میں لڑکی عام سی
ازسیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر :٤ہر طرف خوشی کا سماں تھا، احمد صاب(مصطفیٰ کے ماموں اور زوبیا کے والد) کے گھر مہندی کافنگشن شروع ہو چکا تھا ۔گیندے کے پھولوں سے سجے جھولے پر بیٹھی ،سبز اور اورنج رنگ کا فراک زیب تن کیٸے سر پر اپنی ماں جی کا بھاری کام والا دوپٹہ لیۓ ہر فکر سے بے نیاز چہکتی کلی، زوبیا احمد کے ہاتھوں پر مصطفیٰ خان کے نام کی مہندی لگ چکی تھی ۔
"زوبیا مہندی والے ہاتھوں کی ایک تصویر لے کر زرا مصطفیٰ لالا کو بھیجو۔" زوبیا کی ایک سہیلی نے کہا۔
" نہیں نہیں بلکل نہیں کوٸ میری تصویر لے کر مصطفیٰ کو نہیں بھیجے گا ۔"زوبیا نے سب کو خبر دار کیا ۔
کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ مصطفیٰ اب اُسے نکاح کے بعد ہی دیکھے۔
"زوبیا۔" احمد صاحب نے زوبیاکے پاس بیٹھتے ہوۓ اُسے مخاطب کیا۔
"جی بابا جان ۔"
" کل تم اپنے گھر چلی جاٶ گی ،تو یہ گھر گھر کس قدر ویران ہو جاۓ گا ۔"احمد صاحب نے چاروں جانب نظر دوڑاتے ہوۓ کہا۔
"بابا جان ۔"زوبیا کہنے کے ساتھ ہی اپنے بابا کے گلے لگ گٸ تھی ۔
آج صبح سے ہی وہ اپنی والدہ کو بہت یاد کر رہی تھی لیکن اب بابا کے گلے لگتے ہی آنسو پر بندھا بند ٹوٹ گیاتھا۔
"بابا آپ مجھے اپنے سے دور مت کرے ۔" زوبیا نے آنسوٶں سے تر چہرہ اوپر اُٹھاتے ہوۓ کہا۔
"پگلی میں کیوں اپنی گڑیا کو خود سے دور کرنے لگا ،یہ تو قدرت کا بنایا ہوا قانون ہے ورنہ کون ماں باپ اپنے جگر کا ٹکرا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی غیر کو دینے لگا۔اور تم تو بچپن سے ہی میرے پاس مصطفیٰ کی امانت ہو کل میں اُسکی امانت اُسے سونپ کر اپنا فرض ادا کر دو گا ۔اور جہاں تک بات ہے مجھ سے دور جانے کی تو زوبی یہ گھر اور میں تمہارا انتظار کیا کریں گے جب دل کرے مصطفیٰ کے ساتھ آجایا کرنا۔" احمد صاحب نے زوبیا کے آنسو صاف کر کے اُسے گلے سے لگایا۔
مشکل ہوتا ہے بہت مشکل ہوتا ہے ماں باپ کے لیے اپنی بیٹی کو رخصت کرنا لیکن یہ واحد ایسی مشکل جسکا سامنا ماں باپ ہنسی خوشی کرتے ہیں ۔
زوبیااحمد خان کی اکلوتی اولاد تھی ،زوبیا کی ماں کا انتقال زوبیا کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا،زوبیا کی ماں کے انتقال کے بعد اُس کی پرورش اُس کے والد اور اُسکی پھوپھی (مصطفیٰ کی ماں )نے کی تھی ۔ اور پھر بچپن میں ہی جلال خان کی خواہش کے مطابق دونوں بچوں کی نسبت طہ کردی گٸ تھی۔
******
دوسری جانب خان حویلی کو بھی دلہن کی طرح سجایا گیا تھا،ہر طرف خوشی کا سماں تھا ، مصطفیٰ جلال خان کی شادی میں گاٶں کا ہر شخص شریک تھا ۔
مرد حضرات کے لیے گھر کے لان میں سارے انتظامات کیے گٸے تھے جبکہ خواتین کے لیے حویلی کے اندر ہال میں انتظامات کیے گٸے تھے۔
سب کے چہروں پر مسکراہٹ رقم تھی لیکن آنے والی قیامت سے سب نا واقف تھے۔
صوفی نوراں کو چھوڑ کر مصطفیٰ کو لینے گٸ تھی تاکہ رسم کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے ۔
"اُففف اللہ یہ صوفی کہا رہ گٸ ۔" ابھی نوراں نے صوفیہ کے پیچھے جانے کے لیے قدم اُٹھایا ہی تھا کہ بی بی جان کی آواز پر رُکی۔
"ماشاءاللہ ! نوراں بہت خوبصورت لگ رہی ہو،اللہ پاک تمہیں بُری نظر سے بچاۓ۔" بی بی جان نے نوراں کا ماتھا چومتے ہوۓ دعا دی۔
"بہت شکریہ بڑی سرکار ۔" نوراں نے کہا
"نوراں صوفی کہاں ہے ؟۔"بی بی جان نے سوال کیا۔
"پتا نہیں بڑی سرکار مجھے یہاں کھڑا کر کے کہاں چلی گٸ ۔"نوراں نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ضرور مصطفیٰ کے پاس ہو گی جاٶ اور دونوں کو لے کر آٶ۔"بی بی جان نے کہا۔
"جی اچھا بڑی سرکار۔" نوراں کہہ کر اپنا فراک سنمبھالتی سڑیوں کی جانب بڑھ گٸ۔
"بھابھی(بی بی جان ) یہ بچی کون تھی ؟"مصطفیٰ کی پھوپھی نے پوچھا۔
" یہ بچی بشیر کی بیٹی ہے ۔" بی بی جان نے کہا۔
"ماشاءاللہ بہت پیاری ہے چھوٹی سی تھی جب اِسے دیکھا تھا اب کتنی بڑی ہو گٸ ہے ۔" عالیہ(مصطفیٰ کی پھوپھو نے کہا)۔
"تم کون سا آتی جاتی رہتی ہو۔پہلے سال میں ایک آدھی بار آجاتی تھی پر اب تو وہ بھی نہیں آتی۔"بی بی جان نے گلہ کیا۔
"بس بھابھی آپکو تو پتا ہی ہے سلیمان اپنے کام میں کس قدر مصروف رہتے ہیں،اور جہاں تک اسفی کی بات ہے تو اُسکے پاٶں تو گھر میں ٹیکتے ہی نہیں ہے کبھی کہیں تو کبھی کہیں،بس اب میں نے سوچ لیا ہے اس بار لالا سے فاٸنل بات کر کے ہی جاٶ گی اسفی کے رشتے کی ۔" عالیہ نہ کہا۔
"فاٸنل کرنے کی کیابات ہے صوفیہ تمہاری اپنی بیٹی ہے جب دل چاہے آ کر لے جاٶ۔" بی بی جان نے کہا۔
"بھابھی ایسا نہ کہے یہ نہ ہو میں مصطفیٰ کے ساتھ ساتھ صوفی کا نکاح بھی پڑھوا دوں۔"عالیہ نے کہا۔
اور پھر دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑیں۔
عالیہ ،جلال خان کی بہن تھی ۔ عالیہ کے دو بچے تھے ایک نورین اور ایک اسفند۔نورین اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا میں رہتی تھی اور اسفند اپنے والدین کے ساتھ لاہور میں۔عالیہ کی بہت خواہش تھی کہ وہ صوفیہ کو اسفند کی دلہن بناۓ اور اسفند کو بھی اِس پر کوٸ اعتراض نہیں تھا ۔اس لیے اب کی بار عالیہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ دونوں بچوں کی شادی کی تاریخ لے کر ہی جاۓ گی۔
*******
"مجھے بی بی جان کی بات مان لینی چاہیۓ تھی ،یہ گرارا تو سمبھلنے میں ہی نہیں آ رہا ، اِس کو سمبھالوں یا اِس دو گز کی چادر کو۔"
صوفیہ اپنا گرارا سمبھالتی حویلی کے پیچھلے حصے کی جانب بڑھ رہی تھی اور ساتھ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی کیونکہ اب اُسے اُلجھن ہو رہی تھی۔ گرارا ،لہنگے کی طرح اُٹھا کر چلتی تو دوپٹہ شانے سے سِرک جاتااور دوپٹہ سمبھالے تو گرارے کی وجہ سے گرنے کا خطرہ رہتا۔جس کی وجہ سے وہ سخت کوفت کا شکار ہو رہی تھی۔
"محترمہ اگر آپکو اس طرح کے روایتی لباس سمبھالنے نہیں آتے تو پہنتی کیوں ہیں؟"
آواز صوفیہ کے پیچھے سے آٸ تھی جس پر صوفیہ نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو۔" صوفیہ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ کہا۔
"میں آپکا خادم آپکے دوپٹے کو اس صاف گھر کی مزید صفاٸ کرنے سے روک رہا ہوں۔" اسفی نے دوپٹے والا ہاتھ اوپر کرتے ہوۓ کہا۔
"اس مہربانی کا بہت شکریہ ۔" صوفیہ نے کہنے کے ساتھ ہی اپنا ڈوپٹہ کھینچا تھا۔
لیکن ناکام رہی کیونکہ اسفی کی دوپٹے پر گرفت خاصی مضبوط تھی۔
"کیا بدتمیزی ہے چھوڑوں میرا دوپٹہ۔" اس بار صوفیہ نے سختی سے کہنے کے ساتھ دوبارہ کھینچا تھا، لیکن پھر ناکام ہوٸ۔
"ارے بی بی جی چھوڑ دیتا ہوں بس میری ایک بات سُن لو ۔" اسفی نے کہا۔
"سُنتی ہوں، پہلے یہ چھوڑو۔"صوفیہ نے ایک اور کوشش کی ۔
"نہ جی پہلے بات سُنو۔"اسفی نے پھر وہی بات کی۔
"جلدی بکو کیا ہے،کوٸ آ جاۓ گا۔" صوفی نے اِدھراُدھر دیکھتے ہوۓ کہا۔
"محترمہ یہ بکو کیا ہے تھوڑا پیار سے کہو،اور کوٸ آتا ہے تو آ جاۓ مجھے کوٸ ٹینشن نہیں ہے۔"اسفی نے کہا۔
"اسفی۔" صوفی نے گھور کر اسفی کو کہا۔
"جلدی بولو ورنہ سچ میں کوٸ آجاۓ گا۔"اسفی نے کہا۔
"ویسے بہت ڈھیٹ ہو تم۔"
"کوٸ شک۔" اسفی نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔
"پلیز جلدی بولو مجھے مصطفیٰ لالا کے پاس جانا۔"صوفی نے ہار مانتے ہوۓ کہا۔
"مجھے یہ کہنا تھا کہ۔" اسفی نے کہنے کے ساتھ ساتھ اپنے قدم صوفی کی جانب بڑھانے شروع کیے۔
"اسفی وہی رہ کر بات کرو۔"صوفی نے ایک قدم پیچھے ہونا چاہا لیکن نہ ہو سکی کیونکہ دوپٹے کا ایک پلو اسفی کے ہاتھ میں تھا۔۔
"وہ نہ مجھے یہ کہنا تھاکہ۔"اسفی صوفی کے بہت پاس کھڑاتھا اور صوفی کو اپنی دھڑکنیں بند ہوتی ہوٸ محسوس ہو رہیں تھیں۔
"کیا کہنا ہے ۔" صوفی نے با مشکل کہا۔
اسفی نے اپنے ہونٹ صوفی کے کان کے پاس کرتے ہوۓ کہا ۔
"زیادہ کچھ نہیں بس اتنا کہنا ہے کہ تم دن بہ دن مزید موٹی ہوتی جا رہی ہو۔" اسفی نے کہنے کے ساتھ ہی باہر کی جانب دوڑ لگاٸ۔
"خود کیا ہو موٹے گینڈے۔"صوفی نے پیچھے سے سانس بحال کر کے اوُنچی آواز میں کہا۔
جو باہر جاتے اسفی کو بخوبی سُناٸ دی ۔
*******
"مصطفیٰ لالا !آپ اندر ہیں؟" نوراں نے مصطفیٰ کے کمرے کا دروازہ ٹھکٹھکاتے ہوۓ کہا۔
"لالا۔" نوراں نے پھر سے دروازہ بجایا
لیکن کوٸ جواب نہ آنے پر نوراں نے دروازے کا ہینڈل گھومایا اور پوری طاقت سے دروازہ کھول دیا جو دوسری جانب سے دروازہ کھولنے کے لیے آتے ولی کے منہ پر لگا۔
" یا اللہ !کون کمبخت ہے ۔" ولی نے اپنی ناک دباتے ہوۓ کہا۔
"دھت تیری نوراں یہ کیا کردیا ۔" نوراں نے ولی کو دیکھتے ہی خود کلامی کی۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو اور یہ کون سا طریقہ کسی کے کمرے میں گھسنے کا ۔؟ ولی غصے سے دھاڑا۔
"معزرت چھوٹے خان لیکن میں نے دو مرتبہ دروازہ بجایا تھا آپ کےنہ کھولنے پر مجھے کھولنا پڑا۔ "نوراں نے کہا۔
"دو بار بجایا تھا تو تیسری بات بھی بجا لیتی، جاہل ۔" ولی ابھی بھی مسلسل اپنی ناک رگڑرہا تھا۔
"اُوووو!انگریزی بندر جاہل ہو گے تم جِسے لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے ۔"نوراں نے بھی حساب برابر کیا۔
"تم جو تمیز دیکھا رہی ہو وہ بھی میں دیکھ رہا ہوں۔" ولی نے کہا۔
"میں نے تمیز سے ہی معذرت کی تھی لیکن شاید آپکو تمیز سے کی گٸ بات سمجھ میں نہیں آتی۔" نوراں نے ولی سے کہا۔
" تمہاری تمیز چاہیے بھی کِسے۔" ولی نے بات کو طول دیتے ہوۓ کہا۔
"مصطفیٰ لالا کہاں ہیں؟ نیچے بی بی جان اُنہیں رسم کے لیے بلا رہیں ہیں ۔"نوراں نے آرام سے کہا نا جانے کیوں دل پر بوجھ تھا کہ کہی کچھ بہت بُرا ہونے والا ہے۔
"ولی جو نوراں کی طرف سے مزید بحث کرنے کا انتظار کر رہا تھا۔اُس نے حیرت کے ساتھ نوراں کو دیکھا۔
" وہ نیچے ۔" ابھی ولی یہ ہی کہہ پایا تھا کہ اچانک گولی چلنے کی آواز آٸ کے ساتھ ساتھ صوفی کی چیخ سُناٸ دی تھی۔اور وہ دونوں نیچے کی جانب بھاگے۔
******
"لالا۔" صوفیہ نے مصطفیٰ کو زمین پر گرے دیکھ کر چیخ ماری اور بھاگ کر مصطفیٰ کے پاس آٸ ۔
"لالا، یہ کیا ہو گیا۔" صوفی نے مصطفیٰ کا سر اپنی گود میں رکھا اور دل کے قریب لگی گولی سے بہتے خون کو روکنےکے لیے ایک ہاتھ مصطفیٰ کے سینے پر رکھا اور ساتھ ہی نظر اٹھا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جو ہاتھ میں بندوق لیے بت بنا صوفی کو دیکھ رہاتھا۔
" کوٸ ہے۔ولی لالا! بابا سرکار ! خدارا جلدی یہاں آٸیں۔" صوفی نے روتےہوۓ کہا۔
"صوصو۔۔۔۔۔صوفی ۔"مصطفیٰ نے اٹکتے اٹکتے کہا۔۔۔۔۔
" لالا آپ فکر مت کرے آپکو کچھ نہیں ہو گا ،آپ بس ہمت سے کام لیں۔" صوفی نے ہیچکیاں لیتے ہوۓ کہا۔
"مصطفیٰ ! جلال خان نے مصطفیٰ کو دیکھ کر تھکے ہوۓ انداز میں کہا۔
آہستہ آہستہ سب مہمان حویلی کے پیچھلے حصے میں جمع ہو گۓ تھے۔
نوراں اور ولی ایک ساتھ وہاں پہنچے تھے ۔
ولی مصطفیٰ کو دیکھ کر اُسکی طرف بڑھا جبکہ نوراں بے یقينی کے عالم میں گھیری اُس شخص کو دیکھ رہی تھی جو بندوق تھامے کھڑا تھا ، جو مصطفیٰ کی اِس حالت کا زمہ دار تھا ۔
"ابّا! "نوراں بھاگ کر اپنے باپ کے پاس گٸ ،اور سوالیہ نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا جو اِس وقت بندوق تھامے کھڑا تھا۔
"بشیر نے کہا کچھ نہیں بس سر جھکا دیا۔"
"لالا گاڑی نکلواٸیں بہت خون بہہ گیا ہے ۔" صوفی نے ولی سے کہا۔
"میں نکالتا ہوں گاڑی آپ لوگ لالا کو لے کر آۓ ۔"اسفند نے کہا اور گاڑی نکالنے چل دیا۔
"لالا ہمت رکھیں کچھ نہیں ہو گا ۔" ولی نے کہا، جس کی آنکھیں سُرخ انگارا بنیں ہوٸ تھی ۔
" نہی۔۔۔یں۔۔۔نہیں،ووولی ، تمہارے لالا کے پا۔۔۔س وقت بہت کم ہے ، میرے جا۔۔۔نے کے بع۔۔۔بعد بابا سرکار اور بی بی جان کا خیال رکھنا،اورررر میری گڑیا کو ہر وہ خوشی دینا جو تمہاری دسترس میں ہو۔۔۔اورشاہزیب کے ساتھ جھگڑنا مت۔"مصطفیٰ نے اٹکتے اٹکتے ولی سے کہا۔
"بی۔۔۔بی۔۔جان زو۔۔۔زو۔۔۔زوبیا کو سمبھال لیجیۓ گا۔وہ۔۔۔وہ۔۔۔بہت کم۔۔۔کم۔۔۔کمزور دل کی ہے۔۔۔میری مو۔۔۔مو۔۔موت کا۔۔۔صد۔۔صدمہ سہہ نہی۔۔۔نہیں پاۓ گی۔"مصطفیٰ نے بی بی جان کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا۔
"بس کرو مصطفیٰ تمہاری باتیں میری جان لے لیں گیں۔"بی بی جان نے مصطفیٰ کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوۓ کہا۔
"بابا سر۔۔۔سرکار وہ۔۔۔وہ۔۔۔وہ یہ ۔۔۔سب چچا۔"مصطفیٰ نے ہاتھ کا اشارہ بشیر کی طرف کرتے ہوۓ کچھ بتانا چاہا لیکن قسمت کو یہ منظور نہیں تھا اور مصطفیٰ کا بشیر کی طرف اُٹھا ہوا ہاتھ بے سود ہو کر زمین پر گر پڑا ۔
"مصطفیٰ !“ بی بی جان نے مصطفیٰ کا ہاتھ ملتے ہوۓ چیخ کر کہا۔
" لالا آپکو میری قسم ہے یوں مت کریں ،آپکی گڑیا آپکے بغیر مر جاۓ گی ،لالا آنکھیں کھولیں ،ولی لالا آپ لالا سے کہیں نا کہ اب ہم اُن کو پریشان نہیں کریں گے ،لالا بھابھی انتظار کر رہی ہے آپ اُنہیں ایسے اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔"صوفی نے مصطفیٰ کی بند آنکھوں کو دیکھ کر چیختے ہوۓ کہا۔
جلال خان کو تو جیسے چُپ ہی لگ گٸ تھی ایک آنسو آنکھ سے نہیں گرا اور ولی کی آنکھیں ضبط سے لال تھی۔
" کیا ہوا ہے یہاں اتنا مجمع کیوں۔"اس سے پہلے شاہزیب کچھ اور کہتا سامنے کا منظر دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
" مصطفیٰ لالا ! " شاہزیب نے مصطفیٰ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔
"لالا !مصطفیٰ لالا ہم سب کو چھوڑ کر چلیں گۓ ۔"ولی نے شاہزیب کے گلے لگ کر کہااور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
یہی خان حویلی تھی جس میں کچھ دیر پہلے شہناٸٶں کی گونج تھی اور اب صفے ماتم بیچھا تھا۔ہر آنکھ پر نم تھی۔۔ہر لب پر نوحہ تھا۔
آج خان حویلی نے اپنا فرزند کھو دیا تھا۔
اور فرزند بھی وہ جو سب کا سہارا تھا سب کے لبوں پر مسکراہٹ کا باعث تھا۔
مصطفیٰ جلال خان اپنے پیاروں کو روتاچھوڑ کر اِس دنیا سے چل بسا تھا۔
******
" ابّا ! وہ سب کیا تھا ؟" نوراں نے گھر آتے ہی بشیر سے سوال کیا۔
"جو دیکھا وہی تھا۔" بشیر نے تھکے ہو ۓ انداز میں کہا۔
"ابّا ایسا نہیں ہو سکتا تو کسی کی جان نہیں لے سکتا وہ بھی مصطفیٰ لالا جیسے انسان کی ۔"نوراں ابھی تک بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔
"نوراں ہم انسان ہیں ہم سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔" بشیر نے نوراں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔نوراں نے اپنے باپ کو دیکھا جو کچھ لمحوں میں ہی بوڑھا ہو گیا تھا ۔
"ابّا دیکھ میں تیری بیٹی ہوں نا تو مجھ سے بہت محبت کرتا ہے تو کیا اپنی بیٹی کو بھی نہیں بتاۓ گا کے سچ کیا ہے ۔" نوراں نے اپنے باپ کے چہرے کا رُخ اپنی جانب موڑتے ہوۓ التجاٸ انداز میں کہا۔
"کیا سچ سُننا چاہتی ہے یہی کہ مصطفیٰ خان کو موت دینے والا کون ہے ۔تو سُن مصطفیٰ خان کو موت دینے والا تیرا یہ باپ ہے۔" بشیر نے اونچی آواز میں کہا۔
" جھوٹ ،جھوٹ تم جھوٹ بول رہے ہو ابّا تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔"نوراں نےچیخ کر کہنے کے ساتھ ایک ایک قدم پیچھے کی جانب اُٹھانا شروع کیے۔
" کیا ہوگیا ہے نوراں کیا جھوٹ جھوٹ لگا رکھا کس نے کس کو جھوٹ بول دیا۔"رجو (نوراں کی ماں)نے کمرے میں آکر پوچھا۔
"پوچھو اپنے شوہر سے کیوں کسی ظالم کو بچانے کی خاطر خود کے ماتھے پر قاتل لکھوانے چلا ہے۔"نوراں نے رجو کا بازو پکڑتےہوۓ کہا۔
"قاتل۔۔۔۔نوراں تو ہوش میں تو ہے یہ کیا بکواس کر رہی ہے ۔"رجو نے کہا۔
"کاش میں ہوش میں نہ ہوتی اماں پر یہ سچ ہے ابّا کو سب مصطفیٰ خان کا قاتل سمجھ رہیں ہیں اور یہ ہیں کے کچھ بول ہی نہیں رہے ۔"نوراں نےاپنی اماں سے کہا۔
"مصطفیٰ کا قتل ۔۔۔۔۔یااللہ،اُسکی تو آج مہندی تھی اور تم لوگ بھی وہی گۓ ہوۓ تھے تو یہ سب کیاہے؟ کوٸ مجھے بتاۓ گا کہ آخر بات کیا ہے۔" رجو نے اپنا سر پکڑ کر کہا۔
"یہاں بیٹھوں میں بتاتی ہو۔"نوراں نے اپنی ماں کو شانوں سے پکڑ کر باپ کے ساتھ بیٹھایا اور ساری روداد سُناڈالی۔
"نوراں کے ابّا کیا یہ سچ ہے اور اگر یہ گناہ تیرے ہاتھوں سے ہوا ہے تو اسکی سزا تیرے لیے تو بھیانک ہو گی ہی ہوگی ساتھ ہم لوگوں گی زندگیاں بھی برباد ہو جاٸیں گی ،اور نوراں کے ساتھ کیا ہو گا تونے سوچا ہے۔"رجو نے بے یقينی کے عالم میں کہا۔
"نوراں باہر جامجھے تیری ماں سے بات کرنی ہے۔" بشیر نے نوراں سے کہا۔
"لیکن ابّا۔"
"نوراں باہر جا۔"اس بار بشیر نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔
******
"زوبیا!"احمد صاحب نے زوبیا کے کمرے کا دروازہ بجا کر لڑکھڑاتی ہوٸ آواز میں کہا۔
زوبیا جو اپنے ہاتھوں کی مہندی دیکھنے میں مصروف تھی احمد صاحب کی آواز پر اُٹھی اور دورازہ کھولا۔
"بابا !خیریت آپ ابھی تک سوۓ نہیں ۔"زوبیا نے سوال کیا ۔
احمد صاحب نے کہا کچھ نہیں بس زوبیا کا ہاتھ پکڑا اور اُسے بیڈ پر جا کر بیٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گۓ۔
"بابا !کیا ہوا ہے اور آپکی آنکھیں اِس قدر کیوں سوجی ہوۓ ہیں ۔"زوبیا نے اپنے باپ کی روٸ روٸ آنکھیں دیکھ کر کہا۔
اِس بار بھی احمد صاحب نےکچھ نہیں کہابس سر جھکاۓ بیٹھے رہے۔
"بابا ! کیا ہوا ہے کوٸ پریشانی ہے کچھ ہوا ہے کیا؟ زوبیا کو باپ کی خاموشی سے اب خوف آنے لگا تھا۔
"زوبیا !میں نے آج رب سے بہت گڑ گڑا کے موت مانگی پر اُس نے نہیں دی۔"احمد صاحب نے غم ذدہ لہجے میں کہا۔
"بابا کیسی باتیں کر رہے ہیں،خدارا ایسی باتیں مت کریں،اِس دنیا میں آپکے علاوہ ہے کون میرا اور آپ بھی مجھے چھوڑ کے جانا چاہتے ہیں ۔" صوفی نے اپنے باپ کے گلے لگتے ہوۓ کہا۔
"زوبی تم میری بہادر بیٹی ہو نا؟"احمد صاحب نے زوبی کا منہ اوپر کرتے ہوۓ کہا۔
" بابا میں بہادر نہیں ہوں آپکے اور مصطفیٰ کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں؟“ کہنے کے ساتھ ہی زوبیا کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوۓ تھے ۔
بہت مشکل ہو گیا تھا احمد صاحب کے لیے اپنی بیٹی کو حقیقت بتانا ،کہ انکی بیٹی نےجس کے نام کا جوڑا پہن رکھاہے جس کے نام کی مہندی لگا رکھی ہے وہ اب اِس دنیا میں نہیں رہا۔
"زوبیا ! زندگی بہت مشکل ہے بیٹا اور خدا اپنے بندوں کو آزماتا لیکن کبھی اُنکی استطاعت سے زیادہ نہیں آزماتا،ہم پر بھی آزماٸش آٸ ہے اور مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی اِس آزماٸش میں اپنے رب کو مایوس نہیں کرے گی۔"احمد صاحب نے کہا۔
"بابا مجھے آپکی باتوں سے خوف آ رہا ہے ،پلیز جو بات ہے وہ مجھے بتاٸیں ۔"زوبیا نے کہا۔
"زوبیاوہ مصطفیٰ۔"احمد صاحب نے سر جھکاکر کہا۔
"بابامصطفیٰ کیا!"زوبیا نے کہا
"زوبیا !مصطفیٰ ہم سب کو چھوڑ کر چلاگیا۔"احمد صاحب نےآنسوٶں سے بھرٸ آنکھوں سے زوبیا کو دیکھ کر کہا۔
"اُفففف بابا وہ ہم سب کو چھوڑ کر کیوں جانے لگے اور اگر کہی گۓ بھی ہیں تو جلد واپس آ جاۓ گے آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔"زوبیا نے اپنے باپ کو تسلی دیتے ہوۓ کہا۔
"زوبیا !مصطفیٰ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ہم سب کو چھوڑ گیا بیٹا ،اُسے اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ہے ۔" احمد صاحب نے کہا۔
"بابا اگر تو یہ مذاق کا تو بہت بُرا مذاق ہے۔"زوبیا نےکھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔
"اپنی بیٹی سے کوٸ ایسا مذاق کرتا ہے بھلا؟"احمد صاحب نے کہا۔
"جھوٹ بابا جھوٹ ، کہہ دیں بابا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں کہہ دیں کہ ابھی آپ نے جو کہا وہ سچ نہیں ہے،بابا خدا کے واسطے کچھ تو بولیں۔"زوبیا نے چیختے ہوۓ کہا
"زوبیا ہمت سے کام لو ۔"احمد صاحب نے زوبیا کو سمبھالتے ہوۓ کہا۔
"یہ سب جھوٹ ہے آپکو ضرور کوٸ غلط فہمی ہوٸ ہےمیں ابھی مصطفیٰ کو فون کرتی ہوں ۔"زوبیا نے اپنے گال رگڑ کے کہا۔
"زوبیا وہ نہیں رہا۔"احمد صاحب نے زوبیا کو بازٶں سے تھامتے ہوۓ کہا۔
"بابا ایسا مت کہیں میں سہہ نہیں پاٶ گی،کہے نایہ سب جھوٹ ہے ۔" زوبیا نے التجاٸ انداز میں باپ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
"زوبیا!مصطفیٰ جلال خان مر چکا ہے اور یہی حقیقت ہے کسی نے بے دردی سے اُسے قتل کر دیا۔"احمد صاحب کے منہ سے یہ الفاظ نکلےہی تھے کے اگلے لمحے ہی زوبیا بے ہوش ہو کر زمین پر گِر پڑی۔
*******
کچھ دنوں بعد۔۔۔
"سلام بابا سرکار!" ولی اور شاہزیب نے اکھٹے سلام کیا۔
"وسلام ! کہو کیا بات ہے ۔" جلال خان نے پوچھا ۔
"بابا سرکار کل پنچاٸت لگے گی اور مصطفیٰ لالا کے قاتل کو سزا سُناٸ جاۓ گی ۔" ولی نے کہا۔
"تم لوگوں کو یقین ہے کہ مصطفیٰ کا قتل بشیر کے ہاتھوں ہوا ہے۔"جلال خان نے پوچھا۔
"سب کچھ آپکے سامنے ہوا بابا کیا ابھی بھی آپ بشیر کو بےگناہ سمجھ رہیں ہیں۔" شاہزیب نے پوچھا۔
"لیکن میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا اُس نے ایسا کیاکیوں۔؟ جلال خان نے پوچھا۔
"بابا سرکار !آپ پریشان نہ ہو کل اِن سب سوالوں کا جواب ہم بشیر کے منہ سے سُنے گے اور منشی چچا کا بیان یہ ثابت کر دے گا کہ بشیر ہی مصطفیٰ کا قاتل ہے۔"ولی نے کہا۔
"کیا وہ لوگ خون بہا کے بدلے خون بہا دیں گے۔" جلال خان نے ایک اور سوال کیا۔
"دیں گے بابا سرکار ضرور دیں گے ۔ ہم مصطفیٰ لالا کے قاتل کو اُسکے انجام تک ضرور پہنچاۓ گے، ان شاء اللہ۔"شاہزیب نے غصے سےکہا۔
*******
کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا ایک بے جان سا وجود بستر پر پڑاتھا اور بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پر بھی دولوگ بیٹھے تھے۔
"پھوپھی جان ! آپکو مصطفیٰ کی یاد آتی ہے۔"زوبیا نےبی بی جان کی گود میں سر رکھتے ہوۓ کہا۔
"وہ تو کبھی بھولا ہی نہیں ،ایسا لگتا ہے یہ سب ایک بھیانک خواب ہے ابھی آنکھ کھولے گی اورمصطفیٰ بی بی جان ،بی بی جان کہتا کہی سے آ جاۓ گا۔"بی بی جان نے تر آنسوٶں سے کہا۔
"پھوپھی جان دعا کریں مجھے بھی اللہ پاک اپنے پاس بلا لیں۔"زوبیا نے کہا۔
"پاگل ہو گٸ ہے زوبیا تو نے کتنی آسانی سے یہ بات کہہ دی وہ بھی اُس ماں سے جس نے ابھی دو دن پہلے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے ۔اب اور کوٸ دُکھ دیکھنے کی ہمت نہیں ہے اِس بوڑھی جان میں۔"بی بی جان کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
" بی بی جان نہیں رہا جا رہا ،دو دن اِس طرح گزریں ہیں جیسے دو صدیاں ہوں،پوری زندگی کیسے گزرے گی۔" زوبیا نے نے ہچکیاں لیتے ہوۓ کہا۔
"زندگی کسی کےچلے جانے سے ختم نہیں ہو جاتی یہ اپنی رفتار کے ساتھ چلتی ہی رہتی ہے۔"بی بی جان نے کہا۔
"مصطفیٰ لالا کہاں جا رہیں رُوکیں مجھے بھی لیتے جاۓ ۔مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جاۓ ۔"صوفیہ نیند میں کہہ رہی تھے۔
زوبیا اور بی بی جان بھاگ کر اُسکے پاس گۓ۔
"لالا رُک جاۓ اپنی گڑیا کی بات مان لیں ،
لالا۔" کہنے کے ساتھ ہی صوفی نے آنکھیں کھولی پیچھلے دو دنوں سے صوفی کی یہ ہی حالت تھی خواب میں مصطفیٰ کو دیکھتی اور بے قابو ہو جاتی۔
"بی بی جان میری چادر کہاں ہے مجھے میری چادر لا دیں ۔" صوفی نے اٹھتے ہوۓ کہا۔
"صوفی تمہارا دوپٹہ یہ رہا۔"بی بی جان نے پاس پڑا دوپٹہ صوفی کے سر پر ڈالتے ہوۓ کہا۔
"بی بی جان یہ نہیں میری چادر جو میں باہر لے کر جاتی ہوں۔جلدی سے لا دیں ورنہ۔ورنہ۔"
"ورنہ کیا صوفی۔"زوبیا نے صوفی کی پیٹھ سہلاتے ہوۓ کہا۔
"ورنہ مصطفیٰ لالا بہت دور چلیں جاۓ گے اور پھر میں انکو کبھی تلاش نہیں کر پاٶ گی۔"صوفی نےروتے ہوۓ کہا۔
صوفی کی حالت دیکھ کر بی بی جان اور زوبیا دونوں کی آنکھیں بھر آٸیں۔۔۔۔
"ارے آپ لوگ رو کیوں رہے ہیں میں ابھی جا کر لالا کو لے کر آتی ہوں اور انہیں بتاتی ہوں کہ آپ لوگ بہت رو رہے ہیں ۔"صوفی نے بیڈ سے اُتر تے ہوۓ کہا ۔
"کہاں سے لاۓ گی اُسے۔"پیچھے سے آتی بی بی جان کی آواز پر صوفی رُکی۔
" کہاں سے کا کیا مطلب ہے ابھی تو یہاں سے گۓ ہیں نیچے ہی ہوگے میں بُلا کر لاتی ہوں۔"صوفی نے باہر جاتے ہوۓ کہا۔
"صوفیہ!صوفی۔۔۔رُک میری بات تو سُن ۔" پیچھے سے بی بی جان نے آواز دیتے ہوۓ کہا۔
"زوبیا جاٶ ولی اور شاہزیب کو دیکھو کہا ہیں بُلا کر لاٶ انہیں۔"بی بی جان نےزوبیا سے کہا اور خود صوفیہ کے پیچھے چل پڑی۔
"مصطفیٰ لالا کہاں ہیں آپ ۔" صوفی نے سیڑیوں سے نیچے اُترتے ہوۓ کہا۔
"لالا کہاں ہیں آپ مجھے آواز دیں ۔" صوفی نے ایک اور آواز دی ۔
" کسے آواز لگا رہی ہو صوفی۔" اسفی نے کہا۔
"اسفی دیکھوں نا کب سے مصطفیٰ لالا کو آواز دیں رہی ہوں لیکن وہ کوٸ جواب ہی نہیں دے رہے۔" کہنے کےساتھ ہی صوفی کی آنکھیں آنسوٶں سے بھر گٸ تھیں۔
" صوفی لالا اب ہم میں نہیں رہے انکا انتقال ہو گیا ہے ۔"اسفی نے صوفی کو دونوں بازوٶں سے پکڑتے ہوۓ کہا۔
"جھوٹ جھوٹ بولتے ہو تم سب وہ یہی ہیں، دیکھنا ابھی وہ صوفی میری گڑیا کہتے ہوۓ یہاں آ جاۓ گے۔" صوفی نے اپنے بازو اسفی کی گرفت سے آذاد کراتے ہوۓ کہا لیکن ناکام ۔
" کیوں نہیں مان لیتی تم حقیقت کو صوفیہ کیوں خود کو اور خود سے جڑے رشتوں کو اذیت دے رہی ہو۔" اسفی سخت لہجے میں کہنے کے ساتھ صوفی کے بازو چھوڑے تھے۔
صوفیہ پہلےتو بے یقینی سے اسفی کو دیکھتی رہی اور پھر ایک تھپڑ اسفی کے منہ پر رسید کیا۔
" کیا چاہتے ہو تم میں تم لوگوں کی اِس گھٹیا سی بات کا یقین کر لوں کبھی نہیں اسفند سلیمان کبھی نہیں۔"صوفیہ نے کہا ۔
"صوفی۔" پیچھے سے بی بی جان نے آ کر ایک تھپڑ صوفی کو دیے مارا ۔
"ہوش میں آٶ میری بچی کیوں خود کو اذیت دے رہی ہوں ۔" بی بی جان نے روتے ہوۓ صوفی سے کہا ۔جو ابھی تک اپنے گال پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔
"بابا سرکار وہ صوفیہ کو ہوش آ گیا ہے اور وہ ہر طرف پاگلوں کی طرح مصطفیٰ کو تلاش کر رہی آپ جلدی ہمارے ساتھ چلیں ۔" زوبیا نے کہا۔
"کہاں ہے وہ ؟" جلال خان نے پوچھا۔
"وہ ابھی نیچھے کی طرف گٸ ہے۔" زوبیا نے کہا۔
" باقی باتیں پھر کریں گے پہلے چلو صوفی کو دیکھو۔" جلال خان نے ولی،اورشاہزیب سے کہا۔
"جی بابا سرکار۔"ولی نے کہا اور سب نیچے کی جانب بڑھ گۓ۔
صوفی جو اب تک بُت بنے کھڑی تھی اپنے بابا سرکار کو آتے دیکھ کر اُنکی جانب بڑھ گٸ۔
"بابا سرکار دیکھے نا یہ سب لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔" صوفی نے کہا۔
"سب سچ کہہ رہے ہیں صوفی مان لو اِس حقیقت کو۔"جلال خان نے صوفی کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔جو صوفی نے اُسی وقت کھینچ لیے اور دو قدم پیچھے ہوتی زمیں پر جا بیٹھی ۔
"صوفی ۔"ولی اور شاہزیب اُسے اُٹھانے کے لیے آگے بڑھے۔
"ایک قدم میری طرف مت بڑھاۓ گا ۔"صوفی نے ہاتھ اُٹھا کر دونوں کو روکا۔
"صوفی ! " شاہزیب نے کچھ کہنا چاہا لیکن بیچ میں ہی صوفی نے اُسکی بات کاٹ دی ۔
"مت لیں اپنی زبان سے میرا نام کوٸ رشتہ نہیں ہے آپکا اور میرا ۔"صوفی نے اپنے آنسوٶں سے تر گال رگڑتے ہوۓ کہا اور اُٹھ کھڑی ہوٸ ۔
"صوفی ہم بھاٸ ہیں تمہارے یہ کون سا طریقہ ہے بات کرنے کا۔" ولی نے کہا۔
"میرا صرف ایک ہی بھاٸ تھا مصطفیٰ جلال خان جو آپ لوگوں کی خاطر لوگوں سے لڑتا رہا ،جو آپ لوگوں کے گناہ چھپاتا رہا جو آپ لوگوں کے گناہوں کے بوجھ تلے آ کر مر گیا۔"صوفی نے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گٸ۔
*******
"سلام چچا !"رانیا راشد کی بہن نے گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کیا۔
"وسلام ۔" بشیر نے جواب دیا۔
"چچا نوراں کہاں ہے مجھے اُ س سے کام ہے ایک چھوٹا سا؟ رانیا نے پوچھا۔
"نوراں اندر ہے رانی جا اندر ہی چلی جا۔" پاس بیٹھی رجو نے جواب دیا۔
"شکریہ چچی ۔" کہتی رانیا نے اندر کا رُخ کیا جہاں نوراں پنسل کتاب ہاتھ میں پکڑے جانے کیا لکھنے میں مصروف تھی ۔
"کیسی ہے نوراں آج کل کہاں غاٸب ہوتی ہے ۔"رانیا نے اندر آتے ہوۓ کہا۔
" میں تو یہی ہوتی ہوں تم سُناٶں تمہیں ہماری یاد کیسے آ گٸ۔"نوراں نے کہا۔
" تم لوگوں کو کوٸ بھی نہیں بھول سکتا نوراں۔" رانیا نے کہا۔
"کیا مطلب تھا اِس بات کا۔" نوراں نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ کہا۔
"یہی کہ ہر ایک کی زبان پر آ ج کل بس ایک ہی بات ہے کہ بشیر چچا مصطفیٰ خان کے قاتل ہیں اور کل پنچاٸیت میں بشیر چچا کو سزا سُناٸ جاۓ گی۔" رانیا نے طنزیہ انداز میں کہا۔
"یہ تو کل پتا چلے گا کہ کل کیا ہوتا ہے کون کس کو سزا سُناتا ہے ۔" نوراں نے کہا۔
"نوراں تو چچا کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کرے گی۔" رانیا نے کہا۔
" تم فکر مت کرو رانیا ابّا کی جان بچا نے کے لیے نوراں ہر ممکن کوشش کریں گی۔" نوراں نے کہا۔
"تم اپنی قربانی دے سکتی ہو، کیونکہ چچا کی جان کے بدلے وہ تمہیں مانگے گے ۔"رانیا نے نوراں سے وہی سوال کیا جس سے نوراں راہ فرار چاہتی تھی ۔
" باپ کی سلامتی کی خاطر نوراں اپنی جان بھی دے سکتی ہے ۔"نوراں نے اپنا غصہ کنٹرول کرتے ہوۓ کہا۔
" جان دینے سے کیا ہو گا ،اپنے باپ کے ماتھے پر لگے قاتل کا دھبہ کیسے صاف کرو گی۔" رانیا نے کہا۔
"اُٹھو آج تو جانے دے رہی ہوں اگر آٸندہ یوں میرے باپ کے بارے میں بکواس کی تو تمہارا منہ نوچ لوں گی میں۔"نوراں نے غصے سے کہا۔
"میں تو بس یہ پیغام دینے آٸ تھی کہ ہمارے بھاٸ سے رابطہ مت کرنا ہم نہیں چاہتے تمہاری وجہ سے ہمارے بھاٸ پر کوٸ مصیبت آۓ ۔اور ہاں ،قاتل کی بیٹی ہو تو زرا اپنی اوقات میں رہو۔"رانیا نے کہا اور پیر پٹختی چلی گٸ۔
اور نوراں وہی بیٹھ کر کل کے بارے میں سوچنے لگی۔
********
تہجد کے وقت خان حویلی میں ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔سب اپنی اپنی آرام گاہ میں تھے ۔اسفی جو پانی پینے کی غرض سے کیچن کی جانب جا رہا تھا کہ کسی کے قدموں کی آہٹ پاکر رُک گیا۔اسفی نے مین دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے آہٹ سُناٸ دی تھی ۔
" کون ہو سکتا ہے اس وقت یہاں۔" اسفی نے قدم اُسے جانب بڑھاتے ہوۓ خود کلامی کی۔
تھوڑا آ گے جا کر اسفی کو چادر میں لپٹے ہوۓ کوٸ نظر آیا ۔
اسفی نے قدموں کی رفتار تیز کی اور اُس چادر والے کو بازوں سے پکڑ کر اسفی نے اپنی جانب موڑا۔اور حیران ہو کر سامنے والے کو دیکھنے لگا۔
"تم ۔" اسفی نے حیرت سے سامنے والے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
******
جاری ہے۔۔۔۔۔
Episode Late dany ky leay mazrat
But I hope you guyzz can understand me ۔۔۔۔
study ky sath manage karna thora mushkil ha es leay Late ho jati hu........
.
.
Next Episode Apky Feedback/Reviews pa depend karti ha ....
.
Ham writers ky leay apky logo ky reviews he sab kch hoty hai so kindly bas itna bata dia kary ky ham sahi ja rahy hai ya nai ....😍
.
Kasi lagi apko episode comments ma zarror bateay ga .....
.
.
vote karna b mat bholeay ga ak click lagta ha bas😍
.
.
التماسِ دعا
سیدہ فاطمہ نقویجزاك اللهُ😍
YOU ARE READING
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasyکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...