حالِ دل کون جانے__!
"تو پاگل تو نہیں ہوگیا؟"احان تقریباً چلایا تھا جس پر کئی لوگوں نے اُن کی جانب دیکھا تھا۔زارون نے بے اختیار اپنا کان بند کیا لیکن احان ابھی بھی شاک کے عالم میں اُسے دیکھ رہا تھا۔
"آہستہ کان پھاڑنے کا ارادہ ہے کیا؟"زارون نے کہا۔
"کان تو نہیں لیکن یقیناً تیرا سر پھاڑنے کا ارادہ ضرور رکھتا ہوں"ایک ایک لفظ چبا کر اُس نے ادا کیا جس پر زارون دھیرے سے مسکرا دیا۔
"زارون تو کہہ رہا ہے کہ تو مذاق کر رہا تھا یا میں سچ میں تیرا سر پھاڑنے کا بندوبست کر لوں؟"اب کی بار احان سنجیدگی سے کہنے لگا۔
"ریلیکس برو! میں کوئی انوکھا کام تھوڑی نہ کر رہا ہوں سب کرتے ہیں جوب!!"زارون نے سادہ سے انداز میں کہا۔
"جانتا ہوں کرتے ہیں لوگ جوب لیکن مجبوری کی تحت! اپنی فیکٹریوں کو چھوڑ کر ادھر اُدھر ٹھوکریں نہیں کھاتے پھرتے"
"تمہیں کس نے کہا صرف لوگ مجبوری کے تحت ہی جوب کرتے ہیں؟کچھ کا یہ شوق بھی ہوتا ہے"
"اوہ ریئلی؟"احان نے اپنی بھنوؤں کو اچکاتے سوال کیا "ایکسکیوز می!!"پھر اشارہ کر کے ویٹر کو بلایا۔
"آپ یہاں کیوں جوب کرتے ہیں؟"اُس نے عجیب سے انداز میں سوال کیا جبکہ ویٹر حیرانگی سے اُسے تکنے لگا۔
"میں آپ ہی سے سوال کر رہا ہوں آپ یہاں کیوں نوکری کرتے ہیں؟"اب کی بار پھر سے احان نے سوال کیا جبکہ لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا۔
"احان۔۔۔۔!"زارون نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ سن ہی کہاں رہا تھا اس کی۔
"جب کھانے پینے کو کچھ نہ ہو تو کام کرنا پڑتا ہے سر!!"ویٹر نے جواب دیا جس پر احان نے گہری نظروں سے زارون کی جانب دیکھا۔اُس کو مزید وہاں بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا،سو اٹھا اور باہر کی جانب بڑھ گیا۔زارون نے جلدی سے ویٹر کو بل پے کیا اور اُس کے پیچھے گیا۔
"احان یار میری بات تو سن!!"اُس نے اُس کا بازو پکڑ کر روکا اور اپنے سامنے کیا۔"تو ایسے ہی اتنا خفا ہورہا ہے۔۔"
"اچھا میں ایسے ہی خفا ہو رہا ہوں؟ٹھیک ہے۔۔"وہ اپنے جبڑے بھینچ گیا۔
"اس میں غلط کیا ہے۔۔۔۔"
"غلط۔۔۔زارون جوب کرنا غلط نہیں ہے لیکن جب سب کچھ ہے تیرے پاس تو اس سب کی کیا ضرورت ہے؟چاچو بابا بھائی کسی کو معلوم ہوا کہ تو اپنا کام چھوڑ کر جوب کر رہا ہے تو تو جانتا ہے وہ کیسا محسوس کریں گے؟اُن کا ردِ عمل کیا ہوگا؟دادا سائیں نے تُجھے غصے سے گھر سے نکال دیا تو اس سب میں باقی سب کا کیا قصور جو تو یہ سب کر رہا ہے؟"احان گفتگو کو کسی اور رخ موڑ رہا تھا۔
"اس سب میں اس سب کہ کیا تعلق!؟"
"تعلق ہے زارون! اس سب کا تعلق ہے لیکن تو نہیں سمجھے گا!"احان نے افسوس سے کہا جبکہ اُس کا دل زارون کی جوب کی بات سے قدرے برا ہوا تھا۔وہ واپس جانے کے لیے پلٹا جب زارون نے ایک بار پھر سے اُسے مخاطب کیا۔
"میں یہ جوب چھوڑ دوں گا"اُس کے یہ کہنے اور احان فوراً پلٹا اُس کے تاثرات فوراً سے تبدیل ہوئے تھے۔
"لیکن دو مہینے کے لیے مجھے یہ کام کرنا ہوگا کیوں کہ میں کنٹریکٹ سائن کر چکا ہوں"زارون نے وضاحت دی جس پر احان گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
"میں جانتا ہوں کہ ہمارے پاس الحمدُللہ سب کچھ ہے لیکن میں اگر اپنی ہی فیکٹری میں کام کروں گا تو کوئی مجھے کچھ نہیں کہے گا میں اگر غلط کام بھی کروں گا تو سب مالک جان کر سمجھانا ترک کر دیں گے اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا۔اسی لیے جوب کر کے میں ایکسپیرینس (تجربہ) حاصل کرنا چاہتا ہوں۔غلطیوں کو نکھارنا چاہتا ہوں"
"تو تو یہ کہہ نا کہ تجھے عزت راس نہیں ہے۔میں سب سے کہہ دوں گا کہ تجھے ملازموں کی طرح ٹریٹ کریں"احان نے سنجیدگی سے کہا جس پر زارون قہقہ لگایا کر ہنس دیا۔اُسے ہنستا دیکھ کر احان بھی مسکرا دیا۔
"دو مہینے کا مطلب دو مہینے ہی۔۔۔۔مائنڈ اٹ!!"احان نے انگلی دکھائے اُسے وارن کیا۔
"اب میرے شوق کی بھی معافی جو وہ ایسے شوق پالے۔۔۔"زارون نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا۔
"گڈ!! اچھی بات ہے تم سمجھ گئے!"احان نے اُس کے کندھے کو تھپکی دی۔
"اب تو تیرا موڈ خراب نہیں ہے نہ!؟"زارون نے اُس کا موڈ سہی دیکھ کی سوال کیا۔
"خراب تو ہے لیکن کوئی نہیں۔اور ہاں تو یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں دو مہینے کا وقت ہے تیرے پاس۔جتنا ایکسپیرینس حاصل کرنا ہے کر لے اس کے بعد تیری ایک نہیں چلے گی"احان نے پھر سے سنجیدگی سے کہا۔
"اوکے بوس!!"زارون نے دھیرے سے سر کو خم دیا اور احان مسکرا دیا۔
"اب میں چلتا ہوں!"احان نے کہا اور گاڑی کا لاک کھولنے لگا۔
"دو مہینے مطلب دو مہینے ہی"جاتے جاتے بھی وہ اُسے یاد کروانا نہیں بھولا تھا۔
"اچھے میرے باپ اب تو لگتا ہے خواب میں بھی دو مہینے کی گونج سنائی دے گی"زارون میں جھنجھلا کر کہا جس پر احان ہنس دیا۔
"اچھی بات ہے۔ایسی باتیں جیتے جاگتے بھی بھولنے نہ پائیں"احان نے ہنستے ہوئے اپنی آنکھ دبائی۔
"یہ دیکھ ہاتھ جوڑتا ہوں۔اب نکل یہاں سے ورنہ دو مہینوں سے پہلے ہی میں نے پاگل ہوجانا ہے"زارون نے اپنے ہاتھ جوڑتے کہا۔احان مسکرا دیا اور گاڑی آگے دوڑا لے گیا۔زارون نے اپنا سر جھٹکا اور اپنی گاڑی میں بیٹھا ارادہ اُس کا اپارٹمنٹ جانے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور کسی نے بھی اُسے روشن کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
وہ لاؤنج میں بیٹھا تھا اور کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا۔ذہن جانے کن سوچوں میں گم تھا۔دروازہ دھیرے سے بجا لیکن تالا نہیں لگایا گیا تھا،سو باہر جو بھی تھا دروازہ کھول کر اندر آگیا لیکن گھپ اندھیرا دیکھ کر چونکا۔
اُس نے فوراً سے لائٹس آن کیں اور اُسے یوں بےسدھ سا صوفے پر بیٹھا دیکھ کر ٹھٹھکا۔
"راحم! یار یہ۔۔یہ سب کیا ہے؟"اُس نے حیرانی،پریشانی و سنجیدگی کے ملے جلے تاثرات سے سوال کیا۔اُس نے اپنی لال ہوئی آنکھیں اٹھائیں اور اُس کی جانب دیکھا اور پھر اسی جگہ دیکھنے لگا۔
"راحم! پلیز یار!! مت کر اپنے ساتھ یہ سب! انکل اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور اگر وہ تجھ سے ناراض تھے،تھے تو باپ ہی اور کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد کو اس حالت میں دیکھ کیا سوچ بھی نہیں سکتا! تو تو کیوں یہ سب کر رہا ہے؟خود کو اذیت پہنچانے سے اور یوں رت جگہ کرنے سے انکل واپس تو نہیں آ جائیں گے؟پلیز خود کو سمبھال!"علی اُسے سمجھانے لگا۔
"میں اسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں جس سے میرے ڈیڈ نے کہا تھا۔شاید اس طرح جو میرے دل پر بوجھ سا ہے وہ ہٹ جائے؟"
"راحم! تو کیا کہہ رہا ہے؟"
"ہاں علی! میں اسی لڑکی سے شادی کروں گا چاہے اُس کے لیے مجھے حیات انکل کے پاؤں بھی کیوں نہ پکڑنے پڑیں"
"اور تُجھے کیا لگتا ہے وہ بخوشی یہ سب کرنے سے تیرا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں تھما دیں گے؟اُس سب کو بھول جائیں گے جو نکاح والے دن ہوا تھا؟"علی نے سوال کیا جس پر راحم بس خاموش رہا۔"دیکھا اس کا جواب تیرے پاس بھی نہیں ہے۔یہ سب کہنا ہی آسان ہے ورنہ بہت مشکل ہے۔۔"علی نے گہرا سانس بھرا۔اُسے اب سہی معنی میں راحم کی یہ حالت دیکھ کر خود پر طیش آرہا تھا۔نہ اُس دِن یونیورسٹی میں وہ سب ہوا ہوتا اور نہ ہے آج راحم کی یہ حالت ہوتی۔
راحم غفور صاحب کی اکلوتی اولاد تھا۔ان کی بیگم کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد غفور صاحب ہی اس کے ماں اور باپ دونوں کا کردار نبھا رہے تھے۔ان کی بیجا محبت اور توجہ نے اُسے کبھی اس کی ماں کی کمی کا احساس نہیں دلایا تھا۔اور یہی وجہ تھی کہ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔لیکن کچھ عرصے سے وہ کچھ باتیں غفور صاحب سے چھپانے لگا اور ان میں ڈرگز لینا بھی شامل تھا۔
علی کافی دیر وہاں بیٹھا اُسے تسلیاں دیتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مصطفیٰ صاحب! آپ نے بابا سائیں سے بات کی؟"زینب بیگم نے مصطفیٰ صاحب سے سوال کیا۔
"بہت بار کوشش کی ہے زینب لیکن بابا سائیں ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں"مصطفیٰ صاحب نے افسوس سے کہا۔زینب بیگم گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔
"زارون بابا سائیں کا سب سے لاڈلا بچہ ہے سب جانتے ہیں لیکن بابا سائیں تو اُس کے معاملے میں بھی اتنے سخت ہیں"زینب بیگم افسوس سے کہہ رہی تھیں۔
"زینب تم بھی جانتی ہو بابا سائیں نے سب کے لیے ایک ہی اصول بنا رکھے ہیں۔چاہے وہ لاڈلا ہی کیوں نہ ہو!"
"آپ کو چاہیے تھا جب بابا سائیں اُس وقت مسی کے لیے زارون کی بات کر رہے تھے تو تب ہی انکار کر دیتے تو آج یہ سب نہ ہوتا"
"یہ کیسی باتیں کر رہی ہو زینب؟بابا سائیں کو انکار کیسے کر سکتا تھا میں؟"مصطفیٰ صاحب نے چونک کر کہا جبکہ زینب بیگم خاموش ہو گئیں۔باہر زارا جو کسی کام سے آئی تھی اُس کے قدم وہیں منجمد ہو گئے۔
"میں اُس وقت خاموش اسی لیے تھا کہ بچوں کی مرضی سے سارا فیصلہ کیا جائے لیکن بابا سائیں کے سامنے انکار مجھ سے نہیں ہو پایا تھا۔۔۔"
"مصطفیٰ صاحب!! اب کا سوچیں! زارون کو اس گھر سے نکالے مہینے سے زیادہ بیت چکا ہے۔بابا سائیں کا غُصہ کیوں نہیں کم ہورہاہے؟مجھے لگتا ہے سزا کے طور پر اتنا کافی ہے"زینب بیگم نے کہ جبکہ مصطفیٰ صاحب بس خاموش ہی رہے۔
زارا جیسے آئے تھے ویسے ہی خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔اب وہ ساری کنڈلیاں آپس میں جوڑنے لگی۔کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ اُسے سمجھ آنے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مسی آپی مجھے نیند نہیں آرہی میں کیا کروں؟"زارا جو کافی دیر سے سونے کی کوشش کر رہی تھی جھنجھلا کر بولی۔میسرہ ہنس دی اور اپنا فون سائڈ پر رکھا کر مکمل طور پر اُس کی جانب متوجہ ہو گئی۔
"ہمم نیند نہیں آرہی؟امم کیا کیا جائے جس سے میری گڑیا کو نیند آجائے؟"مسی نے سوچتے ہوئے کہا۔زارا فوراً سے اٹھ بیٹھی۔
"آپی ایک بات پوچھوں؟"اُس نے سوال کیا۔
"ہاں پوچھو؟"
"زارون بھائی کہاں ہیں؟مطلب اتنے دن ہوگئے وہ گھر ہی نہیں آتے؟"زارا نے سوال کیا جس پر مسیرۃ گڑبڑائی۔
"وہ۔۔۔اکچلي!! تم چھوڑو نہ زارا اس سب کو"مسی نے بات بدلنا چاہی۔
"آپی۔۔۔"زارا نے کہا اور پل بھر کو خاموش ہوئی۔"کیا آپ جانتے ہیں دادا سائیں نے زارون بھائی کو گھر سے کس کے لیے نکالا ہے؟"زارا کا لہجہ قدرے سنجیدہ تھا جبکہ مسی نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا۔زارا یہ سب کیسے جانتی تھی جبکہ اُسے اس سب سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
"وہ لڑکی کون تھی جس سے دادا سائیں زارون بھائی کی شادی کرنا چاہتے تھے؟"زارا نے ایک بار پھر سے سوال کیا۔
"زارا ی۔۔یہ تم کیا کہے جا رہی ہو؟اور تمہیں یہ سب کس نے کہا ہے کہ زارون کو دادا سائیں نے گھر سے نکالا ہے اور لڑکی۔۔۔"
"کیونکہ آپی میں سب سن چکی ہوں۔شام میں بابا اور امی بات کر رہے تھے تو میں نے سن لی تھی۔۔۔"
"کون ہے وہ لڑکی؟"مسی کو کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔
"وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ آپ ہیں مسیرۃ آپی۔"زارا کا یہ کہنا تھا کہ مسیرہ کی آنکھیں حیرت کے مارے پوری کی پوری خوشادہ ہو گئیں۔
"ت۔۔۔تم کیا کہہ رہی ہو؟"
"آپی میں نے خود سنا ہے۔میں جھوٹ نہیں بول رہی۔آپ جانتی ہیں میں جھوٹ نہیں بولتی۔۔"
"اوہ گاڈ!! اتنا سب۔۔یہ میری وجہ سے ہورہاہے؟؟"اُسے یقین نہیں آرہا تھا۔وہ بستر سے اٹھی۔
"آپی آپ کہاں جا رہی ہیں؟"زارا نے اُسے اٹھتا دیکھ کر سوال کیا۔جبکہ وہ بغیر جواب دیے کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی مصطفیٰ صاحب کے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ کب ایک آنسو بار توڑ کر گال پر گر گیا۔احان جو یونہی باہر لاؤنج میں بیٹھا تھا اُسے یوں دیکھ کر پریشان ہوا۔
"مسی کیا ہوا ہے تمہیں؟تم رو کیوں رہی ہو؟"اُس نے فوراً سے اُس کی جانب بڑھتے سوال کیا۔
"نہیں۔۔کچھ بھی تو نہیں۔۔۔"اُس نے فوراً سے اپنے آنسو صاف کیے۔
"مسیرا!! سچ سچ بتاؤ۔۔۔"
"کہا نہ کچھ نہیں ہوا ہے تو کچھ نہیں ہوا۔۔۔"اب کی بار مسیرۃ کا لہجہ تھوڑا اونچا ہوا تھا جبکہ احان چونکا۔ان میں سے کوئی بھی آپس میں اس طرح کا لہجہ استعمال نہیں کرتے تھے۔
"آئی ایم سوری! آئی لٹرلی ایم!!"مسی کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ شرمندہ ہوئی۔اور اُس کی سائڈ سے ہوتی مصطفیٰ صاحب کے کمرے میں داخل ہو گئی جبکہ پیچھے احان یونہی کھڑا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)
Fantasyمراسمِ دل کہانی ہے دل سے بنے رشتوں کی اور ضروری نہیں تمام رشتے ناطے صرف خونی ہوں بعض اوقات دل سے بنے ہوئے رشتے بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔