ناول:میں لڑکی عام سی
مصنفہ:سیدہ فاطمہ نقوی
قسط نمبر :٥
تہجد کے وقت خان حویلی میں ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔سب اپنی اپنی آرام گاہ میں تھے۔اسفی جو پانی پینے کی غرض سے کیچن کی جانب جا رہا تھا کہ کسی کے قدموں کی آہٹ پاکر رُک گیا۔اسفی نے مین دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے آہٹ سُناٸ دی تھی ۔
”کون ہو سکتا ہے اس وقت یہاں۔“ اسفی نے قدم اُسی جانب بڑھاتے ہوۓ خود کلامی کی۔
تھوڑا آ گے جا کر اسفی کو چادر میں لپٹے ہوۓ کوٸ نظر آیا ۔اسفی نے قدموں کی رفتار تیز کی اور اُس چادر والے کو بازوں سے پکڑ کر اسفی نے اپنی جانب موڑا۔اور حیران ہو کر سامنے والے کو دیکھنے لگا۔
”تم ۔“اسفی نے حیرت سے سامنے والے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
”شش آرام سے۔“ سامنے والے نے اپنے ہونٹےپر انگلی رکھتے ہوۓ اسفی کو خاموش ہونےکا کہا۔
”صوفی !تم یہاں اِس وقت کیا کر رہی ہوں؟“ اب کی بار اسفی نے آہستہ آواز میں پوچھا۔
”دیکھو اسفی میں جو کر رہی ہوں مجھے کرنے دو اور میں امید کرتی ہوں کہ تم اِس بات کا کسی سے ذکر نہیں کرو گے۔“صوفی نے چادر کو اپنے گرد لپیٹتے ہوۓکہا۔
”نہیں کہوں گا لیکن مجھے تو بتاٶ اِس وقت کہاں جارہی ہو اکیلے جبکہ تمہاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔“اسفی نےپریشانی سے پوچھا۔
”میں جہاں بھی جاٶ تمہیں اِس سے کوٸ مطلب نہیں ہونا چاہیے۔“صوفی کہہ کر دروازےکی جانب بڑھنے لگی تھی جب اسفی نے اُسکا ہاتھ پکڑکر روکا اور اُسکے سامنے جا کھڑا ہوا۔
”مجھے مطلب ہے ۔کیونکہ مجھے تمہاری فکر ہے صوفی۔“اسفی نے کہا۔
”فکر مت کرو بھاگ نہیں رہی۔“صوفیہ نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوۓ کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“اسفی نے کہا۔جس پر صوفیہ نے کچھ نہیں کہا اور آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر لان کی جانب چل پڑی اور اسفی بھی خاموشی سےصوفیہ کے پیچھے ہو لیا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ پوچھنےپر وہ کچھ بتاۓ گی نہیں۔اور ویسے بھے رات کے اِس پہر اسفی صوفیہ کو ایسے اکیلے باہر جانے نہیں دے سکتا تھا اِس لیے اتنی سردی میں وہ بغیرکوٸ گرم شال یا سویٹر کے صوفیہ کے ساتھ ہو لیا۔صوفیہ نے گیٹ کے پاس پہنچ کر چوکیدار کو کہا۔جو پہلے ہی صوفیہ اور اسفی کو دیکھ کر کھڑا ہو چُکاتھا۔
”سعید گیٹ کھولو۔“صوفی نے چوکیدار سے کہا۔
”بی بی جی اس وقت ۔“سعید نے ہچکچاکر کہا۔
”جتنا کہا ہے اُتنا کرو اورہاں حویلی میں اِس بات کاکسی کو علم نہیں ہونا چاہیے ہم جلد واپس آ جاٸیں گے۔صوفیہ نے کہا۔
”جی بی بی جی۔“سعید نے کہہ کر گیٹ کھول دیا۔
کچھ دیر خاموشی سے چلنے کے بعد اسفی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو باہم رگڑتے ہوۓ کہا۔
”یار ! اب تو بتا دو ہم کہاں جا رہے ہیں۔“
”تھک گۓ ہو تو واپس چلے جاٶ۔“صوفی نے اسفی کی جانب دیکھے بغیر کہا۔
”نہیں نہیں ایسی تو کوٸ بات نہیں ہے۔“اسفی نے کہا۔اور خاموشی سے ساتھ چلنے لگا۔
*******
نوراں کی آنکھوں سے نیندکوسوں دور تھی لاکھ جتن کرنے کے بعد بھی وہ سو نہیں پا رہی تھی۔ذہن میں بس ایک ہی سوچ ڈیرہ جما کر بیٹھ گٸ تھی کہ آخر کل کیا ہو گا۔قسمت نہ جانے اب کون سا کھیل کھیلنے چلی تھی۔کل اگر باپ کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گی ۔اور باپ کو بچانے کا بھی کوٸ راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔آخر اِن سب سوچوں سے جان چھڑوانے کے لیے نوراں نے بستر چھوڑا اور وضو کرنے کے لیے چلی گٸ۔پھر نہ جانے کتنی ہی دیر رب دعاسے کرتی رہی اپنے باپ کی سلامتی مانگتی رہی کہ اچانک باہر کا دروازہ زور شور سے بجنا شروع ہو گیا۔نوراں نے ہاتھ منہ پر پھیر کر دعا ختم کی اور دستِ طلب سے اُٹھ کھڑی ہوٸ۔
”آرہا ہوں ۔۔۔۔آ رہا ہوں تھوڑا صبر رکھو۔“بشیر نے دروازے کی جانب جاتے ہوۓ کہا۔
دروازہ کھول کے بشیر نے باہر دیکھا تو چند لمحے اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
”چھو۔۔۔چھو۔۔چھوٹی بی بی آپ ۔“بشیر نے صوفیہ کو دیکھ کر کہا۔
”ہاں۔۔۔چچا میں۔“ صوفیہ نے نظر جھکا کر کہا۔
”کون ہے نوراں کے ابّا رات کے اِس پہر ۔“ پیچھےسے رجو(نوراں کی ماں)کی آواز آٸ۔
”وہ حویلی سے چھوٹی بی بی آٸ ہیں۔“ بشیر نے اونچی آواز سے کہا جو کہ کمرے میں بیٹھی نوراں کو بھی سُناٸ دی تھی۔
”تھوڑا آہستہ پورے محلے کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔“اسفی نے تلخ لہجے میں کہا جس پر صوفیہ نے گھور کر اسفی کو دیکھا۔
”اندر آجاۓ ۔“ بشیر نے ایک طرف ہوتے ہوۓ کہا۔
”صوفیہ بیٹی تم یہاں کیا کر رہی ہو۔وہ بھی اِس وقت اگر کسی کو پتا چلا تو قیامت آ جاۓ گی۔“رجو نے صوفیہ کو دیکھ کر کہا۔
”جو ہمارے ساتھ ہو چُکا ہے کیا وہ قیامت نہیں ہے؟“ صوفیہ نے کہا۔
”جو بھی ہے بیٹا آپکو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔“رجو نے کہا لیکن اُسکے لہجے سے
شرمندگی واضح تھی۔
شرمندگی ہوتی بھی کیوں نہ اُس بھاٸ کی بہن سامنے کھڑی تھی جس کو موت کے منہ میں دھکیلنے والا اُسکا اپنا شوہر تھا۔
”صوفیہ !خیریت ہے اِس وقت یہاں؟“نوراں نے پوچھا۔
”مجھے آپ لوگوں سے بات کرنی ہے ۔“صوفیہ نے کہا۔
”آٶ اندر چل کر بات کرتیں ہیں۔“ نوراں نے ہاتھ کے اشارے سے اندر جانے کے لیے کہا۔
”صوفی مجھے نہیں پتا تم یہاں اپنے بھاٸ کے قاتلوں کے گھر میں کیوں آٸ ہوتمہارا مقصد کیا ۔لیکن یہ لوگ کہی تمہیں بھی کوٸ نقصان نہ پہنچا دیں ۔اگر کل پنچاٸت میں انہوں نے تمہارے یہاں آنے کا بتادیا تو جانتی ہو کیا ہو گا۔“اسفی نے دھیمی آواز میں صوفیہ کے کان میں سرگوشی کی۔
”میں اِن لوگوں کو جانتی ہوں وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں اِس لیے پلیز تم اپنا منہ بند رکھو۔“صوفی نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
******
”بس کچھ وقت باقی ہے تم لوگوں کی تباہی میں مجھے آنکھیں دیکھانے چلے تھے۔مجھے برباد کرنے چلے تھے اور اب دیکھو خود تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔اور مجھ پر قسمت کتنی مہربان ہے۔مجھے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی سب کچھ خود با خود میرے حق میں ہوتا چلا جا رہا ہے ۔“ ایک بند کمرے میں نفرت سے بھری یہ آواز گونجی تھی۔
*******
ایک چھوٹے سے کمرے میں صوفیہ ،اسفی اور نوراں کے گھر والے بیٹھے تھے ہر طرف خاموشی تھی۔بشیر اور رجو کسی مجرم کی طرح نگاہیں جھکاٸیں بیٹھے تھے۔
اِس خاموشی کو صوفیہ کی آواز نے توڑا۔
”آپ سب جانتے ہیں کل کیا ہوگا۔بشیر چچا کو مصطفیٰ لالا کے قتل کےجرم میں سزا سُناٸ جاۓ گی ۔“صوفیہ نے کہا اور خاموش ہو گٸ ۔
لیکن صوفیہ کی بات کے بعد بھی جب کوٸ نہ بولا تو صوفیہ نے دوبارہ بولنا شروع کیا۔
”دیکھیں چچا میں نہیں جانتی یہ سب کیا ہوا ؟کیسے ہوا ؟کیوں ہوا ؟“
”اور نہ ہی میں یہاں یہ سب جاننے آٸ ہوں۔میں اتنی ہمت کر کے آپکو یہ کہنے آٸ ہوں کہ ہمارا جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چُکا ہے اب چاہ کے بھی وہ نقصان کوٸ پورا نہیں کر سکتا۔“کہنے کے ساتھ ہی صوفیہ کی آنکھ سے آنسو رواں ہوۓتھے لیکن اُس نے اپنی بات جاری رکھی۔” جن سے پیار ہو جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی سے چلیں جاۓ تو صبر آ ہی جاتا ہے لیکن اُس صبر سے پہلے کی اذیت بہت تکليف دہ ہوتی ہے۔انسان پل پل مرتا ہے۔اِس لیے میں نہیں چاہتی جو اذیت ہم نے جھیلی ہے وہ آپ بھی جھیلیں کل اگر آپکو کچھ ہو گیا چچا! تو زرا سوچیں نوراں اور رجو خالہ کا کیا ہو گا۔اِنکا سہارا کون بنے گا۔میرے پاس تو پھر بہت لوگ ہیں لیکن اِن کے پاس صرف آپ ہیں ۔“ صوفیہ کہہ کر خاموش ہو گٸ۔
”آپ کہنا کیا چاہتیں ہیں؟“ بشیر نے بغور صوفیہ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
”دیکھیں چچا ابھی دن کا اُجالا ہونے میں وقت ہے میں چاہتی ہوں آپ نوراں اور رجو خالہ کولے کر یہاں سے چلیں جاۓ ۔“صوفیہ نے وہ بات کی جس کے لیے وہ یہاں آٸ تھی ۔اِس کی اس بات پر سب نے حیرانگی سے صوفیہ کو دیکھا۔
”کیا چیز ہے یہ لڑکی۔اپنے بھاٸ کے قاتلوں کو بھاگا رہی ہے ۔“ اسفی نے دل میں سوچا کیونکہ وہ سب کی موجودگی میں صوفیہ کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔
”بھاگنا مسلے کا حل نہیں ہے بیٹی۔“بشیر چچا نے کہا۔
”تو کیا حل ہے مسلے کا چچا!میرے بھاٸ آپکے خون کے پیاسے ہوۓ ہوۓ ہیں ۔“صوفیہ نے کہا۔
”میں مجبور ہوں بیٹی میں نے یہ گناہ کیا ہے تو اِس کی سزا مجھےبھگتنی ہی ہے۔“ بشیر چچا نے بھاری آواز میں کہا۔
”بلکل صحیح کہا اِنہوں نے اگر آج اپنے کیۓ کی سزا بھگت لیں گے تو روزِمحشر حساب دینے میں آسانی ہو گی۔اور ویسے بھی منشی چچا اُس وقت اِن کے ساتھ تھے اور انہوں نے خود کہا ہے کہ بشیر چچا نے ہی مصطفیٰ لالا پر گولی چلاٸ ہے۔“اسفی نے کہا۔
”اسفی ۔“صوفیہ نے اُسے روکنے کی کوشش کی مگر بے سود۔
”صحیح کہہ رہے ہو بیٹا اگر اِس دنیا میں سزا پالوں گا تواگلے جہان میں شاید کوٸ آسانی آ جاۓ۔“ بشیر نے اُٹھتے ہوۓ کہا اور اسفی کا کندھا تھپتپاتا کمرے سے باہر نکل گیا ۔
”دل پہ پڑا بوجھ وہ کسی سے کہہ نہیں سکتا تھا۔۔۔۔ساری کہانی کے پیچھے ایک ایسی کہانی تھی جو وہ چاہ کر بھی کسی کو بتا نہیں پا رہا تھا۔کچھ ایسا تھا جو فقط وہ جانتا تھا۔لیکن مجبور تھا اپنے سے جوڑے لوگوں کی خاطر اِس زبان پر قفل لگاۓ رکھنا ضروری تھا۔“
*******
”کم آن ولی پِک اپ دا فون ۔“ فضہ کوٸ دس مرتبہ ولی کو فون کر چکی تھی لیکن کوٸ جواب نہیں موصول ہو رہا تھا۔لیکن اب کی بار ولی کی آنکھ کھُل گٸ۔اور اُس نے حیرت سے فون دیکھا فضہ کالنگ لکھا آ رہا تھا۔
”اتنی صبح فضہ کا فون۔خیریت ہو۔“ولی نے جلدی سے فون اٹینڈ کیا۔مگر اِس سے پہلے ولی بولتا فضہ نے بولنا شروع کر دیا۔
”واہ ولی صاحب واہ آپ گاٶں کیا گۓ۔ اتنا مصروف ہو گۓ ہیں کہ مجھے فون کرنا ہی یاد نہیں۔کہی کوٸ اور پسند تو نہیں آ گٸ بھاٸ کی شادی پر۔“فضہ جلے بھنے انداز میں کہہ کر خاموش ہو گٸ۔
” ہو گیا تمہارا یا ابھی کچھ اور بھی باقی ہے؟“ولی نے تنظیہ لہجے میں کہا۔
”ہےتو بہت کچھ ولی خان لیکن ابھی نہیں بتاٶ گی جب آپ فری ہوں تو مجھے بتاٸیے گا پھر بات کریں گے ۔“فضہ نے بھی اُسی لہجے میں جواب دیا۔
”تو اتنی صبح تم نے مجھے یہ کہنے کے لیے فون کیا ہے ۔“ولی نے بیڈ کراٶن سے ٹیک لگاتے ہوۓ کہا۔
”ولی مجھے ڈر لگ رہا ہے تم سے۔تم مجھے بھولنے لگے ہو۔تم مجھے پہلے جیسی اہمیت نہیں دیتے ۔“فضہ نے روہنسی ہوتے ہوۓ کہا۔
”ایسی بات نہیں ہے فضہ مجھے تم کیسے بھول سکتی ہو۔بس یہاں کچھ ایسا ہوا ہے جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔“ولی نے نم لہجے سے کہا۔
”کیا ہوا ہے ولی ؟“ فضہ نے تشویش سے پوچھا۔
”فضہ ! مصطفیٰ لالا کا مہندی کی رات قتل ہو گیا تھا۔“ولی نے بتایا۔
”کیا؟قتل کیسے ؟ “فضہ نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔
”بس لالا نے کچھ آستین کے سانپ پال رکھے تھے ۔انہوں نے موقع کا فاٸدہ اُٹھایا اور ہماری دنیا اُجاڑ دی۔“ ولی کے لہجے میں نفرت کا عنصر نمایا تھا۔
”سو سوری ولی اللّٰہ پاک تمہیں اور گھر والوں کوصبر دے ۔“فضہ نے کہا۔
”آمین ۔“ ولی نے کہا۔
”تو کیا قاتل پکڑے گۓ؟اور تمہارا واپسی کا کیا ارادہ ہے؟“فضہ نے پوچھا ۔
”ہاں قاتل پکڑے گۓ ہیں کل پنچایت اُسے سزا سُناۓ گی۔پھر اُسکے بعد واپس آنے کا سوچوں گا کیون کہ میں ابھی بابا سرکارکو بھی ایسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔“ ولی نے وضاحت دی۔
”تم انہیں نہیں چھوڑ سکتے لیکن مجھے ضرور چھوڑ سکتے ہو ۔“فضہ نے کہا۔۔
”کوشش کروں گا جلد آنے کی۔ابھی چلتا ہوں نماز کا ٹاٸم ہو چُکا ہے۔“ولی کہا۔
اور فضہ نے بغیر کچھ کہے ہی فون کاٹ دیا۔”تم اچھا نہیں کر رہے ولی خان تم دوسروں کو مجھ پر فوقیت دے رہےہو۔“ فضہ نے فون رکھنے کے بعد سوچا۔
******
”صوفیہ بیٹا تم ہماری قسمت کا فیصلہ اللّٰہ پر چھوڑ دو اور بے فکر ہو کر گھر جاٶ۔“رجو نے صوفیہ کی پیشانی چومی اور بشیر کے پیچھے باہر چلی۔
”تم کچھ کیوں نہیں بولتی؟“ صوفیہ نے نوراں کو مخاطب کیا جو اِس سب میں بلکل خاموش تھی ۔
” میں کیا بولوں۔میرے پاس بولنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔“نوراں نے کہا ۔
اسفی کو اپنا آپ وہاں غیر ضروری محسوس ہوا تو اُٹھ کر باہر آ گیا تاکہ صوفیہ نوراں سے کھُل کر بات کر سکے۔
”تم اپنے لیے نہ سہی لیکن کیا اپنے باپ کے لیے بھی کچھ نہیں کرو گی نہیں سمجھاٶ گی انہیں کہ یہاں رہنا اب خطرے سے خالی نہیں ہے۔“صوفیہ کو نوراں کی بے پرواہی کھٹک رہی تھی۔
”کیا کروں بتاٶ مجھے۔ میں اپنے باپ سے کہوں یہاں سے بھاگ جاۓ اور پھر ساری زندگی بھاگتے ہی رہیں۔“ نوراں نے کہا۔
”تو کیا کرو گی۔ باپ کو مرتا دیکھ سکو گی اتنی ہمت ہے تم میں ۔“ صوفیہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ نوراں اتنی پُرسکون کیسے ہے ۔
” میں اپنے ابّا پر آنچ بھی نہیں آنے دوں گی ۔مجھے نہیں پتا کہ آپ لوگ میرے ابّا کو کتنا جانتے ہیں لیکن میں اپنے ابّا کو جانتی ہوں کہ وہ قتل جیسا گناہ کبھی نہیں کر سکتے وہ بھی اُس شخص کا قتل جس پر وہ جان چھیڑکتے تھے۔“نوراں نے کہا ۔
”وہ تمہارے ابّا ہیں نوراں تمہیں کبھی غلط نہیں لگیں گے لیکن باقی سب لوگ انہیں قاتل ہی سمجھیں گے کیونکہ وہ خود اِس بات کا اعتراف کر چُکے ہیں کہ مصطفیٰ لالا کو قتل اُنہوں نے کیا ہے۔“صوفیہ نے کہا۔
” ایک یہی سِرا تو ہاتھ آ رہا کہ آخر ابّانے یہ سب کچھ کیوں کیا آخر اسکے پیچھے کی وجہ کیا ہے ؟“نوراں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوۓ کہا۔
” چلومان لیا کہ چچا نے قتل نہیں کیا۔ تو کل پنچایت میں تم یہ بات کیسے ثابت کرو گی ؟“ صوفیہ نے پوچھا۔
”میرا باپ قاتل نہیں ہے اور میرے پاس یہ ثابت کرنے کےلیے بھی کچھ نہیں ہے۔یہاں تک کہ میرے باپ کا بیان بھی نہیں ۔“نوراں نے کہا۔
”تو کیسے بچاٶ گی کل اپنے باپ کو دیت (خون بہا کے بدلے دی جانے والی رقم)
ادا کرکے۔“صوفیہ نے کہا۔لیکن نوراں کو اُسکا لہجہ تنظیہ لگا جیسے کہنا چاہ رہی ہو اتنی اوقات ہے۔
نوراں کے کچھ نہ بولنے پر صوفیہ خود آگے بڑھی اور نوراں کے پاس بیٹھ گٸ ۔
”دیکھو نوراں مجھے غلط مت سمجھو ہو سکتا ہے میں کہیں تلخ ہوگٸ ہوں لیکن میری نیت میں کھوٹ نہیں ہے میں نہیں چاہتی جس طرح میں تڑپی ہوں کوٸ اور تڑپے۔ تمہیں یاد ہے ایک دن میں نے تم سے پوچھا تھا کہ تمہارا کبھی علی پور سے باہر جانے کا دل نہیں کرتا تو تم نے کہا تھا نہیں تمہیں یہ علی پور بہت عزیز ہے کیونکہ یہاں صاف دل کے لوگ بستے ہیں یہاں لوگوں کے دل شیشے کی طرح صاف ہیں یہاں کے لوگ منافق نہیں ہیں تو نوراں تمہیں آج ایک حقیقت بتاٶ یہاں کے لوگ بھی منافق ہیں یہاں بھی ویسے ہی لوگ پاۓ جاتے ہیں جیسے باقی دنیا میں یہاں لوگوں کے دلوں میں بھی میل ہے ۔یہاں کے لوگ بھی منہ موڑنے میں دیر نہیں لگاتے اور سب سے دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا علی پور آج بھی کچھ ایسی روایات کا پابند ہے جو ہمارے قانون کے خلاف ہیں ۔مصطفیٰ لالا اور راشدنے تقریباً اِس پنچایت کو ختم کرنے کا انتظام کر لیاتھا ہر طرح کی کارواٸ ہو چُکی تھی پولیس چوکی بھی تیار تھی بس کچھ مہینوں کا فاصلہ رہ گیا تھا منزل تک پہنچنے میں لیکن اللّٰہ کوکچھ اور ہی منظور تھا۔کل یہ پنچایت جانتی ہو کیا کرےگی ۔“
صوفیہ نے اپنی بات کہنے کے بعد نوراں سے پوچھا۔
”جانتی ہوں ۔خون بہا یا ونی مانگے گی ۔“ نوراں نے کہا۔
”تو تم اتنے سکون سے کیسے ہو نوراں؟“صوفیہ نے آخر دل کی بات کہہ ہی دی ۔
”میں سکون سے اِس لیے ہوں کیونکہ میں اپنے آپ کو تیار کر چُکی ہوں۔“نوراں نے ازلی سکون سے کہا۔
” مطلب !تم کس چیز کے لیے تیار کرچُکی ہو خود کو ۔“ صوفیہ نے تاسف سے پوچھا ۔
”میں خود کو اپنے باپ پر قربان کرنے کے لیے تیار کر چُکی ہوں۔“نوراں نے کہا۔
”نوراں! تم پاگل ہو گٸ ہو تم جانتی ہو کیا کہہ رہی ہو۔تم خود کو ونی کے لیے پیش کر رہی ہو۔“ صوفیہ نے پریشانی سے پوچھا۔
”میرے پاس اور کوٸ راستہ نہیں ہے ۔“نوراں نے کہا۔
”نوراں تم جانتی ہو تمہارا یہ قدم تمہاری قسمت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شاہزیب لالا کے ساتھ جوڑ دے گا۔“ صوفیہ اب تک حیران تھی آخر نوراں ایسا فیصلہ کیوں کر رہی ہے ۔
” قسمت کسی کے ساتھ تو جوڑنی ہی ہےتو ہو سکتا ہے وہ شاہزیب خان ہی ہو اور ویسےبھی میں علی پور کی عام سی لڑکی ہوں میرے لیے کون سا کوٸ شہزادہ آنا ہے جس کا انتظارکروں۔ناشکری نہیں کر رہی لیکن اماں کہتی ہیں انسان کو اپنی اوقات میں رہ کر خواب دیکھنے چاہیے ۔“ آخری بات نوراں نے مسکرا کر کہی تھی۔
”مایوس ہو قسمت سے ۔“ صوفیہ نے کہا۔
” مایوس نہیں ہوں بس خود کو خدا کے آسرے چھوڑ دیا ہے ۔“ نوراں نے کہا۔
”صوفیہ چلو کافی دیر ہو گٸ ہے حویلی سے نکلے۔“ اسفی نے اندر آ کر کہا۔
”ہاں بس نماز پڑھ لوں نوراں کے ساتھ پھر چلتے ہیں ۔“ صوفیہ نے اسفی سے کہا ۔
******
”سلام بابا سرکار ۔“ولی نے اپنے کمرے سے باہر لان کی طرف جاتے ہوۓ اپنے بابا جان کو سلام کیا۔جو شاید ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوۓ تھے۔
“ولی تمہیں پتا ہے شاہزیب خان کہاں ہے ۔“ باباسرکار نے ولی سے پوچھا۔
”نہیں بابا سرکار ! لیکن سعید بتا رہا تھا کہ شاہزیب لالا پوری رات گھر نہیں آۓ ۔“ولی نے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے تم جاٶ ۔“ بابا سرکار نے اجازت دی ۔
”نہ جانے یہ لڑکا ہم سے کیا چاہتا ہے؟“جلال خان نے پریشانی سے کہا۔
******
”نوراں ابھی بھی وقت ہے سوچ لو۔خود کی زندگی کو جہنم مت بناٶ ۔“صوفیہ نے چادر کو اچھے سے اپنے گرد لپٹتے ہوۓ کہا ۔
” تم نے دوستی کا حق ادا کیاہے صوفیہ لیکن یہ قسمت کے فیصلے ہیں ہمارا اِس میں کوٸ عمل دخل نہیں ہے باقی جیسا وہ رب چاہے گا ویسا ہو گا۔“ نوراں نےصوفیہ کے گلے لگتے ہوۓ کہا۔
”اب حویلی کیسے جاۓگے صبح ہو گٸ ماموں جان بھی اُٹھ گۓہونگے۔“اسفی نے دن کی روشنی کو دیکھتے ہوۓ کہاں۔
”آپ لوگ حویلی کے داخلی دروازے سے مت جاۓ گا اگر کسی کو پتا چلا تو بہت بُرا ہو گا۔آپ لوگ یوں کریں پیچھلے دروازے سے چلیں جاۓ وہاں سے آپ لوگ آسانی سے اندر داخل ہو جاۓ گے۔“ نوراں نے ترکیب بتاٸ۔
”کہہ تو تم صحیح رہی ہو لیکن حویلی کے پیچھے جانے والا راستہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے ۔“ صوفیہ نے پریشانی ظاہر کرتے ہوۓ کہا۔
”کوٸ مسلہ نہیں ہے میں آپ لوگوں کو وہاں تک لے جاتیں ہوں۔“ نوراں نے کہا ۔
” لیکن تم کیسے۔مطلب تمہیں اگر کسی نے ہمارے ساتھ دیکھ لیا تو۔“ اسفی نے خدشہ ظاہر کیا۔
”کچھ نہیں ہو گا اسفند خان صاحب آپ بے فکر ہو کر میرے پیچھے آۓ ۔“ نوراں نے کہا اور صوفیہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی جانب بڑ ھ گٸ۔
*******
”سلام! پھو پھی جان ۔“زوبیا نے بی بی جان کے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔
”وسلام !آ جاٶ زوبی۔“ بی بی جان نے کہا۔
”پھو پھی جان مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔“زوبیا نے بی بی جان کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا۔
”خیریت ہے۔“
”ارے آپ پریشان مت ہوں سب خیریت ہے میں تو صرف یہ کہنے آٸ تھی کہ مجھے اب واپس گھر جانا چاہیں بابا بہت اکیلے ہو گۓ ہوں گے۔“ زوبیا نے بی بی جان کو پریشان دیکھ کر کہا۔
”زوبیا کچھ دن اور رُک جاٶ میرے پاس خاص کر تب تک جب تک پنچایت کا فیصلہ نہیں آ جاتا ۔“بی بی نے التجاٸ انداز میں کہا۔
” پھوپھی جان آپ فکر مت کریں ان شاء اللہ مصطفیٰ کے قاتل ضرور اپنے انجام تک پہنچ جاۓ گے ۔“ زوبیا نے بی بی جان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔
”پتا نہیں زوبیا جس کو ہم قاتل سمجھ رہے ہیں وہ قاتل ہے بھی یا نہیں۔“
”کیا مطلب!میں کچھ سمجھی نہیں۔“زوبیا کہا۔
”دیکھو زوبیا جب سے میں بیاہ کہ اِس حویلی میں آٸ ہوں بشیر تب سے ہمارے ہاں کام کرتا ہے۔اور مصطفیٰ کو اُس نے اپنے بچوں کی طرح پالا ہے تمہارے پھوپھا جان پر جان چھڑکتا تھا وہ۔مصطفیٰ کی ایک آواز پر اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر دوڑا چلا آتا تھا۔لیکن اب اچانک سے یہ سب مجھے تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا ۔“ بی بی جان نے کہا۔
”پھوپھی جان اِس دنیا میں اپنے اپنوں کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں یہ تو پھر غیر تھے نہ جانے کس بات کی دشمنی نکالی ہے ۔“ زوبیا نے افسوس سے کہا۔
*******
”نوراں اب تم جاٶ آگے ہم خود چلیے جاٸیں گے۔“صوفیہ نے حویلی سے کچھ قدموں کے فاصلے پر رُک کر کہا۔
”ٹھیک ہے احتیاط سے جاٸیں گا۔“نوراں نے کہا اور وہی رُک گٸ جبکہ صوفیہ اور اسفی آگے بڑ گۓ ۔
”تمہیں نہیں لگتا صوفی کہ تم نے وہاں جا کر غلطی کی ہے تمہیں وہاں اپنے بھاٸ کے قاتلوں کی مدد کرنے نہیں جانا چاہیے تھا۔“اسفی نے صوفی کے ساتھ چلتے ہوۓ پوچھا۔
”نہیں مجھے اپنے کیۓ پر کوٸ شرمندگی نہیں ہے بلکہ میرا دل تو اب بھی نوراں کے لیے پریشان ہے ۔“صوفیہ نے کہا۔
”کیوں اب کیوں پریشان ہے ؟“اسفی نے پوچھا۔
”اگر پنچایت نے نوراں کو ونی کی بھیڈ چڑہا دیا تو اُسکی زندگی عذاب بن جاۓ گی۔“ صوفیہ نے کہا۔
”تو اپنے گناہ کی سزا پاۓ گےوہ۔باپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے گی ۔“کہتے ہوۓ اسفی کا لہجہ تلخ ہوا تھا۔
” اسفند خان نوراں بے گناہ ہے۔اور جس بات کی حقیقت سے آپ آشنا نہ ہوں اُس پر خاموش ہی رہنا چاہےتاکہ آپکے الفاظ سے دوسروں کو اذیت نہ ہو۔“ صوفیہ نے اسفی کی جانب رُخ کر کے کہا اور کہنے ساتھ ہی صوفیہ کی آنکھیں ضبط کی شدت سے لال ہو گٸ تھی ۔اُسکے بعد وہ وہاں رُکی نہیں بلکہ قدموں کی رفتار تیز کر دی اور اسفی کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ حویلی کے اندر داخل ہوگٸ تھی۔
*******
سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ روِزمین پر پھیل نے لگی تھی۔نوراں بھی ذہن میں ہزاروں خدشات لیے اپنے گھر کی جانب چل رہی تھی ۔کہ اچانک سے ایک گاڑی سامنے آ رُکی نوراں نے حیرت سے گاڑی کو دیکھا۔اور ساٸیڈ پر ہو کر گزرنے لگی تھی کہ گاڑی کا دروازہ کُھلا اور شاہزیب خان اپنی ازلی وجاہت اور شان کے ساتھ گاڑی سے نیچے اُتر کر نوراں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
”شاہزیب خان تم نے قسم کھا رکھی ہے کیا میرے راستے میں آنے کی اور ذلیل ہونے کی۔“نوراں نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ کہا۔
”یہ تو تم بتاٶ نوراں کون کس کے راستے میں آ رہا ہے۔“شاہزیب خان نے سکون سے کہا۔
نوراں نے شاہزیب خان کی بات کو اگنور کیا اور آگے بڑھ گی تب شاہزیب خان نے نوراں کا بازوں پکڑ کر اُسے اپنے آگے کیا۔
” ہاتھ چھوڑو میرا۔“ نوراں نے غصے سے کہا۔
” یہ ہاتھ تو آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ہاتھ میں آنے والا ہے ۔“ شاہزیب خان نے کہا ۔
”ہاتھ چھوڑو میرا شاہزیب خان اور میری قسمت کا فیصلہ تم نہیں کرسکتے۔“ نوراں نے اپنا ہاتھ چھُڑواتے ہوۓ کہالیکن شاہزیب خان کی گرفت مضبوط تھی سو ناکام رہی۔
” یہ فیصلہ میں نہیں آج تم خود کرو گی نوراں بی بی۔اور تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا یا تم مجھے جانتی نہیں ہوکہ میں تمہارے ساتھ کیا کر سکتا ہوں۔“شاہزیب نے ایک ایک حرف چبا کر کہا۔
”یہ تو وقت بتاۓ گا اور ہاں تم جیسوں سے وہ ڈرتے ہیں جن کو اللّٰہ پر یقین نہ ہو اور مجھے میرے رب پر پورا یقین ہے کہ وہ مجھے تم جیسے بھیڑیے سے محفوظ رکھے گا۔“ نوراں نے بھی شاہزیب خان نےانداز میں کہا۔
”تم اپنے ایک ایک لفظ کو خمیازہ بھُگتوں کی ۔“ شاہزیب نے کہا اور ایک جھٹکے سے نوراں کا ہاتھ چھوڑا اور گاڑی کی میں جا بیٹھا۔اور زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔
نوراں نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جس پر شاہزیب خان کی انگلیوں نشان چھپ چُکے تھے۔
”آہ نوراں آہ کیسے بچاۓ گی ِاس شخص سے خود کو کیسے؟“ نوراں نے خود سے سوال کیا۔اور آسمان ک طرف دیکھ کر مسکرا دی۔
” جس فیصلے پرتو راضی اُس فیصلے پر میں بھی راضی یا رب۔“ نوراں نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا۔
******
”یا اللہ مجھے ہمت دے ،یا اللہ مجھے اتنی طاقت دے کہ میں یہ سب سہہ سکوں ،اِس حقیقت کا بوجھ میرا دل نہیں اُٹھا سکتا مگر میں مجبور ہوں کسی سے نہیں کہہ سکتی نہ بابا سرکار سے نہ ہی بی بی جان سے میں اُنکو مزید تکلیف نہیں دے سکتی یارب، مجھے ہمت دے میرے مولا۔“ صوفیہ اپنے کمرے میں زمین پر گھٹنوں میں سر دیے اپنے رب سے ہم کلام تھی کہ اچانک کچھ یاد آنے پر اُٹھی اور اپنے بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل سے مصطفیٰ خان کی تصویر اُٹھاٸ ۔”لالا مجھے معاف کر دیں میں اُس بے گناہ کونہیں بچا سکی میں نوراں کو پنچایت کے فیصلے سے نہیں بچا سکی ۔لالا میں نے بہت کوشش کی لیکن نہیں کچھ نہیں کر سکی ۔“صوفیہ نے مصطفیٰ کی تصویر کو گلے لگا کر کہا اور وہی بیڈ کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گٸ کہ زوبیا نےکمرےمیں آ کر صوفیہ کو آواز دی۔”صوفیہ۔“
”یہاں ہوں میں ۔“صوفیہ نے جواب دیا۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو اوریہ کیا حال بنایا ہوا ہے۔“ زوبیا نےصوفیہ کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا۔
”زوبیا مصطفیٰ بھاٸ مجھ سے بہت ناراض ہیں۔“ صوفیہ نے زوبیا کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا۔
”ارے کیسی بات کر رہی ہو۔مصطفٰی تم سے کبھی ناراض نہیں ہو سکتے۔“ زوبیا نے صوفیہ کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا۔
”نہیں زوبیا! وہ ناراض ہیں مجھ سے میں وہ نہیں کر پا رہی جو وہ چاہتے تھے۔“ صوفیہ نے کہا۔
” کیا نہیں کر پا رہی تم ؟“ زوبیا نے پوچھا۔
”میں نوراں کو ونی کی بھیڈ چڑھنے سے نہیں بچا پا رہی ،وہ بے گناہ ہے زوبیا ۔“ صوفیہ نے روتے ہوۓ کہا۔
”یہ ونی کہاں سے آ گٸ ۔“ زوبیا نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا۔
”زوبیا تم نہیں جانتی یہاں ایسا ہی ہوتا ہے یا تو بشیر چچا کو قتل کر دیا جاۓ گا یا نوراں کو ونی کیا جاۓ گا۔اور نوراں اپنے باپ کو بچانے کے لیے خود کو ونی کے لیے پیش کر دے گی ۔“ صوفیہ نے کہا۔
” تو صوفی تم کیوں ہلکان ہو رہی ہو۔ اُنکو اُنکے کیے کی سزا ملے گی اگر بیٹی باپ کی زندگی کے لیے خود کو مصیبت میں ڈالتی ہے تو وہ اُنکا مسلہ ہے اِس میں تمہارا کوٸ قصور نہیں ہے ۔“زوبیا نے کہا۔
”آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں ہیں کے وہ بے قصور ہے ۔“ صوفیہ نے کہا اور بے ہوش ہوگٸ ۔
”یا اللہ رحم کر۔صوفیہ اُٹھو میری جان ۔“ زوبیا نے صوفیہ کے چہرہ کو تھپتپاتے ہوۓ کہا۔
*******
وقت آ گیا تھا۔ فیصلے کا انتقام کا۔
گاٶں کے تمام معززین اکھٹےہو چُکے تھے آج علی پور کی پنچایت پھر کسی کی تقدیر بدلنے چلی تھی ۔ آج پھر سے کوٸ اِس پنچایت کے آگے اپنا سب کچھ ہارنے جا رہا تھا۔آج بہت سے لوگوں کی دنیا بدلنے والی تھی ۔علی پور کا سرپنچ اپنی جلالت کے ساتھ سربراہی کرسی پر براجمان تھا۔اُس کے اردگرد گاٶں کے دوسرے سربراہان موجود تھے اور اُنکے سامنے ایک جانب علی پور کے ہر دل عزیز سردار جلال خان اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ موجود تھے چہرے پر مکمل اطمینان تھا جیسے وہ واقف ہو کہ آج کیا ہونے والا ہے جبکہ ولی خان اور شاہزیب خان کی آنکھوں میں سامنے بیٹھےلوگوں کے لیے نفرت ہی نفرت تھی ۔
اُنکے سامنے بیٹھے بشیر احمد کے چہرے پر بھی سکون تھا شاید وہ بھی جانتا تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے ۔اُسکے ساتھ بیٹھی نوراں بھی پر سکون تھی۔لیکن اُس نے اِن مشکل حالات میں یہ بات جان لی تھی کہ
”ہمیں مشکل حالات کا مقابلہ اکیلے کرنا ہو تا ہے کوٸ آپکے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا ۔“
راشد اور اُسکے گھر والے کہاں تھے نوراں اُن پر جان دیتی تھی لیکن اِس وقت اُن میں سے کوٸ بھی نوراں اور اُسکے باپ کے پاس نہیں تھا ۔۔۔ساتھ تو کیا چند تسلی کے بول بھی کسی نے نہیں بولےسارا گاٶں جو نوراں کے گُن گاتا تھا آج اُسے قاتل کی بیٹی کہہ کر پکار رہاتھا۔
” اگر آپکے ساتھ آپ کے اپنے کھڑیں رہے نا چاہیں وہ آپکے لیےکچھ بھی نہ کر پاۓ۔ لیکن اُنکے ساتھ سے جو ہمت ملتی ہے اُس سے حالات کا سامنا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔“
نوراں کو بھی اِس وقت اگر کچھ محسوس ہو رہا تھا تو وہ اپنوں کی کمی تھی۔اور کچھ نہیں ۔
حدودِ زندگی میں جب کوٸ مشکل کام آیا
نہ غیروں نے توجہ دی نہ اپنا کوٸ کام آیا
اگر کوٸ پریشان تھا وہ رضیہ بیگم تھی نوراں کی ماں جس کی آنکھیں خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھی۔
”علی پور کے معزز لوگوں جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں آج کی پنچایت کیوں بُلاٸ گٸ ہے۔“
”لیکن میں پھر بھی آپ سب کی آسانی کے لیے وضاحت کر دوں کہ آج سے کچھ روز پہلے ہمارے دوست جلال خان نے اپنا فرزند کھویا ہے جس کا نام مصطفیٰ جلال خان ہے اُسکی خوش اخلاقی سے پورا گاٶں واقف ہے اُسکا بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور اُسکے قتل کا الزام اُنکے بہت پُرانے ملازم بشیر احمد پر لگا ہے ۔کیا میں نے درست کہا ؟“ سرپنچ نے کہہ کر جلال خان سے تصدیق چاہی ۔جس پر جلال خان نے فقط ہاں میں گردن ہلاٸ۔
” تو بشیر کیا تم اپنی صفاٸ میں کچھ کہنا چاہتے ہو۔“سرپنچ نے بشیر کو صفاٸ کا موقع دیا۔جس پر بشیر نے مکمل خاموشی اختیار کی۔
”تو منشی صاحب آپ قتل کے وقت وہاں موجود تھے کیا آپ نے بشیر کو مصطفیٰ خان پر گولی چلاتے ہوۓ دیکھا۔“ سرپنچ نے منشی سے پوچھا۔
منشی نے پہلے ولی خان اور شاہزیب خان کی طرف دیکھا۔اور پھر ہاں میں گردن ہلا دی۔
”آخر ایسی کیا بات ہوٸ تھی دونوں میں کہ بشیر نے اُس پر گولی ہی چلادی۔“ سرپنچ نے ایک اور سوال منشی سے کیا۔
” جناب مجھے زیادہ تو نہیں پتا لیکن شاید مصطفیٰ خان اور بشیر کے بیچ میں بحث کا موضوع بشیر احمد کی بیٹی نوراں تھی۔“ منشی نے ہچکیچاتے ہوۓ کہا۔جس پر بشیر کے ساتھ ساتھ جلال خان نے بھی حیرت سے منشی کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہے۔
” بشیر کیا تم کچھ کہنا چاہو گے۔“سرپنچ نے ایک بار پھر بشیر سے کہا۔
بشیر نے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا اور کہا۔
”مجھے اپنی صفاٸ میں کچھ نہیں کہنا ۔“
”تو جلال خان آپ کیا چاہتے ہیں۔“ سرپنچ نے پوچھا۔
”میں اپنے گاٶں میں مزید خون خرابہ نہیں چاہتا۔مجھے صرف بشیر سے اُسکی بیٹی چاہیے اپنے بیٹے کے لیے۔“جلال خان نے کہا۔لیکن جلال خان کے یہ الفاظ بشیر احمد اور رضیہ کے دل میں کسی تیر کی طرح لگے تھے۔ اور جہاں ولی خان اپنے باپ کے الفاظ سے حیران تھا وہی شاہزیب خان کے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ آٸ تھی۔
”خدا کا واسطہ ہے خان صاحب میری بیٹی کو اِس سب سے دور رکھے ۔چاہےتو ہمارا گھر بار سب کچھ لے لیں۔ “ رضیہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
”یہ سب تو تمہارے شوہر کو پہلے سوچنا چاہیۓ تھا۔“شاہزیب نے کہا ۔
”آپ ونی کا تقاضہ کر رہے ہیں جلال خان ۔“سرپنچ نے کہا۔
”آپ جو مرضی سمجھ لیں۔“جلال خان نے کہا۔
نوراں جو کب سے خاموش بیٹھی تھی اُس نے سرپنچ کو مخاطب کر کے کہا ۔
”میں نوراں ولد بشیر احمد جلال خان کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
بشیر احمد نے سر جھکا کر نوراں کی بات سُنی تھی لیکن وہ اپنی بیٹی کو یہ کرنے سے روک نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نوراں کا یہ فیصلہ اُس کی عزت محفوظ رکھے گا۔لیکن بشیر احمد یہ بھول گیاہےتھا کہ اُسے اِس عزت کو محفوظ رکھنے کے لیے کس قدر اذیت جھیلنی ہو گی۔
”ٹھیک ہے تو نوراں ولد بشیر احمد کا نکاح ابھی اسی پنچایت میں شاہزیب ولد جلال خان سے پڑھوایا جاۓ گا۔“سرپنچ نے فیصلہ کیا۔جس پر شاہزیب خان نے تنظیہ مسکراہٹ کے ساتھ نوراں کو دیکھا تھا۔
”نہیں سرپنچ صاحب نوراں کا نکاح شاہزیب جلال خان سے نہیں بلکہ ولی جلال خان سے ہوگاخان سے ہو گا۔“جلال خان نے تحکم آمیز لہجے میں کہا۔
*******
جاری ہے ۔۔۔۔۔
Episode late ho gai es leay Mazrat ...acha acha kuch zyada he late the man lia .....par chaly dair saweer hoti rahti ha ...aainda dyhan rakho ge😊...ab jaldi si reviews day .....next episode ka time apky feedback decide kary gay ....😜
خوش رہیں اور خوشیاں بانٹے ۔۔۔
جزاك اللهُ۔۔۔۔۔۔
التماسِ دعا آپکی بہت پیاری
سیدہ فاطمہ نقوی******

YOU ARE READING
میں لڑکی عام سی(مکمل)
Fantasyکہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...