ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر:٦
۔
۔
”ٹھیک ہے تو نوراں ولد بشیر احمد کا نکاح ابھی اسی پنچایت میں شاہزیب ولد جلال خان سے پڑھوایا جاۓ گا۔“سرپنچ نے فیصلہ کیا۔جس پر شاہزیب خان نے تنظیہ مسکراہٹ کے ساتھ نوراں کو دیکھا تھا۔
”نہیں سرپنچ صاحب نوراں کا نکاح شاہزیب خان سے نہیں بلکہ ولی خان سے ہو گا۔“ جلال خان نے تحکم آمیز لہجے میں کہا۔
جلال خان کے اِن الفاظوں نے جہاں نوراں کو اور اُسکے گھر والوں کو حیران کیا تھا وہی شاہزیب خان اور ولی خان کو بھی تیش دیلاٸ تھی ۔
”بابا سرکار!یہ آپ کیا؟“ولی کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن جلال خان نے اُسکی بات ختم ہونے سے پہلے ہی ہاتھ کے اشارے سے اُسے خاموش رہنے کے لیے کہا۔
”بابا سرکار دیکھیے آپ جلد بازی میں بہت بڑا فیصلہ کر رہیں ہیں یہ نہ ہو کہ آپکو بعد میں پچھتانا پڑے۔“شاہزیب خان نے اپنے باپ کے قریب ہو کر سرگوشی نما انداز میں کہا۔
”میں تمہارا باپ ہوں۔آ ج تک میں تم لوگوں کی مانتا آیا ہوں آج میں یہ چاہتا ہوں کہ تم دونوں میری مانو۔ اب یہ تم دونوں پرہے چاہے تو بھری محفل میں باپ کو رسوا کر دو یا باپ کی زبان کا مان رکھ لو۔“ جلال خان نے شاہزیب اور ولی دونوں سے کہا۔
”لیکن بابا سرکار۔“ ولی نے پھر بولنا چاہا لیکن پھر سرپنچ کے بولنے پر خاموش ہو گیا ۔اور اب وہ جانتا تھا کہ یہاں سے فرار حاصل کرنے کا کوٸ فاٸدہ نہیں کیونکہ یہاں سے اُٹھ کے جانے کا مطلب تھا باپ کو بھری پانچاٸیت میں رسوا کرنا۔
”ٹھیک ہے خان صاحب جیسا آپ کہیں۔ قاضی صاحب نکاح پڑھانا شروع کریں۔“سرپنچ نے جلال خان کے فیصلے پر عمل کرنے کا کہا۔نوراں جو خود کو شاہزیب سے نکاح کرنے کے کیے تیار کر چُکی لیکن اِس فیصلے کے بعد تو جیسے وہ اپنی ساری حساسیت کھو چُکی تھی ۔وہ سوچ چُکی تھی کہ شاہزیب جیسے سر پھیرے انسان کو کیسے قابو کرنا ہے لیکن ولی خان اُسکا تو اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔نوراں کے لیے ولی خان بلکل ایک انجان شخص تھا ۔
******
”لالا نوراں کو بچا لیں وہ ۔۔۔وہ۔۔۔وہ بے گناہ ہے ۔مصطفیٰ لالا وہ بے گناہ ہے۔“ صوفیہ بیہوشی میں کب سے یہی بولے جا رہی تھی۔
بی بی جان اور زوبیا اُسکے پاس بیٹھی قرآن کی آیات پڑھ کر اُس پر پھونک رہیں تھی جب صوفیہ اچانک سے اُٹھ بیٹھی۔
”بی بی جان ! بابا سرکار کہاں ہیں؟“صوفیہ نے بی بی جان سے پوچھا۔
”وہ بس آتے ہی ہونگے تم آرام کرو۔“ بی بی جان نے صوفیہ کو دوبارہ لیٹاتے ہوۓ کہا ۔
”بی بی جان نہیں مجھے جانا ہے مجھے اُنہیں کچھ بتانا ہے۔“صوفیہ نے بیڈ سے نیچے اُترتےہوۓ کہا۔
”کیا بتانا ہے؟ “زوبیا نے صوفیہ کا ہاتھ پکڑ کر۔
”مجھے اُنہیں سچ بتانا ہے ؟“صوفیہ نے چپل پاٶں میں پہنتے ہوۓ کہا۔
”کون سا سچ ؟“زوبیا نے بھی صوفیہ کے ساتھ کھڑےہوتے ہوۓ کہا ۔
”وہ مصط۔۔۔فیٰ۔“صوفیہ کہتے کہتے خاموش ہوگٸ ۔اور بی بی جان کی طرف دیکھنے لگی جو پہلے ہی اُسے دیکھ رہیں تھیں۔
”صوفیہ !“زوبیا نے پکارا۔
”ہاں۔“صوفیہ نے زوبیا کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کیا بتانا ہے پھوپھا جی کو۔“زوبیا نے پھر پوچھا۔
”کچھ نہیں ۔پتا نہیں اچانک سے کیا ہو گیا تھامجھے ۔“صوفیہ اپنا سردونوں ہاتھوں میں تھام کے واپس بیڈ پر بیٹھ گٸ تھی۔
*****
وقت تھا کہ تیزی سے گزرتا ہی جا رہا تھا ۔
اور وہ وقت آن پہنچا تھا جب ایک ایسا رشتہ بننے جا رہاتھا جس میں نہ تو کوٸ محبت تھی نہ کوٸ احساس تھا اور نہ ہی کوٸ خواہش تھی ۔تھی صرف بے بسی اور انتقام ۔نکاح شروع ہو نےجارہا تھا ۔
ولی خان سفید شلوار قمیض پہنے بازوں پر سُرمٸ رنگ کی چادر پھیلاۓ آنکھوں میں نفرت لیے وہاں بیٹھاتھا اور شاہزیب خان اپنی ہار کو قریب سے دیکھنے پر خود پر بڑی مشکل سے قابو کر کے بیٹھا تھا۔دوسری جانب نوراں تھی جو سادہ سے صاف مہرون رنگ کی شلوار قمیض پہنے دوپٹہ اچھی طرح سر پر لیے بلکل خاموش نظریں جھکاٸیں بیٹھی تھی جیسے اِس دنیا میں وہ ہو ہی نہ۔
قاضی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کیا۔
”نوراں ولد بشیر احمد آپکا نکاح ولی خان ولد جلال خان سے پڑھایا جاتا ہے کیا آپکو قبول ہے۔“قاضی صاحب کے الفاظ نوراں کے دل اور دماغ پر کسی ہتھوڑے کی طرح لگے تھے ۔وہ جتنی بھی بہادر دِکھتی ،تھی تو وہ لڑکی ہی ۔ایسے موقع پر تو وہ لڑکی بھی گھبرا جاۓ جس نے نکاح کے لیے دل سے رضامندی دی ہو۔نوراں تو پھر ونی کی بھیڈ چڑھنے والی تھی اُسکا ڈرنا اور گھبرانا تو فطری تھا ۔قاضی صاحب نے ایک بار پھر سے اپنے الفاظ دوہراۓ۔
”نوراں ولد بشیر احمد آپکو ولی خان ولد جلال خان سے نکاح قبول ہے۔“
نوراں نے زرا سی نظر اُٹھا کر باپ کو دیکھا جو سر جھکاۓ بیٹھا تھا اور پھر نظر جھکا دی۔” میرا باپ قاتل نہیں ہے اور میں یہ ثابت کروں گی۔“نوراں نے سوچنے کے بعد کہا۔
”قبول ہے۔“
نوراں کے بعد قاضی ولی کے پاس گیا اور وہی الفاظ دہراۓ۔
”ولی خان ولد جلال خان کیا آپکو نوراں ولد بشیراحمد سے نکاح قبول ہے۔“
”تم پچھتاٶ گی لڑکی تمہارا یہ فیصلہ تمہیں ہر پل اذیت دے گا ۔“ولی نے دل میں سوچا اور کہا۔
”قبول ہے۔“
نکاح ہو چُکا تھا نوراں کی قسمت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ولی خان کے ساتھ جوڈ دی گٸ تھی ۔لیکن کیا اِن کا ساتھ واقعی ہمیشہ کے لیے ہے قسمت نے دور کھڑی مسکرا کر کہا تھا؟جس کا جواب فقط وقت کے پاس تھا ۔
علی پور کی رونق کی شادی ہو گٸ تھی لیکن علی پور کی وادی میں خوشی نہیں تھی علی پور وادی میں آج عجب سی خاموشی تھی ۔کوٸ شہناٸ نہیں تھی ۔کوٸ مبارک نہیں تھی ۔تھا تو فقط رنج و ملال ۔لیکن یہ قسمت کے کھیل ہیں جو صرف رب جانتا ہے کہ کس کے لیے کیا صحیح ہے۔
*******
”شاہزیب !گاڑی نکالو۔“جلال خان نے کہا ۔
جس پر شاہزیب نے غصیلی نگاہ سے باپ کو دیکھا اور چلا گیا۔
”بشیر احمد تمہیں اپنی بیٹی سے کوٸ بات کرنی ہے تو تم کر سکتے ہو ۔“جلال خان نے بشیر سے کہا ۔
بشیر نے نوراں کاہاتھ تھاما اور باقیوں سے تھوڑا فاصلے پر جا کھڑا ہوا ۔
”نوراں!“
بشیر نے اپنے دنوں ہاتھ نوراں کے آگے جوڑے اور آنکھوں میں آنسو لیتے ہوۓکہا۔
”نوراں مجھے معاف کر دے میں تیرا گناہگار ہوں۔“
بشیر نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ نوراں نے اپنے باپ کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور کہا۔
”ابّا کوٸ کسی کا گناہگار نہیں ہے یہ سب ایسے ہی لکھا تھا ہاں افسوس ہے تو صرف اِس بات کا کہ تو نے اپنی بیٹی پر بھروسہ کر کے اُسے حقیقت نہیں بتاٸ۔شاید اگر بتا دی ہوتی تو آج حالات کچھ اور ہوتے ۔تو شاید تو مجھے اِس طرح رخصت نہ کر رہا ہوتا ۔“کہتے ہوۓ نوراں خود بھی اور نوراں کالہجہ بھی پُر سکون تھا بس ہلکی سی افسوس کی آزماٸش شامل تھی۔
”سب کچھ تیرےلیےکیا نوراں صرف تیرے لیے۔“ بشیر نے کہا۔
”جانتی ہوں ابّا جانتی ہوں بس اب دعا کرنا جیسا تونے سوچا تھا ویسا ہو۔“ نوراں نے کہہ رہی تھی جب نوراں کی ماں وہاں آٸ اور نوراں کو گلے لگا کر رو پڑی۔ماں کے آنسو سے نوراں کا سکون بے سکونی میں بدلنے لگا تھا۔
”اماں بس رونا نہیں ہے جیسے تیری بیٹی نے ہمت دیکھاٸ ہے تونے بھی دیکھانی ہے ۔اُس رب پر یقین رکھ اور پرسکون ہو جا۔“نوراں نے رجو کے آنسو صاف کیۓ ۔
”نوراں کیا اب ہم تجھے کبھی نہیں دیکھ پاٸیں گے۔“رجوں نے پوچھا۔
”تم مجھے دیکھ پاٶ گی اماں بس اپنی بیٹی کو تھوڑا وقت دو تاکہ وہ سب صحیح کر سکے۔“ نوراں نے ناجانے کس اُمید پر اپنی ماں کو اُمید دلاٸ تھی۔
”بشیر احمد لے آٶ نوراں کو۔“ جلال خان نے آواز دی۔
بشیر نے اپنے کندھے پر رکھی اپنی چادر کو کھولا اور نوراں کے شانوں پر ڈال دی۔اور پھر نوراں پر کچھ پڑھ کے پھونکا اور اُسکا ہاتھ تھام کر گاڑی تک لے گیا جہاں ولی اور شاہزیب پہلے ہی گاڑی میں فرنٹ سیٹس پرموجود تھے اور جلال خان باہر کھڑے تھے بشیر اور نوراں بھی جلال خان کے پاس جا رُکے۔جب جلال خان نے نوراں کو اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے گاڑی کی پچھلی نشست پر جا بیٹھی۔جبکہ جلال خان نے آگے بڑھ کر بشیر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ۔
”جو ہو گیا میں اُسے بدل نہیں سکتا بشیر احمد لیکن تمہیں ایک بات کی یقین دہانی کروا دوں کہ بیشک نوراں ونی میں آٸ ہے لیکن وہ اب خان حویلی کی بیٹی ہے میری بیٹی ہے تم بے فکر ہو جاٶ۔جلال خان نےکہا اور بشیر کا کندھا تھپتپاتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھ گۓ ۔بشیر احمد کے دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نظروں کے سامنے سے غاٸب ہو گٸ ۔
”بشیر جس بیٹی کو تو اگر ایک لمحے کے لیے بھی گھر میں نہ دیکھتا تھا تو بے چین ہو جاتا تھا اب اُس گھر میں واپس اُس کے بغیر کیسے جاۓ گا۔“رجو نے کہا۔
”رجو !میں پہلے بہت ٹوٹ چکا ہوں مجھے اور مت توڑ ۔“بشیر نے روتے ہوۓ کہا اور قدم گھر کی جانب بڑھا دیے۔
”بہت مشکل ہوتا ہے اولاد پر مشکل وقت دیکھنا ۔اُس وقت کی بے بسی اُس وقت کی اذیت ماں باپ کے لیےموت سے کم نہیں ہوتی۔“
”ماں باپ کا سکون بچوں کے سکون سے ہوتا ہے ۔“
*******
شاہزیب خان نے ایک جھٹکے سے گاڑی حویلی کے پورچ میں روکی تھی۔
”نوراں اُترو۔“ جلال خان نے نوراں کو کہا۔
نوراں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گٸ۔گاڑی سے قدم باہر نکالتے ہی ایک ٹھنڈا ہوا کا جھونکا اُس سے ٹکرایا۔جس پر نوراں نے آنکھیں بند کر لی اور اِس ہوا کو محسوس کرنے لگی نواں کو لگاتھا کہ یہ ہوا اُسے اِس حویلی میں خوش آمدید کہہ رہی ہے۔نوراں نے اپنے باپ کی اُڑاہی ہوٸ چادر کو آگے سے دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا۔جہاں وہ ہوا کو محسوس کر رہی تھی وہی اُسے اپنے ہاتھوں میں نمی سی بھی محسوس ہوٸ تھی۔
*******
”شاہزیب اور ولی اندر آٶ مجھے تم دونوں سے کچھ بات کرنی ہے۔“ جلال نے کہا اور باہر نکلنے کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا جب شاہزیب نے کہا۔
”ابھی بات کرنے کے لیے کچھ باقی ہے۔“
”جلدی اندر آٶ۔“جلال خان نے شاہزیب کی بات سُنی اور کہہ کر گاڑی سے باہر نکل گۓ۔
******
نوراں جلال خان کے ساتھ چلتی ہوٸ حویلی کے داخلی دروازے تک آٸ تھی اور وہاں آکر رُک گٸ تھی قدم آگے بڑھنے کی بجاۓ دہلیز پر ہی رُک گۓ تھے ۔ایسا لگ رہا تھا وہ جیسے وہ وہاں پہلی بار آٸ ہے ہر چیز اُسے نٸ نٸ لگ رہی تھی ۔وہ بلکل ساکن ہو چُکی تھی۔ جلال خان نے نوراں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
”ڈرو مت بیٹی تمہارا باپ تمہارے ساتھ ہے۔“
نوراں نے جلال خان کی طرف دیکھا اور قدم آگے بڑھا دیے ۔جلال خان کے ایسا کہنے پر نوراں کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ وہ یہاں اکیلی نہیں ہے۔
جلال خان ہال میں آکر صوفے پر بیٹھ گۓ۔
حویلی میں ہر طرف سناٹا تھا۔
”بانو!“جلال خان نے ملازمہ کو آواز دی ۔
”جی بڑے سرکار ۔“ بانو نے آ کر کہا۔
”سب کہا ہیں ؟“ جلال خان نے گھر والوں کے مطلق پوچھا۔
”وہ بڑی بی بی اور زوبیا بی بی اوپر صوفیہ بی بی کے کمرے میں ہیں صوفیہ بی بی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ بانو نے کہا۔
”ٹھیک ہے تم ایسا کرو نوراں بی بی کو ولی خان کے کمرے میں لے جاٶ ۔“ جلال خان نے کہا۔
جلال خان کی اِس بات پر جہاں نوراں نے حیرت سے جلال خان کو دیکھا وہی اندر آتے ولی نے یہ بات سُنی اور آگے بڑھ کر جلال خان سے کہا۔
”بابا سرکار یہ لڑکی ۔“
اِس سے پہلے ولی کچھ کہتا جلال خان نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے خاموش کروا دیا ۔
”اوپر چل کر بات کرتے ہیں آ جاٶ اور ہاں یہ لڑکی تمہاری بیوی ہے۔“ جلال خان نے کہا۔
”زبردستی کی ۔“ولی نے وہاں بانو نے ساتھ کھڑی نوراں سے کہا۔
”جاٶ بانو بی بی جی کو کمرے میں لے جاٶ۔“
جلال خان نے ایک اور بار کہا ۔
”ولی شاہزیب خان کہا ہے؟“جلال خان نے ولی سے پوچھا۔
”میں یہاں ہوں ۔“دروازے سے شاہزیب خان کی آواز آٸ۔
”اوپر آ جاٶ صوفیہ کے کمرے میں بات کرنی مجھے ۔“جلال خان نے کہا اور سیڑیوں کی جانب بڑھ گیا۔
******
بشیر احمد نوراں کے کمرے میں بیٹھا تھا ۔اُسکی چند کتابوں کو گلے سے لگاۓ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔جب رجو نے بھی وہی بشیر کے ساتھ آکر بیٹھ گٸ۔
”بس کر بشیر جو ہونا تھا ہو گیا کیوں اپنی جان کو ہلکان کر رہا ہے۔“رجو نے کہا۔
”رجو !میں نے بہت غلط کیا ہے اپنی نوراں کے ساتھ ،وہ مجھ سے سچ پوچھتی رہی میں نے نہیں بتایا ،اُسکو مجھ پر یقین تھا کہ اُسکا باپ قاتل نہیں ہے ۔رجو!دُعا کر وہ ہمیشہ ہی یہ سمجھے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سچ نہ بتانے سے وہ مجھے ہی قصور وار سمجھے ۔میں اُسکی آنکھوں میں نفرت برداشت نہیں کر سکتا ۔“ بشیر نے روتے ہوۓ کہا ۔
”بشیر!تو فکر نہ کر وہ تیری بیٹی ہے تجھ سے کبھی نفرت نہیں کرسکتی اور ویسےبھی اُسے نفرت کرنا آتا ہی کہاں ہے۔اور تو نے جو بھی کیا ہو گا اُسکی بھلاٸ کے لیے ہی کیا ہوگا یقین ہے مجھے۔“رجو نے کہا۔
”یہ دیکھ رجو ! نوراں کی کتاب اُس نے اگلی جماعت کے لیے مجھ سے مانگواٸ تھی۔“ بشیر نے کتاب رجو کے آگے کرتے ہوۓ کہا۔
”لیکن اُسکا پڑھاٸ کا شوق اب شوق ہی رہ جاۓ گا۔“رجو نے کتاب تھامتے ہوۓ افسوس سے کہا۔
*******
بانو نے نوراں کو ولی خان کے کمرے کے باہر چھوڑدیا تھا۔نوراں نے ہاتھ آگے بڑھاکر دروازے کا ہینڈل گھُمایا۔نوراں بچپن سے خان حویلی آتی جاتی تھی اُس نے حویلی کا ایک ایک کونا دیکھ رکھاتھا فقط اِس ایک کمرے کے علاوہ۔نوراں نے دروازہ کھول کر قدم آگے بڑھایا اور کمرے میں داخل ہو گٸ ۔ ہر طرف اندھیرا تھا کھڑکی کے پردے بھی گرے ہوۓ تھے چند سورج کی کرنیں وہاں سے آ رہیں تھی ۔نوراں نے اپنے اردگرد دیواروں پر سویچ بورڈ ڈھونڈنا چاہا جو جلد ہی اُسے مل بھی گیاتھا۔نوراں نے لاٸٹس آن کی اور کمرے کی خوبصورتی کو دیکھنے لگی ۔بلاشبہ کمرہ بہت خوبصورت تھا ۔سامنے کی دیوار پر ایک بہت بڑی کھڑکی تھی ایسالگتا تھا کہ پوری دیوار ہی کانچ کی ہو اور اُس کے اُس پار ایک خوبصورت ٹیرس تھا ۔داٸیں دیوار کے ساتھ بیڈ اور اس کے سامنے ایک چھوٹے ساٸیز کا صوفہ رکھا تھا ایک ساٸیڈ پر ڈریسنگ تھا جو کہ پرفیومز اور گھڑیوں سے بھرا پڑا تھا ۔نوراں نے کمرے کا جاٸزہ لیا اور جاکر صوفے پر بیٹھ گٸ۔
******
جلال خان صوفیہ کے کمرے میں داخل ہوۓ ہی تھے کے صوفیہ بھاگ کر اپنے بابا جان کے گلے لگ گٸ۔
”ارے بابا کی جان !کیا ہوا ؟طبیعت کیوں خراب ہو گٸ میری گڑیا کی؟“جلال خان نے اپنے بازوصوفیہ کے گردحاٸل کرتے ہوۓ کہا۔
”بابا ؟پنچاٸیت میں کیا فیصلہ ہوا؟“صوفیہ نے پوچھا ۔
”بتاتا ہوں آپ یہاں بیٹھو۔“جلال خان نے صوفیہ کو صوفے پر بیٹھاتے ہوۓ کہا۔اُسی وقت شاہزیب اور ولی بھی کمرے میں داخل ہوۓ۔
”اب بتا بھی دیں دل پریشان ہوۓ جا رہاہے۔“
بی بی جان نے جلال خان سے پوچھا۔
”دیکھے سب میری بات زرا آرام سے سُنیے گا ۔“جلال خان نے تمہید باندھی۔
”مجھے وقت اور حالات کے پیشِ نظر نوراں کا نکاح ۔“جلال خان نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اُنکے پاس بیٹھی صوفیہ اُٹھ کھڑی ہوٸ۔
”بابا آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں اُس معصوم کے ساتھ وہ بے گناہ تھی۔ آپ کسی کے کیۓ کی سزا اُس معصوم کو نہیں دے سکتے۔آخر آپکی بیٹی کی طرح وہ بھی کسی کی بیٹی ہے۔آپ کیسے کسی کی بیٹی کی ونی مانگ سکتے ہیں۔“صوفیہ نے افسوس اور صدمے کے ملے جُلے تاثرات سے کہا۔
”ہماری بات ابھی ختم نہیں ہوٸ صوفیہ۔“جلال خان نے بلند آواز سےکہا۔
”نوراں کا نکاح ولی خان کے ساتھ ہوا ہےاور آج سے وہ اِس گھر کی بہو ہے ،بیٹی ہے ،عزت ہے اور اب میں کسی سے بھی اُس سے بُرے رویے کی اُمید نہیں کرتا۔“جلال خان نے نظریں ولی کی طرف کرتے ہوۓ کہا ۔جلال خان کی اِس بات پر جہاں بی بی جان ،صوفیہ اور زوبیا کو جھٹکا لگا تھا وہی اندر آتے اسفند خان کے قدم بھی رُک گۓ تھے۔
”اور آپ کیا توقع کرتےہیں ہم سے؟اُس قاتل کی بیٹی سے کیسا سلوک رکھیں ہم۔“ولی نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
”خاموش ہو جاٶ ولی خان یہ فیصلہ تمہارے بابا سرکار کا ہے اور اِس کا احترام تم پر لازم ہے۔“بی بی جان نے ولی کو ٹوکا۔
”بس بی بی جان بس آپ بس ہمیں ہی خاموش کرواتی رہیے گا ۔کیونکہ آپکو اور بابا سرکار کو ہماری خوشیوں کی کوٸ فکر نہیں ہے ۔آپ بس اپنے مقاصد کے لیےاولاد کو استمعال کرتے ہیں جو اولاد جہاں کام آٸ اُسے وہی استمعال کر لیا۔“ولی خان نے بلند اور غصے سے بھری آواز سے کہا اور باہر چلا گیا۔
”آپ غصہ مت کیجیے گا وہ جلد سمجھ جاۓ گا۔“بی بی جان نے جلال خان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا۔
”وہ صحیح کہہ رہا ہے بی بی جان !اگر آج بابا جان یہ زمہ داری مجھ پر ڈالتے تو زیادہ صحیح رہتا ۔لیکن نہیں انہیں تو عادت ہے اُس انسان پر ذمہ داری ڈالنے کی جو اُسے سنبھالنے کے قابل ہی نہ ہو۔“شاہزیب خان نے کہہ کر باہر کی جانب قدم بڑھاۓ تھے جب جلال خان نے اُسے روکا۔
”تمہیں یہ ذمہ داری دیتا۔تم یہ کہنے کی کوشش کر رہےہو شاہزیب خان کہ تمہارا نکاح نوراں سے کردیتا تاکہ تم اُس سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لے سکتے ۔“جلال خان نے کھڑے ہوتےہوۓ کہا۔
”کون سی بےعزتی۔“شاہزیب خان نے انجان بنتے ہوۓ کہا۔
”تمہیں کیا لگتا ہے شاہزیب خان تم ہمیں کچھ بتاٶ گے نہیں تو ہمیں کچھ پتا ہی نہیں چلےگا۔“جلال خان نے کہا۔
”مجھے بھی تو پتا چلے آپکو کیا پتا چلا۔“شاہزیب نے اپنے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”تم نے آج صبح نوراں کو دھمکایا !ہاں یا نہ۔“جلال خان نے پوچھا ۔
”میں نے کسی کو نہیں دھمکایا ۔“شاہزیب خان نے خوب ڈھیٹاٸ سے کہا۔
”جھوٹ۔“جلال خان نے ایک قدم شاہزیب خان کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔
”ہاں!دھمکایا میں نے اور یہ بات آپ یاد رکھیے گا شاہزیب خان اپنی بے عزتی کا بدلہ لے کر رہتا ہے۔“شاہزیب خان نے کہا۔
”ایک بات یاد رکھنا شاہزیب خان نوراں اب اِس گھر کی عزت ہے اُس پر زرا سی بھی آنچ آٸ تو تمہارے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔“جلال خان نے وارنگ دینے کے انداز میں کہا۔
”وہ صرف ایک قاتل کی بیٹی ہے جسے آپ ونی میں یہاں لاۓ ہیں اور کچھ نہیں۔“شاہزیب خان نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا اور باہر چلا گیا۔
شاہزیب خان کے جانے کے بعد کمرے میں مکمل خاموشی چھا گٸ تھی۔جسے صوفیہ کی آواز نے توڑا ۔
”بابا ! آپکو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔“صوفیہ نے کہا۔
”میں نے بہت مناسب فیصلہ کیا ہے آپ لوگوں کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آجاۓ گی۔ابھی جاٸیے اور جا کر نوراں کو دیکھیں وہ ولی کے کمرےمیں ہے اُسے ہم سب کی ضرورت ہے کیونکہ اِس سب میں اگر کسی کے ساتھ ذیادتی ہوٸ ہے تو وہ نوراں ہے۔وہ اپنا گھر اپنے ماں ،باپ کو چھوڑ کر آٸ ہے اُسے سہارے اور حوصلے کی ضرورت ہے۔“جلال خان نے کہا اور کمرے سے باہر چلے گۓ۔
”چلو صوفیہ اور زوبیا میرے ساتھ آٶ نوراں کے پاس چلیں ۔“بی بی جان نے کہا اور دونوں کو لے کر چل پڑیں۔
*******
ولی خان حویلی کے لان میں کرسی پر بیٹھا تھا سامنے میز پر چاۓ کا بھاپ اُڑاتا کپ اور اُس کے ساتھ اُسکا فون رکھا تھا۔ولی کا فون بجنا شروع ہوا۔ولی نے فون ہاتھ میں لیا اور یہ دیکھ کر کہ فون کس کا ہے واپس میز پر رکھ دیا۔کچھ دیر بعد فون خاموش ہو گیا۔اور اُسی ٹاٸم ایک میسج موصول ہوا۔ولی نے فون اُٹھایا اور میسج دیکھا جو فضہ کاتھا۔
”کال می بیک۔“فضہ کا میسج تھا۔
ولی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد فون ملایاجو پہلی گھنٹی پر ہی اُٹھا لیا گیا تھا۔
”ہیلو!جناب کیسے ہو ۔؟فضہ نے فوراً کہا۔
” میں ٹھیک ہوں ۔تم کیسی ہو؟بہت خوش لگ رہی ہو؟“ولی نے فضہ کی چہکتی ہوٸ آواز سُن کر کہا۔
”ہمممم خوش تو میں ہوں اور خوشی کی وجہ میں بعد میں بتاٶں گی پہلے تم بتاٶ کیا ہوا آج۔“فضہ نے فیصلے کے بارے میں پوچھا۔
ولی کو لگا اُسکا دماغ کام کرنا بند کر گیا ہے اُسکو بس ایک ہی آواز سُناٸ دیناشروع ہوگٸ تھی۔”قبول ہے،قبول ہے،قبول ہے۔“اور ساتھ ہی ولی کی اپنے فون پر گرفت مضبوط ہو گٸ تھی۔
”ہنی! تم سُن رہے ہو؟“ فضہ نے پھر پوچھا ۔
”ہاں ہاں ۔سُن رہاہوں۔“ولی نے اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوۓ کہا۔
”تو جواب دو میری بات کا۔“فضہ نے کہا۔
”کچھ نہیں ہوا تم چھوڑو اِس بات کو یہ بتاٶ اتنی خوش کیوں ہو؟“ولی نے بات بدلتے ہوۓ کہا۔
”پہلے بتاٶ آکب رہے ہو؟“فضہ نے ایک اور سوال پوچھا۔
”کل انشااللّٰہ ! اب بتا بھی دو ؟“ولی نے کہا۔
”واہ یہ تو بہت اچھا ہے تم کل آ رہے ہو ۔وہ ایکچولی میں نے تمہارے بارے میں اپنے موم اور ڈیڈ کو بتا دیا ہے اور وہ بہت خوش ہیں اور تم سے ملنا چاہتے ہیں۔“فضہ نے اپنی خوشی کی وجہ بتاٸ ۔
”لیکن فضہ اتنی جلدی کس بات کی ہے۔“ ولی نے پوچھا۔
”کوٸ جلدی نہیں ہے اب جلدی سے آجاٶ ۔میں انتظار کر رہی ہوں۔گڈ باۓ ۔“ فضہ نے کہہ کر فون کاٹ دیا۔
ولی نے فون کو میز پر پٹکا اور سر ہاتھ میں تھام کر بیٹھ گیا۔
”بابا جان یہ آپ نے اچھا نہیں کیا آپ نے میری زندگی تباہ کردی۔“ولی نے زیرِ لب کہا۔اور اِس وقت ولی کی آنکھیں انگارا بنی ہوٸ تھی۔
******
”سلام بی بی جان !“نوراں نے بی بی جان کو دیکھ کر کہا ۔
”سلام میری بچی !“بی بی جان نے نوراں کو گلے لگاتے ہوۓ کہا ۔
”سلام بھابھی جی۔“صوفیہ نے مسکرا کر کہا۔
جس پر نوراں نے شرمندہ لہجے میں کہا۔
”وسلام !“
”ارےنوراں بُرا مت منانا ہمارا آج سے یہی رشتہ ہے۔“صوفیہ نے نوراں کو گلے لگا کر کہا اور پھر وہی صوفے پر ہی اُسکو لے کر بیٹھ گٸ۔
نوراں اب بی بی جان اور صوفیہ کے بیچ میں بیٹھی تھی ۔بی بی جان نے نوراں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔
”دیکھو نوراں بیٹا یہ آپ بھی جانتیں ہیں اور میں بھی کہ آج سے پہلے بھی اور آج بھی میں نے ہمیشہ آپکو بیٹی ماناہے اور ہمیشہ صوفیہ کی طرح ہی آپ سے پیار کیا ہے۔جو بھی ہوا اُس میں آپکی کوٸ غلطی نہیں ہے ۔تقدیر میں ایسا ہونا ہی لکھا تھا۔آپ کا اِس حویلی کی بہو بنننا ہی لکھا تھا ۔لیکن اب آپکو تھوڑی ہمت ،حوصلے اور صبر سے کام لینا ہوگا۔ولی خان دل کا بُرا نہیں ہے لیکن اُسے سمجھنا اور سمجھانا مشکل کام ہے خدا نے آپ دونوں کا ساتھ لکھا ہے تو دلوں میں محبت بھی وہی ڈالے گا۔آپ نے بس صبر سے کام لینا ہے فکر نہیں کرنی سب کچھ بہت جلد ٹھیک ہو جاۓ گا ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ۔“بی بی جان نے آخر میں نوراں کا ماتھا چوما تھا۔
”بلکل بھی پریشان نہیں ہونا آٸ سمجھ۔“صوفیہ نے نوراں کے گرد بازو حاٸل کرتے ہوۓ کہا۔
”بی بی جان آپکا بہت بہت شکریہ مجھے اپنے گھر کی بہو ماننے کے لیے ورنہ جو کچھ ہو چُکا ہے اُس کے بعد اتنا مان اور اتنا پیار کون دیتا ہے۔“ نوراں نے بی بی جان کے ہاتھ چومتے ہوۓ کہا۔
”رشتے مان اور پیار سے پروان چڑھتے ہیں۔“اور یہ بات خان حویلی کے لوگ بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔
”ہم سے بہت کچھ چھپا ہے نوراں اکثر آنکھوں دیکھا سچ نہیں ہوا کرتا اور مجھے بشیر پر اتنا یقین تو ہے کہ اُس نے یہ سب بغیر کسی مقصد کے نہیں کیا۔“بی بی جان نے کہا۔
”اُنکا مقصد اپنی بیٹی کو اِس گھر کی بہو بنانا بھی تو ہو سکتا ہے۔“زوبیاجو کب سے وہاں خاموش کھڑی تھی اُس نے تنظیہ لہجے میں کہا۔
”نہیں زوبیا اُنکو اِس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نوراں تو روزِاوّل سے اِس گھر کی بیٹی تھی۔“ صوفیہ نے نوراں کےدفاع میں کہا تھا ۔جس سے نوراں کے دل میں خان حویلی کے لوگوں کی قدر اور بڑھ گٸ تھی۔
”صوفیہ تم یہاں نوراں کے پاس بیٹھو میں اور زوبیا کھانا اور کپڑے بھیجواتے ہیں نوراں کے لیے ۔“کہہ کر بی بی جان نے زوبیا کو ساتھ لیا اور کمرے سے باہر چلی گٸ۔
اب صوفیہ نے نوراں کو پورا کا پورا اپنی طرف گھومایا اور کہا ۔
”میں نے کہا تھا نہ اپنی جان پر یہ ظلم مت کرو۔“
”مجھے اپنے باپ کے لیے یہ کرنا پڑا ۔“نوراں نے جواب دیا۔
”خیر اب تو جو ہو گیا سو ہو گیا۔لیکن نوراں احتیاط سے آج بھی تمہیں لے کر بابا سرکار اور شاہزیب لالا کے بیچ میں بہت بحث ہوٸ ہے۔اور ولی لالا بھی اتنے سیدھے انسان نہیں ہیں ۔وہ اپنی مرضی کے بغیر اپنی زندگی میں کچھ برداشت نہیں کرتے اور تمہیں توپھر انکے ساتھ عمر بھرکے رشتے میں باندھ دیا گیا ہے تو وہ تمہیں کیسے برداشت کریں گے مجھے نہیں پتا۔“صوفیہ نے اپنے خدشات ظاہر کیۓ ۔
”ریلیکس ہو جاٶ صوفی ۔لگتا ہے تمہیں مصطفیٰ لالا کی باتیں بھول گٸ ہیں وہ کہتے ہیں ہمیشہ اللّٰہ پر یقین رکھو وہ سب دیکھ رہا ہے وہ سب جانتا ہے وہی ہر مشکل کو آسان کرنے والا ہے ۔اور بے شک وہ ہے۔تو تمہارے اور میرے پریشان ہونےسے کیا ہو گا کچھ نہیں سب اُس رب پر چھوڑ دو اِس یقین کے ساتھ کہ وہ سب بہتر کرنے والا ہے پھردیکھنا اُس رب کی قدرت ۔اور اب میرے لیے مزید پریشان ہونا چھوڑ دو۔“نوراں نے صوفیہ کا ہاتھ دباتے ہوۓ کہا۔
*******
رات کی تاریکی علی پور پر چھا چُکی تھی ۔
ہرطرف خاموشی تھی ۔دسمبرکی سرد رات علی پُر کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی تھی ۔
ولی چادر لپیٹے ہال کی کھڑکی کے پاس کھڑا تھا جب شاہزیب خان نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔تو ولی نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں اور پھر سے پیٹھ شاہزیب کی جانب کر کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
”ارے چھوٹے شاہزادے تم یہاں اکیلے اِس وقت کیوں کھڑے ہو تمہیں تو اپنی نٸ نویلی دلہن کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔“شاہزیب نے ولی کے برابر کھڑے ہو کر کہا۔
”آپ سے مطلب۔“ولی نے کہا۔
”ارے مجھے کیا مطلب ہو سکتا ہے مجھے تو صرف تم پر ترس آرہا ہے تم سے ہمدردی ہو رہی ہے۔“شاہزیب نے ولی کی ٹھوڑی کو چھوتے ہوۓ کہا۔
”مجھ سے ہمدردی کی وجہ۔“ ولی نے رُخ شاہزیب کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔
”ارے ہمدردی ہی ہو گی نہ جب ولی خان جیسےاصول پسند اپنی مرضی کرنے والے امیر اور پڑھے لکھے شخص کے ساتھ گاٶں کی جاہل گوار کا نکاح کر دیا جاۓ۔مت بھولنا ولی خان وہ تمہارے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہے ۔“شاہزیب نے ولی کو تیش دیلاٸ تھی۔
”ولی آج بھی اپنی مرضی کرتا ہے اور آگے بھی وہی کرےگا بس کچھ عرصے کے لیے یہ سب برداشت کروں گا وہ بھی صرف بابا جان کی خاطر اور پھر ایک لمحہ میں اُس جاہل کو اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکو گا ولی خان کی زندگی میں صرف اُسکی جگہ ہے جو اُسکے میعار کا ہے ۔“ولی نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
”بڑا گھمنڈ ہے اپنے میعار پر ۔“پیچھے سے صوفیہ کی آواز آٸ۔
”ارے واہ میری بہن آٸ ہے ۔“شاہزیب نے آگے بڑھ کر صوفیہ کے گرد بازو پھیلانے چاہے لیکن صوفیہ نے ہاتھ کے اشارے سے شاہزیب کو دور رہنے کا کہا۔
”میرے نزدیک مت آۓ ۔“ صوفیہ نے کہا۔
”صوفیہ !آج تم ہمیں بتا ہی دو کہ ہم سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہو تم۔؟“شاہزیب نے کہا۔
”آپ یہ سوال خود سے پوچھیے کہ کیا آپ میں کچھ ایسا ہے جس کی وجہ سے آپ سے محبت کی جاۓ؟“ صوفیہ نے تنظیہ لہجے میں کہا۔
”صوفیہ!“شاہزیب خان نے دھاڑ کر کہا۔
”بس یہ ہی کرنا آتا ہے آپ کو ۔“ صوفیہ نے کہا۔
اِس سے پہلے شاہزیب صوفیہ کو کچھ کہتا ولی نے شاہزیب کو مخاطب کیا۔
”شاہزیب لالا !جانے دیں چھوٹی بہن ہے ۔اور تم صوفیہ جاٶ اپنے کمرے میں اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو۔“ولی نے کہا۔جس پر شاہزیب خان اپنے غصے پر قابو پاتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا۔
”تم بھی جاٶ اب یہاں سے۔“ولی نے صوفیہ سے کہا۔
”مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔“صوفیہ نے کہا۔
”کیا بات ہے؟“ ولی نے پوچھا۔
”لالا شاید آپ کو میری بات سمجھ نہ آۓ شاید آپکو بُرا لگے اِس لیے میری بات آرام سے سُنۓ گا۔“صوفیہ نے تمہید باندھی۔
”بولو میں سُن رہا ہوں۔“ولی نے صوفیہ کے پاس جاتے ہوۓ کہا۔
”لالا آج آپکا نکاح ہوا ہے خواہ وہ کیسے بھی حالات میں ہوا لیکن نکاح نکاح ہوتا ہے اب آپ کے اور نوراں کے درمیان یہ پاکیزہ رشتہ ہے اور ہم سب آپ سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ آپ اِس رشتے اور بابا جان کے فیصلے کا احترام کریں گے اُن کو مزید دُکھی نہیں کریں گے۔اور نوراں کو انُکے باپ کے کیۓ کی سزا بھی نہیں دیں گے۔“صوفیہ نے کہا۔
”صوفی ایک بات بتاٶ یہ ساری اُمیدیں آپ سب کو مجھ سے ہی کیوں ہیں؟اور میں کیوں تمہاری اور بابا جان کی اُمیدوں پر پورا اُتروں کیا وہ میری اُمیدوں پر پورا اُترے میں کیوں انکے فیصلے کا احترام کروں؟میں کیوں اُن کی خواہشات کا مان رکھوں ؟کیا انہوں نے میری خوشی دیکھی یہ فیصلہ کرتے ہوۓ؟تو میں کیوں اب کچھ سوچوں؟ولی نے تلخی سے کہا تھا جس پر صوفیہ کی آنکھیں بھرآٸ تھی۔
”آپ یہ سب کریں گے لالا ۔اگر آپ نے یہ سب نہ کیا تو آپ اپنی دنیا اور اپنی جنت دونوں کو کھو دیں گے ۔بابا سرکار مصطفیٰ لالا کےبعد ختم ہوگۓ ہیں اندر سے اُنہیں مزید تکلیف آپ نہیں دے سکتے۔اور جو فیصلہ اُنہوں نے آپ کے لیے کیا وہ آپکےحق میں کتنا صحیح اور کتنا غلط تھا یہ آپکو وقت بتاۓ گا۔لیکن میں ابھی صرف ایک بات جانتی ہوں لالا کہ اگر مصطفیٰ لالا کے بعد اِس گھر کی رونق کوٸ واپس لا سکتا ہے تو وہ آپ ہیں اور آپ لاٸیں گے میرے لیۓ ،باباسرکار کے لیے اور بی بی جان کے لیے ۔“کہتے ہوۓ صوفیہ کی ہچکی بندھ گٸ تھی ۔صوفیہ کی حالت دیکھ کر ولی کو کچھ ہوا تھا ۔
”صوفیہ !“ولی نے اُسکے آنسو صاف کرنے چاہیے تھے لیکن صوفیہ نے قدم پیچھے بڑھاۓ تھے ۔
”میں خود کو خود سنبھال سکتی ہوں۔“صوفیہ نے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گٸ۔
ہم انسان بہت ناشکرے ہوتے ہیں ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں ۔اُنکے فیصلوں سے ہمیں اختلافات ہوتے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ماں باپ ہیں جو ہمیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہیں۔ وہ باپ جس کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جسکے ناراض ہونے خدا ناراض ہوتا ہے ۔ہم اُس ماں کو غلط کہتے ہیں جس نے نہ جانے کتنی مشکلات کا سامنا کر کے ہمیں پالا جس کے پیروں تلے خدا نے جنت رکھی ہے۔“
”پھر جب ہم ایسا کرتے ہیں تو بعد میں صرف ہمارے پاس پچھتاوا ہوتا ہے ندامت ہوتی لیکن ماں باپ نہیں ہوتے تو اِن کی قدر کریں اِن کو ناراض مت کریں ۔انکے فیصلوں پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کریں۔اور باقی سب خدا پر چھوڑ دیں۔“
*******
”میں اندر آ سکتا ہوں۔“اسفی نے صوفیہ کے کمرےکا دروازہ تھوڑا سا کھولتےہوۓ کہا۔
”نہیں ۔“صوفیہ نے بیڈ پر بیٹھے بیٹھے کہا۔
”آنے دو یار ۔“اسفی نے پھر کہا۔
”اسفی !میرے سر میں پہلے ہی بہت درد ہے پلیز تم جاٶ یہاں سے۔“صوفیہ نے کہا۔
”میں آجاٶں۔“اسفی نے صوفیہ کی بات بلکل نظر انداز کرتے ہوۓ پھر پوچھا۔
”نہیں ۔“ یک حرفی جواب آیا تھا۔
”ارے یار۔“ اسفی افسوس سے کہہ کر واپس جانے لگا تھا جب پیچھے سے آتی زوبیا نے اُسے روکا۔
”ارے کہاں جا رہے ہو اسفی آجاٶ چاۓ پلاتی ہوں ۔“ زوبیا نے ہاتھ میں پکڑی ہوٸ ڈش کو اوپر کرتے ہوۓ کہا۔
”ارے واہ زوبیا بھابھی کیا صحیح ٹاٸم پہ انٹری ماری ہے۔“اسفی نے خوشی سے کہا جس پر زوبیا کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔
”تم مجھے اب بھابھی بُلانا بند کر دو۔“زوبیا نے کہا۔زوبیا کی بات سے اسفی خاصہ شرمندہ ہوا تھا۔
”سوری وہ بس عادت ہے تو۔“اسفی نے کہا۔
”کوٸ بات نہیں لیکن آٸندہ دیھان رکھنا۔میں نے بہت مشکل سے خود کو سمیٹا ہے اب دوبارہ بکھرنا نہیں چاہتی میں۔“زوبیا نے کہا اور چاۓ کی ڈش لے کر صوفیہ کے کمرے میں چلی گٸ۔
”بیوقوف اسفی !تو موڈ صحیح کرنے آیا تھا یا خراب کرنے ۔“ اسفی نے اپنے آپ کو کوستے ہوۓ کہا۔
*******
”میں تھک گیا ہوں مصطفیٰ کی ماں مجھ میں اب مزید ہمت نہیں ہےکہ میں سب کو سنبھال سکوں۔سب کی باتوں کے جواب دے سکوں ۔میں مصطفیٰ کے بغیر کچھ نہیں ہوں ۔“جلال خان نے روتے ہوۓ کہا۔
”ایسے مت کریں خان صاحب اگر آپ ہمت ہار گۓ تو ہمیں حوصلہ کون دے گا ۔“ بی بی جان نے کہا۔
”دعا کرو مصطفیٰ کی ماں جو فیصلہ میں نے کیا ہے وہ ہم سب کے لیے حق میں بہترین ثابت ہو۔“جلال خان نے کہا۔
”انشااللّٰہ سب اچھا ہو گا آپ اللہ پر یقین رکھیں۔“بی بی جان نے کہا۔
”انشااللّٰہ۔“جلال خان نے کہا۔
******
نوراں جب سے آٸ تھی ولی خان کے کمرے میں قید تھی۔اُسے کسی کا انتظار نہیں تھا نہ نیند کا نہ ہی کسی اور کا۔ رات ایک بجےکا وقت تھا۔نوراں نے آہستہ آہستہ قدم کھڑکی کی جانب بڑھانے شروع کیے اور کھڑکی کے پاس پہنچ کر اُس نے پردے ساٸیڈ پر کیۓ اور آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھنے لگی ۔
”آج تو چاند نے بھی آنکھ مچولی کا کھیل شروع کر رکھا ہے ۔“نوراں نے چاند کو دیکھتے ہوۓ کہا اور جو بادلوں میں چھپنے کے لیے بے قرار تھا۔نوراں ابھی یہ ہی دیکھ رہی تھی جب دروازہ کھولنے کی آواز آٸ۔اور ولی اندر داخل ہوا۔ولی کے آنے پر نوراں کو گھبراہٹ ہوٸ تھی ایک عجب سا احساس تھا لیکن کیا کوٸ نہیں جانتا تھا۔
ولی کو بھی اندر آکر عجیب سا لگا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی الگ رہا تھا کبھی کوٸ اِس طرح حق سے اُسکے کمرے میں نہیں کھڑا ہوتا تھا جیسے آج نوراں کھڑی تھی ۔ولی نے زرا سی دیر کے لیے نظریں اُٹھا کر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تھا۔اور دیکھتے ہی ولی کے ذہن میں ایک آواز گونجی تھی ۔
”تمہاری بیوی تمہارے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔ بھاٸ کے قاتل کی بیٹی ہے۔“
اور اِسی کے ساتھ ولی کی دماغ کے رگیں تن گٸیں تھیں۔اور اُس نے پورے زور سے دروازے کو بند کیا تھا جس سے ایک زور دار آواز پیدا ہوٸ تھی آواز اِس قدر شدید تھی کہ نوراں کا وجود کانپ گیا تھا۔
*******
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
INSHA ALLAH next episode b apko jaldi mill jay ...
Don't forget to give me your precious reviews ....
love you all ....
Also give vote ....
” جزاك اللهُ“
KAMU SEDANG MEMBACA
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasiکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...