قسط:۱

240 14 2
                                    

ایک نیا باب شروع ہوا__!

مارچ کا مہینہ چل رہا تھا اور گرمی اپنے جوبن پھیلانے کو تیار۔وسیع آسمان پر صبح نے اپنا بسیرا جما لیا تھا۔بھینی بھینی ہوا پودوں میں سرسرائیت بھر رہی تھی جبکہ پھول ہوا کی وجہ سے لہرا رہے تھے اور ان کی مہکتی ہوئے خوشبو بہت بہتر معلوم ہورہی تھی۔
سورج نکلا اور آسمان پر اُس کی کرنیں پھیل گئیں اور آہستہ آہستہ زمین والے بھی اس کی کرنوں سے سیراب ہونے لگے۔
جہاں رات کے سائے نے سارے میں اندھیرا اور خاموشی مچا رکھی تھی اب وہاں سورج نے خاموشی و اندھیرے کو ڈھانپ لیا تھا۔رفتا رفتا لوگ رزق کمانے کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلنے لگے تھے اور ایک گہما گہمی زمین پر پھیلنے لگی تھی۔
اب جہاں سارے گھروں میں چراغ بھج کر سورج کی روشنی پڑنے لگی تھی وہیں "جمال الدین ولا" میں بھی صبح کے رنگ بکھر چکے تھے۔یہ ولا تقریباً بیس کینال کے رقبے پر محیط ہے جس میں ایک کافی بڑا لان بھی شامل ہے جس کے سامنے ایک بڑا سا پول بھی ہے اور خوبصورتی سے کی گئی سجاوٹ اپنی مثال آپ۔
جمال الدین صاحب کے تین سپوت ہیں جو کہ نہایت فرماں بردار ہیں۔
بیگم جمال الدین کا دس سال پہلے انتقال ہوچکا ہے جبکہ گھر کی حکمرانی جمال الدین کے ہاتھ میں ہے۔یہ بیگم جمال الدین کی تربیت ہی ہے جو یہ تینوں بھائی اور ان کے خاندان محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں۔
سب سے بڑے سپوت غضنفر جمال الدین ہیں جن کی اہلیہ مریم غضنفر ہیں اور اُن کے دو بیٹے ہیں۔ ذیشان شادی شدہ ہے اور اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یہاں ہی رہتا ہے۔اُس کی بیوی کا نام ملیحہ ہے اور ان کا ایک بیٹا اور بیٹی ہیں جو کہ چار اور تین سال کے ہیں۔جبکہ دوسرا بیٹا احان یونیورسٹی کے لاسٹ سیمسٹر میں ہے۔
منجھلے سپوت سکندر جمال الدین ہیں جن کی بیوی عائشہ ہیں اور ان کی تین اولادیں ہیں۔دو بیٹے اور ایک بیٹی۔سب سے بڑا زارون سکندر ہے جو کہ احان کے ساتھ یونیورسٹی کے لاسٹ سیمسٹر میں ہے۔منجھلی بیٹی آمائرہ جو کہ ابھی یونیورسٹی کے فرسٹ سیمسٹر میں ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا احمر کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
سب سے چھوٹے سپوت مصطفیٰ جمال الدین ہیں جن کی بیوی زینب ہیں اور ان کی دو اولادیں ہیں۔بڑی بیٹی مسیرا یونیورسٹی کے سیکنڈ سیمسٹر میں جبکہ چھوٹی بیٹی زارا میٹرک کر رہی ہے۔
بچے بڑے سب تیار ہوئے ڈائننگ حال میں ٹیبل کے گرد کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ٹیبل گھر کے مکینوں کے حساب سے تیار کرایا گیا تھا جس پر سب سکون سے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے۔ٹیبل پر مختلف اقسام کے کھانے رکھے گئے تھے اور کک باورچی میں اب چائے کافی تیار کر رہے تھے جبکہ باقی ملازم گھر کی صفائی ستھرائی،لان میں لگے پودوں کو پانی دینے،گیراج میں کھڑی گاڑیوں کو صاف کرنے لگے ہوئے تھے۔
جمال الدین سربراہی کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جبکہ بچے شرارتیں کرنے اور باتوں میں مگن۔جمال الدین ولا کی یہی تو شان تھی کے ہر وقت اس میں رونق لگی رہتی تھی۔
جمال الدین نے اخبار سائڈ پر رکھا،اپنے ناک پر گری عینک کو اپنی انگلی سے پیچھے کیا،اور اپنا گلا کھنکھارا جس پر سب خاموش ہوگئے۔اُن کی شخصیت قدرے رعب دار تھی۔لیکن کچھ معاملوں میں وہ نہایت خوش مزاج تھے۔اور اُن کچھ معاملوں میں بچوں کی شرارتیں موجود تھیں۔
"کھانا شروع کریں"انہوں نے کہا اور اُن کے دیکھا دیکھی سب ناشتہ اپنی پلیٹ میں نکالنے لگے۔
"دادا سائیں! ایک بات تو مجھے بتائیے گا؟یہ صبح صبح اتنی ہولناک خبریں آپ کیسے پڑھ لیتے ہیں؟اور پھر آپ کا دن کیسے گزر جاتا ہے؟"احمر نے سنجیدگی سے سوال کیا جس پر دادا سائیں مسکرا دیے۔
"اب دادا سائیں صبح صبح تمہاری بھی تو اتنی ہولناک شکل دیکھ لیتے ہیں تو بھی تو ان کا دن گزر ہی جاتا ہے"دادا سائیں سے پہلے ہی زارون نے ہنستے ہوئے کہا جس پر سب کے قہقے چھوٹ گئے۔
"بابا سائیں دیکھ رہے ہیں آپ بھائی کو؟بھلا کوئی ایسے بھی بات کرتا ہے اپنے چھوٹے بھائی سے؟"احمر نے روتی شکل بنا کر سکندر صاحب سے کہا وہ مسکرا رہے تھے۔
"ارے میرے کدو جیسے بھائی!"آمائرہ نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا جس پر احمر نے خفا نظروں سے اُس کی جانب دیکھا اور یقیناً وہ اپنے اسمارٹ سے جسم کو کدو کہنے کی وجہ سے اُسے گھور رہا تھا۔سب اپنی مسکراہٹ ضبط کیے بیٹھے تھے۔
"اچھا نا سوری میرے اُلّو!! اوہ۔۔میرا مطلب پیارے سے بھائی"آمائره شرارت کرنے سے بعض نہ آئی۔
"دادا سائیں!!"احمر نے مدد طلب نظروں سے جمال الدین صاحب کی جانب دیکھا جس پر انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
"خبردار جو اب کسی نے میرے بچے کو تنگ کیا"
"دادا سائیں! ہم تو اسے بس یہی سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ اسٹرونگ بنے اپنی جنگ خود لڑے"احان نے اپنے ہاتھ کا مکہ بنائے سنجیدگی سے کہا جس پر ایک بار پھر سے سب ہنس دیے اب کی بات دادا سائیں کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی جسے دیکھ کر احمر مزید تپ گیا۔
"میں نا ایسا کرتا ہوں چلا ہی جاتا ہوں"احمر کہے غصے سے اٹھنے لگا لیکن ناشتے کو دیکھ کر اُس کا بالکل بھی دل نہیں کیا جانے کا لیکن اب کہہ دیا تھا تو جانا تو پڑنا تھا نہیں اس پر بھی سب نے اس پر چڑھ دوڑنا تھا۔
وہ جانے لگا کے پیچھے سے ذیشان نے آواز دی جس پر وہ خوش ہوا کہ شاید وہ اسے جانے سے روک لے۔
"جی ذیشان بھائی!"
"بیٹا کیا میں تمہارے حصے کا ناشتہ کر سکتا ہوں؟"اُس نے سنجیدگی سے کہا جس پر وہ تن فن کرتا باہر نکل گیا۔جبکہ بچا پارٹی پیچھے ہنسنے لگ گئی۔
"ویسے بڑے ہی کوئی بتمیز ہو تم لوگ۔بچا بیچارہ ناشتہ کر رہا تھا وہ بھی صحیح سے کرنے نہیں دیا تم لوگوں نے"زینب مصطفیٰ نے اُن کو شرم دلانا چاہی جس پر وہ سب بے شرمی سے ہنستے گئے۔
"زینب کیوں ایسے ہی اپنا سر کھپاتی ہو ان کے ساتھ؟جانتی تو ہو بے شرمی میں انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے"مریم غزنفر نے کہا جس پر زارون کہنے لگا۔
"تائی امی پھر تو آپ لوگوں کو ہمیں ڈاکٹر کہنا چاہیے اور آپ کو ہم پر فخر کرنا چاہیے کہ آپ کی ساری اولاد ہی ڈاکٹر ہے"زارون نے کہا۔جس پر ملیحہ کے بیٹے نے بھی ہنستے ہوئے یاہو کیا سب ایک بار پھر سے ہنس دیے۔
"امی اب تو ہمارا بھتیجا بھی حامی بھر رہا ہے"احان نے ہنستے ہوئے کہا جس پر مریم بس اپنا سر ہلا کر رہ گئیں۔
"اگر آپ لوگوں کا ناشتہ ختم ہو چکا ہے تو کیا اب چلیں؟یونیورسٹی سے دیر ہو رہی ہے"مسيرا نے کہا جو ناشتہ کر چکی تھی۔
"ہاں یار! چلیں پھر اب ہم چلتے ہیں آپ کا ایک عدد بیٹا بھی رسی ہوئی محبوبہ کی طرح منہ پھلائے باہر بیٹھا ہوگا"زارون نے ہنستے ہوئے اپنی امی سے کہا اور اٹھا اور سب اُس کے ہمراہ باہر نکل گئے۔
"بابا سائیں دیکھ رہے ہیں آپ کے نواسے کتنا بگڑ گئے ہیں؟"عائشہ بیگم نے خفگی سے جمال الدین صاحب سے شکایت کی جس پر وہ ہنس پڑے
"بیٹا یہی سب تو اس گھر کی رونق ہیں"جس پر سب مسکرا دیے بات تو ان کی سہی ہی تھی۔
وہ لوگ باہر آئے تو احمر منہ پھلائے بیٹھا پول کو دیکھ رہا تھا۔لڑکے اُس کی جانب بڑھنے لگے جب مسیرا نے اُن کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اُن کی شرارت کو بھانپ لیا اسی لیے ان سے کہا۔
"تم لوگ جاؤ میں اسے لے کر آتی ہوں"
"کیوں ہم جا تو رہے ہیں اس کو منانے"احان نے منانے پر زور دیا۔
"میں جانتی ہوں کہ کیسے تم لوگ اُسے مناؤں گے"مسیرا نے آنکھیں چھوٹی کیے اُن کی جانب دیکھا جس پر وہ ہنس دیئے۔
"مسی یار! چل میں بھی چلتی ہوں اپنی محبوبہ کو منانے"آمائرہ نے شاہانہ انداز میں کہا۔
"زارون بھائی یہ محبوبہ کیا ہوتا ہے؟"زارا نے معصومیت سے سوال کیا جس پر مشکل سے سب نے اپنا قہقہ روکا۔
"وہ جو سامنے آپ کے احمر بھائی بیٹھے ہیں نا اُنہیں محبوبہ کہتے ہیں"احان نے اس کو جواب دیا جس پر زارا حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔مسیرا چلتی اُس تک گئی۔
"احمر!"اُس نے اُسے بلایا لیکن اُس نے ان سنا کر دیا۔
"اوئے کدو مسی تجھے بولا رہی ہے"آمائرہ نے اُسے جھنجھوڑا۔
"کیا مسئلہ ہے خود ہو گی کدو"احمر نے غصے سے کہا جس پر آمائرہ ہنس دی۔
"اچھا بابا میں ہوں گی کدو اب ایک کدو آیا ہے دوسرے کدو کو لینے چل شاباش اٹھ جا"
"میں نہیں آرہا"اُس نے منہ پھلائے جواب دیا۔
"احمر ایسے تھوڑی نہ ناراض ہوجاتے تمہیں پتا تو ہے سب تنگ کرتے ہیں چلو شاباش جلدی سے اٹھو لیٹ ہو رہے کالج کے لیے۔اور پھر احمر مان گیا اور چلتا ان تک آیا لیکن لڑکوں کو نظر انداز کیا۔
"محبوبہ"زارا نے کہا لیکن احمر ادھر اُدھر دیکھتا رہا جبکہ اسے نہیں معلوم کہ وہ کسے کہہ رہی ہے۔وہ چلتی اس تک آئی اور اُس کا شانہ ہلایا۔
"محبوبہ میں آپ کو کہہ رہی ہوں"اُس نے کہا جس پر سب کا ایک بار پھر قہقہ بلند ہوا۔
"تمہیں میں محبوبہ لگتا ہوں؟"احمر نے منہ کھولے بے یقینی سے اُس سے سوال کیا۔
"نہیں لیکن احان بھائی کہہ رہے تھے کہ۔۔۔۔"اُس کا جملہ ادھورا ہی تھا جب احمر غصے سے گاڑی میں جا بیٹھا۔جبکہ پیچھے وہ لوگ خوب ہنسے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی آچکی تھی۔سب اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جا چکے تھے۔آمائرہ کو وہیں کھڑا دیکھ کر زارون اس تک آیا اور سوال کیا۔
"میرہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟کلاس میں جاؤ اپنی"
"بھائی میں اپنی دوست کا انتظار کر رہی ہوں وہ اب تک آئی نہیں ہے"آمائرہ نے ادھر اُدھر دیکھتے کہا۔زارون اس سے پہلے کچھ کہتا اس کی نظر اُس کی جانب پڑی جو اپنا سفید آنچل سنبھالے چلتے ان تک آرہی تھی۔
"گل تم اب آرہی ہو میں کب سے کھڑی تمہارا انتظار کر رہی ہم"آمائرہ نے اُس سے کہا جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دی۔
"سوری ایکچلی ڈیڈ کافی بزی ہیں آج کل اور خان لالا (ڈرائیور) کہیں گئے ہوئے تھے تو لیٹ ہوگئے۔۔"وہ خاموش ہوئی اور ایک نظر زارون کی جانب دیکھا۔
"اسلام علیکم!"اُس نے سنجیدگی سے اُسے سلام کیا جس پر زارون نے سر کو خم دے کر جواب دیا۔
"چلیں بھائی اب ہم چلتے ہیں"آمائرہ نے کہا اور دونوں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گئیں۔
زارون بھی چلتا اپنی کلاس کی جانب بڑھ گیا۔
"کہاں رہ گیا تھا تو؟مجھے بولا تھا کے گاڑی پارک کر کے آرہا ہوں"اُس کے کلاس میں داخل ہوتے ہی احان نے اُس سے کہا جس پر وہ کہنے لگا۔
"ہاں آمائرہ کے ساتھ تھا"اُس نے کہا اور اپنی سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔احان بھی کندھے اچکائے اُس کے پیچھے چل دیا۔سر کلاس میں آچکے تھے اور اب وہ لیکچر دینے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیات صاحب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔حیات مختار ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ان کی بیوی زوبیہ ہیں اور دونوں کی ایک ہی اولاد ہے گل رخ حیات۔
حیات صاحب قدرے سخت طبیعت کے مالک ہیں اور کم گو بھی۔اگرچہ گل ان کی لاڈلی بیٹی ہے لیکن انہوں نے اُس پر بھی اتنی ہی سختی کی ہے جتنی وہ اپنی کسی اور اولاد پر کرتے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ قدرے سلجھی ہوئی اور کم گو تھی۔اس کا لہجہ دھیما تھا اور اس میں ٹھہراؤ سا تھا جو مزید اُس کی شخصیت کو پرکشش بناتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی ہو چکی تھی۔سب اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے تیار تھے۔گل مسلسل باہر دیکھ رہی تھی لیکن اُسے اب تک کوئی بھی لینے نہیں آیا تھا۔
زارون احان اور مسیرہ آمائرہ کا انتظار کر رہے تھے جو ابھی گل کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔
"میرہ تم جاؤ سب انتظار کر رہے ہیں تمہارا ابھی ڈیڈ آ جائیں گے لینے مجھے یا شاید کسی کو بھیج دیں"گل نے اُس سے کہا۔
"یو شیور؟"
"یس! اب تم جاؤ"گل نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر میرہ بھی مسکرا دی اور اُس سے گلے ملے باہر نکل گئی۔
"تم آگئی؟"زارون نے اُس سے سوال کیا۔
"جی وہ کہہ رہی ہے تم جاؤ میں چلی جاؤں گی"
"میرہ ایسے اچھا نہیں لگتا تم اس سے کہو ہمارے ساتھ ہی آجائے ہم اُسے ڈراپ کر دیں گے"مسی نے کہا۔
"مسی اُس کے ڈیڈ کو اچھا نہیں لگتا ایسے! وہ بہت سڑکٹ ہیں اب پتا نہیں وہ آئے گی یا نہیں"میرہ نے پریشانی بیان کی۔
"تو اب کیا وہ یہیں کھڑی رہے گی؟"احان نے کہا جس اور زارون فوراً بولا۔
"نہیں میرہ تم جاؤ اور اُسے لے آؤ میں گاڑی نکال رہا ہوں"زارون نے اُسے جانے کا کہا اور خود بھی گاڑی نکالنے باہر نکل گیا۔
"تم آگئی واپس؟"گل نے اُسے واپس آتا دیکھ کر کہا۔
"تم آجاؤ ہمارے ساتھ ہم تمہیں ڈراپ کر دیں گے"میرہ نے کہا۔
"ایسے کیسے میرہ تم جانتی تو ہو ڈیڈ کو یہ سب پسند نہیں ہے"گل نے کہا۔
"گل تو کیا تم ایسے ہی کھڑی رہو گی؟کچھ نہیں ہوتا ساتھ چلو ہمارے اور ویسے بھی میں اور مسی بھی ساتھ ہیں"
"رکو میں موم سے فون کر کے پوچھتی ہوں"گل نے کہا اور کال ملانے لگی۔فوراً ہی دوسری جانب سے کال ریسیو ہو چکی تھی۔
"موم ڈیڈ کہاں ہیں؟اچھا! کب؟ تو خان لالا بھی نہیں ہیں! جی۔۔۔جی چلیں صحیح ہے اللہ حافظ!"دوسری جانب سے جو بھی کہا گیا وہ سن نہ پائی۔
"کیا ہوا کیا کہہ رہی ہیں تمہاری ماما؟"
"ڈیڈ کو ارجنٹ جانا پڑا آؤٹ آف سٹی اور خان لالا بھی ڈیڈ کے ساتھ ہیں"گل نے کہا۔
"چلو یہ تو اچھا ہوگیا۔اب جلدی چلو بھائی لوگ انتظار کر رہے ہیں"میرہ نے کہا اور اُس کے ساتھ باہر چلی آئی جہاں وہ سب گاڑی میں بیٹھے انہی کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ آئیں اور پیچھے بیٹھ گئیں۔زارون نے اُن کے بیٹھتے ہی گاڑی آگے دوڑا دی۔
سارا راستہ وہ خاموش ہی رہی تھی جبکہ وہ تینوں آپس میں مذاق کر رہے تھے۔
اُسے ان کا یوں آپس میں ہنسنا مسکرانا شرارتیں کرنا بہت اچھا لگا تھا۔اُس کی خواہش تھی کہ کاش اُس کا بھی کوئی بہن بھائی ہوتا جو مل کر شرارتیں کرتے۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب آمائرہ نے اُسے بلایا۔
"گل تمہارا گھر کہاں ہے؟"آمائرہ نے اُس سے سوال کیا۔اگرچہ جتنی بھی ان میں گہری دوستی تھی لیکن آج تک وہ ایک دوسرے کے گھر نہیں آئیں تھیں۔
"یہاں سے سیدھا جا کر لیفٹ میں لیں سب سے پہلا گھر میرا ہے"اُس نے دھیرے لہجے میں کہا۔زارون نے گاڑی اُس کے بتائے راستے پر ڈال دی۔
اُس کا گھر آچکا تھا۔وہ باہر نکلی اور دروازہ بند کیا۔
"آپ لوگ اندر آئیے پلیز!"اُس نے میرہ سے کہا۔
"نہیں نہیں ابھی آگے ہی کافی لیٹ ہوگیا ہے سب انتظار کر رہے ہوں گے"مسیره نے فوراً معذرت کی جس پر وہ خاموش ہو گئی۔
"تھینک یو سو مچ!"ان کا شکریہ ادا کیے وہ دروازے تک آگئی اور بیل بجائی۔
"آلویز آ پلیژر!"زارون مسکرایا۔پھر جب تک وہ اندر نہیں چلی گئی وہ باہر ہی کھڑے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار یہ کیا بات ہوئی بھلا؟تم نے مجھے بولا تھا!!"وہ لوگ گھر میں داخل ہورہے تھے لیکن آپس میں کسی بات پر بحث بھی کر رہے تھے۔دادا سائیں اپنے کمرے میں تھے ذیشان باقی مرد حضرات کے ساتھ فیکٹری گیا تھا جبکہ خواتین لاؤنج میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔اسکول اور کالج کے بچے بھی تھوڑی دیر میں آنے والے تھے۔
"لو بھئی آگئی عوام ہماری!"انہیں کسی بات پر بحث کرتا دیکھ کر مریم بیگم بولنے جس پر عائشہ اور زینب مسکرا دیں۔ملیحہ اپنے بچوں کو سلانے کمرے میں گئی تھی۔
"میں نے صرف بولا تھا کہ جائیں گے وقت کا تعین تو نہیں کیا تھا"احان نے ہنستے ہوئے کہا۔
"یو چیٹر!"مسی نے اپنا بیگ اُسے دے مارا جس پر وہ کراہ کر رہ گیا۔
زارون اور میرہ ہنستے ہوئے اندر آگئے اور سب کو سلام کیا۔
"یہ ان کی کس بات پر بحث ہورہی ہے؟"زینب بیگم نے سوال کیا۔
"چچی آپ ان کو تو چھوڑ ہی دیں بھلا کہاں آپ کی سننے والے ہیں۔عادت سے مجبور ہیں بیچارے!"زارون نے اپنا بیگ ٹیبل پر رکھتے افسوس سے کہا۔
"ہاں ہاں بیٹا! جیسے تم تو حکم کی تعمیل کر کر کے تھک چکے ہو"عائشہ بیگم نے اُسے گھر کیا۔
"امی یار! دس از نوٹ فیئر!"صوفے پر ریلیکس سے انداز میں بیٹھتے اُس نے کہا۔
"بھیا!! عزت نہیں ہوگئی؟!"آمائرہ نے ہنستے ہوئے کہا جس اور زارون نے گدی اٹھا کر اُسے ماری جو کہ نیچے گر گئی تھی۔
"احان بیٹا بس کر دو۔اور مسی شاباش تم بھی جاؤ اپنے کمرے میں۔"مریم نے اُنہیں کہا جو ابھی بھی بحث کر رہے تھے۔
"دادا سائیں کمرے میں ہیں؟"زارون نے سوال کیا۔
"ہاں جاؤ سب سے پہلے بچا پارٹی دادا سائیں کو سلام کرو۔ابھی باقی عوام بھی آنے والی ہے پھر کھانا لگواتی ہوں"مریم نے جواب دیا۔
دادا سائیں اپنے کمرے میں راکنگ چیئر پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔دروازہ ناک کر کے سارے اندر آئے اور اُنہیں سلام کیا۔زارون اور احان کمرے میں پڑے صوفوں پر بیٹھ گئے جبکہ مسیرہ اور آمائرہ دادا سائیں کے سامنے نیچے زمین پربیٹھ گئیں۔
"دادا سائیں آپ کو میں پہلے بھی مشورہ دیتا ہوں اور اب بھی کہہ رہا ہوں آپ بھی شادی کر لیں ایسے ہی تنہائی میں بیٹھ کر یہ اخبار پڑھتے رہتے ہیں آپ۔"زارون نے جیسے بڑا اہم مشورہ دیا۔
"بیٹا میری نہیں اب تم لوگوں کی باری ہے شادی کی۔"دادا سائیں نے اخبار فولڈ کرتے سائڈ پر رکھتے کہا۔
"دادا سائیں ہم تو آپ کی تنہائی کی خاطر کہہ رہے تھی بھلا ہمیں کیا ضرورت ابھی شادی کرنے کی"اب کی بار احان نے جواب دیا۔دادا سائیں نے اُسے گھورا جس پر وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
"دادا سائیں ویسے میرے ذہن میں ایک لڑکی ہے۔۔۔"میرہ نے سوچتے ہوئے کہا جس پر سب نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا۔
"کون؟"مسی نے سوال کیا۔
"دادا سائیں ہماری یونیورسٹی کی پرنسپل ہیں بیچارے اکیلی ہی ہیں شوہر تو کب کے اللہ میاں کو پیارے ہو گئے ہیں"میرہ نے گہرا سانس بھر کر کہا۔اُس کی بات سن کر باقی تینوں مسکرا دیے۔
"وے میرہ پُتر تو اپنے بھرا کے لیے اتنی بڑی عورت کا رشتہ ڈھونڈھ لائی ہے؟"دادا سائیں نے حیرانگی سے سوال کیا۔
"نہیں نہیں دادا سائیں آپ غلط سمجھ رہے ہیں"میرہ نے فوراً کہا۔
"پھر؟"
"دادا سائیں میرہ آپ کے رشتے کی بات کر رہی ہے"مسی نے ہنستے ہوئے کہا جس پر زارون اور احان بھی قہقہ لگا کر ہنس دیے۔
"وے کم عقلوں! بعض آجاؤ! بھلا اس عمر میں شادی کرتا اچھا لگوں گا؟"دادا سائیں نے کہا۔
"دادا سائیں چاہے جوانی ہو یا بڑھاپا شادی تو سب ہی عمروں میں اچھی لگتی ہے"زارون بولا۔
"اور ویسے بھی دادا سائیں آپ کو بھی کسی ہمراز،ہم ساتھ کی ضرورت ہے"مسی نے شرارت سے کہا۔
"ویسے دادا سائیں اگر دیکھا جائے تو رشتہ اتنا برا بھی نہیں ہے آپ کہیں تو ہم بات کریں؟"احان نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
"ہاں دادا سائیں آپ کی خاطر ہم اُن کھڑوس...میرا مطلب اپکمنگ دادی کو برداشت کر لیں گے۔۔"میرہ نے ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔
"اس سے پہلے کہ میری برداشت ختم ہو جائے فوراً یہاں سے نو دو گیاره ہو جاؤ"دادا سائیں نے اُنہیں کمرے سے نکلنے کا کہا۔
وہ اٹھے اور فوراً سے باہر نکل گئے۔
"ویسے دادا سائیں کہیں تو تصویر۔۔۔۔"زارون نے دروازے سے منہ اندر کرتے کہا لیکن اس کا جملہ ادھورا ہی تھا جب دادا سائیں اپنی کرسی سے اٹھنے لگے۔
"اچھا اچھا سوری سوری جا رہا ہوں یار آپ تو سیریس ہی ہو جاتے ہیں"وہ کہے بھاگ گیا جبکہ دادا سائیں ہنسنے لگے۔
"جھلے جے!"دادا سائیں نے کہا اور دوبارہ اخبار پڑھنے میں مگن ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہو چکی تھی اور باقی سب بھی آچکے تھے اور لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
"کدو! ذرا کباب پاس کریں"چائے کا گھونٹ بھرتے آمائرہ نے احمر سے کہا جس نے فرصت سے اُس کی بات ان سنی کر دی۔
"اوئے موٹے میں تجھ سے بات کر رہی۔"اُس نے اُسے چونٹی کاٹی۔
"آہ ظالم! تمہاری جیسے بہن ہو اگر کسی کے پاس تو اللہ ہی حافظ ہے اُس کا!"احمر خفگی سے بولا۔
"احمر بڑی بہن ہے بری بات ایسے نہیں کہتے"سکندر صاحب نے کہا جس پر میرہ ہنسنے لگی اور اُسے زبان چرائی۔
"احمر پلیز مجھے ذرا کباب دے دو"اب کی بار وہ اونچا بولی جبکہ پہلے کی نسبت قدرے تمیز سے کہا تھا۔سکندر صاحب انہی کی جانب متوجہ تھے تو اسے دینا ہی پڑا۔
اُس نے زور سے پلیٹ اُس کے ہاتھ میں دی۔میرہ ہنسنے لگی۔
"تایا ابو یہ جو آپ کا بیٹا ہے بڑا ہی کوئی چیٹر انسان ہے"مسی نے غضنفر صاحب سے کہا۔ذیشان جس نے ابھی چائے کا گھونٹ بھرا تھا اُسے اچھو لگ گیا۔
"کیا ہوگیا ذیشان دھیان سے"ملیحہ نے اُسے یوں کھانستا دیکھ کر کہا۔
"ذیشان بھائی میں آپ کی بات نہیں کر رہی"مسی ہنسی تھی۔
"کیا کہہ دیا بھلا ہمارے بیٹے نے آپ کو؟"
"تایا ابو اس نے بولا تھا کہ ہم سب آؤٹنگ پر جائیں گے ایک ویک کے لیے لیکن اب کہتا ہے کہ نہیں جانا ہے"اُس نے تایا ابو کو تفصیل سے بتایا۔
"حان بیٹا یہ کیا بات ہوئی؟"غضنفر صاحب نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"بابا سائیں وہ تو میں نے ایسے ہی کہا تھا اگر نہ کہتا تو یہ میری اسائنمنٹ نہیں بناتی"احان نے ہنستے ہوئے کہا جس پر زارون نے آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھا۔
"کیسا کوئی بیغیرت انسان ہے مجھے کہہ رہا تھا کہ میں نے خود محنت کر کے اپنی اسائنمنٹ بنائی ہے تو بھی خود بنا"
"ہاں تو محنت تو میں نے کی ہی تھی نہ اسے منانے کے لیے"
"ویسے یہ اچھا آئیڈیا ہے کیوں نہ کہیں چلیں بہت مزا آئے گا!"احمر نے جوش سے بولا۔
"ہاں میں بھی جاؤں گی آپ لوگوں کے ساتھ"زارا نے پیچھے سے ہانک لگائی۔
"میں بھی جاؤں کی ساتھ کی کچھ لگتی جو ٹیسٹس ہو رہے ہیں تمہارے وہ کون دے گا؟"مسی نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جس پر زارا بس گندہ سا منہ بنا کر رہ گئی۔
"دادا سائیں! آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟"آمائرہ نے آگے کو ہو کر بیٹھتے اپنے ہاتھ منہ کے نیچے رکھے سوال کیا۔
"آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن تم بچا پارٹی کے لیے میں تو گھر پر ہی ٹھیک ہوں تم سب جانا انجواۓ کرنا!"دادا سائیں نے جواب دیا۔
"جی بابا سائیں کام تو ہمیں بھی ہے یہاں پر جا تو ہم بھی نہیں سکتے!"مصطفیٰ صاحب نے کہا۔
"ہاں تم لوگ ایسا کرو بچا پارٹی جاؤ انجواۓ کرو!"سکندر صاحب نے کہا۔
"بھابھی آپ بھی تیاری کر لیں ہم مل کر چلیں گے"حان نے ملیحہ سے کہا۔
"نہیں حان میں نہیں جا سکتی میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں ٹانگ کریں گے!"ملیحہ نے کہا۔
"ذیشان بھائی آپ؟"
"میری بیوی نہیں جا رہی تو بھلا میں کیا کروں گا جا کر؟"ذیشان نے کباب منہ میں ڈالتے کہا جس اور ملیحہ مسکرا دی۔
"ہماری امائیں بھی اپنے سرتاج کے ساتھ ہی رہیں گیں یقیناً ہیں نا!؟"زارون نے ان تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔جس پر تینوں مسکرا دیں جیسے کہہ رہی ہوں۔"ظاہری بات ہے!"
"تو مطلب ہم پانچوں جا رہے ہیں؟"آمائرہ نے کہا۔
"پانچ کیوں میں بھی تو ہوں"احمر فوراً بولا۔
"اوئے کدو تُجھے ڈال کر پانچ زارا نہیں جا رہی ہے"آمائرہ نے وضاحت دی۔
"اچھا پھر صحیح ہے"وہ ریلیکس ہوا۔
"تم لوگ ایسا کرو اپنے فرینڈز کے ساتھ چلے چلو! انجوائے کرنا"غضنفر صاحب نے مشورہ دیا۔
"میری ایک فرینڈ ہے کیا میں اُسے ساتھ لے چلوں؟"میرہ فوراً بولی۔
"ہاں ہاں بیٹا! مسی تم بھی کہہ دو اگر اپنی فرنڈ کو کہنا؟"
"نہیں تایا ابو میری کوئی فرنڈ نہیں اور اگر ہیں بھی تو بس یونیورسٹی تک ہی"مسی نے جواب دیا۔
"زارون بھائی آپ میرے ساتھ چلیں گے ذرا؟"میرہ نے زارون سے کہا جو ملیحہ کے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
"کہاں؟"
"گل کی طرف اُس کے پیرنٹس سے پرمشن بھی لینی ہے"میرہ نے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں بس آدھے گھنٹے میں آرہی ہوں" اُس نے کہا "ہم نے صبح ہی نکلنا ہے نا؟"اُس نے اب زارون کی جانب دیکھ کرنے سوال کیا۔
"ہاں صبح ہی نکلیں گے"زارون نے کہا اور اس کے پیچھے چل دیا جبکہ وہ پیچھے اپنی باتیں کرنے میں مشغول ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ اس وقت حیات مختار کے گھر کے باہر کھڑے تھے۔
"میرہ تم جاؤ اندر میں باہر ہی تمہارا ویٹ کر رہا ہوں"زارون نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جس پر میرہ سر ہلاتی گاڑی سے باہر نکل گئی۔اُس نے بیل بجائی۔تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھل گیا۔
"السلام علیکم خان لالا! حیات انکل گھر پر ہیں؟"
"جی بیٹا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آئیں ہیں ہم"
"چلیں بہت بہت شکریہ!"وہ کہے اندر کی جانب بڑھ گئی۔حیات صاحب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ زوبیہ اُن کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔گل جانے کہاں پر تھی۔میرہ کو پہلے جھجھک محسوس ہوئی۔وہ بن بتائے آگئی تھی۔زوبیہ کی نظر اُس پر پڑی تو بول اٹھیں۔
"آمائرہ رائٹ!؟"انہوں نے اُس کی جانب دیکھتے سوال کیا۔گل نے انہیں میرہ کی پک دکھائی ہوئی تھی اس لئے وہ اُسے پہچان گئیں۔اور خان لالا سے تو اکثر یونیورسیٹی میں ملاقات ہو ہی جاتی تھی۔
"جی"اُس نے دھیرے سے کہا۔
"آؤ آؤ بیٹا اندر آؤ وہاں کیوں کھڑی ہو"وہ کھڑی ہوئیں اور اُسے اندر آنے کا کہا۔اُس نے آتے ہے سلام کیا۔
"تم بیٹھو میں گل کو بلاتی ہوں"زوبیہ بیگم نے کہا اور جانے لگی جب میرہ کہنے لگی۔
"نہیں نہیں آنٹی میں آپ اور انکل سے ملنے آئی ہوں"میرہ نے کہا جس پر دونوں نے بروقت اُس کی جانب دیکھا۔
"جی کہیے!"حیات صاحب نے اپنے سنجیدہ لہجے میں سوال کیا۔میرہ گھبرائی۔
"وہ۔۔وہ انکل اکچلی ہم سب نے باہر آؤٹنگ کا پلان بنایا ہے تو دادا سائیں نے کہا کہ اپنی فرینڈز کو بھی لے جا سکتے ہیں تو کیا میں گل کواپنے ساتھ لے جا سکتی ہوں؟بس ایک ویک کا ٹور ہے ہمارا۔۔۔"اُسنے دھیرے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر کہا۔
"بیٹا میں اپنی بیٹی کو کسی کے ساتھ نہیں جانے دیتا"انہوں نے جواب دیا۔
"انکل پلیز! آئی پرومس میں اُس کا خود سے بھی زیادہ خیال رکھوں گی"اُس نے التجا کی۔
"بیٹا بات خیال رکھنے کی نہیں ہے چاہے پوری سیکیورٹی بھی ہو میں پھر بھی اُسے اکیلے نہیں جانے دیتا"اُن کے لہجے میں سنجیدگی واضع تھی۔
میرہ خاموش ہوگئی۔
"سوری انکل میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا"وہ معذرت کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر کی جانب بڑھنے لگی۔زوبیہ بیگم نے حیات صاحب کی جانب دیکھا جو ویسے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔وہ بس اپنا سر ہلا کر رہ گئیں۔
اُسے اکیلے باہر آتا دیکھ کر زارون نے سوال کیا۔
"کیا ہوا؟"جس اور میرہ نے نفی میں سر ہلایا۔زارون سمجھ گیا تھا کہ اُنہوں نے انکار کردیا ہوگا۔وہ خاموشی سے گاڑی آگے دوڑا لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا میرہ آئی تھی؟موم آپ نے بتایا کیوں نہیں؟"زوبیہ بیگم اُس کے جانے کے بعد گل کے پاس آئی تھیں۔
"بیٹا وہ تھوڑی دیر ہی بیٹھی تھی میں نے کہا تھا کہ تمہیں بلا لاتی ہوں لیکن کہتی نہیں مجھے آپ سے اور انکل سے بات کرنی ہے"
"ہیں اُس نے آپ سے اور ڈیڈ سے کیا بات کرنی تھی؟"گل نے حیرانگی سے سوال کیا۔
"وہ اجازت مانگنے آج تھی"
"کس چیز کی؟"
"تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کی لیکن تمہارے ڈیڈ نے اُسے انکار کردیا۔وہ بیچاری اتنی محبت سے کہہ رہی تھی"اور گل خاموش ہوگئی۔حیات صاحب جو ابھی آئے تھے وہ باہر کی رک گئے وہ سننا چاہتے تھے کہ گل کیا جواب دے گی۔
"موم آپ جانتی تو ہیں ڈیڈ کی طبیعت کو؟وہ ایسے ہی ہیں کو بات دل میں ہوتی ہے صاف صاف کہہ دیتے ہیں۔اور ویسے بھی اُنہیں جو صحیح لگا وہ کہا ہوگا ان نے"گل نے جواب دیا۔
"تم جانا چاہتی ہو؟"زوبیہ بیگم نے سوال کیا۔
"موم میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے ڈیڈ نے منع کر دیا صحیح ہے"وہ پھیکا سا مسکرائی۔
حیات صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔
"اپنی دوست کو فون کر کے پوچھ لو کس ٹائم نکلنا ہے پھر اس حساب سے اپنا سامان پیک کر لو خان لالا تمہیں چھوڑ آئیں گے"اُسے یقین نہ آیا کہ حیات صاحب نے حامی بھر لی ہے۔وہ بھاگ کر آئی اور اپنے ڈیڈ کے گلے لگ گئی۔
"تھینک یو سو مچ ڈیڈ!"اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی حیات اور زوبیہ دونوں مسکرا دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"گل تم نہیں جانتی میں کتنا خوش ہوں۔"میرہ نے اُس کے گلے لگتے کہا جو صبح صبح ہی میرہ کے گھر آگئی تھی۔رات میں میرہ نے اُسے ایڈریس بتا دیا تھا۔گل مسکرا دی۔
"آؤ میں تمہیں سب سے ملواتی ہوں"وہ اُسے اندر لے گئی جہاں سب بیٹھے باتوں میں مشغول تھے۔اُسے آتا دیکھ سب نے اُس کی جانب دیکھا۔وہ گھبرائی ہوئی میرہ کے ساتھ کھڑی تھی۔میرہ اُسے پکڑ کر اندر لائی۔
"یہ ہیں میرے دادا سائیں اور دادا سائیں یہ ہے گل میری دوست"اُس نے سب سے پہلے دادا سائیں کو تعارف کروایا۔
"اسلام علیکم انکل!"اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے ملے کیوں کہ کبھی اس نے اتنا زیادہ خاندان نہیں دیکھا تھا۔
"بیٹا میں ان سب کا دادا سائیں ہوں تو آپ بھی مجھے دادا سائیں ہی کہیں"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا گل بھی مسکرا دی۔پھر باری باری وہ سب سے ملی اور میرہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔زارون کی نظر نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار اُس کی جانب اٹھ رہی تھیں۔اُس نے خود کو ڈپٹا اور فون میں بلاوجہ بزی ہوگیا۔
"چلیں بیٹا پہلے سب ناشتہ کر لیں پھر نکلنا ہے آپ لوگوں کو"دادا سائیں نے کہا اور اٹھ کر ٹیبل تک آئے۔ملازم ناشتہ لگا چکے تھے۔سب بیٹھ گئے اور ناشتہ کرنے لگے۔ان کی نوک جھونک سن کر گل بھی ہنس دی۔اسے سب بہت اچھا لگ رہا تھا سب کا مل کرنے کھانا کھانا،ہنسی مذاق کرنا۔
زارون کی نظر گل پر پڑی جو ہنس رہی تھی۔وہ پل بھر وہیں ساکت رہ گیا۔اپنے آپ پر کسی کی نظریں محسوس کر کے گل نے سامنے دیکھا تو زارون اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔اُس کے دیکھنے پر زارون نے اپنی نظریں ہٹا لیں اور سب کو آنے کا کہے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Salam guyz!
Kaisay hain aap sab?
Tw mai phr say haazir hoi hun apni aik or kahani kay sath💜
Umeed kerti hun aap logon ko pasand aayay gi!
Apbi qeemti raayay ka izhaar zroor kijeyay ga😊
Mahi✨

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Место, где живут истории. Откройте их для себя