ہائے ستمگر! اور کتنی تیری ستمگری__!؟
آج کافی عرصے بعد سب مل کر ڈائننگ حال میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔دادا سائیں خاموشی سے سب کی تاثرات دیکھ رہے تھے اگرچہ ان چند دنوں میں وہ فیصلہ کر چکے تھے۔
دھیرے سے وہ کھنکھارے جس پر سب خاموش ہوئے اور ان کی جانب دیکھنے لگے۔
"میں نے فیصلہ کیا ہے"انہوں نے سنجیدگی سے کہا جس پر غضنفر صاحب اُن کے سوال کرنے لگے۔
"بابا سائیں! کیسا فیصلہ؟"
"زارون کی شادی کا۔۔۔"انہوں نے کہا جس پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔
"زارون کی شادی؟لیکن بابا سائیں آپ نے تو کہا تھا ابھی نہیں اس کی تعلیم مکمل ہوجائے تو۔۔۔"عائشہ نے ابھی یہی کہا تھا جب دادا سائیں بول پڑے۔
"کہا تھا لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ ابھی یہ صحیح وقت ہے"
"دادا سائیں میں شادی نہیں کر سکتا"زارون سے جب مزید برداشت نہ ہوا تو بول اٹھا جبکہ سب خاموشی سے بیٹھے اُنہیں تک رہے تھے۔
"برخوردار! یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے"
"دادا سائیں تو پھر آپ بھی سن لیجئے۔۔"کھانے کی پلیٹ سائڈ پر کیے وہ کہنے لگا۔"میں شادی کر چکا ہوں" پہلے تو کسی کو سمجھ نہ آئی لیکن جب آئی تو عائشہ،مریم،ملیحہ اور زینب سمیت احمر،زارا،مسیرہ اور آمائره شاک کے عالم میں اُنہیں دیکھنے لگی جبکہ باقی مرد حضرات خاموش ہی رہے ان کا ردِ عمل عام تھا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو تم برخوردار؟"دادا سائیں کا لہجہ اب کی بار تیز ہوا تھا۔
"دادا سائیں آپ صحیح سمجھ رہے ہیں میں نکاح کر چکا ہوں"اُس نے سادہ سے انداز میں کہا جس پر دادا سائیں کی پیشانی پر شکنیں در آئیں۔
"سکندر یہ کیا کہہ رہا ہے زارون؟"دادا سائیں اپنے آپ پر ضبط کیے سکندر صاحب کو بیچ میں لائے۔
"وہ بابا سائیں۔۔۔۔!"
"سکندر تم بھی اس سب میں شامل تھے کیا؟"غصہ ان کا کم ہونے کو نہیں آرہا تھا اور سکندر صاحب کی خاموشی ان کو جواب دے گئی تھی۔
"شاباش!!!"انہوں نے طنزاً کہا "اور کون کون شامل تھا اس سب میں؟"جمال الدین صاحب کا طیش کم ہونے کو نہیں آرہا تھا جبکہ ان کی رگیں تن چکیں تھیں۔سب خاموش بیٹھے تھے۔
"میں تم سے پوچھ رہا ہوں سکندر اور کون کون شامل تھا اس سب میں؟"
"بابا سائیں یہ نکاح ہم سب کی رضامندی سے ہوا ہے"غضنفر صاحب نے کہا۔جس پر دادا سائیں نے ایک ایک کر کے ان تینوں کو دیکھا اور غصے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔اس سب میں سب سے پہلے عائشہ بیگم کو ہوش آیا۔
"سکندر صاحب! کیسا نکاح؟کس کا نکاح کس بارے میں بات کر رہے ہیں آپ سب؟"زارون خاموشی سے اٹھا اور اپنے کمرے میں جانے لگا جب عائشہ بیگم نے اُسے روکا۔
"رک جاؤ زارون! کوئی کہیں نہیں جائے گا"عائشہ بیگم کا انداز سنجیدہ تھا۔وہ جو جانے لگا تھا وہیں کھڑا ہوگیا۔
"کیا کوئی بتائے گا کہ ہو کیا رہا ہے؟"مریم بیگم نے بھی اب کی بار سوال کیا۔
"امی! میں نکاح کر چکا ہوں"زارون نے اپنی نظریں جھکائے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"کیا پاگل تو نہیں ہوگئے تم زارون؟بھلا ایسے کیسے کوئی نکاح کر سکتا ہے؟"اُن کے لہجے میں سنجیدگی ابھی بھی واضع تھی۔
"یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔اسی جمعے کو اس کا نکاح ہوا ہے ہم سب کی موجودگی میں۔۔۔"سکندر صاحب نے کہا جس پر سب خواتین حیرانگی سے اُنہیں تکنے لگیں۔
"سکندر صاحب ی۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"اُن کی حیرانگی کم ہونے کو نہیں آرہی تھی۔
"آپ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟جبکہ آپ سب لوگ بابا سائیں کے فیصلے سے اچھی طرح واقف تھے"عائشہ بیگم نے اُن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"بچو! اٹھو سب اور جاؤ اپنے کمروں میں"مصطفیٰ صاحب نے ایک نظر ڈائننگ پر بیٹھے بچوں پر ڈالی جو حیران پریشان سب دیکھ اور سن رہے تھے۔ان کے کہنے پر وہ اٹھے اور اوپر کی جانب بڑھ گئے۔
"زارون! تم یہیں کھڑے رہو خاموشی سے"عائشہ بیگم نے غصے سے کہا۔"احان تم جا سکتے ہو!"اور وہ خاموشی سے اوپر چلا گیا۔
"ایسی کیا بات ہو گئی تھی غضنفر صاحب کہ آپ سب نے خود ہی اتنا انتہائی قدم اٹھا لیا؟"مریم بیگم نے پریشانی سے اُن سے سوال کیا۔
"ہم نے وہی کیا جو ہمیں بہتر لگا مریم! باقی اس سب میں جب لڑکے کی خوشی شامل ہے لڑکے کی پسند شامل ہے تو اس سب سے کسی کو کوئی غرض یا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے!"ان کے کہنے پر عائشہ بیگم خفگی سے زارون کی جانب دیکھنے لگیں جو ریلیکس سے انداز میں کھڑا تھا۔
"اگرچہ اس کی مرضی شامل تھی لیکن آپ سب جانتے ہیں کہ آج تک اس حویلی میں بابا سائیں کا ہی حکم چلتا ہے اور آپ سب نے ان کی بغاوت کی ہے۔اب آپ کیسے اُنہیں منائیں گے؟"
"بابا سائیں کو منا لیں گے۔بھابھی آپ فکر مت کریں"مصطفیٰ صاحب مریم بیگم سے کہنے لگے۔
"اگر بابا سائیں نہ مانے تو؟تو پھر آپ سب کیا کریں گے؟"عائشہ بیگم نے ان سے سوال کیا جس پر سب خاموش ہو گئے تھے۔
"زارون! تم بتاؤ ایسی کون سی آخر آگئی تھی تمہیں جو تم سے تھوڑا سا بھی صبر نہیں ہوا؟"اب کی بار عائشہ بیگم زارون پر اپنا غصہ نکالنے لگیں۔
"امی! میں گل کو پسند کرتا ہوں اور ویسے بھی میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔نکاح کیا ہے اس سے۔ایک پاک صاف اور حلال رشتہ قائم کیا ہے"اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
"زارون میں یہ نہیں کہہ رہی کہ کوئی گناہ کیا ہے تم نے لیکن بابا سائیں جب تک مان نہ جاتے تب تک تو کم از کم تمہیں انتظار کرنا چاہیے تھا"اب کی بار ان کا لہجہ دھیما پڑا تھا۔
"امی سچویشن ہی ایسی تھی کہ انتظار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا"
"زارون زارون زارون!!! اب کیا کروں میں تمہارا؟"انہوں نے بے بسی سے کہا اور صوفے پر اپنا سر تھام کر بیٹھ گئیں وہ جانتی تھیں کہ بابا سائیں کا فیصلہ تو پتھر پر لگی لکیر کی ماند ہوتا ہے۔
"امی آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟ہم سب ہیں نہ دادا سائیں کو منا لیں گے"وہ ان کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھتا کہنے لگا۔
"جتنا تم اور سب سمجھ رہے ہیں اتنا آسان نہیں ہے بابا سائیں کو منانا"
"تو پھر امی جان لیجیۓ مجھ میں بھی پھر دادا سائیں کا ہی خون دوڑتا ہے۔اور جب ایک ہی خون دو وجودوں میں دوڑ رہا ہو تو آپ جانتی ہیں مقابلہ کھٹن تو ہوگا لیکن امید کرتا ہوں اس مقابلے میں جیت ہماری ہی ہوگی"
جبکہ عائشہ بیگم گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"احان! کیا تم بتاؤ گے نیچے کیا چل رہا ہے؟"مسی نے اوپر آتے ساتھ ہی اُس سے سوال کیا۔اس وقت وہ سب ٹیرس پر آگئے تھے۔
"کیا مطلب سنا نہیں تم نے؟"احان نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
"احان۔۔۔!!"اُس نے دبے دبے لہجے میں کہا۔
"کیا یار! سنو سب ایک ہی بار میں بار بار نہیں بتاؤں گا سمجھے سب؟"احان نے سب کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
اور پھر اُس نے نکاح کی ساری بات ان سب کو بتائی۔
"گل! سیریسلی! ہماری گل؟"میرہ کی حیرانگی کم ہونے کو نہیں آرہی تھی۔جس پر احان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"مطلب کہ زارون گل رخ حیات سے نکاح کر چکا ہے؟"مسی نے اپنی آنکھیں پھیلائے سوال کیا۔
"ہاں جی! اور بائی دا وے! اب وہ گل رخ حیات نہیں ہیں۔اب وہ مسز زارون سکندر اور ہم سب کی بھابھی ہیں۔"احان نے سنجیدگی سے کہا۔
"لیکن احان بھائی اتنی چھپا کر زارون بھائی نے نکاح کیوں کر لیا؟"احمر نے سوال کیا۔
"دیکھو انسان ایسے فوری نکاح صرف دو ہی صورتِ حال میں کرتا ہے یا تو اُس کی کنپٹی پر بندوق رکھی ہو یا پھر وہ مکمل طور پر لڑکی کے عشق میں ڈوبا ہو۔۔۔۔"
"کیا مطلب زارون بھائی کے سر پر کسی نے گولی رکھی تھی؟"زارا نے پریشانی سے سوال کیا۔
"بچے! یہ سب آپ کے سمجھنے کی باتیں نہیں ہیں"احان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تو اس كا مطلب۔۔۔۔۔"مسی نے کچھ سوچا اور پھر حیرت سے اُس کی آنکھیں مزید پھیل گئیں۔
"تم سہی سمجھ رہی ہو!"احان نے ہنستے ہوئے کہا جس پر مسی اور میرہ ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے کوئی بتائے گا کہ یہاں کیوں لایا گیا ہے مجھے؟"وہ سلاخوں کے پیچھے کھڑا سوال کر رہا تھا۔
"او ہیرو زیادہ بپھڑ مت! بہت جلد پتا چل جائے گا کہ کیوں اور کیا نے تُجھے یہاں ڈالا ہے"وہاں کھڑے رکھوالے نے اُس سے کہا۔
"دیکھو تم بہت غلط کر رہے ہو۔"اُس نے سلاخوں کو پکڑتے دبے دبے غصے سے کہا۔
"ہنہ!!!"اس نے کہا جبکہ اچانک سے اسٹیشن میں گہما گہمی مچ گئی۔
"کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ میرے بیٹے کو کس جرم میں اندر کیا ہے؟"غفور صاحب وہاں موجود انسپکٹر سے پوچھ رہے تھے۔
"دیکھیے سر ہمیں اوپر سے آرڈر ملا ہے ہم مزید کچھ نہیں کہہ سکتے"
"اوپر سے آرڈر ملا ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بغیر کسی قصور کے اسے اندر بند کر دیا ہے"اُن کا غصہ گھٹنے کو نہیں آرہا تھا۔
"دیکھیے اگر چاہیں تو ہم اس پر کافی کیس کر سکتے ہیں لیکن جب ہم نے انہیں اٹھایا تھا تب ان نے ڈرگز لے رکھے تھے۔"اُس نے بتایا جبکہ غفور صاحب نے حیرانگی سے پہلے انسپکٹر اور پھر راحم کو دیکھا جس کے چہرے کے تاثرات پل بھر کے لیے بدلے تھے لیکن وہ جلد ہی خود کو نارمل کر چکا تھا۔
"آپ رقم بیٹا دیجیۓ اس کی بیل کی!"غفور صاحب خود پر قابو پاتے کہنے لگے۔
"صاحب جی۔۔۔!!"
"جتنی رقم کہو گے اتنی دوں گا۔۔۔"غفور صاحب نے قدرے ضبط سے کہا جس پر اُس کی شیطانی مسکراہٹ دیکھنے لائق تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بابا سائیں پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں میں بھی اس فیصلے سے متفق تھا۔پلیز اپنا غصہ اب کم کر دیں"مصطفیٰ صاحب نے التجا کی۔
"مصطفیٰ! خاموش ہوجاؤ بالکل۔تم لوگوں نے اپنی مرضی کرنی تھی کر لی لیکن اب جو بھی ہوگا میرے فیصلے کے مطابق ہوگا"سکندر صاحب،مصطفیٰ صاحب،غضنفر صاحب اور زارون دادا سائیں کے کمرے میں تھے۔
"تم نے زارون اپنی پسند سے نکاح کر لیا ہے لیکن میں تمہاری بیوی کو صرف اسی صورت قبول کروں گا جب تم مسیرہ سے شادی کرو گے"
"دادا سائیں یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"
"یہی میری آخری شرط يا یہ سمجھ لو میرا حکم ہے"
"دادا سائیں! میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا"
"بابا سائیں یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟زارون پہلے ہی نکاح۔۔۔۔"
"مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے سمجھے تم۔یہ نکاح میری نہیں بلکہ اس کی اور تم سب کی مرضی سے ہوا ہے اور میں اس کی پہلی بیوی کو تبھی قبول کروں گا جب یہ مسیرہ سے بھی نکاح کرے گا۔۔"
"دادا سائیں! میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔اور میں کیا ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ مسیرہ کی شادی مجھ سے ہو۔۔۔۔"
"تو پھر ٹھیک ہے۔یہ تہہ ہوا کہ یا تو تم مسيرہ سے نکاح کرو ورنہ۔۔۔۔۔"پل بھر کو وہ خاموش ہوئے۔"ورنہ تم یہاں سے جا سکتے ہو!"انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا جس پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
"بابا سائیں یہ آپ۔۔۔۔۔"سکندر صاحب نے کچھ کہنا چاہ جس پر جمال الدین صاحب نے اُنہیں ٹوک دیا۔
"بس خاموش ہو جاؤ برخوردار! یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے سمجھے تم"
"تو ٹھیک ہے دادا سائیں! مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہے۔۔۔"اُس نے سنجیدگی سے کہا "میں یہاں سے چلا جاؤں گا"وہ بھی اب کی بار تھوڑا برہمی سے بولا۔
"زارون یہ تم کیا کہہ رہے ہوئے؟"سکندر صاحب نے اُس سے سوال کیا۔
"بابا اب میں فیصلہ کر چکا ہوں اور اب میں بالکل بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا"لہجے میں سنجیدگی سموئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
سب نے التجائی انداز میں بابا سائیں کی جانب دیکھا لیکن وہ فرصت سے منہ موڑ چکے تھے۔سب بے بسی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"گل بیٹا آجاؤ ڈیڈ ڈنر پر ویٹ کر رہے ہیں"زوبیہ بیگم اُس سے کہنے آئیں جو بےخبر بیڈ پر اپنی سوچوں میں گم بیٹھی تھی۔
"موم مجھے بھوک نہیں ہے۔۔"اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
"بیٹا! کیا حالت بنا لی ہے تم نے اپنی؟ہم سب جانتے ہیں جو کچھ بھی ہوا بہت جلدی تھا لیکن زارون تمہارے لیے بہترین ہمسفر ثابت ہوگا یقین جانو۔اُس کی آنکھوں میں تمہارے لئے محبت اور عزت صاف دکھائی دیتی ہے۔اب ایسے یوں خود کو ہلکان کر کے اپنے کمرے میں بند کر کے تم خود کو ہی نہیں بلکہ ہمیں بھی اذیت دے رہی ہو۔جو کچھ بھی ہم نے کیا وہ تمہارے لیے کیا تاکہ جو سوچیں تمہارے دماغ میں چل رہی ہیں تم اُن سے چھٹکارا پا سکو۔اور وہ منظر جب ہم لندن سے واپس آئے تھے تو تمہاری مسکراہٹ،تمہاری خوشی سب دیکھنے لائق تھا۔گل بیٹے! تم بھی اُس خاندان میں رہ کر آئی ہو اور تم بھی جانتی ہوگی کہ زارون کیسا انسان ہے۔یقین جانو اُس دِن سے پہلے میں نے کبھی تمہیں یوں نہیں دیکھا تھا۔اور جہاں تک بات رہی زارون کی تو اُس کی آنکھوں میں کبھی ہمدردی یا کوئی تاثر نہیں ہے اُس کا جذبہ پاک ہے۔۔۔"زوبیہ بیگم اُس کے سامنے بیٹھے کہہ رہی تھیں اور گل بس خاموشی سے انہیں سن رہی تھی۔
"موم! مجھے اس سب کے لیے وقت چاہیے"
"بیٹا! وقت ہی تو تمہیں دیا ہے۔جتنا چاہے تم اتنا وقت لے سکتی ہو کوئی بھی اور کسی رسم کے لیے تب تک راضی نہیں ہوگا جب تک تم خود ہاں نہ کر دو،خود مطمئن نہ ہوجاؤ۔لیکن ایک بات یاد رکھنا بیٹا وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔میں نے تمہارے نکاح والے دن زارون کی آنکھوں میں تمہارے لیے جو پریشانی دیکھی تھی میں تب ہی جان گئی تھی کہ زارون تمہارے لیے بہترین انتخاب ہے۔"وہ پل بھر کو رکی تھیں۔"اب یہ تم پر انحصار کرتا ہے کہ تم اس کی پہلی ترجیح رہتی ہو یا ترجیحات بدلنے کا سبب بنتی ہو"وہ محبت سے اُسے سمجھا رہی تھیں۔
"اب آجاؤ شاباش جلدی سے ڈیڈ کب سے بیٹھے ہیں انتظار میں"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اور اب کی بار اس نے انکار نہیں کیا تھا بلکہ کھانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سکندر آپ نے بابا سائیں سے کچھ کہا کیوں نہیں؟"عائشہ بیگم کی آواز بھرا گئی تھی۔
"عائشہ میں نے کوشش کی تھی لیکن بابا سائیں نے میری ایک بات بھی نہیں سنی"سکندر صاحب افسوس سے کہنے لگے۔
"میں خود بات کروں گی بابا سائیں سے۔وہ کیسے ایک بیٹے کو اُس کی ماں سے جدا کر سکتے ہیں اور بابا سائیں کو یہ بات ماننا ہوگی"وہ کہے کھڑی ہوئی تھیں جب سکندر صاحب نے اُنہیں روکا۔
"عائشہ ابھی بابا سائیں سے کوئی بھی بات کرنا بیکار ہے۔ابھی وہ کسی کی نہیں سنیں گے۔بابا سائیں کا غصہ ٹھنڈا ہونے دو پھر بات کریں گے اور اس مسئلے کا حل نکالیں گے"
"لیکن سکندر صاحب۔۔۔۔۔۔"
"عائشہ سب ٹھیک ہو جائے گا میرا یقین کرو۔اس وقت وہ محفوظ جگہ پر ہے۔میں نے اُس کو ایک اپارٹمنٹ بک کروا دیا ہے تم پریشان مت ہو آہستہ آہستہ بابا سائیں سمجھ جائیں گے۔۔۔"انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے چہرے پر رکھے تسلی دی جبکہ عائشہ بیگم اپنے آنسو صاف کرنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غصّہ تھا کہ گھٹنے کو ہی نہیں آرہا تھا۔وہ اپارٹمنٹ جانے کی بجائے یونہی بے مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑا رہا تھا۔جہاں دادا سائیں اپنی بات کے پکے تھے وہیں زارون بھی اپنی بات سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔
وقت گزرتا جارہا تھا اور یونہی گھڑی کی سوئیاں دو بجے پر آکر تھمی تھیں۔
سر درد سے پھٹا جارہا تھا سو کچھ سوچ کر اُس نے گاڑی دوسری راہ پر موڑ لی۔
راستہ سنسان تھا۔اکا دکا ہی گاڑیاں اس راہ پر نظر آرہی تھیں۔مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر اُس نے گاڑی روکی اور باہر نکلا۔بالکنی تک جانے کا راستہ مشکل نہیں تھا سو اپنے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے پہلے احتیاط سے دیوار پر چڑھ کر اندر چھلانگ لگائی اور پھر اپنے قدم بالکنی والی سائڈ کی جانب بڑھا دیے۔
مشکل تو نہیں لیکن اوپر چڑھتے ہوئے اُس کا بازو زخمی ضرور ہوا تھا لیکن فلوقت اُسے اپنے بازو کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
اور بلآخر وہ بالکنی تک پہنچ ہی گیا۔دروازہ بالکنی کا بند تھا اور لاک بھی لگا ہوا تھا۔اپنی پاکٹ سے اُس نے تار نکالی اور لاک کھولنے لگا۔یہ تار وہ گاڑی سے نکال کر لایا تھا۔
اور ٹک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھل چکا تھا۔آرام سے دروازہ کھولے وہ کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا۔
پھر آہستہ آہستہ چلتا وہ کمرے کے دروازے کی جانب بڑھا اور اسے بھی فقل لگایا پھر گہرا سانس بھرا۔
ویسے تو وه اُس کی بیوی تھی وہ اُس پر حق رکھتا تھا لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی اور رات کے پہر اُسے اگر یہاں کوئی گل کے کمرے میں دیکھ لیتا تو جانے کیا ہوتا۔
خیر۔۔!! ان سب باتوں کو نظر انداز کیے وہ اُس کی جانب بڑھا جو بیڈ پر لیٹی بے سود سورہی تھی۔
وہ چلتا آیا اور بیڈ کی دوسری طرف بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے ریلیکس سے انداز میں بیٹھا اور اُسے تکنے لگا۔
یکدم دھیمی سی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر رقص کرنے لگی گویا سکون سا اُس کے اندر اترا تھا۔
سوتے ہوئے وہ تھوڑا سا کسمکائی تھی لیکن دوبارہ سو گئی تھی۔
اُس نے اُس کے چہرے سے بالوں کی لٹوں کو دھیرے سے پیچھے کیا اب ناک میں پہنی نوز پن کا موتی چمک رہا تھا اور واضع تھا۔
"ہائے!
یہ ادائے بے نیازی کہ میرے دل کو لے کر
بڑی بے رخی سے بولے کسی کام کا نہیں ہے__!"اُس نےدھیرے سے شعر پڑھا اور پھر گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
اپنی پینٹ کی پاکٹ سے اُس نے سگریٹ اور لائٹر نکالا۔
سگریٹ اپنے ہونٹوں میں دبا کر لائٹر چلایا جس میں سے آگ کا شعلہ بھڑکا اور سگریٹ کو جلا کر خود بھج گیا۔
اب وہ سگریٹ کے کش بھر رہا تھا لیکن نظریں مسلسل اسی کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔
کچھ نظروں کی تپش اور سميل کی وجہ سے اُس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔چھت پر لگا پنکھا دھیرے سے چل رہا تھا اور اے سی بھی آن تھا۔اچانک سے دھواں دوبارہ اڑا تھا اور وہ یہ دیکھ کر اچانک اٹھ بیٹھی۔اس کے علاوہ کمرے میں کوئی اور بھی موجود تھا۔اُس کے گلے میں گلٹی اُبھر کر معدوم ہوئی۔اور بلآخر اُس نے بیڈ کی دوسری جانب دیکھا تو وہ فرصت سے اپنی انگلیوں میں سگریٹ دبائے اُسے ہی تک رہا تھا۔اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں اور پھر اُس نے زور سے اپنی آنکھیں بند کر کے کھولیں۔
"تم جتنی بار بھی آنکھیں بند کر کے کھولو گی سامنے میں ہی نظر آؤں گا"اُس نے سنجیدگی سے کہا۔گل اس سے پہلے چیخ مارتی وہ فوراً سے آگے ہوئے اُس کی آواز بند کروا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

KAMU SEDANG MEMBACA
مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)
Fantasiمراسمِ دل کہانی ہے دل سے بنے رشتوں کی اور ضروری نہیں تمام رشتے ناطے صرف خونی ہوں بعض اوقات دل سے بنے ہوئے رشتے بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔