مانا کہ کوئی تم سا نہیں__!
گل نے ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھا تو نظر اُس کی ڈیکوریشن پیس کی جانب اٹھی جہاں بجھا ہوا سگریٹ پڑا ہوا تھا۔اُسے لگا ابھی زمین پھٹے گی اور وہ اُس میں سما جائے گی۔
زوبیہ بیگم تھوڑی پریشان ہوئیں۔
"گل! بیٹا یہ سب؟یہ سب کیا ہے؟"انہوں نے اپنی پریشانی کو الفاظ کا روپ دیا۔
"و۔۔۔وہ موم۔۔۔"اس سے پہلے وہ کچھ کہتی حیات صاحب نے زوبیہ بیگم کو آواز دی۔
"اس سب کے بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے"وہ اُسے کہے کمرے سے باہر نکل گئیں جبکہ وہ حیران پریشان ابھی بھی اسی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔وہ فوراً ڈیکوریشن پیس کی جانب بڑھی اور ایش کو باسکٹ میں پھینکنے لگی۔
اُس کے ذہن میں بھلا رات کو یہ خیال کیوں نہیں آیا تھا۔اُسے خود پر غُصہ آیا اور ساتھ میں زارون پر بھی۔
خود کو پرسکون کرتے وہ فریش ہونے باتھروم کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسی احان اور میرہ اس وقت اپارٹمنٹ میں موجود تھے جہاں زارون رہ رہا تھا۔وہ تینوں پریشانی سے بیٹھے زارون کو تک رہے تھے جو سکون سے بیٹھا مگ سے کافی کے گھونٹ بھر رہا تھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو تم لوگ؟میں نے بولا تھا کہ تم لوگوں کے لیے بھی بنا دیتا ہوں لیکن تم نے منع کر دیا تھا"زارون کہنے لگا۔
"تمہیں اس وقت مذاق سوجھ رہا ہے؟دکھائی نہیں دے رہا کتنے پریشان ہیں ہم؟"مسی غصے سے کہنے لگی۔
"ریلیکس! پریشان کیوں ہو ویسے تم؟سب خیر تو ہے؟"
"زارون۔۔۔!!!!"اُس نے غصے سے کہا جس پر زارون خاموش ہوگیا۔
"ویسے بندہ تم سے پوچھے کہ کیا ملا یہ سب اتنی جلد بازی دکھانے سے؟پیپرز کے بعد تم دادا سائیں سے بات کرتے اُنہیں سمجھاتے تو وہ مان جاتے بات یہاں تک پہنچتی ہی نہ.."مسی کا غُصہ گھٹنے کو نہیں آرہا تھا۔
"میں نے دادا سائیں سے بات کی تھی انفیکٹ اُنہیں منانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ نہیں مانے"زارون بھی اب کی بار سنجیدہ ہوا تھا۔
"زارون میں یہی کہہ رہی ہوں کہ اُنہیں وقت چاہئے تھا اس سب کے لیے لیکن تم نے کافی جلد بازی دکھائی ہے۔۔۔"
"مسیرا مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی جب گل ہمارے ساتھ گئی تھی،گھر پر رہی تھی تب تو دادا سائیں کو اس سب میں کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن میری اُس سے شادی پر وہ کیوں اتنا خفا ہورہے ہیں؟"
"زارون! بات شادی کرنے یا خفا ہونے کی نہیں ہے بات بس دادا سائیں کی زبان کی ہے۔اور دادا سائیں کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ اُن کے حکم کو نہ مانا جائے۔اور تو اور ان کے خفا ہونے کا جواز یہ ہے کہ وہ اس لڑکی کے پرنٹس سے کہہ چکے تھے تمہارے رشتے کا۔۔۔"وہ بس اُسے قائل کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ واپس آجائے بغیر اس سب کا علم کیے کہ وہ لڑکی وہ خود تھی۔
"اور اگر میں کہوں کے اُس لڑکی کے باپ نے بھی میرا گل سے نکاح کروانے میں ساتھ دیا ہے تو؟"زارون نے سوال کیا جس پر مسيرا بس اُسے دیکھے گئی۔
"بھائی گل کیسی ہے؟"میرہ نے زارون سے سوال کیا جس پر زارون اُس کی جانب دیکھے گئے۔
وہ کیسی ہے اُس کا تو اُسے بھی نہیں معلوم تھا۔وہ کیا محسوس کر رہی ہے؟حتیٰ کے زارون کو بھی قبول کر پارہی ہے یا نہیں۔
"زارون!؟"
"ہاں وہ ٹھیک ہے"زارون مسکرایا۔
"کیا ہم اُس سے ملنے کا سکتے ہیں؟"میرہ نے ایک اور سوال کیا۔
"میرہ میرے خیال سے جب تک گھر میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہو جاتا ہم میں سے کی کو اُس سے نہیں ملنا چاہیے"زارون کی بجائے احان نے جواب دیا۔
"لیکن احان بھائی گل کیا سوچے گی؟اُس کے پرنٹس بھی؟زارون بھائی کے نکاح کے بعد نہ ہی امی گئی تھیں اُدھر اور نہ ہی کوئی اور"
"میری ایک بات سمجھ نہیں آرہی گل کے ڈیڈ اور موم کیسے مان گئے اس سب کے لیے؟مطلب اتنی جلدی بغیر کوئی سوال جواب کیے انہوں نے حامی بھر دی رشتے کے لیے؟"واقعی یہ بات تو سوچنے والی تھی۔
"سچویشن ہی کچھ ایسی تھی۔ڈیڈ نے گل کے ڈیڈ سے بات کر لی تھی اس متعلق اور یہ بھی کہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے پر وہ آئیں گے اور پھر دھوم دھام سے تمام فنکشنز کر لیں گے"زارون نے جواب دیا۔
"لیکن زارون یہ نکاح؟نکاح ضروری تھا؟"
"مسیرا نکاح سب سے بہترین عمل تھا۔اب اگر کل کلاں کو دادا سائیں اس رشتے کو نہ مانتے تو پھر کیا ہوتا؟اب یہ نکاح میری طاقت بن گئی ہے میں کم از کم خود کو اس کے ذریعے ڈیفینڈ تو کر سکوں گا"
"یہ بھی ٹھیک ہے لیکن زارون۔۔۔۔"پل بھر کو مسی خاموش ہوئی"پکی بات ہے نا کہ تم نے گل سے نکاح اپنی پسندیدگی کی وجہ سے ہی کیا ہے۔۔۔۔"
"مسی یہ تم کیا کہہ رہی ہو تمہیں کچھ اندازہ ہے؟تم مجھے ایسا لڑکا سمجھتی ہو؟"زارون کی پیشانی پر شکنیں در آئیں اور لہجے میں بیزاری و حیرانی واضع تھی۔
"نہیں زارون میرا کہنے کہ یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔آئی سویر!! لیکن مجھے اس سب کے بلکل سمجھ نہیں آرہی پہلے تم اس واقعے کے بعد گل کو قصور وار ٹہرا رہے تھے اور اب تم۔۔۔۔"
"میں مانتا ہوں میں نے یہ سب کہا تھا لیکن اس سب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں نے کسی مقصد کے تحت اُس سے نکاح کیا ہے؟پسند کرتا ہوں میں اُسے اور اس وقت میں غصے میں تھا میں نے گل کے متعلق وہ الفاظ بول دیے تھے۔۔۔"اُس نے جھنجھلا کر کہا۔وہ سب اس کے بارے میں کیا سوچتے تھے؟کمرے میں مکمل طور پر خاموشی چھا گئی۔
"اچھا بھائی آپ گھر کب آرہے ہیں واپس؟"میرہ نے ماحول کو ہلکا کرنے کی خاطر سوال کیا۔
"ابھی مجھے ایک دن نہیں ہوا یہاں آئے ہوئے اور تم سوال پوچھ رہی ہو"زارون ہنسا۔
"میں سیریس ہوں بھائی"اب کی بار زارون اُس کی جانب دیکھنے لگا۔
"جب تک سب ٹھیک نہیں ہوجاتا دادا سائیں اپنی ضد سے ہٹ نہیں جاتے تب تک میں نہیں آسکتا۔میں بھی دادا سائیں کو زبان دے چکا ہوں اور میں ہرگز اپنی زبان سے نہیں پھروں گا"
"افف میں ایسے ہی تو نہیں کہتا تجھ میں سہی میں دادا سائیں کا خون دوڑتا ہے"احان نے اپنا سر نفی میں ہلاتے کہا جس پر زارون مسکرایا اور اپنی تعریف کو دل سے قبول کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحم مسلسل ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا جبکہ پریشانی اُس کی اُس کے چہرے سے عیاں ہورہی تھی۔
غفور صاحب کی خیریت کی ابھی کوئی خبر نہیں ملی تھی عجیب سی کیفیت اُس پر طاری تھی۔
وقت جیسے تھم سا گیا تھا اور گزارنا کسی اذیت سے کم تر نہ تھا۔
مزید وقت سرکنے کے بعد آخر ڈاکٹر آیا اور اُس نے جو الفاظ کہے گویا وہ کسی صور کے پھونکنے سے کم تر نہ تھے۔یہ سب کیا ہوگیا تھا؟یوں اچانک یہ سب؟اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا وہ ناسمجھی سے جہاں کا تحاں کھڑا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خوبصورت دن گزارنے کے بعد رات کے پہر وہ لوگ گھر لوٹے تھے۔ڈنر بھی انہوں نے باہر ہی کیا تھا۔گل خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔حیات صاحب آتے ہی اپنے کمرے میں جا چکے تھے جبکہ وہ لاؤنج میں صوفے پر سکون سے بیٹھی تھی۔
زوبیہ بیگم اپنے کمرے میں گئی کپڑے تبدیل کرنے گئی تھیں۔
گل کا فون بجنے لگا۔میرہ کا نام دیکھ کر اُس نے فون اٹھا لیا اور کان کے ساتھ لگایا دوسری جانب سے میرہ کی پرشوخ آواز گونجی۔
"میں تمہیں کب سے کال کر رہی ہوں اور تم ہو کہ اٹھانے کو نہیں آرہی؟"
"معاف کرنا میرا فون سائلنٹ پر تھا تو پتہ نہیں چلا"گل نے شرمندگی سے کہا۔
"چلو کوئی بات نہیں معاف کی تمہاری خطا"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا"خیر یہ بتاؤ کیا کر رہی تھیں تم؟"
"ابھی گھر آئی تھی ڈیڈ اور موم کے ساتھ آج کا ڈن باہر سپیڈ کیا تھا"
"اوہ واؤ! مطلب خوب انجوائے ہورہے ہیں"میرہ مسکرائی جس پر گل بھی مسکرا دی۔اس کے بعد میرہ نے اُس سے مزید ادھر اُدھر کی باتیں کیں لیکن نکاح یا اس متعلق اس سے کوئی ذکر نہیں کیا اور پھر کال کاٹ دی۔گل نے فون ٹیبل پر رکھا اور صوفے کی پشت سے اپنا سر ٹکائے آنکھیں موند گئی۔
اپنے سر میں انگلیوں کی حرکت محسوس کر کے اُس نے آنکھیں کھولیں۔
"موم آئیے بیٹھیے!"وہ سائڈ پر ہوئی اور اُنہیں بیٹھنے کی جگہ دی۔زوبیہ بیگم اُس کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
"کس کی کال تھی؟"
"میرہ کی"اُس نے جواب دیا اور خاموش ہو گئی۔
"ہمم تم جانتی ہو میں یہاں تم سے کیاپوچھنے والی ہوں"انہوں نے صبح والے قصے کی طرف روشنی ڈالی تو گل نظریں چرا گئی۔
"موم۔۔۔میں نے نہیں بلایا تھا لیکن وہ خود ہی آگئے تھے۔۔۔"اُس کی آنکھوں میں نمی در آئی۔
"بیٹا اس میں رونے کی کیا بات ہے؟میں تو بس تم سے وضاحت مانگ رہی تھی کہ وہ کہاں سے آیا۔"اشارہ ان کہ ایش کی جانب تھا۔انہوں نے اُسے اپنے ساتھ لگایا۔
"خیر چھوڑو! یونیورسٹی دوبارہ سے کب جوائن کر رہی ہو؟"انہوں نے موضوع بدلا۔گل سیدھی ہوئی اور اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کرنے لگی۔
"پیپرز ہونے والے ہیں ابھی تو تب ہی جاؤں گی"اُس نے دھیرے سے جواب دیا۔
"تمہارے ڈیڈ بھی یہی پوچھ رہے تھے"انہوں نے کہا جس پر وہ خاموش ہو گئی۔
مزید بتائیں کرنے کے بعد وہ اٹھیں اور اُسے بھی کا کر سونے کا کہے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تیزی سے گزر رہے تھے اور پھر وہ دن بھی آگئے جب پیپرز شروع ہو چکے۔
سب بچے کتابوں میں سر ڈالے پڑھنے میں مصروف تھے جیسے سارے کا سارا ان چند منٹوں میں ہی حفظ کر لیں گے۔
وہ بھی بک پکڑے اُسے ادھر اُدھر پلٹ رہی تھی جب وہ چاروں چلتے اس تک آئے۔اُس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو نظریں سامنے اُس سے جا ملیں جو اُسے ہی دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔اُس نے فوراً اپنی نظریں پھیر لیں۔
باقی تینوں بھی نارمل انداز میں اُس سے ملے تھے۔جیسے سب کچھ پہلے جیسا ہی ہو عام،ایک جیسا۔
چند ایک باتیں کرنے کے بعد وہ اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گئے اور اُن کے جاتے ہی زارون ایک دم سے اُس کے سامنے آیا۔
گل نے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔اُس نے اپنے پیچھے چھپا ہوا ہاتھ آگے کیا اور ایک خوبصورت مہکتا گلاب اُس کے سامنے کیا۔جانے کہاں سے اور کب وہ یہ گلاب توڑ لایا تھا۔
"یہ تمہارے لیے!!"اُس نے دھیری سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جبکہ گل نے پہلے اُسے اور پھر ہاتھ میں پکڑے گلاب کو دیکھا اور پھر ایک نظر باقی کے سٹوڈنٹس پر ڈالی جو اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے اور گل کو ان کی نظریں خود کے اندر تک گڑھتی محسوس ہوئیں۔نظروں میں بہت سے سوال،اور جانے کیا کچھ پوشیدہ تھا۔
وہ فوراً نظریں چرا گئی اور خود کو رونے سے روکنے کی کوشش کرنے لگی۔
"کیا ہوا تمہیں گلاب پسند نہیں ہے؟"زارون نے پریشانی سے سوال کیا جس پر گل نے اپنی نم آنکھیں اٹھائیں اور اُسے دیکھا لیکن دوبارہ نظریں جھکا گئی۔
"آئی ایم سوری مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہیں گلاب پسند نہیں ہیں"اور وہ اُس کے اس طرح ردِ عمل کو اپنی غلطی سمجھ رہا تھا۔
گل نے فوراً نفی میں سر ہلایا اور گلاب تھام لیا۔
"تھینک یو"دھیرے سے کہے وہ نظریں چرا گئی۔زارون مسکرایا اور واپس چل دیا۔گل نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا لیکن فوراً ہی نظریں اُس پر سے ہٹا لیں۔دل عجیب وسوسوں اور خوف سے بھرنے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھابھی! میری سمجھ میں نہیں آرہا بابا سائیں کو ہم کس طرح منائیں؟اب تو اُس کا نکاح ہو چکا اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟"عائشہ بیگم مریم بیگم سے مخاطب تھیں ساتھ میں زینب بیگم بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔
"عائشہ یہ سب آسان نہیں ہے۔بابا سائیں جب ایک بات کہہ دیں تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے۔۔۔"
"لیکن۔۔۔۔"
"بہو! اس نے غلطی کی ہے اور اُسے سزا کے طور پر گھر سے نکالا گیا ہے۔"دادا سائیں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔وہ ابھی اپنے کمرے سے باہر آئے تھے۔
"معاف کیجیۓ گا بابا سائیں! لیکن کیا آپ اُسے معاف نہیں کر سکتے؟اُس کا گناہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اُسے اُس کے خاندان سے دور رکھنے کی اتنی بڑی سزا آپ نے سنا دی"ماں تھیں اُس کے حق میں کہنے لگیں۔وہ خاموش ہی رہے جبکہ پیشانی پر شکنیں واضع تھیں۔
"آپ اُسے معاف کر دیں"ایک اور التجا لیکن دادا سائیں کو فرق تک نہ پڑا۔
"مریم بہو میرے کمرے میں چائے بھجوا دو"کہے وہ رکے نہیں بلکہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔عائشہ بیگم نے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کی۔زینب بیگم اُنہیں تسلی دینے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی حالت بہت غیر تھی۔وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اُس کے ساتھ ہو کیا گیا ہے؟اب بھی وہ کلب میں کرسی پر بیٹھا تھا۔بازو اُس نے ٹیبل کے گرد رکھے ہوئے تھے اور سے جھکایا ہوا تھا جبکہ چہرہ،بغیر کسی تاثر کے۔
"راحم! سمبھال یار خود کو ایسا کیسے چلے گا؟"علی کب سے بیٹھا اُسے تسلی دے رہا تھا بلکہ آج نہیں وہ روزانہ ہی اُسے سمجھاتا لیکن وہ بلکل دھیان نہ دیتا۔
"بابا چلے گئے مجھے چھوڑ کر علی! اس سب میں ان کا کیا قصور تھا جو اُنہیں۔۔۔۔"جملہ اُس نے ادھورا چھوڑ دیا جبکہ اُس کے الفاظ میں چھپا درد علی محسوس کر چکا تھا۔
"یہ سب کچھ اُس لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے۔نہ بابا اُس سے میرا رشتہ طے کرتے نہ مجھے اُس کی سچائی کا علم ہوتا اور نہ ہی آج بابا مجھے چھوڑ کر جاتے۔۔"
"م۔۔۔مجھے معاف کر دے راحم یہ سب۔۔یہ سب میری وجہ سے۔۔۔"
"تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا علی! تم بلکل بھی قصور وار نہیں ہو اس سب میں۔میں ہی بہت برا تھا جو اپنے باپ کی خواہش کا پاس نہ رکھ سکا۔اور مجھے نہ مان کر بھی کیا ملا؟کچھ بھی نہیں آخری وقت میں بابا مجھ سے ناراض تھے علی۔میں کیسے بھلا اس سب کے بعد اب سکون سے جی پاؤں گا؟"اُس نے نظریں اٹھا کر علی کی جانب دیکھا۔
"راحم!"علی نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھے اُسے تسلی دینا چاہی۔"ایسے حوصلا تو مت ہارو!"علی سے اُس کی یہ حالت برداشت نہیں ہورہی تھی۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دنیا ہلا کر رکھ دے۔
راحم نے اُس کی جانب دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر کلب سے باہر نکل گیا۔
اعلی بس گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔اُسے اب اپنی غلطی کا اندازہ اچھے سے ہو رہا تھا۔اسے کیا معلوم تھا کہ وہ لڑکی راحم کی ہونے والے بیوی تھی جس کے ساتھ اُس نے وہ سب کیا تھا۔نہ تب وہ ہوتا اور نہ آج راحم کی یہ حالت ہوتی اور نہ ہی آج علی کو یونیورسٹی سے سسپنڈکر دیا ہوتا۔
آخری بات پر اُس کی غصے سے رگیں تن گئیں۔
"اس بات کا حساب تو میں تم سے لوں گا زارون سکندر! کہیں کہ اس کو میں اپنے اوپر فرض کر چکا ہوں"نخوت سے سوچتے اُس نے گلاس اپنے لبوں سے لگا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ روزانہ اُس کے لیے ایک نیا پھول لاتا جسے وہ قبول کر لیتی اور یہ تسلسل تب تک چلا جب تک پیپرز ختم نہیں ہو گئے اور وہ ڈگری لیے یونیورسٹی کو خیر باد نہ کہہ چکا۔
آج کا دن،خوشی اور غم سے ملا ہوا تھا۔خوشی اس بات کی کہ وہ ڈگری حاصل کرنے والے تھے اور دکھ اس بات کا کہ جو حسین وقت انہوں نے یونیورسٹی میں بتایا تھا اور جو دورانیہ تھا آج کے دن ختم ہونے والا تھا۔
ڈگریاں ملیں،شور اٹھا،ٹوپیاں ہواؤں میں لہرائیں۔
اب یہاں سے نکلنے کے بعد ہر سٹوڈنٹ نے اپنی زندگی کا نیا باب شروع کرنا تھا۔جہ کچھ سیکھا اُسے اصل زندگی میں آزمانا تھا۔
کچھ مزید پڑھنے کہیں اور چلے جائیں گے،کچھ یہیں رہ کر اپنی عملی زندگی کی شروعات کریں گے اور کچھ اپنے گھر بسانے کے بارے میں سوچیں گے۔
اسی سب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُنہیں بھی اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنا تھا لیکن اس سب سے پہلے احان اور زارون کو مسی لوگوں کو ٹریٹ دینا تھی کون کہ میرہ اور مسی اُن کے سر پر پہنچی ٹریٹ کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
"ویسے تم لوگوں کو شرم تو نہیں آتی نہ؟دادا سائیں کے سخت آرڈرز کے باوجود پہلے تو تم زارون سے ملنے آتی ہو تقریباً ہر ایک دن بعد اوپر سے تم ٹریٹ کا کہ رہی ہو حالت جانتے بوجھتے ہوئے کہا کیا چل رہا ہے؟"احان نے اُن پر واضع طنز کیا۔
"او مسٹر! یہ زارون کا مسئلہ ہے تو بہتر ہوگا کہ تم دادا سائیں کے خود نبٹو!! مسی نے اپنا ہاتھ لہرا کر کہا "اور جہاں تک بات رہی ٹریٹ کی تو چاہے تم جتنا بھی ایموشنل بلیک میل کوین نہ کر کو وہ تو ہم لیں گے ہی کیوں میرہ!؟"
"ہاں مسی سہی کہہ رہی ہے اب آپ لوگ جلدی سے اپنی جیبیں ڈھیلی کریں اور اپنی جمع پونجی ہم پر نشاور کریں"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
"زارون یہ لوگ نہیں ٹالنے والیں!"احان نے زارون کے کان میں سرگوشی کی جس پر زارون نے اپنے کندھے اچکا دیے۔
"میں اس خوبصورت دن کو ہمیشہ سے اپنی پوری فیملی کے ساتھ سلیبریٹ کرنا چاہتا تھا"زارون نے گہرا سانس بھرے کہا۔جس اور باقی سب خاموش ہوگئے۔
"زارون یار آج گھر چل ہمارے،ہم سب کے گھر یقین کر چاچی کتنا یاد کرتی ہیں تُجھے اور گھر میں بھی جیسے خاموشی سی چھا چکی ہے۔"احان سنجیدگی سے کہنے لگا۔
"بھائی احان بھائی سہی کہہ رہے ہیں۔امی اکثر بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتی ہیں آپ بھی تو اُن کو اپنی خیر خیریت سے آگاہ نہیں کرتے ہیں"میرہ نے شکوہ کیا جس پر زارون اپنے سر میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
"تو مطلب کہ زارون گھر جا رہا ہے واؤ!!!"مسی نے خوش ہوتے کہا جس پر زارون فوراً بولا۔
"میں کہیں نہیں جا رہا۔میں جہاں ہوں وہیں سہی ہوں"لہجہ دو ٹوک تھا۔
"لیکن زار۔۔۔۔!!"
"مجھے کہیں جانا ہے میں چلتا ہوں"وہ کہتا اپارٹمنٹ سے باہر نکل گیا جبکہ اُن تینوں کی نظروں نے دور تک اُس کا پیچھا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی چیئر پر بیٹھے نیوز پیپر پڑھ رہے تھے۔ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی جب کمرے کا دروازہ نوک ہوا اور بچا پارٹی کمرے میں داخل ہوئی۔
اُن سب کو اندر آتا دیکھ کر دادا سائیں نے اخبار سائڈ پر رکھا اور اُن کی جانب متوجہ ہو گئے۔
وہ چلتے آئے اور زمین پر سامنے بیٹھ گئے۔یہ اُن کا انداز تھا دادا سائیں جب اپنے کمرے میں روکنگ چیئر پر بیٹھے ہوتے تو وہ سب آکر سامنے زمین پر کشنز اپنے ہاتھوں میں دبوچے بیٹھ جاتے جیسے ابھی دادا سائیں کوئی پریوں کی داستان سنانے لگے ہوں۔آج بھی سب ویسے ہی بیٹھے تھے اور اُن سب میں ایک بچے کی کمی تھی جسے اُن نے مہینہ ہونے والا تھا،تب سے نہیں دیکھا تھا۔
"خیر ہے آج کیسے تمہیں اپنے اس بوڑھے دادا کی یاد آگئی؟"دادا سائیں بظاھر خود کو نارمل رکھتے ہوئے سوال کرنے لگے۔الفاظ اُنہیں شرم دلانے والے تھے کیوں کہ جب سے زارون والا واقعہ ہوا تھا بس تب سے بہت کم کم وہ دادا سائیں کے پاس آتے تھے۔
"دادا سائیں! آپ کو ہم کیسے بھول سکتے۔.۔؟؟"احمر نے معصومیت سے کہا۔
"اچھا جیسے مجھے تو معلوم نہیں"دادا سائیں طنزاً ہنسے۔احمر اپنا سر جھکا گیا۔
"بار بار گھڑی کی جانب کیوں دیکھ رہی ہو سب؟اگر جانا چاہتے ہو تو ابھی چلے جاؤں میں نہیں روکوں گا تمہیں!"دادا سائیں نے اُن کے بعد بار گھڑی کی جانب دیکھنے اور چوٹ کیا۔
"ارے دادا سائیں ایسی بات نہیں ہے۔اصل میں نہ ہم بارہ بجنے کے انتظار میں ہیں"زارا کا لہجہ معصومیت سے بھرا ہوا تھا۔
"اہاں! اب بارہ بجائے ایسا کیا خاص کام ہونا ہے جو تم سب کی ہی نظر بار بار گھڑی کی جانب اٹھ رہی ہے؟"وہ اب مشکوک نظروں سے اُس کی جانب دیکھ رہے تھے۔
"دادا سائیں قسمے ہم نے کسی کا قتل نہیں کیا اور نہ ہی ہم کسی کو اغواء کرنے کا پلان بنا رہے ہیں"اُن کے اس طرح مشکوک انداز میں دیکھنے پر احان کہے بنا نہ راہ سکا۔دراصل یہ سب کچھ ماحول کو خوشگوار کرنے کے لیے بھی تھا سب جانتے تھے کہ دادا سائیں بظاھر لاپرواہ بنے پھر رہے ہیں لیکن اصل میں انہیں بھی اس سب کہ دکھ ہے۔
"اچھا جی! لیکن شکلیں تو تم سب کی دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ یقیناً کسی کا قتل کر کے آئے ہو"دادا سائیں نے اپنی ہنسی روکتے کہا۔
"استغفراللہ!! دادا سائیں ہم آپ کو ایسے لگتے ہیں؟"میرہ نے آنکھیں پھیلائے حیرت سے سوال کیا جس پر دادا سائیں نے بڑے سکون سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"تم چاروں جب اکھٹے ہو نہ تم سے کسی بھی چیز کے اُمید کی جا سکتی ہے"دادا سائیں مسکرائے جس پر پل بھر کو خاموشی چھا گئی۔
دادا سائیں فوراً سے پہلے سنجیدہ ہوئے۔سب انہی کی جانب دیکھ رہے تھے۔
گھڑی نے بارہ بجائے تو بچے ہوش میں آئے اور اُن کی آواز کمرے میں گونج اٹھی۔
"ہپپی برتھ ڈے ٹو یو!! ہپپی برتھ ڈے ٹو یو!! ہپپی برتھ ڈے ڈیر دادا!! ہپپی برتھ ڈے ٹو یو!!!"اُن سب نے یک زباں ہو کر کہا اور تالیاں بجائیں۔تو دادا سائیں کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔
دروازہ کھلا اور بڑے ہاتھ میں کیک تھامے کمرے میں داخل ہوئے۔
دادا سائیں نے بظاھر "سرسری" سی نظر ادھر اُدھر دوڑائی۔
"دادا سائیں آجائیں کیک کاٹیں"مسی نے اُنہیں کہا تو وہ چلتے کمرے میں موجود ٹیبل اور صوفے کے سیٹ کی جانب آئے اور بیچ والے صوفے پر بیٹھ گئے۔کیک پر چلتی ہوئی موبتی بجھائی اور کیک کاٹا اور باری باری سب کو کھلایا۔
"بہت بہت شکریہ!!"اُن کی آنکھوں میں تشکر واضع تھا۔انہوں نے سب کو کہا تو سب مسکرا دیے۔سب کی مسکراہٹیں کھوکھلی تھیں،خالی تھیں حتیٰ کہ سب کا شکریہ ادا کرنے والے کی مسکراہٹ میں بھی کھوکھلا پن واضع تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)
Fantasyمراسمِ دل کہانی ہے دل سے بنے رشتوں کی اور ضروری نہیں تمام رشتے ناطے صرف خونی ہوں بعض اوقات دل سے بنے ہوئے رشتے بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔