قسط:۲۰ (بارات اسپیشل)

36 7 0
                                    

چاند شرماتا بادلوں کے پیچھے چھپ گیا__!

اور آج وہ دن بھی آگیا جب سب کے سامنے اُسے اس کو ہمیشہ کے لیے سونپا جا رہا تھا۔
وہ جس سے اُس نے محبت کی تھی،جسے اُس نے بے پناہ چاہا تھا اللہ نے اُسے اس کے مقدر میں لکھ دیا تھا۔اب موت کے سوا اُنہیں کوئی چیز بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی تھی۔
آج بھی احان اور احمر نے اُس کو اپنے ساتھ آنے کا کہا تھا جبکہ وہ اُنہیں فرصت سے نہ کر چکا تھا کیوں کہ وہ کل والا واقع نہیں بھولا تھا اور آج بھی پھر سے اُسے نہیں دہرانا چاہتا تھا۔
شام رات میں ڈھل گئی اور پھر رخصتی کا وقت بھی ہو چکا۔
زوبیہ بیگم کے تو آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے جبکہ حیات صاحب نے اپنے آپ پر ضبط کیے رکھا تھا اور گل بھی اپنی امی بابا سے مل کر بہت روئی تھی۔
حیات صاحب نے گل کو قرآن پاک کے سائے تلے رخصت کیا۔
یہ لمحہ کئیوں کی آنکھیں اشک بار کر چکا تھا۔
تمام گاڑیاں اپنی اپنی منزل کی جانب بڑھ چکی تھیں۔

دادا سائیں اور ذیشان اس وقت گل اور زارون کے ساتھ تھے جبکہ باقی سب گھر والے رخصتی ہوتے ساتھ ہی گھر کے لیے روانہ ہوگئے تھے کیوں کہ بہو کے استقبال کے لیے تیاریاں کرنی تھیں۔
گاڑی کا ہارن بجا اور پھولوں سے سجی گاڑی گیراج میں داخل ہوئی۔
گھر میں کھڑے تمام لوگ چوکنا ہوئے اور ہاتھوں میں پلیٹوں سے گلاب کی پتیاں بھر لیں اور جیسے ہی زارون اور گل آگے آئے سب نے اُن پر پھولوں کی برسات شروع کر دی۔
زارون کے تو چہرے سے مسکراہٹ ہی نہیں ہٹ رہی تھی جبکہ گل کا دل زور و شور سے دھڑک رہا تھا۔
وہ چلتے انٹرینس تک آئے لیکن وہاں احان،احمر پہلے ہی راستہ روکے کھڑے تھے۔زارون نے سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ یہ سب کیا ہے؟
اُس کا سوال سمجھ کر احمر نے اپنا گلا کھنکھارا پھر کہنے لگا۔
"بھائی یہ بھی ایک رسم ہوتی ہے۔آپ کو پہلے ہم دونوں کو پیسے دینے ہوں گے پھر ہی آپ اس دہلیز کو پار کر سکیں گے۔"احمر نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ زارون نے اچھنبے سے اُس کی جانب دیکھا۔
"یہ بھلا کیسی رسم ہے؟ذیشان بھائی کہیں نہ ان سے کے پیچھے ہٹیں ہم نے اندر بھی تو جانا ہے!"زارون بظاھر سنجیدگی سے کہنے لگا۔
"بیٹا جی یہ وہی رسم ہے جسے میری شادی پر تم نے ہی اتاولا ہوئے کیا تھا۔۔اب اس سب میں،میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ہوں"ذیشان نے اپنے کندھے اچكائے کہا جب کہ زارون ہنس دیا۔
"کتنے چاہئیں؟"زارون نے اپنی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے سوال کیا۔
"جتنے اس وقت آپ کی پاکٹ میں ہیں سارے"احمر نے اپنے ڈانٹ نکالے کہا۔
"پکی بات ہے؟جیتنے میری پاکٹ میں ہیں اتنے ہی چاہئیں؟"زارون نے ایک بار پھر سے کنفرم کرنا چاہا۔جس پر احان اور احمر نے مشکوک نظروں سے اُس کی جانب دیکھا اور پھر ایک دوسرے کے کان میں خسر پھسر کرنے لگے۔
پھر احان نے کہا۔
"نہیں جتنے تمہارے پرس میں ہیں وہ ہمارے پاکٹ والے سب تمہارے"اُس کے کہنے پر زارون دل کھول کر مسکرایا۔
"یار زارون بھائی آپ کی حرکتیں مشکوک کر رہی ہیں۔"احمر نے منہ بنائے کہا جس پر زارون فوراً بولا۔
"لو میں نے کیا کہہ دیا ہے؟اب تم دونوں ہی پکا نہیں کر پا رہے ہو کہ کون سے چاہئیں تو میں اس سب میں کیا کر سکتا ہوں؟"
"بچوں جلدی کرو بچی بیچاری تھک گئی ہے"دادا سائیں نے کہا تو دونوں کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے۔
"ہم پاکٹ والے تو نہیں لیں گے بس پرس والے ہمارے"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کیوں خ اُنہیں لگ رہا تھا کہ زارون کے سارے پیسے پرس میں ہی ہوں گے کیوں کہ زیادہ تر وہ پرس میں ہی رکھتا تھا۔
"اوکے ڈن!"زارون نے یہ کہے اپنا پرس نکالا لیکن اُنہیں تھمانے سے پہلے بولا۔
"پہلے راستہ چھوڑ دو"اور اُس کے یہ کہنے پر دونوں سائڈ پر ہوئے تو زارون اور گل نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھا دیے۔
"بھائی پرس تو دیں"پیچھے سے احمر نے ہانک لگائی تو زارون پلٹا اور اپنا پرس بغیر چھیڑے اُن کے حوالے کر دیا۔
"خوش آمدید بیٹا! اپنے گھر میں"عائشہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا اور گل کی پیشانی چومی اور اُسے صوفے پر بٹھایا۔
وہ جھینپ کر صوفے پر بیٹھ گئی اور ساتھ ہی زارون بھی بیٹھ گیا۔ان کے بیٹھتے ہی عائشہ بیگم ہاتھ میں زیوروں کے ڈبے تھامے آئیں اور گل کے ساتھ بیٹھ گئیں اور باری باری وہ ڈبے اُس کے سامنے رکھے۔
"یہ جب میں اس گھر میں آئی تھی تو میری ساس نے مجھے دیے تھے۔اور اب میں یہ چاہتی ہوں کہ یہ زیور میری بہو رکھے"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔گل نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
"یہ سب بہت خوبصورت ہیں۔تھینک یو سو مچ"اُس نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر عائشہ بیگم نے اُس کی پیشانی چومی۔
پھر باری باری کر کے گھر کی بہوؤں نے اُسے تحائف دیے اور مرد حضرات نے بھاری رقم دی اور ساتھ ہمیشہ خوش رہنے کی دعائیں دیں۔
"مدیحہ بچے اب گل کو اُس کے کمرے میں چھوڑ آؤ"مریم بیگم نے مدیحہ سے کہا۔
"جی امی"وہ کہتے اٹھی اور گل کے قریب آئی۔
"ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں"مسی،میرہ اور زارا نے کہا اور گل کا لہنگا اٹھائے اُس کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
"جیسے ہی کمرے میں پہنچ کر دروازہ کھولا تو گلاب کے پھولوں کی خوشبو کمرے سے باہر نکلی۔اور اندر قدم رکھتے ہی اُسے اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا۔
کمرہ نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا اور اوپر سے خود کمرہ بھی بہت خوبصورت تھا۔
مدیحہ اور مسی نے اُسے بیڈ پر بٹھایا جبکہ گل کو اپنی نظریں اٹھانا بہت مشکل لگ رہا تھا۔
"اور دیواری جی کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟"مدیحہ نے شرارت سے کہا جس پر وہ مزید جھینپ گئی۔
"زارا چلو بیٹا تم شاباش نکلو کمرے سے ہم آرہے ہیں"مدیحہ نے زارا سے کہا جو منہ بناتے کمرے سے باہر نکل گئی۔
اُس کے نکلتے ہی مدیحہ،مسی اور میرہ ایک دوسرے کی جانب دیکھ کرنے شرارت سے مسکرا دیں۔گل نے اُن کی جانب دیکھا اور پھر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے شرما دی۔
"میرہ،مسی یار میری ہیلپ کرو گی پلیز؟"مدیحہ نے کچھ سوچتے کہا جس پر انہوں نے فوراً سے ہاں میں سر ہلایا۔جس پر مدیحہ شرارت سے ہنس دی۔
گل اُن کا ارادہ نہیں بھانپ پائی تھی لیکن ان کی مسکان بتا رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور کرنے والی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جانب گل کے جانے کے بعد لڑکوں نے زارون کے گرد گھیرا ڈال لیا۔
"زارون یہ کیا حرکت ہے تمہارے پرس میں صرف پانچ ہزار ہے"احان نے کہا جس پر زارون مسکرا دیا۔
"میں کیا کر سکتا ہوں اب میں نے تم سے پوچھا تھا کہ پرس چاہیے یا پاکٹ سے پیسے لیکن تم لوگوں کو پرس ہی چاہیے تھا میرا سو اب اس میں میرا کیا قصور؟"اُس نے اپنے کندھے اچکائے کہا جس پر سب مسکرا دیے۔
"چلو بچو اب سب اپنے کمروں میں جاؤ۔اور زارون تم بھی جاؤ"دادا سائیں نے سب کو حکم دیا۔
"جی جی دادا سائیں ہم بس جا رہے ہیں آپ جائیے آرام کیجیۓ امی بابا،چاچی چاچو آپ بھی آرام کیجیے"احان نے تابع داری کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔
"جیسے میں تو بیٹا جی تمہیں جانتی نہیں ہوں نا؟"مریم بیگم نے اُسے گہرا جس پر وہ کھسیانہ سا ہنس دیا۔
"چلو زارون میں تمہیں خود چھوڑ کر آتی ہوں کمرے میں!"مریم بیگم نے کہا جس اور احمر اور احان کے منہ کھولے کے کھلے رہ گئے جبکہ ذیشان بولا
"امی یہ تو زیادتی ہے نہ۔۔۔"اُس نے منہ بنائے کہا۔
"لو بھلا اس میں زیادتی کی کیا بات ہے؟بیچارہ تھک گیا ہو گا اور گل بیٹی بھی اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔چلو اب فوراً سے پہلے سب لڑکے یہاں سے غائب ہو جاؤ۔میں اسے چھوڑ کر آرہی ہوں اور میرے آنے تک تم تینوں میں سے کوئی بھی نہ دکھے!"وہ سب کو حکم دیتی زارون کو ان کے بیچ میں سے نکالے اُس کے کمرے تک لے کر گئیں جبکہ زارون نے اُن تینوں کو زبان دکھائی جس پر سب نے اُسے گھورا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی،سو شان بے نیازی سے چلتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
پیچھے دادا سائیں سمیت سب اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے اور لڑکوں کو بھی ناچار اپنے کمرے میں جانا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھابھی نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی،ایسے بالکل اچھا نہیں لگتا اور اگر وہ غُصہ ہوگئے تو؟اور باقی گھر والے کیا سوچیں گے؟"اُس نے مدیحہ کا پلان سن کر نافی میں سر ہلاتے کہا۔
"اوہو کوئی کچھ نہیں سوچتے گا اور وہ نہیں غُصہ ہوگا اتنا ہمیں پتہ ہے۔اس کی رگوں میں غُصہ نہیں دوڑتا"مدیحہ نے ہنستے ہوئے کہا جس پر گل نے حیرانگی سے اُس کی جانب دیکھا۔اچانک سے اُسے یونیورسٹی والا واقع یاد آیا۔
اور اُس وقت اُس کا غُصہ دیکھنے لائق تھا،لیکن پھر اُس کے بعد اور پہلے اُس نے کبھی اُس کو غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
"نہیں بھابھی پلیز! میں یہ نہیں کر سکتی"اُس نے کہا جس اور مسی،میرہ سمیت مدیحہ نے گہرا سانس بھرا۔
"کوئی حال نہیں ہے تمہارا گل! یار سہی میں اتنا مزہ آنا تھا نہ کہ کیا بتاؤں"میرہ نے منہ بناتے کہا اور مسی نے بھی اُس کی تاکید کی۔
"چلو پھر ہم چلتے ہیں یہ نہ ہو اگر زارون ہمارا ارادہ بھانپ لے تو ہمیں ہی الٹا نہ لٹکا دے"مسی نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ تینوں گل کا لہنگا درست کیے مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora