قسط:۱۵

28 7 0
                                    

یارانہ پھر سے شاداب ہوا__!

"ہیلو!"اسپیکر پر اُس کی آواز گونجی۔
اور وہ جو اس کی آواز سننے کو بیتاب تھے سنتے ہی جیسے اُنہیں سکون ملا اور عائشہ بیگم کی آنکھیں تو اشک بار ہو گئیں۔دونوں جانب خاموشی چھا گئی۔لیکن خاموشی کو دادا سائیں کی بھاری آواز نے توڑا جو اُس سے مخاطب ہوئے تھے۔
"برخوردار! گھر کب لوٹ رہے ہو؟"الفاظ سے اُداسی محسوس ہو رہی تھی۔جبکہ دادا سائیں کی آواز سن کر وہ چند پل خاموش رہا
"د۔۔۔دادا سائیں آپ۔۔۔"
"تم تو ایسے غائب ہوئے کہ اپنے دادا کا حال تک نہ پوچھا!؟"دادا سائیں اُداس تھے۔
"دادا سائیں میں۔۔۔۔"
"بس برخوردار!! اب لوٹ آؤ گھر واپس۔۔۔"اور زارون یہ سن کر ساکت کھڑا رہا۔دوسری جانب سے لائن کٹ چکی تھی اور وہ کچھ دیر بس یونہی،خاموشی سے فون کو تکتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل اس وقت اپنے کمرے میں سوچوں میں گم بیٹھی تھی۔اُسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ دادا سائیں کیا کہنے آئے تھے لیکن جب وہ گھر آئی تھی تو حیات صاحب بھی گھر اور ہی تھے اور تب وہ زوبیہ بیگم سے نہیں پوچھ پائی تھی۔اب بھی وہ یہی سوچ رہی تھی جب زوبیہ بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
"کیا بات ہے سوئی نہیں ابھی تک؟"انہوں نے سوال کیا۔
"نہیں موم نیند نہیں آرہی تھی۔"اُس نے سادہ سے انداز میں جواب دیا۔"ممی۔۔۔"کچھ دیر خاموش بیٹھنے کے بعد اُس نے زوبیہ بیگم سے کہا "وہ صبح۔۔۔"اس نے ابھی یہی کہا تھا کہ زوبیہ بیگم اس کی بات سمجھ گئیں۔
"بیٹا زارون کے دادا کہہ رہے تھی خ وہ سب لوگ جلد آئیں گے شادی کی ڈیٹ فیکس کرنے"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ گل حیران ہوئی۔
مطلب دادا سائیں مان گئے تھے اس رشتے کے لیے؟
"اوہ اچھا!"وہ بس یہی کہہ پائی۔
"تمہارے ڈیڈ کو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی مجھے تو ہم نے اُنہیں کہا ہے کہ جب چاہیں وہ آسکتے ہیں"زوبیہ بیگم اُسے تفصیل بتا رہی تھیں۔اور وہ بس خاموش بیٹھی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب پلکیں دروازے پر بچھائے بیٹھے تھے۔رات کے بارہ بج رہے تھے لیکن وہ اب تک نہیں لوٹا تھا۔
"سکندر صاحب آپ اُسے فون کیجیۓ کہاں ہے؟آیا کیوں نہیں اب تک؟"عائشہ بیگم نے بے چینی سے سوال کیا جبکہ سکندر صاحب اُنہیں دیکھ کر مسکرا دیے۔
"بیگم انتظار کیجیۓ آرہا ہوگا"انہوں نے مسکراتے ہوئے اُنہیں تسلی دی۔
تبھی احان اینٹرنس سے اندر داخل ہوا اور اُس کے پیچھے زارون چلتا آرہا تھا۔
اُسے آتا دیکھ کر عائشہ بیگم بھاگ کر اُس کی جانب بڑھیں اور اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔جبکہ اُن کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر اُس کے بالوں میں جذب ہوئے تھے۔
وہ مسلسل اُسے چوم رہیں تھیں جبکہ وہ بس مسکرا رہا تھا۔
"بیگم اب ہمیں بھی اس سے مل لینے دیجیۓ"سکندر صاحب مسکرائے اور عائشہ بیگم نے اُنہیں خفگی سے دیکھا اور پیچھے ہوئیں۔زارون آگے بڑھا اور سکندر صاحب کے سامنے کھڑا ہوا۔سکندر صاحب اُسے دیکھ کر مسکرائے اور اُس سا اپنے گلے لگایا۔
"برخوردار! ہمیشہ مشکل میں ڈالتے ہو"انہوں نے خفگی سے کہا۔جبکہ زارون ہنس دیا۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ سکندر صاحب کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔
اور وہ باری باری سب سے ملا اور سب قدرے گرم جوشی سے اُس سے ملے تھے۔زارون نے نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں لیکن جنہیں وہ تلاش کر رہا تھا وہ اُسے کہیں نہیں دکھے تھے۔
"احان دادا سائیں۔۔۔"اُس نے احان کے کان میں سرگوشی کی۔
"اپنے کمرے میں ہیں"اُس نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
زارون نے گہرا سانس بھرا اور ان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
دھیرے سے دروازہ بجایا لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔وہ دھیرے سے دروازہ کھولتا اندر کمرے میں داخل ہو گیا۔دادا سائیں اپنی مخصوص کرسی کی پشت پر سر ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔اب یہ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ سورہے ہیں کہ جاگ رہے ہیں۔
وہ چلتا ان تک آیا اور نیچے بیٹھ گیا۔وہ بھی خاموشی سے بیٹھا اُنہیں تکی گیا۔دادا سائیں کمزور لگ رہے تھے اور اُسے انہیں ایسے دیکھ کر تکلیف ہوئی تھی۔
کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ کھڑا ہوا اور اپنے قدم دروازے کی جانب بڑھا دیے لیکن اس سے پہلے وہ دروازہ کھولتا دادا سائیں کی آواز پر پلٹا۔
"برخوردار!! چلے بھی ایسے ہی گئے تھے اب بھی کیا ایسے ہی لوٹنے کا ارادہ ہے؟"اُن کے لہجے میں جانے کیا تھا کہ زارون تڑپ اٹھا۔
دادا سائیں اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور چلتے اُس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
"کیا کوئی ایسے بھی کرتا ہے زارون؟جانتے تھے تم کہ میرے لاڈلے ہو پھر بھی اتنا عرصہ ستایا تم نے مجھے؟کیا اب بھی خفا ہو مجھ سے جو ایسے ہی جارہے تھے؟"دادا سائیں کی آواز کپکپائی تھی جبکہ زارون اب کی بات خاموش نہ رہ سکا۔
"دادا سائیں آپ۔۔۔آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟بھلا میں آپ سے خفا کیوں ہوں گا؟آپ میرے بڑے ہیں اور آپ ہو سکتے ہیں مجھ سے ناراض آپ کا حق ہے مجھ پر،ہم سب پر"وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔
دادا سائیں نے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
"آئندہ کبھی ایسے ہمیں چھوڑ کر مت جانا"اب کی بار انہوں نے التجا کی تھی۔
"دادا سائیں! آئندہ کبھی نہیں جاؤں گا"اور دادا سائیں نے اُس کی پیشانی چومی۔
تبھی دروازہ کھلا اور سب اندر کمرے میں آگئے۔
"برو کیسے ہیں آپ؟"احمر نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
"اب بہت اچھا ہوں"زارون نے مسکراتے ہوئے کہا اور اُس کے بال خراب کیے۔
"زارون بھائی ہم نے آپ کو بہت بہت بہت مس کیا"میرہ اُس کے ساتھ لگتے ہوئے کہنے لگی
"میں نے بھی بہت سارا مس کیا تھا سب کو"زارون مسکرایا۔
"مسیرۃ کہاں ہے نظر نہیں آرہی؟"اُس نے سوال کیا۔
"بیٹا اُس کی طبیعت نہیں ٹھیک اسی لیے میڈیسن لے کر دو رہی ہے"زینب بیگم نے وضاحت دی۔
"چلو زارون جلدی سے فریش ہو آؤ میں کہنا لگاتی ہوں"عائشہ بیگم نے کہا۔
"امی میں کھانا کھا چکا ہوں۔اب آپ ریسٹ کیجیۓ آگے ہی میرے وجہ سے سب سوئے نہیں"
"ارے کیسی باتیں کر رہے ہو؟بھلا ہم اگر سونے چلے بھی جاتے تو نیند کہاں آنی تھی؟"مریم بیگم نے کہا جس پر زارون ہنس دیا۔
"چلو اب سب اپنے کمروں میں زارون بیٹا تم بھی جاؤ شاباش آرام کرو باقی تفصیل سے کال بات کریں گے"غضنفر صاحب نے کہا تو سب آہستہ آہستہ اپنے کمروں میں جانے لگے۔
احان اور زارون دادا سائیں کے کمرے میں تھے۔
"زارون مجھے معاف۔۔۔۔۔"
"دادا سائیں پلیز!! پلیز آگے کچھ مت کہیے گا ورنہ میں خود سے نظریں نہیں ملا پاؤں گا۔جو ہوا اس سب میں میں جانتا ہوں میری ہی غلطی تھی لیکن آپ کہیں بھی غلط نہیں تھے۔آپ بڑے ہیں دادا سائیں میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہوں گا آپ ہم سب پر ہم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔آپ چاہے خفا ہوں،ڈانٹیں،آپ کر سکتے ہیں"وہ مسکرایا تھا۔اور دادا سائیں نے ایک بار پھر سے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
"مجھے فخر ہے تم پر،اور اپنے سب بچوں پر"وہ نم آنکھوں سے مسکرا دیے۔
"ہائے دادا سائیں! کاش آپ مجھے ہی گھر سے نکال دیتے مجھے بھی پتا چلتا آپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں"احان نے ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے شرارت سے کہا۔
"برخوردار!! ہمارے لیے سب بچے برابر ہیں"
"لیکن زارون سب سے لاڈلا ہے"اُس نے مزید شرارت سے کہا جس پر دادا سائیں مسکرا دیے۔
"احان تم جیلس ہی ہوئے جانا بس ہیں نا دادا سائیں؟"زارون نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
"لو میں بھلا تم سے کیوں جیلس ہونے لگا؟"احان نے منہ بنائے کہا جبکہ سب ہنس دیے۔
"دل تو نہیں چاہ رہا لیکن بیٹا اب تم آرام کرو تھکے ہو گے"اور واقعی یہ بات سچ تھی وہ جوب سے سیدھا یہاں آرہا تھا۔تھکن تو اُسے اتنے عرصے کی تھے جو اب ان سب کو دیکھ کر دور ہو گئی تھی۔
"یہ تو صحیح کہا دادا سائیں! تھکن تو کافی تھی لیکن اب دور ہوگئی ہے"وہ مسکرایا۔
"میرا بچہ! شاباش اب آرام کرو"دادا سائیں نے محبت سے کہا تو وہ مسکرا دیا۔
"دادا سائیں ساری محبت کیا صرف اسی کے لیے؟یہاں میرے کھیل سے آپ کا ایک اور پوتا بھی کھڑا ہے"احان کہے بنا نہ رہ سکا۔
"ارے میرا دوسرا بچا بھی اب شاباش آرام کرے۔تھک کر تو تم بھی آئے ہوگے"دادا سائیں نے کہا تو وہ ہنس دیا۔
پھر دونوں انہیں شبہ خیر کہے کمرے سے باہر نکل گئے۔
دونوں اب سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
"زارون صاحب! ذرا آپ روشنی ڈالنا پسند کریں گے کہ اپارٹمنٹ کس خوشی نے خالی کیا تھا؟"احان نے خفگی سے اُس سے سوال کیا۔
"یار اب دیکھو مجھے گھر سے نکالا گیا تھا لیکن مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا کیوں کہ روزانہ تو تم آ جاتے تھے تو مجھے فیلنگز نہیں آرہی تھیں"زارون نے ہنستے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کا دروازہ کھولنے لگا۔
"سو فنی! ایک دوں کان کے نیچے تو اچھی فيلنگز آئیں گی تُجھے!ہنہ!!"احان کی پیشانی اور شکنیں در آئیں۔زارون ہنس دیا۔
"مذاق کر رہا تھا یار! سیریس مت لو۔اب کہیں نہیں جا رہا گھر آگیا ہوں"زارون نے اُس کے کندھے پر تھپکی دی۔
"اب تو جا تو سہی تیرے ساتھ میں بھی چلا جاؤں گا"
"یہ کی نہ بات!"زارون مسکرایا "چل اب شاباش تو بھی آرام کر جا کر مجھے بھی نیند آرہی"زارون نے کہا اور الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگا۔
"اوکے صبح ملتے ہیں پھر"احان آنکھ دباتا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ زارون اپنا سر ہلاتا باتھروم میں فریش ہونے چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کی صبح بھی خوبصورت تھی یا سب ہی خوش تھے اسی لیے آج کی صبح باقی دنوں کی نسبت قدرے خوشگوار معلوم ہورہی تھی۔
الارم کی آواز پر اُس کی آنکھ کھلی۔اُس نے ٹائم دیکھا تو سات بج چکے تھے۔
آج اُس نے پرسکون نیند لی تھی اور اسی لیے قدرے فریش معلوم ہو رہا تھا۔اپنے کمرے،اپنے بستر اور سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے ساتھ،اُسے ایک الگ سے خوشی محسوس ہوئی تھی۔وہ مسکرایا اور فوراً سے آفس جانے کے لیے الماری سے اپنے کپڑے نکالے اور باتھروم میں گھس گیا۔
آدھا گھنٹا اُس نے تیار ہونے کے لیے لیا تھا اور آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے کمرے سے تیار ہوا باہر نکل رہا تھا تبھی اُس کی نظر مسی پر پڑی کھوئی کھوئی سی چلتی سیڑھیوں کی جانب ہی آرہی تھی۔
زارون مسکرایا اور اُس کے پاس آنے پر ایک دم سے تالی بجائی اور وہ جو اپنی سوچوں میں گم چل رہی تھی ڈر گئی۔
"اللہُ اکبر!!"اُس نے گھبرا کر اپنے دل پر ہاتھ رکھا تو سامنے دیکھا زارون اُسے اس طرح دیکھ کر ہنس رہا تھا۔"زارون تم نے تو میری جان لے لینی تھی"وہ خفگی سے کہنے لگی جبکہ زارون ہنسی جا رہا تھا۔
"بہت بتمیز ہو تم ویسے"مسیرۃ نے اپنا سر نفی میں ہلاتے کہا کر نیچے کی جانب اپنے قدم بڑھا دیا۔
"یار میں مذاق کر رہا تھا۔تم تو سیریس ہی ہوگئی"پیچھے سے زارون ہنستے ہوئے کہنے لگا۔مسی رکی اور پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا۔
"اور اگر تمہارے اس مذاق کی وجہ سے مجھے ہارٹ اٹیک آجاتا تو؟"مسی نے اپنے ہاتھ باندھتے سوال کیا۔
"ریئلی!"زارون نے اچھنبے سے پوچھا اور پھر دونوں ہنس دیے۔
"کیسی ہو؟کیا ہوا ہے طبیعت کو؟"اب زارون نارمل انداز میں اس سے سوال کرنے لگا۔
"ٹھیک ہوں بس یونہی سر میں درد تھا تو اسی لیے"مسی نے جواب دیا۔
ڈائننگ پر عائشہ بیگم،زینب بیگم اور مریم بیگم ناشتہ لگوا رہی تھیں جبکہ مرد حضرات بھی آہستہ آہستہ نیچے آرہے تھے۔
"لو آگیا میرا بچہ تیار ہو کر"عائشہ بیگم نے اُسے آتا دیکھ کر اُس کی پیشانی چومی۔زارون مسکرا دیا۔
"مسی بیٹا کیسی طبیعت ہے اب؟"اور پھر مسی سے مخاطب ہوئیں۔
"تائی امی اب میں ٹھیک ہوں"اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"میرہ نہیں اٹھی کیا؟"
"نہیں اٹھایا تھا اُسے لیکن اب جانے اٹھی ہے کہ نہیں"مسی نے جواب دیا۔
"ہائے ایک میری ہی نالائق اولاد ہے جسے سونے سے ہی فرصت نہیں ملتی"عائشہ بیگم نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے خفگی سے کہا۔
"امی آپ ایسے ہی پریشان ہورہی ہیں۔ابھی آجائیں گے دونوں"زارون نے مسکراتے ہوئے کہا۔اور تبھی سیڑھیوں سے میرہ،احمر،احان اور زارا آتے دکھائی دیے۔
انہوں نے آتے ہی سب کو سلام کیا۔احمر تو ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی گر جائے گا نیند سے جبکہ میرہ بھی اونگھ رہی تھی۔
"میرہ،احمر میرا دل کر رہا ہے دونوں کے ایک ایک جوتی لگاؤں۔اتنے بڑے ہو گئے ہو اور حرکتیں دیکھو اپنی"عائشہ بیگم نے اُن کی جانب دیکھتے خفگی سے کہا۔
"عائشہ جانتی تو ہو انہیں پھر بھی کہہ رہی"مریم بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"بھابھی یہ مسی بھی تو اس سے بس ایک دو سال ہی بڑی ہے لیکن کتنی سلجھی ہوئی ہے اور ایک یہ ہے میری نکمی اولاد!"عائشہ بیگم نے خفگی سے کہا جبکہ میرہ کی تو آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔
"امی۔۔آپ مجھے نکمی کہہ رہی ہیں؟"اُسے تو صدمہ ہی لگ گیا۔
"ہاں تو اور کیا؟"
"ایک تو ساری ماؤں کا ایک ہی مسئلہ ہے اُنہیں کبھی بھی اپنی اولاد میں کوئی اچھی چیز نظر نہیں آتی"احمر نے منہ بناتے کہا۔
"احمر میری جوتی آرہی ہے صبر کرو ناشتے میں وہی کر کے جاؤ گے"
"میں تو مذاق کر رہا تھا امی! سچی میں!!"
جبکہ سب مسکرا دیے۔
"آجاؤ سب ناشتا لگ گیا ہے"زینب بیگم سب کو آواز دے کر بلانے لگیں۔سب چلتے ڈائننگ پر آئے اور اپنی نشستیں سنبھالیں۔
"چاچو!!" ذیشان کے بچے آئے اور بھاگ کر زارون کے ساتھ لگ گئے۔رات میں جب وہ آیا تھا تو وہ سو رہے تھے۔
"ارے چاچو کی جان"اُس نے باری باری دونوں کو پیار کیا اور وہ دونوں بھاگ کر واپس مدیحہ کے پاس آگئے۔
دادا سائیں بھی آچکے تھے اور اپنی نشست پر بیٹھے۔
"اچھا تو کل میں پوری بات نہیں کر سکا تھا۔"دادا سائیں نے گفتگو کا آغاز کیا۔ٹیبل پر خاموشی چھا گئی جبکہ احمر نے مصنوئی کھانسی سے زارون کی طرف دیکھا اور زارون کے اُس کی طرف دیکھنے پر وہ ہنس دیا۔
"جی بابا سائیں کہیے"
"میں کل گل بیٹی کی طرف گیا تھا۔۔۔"اور ایک دم زارون کے چہرے کے تاثرات بدلے جبکہ باقی سب بھی حیران ہوئے۔
"میں نے اُن کے والد سے کہا ہے کہ اب کہ جب نکاح ہوگیا ہے تو ہم سب جلد ہی آئیں گے شادی کی تاریخ لینے"دادا سائیں نے کہا جبکہ سب کے چہروں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
"بابا سائیں آپ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔میں تو کہتا ہوں کہ اگلے مہینے کی ہی کوئی تاریخ رکھ لیں گے"سکندر صاحب نے کہا۔
"بیٹا یہ تو اب لڑکی والے ہی فیصلہ کریں گے اور بہوؤں بیٹا پہلی دفاع جانا ہے اپنی بہو کی طرف تو تیاریاں شروع کرو اگر اگلے مہینے کے دن رکھے بھی گئے تو ابھی سے ہی شروع کرنے پڑیں گی تیاریاں"دادا سائیں نے کہا۔
"میں تو بہت خوش ہوں۔شکر ہماری گھر بھی کوئی فنکشن آئے گا"زارا نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔"اور امی میں آپ کو بتا رہی ہیں زارون بھائی کی شادی پر میں نے پوری ایک ہفتے کی چھٹی لینی ہای اسکول سے ویسے تو آپ کرنے نہیں دیتی ہیں"زارا نے کہا۔
"اچھا بابا تب کی تب دیکھیں گے ابھی شاباش جلدی ناشتہ کرو باہر ڈرائیور انتظار کر رہا ہوگا"زینب بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اور سب ناشتہ کرنے لگے۔ناشتہ کرنے کے بعد مسی،میرہ یونیورسیٹی کے لیے نکل گئیں اور احمر اور زارا کالج کے لیے۔
"اچھا بابا میں بھی اب نکلتا ہوں ٹائم کافی ہوگیا"زارون بھی کہتا ٹیبل سے اٹھا۔
"کیا مطلب تم کہاں جا رہے ہو؟"سکندر صاحب نے سوال کیا۔
"بابا احان نے آپ سب کو بتا دیا ہوگا۔۔۔"
"ہاں بتایا تو ہے لیکن زارون اس سب کی کیا ضرورت ہے؟جب اپنا ماشااللہ سے اتنا اچھا کام چل رہا ہے تو جوب کیوں کر رہے ہو؟"سکندر صاحب نے اُس سے سوال کیا۔
"ہاں سکندر سہی کہہ رہا ہے جتنا تم نے ایکسپیرینس حاصل کرنا تھا ان دو تین ہفتوں میں تم حاصل کر چکے ہو۔اب بس ختم کرو جوب کو اور اپنے کام پر جاؤ"غضنفر صاحب نے اب کی بار کہا۔
"لیکن تایا جان میں دو مہینوں کے لیے سائن کی چکا ہوں تو اب مجھے دو مہینے پورا کرنے ہوں گے"
"زارون یہ کیا بات ہوئی؟تم نے اپارٹمنٹ خالی کیا ہمیں پتہ بھی نہیں چلنے دیا پھر تم نے جوب سٹارٹ کر دی؟آخر کیا ہے یہ سب؟بس جتنا کرنا تھا کر لیا کام تم نے اب تمہارا باپ اور تایا سہی کہہ رہے ہیں بس اب ریسائن کرو اُس جوب سے"دادا سائیں نے بھی اپنا فیصلہ سنایا۔
"میں نے بھی دادا سائیں یہی کہا تھا اسے لیکن یہ سنتا بھلا کس کی ہے؟"احان نے منہ بنایا۔
"احان یہ سب تمہاری غلطی ہے تمہیں ہمیں اسی وقت بتانا چاہیے تھا جب زارون نے یہ جوب سٹارٹ کی تھی"ذیشان نے احان کی جانب دیکھتے کہا۔
زارون نے مدد طلب نظروں سے مصطفیٰ صاحب کی جانب دیکھا وہ اُس کی حالت دیکھ کر مسکرا دیے اور سب سے مخاطب ہوئے۔
"بابا سائیں،بھائی صاحب اب بچے نے کنٹریکٹ سائن کر لیا ہے تو اسے کرنے دیں دو مہینوں کا وقت پورا۔ویسے بھی جیسے تیسے کر کے یہ ہفتے گزرے ہیں اسی طرح یہ دو مہینے بھی گزر جائیں گے۔اور ویسے بھی شوق ہے بچے کا تازہ تازہ شوق ہے پھر دیکھنا کیسے جوب سے جان چھڑواۓ گا"پہلے سنجیدگی سے کہتے آخر میں مصطفیٰ صاحب نے شرارت سے کہا جس اور زارون چونک کر اُن کی جانب دیکھنے لگا۔
"چاچو آپ کو میں ایسا لگتا ہوں؟"اُس نے منہ بنایا جس اور مصطفیٰ صاحب ہنس دیے۔
"برخوردار!! صرف دو مہینے ہی ہونے چاہئیں اس سے ایک دن بھی اوپر نہیں"دادا سائیں نے اُسے وارن کرتے کہا اور وہ مسکراتے ہوئے اٹھا اور اُن کے گلے لگ گیا۔
"شکریہ دادا سائیں،بابا،تایا جان اور ذیشان بھائی میری بات سمجھنے کے لیے اور شکریہ چاچو میری مدد کرنے کے لیے"زارون نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اس سب میں میرا تو تم نے شکریہ ادا نہیں کیا؟"احان نے کہا۔
"بیٹا تیرا شکریہ میں الگ سے ادا کروں گا"زارون نے اُس کی جانب دیکھتے چبا چبا کر کہا جبکہ احان ایک دم سیدھا ہوا۔
"چلیں اب آپ سب مجھے اجازت دیں لیٹ ہو گیا تو ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے"
"تم ویسے ہی تو ڈانٹ کے قابل ہی"احان بڑبڑایا اور زارون نے خونخوار نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔
"معاف کر دے بھائی! ایک تو پتہ نہیں اس کے کانوں میں کیا چیز فٹ ہے"احان کہے بنا نہ ره سکا۔
"جو تیرے کانوں میں نہیں ہے"زارون نے اپنی آنکھ دبائی اور سب کو سلام کرتا لاؤنج سے باہر نکل گیا۔جبکہ پیچھے سب مسکرا دیے۔
"الحمدللہ!! میرے گھر کی رونق دوبارہ آباد ہوگئی ہے"دادا سائیں سوچ کر مسکرا دیے۔اور اب کی بار ان کی مسکراہٹ میں طمانیت و سکون تھا۔انہوں نے ایک نظر دوڑا کر سب کے چہروں کی جانب دیکھا اور اُنہیں سکون ملا۔سب خوش تھے،بہت خوش۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکچرز لینے کے بعد وہ دونوں کینٹین آگئیں۔میرہ شرارت سے مسلسل گل کو دیکھ رہی تھی جو ڈیسائیڈ کر رہی تھی کہ کیا کھانا ہے۔
"اہم!!!"میرہ نے شرارت سے اپنا گلا کھنکھارا۔اور گل نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا۔
"میرہ کیا ہوگیاہے؟صبح سے اتنی مشکوک حرکتیں کر رہی ہو؟"اُس نے پانی کا گلاس اپنے ہونٹوں اور لگایا اور سوال کرنے لگی۔
"وہ اصل میں کیا ہے نا میں آج اپنی بھابھی کو تنگ کرنے کے موڈ میں ہوں"میرہ نے یہ کہا تھا جبکہ اُس کے منہ سے بھابھی کا لفظ سن کر گل کو اچھو لگ گیا اور وہ کھانسنے لگی۔
"گل کیا ہوا ٹھیک تو ہو؟"میرہ گڑبڑائی اور گل نے بڑی مشکل سے خود کو نارمل کیا۔
"ہائے شکر ہے تم ٹھیک ہو ورنہ بھائی نے میری جان نکال دینی تھی"
"میرہ یار پلیز مت تنگ کرو"
"اوئے ہوئے تم شرما رہی ہو؟گل تم شرما رہی ہو؟"میرہ نے شرارت سے کہا۔
"نہیں۔۔میں بھلا کیوں شرماؤں گی؟"گل نے فوراً سوال کیا۔
"نہیں گل سچی!! کتنی کیوٹ لگ رہی ہو تم"میرہ نے اُس کی تعریف کی جبکہ وہ نظریں چُرا گئی۔
"آئے سو کیوٹ!!"میرہ نے اپنے دونوں ہاتھ بند کیے اور ان پر اپنی تھوڑی ٹکائے اُسے تکنے لگی۔
"میرہ یار پلیز! یہ کیا کی رہی ہو تم؟ایسے مت دیکھی مجھے عجیب لگ رہا ہے"اور میرہ کو اُس اور ترس آگیا اور وہ ہنس دی۔
"ویسے تو بلش کرتے ہوئے بہت کیوٹ لگتی ہو"اُس نے شرارت سے کہا۔
"میرہ۔۔۔۔۔۔"گل نے کہا اور اب کی بار میرہ قہقہ لگایا کر ہنس دی۔
"تم بہت بتميز ہو۔پتا نہیں آج تمہیں کون سا دورہ پڑا ہے جو یہ سب کر رہی ہو؟"اور گل کو واقعی یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اتنا عرصہ تو اس نے اسے اس متعلق کوئی بات نہیں کی اور آج یوں اچانک اُسے چھیڑ رہی تھی۔
"یار اب میں تمہیں کیا بتاؤں۔خیر اب کہ جب دادا سائیں خود تمہارے گھر آئے تھے ڈیٹ فیکس کرنے کہا کہنے تو اب تو بنتا ہے نا؟"میرہ نے شرارت سے بعض نہ آئی۔
"میرہ میں کیا جاؤں یہاں سے؟"گل نے سوال کیا۔
"ارے نہیں نہیں! اب نہیں کرتی پکا۔چلو جلدی سے کچھ کے آؤ مجھے تو بھوک لگ رہی"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا اور گل اٹھ کر چلی گئی۔میرہ یونہی بیٹھی ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی جب مسی آئی۔
"تم کہاں تھیں."اُسے آتا دیکھ مر اُس نے سوال کیا۔
"یار لیکچر ابھی ختم ہوا ہے۔گل کہاں ہے؟"اپنا بیگ سائڈ پر رکھتے اُس نے سوال کیا۔
"وہ کھانا لینے گئی ہے"
"اچھا۔۔"
"مسی ایک بات بتاؤ؟تمہیں کیا ہوا ہے؟سب ٹھیک تو ہے؟تم مجھے کافی دن سے پریشان سے لگ رہی ہو؟"میرہ نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
"نہیں میرہ میں ٹھیک ہوں۔تم ایسے ہی وہم کرتی رہتی ہو۔"مسی مسکرائی۔
میرہ خاموش رہی اور تبھی گل ہاتھ میں تین پلیٹس پکڑے آئی اور ٹیبل پر ایک پلیٹ میرہ،ایک مسی اور ایک اپنے آگے رکھی۔
"ارے تھینک یو! ویسے میں خود کے آتی۔تم نے ایسے ہی تکلف کیا"مسی مسکرائی۔
"نہیں اس میں تکلف کی کیا بات؟میں ہم دونوں کے لیے لا رہی تھی تو سوچا آپ کے لیے بھی لے آؤں"گل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"That's so sweet of you!"
مسی نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور تینوں لنچ کرنے لگیں۔
"ویسے گل! تم نے کیا سوچا ہے شادی پر کس کلر کا ڈریس پہنو گی؟"میرہ نے برگر منہ میں ڈالتے سوال کیا جبکہ مسی مسکرا دی۔وہ گل کا جھجھکنا محسوس کر چکی تھی تبھی کہنے لگی۔
"اوہو میرہ تم تو ایسے ہی ابھی سے پریشان ہورہی۔شادی سے پہلے زارون اور گل جائیں گے لے آئیں گے اپنی پسند کہ"مسی بھی شرارت سے بعض نہ آئی جبکہ گل جھینپ گئی۔
"اوہ!! آئی سی!"میرہ پر اس وقت شیطان سوار تھا۔
"میرہ پلیز بس کرو!"گل نے سرگوشی کی۔
"لو بھلا مسی اسے دیکھو۔کتنا شرما رہی ہے ابھی سے"اُس نے یہ کہا اور ہنس دی مسی بھی مسکرا دی اور گل بیچاری کو وہاں بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا،سو جلدی جلدی اپنا بیگ اٹھایا اور کینٹین سا باہر نکل گئ جبکہ پیچھے سے میرہ اُسے آوازیں دیتی رہ گئی۔
"میرہ بڑی بتمیز ہو تم۔بھلا بچاری کو کھانا تو کھانے دیتی"مسی نے کہا۔
"سوری لیکن بڑا مزہ آرہا تھا سہی میں اُس کے ایکسپریشن،اُس کا بلش کرنا!! کیوٹ"میرہ کے سامنے اُس کا جھینپا ہوا چہرہ گردش کرنے لگا جبکہ مسی مسکرا دی۔
"ویسے جب زارون بھائی کو ہم بتائیں گے تو اُن کا کیا ری اکشن ہوگا؟"میرہ نے اپنی تھوڑی پر انگلی رکھتے سوچا اور پھر ایک بار دونوں پھر سے ہنس دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now