Episode #14

809 38 44
                                    

ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:١٤
۔
۔

ولی نوراں کے کمرے سے نکل کر باہر ٹی وی لاٶنج میں آیا تھا۔اُسے سمجھ نہیں آ رہاتھا اُسے اتنا غصہ کس بات پر آیا تھا ۔نوراں کی سرخ آنکھیں اور کلاٸ ولی کی آنکھوں کے سامنے بار بار آ رہی تھی ۔"کیا میں اُسے تکلیف دیتا آیا ہوں ؟کیا میری وجہ سے وہ اذیت میں ہے؟"ولی نے اپنے دونوں ہاتھ صوفے کی ٹیک پر ٹیکا کر کہا۔تبھی شاہزیب نے اُسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔
"اپنے آپ کو کوسنا بند کرو ولی۔تم نے جو کیا وہ بلکل صحیح کیا وہ لڑکی اِسی لاٸق تھی۔جنہوں نے ہمارے اپنے ہم سے چھین لیۓ اُنکا حشر تو اِس سے بھی بہت بُرا ہونا چاہیۓ تھا۔لیکن یہ ہماری شرافت ہی تھی جو ابھی تک اُسے برداشت کیا۔"شاہزیب نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
"لیکن اُسکی آنکھیں؟"ولی نے شاہزیب کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"اِس طرح کے لوگوں کو تم نہیں جانتے ولی۔۔۔۔یہ چھوٹے لوگ چار آنسو دیکھا کر سامنے والے کو گھٹنوں کے بل بیٹھا دیتے ہیں۔"شاہزیب نے کہاتبھی ولی نے بکھرے بالوں سے شاہزیب کی جانب دیکھا تھا ۔
"ریلیکس ہو جاٶ اور جاٶ جا کر سو جاٶ ۔صبح تک بہتر محسوس کرو گے۔" شاہزیب نے کہا۔شاہزیب کی بات سُن کر ولی نے اُوپر کی جانب قدم بڑھاۓ تھے۔
"اچھا ولی ایک اور بات سُنتے جاٶ ۔" شاہزیب نے ولی کو پکار کر کہا تھا ۔
"جی۔"ولی نے پلٹ کر جواب دیا۔
"مجھے کچھ دنوں کے لیے ایک کام سے گاٶں جاناہےتو فکر مت کرنا۔"شاہزیب نے کہا۔
شاہزیب کی بات سُن کر ولی نے محض سر ہلایا اور اُوپر کی جانب بڑھ گیا۔جبکہ شاہزیب مسکراتے ہوۓ نوراں کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
*****
سکینہ بی نے نوراں کو کاندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور بیڈ پر بیٹھایا تھا۔
"ہوا کیا ہے نوراں کچھ بتا تو صحیح۔"سکینہ بی نے پانی کا گلاس نوراں کے ہونٹوں سے لگا کر پوچھا۔نوراں نے دو گھونٹ پانی پیا اور گلاس ہاتھ سے پیچھے کیا اور اپنےگال پر آۓ آنسو رگڑ کر صاف کیۓ تھے ۔مگر بولی کچھ نہیں۔
"نوراں !بچے مجھے کچھ بتا تو صحیح کہ ہوا کیا ہے آخر ایسی کیا بات ہوگٸ تھی جو اتنا سب کچھ ہو گیا۔"سکینہ بی نے نوراں کے پاس بیٹھ کر پوچھا۔
"پریشان مت ہوں سکینہ بی ۔۔۔یہ سب تو ایک نا ایک دن ہونا ہی تھا۔"نوراں نے سکینہ بی کی طرف دیکھ کرکہا۔
"نوراں مجھے لگتا ہے ہمیں بڑےسرکار کو سب بتا دینا چاہیۓ ۔"سکینہ بی نے کہا۔
"وہ حقیقت پر کبھی یقین نہیں کریں گے۔"نوراں نے کھوۓ کھوۓ انداز میں کہا۔
"میں گواہی دوں گی نوراں ۔"سکینہ بی نے جلدی سے کہا۔
"حقیت آپ جانتی نہیں ہیں تو گواہی کیسے دے گی۔"نوراں کی نظریں اپنی کلاٸ پر تھیں۔
"کون سی حقیقت؟" سکینہ بی نے حیرت سے پوچھا ۔
"دُعا کریں سکینہ بی کہ حقیقت سب پر آشکارہو جاۓ ۔"نوراں نے کہا تھا اور ساتھ ہی کچھ آنسو اُسکی کلاٸ پر گِرے تھے۔
"میں زخم پر کچھ لگانے کے لیۓلاتی ہوں۔"سکینہ بی نے بجھے بجھے انداز میں کہا اور کمرے سے باہر چلی گٸ تبھی شاہزیب خان کمرے میں داخل ہوا تھا۔نوراں نے رُخ موڑ کر دروازے کی جانب دیکھا تھا نوراں کی آنکھوں میں شاہزیب خان کےلیے صرف نفرت نظر آ رہی تھی صرف نفرت ۔
"یہاں سے دفع ہو جاٶ شاہزیب خان۔"نوراں نے غصے سے کہا۔
"میں تو صرف تمہارا زخم دیکھنے آیاتھا کہ کہیں زیادہ گہرا تو نہیں ہے۔"شاہزیب نے تنظیہ لہجے میں کہا۔
"غلط۔۔۔۔تم یہاں صرف تماشا دیکھنے آۓ ہو لیکن ایک بات میری یاد رکھنا شاہزیب خان کہ اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے ۔"نوراں نے کھڑے ہو کر کہا۔
"سچ کہا تم نے کہ میں یہاں صرف تماشا دیکھنے آیا ہو ۔میں یہاں تمہاری ہار دیکھنے آیا ہو تمہارے منہ پر اُس تماچے کے نشان دیکھنے آیا ہو جو قسمت نے تب تمہارے منہ پر مارا ہے جب تم اپنا سب کچھ کھو چکی ہو،اپنے ماں باپ اپنے عزیز اور یہاں تک کہ اپنی محبت بھی۔"شاہزیب خان نفرت سے کہتا ہوانوراں کی جانب بڑھا تھا۔نوراں کی سُرخ آنکھوں میں وحشت ناچ رہی تھی ۔نماز کے لیے لیا گیا دوپٹہ ڈھیلا ہو چکا تھا۔
"تو پھر تم یہاں کیا کر رہے ہو جشن مناٶ میری بربادی کا جشن مناٶ اپنے انتقام کا۔"نوراں کہتےہوۓ مزید شاہزیب کے قریب ہوٸ تھی ۔
"جشن مناٶ اپنے قاتل ہونے کا شاہزیب خان ۔"آخری الفاظ نوراں نے چبا چبا کر ادا کیۓتھے ۔اور نوراں کے اِن الفاظ نے شاہزیب خان کا وجود ساکت کر دیا تھا ۔
"کیا ہوا بولتی کیوں بند ہو گٸ۔ تم ۔۔۔۔شاہزیب خان تم میرے منہ پر محبت کا تماچہ دیکھنے آۓ تھے یا اپنے منہ پر قاتل کی پھٹکار دیکھانے۔"نوراں بول رہی تھی جب شاہزیب نے داھاڑ کر اُسے خاموش کروایا ۔
"نوراں ں ں۔۔۔۔۔!"
تبھی سکینہ بی وہاں آٸ تھی اور شاہزیب کی آواز پر
دہل کر رہ گٸ تھی ۔
"آواز آہستہ شاہزیب خان ۔۔۔۔ آواز آہستہ کیوں سب کو اپنا تماشا دیکھانے کی اتنی جلدی ہے ۔تھوڑا صبر کر لو بابا سرکار اور بی بی جان بھی آ جاۓ پھر سب کو ایک ساتھ دیکھانا۔"نوراں نے آرام دہ انداز میں کہا۔
"کوٸ بھی تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گا۔"شاہزیب نے کہا اور واپس پلٹ گیا۔
"جانتی ہوں میری بات کا کوٸ یقین نہں کرے گا لیکن صوفیہ کی بات کوٸ نہیں جھٹلاۓ گا۔"نوراں نے بلند آواز سے کہا جو شاہزیب خان کو مکمل سُناٸ دی تھی لیکن شاہزیب نے کوٸ ردِعمل نہیں دیا اور باہر چلا گیا ۔باہر دروازے پر کھڑی سکینہ بی پر زرا کی زرا نظر ڈالی مگر کہا کچھ نہیں۔شاہزیب کے جانے کے بعد سکینہ بی تیزی سے اندر داخل ہوٸ تھیں۔اور نوراں کے سامنے کھڑےہو کر پوچھا ۔
"یہ اتنے غصے میں کیوں تھے اور تم ایسے بات کیوں کر رہی تھی ۔"سکینہ بی نےکہا۔
"جو لوگ اپنے ہواس کھو بیٹھتے ہیں سکینہ بی۔جن کو اچھے بُرے اور صحیح غلط میں فرق نظر نا آۓ وہ اِسی قابل ہوتے ہیں ۔"نوراں نے کہا اور پھر بیڈ کراٶن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گٸ۔
سکینہ بی نے نوراں کے تھکن زدہ چہرے کو دیکھا تھا ۔ایک دن میں اُسکی حالت قابلِ رحم لگنے لگی تھی۔نوراں کی یہ حالت دیکھ کر سکینہ بی کی آنکھیں بھی بھر آٸ تھیں ۔سکینہ بی نے نوراں کے پاس بیٹھ کر اُسکا دایاں ہاتھ پکڑا اور اُس پر لپٹا دوپٹہ کھولنے لگی۔دوپٹہ کھول کر سکینہ بی نے زخم دیکھے تھے جو زیادہ گہرے نہیں تھے لیکن کانچ کی چوڑیوں نے تقریباً ساری کلاٸ پر اپنے نشان چھوڑے تھے ۔سکینہ بی نے زخموں پر لگانے والی ٹیوب کھولی اور دوا اپنی اُنگلی سے زخم پر لگانے لگی۔دوا لگاتے وقت سکینہ بی نے نوراں کے چہرے کی طرف دیکھا تھا ۔جس پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے ۔
"نوراں میں تیری ماں کی جگہ ہوں میں تیرا دُکھ سمجھ سکتی ہوں۔۔۔۔۔تو مجھے تو بتا سکتی ہے کہ یہ سب کیوں ہوا کیسے ہوا؟"سکینہ بی نے دوا لگاتے ہوۓ پوچھا۔
"سکینہ بی ایک شخص کی بیوی اگر اُسکےبھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہو تو اُسکے ساتھ یہی ہوگا نا ۔"نوراں نےبند آنکھوں کے ساتھ ہی جواب دیا۔
"نوراں تو یہ کیسی باتیں کر رہی ہے اور تو نے ولی کو کچھ کہا کیوں نہیں ۔"سکینہ بی نے ایک اور سوال کیا۔
"کچھ کہنے کےلیے ہی تو ہاتھ بڑھایا تھا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔" نوراں نے پرسکون انداز میں جواب دیا ۔
"نوراں تو ولی سے محبت کرنے لگی ہے۔"سکینہ بی نے اِس سوال کا جواب جانتے ہوۓ بھی سوال کیا۔نوراں کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد نوراں بولی ۔
"سکینہ بی!سُنا ہے محبت وحی کی طرح دلوں پر اُترتی ہے۔تو پھر یہ ہونے سے تو نہیں ہوتی نا یہ تو خود بہ خود دلوں میں اپنا گھر بنا لیتی ہے۔"نوراں کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ پُرسکون تھا۔
"تو پھر!"سکینہ بی کچھ بولنے ہی والی تھی کہ نوراں نے اُنکی بات بیچ میں کاٹی اور بولنے لگی۔
"مجھے محبت بھیک میں یا زبردستی نہیں چاہیۓ ۔میں محبت کی خوشی میں خوش ہوں سکینہ بی آپ بے فکر ہوجاۓ اور آرام سے جا کر سو جاۓ رات کافی ہو گٸ ہے۔"نوراں نے کہا اور اُٹھ کر واش روم کی جانب بڑھ گٸ سکینہ بی نے افسوس سے سر جھٹکا اور کمرے سے باہر آ گٸ ۔
*****
ولی کی آنکھیں حد سے زیادہ سُرخ ہو رہی تھیں ۔وہ مسلسل کسی کو فون کرنے میں مصروف تھا لیکن ہر بار نمبر پاور آف مل رہا تھا۔ ولی نے فون غصے سے بیڈ پر پھینکا تھا۔اور اپنے ہاتھ کو دیکھا جو نوراں نے آج نجانے کیا سوچ کر پکڑا تھا ۔
"تمہارے الفاظ کا لمس ہر وقت میری روح میں اذیت بن کر ناچتا ہے ۔"نوراں کی آواز کمرے میں گونجی تھی۔"ولی نے اپنا سر دنوں ہاتھوں میں تھاما اور صوفے پر بیٹھ گیا۔"تم نے جو کیا صحیح کیا۔"شاہزیب کی آواز اِس بار کمرے میں گونجی تھی ۔لیکن خود ولی کی آواز کہاں جا سوٸ تھی ولی بھی نہیں جانتا تھا ۔کیا صحیح تھا اور کیا غلط ولی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا ۔لیکن وہ ایک فیصلہ کر چُکا تھا ۔فضہ سے شادی کا کیونکہ نوراں جو کہ بشیر کی بیٹی تھی وہ کبھی ولی خان کی بیوی نہیں بن سکتی تھی کیونکہ وہ ایک قاتل کی بیٹی تھی اور ولی کے نزدیک تو وہ گاٶں کی ایک آوارہ لڑکی بھی تھی۔

میں لڑکی عام سی(مکمل)Where stories live. Discover now