ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:١٥راشد اورزوبیا آٸ سی یو کہ باہر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔لیکن دونوں ایک دوسرے سے لا تعلق تھے ۔دونوں اپنی اپنی سوچو میں گم تھے ۔
"مصطفیٰ لالا کو کون قتل کر سکتا ہے آخر اُن کی کسی سے کیا دشمنی تھی؟گاٶں میں اتنا سب ہوا لیکن مجھ سے کسی نے ذکر کیوں نہیں کیا؟اماں،ابا،رانیا اور صدف کسی نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟اور نوراں نے کیوں مجھ سے رابطہ کر کے کچھ نہیں بتایا؟"اِس طرح کے انگنت سوالات راشد کے ذہن میں تھے لیکن فی الوقت کسی بھی سوال کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا۔راشد نے زرا سی نظر اُٹھا کر اپنے سامنے بیٹھی زوبیا کو دیکھا تھا جو مسلسل اپنے ہاتھوں کےساتھ کھیل رہی تھی ۔"کیا میں اِس رشتے کو نبھا سکوں گا؟کیا میں اِن کے ساتھ کھڑا رہ سکوں گا؟کیا یہ میرے ساتھ خوش رہ سکیں گی؟" راشد کے پاس اِس وقت صرف سوال ہی سوال تھےجبکہ دوسری جانب زوبیا بھی سوالات میں گھیری تھی۔ایک ڈر تھا اُس کے اندر کہ کیا وہ کبھی اپنے دل میں مصطفیٰ کی جگہ اُس شخص کو دے پاۓ گی جو کچھ لمحے پہلے اُسکی زندگی میں آیا؟کیا وہ اپنے بابا کے مان کو برقرار رکھ پاۓ گی ؟"اور بھی بہت سے سوال زوبیا کے ذہن میں تھے ۔
تبھی وہاں عالیہ اور سلیمان (اسفی کے ماں باپ ) آۓتھے۔
"زوبیا!"عالیہ نے پکارا تھا۔
"پھوپھو!"زوبیا نے عالیہ کو دیکھ کر کہا اور اُنکے گلے لگ گٸ ۔راشد بھی دونوں کو دیکھ کر کھڑا ہو گیاتھا۔
"کیا ہوا ہے بھاٸ جان کو ؟"عالیہ نے زوبیا کی پیٹھ سہلاتے ہوۓ کہا۔
"مجھے کچھ نہیں پتا پھوپھو ۔۔۔۔ڈاکٹر بس ایک ہی بات کر رہیں ہیں کہ دعا کریں۔"زوبیا نے روتے ہوۓ کہا۔
" ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو گا تم فکر مت کرو۔"عالیہ نے دیلاسہ دیا۔
"زوبیا اسفی کہا ہے؟"سلیمان صاحب نے سوال کیا۔
"وہ ولی کو لینے گیا ہے۔"زوبیا کی بجاۓ راشد نےجواب دیا تھا ۔راشد کے جواب پر عالیہ اور سلیمان دونوں راشد کی جانب متوجہ ہوۓ تھے ۔
"راشد تم یہاں؟"عالیہ نے راشد کوبغور دیکھتے ہوۓ کہا۔
"سلام !"راشد نے سلام کیا۔
"وسلام! سلیمان یہ اپنےمصطفیٰ کا بہت اچھا دوست ہے۔"عالیہ نے سلام کا جواب دینے کے بعد تعارف کر وایا تھا ۔اِتنی دیر میں ولی اور اسفی وہاں پہنچے تھی۔
"اسلام علیکم!"ولی نے سب کو سلام کیا تھا۔
"وسلام!"سب نے کہا۔
"کیسی ہو ؟ ماموں کی طبیعت کیسی ہے اب؟"ولی نے زوبیا کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا ۔
"لالا دعا کریں بابا ٹھیک ہو جاۓ۔"زوبیا نے اپنے گال صاف کرتےہوۓ کہا۔
" ان شاء اللہ ماموں جلد ٹھیک ہو جاۓ گے۔"ولی نے کہا۔
"آپ لوگوں نے بہت دیر نہیں کر دی سیالکوٹ سے آنے میں ۔"اسفی نے اپنے ماں باپ سے پوچھا۔
"اتنا ٹاٸم تو لگ ہی جاتا ہے اسفی۔"عالیہ بیگم نے جواب دیا ۔تبھی ڈاکٹر وہاں آیا تھا۔
"کیسی طبیعت ہے اب؟"راشد نے آگے بڑھ کر سوال کیا ۔
"طبیعت ابھی ویسی ہی ہے کچھ خاص بہتری نظر نہیں آٸ ابھی تک ۔۔۔۔ ہم نے نیند کا انجیکشن دے دیا ہے انہیں بس اب آپ لوگ دعا کریں۔"ڈاکٹرنے کہا اور چلا گیا ۔
" اسفی آخر بھاٸ جان کو ہوا کیا ہے ؟"عالیہ نے پوچھا ۔
"بتاٶ گا پر یہاں نہیں۔"اسفی نے اپنا منہ عالیہ کے کان کے پاس کر کے کہا۔
"ہمممم ۔"عالیہ نے کہا۔
"آپ سب ہمارے نۓ فیملی ممبر سے ملیں ہیں؟"اسفی نے نےپوچھا۔
"کس سے؟"سلیمان صاحب نے پوچھا۔
"انسپکٹر راشد سے۔"اسفی نے کہا۔
"ہاں ہم مل چکے ۔۔۔۔مصطفیٰ کا دوست ہے۔"عالیہ نے کہا ۔
"جی جی بلکل مصطفیٰ لالا کے دوست اور آج سے اِس خاندان کے داماد۔"اسفی نےکہا ۔جس پر سب نے پہلے حیرت سے اسفی کو دیکھا اور پھر راشد کو ۔راشد کے اِس تعارف پر ولی کے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔نجانے کیوں ولی کو راشد کے نام پر غصہ آیا تھا۔
"کیا مطلب ہوا اِس بات کا اسفی ؟" عالیہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"مما احمد انکل کے کہنے پر آج ہی یہاں ہاسپٹل میں ہی راشد اور زوبیا بجو کا نکاح ہوا ہے۔اسفی کی اِس بات نے سب کو مذید حیران کیاتھا جبکہ ولی کو زوبیا کے ساتھ راشد کے اِس رشتے پر اُسے مذید غصہ آیا تھا۔
" ایسے مت دیکھے یہ سچ ہے اور یہ سب کب؟ کہاں؟کیسے اور کیوں ہوا آپ کو بعد میں بتا دیں گے ۔لیکن ابھی کے لیے آپ کا یہ جاننا ضروری تھا اِس لیۓ بتا دیا ۔" اسفی نے کہا تھا اور عالیہ نے زوبیا کی جانب دیکھاتھاجو سر جھکاۓ وہاں کھڑی تھی ۔
"بہت اچھا فیصلہ کیا بھاٸ جان نے راشد ایک اچھا ،پڑھا لکھا اور سمجھدار انسان ہے ۔ ان شاء اللہ تم دونوں ایک ساتھ بہت خوش رہو گے۔"عالیہ نے زوبیا کا ماتھا چوم کر کہا۔
*****
"کیا صورتحال ہے؟" شاہزیب خان حویلی میں کچھ پیپز لیۓ اپنے وکیل کے ساتھ بیٹھا تھا اور پیپرز کے متعلق پوچھا تھا۔
"شاہزیب صاحب آپ یہ غلط کر رہے ہیں ۔آپ یہ سب اپنے باپ اور بھاٸ کی رضامندی سے بھی کر سکتے ہیں۔"وکیل نے کہا۔
"تم سے جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو اور بس۔"شاہزیب نے سختی سے کہا۔
"تو سُنے یہ پیپرز تب تک آپ کے کسی کام کے نہیں ہیں جب تک اِس پر جلال خان اور ولی خان کے دستخط نہ ہوں۔ اُن کے دستخط کے بغیر نہ ہی آپ بینک سے پیسےنکلوا سکتے ہیں اور نہ ہی کوٸ پراپرٹی بیچ سکتے ہیں ۔"وکیل نے پیپرز سامنے پڑے میز پر اُچھل کر کہا۔
"ہممممم ٹھیک ہے تم جا سکتےہو۔"شاہزیب نے وکیل کو جانے کا کہا۔وکیل نے کھڑےہوکر اپنے کوٹ کے بٹن بند کیۓ تھے اورشاہزیب کی طرف دیکھ کر کہا۔
"ویسے مصطفیٰ خان نے ایسا کیوں کیا؟کہ ہر چیز پر آپ کا حق ہونے کے باوجود آپ کو اُس سے دور رکھا گیا ؟"وکیل کی اِس بات پر شاہزیب نے خونخوار نظروں سے وکیل کو دیکھا تھا اور اُس کا گریبان پکڑ کر کہا تھا۔
"تم اپنے اِس دماغ پر زیادہ بوجھ مت ڈالوں آٸ سمجھ ۔"
"جی ۔۔۔۔جی۔۔۔آ گٸ ۔"وکیل نے گبھرا کر کہا۔
"بہت اچھا ۔اب دفع ہو جاٶ یہاں سے ۔"شاہزیب نےکہہ کر ایک جھٹکے سے وکیل کو چھوڑا تھا۔
"یہ تم نے اچھا نہیں کیا مصطفیٰ خان ۔۔۔۔مجھے میرے ہی حق سے دور کر دیا تم نے ۔"شاہزیب نے غصے سے کہا ۔
******
"مما!"اسفی نے عالیہ کو پکارا تھا جو زوبیا کے پاس بیٹھی تھی۔اسفی کی آواز پر عالیہ اُٹھ کر اسفی کی طرف آٸ تھی۔
"ہاں کیا ہے بولو؟"عالیہ نے پوچھا۔
"مما رات ہوگٸ ہے اور زوبیا بجو اور راشد صبح سے یہاں ہیں انہوں نے کچھ نہیں کھایا پیا ۔آپ پلیز دونوں کو گھر لے جاۓ تاکہ وہ کچھ دیر آرام کر لیں ۔تب تک میں یہی ہوں۔"اسفی نے کہا۔
"کہہ تو صحیح رہے ہو لیکن مجھے نہیں لگتا زوبیا جاۓ گی۔لیکن پھر بھی ٹراۓ کرتی ہوں۔"عالیہ نے کہا اور واپس زوبیا کی جانب بڑھ گٸ ۔
وہی ولی راشد سے کچھ فاصلے پر پڑی کرسی پر بیٹھا تھا۔
"تم علی پور سے ہو؟"ولی نے سوال کیا تھا لیکن یہ سوال ولی نے کیوں کیا تھا یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا ۔
"جی میں علی پور سے ہوں۔میں اور مصطفیٰ لالا ساتھ کام کرتے تھے۔"راشد نے جواب دیا۔
"صحیح.....تو تم بشیر احمد کو بھی جانتےہوگے۔"ولی نے پوچھا۔
"جی بہت اچھی طرح چچا ہیں میرے ۔"راشد نے مسکرا کر کہا۔
"آہہا ۔۔۔۔۔۔پھرتو تم نوراں کو بھی جانتے ہوں گے۔"ولی نجانے کیوں یہ سوالات پوچھ رہاتھا شاید اُس شک کو ختم کرنے کے لیے جو شاہزیب نے اُسکے ذہن میں ڈالا تھا۔ولی کے اِس سوال پر پہلے راشدنے بغور ولی کو دیکھا اور کہا۔
"اُس کو کون نہیں جانتا ۔۔۔۔علی پور کی رونق ہے وہ تو۔ لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟"راشد نے خوشی سے مسکراتے ہوۓ جواب کے بعدسوال کیا۔
"کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی۔"ولی نے کہا اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگا تھا کہ تبھی اسفی وہاں آیاتھا۔
"چلو راشد اُٹھو اور گھر جا کر تھوڑا آرام کرکو۔"اسفی نے راشد سے کہا۔
"نہیں اِس کی ضرورت نہیں ہے ۔میں ٹھیک ہوں۔"راشد نے کہا۔
"ارے تم لوگوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔"اسفی نے کہا۔
"فکر مت کرو میں ٹھیک ہوں یار۔"راشد نے کھڑے ہو کر اسفی سے کہا ۔
"لالا آپ کہیۓ نا ۔"اسفی نے ولی کو بیچ میں گھسیٹا۔
"ہاں راشد چلے جاٶ میں اور اسفی ہیں یہاں۔"ولی نے کہا۔
"ایم اوکے۔ڈونٹ وری۔"راشد نے کہا۔
"چلو پھر یہی کچھ لے کر آتا ہوں تمہارے لیۓ ۔لالا آپ پھر مما اور زوبیا بجو کو لے جاۓ میں یہاں راشد کےساتھ رُکتا ہوں۔اسفی نے راشد سے کہہ کر ولی کو مخاطب کیا تھا۔
"ٹھیک ہے میں لے جاتا ہوں۔"ولی نے کہا اور زوبیا لوگوں کی جانب بڑھ گیا۔
******
"سکینہ بی کوٸ فون آیا کیا؟"نوراں نے کمرے کےدروازے میں کھڑےہو کر سامنے کھڑی سکینہ بی سے پوچھا۔
"نہیں ابھی تک تو کوٸ فون نہیں آیا۔"سکینہ بی نے کہا ۔تبھی ٹی وی لاٶنج میں پڑے فون کی گھنٹی بجی تھی ۔اور نوراں نے سکینہ بی کو فون اُٹھانےکا اشارہ کیا تھا۔
سکینہ بی نے آگے بڑھ کر فون اُٹھایا اور کان سے لگایا۔
"سلام!"سکینہ بی نے کہا ۔نوراں بھی وہی فون کے پاس جا کھڑی ہوٸ تھی ۔
"سلام سکینہ بی ۔۔۔کیسی ہیں؟"دوسری جانب سے آواز آٸ ۔
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ صوفی بیٹی کیسی ہو ؟"سکینہ بی نے کہا ۔
"میں ٹھیک ہوں سکینہ بی ۔۔۔نوراں کہاں ہے؟"صوفیہ نے پوچھا ۔
"نوراں یہ میرے پاس ہی ہے لو بات کرو۔"سکینہ بی نےکہہ کر رسیور نوراں کی طرف بڑھایا۔نوراں نے ایک گہرا سانس لیا اور رسیور کان سے لگایا۔
"اسلام علیکم!"نوراں نے پاس رکھے صوفے پر بیٹھ کر کہا۔
"وعلیکم سلام!کیسی ہو؟"صوفیہ نے پوچھا۔
"الحَمْدُ ِلله میں ٹھیک ہوں ۔۔۔تم بتاٶ بابا سرکار اور بی بی جان کیسی ہیں؟"نوراں نے سوال کیا۔
"وہ بھی ٹھیک ہے ماشاءاللہ ۔"صوفیہ نےکہا ۔اور اُس کے بعد کچھ لمحوں کے لیے خاموشی چھا گٸ ۔جیسے نوراں نے توڑا۔
"بس کرو صوفی خودکو مذید مت کوسو؟"نوراں نے کہا۔
"نوراں میں یہاں آگٸ ہو ۔۔لیکن مجھے سکون نہیں مل رہا پلیزمجھے معاف کر دو۔"صوفیہ نے نم آواز سے کہا ۔
"تمہیں اُسی دن ہی معاف کر دیا تھا صوفی جس دن تمہارے بھاٸ کو آزاد کیا۔"نوراں نے کہا ۔
"مطلب !" صوفیہ نے پوچھا۔
"مطلب یہ کہ تمہیں معاف کر دیا ہے مگر ایک گزارش ہے اگر ہو سکے تو میرے ابّا پر لگا الزام دور کردو کسی بھی طرح مجھے اور کچھ نہیں چاہیۓ ۔"نوراں نے کہا۔
"تمہیں اور کچھ نہیں چاہیۓ ولی لالا بھی نہیں۔"صوفیہ نے پوچھا۔
"ہمممم کچھ نہیں چاہیۓ ۔۔۔۔ ولی بھی نہیں۔"نوراں نے کہا اور فون رکھ دیا جبکہ صوفیہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہاتھا کہ نوراں نے اپنی زندگی کا کیا فیصلہ کیا ہے ۔دوسری جانب نوراں نے اپنے ہاتھوں سے آنکھیں ملی تھیں۔اِن آنکھوں کی اذیت صرف وہ جانتی تھی ۔"سکینہ بی نے صحیح کہا تھا کہ محبت میں جداٸ موت ہوتی ہے۔ اور میں تو ابھی سے بکھرنے لگی ہو ۔"نوراں خود سے بڑبڑاٸ تھی۔
"صبر والوں کو انکے صبر کا پھل ضرور ملتا ہے ۔"سکینہ بی نے دور سے ہی نوراں کو کہا تھا ۔جس پر نوراں تلخ سا مسکراٸ تھی۔
YOU ARE READING
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasyکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...