر بولنے لگی ۔
ہم یہاں تین دن کے لیۓ آۓ ہیں تو تین دن میں یہاں کی سیر بھی کریں گے تو ولی لالا ٹاٸم نکال لیجیۓ گا۔"صوفیہ نے ہاتھ کا اشارہ ولی کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔
"جو حکم جناب کالیکن تین دن ہی کیوں۔"ولی نے سر جھکا کر کہا۔
"چوتھے دن فلاٸٹ ہے ہماری اِس لیے۔"صوفیہ نے ہاتھ سے جہاز کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
او صحیح صحیح!"ولی نے کہا۔
"اور اب باری ہے سونے کی تو کمرے سب کو میں بتاٶں گی کون کہاں سوۓ گا۔صوفیہ نے صوفوں کے گرد چکر کاٹے ہوۓ کہا۔
"گھر والوں کے کام گھر والوں کو کرنے دو تم کیوں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنی ہوٸ ہو۔"شاہزیب نے کہا۔
"یہ گھر صوفیہ کا بھی تو ہے شاہزیب لالا۔"نوراں نے کہا ۔جس پر شاہزیب نے فقط مسکرانے کو ترجیح دی۔
"تو پھر سُنیے ٹوٹل پانچ کمرے ہیں تین اُوپر دو نیچے ۔اُوپر والوں میں سے ایک تو ولی لالا اور نوراں کا ہے ۔ایک میں لےلوں گی اور ایک شاہزیب لالا لے لیں گے اور اب رہ گۓ بابا سرکار اور بی بی جان تو نیچے دو کمرے ہیں ایک اُنکے پوتے کا ایک اُنکی پوتی کا وہ جس میں چاہے رہ سکتے ہیں۔"صوفیہ ٹہل ٹہل کر کہہ رہی تھی اور باقی سب مسکرا کر اُسے دیکھ رہے تھےکہ صوفیہ کی آخری بات پر نوراں کے ساتھ باقی سب بھی حیران ہوۓ تھے سواۓ ولی کے۔
"ارے ایسے مت دیکھیے مصطفیٰ لالا نے نیچے والےکمرے ولی لالا کے بچوں کے لیے سیٹ کرواۓہیں ۔بیلو پینٹ والا لڑکے کااور پینک والا لڑکی کا۔اب آپ بتاٸیں کس کمرے میں لے چلوں آپکو۔"صوفیہ نے جلال خان کی طرف دیکھ کر کہا۔
"مجھے تو پھر پینک والے میں لے چلو۔"جلال خان نے کہا اور صوفیہ کا ہاتھ پکڑکر کمرے کی جانب بڑھ گۓ ۔
"ڈرامے۔"شاہزیب نےکہا اور اوپر کی جانب بڑھ گیا اور نوراں برتن سمیٹ کر کیچن کی طرف چلی آٸ تھی ۔
"صوفیہ آج کتنی خوش لگ رہی ہے نا بی بی جان۔"ولی نے بی بی جان کے پاس بیٹھ کر کہا۔
"مصطفیٰ کے بعد آج کھُل کر مسکراٸ ہے اللہ اِس کی مسکراہٹ کو قاٸم رکھے۔"بی بی جان نے کہا۔
" آمین۔"ولی نے بھی مسکرا کر کہا ۔
"چلو چل کر سوٶ رات کافی ہو گٸ ہے۔"بی بی جان نے ولی کا کندھا تھپتھپایا اور کمرے کی طرف بڑھ گٸ ۔ولی نے بی بی جان کے جانے کے بعد سانس خارج کی اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کیچن کی جانب بڑھ گیا ۔جہاں نوراں کیچن کی شیلف صاف کرنے میں مصروف تھی ولی نے پانی کا جگ اُٹھایا اور کہا۔
" اوپر آ جاٶ مجھے بات کرنی ہے ۔"اورکہہ کر کیچن سے باہر چلا گیا۔
"آہ ولی آہ پھر سے ڈرامہ۔"صوفیہ نے کہا اورولی کے پیچھے ہی اوپر کی جانب بڑھ گٸ۔
*****
نوراں کی اماں گھر میں اکیلی اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی بشیر صبح کا گھر سے نکلا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تھا ۔پریشانی کے مارے رجو کے ہاتھ پاٶں پھول رہے تھے ۔کہ اتنے میں دروازہ بجنے کی آواز آٸ تھی ۔
رجو نے بھاگ کر دروازہ کھولا تھا دروازے پر بشیر کو دیکھ کر اُسکی جان میں جان آٸ تھی ۔
"کہاں رہ گیا تھا بشیر احمد جانتا ہے فکر کے مارے جان نکل رہی تھی میری۔"رجو نے بولنا شروع کیا۔
"میرے لیۓ فکر مت کیا کر نوراں کی ماں۔"بشیر نے چارپاٸ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"حویلی گیا تھا۔۔۔۔ کیا کہا خان صاحب نے نوراں سے ملنے کی اجازت دی یا نہیں؟"رجو نے سوال کرنا شروع کیۓ۔
"آرام سے نوراں کی ماں بتاتا ہوں زرا رُکو تو صحیح۔"بشیر نےکہا۔
"بشیر احمد نوراں ٹھیک تو ہے نا۔"رجو نے پریشانی سے پوچھا۔
"ٹھیک ہے وہ پریشان مت ہو اور خان صاحب نے کہا ہے وہ عمرے سے واپسی پر نوراں کو اپنے سات لے کر آٸیں گے۔"بشیر نے رجو کی پریشانی دیکھ کر بتایا۔
"یا اللہ تیرا شکر ہے۔"رجو نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہاتھا۔
"اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرنا نوراں کی ماں ۔کہ خان صاحب نے جو کہا ہے وہ پورا بھی کریں۔"بشیر نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔
"انہوں نے کہا ہےتو وہ اُسے لے کر بھی آٸیں گے خان صاحب اپنی زبان سے کبھی نہیں پھرتے ۔"رجو نے کہا۔
"پتا ہے رجو خان صاحب سے ملنے کے بعد سے لےکر میں اب تک کہاں تھا۔"بشیر نے کہا۔
"کہاں تھا؟"رجو نے پوچھا۔
"مسجدمیں بیٹھا خدا کے سامنے گڑگڑا رہاتھا ایسا لگ رہا تھا جیسے دل پر کوٸ کاری ضرب لگنے والی ہے۔کچھ ایسا ہونے والا ہے جو نہیں ہونا چاہیۓ ۔"بشیر نے کھوۓ ھوۓ انداز میں کہا۔
"کیاہوابشیر احمد مجھے بتا ورنہ میرا دل پھٹ جاۓ گا میری نوراں تو ٹھیک ہے نا۔"رجو نے روتے ہوۓ بشیر سے پوچھا۔
"اوۓ جھلی روتی کیوں ہے نوراں بلکل ٹھیک ہے اور یہ جو میں نے کہا وہ تو بس اِس لیۓ کہاکیونکہ مجھے ایسا لگ رہا ہے۔تو بس خدا سے دعا کر سب اچھا اچھا ہو ۔"بشیر نے رجو کو تسلی دی تھی۔
" ان شاء اللہ ! سب اچھا ہو گا۔"رجو نے آنسوصاف کرتےہوۓ کہا۔
******
ولی نے اپنے کمرے میں پہنچ کر پانی کی بوتل اپنے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھی تبھی نوراں اندر داخل ہوٸ۔
"بیٹھو ۔"ولی نے نوراں کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔نوراں نے بھی چند قدم اُٹھاۓاور صوفے پر بیٹھ گٸ۔ولی نےآگے بڑھ کر کمرے کادروازہ لاک کیا تھا ۔نوراں نے ولی کی یہ حرکت نوٹ کی تھی لیکن خاموش رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کیا ہونے والا ہے۔ولی دروازہ لاک کرنے کے بعد نوراں کے سامنے بیڈ پر آ بیٹھا تھا۔
"میری بات دھیان سے سُننا۔"ولی نے بولنا شروع کیا نظریں نوراں پر ٹکیں تھیں اور نوراں بھی ولی کوہی دیکھ رہی تھی ۔
"بابا سرکار اور بی بی جان کو ہمارے رشتے کی اصلیت نہیں پتا چلنی چاہیۓ ۔جب تک وہ یہاں ہیں تم اسی کمرے میں رہو گی ۔اور باہر سب کے سامنے بھی ایک اچھی بہو اور اپنے شوہر کے ساتھ خوش اور ممطمن بیوی نظر آٶ گی۔"ولی کہہ کر خاموش ہو گیاتھا۔نوراں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
"اور میں یہ جھوٹ کیوں بولوں گی؟"
"کیونکہ پہلے دن ہی تم نے کہا تھا تم کسی کو کچھ نہیں بتاٶ گی اِس رشتے کے بارے میں۔"ولی نے کہا۔
"میں نے نہ بتانے کا کہا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ سب کے سامنے خوش دِیکھنے کا ڈھونگ کروں گی۔"نوراں نے کہا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوٸ۔
"تم ایسا کرو گی کیونکہ تم کبھی نہیں چاہو گی کہ تم بابا سرکار اور بی بی جان کو دُکھی کرو اور یہ تو بلکل نہیں چاہو گی کہ یہ اصلیت تمہارے ماں باپ کو پتا چلے ۔"ولی نے نوراں کو دھمکایا تھا۔نوراں ولی کی بات سُن کر مسکراٸ تھی ۔ولی نوراں کو مسکراتا دیکھ کر حیران ہوا تھا ۔
"تم ہنس رہی ہو؟"ولی نے حیرانگی سے پوچھا۔
"ہنسوں نا تو کیا کرو خان صاحب آپ کو تو دھمکانا بھی نہیں آتا آپکو لگتا ہے میں آپکی اِس دھمکی سے ڈر جاٶں گی اور وہ سب کروں گی جو آپ نے کہا تو آپ کی بھول ہے۔میں نے تو پہلے ہی خوش ہونے کا ڈرامہ کرنا شروع کردیا ہے اور اُسکی وجہ جانتے ہیں کیا ہے۔اُسکی وجہ ہے صرف اور صرف بابا سرکار اور بی بی جان کی آنکھوں کی چمک ہے اُن کے چہرے پے کھلتی مسکراہٹ جو مجھے اور آپ کو ساتھ دیکھ کر اُن کے چہرے پر آتی ہے۔اور رہی بات میرے ماں باپ کی تو اُن کی آنکھوں کی بیناٸ اور ہنٹوں کی مسکراہٹ تو تین ماہ پہلے ہی قسمت نے چھین لی تھی۔اور اب آپ مجھے یہ سب کرنے کو کہہ رہے ہیں صرف اور صرف اپنے فاٸدے کے لیے صرف باباسرکار کے ڈر سے اور کوٸ وجہ نہیں ہے۔"نوراں نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا اور واپس صوفے پر بیٹھ گٸ ۔نوراں کی باتیں ولی کو تیر کی طرح چبھی تھیں لیکن اُس نے کوٸ جواب نہیں دیا اور ڈریسنگ روم کی جانب بڑھنے لگا تھا کہ کچھ یاد آنے پر رُک گیا۔
"بیڈ پر میں سوٶں گا۔"ولی نے کہا اور ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔ولی کے جانے کے بعد نوراں مسکراٸ تھی اور وہ کیوں مسکراٸ تھی یہ بات صرف وہ جانتی تھی۔
ڈریسنگ روم سے باہر آ کر ولی کی نظر سب سے پہلے بیڈ پر گٸ تھی جو خالی تھا ۔نوراں صوفے پر لحاف اوڑے لیٹ چُکی تھی ۔کالے بھورے بال صوفے سے نیچے زمین پر لگ رہے تھے۔ولی کو بال جتنے پسند آۓ تھے اُنکا زمین پر لگنا اُتنا ہی ناپسند آیا تھا۔ولی نے صوفےکے پاس پہنچ کر گلا کنکھارا۔
"اہم اہم۔"لیکن نوراں کو کوٸ اثر نہیں ہوا تھا یا وہ لینا نہیں چاہ رہ تھی یہ وہی جانتی تھی۔
"بات سنو۔"ولی نے پکارا۔لیکن کوٸ جواب نہیں۔
"بات سنو لڑکی ۔"اِس بار ولی کی آواز قدرے اُونچی تھی۔
"کیا مسلہ ہے؟"نوراں نے رُخ بدلتے ہوۓ کہا۔
"کب سے آوازیں دے رہا ہوں تم جاگ رہی تھی تو جواب کیوں نہیں دے رہی تھی۔"ولی نے پوچھا۔
"میراں نام لے کر اُٹھاٸیں گے تو مری پڑی بھی اُٹھ جاٶں گی لیکن یہ لڑکی لڑکی کہنے سے میں جاگتے ہوۓ بھی نہیں اُٹھتی۔"نوراں نے کہا اور لحاف منہ تک اوڑھ لیا۔
"مجھے کیا ضرورت ہے تمہیں اُٹھانے کی وہ تو تمہارے بال زمین پر لگ رہے ہیں اِس لیۓ اُٹھایا ۔"ولی نے کہا اور بیڈ پر جا کر لیٹ گیا ۔ولی کے لیٹنے کے بعد نوراں نے لحاف منہ سے اُتارا اور بالوں کو اکھٹا کر کے ڈھیلا سا جوڑا بنایا اور واپس لحاف منہ پر لے کر نیند کی وادی میں چلی گٸ ۔نوراں کے لیٹنے کے بعد ولی نے ساٸیڈ لیمپ آف کیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
*****
صبح کا اُجالا ہر سو پھیل چُکا تھا بہار کے موسم کا اختتام تھا اور گرمیوں کی آمد آمد ۔ولی خان کے گھر بھی آج صبح فجر سےہی رونق لگی تھی۔بی بی جان اور جلال خان باہر لان میں بیٹھےتھے ،صوفیہ اور نوراں سکینہ بی کے ساتھ کیچن میں ناشتہ تیار کر رہی تھیں اور ولی جاگنگ کے لیے نکل چکا تھاجبکہ شاہزیب خان ابھی تک سو رہے تھے۔
"سکینہ بی آپ جاٸیں اور بابا سرکار سے پوچھ کر آٸیں کہ ناشتہ کہاں لگاٸیں باہر لان میں یا اندر ۔"نوراں نے سکینہ بی سے کہا۔
"اچھا جی۔"سکینہ بی نے کہا اور لان کی جانب چل پڑی۔
"کیسی ہو لڑکی؟"صوفیہ نے نوراں سے پوچھا۔
"تم کوٸ پانچ مرتبہ میرے سے یہ سوال پوچھ چُکی ہو صوفیہ۔"نوراں نے انڈوں کو پھینٹتے ہوۓ کہا۔
"وہ اِس لیۓ کیونکہ تم مجھے ہر بار یہ کہہ رہی ہو کہ دیکھ لو تمہارے سامنے ہوں بہت اچھی اور بہت پیاری۔"صوفیہ نے کہا۔
"تو؟"نوراں نے ناسمجھی سے صوفیہ سے پوچھا ۔
"تو یہ کہ تم خوش نہیں ہو نوراں ۔"صوفیہ نےکہا۔نوراں نے انڈوں والا باٶل ساٸیڈ پر کیا اور صوفیہ کے سامنے کھڑی ہو گٸ اور پوچھا۔
"اور تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟"
"کیونکہ تم نے پانچ مرتبہ میں ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ تم خوش ہو۔"صوفیہ نے کہا۔
"پاگل۔"صوفیہ کی بات پر نوراں نے مسکرا کر کہا اور اپنا کام کرنے لگی۔
"میں پاگل نہیں ہوں اگر ہوتی تو اب تک تمہاری باتوں میں آچُکی ہوتی۔"صوفیہ نے کہا۔
"تم پاگل ہو تبھی ایسا سوچ رہی ہو۔"نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"تمہیں پتا ہے نوراں تم جب ہنستی ہو نا تب تمہاری آنکھیں بھی ساتھ ہنستی ہیں اور کل سے میں نے تمہاری آنکھوں کو ہنستے ہوۓ نہیں دیکھا۔"صوفیہ نے آگے بڑھ کر نوراں کے ہاتھ تھامے تھے اوراُسکا رُخ اپنی جانب کیا تھا۔نوراں کے ہاتھ اِس وقت برف کی طرح ٹھنڈے ہو رہے تھے۔
"برف کی طرح ٹھنڈی ہو رہی ہو لیکن جھوٹ بولنا نہیں چھوڑ رہی ۔"صوفیہ نے نوراں کے ہاتھ دبا کر کہا تھا۔اِس سے پہلے نوراں کچھ کہتی صوفیہ نے پھر سے بولنا شروع کیا۔
"سکینہ بی نے مجھے بتادیا ہےکہ تم اور لالا اجنبیوں کی طرح رہتے ہو اِس گھر میں۔"صوفیہ نےکہا۔
"میرے چُپ رہنے کی وجہ تم جانتی ہو صوفی۔"نوراں نے صوفیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
"معاف کردو مجھے۔"صوفیہ نے نظر جھکا کر کہا تھا نوراں کےہاتھ ہنوز اُسکے ہاتھ میں تھے۔
"دیکھا معافی مانگ کر تم نے ثابت کر دیا کہ تم پاگل ہو۔"نوراں نے مزاح کے انداز میں کہا۔
"کبھی مجھ پر غصہ بھی آجاۓ تو بھی مجھے پاگل سمجھ کر معاف کر دینا۔"صوفیہ نےکچھ سوچتے ہوۓ کہا۔
"اوکے جناب !کر دوں گی معاف۔اب مجھے رولانا مت۔"نوراں نے صوفیہ کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا۔جس پر صوفیہ ہلکا سا مسکراٸ تھی اور نوراں سے کہنے لگی۔
"تمہارے ہاتھوں کی لکیروں میں جانتی ہو کیا لکھا ہے ۔"صوفیہ نے نوراں کی ہتھلیوں پر اپنا انگوٹھا ملتے ہوۓ کہا ۔
"جانتی ہوں۔"نوراں نے کہا۔
"کیا؟"صوفیہ نے پوچھا۔نوراں نے ایک سرد آہ بھری اور کہا۔
"لکھا ہے۔۔۔۔۔۔کچھ اسیر لوگوں کے
ہاتھ کی لکیروں میں
قسمتیں نہیں ہوتیں
عمر قید ہوتی ہے
جگ ہنساٸ ہوتی ہے
کب رہاٸ ہوتی ہے۔
ّ"نوراں تم۔"صوفیہ نے پریشان ہوکر نوراں سے کہا۔
"سچ ہے کہ میں نے جھوٹ بولا کہ میں خوش ہوں لیکن صوفیہ یہ کرنا مجبوری ہے میں خود کو ولی سے الگ نہیں کر سکتی۔میں ایک اور دھبہ اپنے دامن پر برداشت نہیں کر سکتی ۔میرے ماں باپ میں اتنی ہمت نہیں رہی ہوگی کہ وہ اپنی بیٹی کو ونی کی بھیڈ چڑھانے کے بعد طلاق کی سولی پر بھی لٹکتا دیکھیں۔اِس لیے میں ساری عمر ولی کے ساتھ اِس رشتے میں قید رہنے کے لیے تیار ہوں ۔"نوراں نے رندھے ہوۓ لہجے میں صوفیہ سے کہا ۔
"تم دیکھنا وہ دن دور نہیں جس دن ولی لالا تمہیں اپناٸیں گے وہ بھی کسی مجبوری سے نہیں بلکہ محبت سے۔"صوفیہ نے مسکرا کر کہا۔
"باتوں میں لگا لیا تم نے یار دیکھو کتنا کام پڑا ہے۔"نوراں نے پلٹتے ہوۓ کہا۔
"تو کیا ہوا مل کر کر لیتے ہیں ۔"صوفیہ نے کہا اور کام کرنے لگی ۔تبھی سکینہ بی آٸ اور کہنے لگی۔
"نوراں خان صاحب کہہ رہے ہیں باہر لان میں ناشہ لگاٸیں آج موسم بہت خوشگوار ہے۔"
"ٹھیک ہے سکینہ بی ۔"نوراں نے کہا ۔
******
ولی بلیک کلرکاٹریک سوٹ پہنے پسینے میں شرابور تھا۔بال ماتھے پر آۓ ہوۓ تھے کانوں میں ہینڈ فری لگاۓ وہ گھر کی جانب بڑھ رہاتھا۔کہ کسی فون کے آنے پر رُک گیا۔
"ہیلو!"ولی نے کہا۔
"ہاۓ فضہ بول رہی ہوں۔"دوسری جانب سے آواز آٸ تھی۔
"ہاں بولو فضہ اتنی صبح تم نے فون کیا خیریت تو ہے۔"ولی نے پوچھا۔
"ہاں خیریت ہے ۔وہ مجھے بتانا تھا کہ میرے ڈیڈ رات ہی دوبٸ کےلیے نکلے ہیں کوٸ ضروری کام آگیا تھا تو اِس لیےتم اُن سے ابھی نہیں مل سکتے۔"فضہ نے کہا۔
"اووو آٸ سی۔۔۔۔نو ایشو جب آگۓ تب مل لوں گامیں۔"ولی نے کہا۔
"اوکے باۓ تم فیملی کو ٹاٸم دو۔"فضہ نے کہا اورفون کاٹ دیااور سوچا۔
"اگر تم نے مجھے سیکنڈ آپشن بنایاولی خان تو دیکھنا میں کیسےتمہاری زندگی برباد کرتی ہوں۔"
******
کھانا باہر لان میں لگ چُکاتھا ۔جب ولی گیٹ سے اندر داخل ہوا اور سب کو لان میں دیکھ کر وہی آ گیا تھا۔
"سلام بی بی جان!سلام بابا سرکار!"ولی نے کہا۔
"وسلام !کہاں سے آ رہے ہو ولی ۔"جلال خان نے پوچھا۔
"جاگنگ کرنے گیا تھا بابا سرکار۔"ولی نے پانی کی بوتل ٹیبل پر سے اُٹھاتے ہوۓ کہا۔
"تو نوراں کو بھی ساتھ لے جایا کریں کمپنی رہے گی۔"صوفیہ نے کہا۔ولی نے پانی کا گھونٹ بھرا اور اپنی ہنڈ فری کو لہراتے ہوۓ کہا۔
"میرے پاس کمپنی ہوتی ہے۔"
"ویری فنی لالا۔"صوفیہ نے منہ بنا کر کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گٸ۔
"اچھا چلو جاٶ جلدی سے فریش ہو کرآٶ پھر اکھٹے ناشتہ کرتے ہیں۔"جلال خان نے ولی سے کہا اور ولی اچھا کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گیا اور جاتے جاتے پانی کی بوتل وہاں کھڑی نوراں کے ہاتھ میں تھما گیا۔
"نوراں۔"بی بی جان نے پکارا۔
"جی بی بی جان۔"نوراں نے کہا۔
"جاٶ دیکھو ولی کو کچھ چاہیۓ نا ہو۔"بی بی جان نے نوراں سے کہا۔
"جی اچھا بی بی جان۔"نوراں نے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گٸ ۔
"میں بھی زرا شاہزیب لالا کو جگا کر آتی ہوں۔"صوفیہ نےکہا اور وہ بھی اندر چلی گٸ۔
نوراں نے ولی کے کمرے کا دروازہ کھولا اور جا کر صوفے پر بیٹھ گٸ۔وہاں کھڑے ولی نے فون استمعال کرتے ہوۓ نوراں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"ایسے مت گھوریں بی بی جان نے بھیجا ہے کہ جا کر دیکھو آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔"نوراں نے جھٹ سے کہا۔
"تو پھر بیٹھی کیوں ہو کپڑے نکال دو میرے۔"ولی نے کہا اور پھر سے فون استمعال کرنے لگا۔
"میں نکالوں کپڑے؟"نوراں نے حیرانگی سے پوچھا۔
"تمہارے علاوہ یہاں اور کوٸ ہے ؟"ولی نے فون کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
"کون سے نکالوں؟"نوراں نے پوچھا۔
"کوٸ بھی پینٹ شرٹ نکال دو۔"ولی نے کہا۔
نوراں ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی تھی اور ایک مسٹڈ کلر کی پینٹ اور واٸٹ کلر کی شرٹ نکال کر باتھ روم میں ہینگ کر دی اور ڈریسنگ روم سے باہر آ کر صوفے پر بیٹھ گٸ۔ولی نے فون ساٸیڈ پر رکھا اور نوراں کی جانب بڑھا تھا ۔
"ایک بات بتاٶ۔"ولی نے نوراں کودیکھتے ہوۓ کہا ۔پیازی رنگ کا سوٹ پہنے بالوں کی ڈھیلی چُٹیاں بناۓ سر پردوپٹہ ٹکاۓنوراں ولی کو ایک بار پر آسمان سے آٸ کوٸ اپسرا لگی تھی۔
"جی۔"نوراں نے کہا۔
"اُس دن کھانا صادق کہاں سے لایا تھا۔"ولی جانتا تھا اُس نے بہت ہی بے توکا سوال کیا ہے اور کیوں کیا وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا۔
نوراں کو بھی ولی کےاِس سوال کی وجہ سمجھ نہیں آٸ تھی۔
"مطلب !"نوراں نے پوچھا۔
"مطلب کہ اتنا اچھا کھانا کس ہوٹل کا تھا؟"
ولی نے پوچھا۔
"وہ ہوٹل کا نہیں تھا گھر کا تھا اب جاٸیں اور فریش ہو جاٸیں بابا اور بی بی جان انتظار کر رہیں ہیں۔"نوراں نےکہا۔ولی نے قدم باتھ روم کی جانب بڑھاے تھےپھر کچھ یاد آنے پر پلٹااور کہا۔
"یہ تمہیں کپڑے نکالنے کا جو کہا ہے تو خود کو بیوی مت سمجھنے لگ جانا۔"ولی نے کہا۔
"جانتی ہوں ایسے کام نوکرانیاں بھی کرتیں ہیں۔"نوراں نے کہا اورکمرے سے باہر آگٸ۔
*****
جاری ہے۔۔۔۔۔
jaldi da de na episode😜😜ab reviews b dain jaldi jaldi
Reviews ni daty ap log mujhy ...yar review ka mtlb ya ni h tareef he kary ni pasand ayea tu tanqeed b karsakty hai ya dono rights hai ap ky pas .....or enhi reviews ki waja sy humy likhny ki motivation milti h koi zoor zabar dasti ni h dil kary tu kardia kary comments na kary u bhalyna kia kary ....kuch log hai ju appreciate karty hai unki appreciation ka bht bht shukria...
oR
jo log parh ahy hai unsy guzarish h ky follow b kar lain mujhy....or ha
instagram pa b follow kar lain account nechy da dia h..⬇⬇⬇
@author_syeda_fatima_naqvi
Wattpad
@syeda399خوش رہیں خوشیاں بانٹیں۔۔۔۔۔۔😊
YOU ARE READING
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasyکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...