ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط:٨
نوراں بی بی جان کے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھے جب کسی نے اُسکی کلاٸ تھام کر اُسے پیچھے کھینچا تھا جس کی وجہ سے اُسکا دوپٹہ سر سے سِرک کر کندھوں پر آ گرا تھا۔جس کی وجہ سے اُسکے کُھلے بال بکھر گۓ تھے اور اُسکی گوری رنگت پر اُسکے کھُلے بکھرے بال بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔
"بہت خوبصورت لگ رہی ہیں بھابھی جان ۔" شاہزیب نے بھابھی جان پر زور دیتے ہوۓ کہا۔
"ہاتھ چھوڑو میرا بیغیرت آدمی۔"نوراں نے ہاتھ چھوڑوانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا مگر بے سود ۔
"ارے میں نے آپ کو اتنی عزت سے بلایا ہے اور آپ کیا مجھے بیغیرت کہہ رہیں ہیں کتنی بُری بات ہے یہ۔"شاہزیب نے شہد سےمیٹھے لہجے میں کہا۔
"تم اور عزت کیا اچھا لطیفہ ہے۔"نوراں نے تنظ کرتے ہوۓ کہا۔
"ارے اگر ہم اپنے بھاٸ کے قاتل کی بیٹی کو عزت دے سکتے ہیں تو کیا آپ اپنے شوہر کے بھاٸ کو عزت نہیں دے سکتی۔"شاہزیب نے تنظیہ لہجہ اپناتے ہوۓ کہا۔
"وہ دن دور نہیں شاہزیب خان جس دن تم مجھے بھی اور میرے باپ کو بھی عزت دو گے آٸ سمجھ ۔" نوراں نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوۓ کہا۔لیکن شاہزیب خان کی گرفت اُسکے ہاتھ پر مزید سخت ہوگٸ تھی ۔جس سے نوراں کی کراہ نکلی تھی ۔
"تم اپنے کیۓ کا حساب دو گی اپنے منہ سے کہے ایک ایک لفظ کا حساب تم دو گی نوراں بشیر احمد۔"شاہزیب نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
"ہاتھ چھوڑیں لالا۔"پیچھے سے ولی کی غصے سے بھری آواز آٸ تھی جو جانے کب وہاں آکھڑا ہوا تھا۔
"ارے تمہیں بہت فکر ہو رہی ہے بیوی کی۔"شاہزیب نے ولی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"میں نے کہا ہاتھ چھوڑیں اِسکا۔"ولی نے شاہزیب کے قریب آ کر کہا۔ولی کے اِسطرح کہنے پر شاہزیب نے نوراں کے ہاتھ پر گرفت اور مضبوط کر دی تھی ۔نوراں کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی اُسکا ہاتھ اُسکی کلاٸ سے علیحدہ ہو جاۓ گا۔
"ارے اپنے بھاٸ کے قاتلوں کو اتنی سزا دینی تو بنتی ہی ہے۔"شاہزیب نے ایک بار پھر نوراں کا بازوں مڑوڑتے ہوۓ کہا۔
"آپکو اِسے اذیت دینے کا اتنا ہی شوق ہےتو کرلیں اِس سے نکاح کم از کم میں تو سکون میں ہوٶں گا۔"ولی نے نوراں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا تھا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی ۔شاہزیب کی ہاتھ پر گرفت سے نوراں کو اتنی اذیت نہیں ہوٸ تھی جتنی ولی کی اِس بات پر اُسے تکلیف ہوٸ تھی۔ نوراں کی آنکھیں ضبط کی شدت سے لال ہو چکی تھیں وہ جو سمجھ رہی تھی کہ ولی شاہزیب سے اُسے بچا لے گا لیکن نہیں ولی کی بات نے اُسے اندر تک ہلا کر رکھ ریا تھا ۔وہ اُس لڑکی سے شاہزیب کو نکاح کے لیے کہہ رہا تھا جو اِس وقت اُسکے نکاح میں تھی۔جواِس وقت اُسکی محرم تھی ۔
"احساس کے پاکیزہ رشتے میں بندھے ہم لوگ نہیں جانتے کہ آنے والا وقت کیسا ہو گا کون کہاں ہو گالیکن کچھ لفظ ،کچھ لہجے ،کچھ لوگ،کچھ باتیں ،کچھ رویے آپ کبھی بھول نہیں پاتے ۔اِس لیے الفاظ کا استمعال احتیاط سے کرنا چاہیے آپ کے الفاظ آپکی پرورش کا بہترین ثبوت ہوتے ہیں۔اِن سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہۓ کیونکہ ہتهيار سے دیۓ گۓ زخم کا گھاٶ بھر جاتا ہے لیکن الفاظ سے دیۓ گۓ زخم کا گھاٶ کبھی نہیں بھرتا کیونکہ الفاظ سے جسم نہیں روح زخمی ہوتی ہے۔اور روح کا زخم بھرنے میں صدیاں لگ جاتیں ہیں۔"
۔
"او تو تم اِسے آزاد کرنے کی سوچ ۔"شاہزیب کے الفاظ ابھی اُسکے منہ میں ہی تھے جب ایک زور دار تماچہ اُسکے منہ پر پڑا تھا۔اِس تماچے پر شاہزیب کے سامنے کھڑا ولی بھی چونک گیا تھا۔
"ایک لفظ اگر تمہارے منہ سے اور نکلا شاہزیب خان تو میں بھول جاٶ گی کے تم کون ہو۔" نوراں نے شاہزیب کو تھپڑر رسید کرنے کے بعد انلگی اُٹھا کر اُسے وارنگ دی تھی اور ساتھ ہی اپنا دوسرا ہاتھ ایک جھٹکے سے آزاد کروا کروہاں سے چلی گٸ تھی۔ جبکہ شاہزیب کو اپنے منہ پر پڑے تھپڑ کا احساس اب بھی ہورہا تھا اُسکی آنکھیں غصے کی شدت سے سرخ ہو چکی تھی۔
"اپنی بیوی سےکہو اپنی اوقات میں رہے اگر میں اُسےاوقات پرلایا تو ساری خان حویلی روۓ گی۔" شاہزیب نے حیران کھڑے ولی کو گریبان سے پکڑ کر کہااور ایک جھٹکے سےاُسے چھوڑ کر باہر کی جانب چل پڑا ۔
"کیا مصیبت ہے یہ!"ولی نے نحوست سے کہااوراپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔
******
دُکھ ہوتا ہے اذیت ہوتی جب آپ کو کسی اپنے سے وہ سُننے کو ملے جس کی آپ نے کبھی توقع بھی نہ کی ہو۔اور اگر رشتہ نکاح کا ہو خواہ وہ نکاح کیسے ہی حالات میں کیوں نہ ہوا ہو۔لڑکی اُس انسان پر انحصار کرنے لگتی ہے جو کبھی اُسکا کچھ بھی نہیں تھا نکاح کے چند الفاظ کے بعد وہ سامنے والا ہی اُسکا سب کچھ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اُسکے ساتھ کے لیے ماں باپ کو بھی چھوڑ آتی ہے۔اور اگر وہی انسان آپکی ذات کو سوالیہ نشان بنا دے تو اذیت ہوتی ہے اور بہت ہوتی ہے۔
*****
نوراں بی بی جان کے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر خود کو نارمل کرنے میں لگی تھی۔منہ پر آۓ بالوں کو ہاتھوں سے پیچھے کر کے سر پر دوپٹہ اُوڑھنے کے بعد نوراں نے اپنے کلاٸ دیکھی تھی جس پر شاہزیب خان کی انگلیوں کے نشان چھپ چُکے تھے ۔نوراں نے بازو کی آستین کھینچ کر اُسے چھپانا چاہا آستین لمبی ہونے کی وجہ سے کسی حد تک وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو چکی تھی ۔اپنے آپ کو سنبھالنے کے بعد نوراں نے بی بی جان کے کمرے کا دروازہ بجایا۔بی بی جان بیڈ کراٶن سے ٹیک لگاۓ بیٹھیں تھیں اور صوفیہ انکی گود میں سر رکھے سو چکی تھی ۔
"آجاٶ۔"دورازہ بجنےکی آواز پر بی بی جان نے کہا۔نوراں دروازہ کھول کر اندر آٸ اور دروازہ پھر سے بند کر دیا ۔
"معذرت بی بی جان مجھے آنے میں دیر ہو گٸ ۔"نوراں نے اندر آ کر کہا ۔
"کوٸ بات نہیں آٶ یہاں میرے پاس بیٹھو۔"بی بی جان نے بیڈ کی دوسری ساٸیڈ پر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہو کہا۔
نوراں نے بی بی جان کا کہا مانتے ہوۓ اپنے جوتے بیڈ کے پاس اُتارے اور بی بی جان کے پاس بیڈ کے اوپر جا بیٹھی ۔
"نوراں مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ۔" بی بی جان نے کہا۔
"جی بی بی جان کہیں ۔"نوراں نے بی بی جان کا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا۔
"نوراں تم اِس گھر کی بیٹی ہو تمہیں اِس گھر کو سنبھالا ہے تمہیں اپنے اور ولی کے رشتے کو سنبھالا ہے تمہیں ہمیں بھی سنبھالنا ہے۔اور مجھے یقین ہے کہ تم یہ کر لو گی تم خان حویلی کو سنبھال لو گی ۔لیکن اُس سے پہلے تمہیں خود کو سنبھالنا ہے اپنے رشتے کو سنبھالنا ہے ولی کو سنبھالناہے اور اُس کے لیے تمہیں مضبوط رہنا ہے ۔"بی بی جان بول رہی تھیں اور نوراں بھی بی بی جان کو بہت خاموشی سے سُن رہی تھی کہ صوفیہ کب اُٹھ بیٹھی دونوں کو اِس بات کی خبر نہیں ہوٸ ۔
"ولی ہمیشہ رشتوں سے دور رہا ہے اُسے رشتے نبھانے نہیں آتے۔وہ اپنی ہی کرتا ہے ہر معاملے میں ۔لیکن اب تمہیں اُسے بدلنا ہے ۔تمہیں اُسے اُسکے رشتوں کی طرف لانا ہے ۔"بی بی جان کہہ کر خاموش ہو گٸ۔
"بی بی جان مجھے نہیں پتا یہ سب کیسے ہوگا ۔ ہمارا رشتہ کب قاٸم ہے میں تو یہ بھی نہیں جانتی۔ لیکن ایک وعدہ آپ سے کرتی ہوں میری وجہ سے کبھی آپکو تکلیف نہیں ہو گی میری ذات آپ کے اور آپکے بیٹے میں دوری کی وجہ نہیں بنے گی۔ اِس بات کا میں آپکو یقین دلاتی ہوں۔"نوراں نے بی بی جان کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام کر کہا۔
"انشااللہ بہت جلد سب کچھ صحیح ہو جاۓ گا۔"بی بی جان نے نوراں کا ماتھا چھومتے ہوۓ کہا۔
"اور ہاں نوراں تیاری کر لو تمہیں آج ولی کے ساتھ اسلام آباد جانا ہے۔"بی بی جان نے کہا۔
"اسلام۔۔۔۔آباد خیریت بی بی جان۔"نوراں نے حیرانگی سے پوچھا۔
"ارے تمہارا بندا وہاں رہے گا تو تم بھی وہاں ہی رہو گی۔"صوفیہ نے نیند سے بھری آواز میں کہا۔
"لیکن بی بی جان۔"نوراں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اُسکے پاس الفاظ نہیں تھے کیا کہتی وہ بی بی جان کو کہ اُسے ولی کے ساتھ نہیں جانا۔نہیں وہ یہ نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ اِس بات کا اختیار اُسکے پاس نہیں تھا۔
"تمہارے بابا سرکار کا بھی یہی فیصلہ ہے۔" بی بی جان نے کہا ۔
"جیسا آپ کہیں بی بی جان ۔"نوراں نے بس اتنا کہا۔
"چلو تم میرے ساتھ تمہاری پیکنگ کروادوں ۔"صوفیہ نے بیڈ سے اُتر کر کہا۔
اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ بی بی جان کے کمرے سے باہر نکل چکی تھیں۔
******
"چچا منشی وقت دیکھتے دیکھتے ہی کتنا بدل گیا ہےابھی کل کیسے سب خوشحال تھےاور آج سب کیسے خاموش ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے گاٶں کو کسی کی نظر لگ گٸ ہے۔"رمضان اورمنشی چچا گاٶں کے چوک میں لگے ایک بڑے اور پرانے پیڑ کے نیچے بیٹھے تھے جب رمضان نے منشی چچا کو مخاطب کر کے کیا۔
"یہی زندگی ہے پُتر کل خوش تو آج اُداس آج اُداس تو کل خوش کیونکہ کچھ بھی مستقل نہیں رہتا نہ غم نہ ہی خوشی ۔"منشی چچا نے سرد آہ بھرتے ہوۓ کہا۔
"کاش چچا مصطفیٰ خان اور راشد لالا کی محنت جلد رنگ لے آتی تو آج نوراں بھی آزاد ہوتی۔"رمضان نے اُداسی سے کہا۔
"اُنکی کوشش جلد رنگ لاۓ گی ان شاء اللہ
جلد ہی ہمارے گاٶں میں بھی عدل و انصاف قاٸم ہوگا۔"منشی چچا نے اپنی عینک صاف کرکے دوبارہ لگاتے ہوۓ کہا۔
" ان شاء اللہ!چچا کیا واقعی بشیر چچا نے مصطفیٰ خان پر گولی چلاٸ تھی؟کیا واقعی اُن دونوں میں جھگڑے کی وجہ نوراں تھی؟" رمضان نے نجانے یہ سوال کیوں پوچھا تھا۔
"میری رب سے دعا ہے پُتر یہ راز جلد کھل جاۓ کیونکہ جب تک یہ راز راز رہے کا میرا ضمیر پُرسکون نہیں ہوگا میں دن بادن مزید گنہگار ہوتا جاٶں گا۔"منشی چچا نے بوجھل دل سےکہا اور اُٹھ کر چل پڑے ۔پیچھے رمضان منشی چچا کے کہیے الفاظ اور لہجے میں اُلجھ کر رہ گیا تھا۔اُسے منشی چچا کی بات سمجھ نہیں آٸ تھی کون سا راز؟ کیسا راز ؟کیا ابھی کوٸ راز باقی ہے؟ کیا اب کسی راز کے کھُلنے سے نوراں کی زندگی میں جو طوفان آیا ہے اُس طوفان کی بربادی کی تلافی ممکن ہو گی ؟ایسے بہت سے سوال تھے جن کا جواب رمضان کے پاس نہیں تھا۔
*****
کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا۔بس بیڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ اپنی ابتر حالت میں جل بجھ رہا تھا۔کمرے کی ہر چیز بکھری پڑی تھی۔بیڈ کی بیڈ شیٹ نیچے زمین پر پڑی تھیں ڈریسنگ کی چیزیں نیچے فرش پر بکھریں پڑیں تھیں۔اور شاہزیب خان غصے سےبھرا بیڈاور ڈریسنگ کے بیچ میں پڑے کاٶچ پر بیٹھا تھا ۔
"تم نے شاہزیب جلال خان کے منہ پر تماچہ مارا ہے نوراں!اِس کی قیمت تم ادا کرو گی اِس تماچے کی قیمت میں شاہزیب جلال خان تم سے سود سمیت واپس لوں گا تم کبھی خوش نہیں رہ پاٶ گی کیونکہ میں تمہیں کبھی خوش رہنے نہیں دوں گا۔یہ میرا خود سے وعدہ ہے۔"شاہزیب نے غصے سے کہا اِس وقت شاہزیب کی آنکھوں میں حد سے زیادہ وحشت تھی ،نفرت تھی ،جنون تھا کسی کو برباد کرنے کا جنون کسی کو رُلانے کا جنون کسی کی مسکراہٹ چھیننے کا جنون لیکن شاہزیب خان یہ نہیں جانتا جاتا تھا کہ
"اللّٰہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔اگر وہ جانتا ہوتا تو کسی آنکھ میں آۓ آنسوٶں کا سبب نہیں بنتا کسی کی زندگی اجیرن نہ کرتا۔ "
"بیشک آپ کے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔"
القران
اِس بات کا علم شاہزیب خان کو بہت جلد ہونے والا تھا۔
*****
صوفیہ اور نوراں ایک ساتھ سیڑیوں پر چڑھ رہیں تھیں نوراں بلکل خاموش تھی جس پر صوفیہ کو پریشانی ہوٸ تھی ۔
"نوراں چلو پہلے میرے کمرے میں۔"صوفیہ نے نوراں کوکلاٸ سے کھینچتے ہوۓ کہا۔جس پر نوراں کو تکلیف ہوٸ تھی لیکن اُس نے پل میں خود کو سنمبھالا تھا اور اپنی کلاٸ صوفیہ کی ہاتھ سے نکالی تھی ۔
"ارے مگر ہم تو۔"
"یار باقی کام بھی ہو جاٸیں گے لیکن ابھی مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"صوفیہ نے نوراں کی بات بیچ میں کاٹتے ہوۓ کہااور نوراں کو لےکر اپنے کمرے میں چلی گٸ ۔
کمرے میں پہنچ کر صوفیہ نے نوراں کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا۔
"کیا ہوا ہے؟"
"کیا ہواہے؟"نوراں نے بھی پلٹ کر وہی سوال کیا۔
"بنو مت سچ سچ بتاٶ تم مجھ سے کیا چھپا رہی ہو۔"صوفیہ نے گھور کر نوراں سے کہا۔
"مجھےڈرانا بند کرو اور میں تم سے کیا چھپاٶں گی سب کچھ تو تمہارے سامنے ہے۔"نوراں نے صوفیہ کے سامنے سے ہٹتے ہوۓ کہا۔
"پکی بات ہے۔"صوفیہ نے پھر پوچھا۔
"ہاں ویسے تو سب ٹھیک ہے بس ایک بات سے پریشان ہوں۔" نوراں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"کیا مجھے بتاٶ؟" صوفیہ نے جلدی سے پریشانی سے نوراں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"بات یہ ہے کہ میں آپ سب کے بغیر علی پور کے بغیر کیسے رہوں گی۔"نوراں نے اداسی سے کہا۔
"تمہیں کسی کے بغیر نہیں رہنا تم کون سا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا رہی ہو آتی جاتی رہو گی۔"صوفیہ نے نوراں کے پاس بیٹھ کر کہا ۔
"یہاں سب کچھ ہےصوفیہ میرے اپنے میرے ماں باپ اُن سے کبھی ملنے کی اُنہیں دیکھنے کی آس اُمید سب یہاں۔میں یہاں سے گٸ تو وہ آس اُمید بھی ختم ہوجاۓ گی۔"نوراں نے بوجھل دل سے کہا ۔
"بشیر چچا اور رجو خالہ کی ذمہ داری میں لیتی ہوں میں ہر طرح سے اُنکا خیال رکھنے کی کوشش کروں گی اور تمہیں بتاتی رہوں گی۔اور دیکھنا تم ایک دن ان شاء اللہ بابا سرکار خود اُنکو یہاں حویلی میں تم سے ملنے کے لیے بُلاٸیں گے مجھے یقین ہے۔"صوفیہ یقین سے کہا۔
" ان شاء اللہ۔"نوراں نے کہا۔
*****
علی پور میں سورج کے غروب ہونے کا وقت قریب تھا۔حویلی کے پورچ پر سفید بی ایم ڈبلیو تیار کھڑی تھی۔
"جمال سامان گاڑی میں رکھو۔"ولی نے جمال سے کہا اور خود اندر کی جانب بڑھ گیا ۔
"بھابھی آپکو آپکی پھوپھی ساس کی طرف سے دعوت ہے آپکا جب دل کرے آپ لاہور آ سکتیں ہیں۔ہم آپکے منتظر رہیں گے ۔"اسفی نے مسکرا کر نوراں کو دعوت دی تھی۔
"جی ضرور۔"نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"اگر سب سے ملنا ملانا ہو گیا ہو تو چلیں۔"ولی نے اندر آ کر کہا۔
"ہاں جی لالا نوراں اور سکینہ بی دونوں تیار ہیں۔"صوفیہ نے کہا۔
"ولی !"جلال خان نےولی کو آواز دی ۔
"جی بابا سرکار۔"ولی نے اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑے جلال خان کو دیکھ کر کہا۔
"یہاں آٶ۔"جلال خان نےولی سے کہا۔ولی نے جلال خان کی جانب قدم بڑھاۓ۔
"نوراں بیٹی آپ بھی یہاں آٶ۔"جلال خان نے نوراں کو بھی پاس آنے کے لیے کہا۔ نوراں نے بھی دھیرے سے قدم اُٹھاۓ اور ولی خان کے ساتھ جا کھڑی ہوٸ۔
"اللّٰہ پاک تم دونوں کو ڈھیروں خوشیاں دے ۔تم دونوں کی جوڑی ہمیشہ سلامت رہے ۔آمین۔"جلال خان نے نوراں اور ولی کو دعا دی ۔
"اب بچوں کو تحفہ دے بھی دیں اُنہیں دیر ہو رہی ہے۔"بی بی جان نے جلال خان کے کندھے پرہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
"کچھ عرصہ پہلے میں مصطفیٰ کے ساتھ اسلام آباد گیا تھا وہاں سے واپسی پر مصطفیٰ نے مجھے کہا تھاکہ بابا سرکار ولی کبھی حویلی رہنے واپس نہیں آۓ گا وہ جہاں رہنا چاہتا ہے اُسے وہاں ہی رہنے دیں یہ نہ ہو کہ ہم اُسے اپنے قریب کرتے کرتے خود سے دور کر دیں ۔تب میں نے اسلام آباد میں ایک گھر بنوانے کا کہا تھا مصطفیٰ کواور یہ اُسی گھرکی چابی ہے جو مصطفیٰ نے میرے کہنے پر تمہارے لیے بنوایا تھا۔"جلال خان نے نوراں اور ولی کے آگے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کھولتے ہوۓ کہا جس میں ایک چابی پڑی تھی۔
"سوچا تھا کہ کسی خوشی کے موقعے پر ہم تمہیں یہ تحفہ دیں گے تو آج ہم تمہیں اِسے دیتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں آج سے تم اِس گھر میں رہو۔"جلال خان کہہ رہے تھے اور وہاں کھڑے سب لوگ بہت غور سے جلال کو سُن رہے تھے ۔
"بابا سرکار تو ابھی آپ اِسے اپنے پاس رکھے۔کیونکہ تحاٸف خوشیوں پر دیۓ جاتے ہیں سمجھوتوں پر نہیں ۔اور میری شادی صرف اور صرف ایک سمجھوتا ہے جو آپ کے کہنے پر میں کر رہا ہوں اِس لیے آپ اپنے اِس تحفے کو اپنے پاس ہی رکھیں ۔"ولی کہہ کر پیچھے موڑا تھا جب اُس کی نظر اپنے پیچھے کھڑی صوفیہ پر پڑی جس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ آہستہ آہستہ ولی کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ولی کے قریب آ کر صوفیہ نے بولنا شروع کیا۔
"لالا!پلیز اِس تحفے کو قبول کر لیں یہ محض ایک تحفہ نہیں ہے اِس میں بابا سرکار کی محبت ہے بی بی جان کی دعاٸیں ہیں مصطفیٰ لالا کی محنت ہے۔پلیز بابا سرکار کو ایک نیا زخم دے کر مت جاٸیں اُن میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مزید زخم کھاٸیں۔پلیز ہم سب کی خاطر جہاں اتنا کیا ہے وہاں تھوڑا سا اور برداشت کر لیں یہ تحفہ قبول کر کے بابا سرکار کو کچھ پل کی خوشی دے دیں لالا۔"صوفیہ نے آہستہ آواز سے کہا اُس کی آواز میں دکھ ،رنج ،افسوس سب کچھ تھا۔آنکھوں میں بات مانے جانے کی اُمید تھی ۔ولی کو اپنے سامنے کھڑی اپنی چھوٹی بہن کو یوں روتا دیکھ کر دُکھ ہوا تھا۔ولی نے اُسے پکڑ کر سینے سے لگایا تھا۔
"تم اتنی بڑی کب ہو گٸ صوفی ۔تم تو شرارتی سی نازک سی نکھرے کرنے والی بچی تھی جو ہر بات پر غصہ ہو جاتی تھی اور اب تم کتنی بدل گٸ ہو۔"ولی نے ہنوز صوفیہ کو گلے لگا کر کہا ۔صوفیہ نے خود کو ولی سے الگ کیا اپنے آنسو صاف کیۓ اورکہا۔
"مجھے تو بدلناہی تھا لالا مجھے تو بڑی ہونا ہی تھا کیونکہ مجھےمانانے والا میری نادانیاں اور شراتوں میں میرا ساتھ دینے والا مجھے بابا سرکار اور بی بی جان کی ڈانٹ سے بچانے والا جو ہمیشہ کےلیے چلا گیا تو مجھے تو بڑی ہونا ہی تھا۔"آخری الفاظ کہنے کے بعد صوفیہ مسکراٸ تھی۔اور باقی سب کی آنکھیں آنسوٶں سے بھر گٸ تھی ۔جلال خان کا ہاتھ ابھی بھی ویسے ہی ولی اور نوراں کے سامنے پھیلا ہوا تھا ۔ولی نے پلٹ کر اپنے باپ کو سینے سے لگایا تھا۔
"بابا سرکار مجھے معاف کر دیں ۔میں نجانے آپکو کیا کچھ بول گیا ہوں۔پلیز اپنے اِس گنہگار بیٹے کو معاف کر دیں۔"ولی نے کہا۔
"ارے بس بس مجھے بھی رلاٶ گے کیا ۔"جلال خان نے ولی کی پیٹ تھپتھپاتے ہوۓ کہا ۔
"ایک دن آۓ گا ولی جب تم خود آ کر مجھ سے کہو گےکہ بابا آپکا فیصلہ بلکل صحیح تھا۔بس خود کو کچھ وقت دو ۔"جلال خان نے کہا۔
"کیا اب میں چابی لے سکتا ہوں؟"ولی نے ماحول پر چھاٸ افسردگی کو دور کرنے کے لیے مسکرا کر کہا۔
"ہاں ہاں بلکل یہ تمہارا ہی ہے ۔اور جمال تمہارے ساتھ ہے اُسے اِس گھر کا ایڈریس پتا ہے تم لوگوں کو مشکل نہیں ہو گی۔"جلال خان نے کہا۔
"ٹھیک ہے بابا جان اب اجازت دیں ۔"ولی خان نے سر جھکا کر اجازت چاہی ۔
"ٹھیک ہے خیریت سے جاٶ ۔"جلال خان نے ولی کا ماتھا چوم کر کہا۔جلال خان کے بعد ولی نے پاس کھڑی بی بی جان کے آگے سر جھکایا تھا۔
"ولی نوراں بھی کسی کی بیٹی ہے جیسے صوفیہ ہماری بیٹی ہے ۔امید کرتی ہوں کہ آپ میری بات کا مطلب سمجھ گۓ ہوں گے۔"بی بی جان نے کہا۔
"جی بی بی جان لیکن آپ اپنا وعدہ مت بھولیۓ گا ۔" ولی نے کہا اور بی بی جان سے پیار لے کر باہر نکل گیا ۔پیچھے سے نوراں بھی سب سے مل کر باہر آٸ تھی ۔
"صوفیہ بہادرہو جاٶ مصطفیٰ لالا کی طرح اور اللہ سے دعا کرو کہ تمہارے دونوں بھاٸ بھی مصطفیٰ لالا جیسے ہو جاٸیں ۔شاہزیب کاتو پتا نہیں لیکن میں کوشش کروں گی کہ ولی کواُسکے اپنوں کے پاس واپس لا سکوں۔"نوراں نے گاڑی کے پاس رُک کر صوفیہ سے کہا۔
"اور مجھے یقین ہے تم یہ کر لو گی۔" صوفیہ نے نوراں کے گلے لگتے ہوۓ کہا۔اور اُس کے بعد نوراں گاڑی میں بیٹھ گٸ تھی۔صوفیہ نے تب تک گاڑی کو دیکھا جب تک گاڑی حویلی سے باہر نہیں چلی گٸ تھی۔
"میڈیم آ جاٸیں اندر ورنہ ٹھنڈ لگ جاۓ گی۔"زوبیا نے اندر جاتے ہوۓ صوفیہ سے کہا۔
"ارے زوبیا باجی آپکو نہیں پتا موٹے لوگوں کو سردی کم لگتی ہے۔ہےنا صوفیہ۔"اسفی نے صوفیہ کے کندھے پر اپنی کوہنی ٹیکاتے ہوۓ کہا ۔
"ہاں ہاں کم لگتی ہے اور تمہیں پتا ہے زوبیا گینڈوں کو سردی بلکل بھی نہیں لگتی۔"صوفیہ نے کہا اور اپنا ایک پیر اسفی کے پیر پر دے مارا جس پر اسفی کراہ کر رہ گیا اور صوفیہ اندر کی جانب بڑھ گٸ۔
"یا اللہ کتنی ظالم ہے یہ لڑکی۔" اسفی نے اندر جاتی صوفیہ کو دیکھ کر کہا۔
"تو کیوں چھڑتے ہو اُسے۔" زوبیا نے کہا ۔
"وہ تو بس یو نو موڈ ٹھیک کرنے کے لیے ۔"اسفی نے زوبیا کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا۔
جس پر زوبیا مسکرا کر اندر کی جانب بڑھ گٸ ۔اور اسفی بھی پیچھے ہو لیا۔
******
گاڑی علی پور کی گلیوں سے گزر رہی تھی ۔جمال ڈراٸیو کر رہاتھا اور ولی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا مسلسل کسی کو فون کررہا تھا ۔جبکہ نوراں اور سکینہ بی پیچھے بیٹھیں تھیں ۔نوراں پلک جھپکے بغیر باہر کی جانب دیکھ رہی تھی کہ کاش کاش اُس کو اپنے باپ کی کہیں شکل دِکھ جاۓ کاش کہ وہ ایک جھلک اپنے ماں باپ کی دیکھ سکے اِس وقت نوراں کا دل شدت سے یہی دعا کر رہا تھا۔لیکن شاید ابھی رب تعالیٰ کو یہ منظور نہیں تھا۔
اور نوراں کے دیکھتے ہی دیکھتے ہی گاڑی علی پور گاٶں کو خیرآباد کہہ گٸ تھی۔نوراں نے بے بسی سے سر سیٹ کی پشت سے ٹیکا دیاتھا اور کچھ آنسوٶں نے اُس کے گال بھگوۓ تھے۔جنہیں نوراں نے ہاتھ کی پشت سے رگڑ کر صاف کیا تھا۔
"ابّا آپکی بیٹی آپ سے وعدہ کرتی ہے جب تک آپکی بےگناہی ثابت نہیں کرتی آپکو آپ کی کھوٸ ہوٸ عزت اور مقام نہیں لوٹاتی تب تک نوراں اِس علی پور میں قدم نہیں رکھےگی یہ نوراں کا خود سے اور آپ سے وعدہ ہے ۔"نوراں نے اپنے آپ اور اپنے باپ سے وعدہ کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کرے گی وہ کیسے اپنے باپ کو بے گناہ ثابت کرے گی۔لیکن وہ یہ کرے گی یہ اُس نے سوچ لیا تھا۔
*****
"اسفی تم واپس کب جا رہے ہو۔"زوبیا نے ٹی وی کا والیم کم کرتے ہوۓ پوچھا۔جس پراسفی نے مشکوک نظروں سے زوبیا کو دیکھا۔
"کیوں جی میرے یہاں رہنے سے آپکو کوٸ مسلہ ہے۔"اسفی نے پوچھا۔
"زوبیا کو کیا مسلہ ہوگا بھلا مسلہ تو ہمیں ہے۔"صوفیہ نے زوبیا کے پاس بیٹھ کر کہا ۔
"تمہیں کیا مسلہ ہے۔"اسفی نے صوفیہ کی بات پر حیران ہوتے پوچھا۔
"یار پتا کیا بانو مجھ سے شکایت کر رہی تھی تمہاری۔"صوفیہ نے آہستہ سے کہا کہ کوٸ سُن نہ لے۔صوفیہ کی اِس بات پر اسفی کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا جبکہ زوبیا نے اپنی مسکراہٹ دباٸ تھی۔
"بانو کو مجھ سے کیا مسلہ ہے میں نے تو اُسے کچھ نہیں کہا قسم لے لو یار مجھ سے۔"اسفی نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا۔
"ارے ارے ایسی ویسی کوٸ بات نہیں ہے ۔آپ تو کسی غلط ٹریک پر ہی چل نکلیں ہیں۔"صوفیہ نے اسفی کو پریشان دیکھ کر کہا۔
"مطلب !"اسفی نے پوچھا۔
"مطلب وہ کہہ رہی تھی کی اسفند لالا بہت کھاتے ہیں روٹیاں بنا بنا کر اُسکے بازو تھک جاتے ہیں لیکن اسفند لالا کا منہ نہیں تھکتا کھاتے کھاتے۔"صوفیہ نے کہہ کر وہاں سے دوڑ لگاٸ تھی ۔
"موٹی روکو زرا تمہیں میں بتاتا ہوں۔میرے کھانےپر نظر رکھتی ہو۔"اسفی نے صوفیہ کے پیچھے بھاگتے ہوۓ کہا۔
زوبیا دونوں کو لڑتا دیکھ کر مسکراٸ تھی اور دونوں کو نظر نہ لگنے کی دعا کی تھی ۔
زوبیانے اپنا فون اُٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے واٹس ایپ کھولا تھا۔مصطفیٰ سے آخری بات کرنے کے بعد سے زوبیا نے واٹس ایپ نہیں کھولا تھا کیونکہ اُسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی آج نجانے کیسے ہمت کر کے اُس نے واٹس ایپ کھولا تھا۔جس پر بے تحاشہ مسیجز تھے زوبیا نےکسی کا میسج کھول کر نہیں دیکھا کیونکہ وہ جاتی تھی کہ سب میسجز تعزیت کے ہی ہوں گے اوروہ دوبارہ سے اِس تلخ حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔زوبیا نے سکرولنگ شروع کی اور مصطفیٰ کے نام پر آکر رُک گٸ۔جو زوبیا کے فون میں ہسبینڈ ٹوبی کے نام سے سیو تھا ۔زوبیا نے کپکپاتے ہاتھوں سے ہسبینڈ ٹو بی کے نام پر کلک کیا اور میسج پڑھنے شروع کر دیۓ۔جیسے جیسے زوبیا میسج پڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے اُسکے آنسوٶں میں تیزی آ رہی تھی ۔ایک میسج پر آکر زوبیا کے ہاتھ رُک گۓ تھے زوبیا کادل شدت سے چاہا تھا کہ وہ وقت لوٹ آۓ لیکن وقت کبھی نہیں لوٹتا کسی کے لیے بھی نہیں ۔
"میں کل اپنے لب تمہارے ماتھے پر رکھ کر تم سے محبت کا اظہار کروں گا۔پورے حق کے ساتھ۔"زوبیا نے میسج پڑھا اور فون سر سے ٹیکا دیا کاش مصطفیٰ کاش وقت نے ساتھ دیا ہوتا کاش آپکی یہ خواہش اور میری یہ حسرت پوری ہو سکتی کاش۔زوبیا نے روتے ہوۓ کہا اور روتے روتے زوبیا کی ہیچکی بندھ گٸ تھی جو باہر سے اندر کی طرف آتے جلال خان نے سُنی تھی۔
"زوبیا بیٹی !"جلال خان نے زوبیا کے پاس جا کر اُسے پکارا ۔زوبیا نے نظریں اُوپر اُٹھا کر دیکھا اور جلدی سے آنکھیں صاف کی جلال خان کو اُن آنکھوں کے اندر کی اذیت جاننے میں دیر نہیں لگی تھی۔اور وہ وہی زوبیا کے پاس بیٹھ گۓ تھے۔
"زوبیا بس میری گڑیا بس صبر اور حوصلے سے کام لو۔رو کر خود کو اذیت کیوں دے رہی ہو۔"جلال خان نے زوبیا کے گرد بازوں حاٸل کرتےہوۓ کہا۔
"باباسرکار یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں مجھ سے ایسی کون سے خطا ہوگٸ تھی جو اللہ پاک نے مجھے اتنی بڑی سزا دی۔"زوبیا نے روتے ہوۓ کہا۔
"بُری بات ایسا نہیں کہتے اللہ جو کرتا ہے وہ بہتر کرتا ہے اور وہ اپنے بندوں پر اُنکی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔آپکو ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہے ۔ابھی تو زندگی کا آغاز ہے ابھی تو نجانے کتنے امتحان اور باقی ہیں۔ابھی ہمت نہیں ہارنی ۔اِس سب کو ایک ڈراٶنا خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش کرو۔"جلال خان نے زوبیا کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا۔زوبیا نے آنسو صاف کیٸے اور ہاں میں سر ہلایا۔جس پر جلال خان نے اُسکے سر پر پیار دیااور اُس کے پاس سے اُٹھ گۓ اور بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی جانب چل پڑے۔زوبیا کو تو تسلی دے دی تھی لیکن اپنے دل کاکیا کرتے جو مسلسل رو رہا تھا روتا بھی کیوں نہ آخر جوان بیٹے کی میت کو کندھا دیا تھا۔
نہ بیچتے ہیں نہ اس کو خرید کرتے ہیں
غزل ہم اپنے لہو سے کشید کرتے ہیں
YOU ARE READING
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasyکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...