غضنفر صاحب اور مریم بیگم اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھے۔دھیرے سے دروازہ نوک ہوا اور احان کمرے میں داخل ہوا۔
"آؤ آؤ برخوردار! کہیں راستہ تو نہیں بھٹک گئے اپنے کمرے کا؟"مریم بیگم نے صاف طنز کیا تھا۔
احان ہنس دیا اور چلتا ان تک آیا۔
"نہیں امی حضور! یہ غلام آپ ہی کی خدمت میں حاضر ہوا ہے"اُس نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے کہا تو مریم بیگم ہنس دیں۔
"آج کیسے اپنی امی کے پاس بیٹھنے کا خیال آگیا تمہیں؟"وہ اپنے جوتے اُتارے مریم بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹ چکا تھا تو مریم بیگم نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے سوال کیا۔
"امی یہ جو آپ کے خاوند ہیں ناں اتنا کام کرواتے ہیں مجھ معصوم سے کہ میں بیچارہ تھکا ہارا جب گھر آتا تو فوراً سو جاتا ہوں"اُس نے معصومیت سے بھر پور انداز میں کہا۔
"بیٹا جی ان ورکرز سے پوچھو جو بھاری بھر کم بوجھ اپنے اوپر لادھتے ہیں تمہیں تو بس ان کی نگرانی کرنی ہوتی ہے"غضنفر صاحب جو کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے بند کی اور سائڈ پر رکھتے کہا۔
"بہت شریر ہوگیا ہے یہ"مریم بیگم نے ہلکے سے اُس کا کان کھینچا۔
"بیگم میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔اس کی شادی کر دیتے ہیں خود ہی سیٹ ہو جائے گا"غضنفر صاحب نے کہا تو احان چہکا۔
"سچی بابا! میری شادی کرنے لگے ہیں آپ لوگ؟"وہ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا تو مریم بیگم اور غضنفر صاحب اُس کے چہکنے پر حیران ہوئے۔
"بیٹا جی ابھی صرف سوچا ہے لڑکی کوئی درخت پر تو پڑی نہیں ہے جو اُتار کر اُس کی شادی تم سے کروا دیں"مریم بیگم نے اپنا ہاتھ جھلاتے کہا۔
"لو اس میں کیا بڑی بات ہے۔لڑکی ڈھونڈھنا کون سا مشکل کام ہے"احان نے جیسے مسئلہ حل کیا۔
"کیا مطلب؟کہیں کوئی پسند تو نہیں کر بیٹھے تم بھی؟"مریم بیگم نے اب کی بار سنجیدگی سے سوال کیا۔
"ن۔۔نہیں امی مم۔۔میں تو یونہی کہہ رہا تھا"اُس نے فوراً کہا جبکہ اُن دونوں نے مشکوک نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔
"احان سچ سچ بتاؤ؟کون ہے وہ لڑکی؟"غضنفر صاحب کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
"بابا۔۔۔۔"
"احان جو میں پوچھ رہا ہوں اُس کا جواب چاہیے"
"اوکے فائن! ہے ایک لڑکی لیکن اُس لڑکی کو آپ لوگ بھی جانتے ہیں"احان نے ہار مانتے کہا۔
"کیا ہم بھی جانتے ہیں؟لیکن تم نے تو کبھی ہمیں کسی لڑکی سے نہیں ملوایا ہے؟"مریم بیگم نے سوال کیا جبکہ غضنفر صاحب خاموش بیٹھے بس اُسے دیکھ رہے تھے۔اُس کا گڑبڑانا اُن سے چھپا نہیں رہا تھا۔
"وہ امی۔۔۔میں مسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں"اُس نے سرگوشی کی لیکن وہ سن چکے تھے۔
"کون؟اپنی مسی؟مصطفیٰ کی بیٹی؟"مریم بیگم نے حیرانگی سے سوال کیا اور اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"غضنفر صاحب؟"مریم بیگم نے اُن کی جانب دیکھا اور بے چینی سے کہا۔
"مریم پریشان مت ہو میں بابا سائیں اور مصطفیٰ سے بات کر لوں گا"انہوں نے مریم بیگم کو تسلی دی۔
"میں یہ نہیں کہہ رہی لیکن احان تم سیریس ہو نہ اُس سے شادی کے لیے؟پہلے بھی بابا سائیں نے اُس کے لیے ہی۔۔۔"
"امی میں بالکل سیریس ہوں اس سب کو لے کر میں جانتا ہوں یہ میری اور اس کی زندگیوں کا سوال ہے"احان نے نرمی سے کہا
"لیکن کیا مسی مان جائے گی؟مصطفیٰ اور زینب کا کیا ردِ عمل ہوگا؟"
"اس بات کی تو میں کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا لیکن اگر وہ نہ مانے تو اُسے فورس مت کریے گا"
"احان مجھے ایک بات ایمانداری سے بتانا؟مسی کو زارون والے قصے کے بارے میں پتا ہے؟"مریم بیگم نے پریشانی سے سوال کیا۔
"جی امی اسے سب پتا ہے"
"اللہ!! اُسے سب کیسے؟میرا مطلب کس نے بتایا؟"
"امی یہ سب تو میں نہیں جانتا بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اس بارے میں جانتی ہے۔واللہ اعلم اب اُسے اس سب کے متعلق کس نے بتایا ہے لیکن امی یہ ساری زندگی چھپا بھی تو نہیں رہ سکتا تھا نہ"
"پریشان مت ہو تم لوگ میں بات کروں گا اور پھر جو بابا سائیں اور مصطفیٰ فیصلہ کریں گے وہی ہوگا"
"اور تم ابھی خاموش رہنا کوئی ضرورت نہیں کسی سے بات کرنے کی"غضنفر صاحب نے پہلے مریم بیگم سے کہا پھر احان سے مخاطب ہوئے۔
"جی بابا سائیں میں کسی سے نہیں بات کروں گا"اُس نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے کہا۔
"ہاں میرا بچا اتنا معصوم ہوتا تو آج یہاں تھوڑی نہ ہوتا"مریم بیگم نے اُس کی معصومیت پر نشتر بچھائے تو وہ ہنس دیا۔
"بس زارون اور تمہارے سوا یہ بات کسی تک نہ پہنچے باقی ذیشان سے بھی میں خود بات کر لوں گا۔۔سمجھے یہ بات بس تمہاری ماں،مجھ میں،ذیشان اور زارون تک ہی رہنی چاہئے"وہ جانتے تھے کہ زارون سے تو کوئی بات وہ مخفی نہیں رکھ سکتا ہے اسی لیے اسے تلقین کی۔
"شیور بابا! جسے بتانا تھا آپ نے خود ہی سے اجازت دے دی بتانے کی۔۔۔"اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔
"چلو اب جاؤ ہمیں سونا ہے رات کے گیارہ بج رہے ہیں"انہوں نے اُسے جانے کا کہا تو وہ کمرے سے باہر نکل گیا اور سیٹی پر کوئی دُھن بجاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے اور زارون اب تک گھر نہیں لوٹا تھا۔اُسے گئے تقریباً دو گھنٹے ہو چکے تھے۔وہ مسلسل کمرے میں چکر لگا رہی تھی اور اس کا انتظار کر رہی تھی۔
لیکن ٹائم آہستہ آہستہ سرکی جا رہا تھا اور اُس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔وہ اُسے فون کر رہی تھی لیکن اُس کا فون بھی مسلسل بند جا رہا تھا جو اس کی پریشانی کو مزید بڑھا رہا تھا۔
جب گھڑی کی سوئیاں بارہ پر آ کر رکیں تو اُس کا صبر جواب دے گیا۔
وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی اور لاؤنج میں آئی۔لیکن سارا لاؤنج خالی تھا سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔
وہ مسلسل اپنی اُنگلیاں چٹخ رہی تھی۔
دادا سائیں ابھی اپنے کمرے سے باہر نکلے تھے تو اسے یوں لاؤنج میں چکر کاٹتا دیکھ کی اُس کی جانب آئے۔
"بیٹا کیا ہوا سب خیریت؟زارون نہیں آیا کیا اب تک؟"ان کے لہجے میں شفقت واضع تھی۔
"وہ دادا سائیں زارون نہیں آئے اب تک تو انہی کا انتظار کر رہی ہوں"اُس نے نظریں جھکائے جواب دیا۔
"بیٹا آجائے گا تم پریشان مت ہو فون کرو اُسے"انہوں نے کہا تو وہ خاموش رہی۔وہ انہیں اس وقت پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"جی۔ آپ کو کچھ چاہیے ہے؟مجھے بتائیے میں کا دیتی ہوں؟"
"نہیں نہیں بیٹے جیتی رہی! خوش رہو! میں بس یونہی آیا تھا باہر چکر لگانے کمرے میں گھبراہٹ ہو رہی تھی"انہوں نے کہا۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے نہ؟"
"ہاں ہاں بیٹا میں ٹھیک ہوں۔تم جاؤ شاباش آرام کرو۔زارون آتا ہی ہوگا"شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تو اُسے بھی اپنے کمرے میں جانا پڑا۔اگر وہاں کھڑی رہتی تو کوئی اور بھی اسی طرح پریشان ہوتا۔
"زارون! کہاں چلے گئے ہیں آپ؟"وہ پریشانی سے خود سے کہنے لگی جبکہ دل اُس کی خیریت کی دعائیں مانگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی پر تقریباً تین بج رہے تھے۔اندھیرا باہر ابھی بھی چھایا ہوا تھا۔
وہ بھی اپنے کمرے میں سکون سے سو رہا تھا جب اُس کا فون بجا۔تھوڑی دیر بجنے کے بعد اُس کی آنکھ کھلی تو اُس نے فون اٹھایا۔
"ہیلو احان میں زارون بول رہا ہوں"زارون کی آواز اسپیکر پر گونجی۔
احان نے فون کان سے ہٹایا اور نمبر دیکھا۔یہ زارون کا نمبر تو نہیں تھا پھر اُس نے دوبارہ فون کان سے لگایا۔
"یہ تم کیس کے نمبر سے فون کر رہے ہو؟"
"یہ سب چھوڑو احان میں اس وقت پولیس اسٹیشن میں ہوں"زارون کے یہ کہنے اور احان کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں،وہ جو نیند میں ڈوبا تھا فوراً بیدار ہوا۔
"پولیس اسٹیشن؟سب خیریت تو ہے؟تم رات کے اس پہر پولیس اسٹیشن میں کیا کر رہے ہو؟اور یہ نمبر کس کا ہے؟تمہارا فون کہاں ہے؟"وہ اب اٹھ کی بیٹھ چکا تھا اور اس سے سوال کرنے لگا۔
"میرا فون،والٹ اور گاڑی کی چابیاں اور کاغذ پولیس کی کسٹڈی میں ہیں اور یہ بھی انہی کی ہی منت تلا کر کے فون لیا ہے۔اب بغیر وقت ضائع کیے نکلو گھر سے اور ہاں گھر میں کسی کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اکیلے مت آنا ذیشان بھائی کو بھی ساتھ لے کر آنا ورنہ تمہیں بھی اندر کر دیں گے۔اچھا اب میں بند کر رہا نہیں تو وہ پولیس والا مجھے گھور گھور کر بھسم کر دے گا۔ابھی اسے لوڈ کے پیسے بھی دینے پڑنے"اُس نے کہے فون کاٹ دیا اور اس کا فون واپس کر دیا۔
"بھائی دے ہی رہا تھا ایسے گھور کیوں رہے ہیں آپ؟آپ ٹینشن مت لیں بیلنس کے پیسے میں دے دوں گا آپ کو"کانسٹیبل نے جھپٹنے کے انداز میں اُس سے اپنا فون واپس لیا۔
"اچھا اچھا سوری! اب کچھ نہیں بولوں گا"اُسے خود کو ابھی بھی گھورتا پا کر وہ خاموش ہوگیا۔
دوسری جانب وہ جلدی جلدی پاؤں میں جوتے ڈالتا کمرے سے باہر نکلا۔اُس نے ذیشان کو فون کیا تھا لیکن اُس نے اٹھایا نہیں۔ارادہ اُس کا ذیشان کے کمرے میں جانے کا تھا۔تیز تیز قدم اٹھاتا وہ اُس کے کمرے کی جانب بڑھا۔دروازے پر پہُںچ کر اُس نے دروازہ نوک کیا اور کچھ ہی دیر میں دروازہ کھلا۔
"سوری بھابھی رات کے اس وقت آپ کو ڈسٹرب کیا۔کیا ذیشان بھائی ہیں؟میں اُنہیں فون کر رہا تھا لیکن اٹھایا نہیں ان نے"ملیحہ کو دروازے پر دیکھ کر اُس نے معزرت کی اور ذیشان کے متعلق آگاہ کیا۔
"نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔ذیشان سو رہے ہیں فون بچوں کے پاس تھا شاید اُن نے سائلینٹ پر کر دیا ہو"ملیحہ نے اُسے شرمندہ ہوتا دیکھ کر کہا۔
"بھابھی آپ پلیز بھائی کو اٹھا کر باہر بھیج دیں گیں؟اُن سے کہیے گا میں باہر گاڑی میں ان کا انتظار کر رہا ہوں"
"احان خیریت تو ہے نہ؟رات کے اس وقت تم کہاں جا رہے؟"ملیحہ نے پریشانی سے سوال کیا۔
"جی جی بھابھی سب ٹھیک ہے آپ بس جلدی سے بھائی کو باہر بھیج دیں"وہ کہے نیچے اترا اور اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے۔ملیحہ بھی اندر کی جانب بڑھ گئی اور جا کر ذیشان کو اٹھایا اور احان کا پیغام دیا۔بغیر وقت ضائع کیے ذیشان بھائی نیچے آگیا اور باہر نکل گیا۔
"خیریت تو ہے؟کہاں جا رہے ہیں رات کے اس وقت؟"گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی ذیشان نہیں سوال کیا۔
"بھائی زارون کا فون آیا تھا۔وہ اس وقت پولیس اسٹیشن میں ہے"احان نے کہا جبکہ ذیشان چونکا۔
"کیا پولیس اسٹیشن!؟ کیوں؟"اُسے جیسے یقین نہیں آیا تھا۔
"پتا نہیں بھائی بس اُس نے جلدی آنے کا کہا تھا"احان نے کہا اور گاڑی پولیس اسٹیشن کی جانب بڑھا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)
Fantasyمراسمِ دل کہانی ہے دل سے بنے رشتوں کی اور ضروری نہیں تمام رشتے ناطے صرف خونی ہوں بعض اوقات دل سے بنے ہوئے رشتے بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔