قسط:۶

61 9 2
                                    

محبت تیرے نام پہ رونا آیا__!

"راحم! یہ کیا حرکت کی ہے تم نے آج؟اگر شادی سے انکار کرنا تھا تو پہلے کر دیتے یوں بھری محفل میں یہ ڈراما رچانے کا کیا مقصد تھا؟"غفور صاحب غصے سے کہہ رہے تھے جس پر وہ طمانیت سے کہنے لگا۔
"ڈیڈ! پہلے میں اُس کے بارے میں نہیں جانتا تھا لیکن اب میں سب جان چکا ہوں اور یقیناً اگر آپ کو بھی علم ہوگا تو آپ بھی میرا ساتھ۔۔۔۔"اُس کا جملہ ابھی منہ میں ہی تھا کہ غفور صاحب نے ایک تھپڑ اُس کی گال پر دے مارا جبکہ وہ آنکھیں پھاڑے غفور صاحب کو دیکھ رہا تھا۔
"شرم آتی ہے مجھے تمہیں اپنا بیٹا کہنے پر۔۔۔"وہ غصے سے کہے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے جبکہ وہ ساکت سا وہیں کھڑا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اپنے پر ہر سو پھیلا چکی تھی۔ڈائننگ پر سکندر صاحب،زارون اور دادا سائیں کے سوا سب موجود تھے۔دادا سائیں اپنے کمرے میں تھے جبکہ سکندر صاحب زارون کے کمرے میں تھے۔سب بے خبر تھے کہ کیا بات ہورہی ہے لیکن احان جانتا تھا کہ کیا چل رہا تھا۔
"زارون! کیا تم اپنی بات کی وضاحت کرو گے؟یہ میں کیا سن رہا ہوں؟تم مسیرہ سے شادی کرنے سے انکار کر رہے ہو؟"سکندر صاحب نے سنجیدگی سے اُس سے سوال کیا۔
"بابا! آپ نے صحیح سنا ہے۔میں مسیرہ سے شادی نہیں کر سکتا۔"زارون نے سادہ انداز میں جواب دیا۔
"زارون! یہ بابا سائیں کا فیصلہ ہے اور تم اس سے کیسے انکار کر سکتے ہو؟"اب کی بار اُن کا لہجہ اونچا ہوا تھا۔
"بابا! آپ کیوں نہیں سمجھ رہے؟میں کسی اور آپ پسند کرتا ہوں"
"سمجھنے کی مجھے نہیں تمہیں ضرورت ہے زارون سکندر! بابا سائیں زینب اور مصطفیٰ کو زبان دے چکے ہیں۔اب انکار کس طرح کر سکتے ہیں ہم اُنہیں؟"
"بابا یہ سب آپ کو پہلے سوچنا چاہیے تھا۔آپ کو مجھ سے پوچھ کر میری رائے لے کر چاچو اور چاچی سے کچھ کہنا چاہیے تھا۔"زارون بھی اب کی بار سنجیدہ ہوا تھا۔
"زارون تم کیوں ضد کررہے ہو؟"انہوں نے جھنجھلا کر اُس سے سوال کیا۔
"ڈیڈ! ایک بار میں اُسے تقریباً کھو چکا تھا لیکن اب جب قدرت نے مجھے اُسے حاصل کرنے کا ایک اور موقع دیا ہے تو میں اسے ہرگز ضائع نہیں کروں گا"اُس نے ڈھٹائی سے کہا۔شاید محبت میں دوری نے اُسے"اس" کو حاصل کرنے کے لیے اتنا مضبوط بنا دیا تھا۔
سکندر صاحب گہرا سانس بھر کر رہ گئے۔
"بابا! آپ دادا سائیں کو سمجھائیں! پلیز وہ یہ ضد چھوڑ دیں"اب کی بار اُس نے اُن کی جانب دیکھتے کہا تھا۔سکندر صاحب بس اُسے دیکھ کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں ہی اُسے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔سادے سے سوٹ میں وہ بےسود سی بیڈ پر بیٹھی تھی۔ہاتھوں پر مہندی کا رنگ ابھی بھی کھلکھلا رہا تھا۔
اُس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور بیدردی سے مہندی کے نقوش کو رگڑنے لگی۔
زوبیہ بیگم جو کھانے کی ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں اس طرح اُسے دیکھ کر تیز تیز چلتی اس تک آئیں۔ٹرے سائڈ پر رکھے اب وہ پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھیں۔
"گل یہ۔۔یہ تم کیا کر رہی ہو؟"اُن کا دل کانپ اٹھا تھا۔گل نے نم آنکھوں سے اُن کی جانب دیکھا۔
"موم میرے ہاتھ پر ابھی بھی اسی کے نام کی مہندی لگی ہے جو بھری محفل میں میرے کردار پر الزام لگا گیا ہے۔مٹانا چاہتی ہوں میں اس مہندی کو،اس رنگ کو جو میری زندگی کو بے رنگ کر گیا ہے۔"وہ دیوانہ وار کہہ رہی تھی۔زوبیہ بیگم نے بےاختیار اُسے اپنے سینے سے لگا لیا جس پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"بیٹا چپ کر جاؤ! دیکھو وہ تمہارے قابل ہی نہیں تھا۔"زوبیہ بیگم نے اُسے جھوٹی سی تسلی دی جبکہ اس کے رونے میں کمی نہیں آئی تھی۔
"اُس نے جو حرکت کی ہے اُس کے لیے میں اُسے کبھی معاف نہیں کروں گا!میری بیٹی کو رلایا ہے اُس نے؟میری بیٹی کی زندگی کے ساتھ گھینونا کھیل کھیلا ہے اُس نے؟میں اُسے اچھی طرح سبق سکھاؤں گا"حیات صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔گل نے نم آنکھوں سے اُن کی جانب دیکھا وہ چلتے اس تک آئے اور اُس کی پیشانی پر بوسا دیا۔
"بیٹا! تم کیسی ہو یہ ہم سب سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے۔ان بےوقعت انسان کے لیے آنسو مت بہاؤ۔جب بھی دنیا کچھ کہے گی اُسے پہلے میرا سامنا کرنا ہوگا"حیات صاحب نے اُسے تسلی دی تھی اور مسکرا دیے جبکہ راحم کے ساتھ انہوں نے کیا کرنا تھا اُس کا وہ فیصلہ کر چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں ہنوز خاموشی تھی جبکہ موسیقی کی دھن نے عجیب سا فسوں پیدا کیا ہوا تھا۔
"بھائی! آپ مجھے گل کے ہاں لے جائیں"میرہ نے خاموشی کو توڑتے کہا۔
"میرہ! میرے خیال سے تمہیں ابھی اُن کے پاس نہیں جانا چاہیے۔آئی مین اُسے وقت دو ابھی۔"زارون نے مرر سے پیچھے دیکھتے جواب دیا۔
"نہیں زارون! میرہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔شاید وہ اس کے جانے سے بیٹر فیل کریں۔"احان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"ہاں! میں بھی چلوں گی تمہارے ساتھ!"مسی بھی کہنے لگی۔زارون نے سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھا گویا تصدیق چاہی ہو کہ پکی بات ہے۔جبکہ میرہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
گاڑی اب اُس کے گھر کی راہ پر مڑ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زارا! آجاؤ لڈو کھیلتے ہیں"احمر نے زارا سے کہا جو کہ اپنی سوچوں میں گم بیٹھی تھی۔
"زارا! میں تم سے کہہ رہا ہوں۔میں بور ہورہا ہوں۔آؤ ایک گیم لگاتے ہیں"احمر نے پھر سے کہا۔
"بھائی! میرا موڈ نہیں ہے ابھی!"زارا نے منہ بناتے کہا۔
"کیوں بھئی موڈ کیوں نہیں ہے تمہارا؟"اُس نے بیٹھتے سنجیدگی سے سوال کیا۔
"پتا نہیں"زارا نے جھنجھلا کر کہا۔
"سہی ہے بھئی! سب کا بس مجھ پر ہی زور چلتا ہے"وہ منہ بناتا کہتا کھڑا ہوگیا جب زارا نے اُس سے کہنے لگی۔
"سوری بھائی! اصل میں میں ایک بات سوچ رہی تھی"زارا نے وضاحت دی۔احمر نے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔
"بھائی! میں گل آپی کے بارے میں سوچ رہی تھی"زارا نے گہرا سانس بھرے اُس کی جانب دیکھتے کہا جس پر احمر واپس بیٹھ گیا اور پوری طرح اُس کی جانب متوجہ ہوگیا۔
"بھائی! کتنا برا ہوا اُن کے ساتھ۔مجھے تو اب بھی سوچ سوچ کرنے کچھ ہورہاہے"زارا نے افسوس سے کہا.
"بھائی کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟وہ اتنی پیاری ہیں اتنی کیوٹ سی ہیں اور وہ پتا نہیں کیا کہہ رہے تھے اُن کے بارے میں؟"
"زارا! زندگی میں خوبصورتی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے !what really matters is fortune"احمر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔"دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو نہایت خوبصورت ہیں لیکن ان کی قسمت۔۔۔یہی تو ہوتا ہے انسان کی قسمت کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب پلٹی کھا جاتی ہے! گل کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔۔۔"
"لیکن بھائی اب کیا ہوگا؟"زارا نے بے چینی سے سوال کیا۔
"گڑیا! دیکھو یہ سب اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور یقیناً اُس کے بعد کا سفر نہایت خوبصورت ہوگا مجھے یقین ہے۔اب چلو جلدی سے اٹھو میرے ہاتھوں میں خارش ہورہی ہے۔ میں گیم سیٹ کرتا ہوں"احمر کہتا اٹھا۔
"ہاں اور یقیناً یہ خارش چیٹنگ کرنے کے لیے ہورہی ہوگی"زارا نے منہ بناتے کہا۔
"نہیں جی اسے چیٹنگ نہیں کہتے یہ ایک ٹیکنیک ہوتی ہے"احمر نے اُسے زبان چڑائے کہا۔
"اچھا بھلا چپکے سے گوٹھیاں چھپا لینا کہاں کی ٹیکنیک ہوتی ہے؟"زارا نے اپنی پیشانی پر شکنیں ڈالے سوال کیا۔
"اسے کہتے ہیں "The Great Ahmar's technique" جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔اب جلدی سے اٹھو میں باہر انتظار کر رہا ہوں تمہارا"احمر نے ہنستے ہوئے کہا اور حکم دیتے کمرے سے باہر نکل گیا۔
"ہنہ! "!The Great Ahmar"وہ منہ میں بڑبڑاتے اٹھی اور اپنی چپل پیر میں ڈالتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔وہ دونوں سامنے صوفے پر بیٹھی تھیں جبکہ گل بیڈ کی ٹیک سے اپنا سر ٹکائے بیٹھی انہیں تک رہی تھی۔آنکھیں اُس کی سوجھی ہوئے تھیں جو کہ اُس کی حالت کی گواہی دے رہی تھیں۔
"کیسی ہیں آپ دونوں؟"اُس نے بامشکل مسکراتے ہوئے سوال کیا جس پر میرہ بھی با مشکل مسکرائی۔
"ہم ٹھیک ہیں"اُس نے مختصر سا جواب دیا اور خاموش ہوگئی۔مزید کیا کہتی وہ اُسے۔
"میرے خیال سے اب ہمیں چلنا چاہیے!"مسی دھیرے سے مسکرائی تھی۔
"نہیں آپ تھوڑی دیر تو اور ٹھہریں۔ابھی آئی ہیں اور ابھی جا رہی ہیں"گل فوراً بولی۔
"نہیں اصل میں گھر پر سب انتظار کر رہے ہوں گے ہم کسی کو بتا کرنے نہیں آئے تھے"میرہ سے جو بہانہ بنا،کہہ دیا۔ان سے اُس کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔
"ہم پھر آئیں گے نہ بلکہ اب تم آنا ہماری طرف۔سب بہت خوش ہوں گے"مسی نے مسکراتے ہوئے اُسے آنے کی دعوت دی جس پر گل بس پھیکا سا مسکرا دی۔
وہ دونوں اٹھیں اور اُس سے ملتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔لاؤنج میں حیات صاحب زارون اور احان کے ساتھ بیٹھے کوئی بات کر رہے تھے۔انہیں آتا دیکھ كر وہ دونوں بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
"چلیں انکل اب ہم چلتے ہیں"میرہ نے مسکرا کر کہا۔
"بیٹا ابھی تو آئیں تھیں آپ لوگ تھوڑی دیر تو اور بیٹھتے"زوبیہ بیگم نے کہا۔
"آنٹی ہم پھر آئیں گے اکچلی ابھی دیر ہورہی ہے گھر پر سب انتظار کر رہے ہوں گے"مسی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر وہ اُن سے ملتے باہر گاڑی میں آگئے۔
"میرہ تمہاری دوست بہت ہمت والی ہے"مسی نے بیٹھے ساتھ ہی کہا تھا جس پر احان نے زارون کی جانب دیکھا جو بظاھر سکون سے انجکشن میں چابی ڈال رہا تھا۔
"اور اُس کی حالت۔۔۔!! کہیں سے بھی وہ پہلے والی گل نہیں لگتی ہے"مسی بغیر زارون کے دل کی حالت جانے کہے جارہی تھی۔
"مسی! مجھے گل کی بہت فکر ہے یار! مجھ سے نہیں دیکھی جاتی اُس کی یہ حالت!!"میرہ نے افسوس سے کہا۔"آئی سویر! اگر میں لڑکا ہوتی نا تو بلاجھجھک اُس سے فوراً سے شادی کے لیے ہاں کر لیتی۔گل جیسی لڑکی کہیں ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملے گی۔"اور واقعی یہ بات سچ ہی تھی۔
"مسی! میرہ! ہم یہ باتیں گھر جا کر کریں گے پلیز!"زارون کی حالت احان سے چھپی نہیں رہی تھی سو وہ اُن دونوں سے کہنے لگا جس پر وہ دونوں خاموش ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام نے اپنا آنچل پورے میں پھیلا دیا تھا۔ہلکے جامنی رنگ کا سوٹ پہنے وہ بھی شام کا ہی ایک حصہ لگ رہی تھی۔
دھیمی دھیمی سی اُس کی مسکراہٹ اس وقت بہت بھلی لگ رہی تھی اور پھر وہ اپنی گردن جھکائے ہنسنے لگی تھی۔ہنسنے کی وجہ سے اُس کی آنکھوں میں پانی آیا تھا اور اُس کی گالیں لال ہورہی تھیں۔
"زارون!؟"احان کو اُسے دیکھتا لان میں آیا تھا اُسے کسی گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر اُسے پکارا لیکن زارون نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"زارون۔۔۔۔۔۔؟؟"اب کی بار قدر اونچا اور کھینچ کر اُس کا نام پکارا گیا۔
"ہاں کیا ہے؟کیوں اتنا اونچا چلا رہے ہو؟"زارون نے بے زاری سے سوال کیا،جبکہ سوچوں کا تسلسل اب ٹوٹ چکا تھا۔اب احان اور اس کے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔
"تو اکیلا بیٹھا کیا کر رہا ہے؟"
"کیوں اکیلے بیٹھنا منع ہے کیا؟"زارون نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"او بھئی تو مجھ پر کیوں غصہ کر رہا ہے؟میں نے کون سا تجھے گل سے شادی کرنے سے منع کیا ہے؟"احان نے سنجیدگی سے کہا جس پر زارون بس اُسے گھور کر رہ گیا۔
"احان میں بتا رہا ہوں اگر کوئی نہ مانا تو میں خود ہی جا کی اُس سے شادی کر لوں گا"زارون نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"اوہ! Really! ویسے اچھا آئیڈیا ہے۔جا کر تم گل کے ڈیڈ سے کہنا کہ میں آپ کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں آپ اس کا نکاح مجھ سے کر دیں لیکن میرے گھر والے اسے ایکسیپٹ نہیں کریں گے۔کول!"احان نے وضاحت دی۔
"تم ہمیشہ فضول ہی بولو گے؟"زارون نے بیزاری سے سوال کیا۔
"زار! یہ فضول نہیں ہے میں تجھے اصلیت سے آگاہ کر رہا ہوں۔تجھے کیا لگتا ہے تو جا کر اُس کے ڈیڈ کو بولے گا شادی کے لیے اور وہ ہاں کر دیں گے؟نہیں زارون! اگر تو ایسا سوچتا ہے تو غلط سوچ رہا ہے۔جس لڑکے کے ساتھ گل کی شادی ہو رہی تھی وہ اُس کے ڈیڈ کے بیسٹ فرینڈ کا بیٹا تھا۔اور عین نکاح کے وقت اُس نے شادی سے انکار کر دیا۔اور تو کون ہے؟وہ تجھے جانتے تک نہیں ہیں؟کیا کرتا ہے کہاں رہتا ہے وغیرہ۔۔۔وہ تجھ پر بھلا کیسے یقین کر سکتے ہیں؟انہیں تیرے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔اور جہاں تک بات رہی رشتے کی تو اس معاملے میں اب وہ بہت حساس ہو گئے ہوں گے۔انسان ایک بار تجربے سے سبق سیکھتا ہے لیکن بار بار وہی تجربات نہیں آزماتا ہے۔"احان نے سنجیدگی سے اُسے سمجھایا۔زارون پل بھر خاموش رہا پھر اٹھا،ٹیبل سے اپنا لائٹر اور سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا اور پاکٹ میں ڈالنے لگا۔
"اب تو کہاں جا رہا ہے؟"احان نے اُس کی جانب دیکھتے سوال کیا
"ڈیڈ کے پاس!"وہ کہے رکا نہیں بلکہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔احان اُسے جاتا تکتا رہا۔
وہ چلتا اندر آیا اور اپنے قدم سکندر صاحب کے کمرے کی جانب بڑھا دیے۔
"با۔۔۔۔۔"ابھی اُس کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب دروازہ کھولتے سامنے ہی ذیشان،مصطفیٰ صاحب اور غضنفر صاحب بھی سکندر صاحب کے ساتھ بیٹھے محوِ گفتگو تھے۔انہیں دیکھ کر وہ خاموش ہوگیا۔
اس سے پہلے وہ دروازہ بند کرتا باہر جاتا غضنفر صاحب نے اُسے پکار لیا۔
"آجاؤ برخوردار! تمہارے بارے میں ہی بات کر رہے تھے ہم"غضنفر صاحب نے اُس کی پریشانی میں اضافہ کیا۔
"ج۔۔جی میرے بارے میں؟"اُس نے سوال کیا جس پر انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔وہ واپس اندر کہا اور کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
وہ چلتا آیا اور سکندر صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"میں نے تمہارے تایا اور چاچو سے بات کی ہے"سکندر صاحب نے اُس کے سر پر بم پھوڑا جس پر پہلے اُس نے حیرت سے سکندر صاحب کی جانب دیکھا پھر اُس کی بیساختہ نظر مصطفیٰ صاحب کی جانب اٹھی جو اُسے ہی تک رہے تھے۔اُسے شرمندگی نے آگھیرا۔اور شرمندگی کے مارے وہ اپنی نظریں جھکا گیا۔
"اور ان میں سے کسی کو اس متعلق کوئی اعتراض نہیں ہے"سکندر صاحب نے کہ جبکہ پہلے تو اُسے سمجھ نہ آئی لیکن کچھ پل کے بعد اُس نے حیرانگی سے سکندر صاحب کو دیکھا اور پھر غضنفر اور مصطفیٰ صاحب کی جانب جو اُسے دیکھتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
"بابا آپ۔۔آپ سچ کہہ رہے ہیں؟"اُس کی حیرانگی اُس کے الفاظ سے چھلک رہی تھی جس پر سکندر صاحب مسکرا دیے اور انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"تھینک یو سو مچ!"اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
"لیکن ابھی یہ بات صرف ہم تینوں اور تمہارے درمیان ہی رہے گی"سکندر صاحب نے تنبیہ کی۔
"جب بابا سائیں مان جائیں گے اس رشتے کے لیے تو ہم سب کو آگاہ کر دیں گے"انہوں نے مزید کہا۔
"چاچو مجھے یقین ہے احان بھی سب جانتا ہوگا۔ورنہ کوئی بات ان میں سے کسی ایک کو پتا ہو تو دوسرے کو بھی یقیناً علم ہوتا ہے اُس کا"ذیشان نے کہا۔
"کہو برخوردار! احان جانتا ہے اس بارے میں؟"غضنفر صاحب نے سوال کیا۔
"جی"اُس نے یک لفظی جواب دیا۔
"دیکھا میں نے کہا تھا احان کی تو میں خبر لوں گا نا میسنا سا!"ذیشان دھیرے سے کہنے لگا۔
"میں،بھائی صاحب اور مصطفیٰ جائیں گے کچھ دن تک تمہارے لیے رشتے مانگنے اور اگر انہوں نے رضامندی دے دی تو ابھی صرف تمہارا نکاح کریں گے باقی کا جو فنکشن بھی ہو گا بابا سائیں کی رضا مندی کے بعد ہوگا۔گھر کی عورتوں کو بھی ابھی اس سب سے لاعلم رکھنا ہوگا۔"
وہ حیرانگی سے سب سن رہا تھا۔
"بابا امی کو بن بتائے یہ سب کرنا ٹھیک رہے گا؟"
"بیٹا اب تمہاری خوشی کے لیے ابھی اس سب کو ایک راز ہے رکھنا ہوگا اگر بابا سائن کو معلوم پڑ گیا تو وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے اور یقیناً تم ایسا ہرگز نہیں چاہو گے"
"بولو برخوردار! منظور ہے تمہیں"تایا جان نے سوال کیا جس پر اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"چلو کرتے ہیں پھر کچھ"انہوں نے کہا"اب تم جا سکتے ہو!"اور ساتھ ہی اُسے جانے کی اجازت دی۔
مصطفیٰ صاحب بھی اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گئے۔وہ بھی جلدی سے کمرے سے باہر نکلا اور اُنہیں پکارا۔
"چاچو!"اُس کے پکارنے پر وہ پلٹے تو وہ سامنے ہی کھڑا تھا۔
"ہمم کہو بیٹا؟"
"چاچو! میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں"اُس نے شرمندگی سے کہا۔
"ارے بیٹا کیسی باتیں کر رہے ہو تم؟میں خود یہی چاہتا تھا کہ جس میں بچوں کی خوشی ہو وہی فیصلہ کیا جائے۔میں بھی زور و زبردستی کے حق میں نہیں ہوں اور میں نے خود بھائی صاحب کو کہا ہے کہ جہاں تمہاری رضامندی ہو وہاں ہاں کر دیں۔اور باقی بابا سائیں سے ہم خود بات کر لیں گے۔تمہاری خوشیاں ہم سب کو سب سے زیادہ عزیز ہیں۔"مصطفیٰ صاحب نے اُس کی گال تھپکتے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تھینک یو چاچو! تھینک یو سو مچ!"اُس نے مسکراتے ہوئے کہا اور اُن کے ساتھ گلے لگ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان کمرے میں بیٹھا کب سے احان کا انتظار کر رہا تھا۔تھوڑی دیر اور گزری جب کمرے کا دروازہ کھلا اور احان کمرے میں داخل ہوا۔
"بھائی آپ! خیریت آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"اُسے اپنے کمرے میں بیٹھا دیکھ کر وہ حیرانگی سے سوال کرنے لگا۔
"ہاں تم سے ضروری بات کرنا تھی مجھے"ذیشان نے سنجیدگی سے کہا۔
"کیا ہوا سب خیریت تو ہے؟"احان نے سنجیدگی سے اُس کے پاس بیٹھتے سوال کیا۔
"بابا لوگ زارون کی شادی کی بات کر رہے تھے"ذیشان نے اپنے چہرے پر سنجیدہ تاثرات سجائے کہا۔
"کیا؟زارون کی شادی؟آپ سچ کہہ رہے ہیں؟"
"ہاں!"ذیشان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تو پھر تو یہ خوشی کی بات ہے۔اچھا ہوا چاچو لوگ اُس کی بات مان۔۔۔۔"احان فوراً سے خاموش ہوا۔
"کیا مطلب؟کون سی بات؟"ذیشان نے بظاھر ناسمجھی سے سوال کیا۔احان فوراً سے اٹھا اور الماری کھول کر اُس میں سے کچھ ٹٹولنے لگا۔
"خیر! جو بھی بات ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ زارون کو اُس بارے میں اور لڑکی کے بارے میں نہیں پتا"ذیشان نے اپنی ہنسی ضبط کرتے کہا۔احان فوراً سے پلٹا اور اس کی طرف آیا۔
"کیا؟زارون کو بھی نہیں پتا؟مطلب اُس نے بات نہیں کی؟"اُس کی حیرانگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
"میری سمجھ سے باہر ہے آخر تم کس بارے میں بات کر رہے ہو؟"
"بھائی! یار میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔۔۔"اُس نے پریشانی سے اپنے سر میں ہاتھ پھیرتے کہا۔
"زارون کہاں ہے؟"اس نے فوراً سے سوال کیا۔
"پتا نہیں"
"میں دیکھتا ہوں اُسے"وہ کمرے سے باہر نکلنے لگا جب ذیشان کا زوردار قہقہ کمرے میں گونجا۔
"آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟"احان نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
"مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ تم جانتے ہو گے اس بارے میں بس میں کنفرم کرنا چاہ رہا تھا"ذیشان نے اپنی ہنسی کے درمیان کہا جبکہ احان ناسمجھی سے اُس کی جانب تکنے لگا۔
"صبر کرو سب سمجھ جاؤ گے"وہ اُس کا شانہ تھپکتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
"افف یہ سب کیا چل رہا ہے گھر میں؟"وہ بھی سوچتا کمرے سے باہر نکل گیا ارادہ زارون کے پاس جانے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"گل! بیٹے۔۔۔"زوبیہ بیگم اُس کے کمرے میں داخل ہوئی لیکن خاموش ہو گئیں۔بیڈ سے ٹیک لگائے ہی وہ سو چکی تھی۔وہ چلتی اس تک آئیں اُس کو دھیرے سے پکارا۔
"گل بیٹا سہی سے لیٹ جاؤ"اُن کے آواز دینے پر اُس نے آنکھیں کھولیں۔
"بیٹا ایسے ہی گردن میں درد شروع ہو جائے گی"
"موم! آپ پلیز یہیں میرے پاس بیٹھ جائیں۔وہ۔۔وہ پھر سے آئے گا اور ایسے ہی مجھ پر الزام لگائے گا۔۔پلیز رک جائیں۔۔۔!"وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔
"بیٹا کوئی بھی نہیں آئے گا تمہارے ڈیڈ ہیں یہاں پر کوئی کیسے تم کو کچھ کہہ سکتا ہے"
"موم پہلے بھی ڈیڈ کے سامنے اُس نے،بلکہ سب کے سامنے اس نے الزام لگایا تھا وہ اب بھی یہی کرے گا"وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی زوبیہ بیگم نے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی اور روتے روتے ایک بار پھر سے اُس کی آنکھ لگ گئی۔زوبیہ بیگم نے اُسے سہی سے بیڈ پر لٹایا اُس پر چادر ڈالتیں وہ کمرے سے باہر نکل گئیں۔
"حیات صاحب! میں گل کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔اس کی حالت دیکھی ہے آپ نے؟دل میں درد سا ہوتا ہے اُسے اس حالت میں دیکھ کر۔۔۔"زوبیہ بیگم کی آواز بھرا گئی تھی۔حیات صاحب چلتے آئیں تک آئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔
"میں جانتا ہوں زوبیہ۔وہ جس ٹراما سے گزر رہی ہے اس سے سنبھلنے میں اُسے وقت لگے گا۔۔۔"
"اور کتنی تکلیف حیات صاحب؟"ان کی آنکھوں سے آنسو گال پر گرے تھے۔وہ اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سوال کر رہی تھیں۔
اس سے پہلے حیات صاحب کچھ کہتے اان کا فون بجنے لگا۔
سکرین پر جگمگاتا نام دیکھ کرنے انہوں نے فون اٹھا لیا اور اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی جانب آگئے۔
"کیس جیسا بھی ہو جس بھی قسم کا ہو مجھے وہ لڑکا آزاد گھومتا نظر نہیں آنا چاہیے"اپنے مخصوص سنجیدہ انداز میں وہ کسی سے کہہ رہے تھے۔
"ہمم! سزا ایسی ہونی چاہیے کہ آئندہ اُس کی کیا کسی کی بھی جرات نہ ہو کہ بیچ راہ میں کسی پر بھی الزام لگا کر اُس کی زندگی اور عزت کا سودا کر دے"اُن کے لہجے میں دبا دبا غصہ واضع تھا۔
"میں جو کہہ رہا ہوں بس وہی کرو۔۔۔"دوسری طرف سے جو بھی کہا گیا انہوں نے سنا اور پھر کال کاٹ دی۔
زوبیہ بیگم نے اپنے آنسو پونچھے۔
"تم فکر مت کرو میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں اس بارے میں"انہوں نے زوبیہ بیگم کو تسلی دی۔زوبیہ بیگم نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سنیے سب کچھ ٹھیک تو ہے؟بابا سائیں اپنی جگہ الگ خاموش خاموش سے ہیں آپ بھائی صاحب لوگ بھی ٹینشن میں لگ رہے ہیں اور اوپر سے زارون بھی بدلا سے لگ رہا ہے مجھے"عائشہ بیگم نے اپنا خدشہ بیان کیا۔
"نہیں عائشہ ایسی کوئی بات نہیں ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہوگی"سکندر صاحب نے اُن کی بات ٹالنا چاہی۔
"نہیں مجھے نہیں لگتا میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں"انہوں نے اپنے پرکھنے کو غلط فہمی قرار دینے سے انکار کیا۔
"عائشہ بس ایک مسئلہ چل رہا ہے بس دعا کرو سب ٹھیک ہوجائے"
"آپ چاہیں تو آپ مجھ سے شیئر کر سکتے ہیں"
"وقت آنے پر عائشہ میں سب کچھ بتا دوں گا لیکن ابھی صحیح وقت نہیں ہے"سکندر صاحب نے کہا جبکہ عائشہ خاموش ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حیات صاحب! میں نے سارا کیس اسٹڈی کیا ہے آپ کی بیٹی کا ویسے تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے لیکن ابھی جس چیز کا صدمہ اُنہیں لگا ہے اُسے آپ کو دور کرنا ہوگا اور یہ کام آپ کو جلد کرنا ہوگا۔ان کا دل بہلائیں تاکہ وہ اس حادثے کے اثر سے نکل سکیں۔اگرچہ یہ سب بہت مشکل ہے لیکن آپ کو یہ کرنا ہوگا۔"ڈاکٹر اپنے ہاتھ آپس میں جوڑے سنجیدگی سے اُنہیں کہہ رہا تھا۔
"لیکن ڈاکٹر صاحب! ہم کیا کر سکتے ہیں اُسے اس سب سے نکالنے کے لیے؟"
"دیکھیں جس کام میں ان کا دل لگتا ہے اُنہیں وہ کرنے پر اُکسایں،زیادہ سے زیادہ ٹائم اُن کے ساتھ سپیڈ کریں اور فرینڈز کے ساتھ بعض اوقات انسان رہ کر ریلیکس فیل کرتا ہے یا میرے پاس اس سب کا ایک اور حل بھی ہے۔۔۔"
"کیا؟"
"آپ ان کی شادی کر دیں!"
"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟جانتے ہیں یہ سب شادی کرنے کی وجہ سے ہی ہوا تھا"حیات صاحب کی آواز میں برہمی در آئی۔
"جی میں جانتا ہوں اسی لیے کہہ رہا ہوں"
"آپ اپنے مشورے اپنے پاس رکھیے۔مجھے جو بہتر لگے گا وہ میں کروں گا"حیات صاحب نے غصے سے کہا۔
ان کے کہنے پر ڈاکٹر ریلیکس سے انداز میں پیچھے ہو کر بیٹھے۔
"جی جی! وہ آپ کی بیٹی ہے آپ کا حق بنتا ہے لیکن میرے اس مشورے پر غور ضرور کیجیے گا!"ڈاکٹر نے سکون سے کہا جس پر حیات صاحب اٹھے اور اُس کے کلینک سے باہر نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت کلب میں بیٹھا تھا بالکل خاموش۔اس کے آس پاس اُس کے دوست بیٹھے تھے جو ہنس کر آپس میں باتیں کر رہے تھے۔اُس نے ٹیبل سے مشروب کا گلاس اٹھایا اور اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
جب سکون نہ آیا تو اپنی پاکٹ سے پیکٹ نکالا اور اُسے سونگھنے لگا۔دماغ اُس کا سن ہونے لگا تھا،اور جیسے سکون سا اُس کے اندر اترنے لگا۔
"راحم کیا ہوگیا ہے پاگل ہے تو؟"علی جو اُسے ایسا کرتا دیکھ رہا تھا فوراً سے اُسے ٹوکنے لگا۔لیکن راحم نے ہاتھ اٹھا کر اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
"راحم تو کیوں اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے؟جانتا ہے یہ سب لینا کتنا نقصان دہ ہے؟"ایک اور دوست اُسے ٹوکنے لگا۔
"مجھے فلوقت سکون چاہیے جو کہ صرف یہی مجھے دے سکتا ہے"راحم کی آنکھیں لال ہورہی تھیں۔
"راحم مجھے تمہاری حالت صحیح نہیں لگ رہی چلو اٹھو ہم گھر چل رہے ہیں"علی نے فوراً سے اٹھتے ہوئے کہا۔
"میں نے کہا نہ مجھے کہیں نہیں جانا اور گھر بالکل بھی نہیں"راحم دھاڑا تھا۔
"کب تک گھر نہیں جائے گا تو؟"علی نے اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے اُس سے سوال کیا۔
"جب تک مجھے سکون نہیں مل جاتا تب تک!"
"راحم تو سمجھ۔۔۔۔"اس سے آگے وہ کچھ بولتا پولیس کلب میں داخل ہوئی اور اسی جانب آرہی تھی۔علی فوراً گڑبڑایا اور اس سے پہلے کوئی کچھ کرتا پولیس ان تک پہنچ چکی تھی۔
"راحم غفور احمد!"انسپکٹر اس کی جانب دیکھتے بولا اور اس سے پہلے راحم کچھ کرتا اُس کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگ چکی تھی۔
"کیا ہے یہ سب اور تم لوگ مجھے کیوں لے کر جارہے ہو؟"راحم ناسمجھی سے کہہ رہا تھا۔
"خاموش ہوجاؤ تمہارے خلاف پرچہ کٹا ہے"کانسٹیبل نے اُس کے سوال کا جواب دیا جبکہ اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"سر! اس پر تو ڈرگز لینے کا بھی پرچہ ہونا چاہیے"کانسٹیبل نے انسپکٹر سے کہا جس پر انسپکٹر اُس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہنے لگا۔
"بات تو تم ٹھیک کر رہے ہو ابھی تو لے چلو تھانے باقی کاروائی وہاں جا کر ہی ہوگی"بغیر اُس کی پکار سنے وہ اُسے ڈالے تک لےگئے۔
ڈالے میں بیٹھتے ساتھ ہی انسپکٹر کا فون بجنے لگا۔
"ہیلو! جی سر!ہوگیا ہے آپ کا کام جی۔ارے فکر کی کوئی بات نہیں ہے اس پر تو ابھی ڈرگز لینے کا بھی کیس بن سکتا ہے۔جی ویسے میری سمجھ سے باہر ہے آپ نے بھلا کیسا لڑکا پسند کر لیا؟چلیں سہی ہے! رب رکھا!"دوسری جانب سے جو بھی کہا گیا اُس کا جواب دیے انسپکٹر نے فون کاٹ دیا۔گاڑی زور و شور سے تھانے کی جانب بڑھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن رفتا رفتا گزر رہے تھے اور وہ دن بھی آگیا جب وہ اُس کا رشتہ لے کر آئے تھے۔اس وقت وہ ڈائننگ حال میں بیٹھے تھے۔
"دیکھیں ہم جانتے ہیں ماضی میں کیا کچھ ہوا تھا اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سب میں بچی کا کوئی قصور نہیں تھا۔اگر آپ کو پھر بھی کوئی اعتراض ہے یا آپ تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو بیشک آپ وقت لے لیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا"سکندر صاحب اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہے تھے جبکہ الفاظ اور آنکھیں ایک ہی بات کہہ رہی تھیں جو زبان سے ادا ہوئے تھے۔
حیات صاحب خاموشی سے بس بیٹھے ہوئے تھے جبکہ غضنفر صاحب کہنے لگے۔
"ہم ابھی صرف نکاح ہی کریں گے منگنی وغیرہ کو ہم اتنی اہمیت نہیں دیتے۔باقی بچی نے آگے پڑھنا ہے تو وہ پڑھ لے اُس کے بعد کوئی اور رسم ادا ہوجائے گی"
"اب ہمیں اجازت دیجیۓ!"سکندر صاحب کہے اٹھے۔
"میں آپ کو سوچ کر بتاؤں گا"حیات صاحب نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔کوئی برائی نہیں تھی اس رشتے میں اور زارون کو تو اُنہیں نے خود بھی دیکھا ہوا تھا لیکن ایک ٹھٹھکا ابھی بھی تھا اُنہیں۔
سکندر صاحب دھیرے سے مسکرا دیے۔
حیات صاحب اُن کو باہر تک چھوڑنے گئے اور پھر واپس آگئے۔
"کون تھے یہ لوگ؟"اُن کے آتے ہی زوبیہ بیگم نے اُن سے سوال کیا۔
"گل کا رشتہ لے کر آئے تھے"انہوں نے گہرا سانس بھرتے کہا جبکہ زوبیہ بیگم حیران ہوئیں۔
"گل کا رشتہ؟لیکن تھے کون وہ لوگ؟"اُن کی حیرانگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
"تمہیں یاد ہے جب گل بیہوش ہوگئی تھی تو ایک بچا جو ہمارے ساتھ ہسپتال گیا تھا۔۔۔؟؟"
"جی!"
"اُس کے والد صاحب اور تایا آئے تھے اُس کے لیے گل کا رشتہ مانگنے"
"حیات صاحب! وہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے"
"یہ بات بھی ٹھیک ہے زوبیہ۔لیکن اس بار میں جلد بازی نہیں کروں گا اچھی طرح پہلے جانچ پڑتال کر کے پھر ہی کوئی فیصلہ ہوگا۔ایک بار جلد بازی کا انجام میں بھگت چکا ہوں"
"حیات صاحب! کیا یہ سب سہی رہے گا؟گل اس سب کو قبول کر لے گی؟اب تو شادی کے نام پر بھی وہ گھبرا جاتی ہے"زوبیہ بیگم پریشانی سے کہنے لگیں۔
"زوبیہ اس کے لیے یہی بہتر ہے شاید وہ اس کے ذریعے اپنے اس ٹراما سے باہر نکل آئے۔وہ لوگ نکاح کرنا چاہتے ہیں منگنی کو وہ اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں"
"اللہ جو بھی کرے میری بیٹی کے حق میں بہتر ہو!"زوبیہ بیگم نے گہرا سانس بھرے کہا جس پر حیات صاحب آمین کہنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کافی عرصے بعد پھر سے جمال الدین منشن میں رونق لگی ہوئی تھی۔سب لاؤنج میں بیٹھے آپس میں گپ شپ کر رہے تھے لیکن دادا سائیں اپنے روم میں تھے۔
تبھی سکندر صاحب کا فون بجنے لگا۔نام دیکھ کر وہ تھوڑے سنجیدہ ہوئے اور اٹھ کر باہر آگئے۔
"جی کیسے ہیں آپ؟کیا! اچھا واقعی یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔بہت بہت شکریہ! میں بھائی صاحب سے مشورہ کر کے ہم نکاح کی ڈیٹ فائنل کر لیتے ہیں۔ہی بہت بہت شکریہ! خدا حافظ!"سکندر صاحب نے کہا پھر دونوں طرف سے فون کاٹ دیا گیا۔
سکندر صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
"کیا ہوا بابا آپ باہر کیوں آگئے؟سب خیریت؟کیا کا فون تھا؟"
"حیات صاحب کا فون آیا تھا۔اور وہ اس رشتے کے لیے مان گئے ہیں"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ زارون یک دم سیدھا کھڑا رہا اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح کا ردِ عمل ظاہر کرے۔
"میں ابھی بھائی صاحب اور مصطفیٰ سے مشورہ کرتا ہوں"وہ اُس کا شانا تھپکتے واپس اندر چلے گئے جبکہ احان جو یہ باتیں سن چکا تھا چلتا آیا اور پیچھے سے زور سے اُس کے گلے لگ گیا۔
"اوئے ہوئے بھئی! قبول ہوگیا رشتہ!"احان نے ہنستے ہوئے کہا جس اور زارون مسکرا دیا۔
"بیٹا ایک بار آجائیں بھابھی اس گھر میں ہائے! پھر تیرے مجنوں پن کے سارے قصے ان کی خدمت میں نوش کر دوں گا"احان نے کہا جبکہ زارون بس اُسے گھور کر رہ گیا۔
"اچھا اب بتا منگنی ونگنی کا کیا سین ہے؟"
"منگنی نہیں ہونی ہے"زارون نے سادہ سے انداز میں کہا۔
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ منگنی کی بجائے نکاح ہوگا!"
"کیا۔۔۔۔۔۔!!! نکاح؟جھوٹ تو نہیں بول رہا؟کہیں تو نے ہی تو نکاح کا مشورہ نہیں دیا تھا؟"احان نے سوال کیا جس پر زارون مسکرا دیا۔
"اوئے ہوئے پکی پلاننگ کی ہوئی ہے جناب نے!"احان نے ہلکے سے پنچ اُس کے سینے پر مارا۔
"ہاں نہ کل کو اگر دادا سائیں نہ مانیں تو یہ تو کہہ سکوں گا نہ کہ میری بیوی ہے"زارون نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔
"بڑی کوئی چیز ہے تو قسمے!"احان نے نفی میں سر ہلاتے کہا جس پر زارون مسکرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگلے جمعہ کو نکاح رکھا گیا تھا۔گل تو بالکل خاموش سی تھی۔اور یہی خاموشی دادا سائیں نے بھی اپنائی ہوئی تھی اگرچہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے لیکن اُن کی خاموشی کسی طوفان کے آنے سے کم نہیں تھی۔
جمعے کی نماز کے بعد سب مرد حضرات حیات صاحب کے گھر کے لیے نکل چکے تھے۔
گل نے اس متعلق کچھ نہیں کہا تھا لیکن خاموشی ہی اپنائی ہوئی تھی اب جانے یہ خاموشی کس موڑ کی تھی۔
زوبیہ بیگم نے اپنی چند دوستوں اور حیات صاحب نے بھی کچھ ہی لوگوں کو انوائیٹ کیا تھا۔
حیات صاحب نے اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے ہی رشتے کے لیے حامی بھری تھی۔اور اُنہیں اپنی بیٹی کے لیے یہی سب سے بہترین فیصلہ لگا تھا تاکہ وہ سنبھل پائے اور یقیناً ان سب کی محبت اسے اس سب سے نکال دے گی۔
تیاری پر وہ کوئی خاص تیار نہیں ہوئی تھی۔ہلکے سے میک اپ پر مہرون سادہ سا جوڑا پہنے وہ تیار کھڑی تھی۔جبکہ ناک میں نوز پن کا موٹی اور گلے میں چین کا پینڈینٹ دمک رہا تھا۔ہاتھ مہندی سے خالی تھی۔
زوبیہ بیگم نے بھی اُسے تیار ہونے کا زور نہیں دیا تھا وہ بس چاہتے تھے کہ گل واپس نارمل ہوجائے۔
ایک بار پھر سے سارا منظر دہرایا گیا۔وہ دلہن بنے بیٹھی تھی اور قاضی دولہے سے اجازت طلب کر رہے تھے۔اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا،لیکن لڑکے نے اجازت دے دی۔نکاح کے بول بولے گئے دستخط ہوئے اور پھر مبارک باد شروع ہوگئی جبکہ وہ حیران سی بیٹھی تھی،جو ٹرانس سی کیفیت اُس پر طاری تھی ٹوٹی،سب کچھ واضع ہونے لگا۔وہ اپنی زندگی،اپنا آپ کسی اور کو سونپ چکی تھی۔لیکن کیسے؟
وہ ایک دم سے اٹھی اور تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔زوبیہ بیگم نے پریشانی سے اُس کی جانب دیکھا اس سے پہلے وہ اس کے کمرے میں جاتیں زارون کی آواز پر رکیں۔
"آپ پریشان مت ہوں میں اُسے دیکھتا ہوں"کہتا وہ اُس کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔دروازہ اندر سے لاک نہیں تھا۔اُس نے کھولا اور واپس بند کر دیا لیکن اب کی بار فقل لگانا نہیں بھولا تھا۔
اُس کا دوپٹہ صوفے پر پڑا تھا جبکہ وہ بیڈ پر بیٹھی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو رہی تھی۔
وہ چلتا اس تک آیا اور اسے تکنے لگا۔کمرے میں کسی اور کی موجودگی محسوس کر کے اُس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے اٹھایا سامنے زارون کھڑا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔اُسے نہیں پتا چلا تھا کہ کب کوئی اس کے کمرے میں آیا ہے۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور اُس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
"کیوں کیا ہے آپ نے ایسا؟بتائیں مجھے؟کیوں کیا ہے؟"وہ چلائی تھی۔جس پر زارون بس خاموش رہا۔
"آپ ظاہر کیا کرنا چاہتے ہیں یہ سب کر کے؟"
"میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو تم اس طرح ری ایکٹ کر رہی ہو"
"کچھ نہیں کیا تو پھر یہ نکاح کا ڈراما کیوں رچایا آپ نے؟يا آپ نے یہ سوچا ہوگا کہ ابھی تازہ تازہ غم ملا ہے اسے اس پر الزام لگایا گیا ہے تو اور کوئی تو اس سے شادی نہیں کرے گا میں ہی کر لیتا ہوں؟ہیں ناں سہی کہہ رہی ہوں نہ میں ہمدردی جتانا چاہتے ہیں نہ آپ مجھ پر؟بتائیں مجھے؟"
"گل کیسی باتیں کر رہی ہو تم؟تمہیں پسند کرتا ہوں محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔"
"ہنہ۔۔۔۔۔"گل نے سر جھٹکا وہ اپنے حواس میں نہیں لگ تھی تھی۔"محبت کرتے ہیں آپ مجھ سے؟واہ!"اُس نے طنز کیا۔
"گل تم میری محبت کا غلط مطلب لے رہی ہو"
"میں غلط نہیں لے رہی مسٹر زارون سکندر! آپ نے جان کر مجھ سے نکاح کیا ہے تاکہ اُس لڑکے کی طرح آپ بھی زمانے میں مجھے رسوا کریں۔ہاں! آپ بھی یہی کرنا چاہتے۔۔۔۔"
"خاموش ہو جاؤ گل! تم میری عزت ہو اور میں اچھے سے جانتا ہوں کہ اپنی عزت کی حفاظت کیسے کرتے ہیں"زارون نے بیچ میں اس کی بات کاٹ کر ایک ایک لفظ پر زور دیئے کہا۔
گل دو قدم پیچھے ہوئی۔آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔عجیب سی حالت ہورہی تھی اس کی۔
"آپ چلے جائیں یہاں سے پلیز! جائیں!"وہ دیوانہ وار کہہ رہی تھی اس سے پہلے وہ اُسے اور کچھ کہتی زارون نے جھٹکے سے اُس کی گردن میں ہاتھ ڈالے خود کے قریب کیا۔
"بیوی بنایا ہے تمہیں اپنی۔یوں بیچ راہ میں چھوڑنے والا نہیں ہوں میں۔۔۔"اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ کہہ رہا تھا جبکہ گل کی سانس وہیں کی وہیں رکی تھی۔
"بہت جلد آؤں گا تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے کر جانے کے لیے"محبت بھرے انداز میں کہے اُس نے اُسے چھوڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now