ارے زخموں کو مت کریدو__!
رات نے اپنے پر ہر سو پھیلا لیے تھے۔ڈنر کا دور چل رہا تھا۔ٹیبل پر چمچ اور پلیٹ کی آواز کے سوا کوئی آواز نہیں تھی۔خاموشی کو گل کی آواز نے توڑا۔
"ڈیڈی۔۔۔"اُس نے ہمت مجتمع کی۔حیات صاحب اُس کی جانب دیکھنے لگے۔"ڈیڈی غفور انکل کی ڈیتھ ہو گئی ہے"اُس نے دھیرے سے کہا جبکہ حیات صاحب کے ہاتھ سے چمچ چھوٹی اور پلیٹ میں گر گئی۔
"گل یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟"زوبیہ بیگم نے شاک کے عالم میں اُس سے سوال کیا۔
"ممّی یہ سچ ہے"اُس کا لہجہ رندھا گیا۔جبکہ حیات صاحب کو وہاں بیٹھنا مشکل ترین لگ رہا تھا۔وہ فوراً اٹھے اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔گل اور زوبیہ بیگم نے افسوس سے اُن کی جانب دیکھا۔بچپن کی یاری ٹوٹ گئی تھی اور جب ٹوٹی تو آخری بار چہرہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا_! کیا اس سے زیادہ کوئی اذیّت ہو سکتی؟نہیں!! اور حیات صاحب بھی اس وقت اُسی اذیّت سے گزر رہے تھے۔
وہ بےجان سے صوفے پر بیٹھ گئے۔جانے کب آنسو راستہ بھٹک کر آیا اور گال پر گر گیا۔انہوں نے بھی اُسے آگے جانے دیا اگر روک لیتے تو اذیّت بڑھ جاتی۔
سنگ جو لمحے،وقت گزارے تھے اُن کی آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔کیا یہی زندگی تھی؟مختصر سی؟
اذیّت سی اذیّت تھی۔ساری زندگی جس کے ساتھ بتائی ہر دکھ،سکھ میں جو شریک تھے آج بن بتائے خاموشی سے دنیا سے جاچکے تھے۔ہائے!!!
مانا کہ ناراض تھے،پر اتنا خفا تو نہ ہوتے
زندگی سنگ گزار کر اکیلے موت سے مل گئے
زوبیہ بیگم خاموشی سے اُنہیں تکی گئیں۔جبکہ ان کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں۔اور ایک عورت اپنے مرد کو روتے ہوئے جو اذیّت محسوس کرتی ہے زوبیہ بیگم بھی اُسے سے گزر رہیں تھیں۔لیکن ان نے مداخلت نہ کی۔مدت بعد حیات صاحب یوں اپنے دل کا بوجھ نکال رہے تھے،ہلکا کر رہے تھے۔کچھ دیر یونہی رہنے کے بعد انہوں نے اپنے آنسو صاف کیے اور حیات صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گئیں اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا گویا تسلی دی گئی تھی۔
حیات صاحب نے اُن کی جانب دیکھا۔اس وقت ان کی آنکھیں لال انگارہ تھیں۔زوبیہ بیگم بس اُنہیں دیکھ کر رہ گئیں۔
"زوبیہ میرا دوست۔میرے جگر کا ٹکڑا مجھ سے ملے بنا ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔کیا ہماری دوستی میں کوئی کھوٹ تھا جو آخری وقت میں بھی اُس کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا؟مانا کہ خفا تھا لیکن اس یہ تو نہیں چاہا تھا نہ کہ وہ مر جائے؟"حیات صاحب اس وقت ٹوٹے ہوئے لگ رہے تھے۔
"حیات صاحب حوصلا کیجیۓ پلیز!"زوبیہ بیگم نے اُنہیں حوصلا دینا چاہا۔وہ اپنا سر تھام کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے اُسے جوب ملی تھی وہ اپارٹمنٹ بھی خالی کر چکا تھا اور اب ایک ہوٹل کے روم میں شفٹ ہوگیا تھا جبکہ اس بارے میں اُس نے کسی کو اطلاع نہیں دی تھی۔اسی لیے احان اس سے مل نہیں پایا تھا بس آخری دفع ہوٹل میں ہی ملاقات ہوئی تھی ان دونوں کی۔اسے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے۔اور تب کے بعد سے اُس نے احان کو فون بھی نہیں کیا تھا اور نہ اُس کی کال ریسیو کی تھی۔جبکہ باقی گھر والوں سے تو بات ہوتی نہیں تھی۔
وہ ایسے ہی ادھر اُدھر چکر لگا رہا تھا۔جبکہ ہاتھ میں فون اُس نے پکڑا ہوا تھا۔نمبر ٹائپ کیا تھا لیکن ملایا نہیں تھا۔لیکن کچھ سوچ کر اُس نے کال ملا دی۔دوسری گھنٹی پر دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا تھا۔
"ہیلو!"پی ٹی سی ایل پر نمبر شو نہیں ہورہا تھا اسی لیے جس نے بھی فون اٹھایا تھا آواز سے ہی پہچان پاتا کہ کون بات کر رہا ہے۔
"ہیلو! کون ہے؟"ایک بار پھر سے کہا گیا۔زارون نے گہرا سانس بھرا اور کہنے لگا۔
"احمر! میں بات کر رہا ہوں"اُس نے کہا۔
"زارون بھائی آپ؟یار کہاں چلے گئے ہیں آپ؟ایسے بھی بھلا کوئی کرتا ہے؟امی کی حالت کا سوچا ہے آپ نے؟بالکل مرجھا گئی ہیں"وہ اُس کی آواز سنتے ہی گلا شکوہ شروع کر چکا تھا۔
"آہستہ بولو احمر کوئی سن لے گا"زارون نے اُس کو آہستہ بولنے کو کہا۔
"اب آپ پلیز بتا دیں کب گھر لوٹ رہے ہیں؟یار بس ہو گئی ہے پلیز اب آجائیں"اب کی بار احمر کی آواز کانپی تھی زارون اپنے لب بھینچ کر رہ گیا۔
"امی کیسی ہیں؟"اُس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سوال کیا۔وہ دادا سائیں کا بھی پوچھنا چاہتا تھا لیکن خاموش ہی رہا۔
"امی کیسی ہو سکتی ہیں؟جوان بیٹے کو دیکھے اتنا عرصہ ہوگیا تو بھلا کیسے ہوں گی؟"اُس نے الٹا اُس سے سوال کیا۔جبکہ زارون بس خاموش رہ گیا۔
"زارون بھائی! پلیز اب آپ ہی مان جائیں۔دادا سائیں بڑے ہیں تو آپ ان سے معافی مانگ لیں۔"احمر دیکھ سے کہہ رہا تھا۔
"احمر میں ابھی بزی ہوں۔اوکے میں فون بند کر رہا!"زارون نے کہے کال کاٹ دی۔احمر بس بے بسی سے فون کو گھور کر رہ گیا۔
"کیا ہوا انکار کر دیا اُس نے؟"دادا سائیں نے احمر کو یونہی فون کو تکتا پا کر سوال کیا۔
"دادا سائیں آپ؟آپ کب آئے؟"اپنے لہجے کو نارمل کرتا وہ اُن سے سوال کرنے لگا۔
"جب تم زارون سے بات کر رہے تھے"دادا سائیں کا انداز سادہ تھا جبکہ احمر اُنہیں دیکھ کر رہ گیا۔
"کہاں رہ رہا ہے وہ؟کس حال میں ہے؟گھر کب لوٹے گا؟ایسے بہت سے سوال ان کے ذہن میں گردش کر رہے تھے لیکن خاموش رہے۔
"جب اُسے گھر کی یاد نہیں آ رہی تو تم کیوں اُسے پریشان کر رہے ہو؟جب اُس کا من چاہے گا وہ آجائے گا۔یوں خود کو مت ستاؤ!"سرد مہری سے جواب دیا گیا۔
"دادا سائیں ایسی بات نہیں ہے بھائی ہمیں بہت یاد کر رہے ہیں"
"اچھا کیا اُس نے یہ سب تم سے بولا ہے؟"انہوں نے عجیب سے انداز میں سوال کیا جس پر احمر خاموش ہی رہا۔
"میں نے کہا تھا اُسے جب یاد نہیں ساتھ رہی گھر کی تو تم کیوں پاگل ہوئے جا رہے ہو؟"
"دادا سائیں ایسی بات نہیں ہے ان کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ وہ گھر کو،گھر والوں کو سب کو بہت یاد کر رہے ہیں"احمر نے اُس کی وکالت میں کہا۔
"ہاہ! تم نے لہجوں کو کب سے پہچاننا شروع کر دیا برخوردار!؟"دادا سائیں ہنسے تھے۔
"دادا سائیں ان کے الفاظ میں تکلیف واضع تھی"وہ نظریں جھکائے کہنے لگا۔
"اچھا پھر میرے الفاظ میں،میرے لہجے میں تمہیں کیا محسوس ہورہاہے؟"دادا سائیں جانے کیا کہلوانا چاہ رہے تھے۔احمر ناسمجھی سے اُنہیں تکنے لگا۔
"بتاؤ برخوردار؟کیا لگ رہا ہے تمہیں میرے لہجے سے؟"
"دادا سائیں۔۔۔"
"نہیں سمجھ پاؤ گے تم میں جانتا تھا۔جب وہ میرے وقتي غصے کو نہیں پہچان پایا،تو تم کیسے پہچان پاؤ گے؟"دادا سائیں نے گہرا سانس بھر کر کہا۔
"ویسے ایک بات بتاؤ کیا واقعی میں اتنا پتھر دل لگتا ہوں جو میرے لہجے میرے تاثرات سے کوئی نرمی نہیں چھلکتی؟"دادا سائیں نے بے بسی سے سوال کیا۔
"دادا سائیں کیسی باتیں کر رہے ہیں؟آپ بہت اچھے۔۔۔۔"
"بس کرو برخوردار! بس!! میں جانتا ہوں کہ کتنا اچھا ہوں۔بھلا وہ شخص کتنا اچھا ہو سکتا ہے جو ایک ماں کو اُس کے بیٹے سے دور رکھے؟وہ شخص کیسے اچھا ہوسکتا ہے جو اپنے جگر کے ٹکڑے کو گھر سے دربدر کر دے؟سب کے چہروں سے خوشیاں چهین لے؟وہ بھلا کیسے اچھا ہو سکتا ہے؟"دادا سائیں کا لہجہ تھکا ہوا تھا جبکہ احمر بس اُنہیں دیکھ کر رہ گیا۔وہ صوفے پر بیٹھ گئے احمر بھی زمین پر اُن کے قدموں کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"دادا سائیں پلیز ایسے مت کہیں!"احمر کا لہجہ کپکپایا تھا جبکہ دادا سائیں اُسے دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دیے،زخمی مسکراہٹ۔
"سچ یہی ہے احمر! اور سچ سے بھلا کون نظریں چُرا سکتا ہے؟آج جو بھی کچھ ہورہاہے میری وجہ سے ہورہاہے۔دراصل کیا ہے نہ اپنی زبان پر،اپنے کہے پر اتنا غرور تھا کہ چاہے اُس کے لیے دوسروں کی خوشیوں کو بھینٹ چڑھنا پڑے اُسے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔بس غرور تھا اپنے کہے پر،اپنے حکم پر اور غرور ہی اب اس چوراہے پر پٹخ گیا کہ ہے کسی کو تکلیف میں مبتلا کر دیا۔میری تو سزا بنتی تھی خ مجھ سے میرا جگر کا ٹکڑا دور ہوا لیکن اس سب میں باقی سب کا کیا قصور جو وہ بھی اس تکلیف کو برداشت کریں؟"دادا سائیں کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا۔
"دادا سائیں پلیز آپ زارون بھائی سے کہیں کہ وہ واپس آجائیں۔آپ بڑے ہیں آپ نے اُنہیں اس گھر سے جانے کا کہا تھا وہ چلے گئے تھے اور تب تک نہیں آئیں گے جب تک آپ نہیں کہیں گے۔جانتے ہیں نہ آپ کا ہر حکم اُنہیں قبول ہوتا ہے بس ایک گستاخی کر دی جس کی سزا بھگت رہے ہیں"احمر نم آنکھوں سے دھیرے سے مسکرایا تھا۔
"یہی تو شکایت ہے اُس سے کیوں حکم کی تعمیل کرتا چلا گیا؟کیا اُس کا زندگی پر کوئی حق نہیں تھا؟اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کا حق نہیں تھا؟یوں کیوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلا گیا؟"دادا سائیں نے شکوہ کیا تھا۔
"دادا سائیں ایک بار غلطی کر کے وہ پچھتا رہے تھے بار بار وہ غلطی نہیں دہرانا چاہتے تھے"احمر نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُس پر بوسا دیتے کہا۔دادا سائیں گہرا سانس بھر کر رہ گئے۔اتنی فرماں بردار اولاد سے اللہ نے اُن کو نوازا تھا۔وہ جانتے تھے کہ ان کے بیٹے کس طرح اُن کی ناراضگی سہ رہے ہیں بلکہ کئی بار وہ ان سے معافی بھی مانگ چکے تھے اور اب ان کے پوتے پوتیاں بھی فرمانبردار! شکوہ شکایت کی بجائے ان کے حکم پر سر کو خم دیے پھر رہے تھے،بکھرے ٹوٹے ہوئے۔
مانا کہ زارون نے جلد بازی کی لیکن زندگی میں ہمسفر چننے کا حق تو ہر کسی کو ہے۔تو زارون کا جرم بھی سنگین نہیں تھا جس کی سزا اُسے اتنے عرصے کی ملی تھی بلکہ سارے ہی سزا بھگت رہے تھے۔
"احمر مجھے کل کہیں جانا ہے میرے ساتھ چلو گے؟"دادا سائیں نے کہا جبکہ احمر کی آنکھیں چمکیں تھیں اور خوشی سے ایک بار پھر سے اُس نے دادا سائیں کا ہاتھ چوما اور اثبات میں سر ہلا دیا۔دادا سائیں نے اُس کی پیشانی چومی اور مسکرا دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحم بوجھل قدموں سے چلتا علی کے گھر آیا تھا۔دھیرے سے دروازہ بجایا اور گھنٹی بجائی۔اس وقت راحم اور گارڈز کے سوا کوئی بھی گھر پر نہیں تھا۔اس کے پیرنٹس ابروڈ گئے ہوئے تھے۔دروازے پر کھڑے گارڈ نے اُسے دیکھ کر دروازہ کھول دیا۔وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔علی لاؤنج میں ہی بیٹھا فون یوز کر رہا تھا۔اُسے آتا دیکھ کرنے وہ فوراً کھڑا ہوا۔
"تم کب آئے؟آؤں بیٹھو"اُسے اُس نے بیٹھنے کا کہا اور ملازم کو جوس لانے کا کہا۔
"راحم یار پلیز سنبھل جا ابھی بھی وقت ہے۔یوں کیوں بھٹکا بھٹکا،کھویا کھویا پھرتا ہے؟تکلیف ہوتی ہے تُجھے اس طرح دیکھ کر!"
"میں ادھر گیا تھا۔۔"اُس کے جواب میں راحم نے اتنا کہا جبکہ علی کو سمجھنے میں کچھ ہی سیکنڈز لگے تھے کہ وہ کہاں جانے کی بات کر رہا ہے۔
"واٹ! آر یو سیریس!؟"جس پر راحم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔اور آج والی ساری داستان سنائی۔
"اوہ گاڈ! راحم کیا ہوگیا ہے تُجھے؟ہوش کے ناخن لے بھائی۔اگر اُس کے ابا گھر ہوتے تو وہ تیرا کیا حشر کرتے اندازہ ہے کوئی تُجھے اس بات کا؟"علی ناراضگی نے کہنے لگا۔
"تو اور کیا کرتا میں؟ہاں بول بتا مجھے؟تو نہیں جانتا میں خود کو کتنا بے بس محسوس کر رہا ہوں۔نہیں سکون آرہا مجھے،میری روح کو۔تڑپ رہی ہے اذیّت سے،خون کے آنسو رو رہی ہے۔اور جانتا ہے وہاں کون آیا تھا؟میری ڈیڈ کی جو خواہش تھی میں ان کی زندگی میں پوری نہیں کر پایا اور اب کبھی بھی نہیں کر پاؤں گا!"اُس کے جھمکے کے آخر میں طنز واضع تھا۔
"کیا مطلب کون آیا تھا؟کیسی خواہش؟"علی نے ناسمجھی سے سوال کیا۔
"حیات انکل کی بیٹی سے شادی کی کیوں کہ اس کی شادی ہوچکی ہے۔اور اُس کا شوہر بھی اُس وقت وہاں پر ہی تھا جب میں گیا تھا"راحم نے کہا جبکہ علی حیران ہوا۔
"کیا شادی؟لیکن کون ہے وہ لڑکا؟"
"نہیں معلوم"اور علی کے ذہن میں اچانک جھماکا سا ہوا۔یونیورسٹی والا واقع اُس کے ذہن میں گردش کرنے لگا۔جو جنون اُس وقت زارون کی آنکھوں میں گل کے لیے تھا اور کسی کے نہیں ہو سکتا۔
اُس نے فوراً سے زارون کی تصویر نکالی اور راحم کے سامنے کی۔
"کیا یہ تھا وہ لڑکا؟"علی نے بےتابی سے سوال کیا راحم نے کچھ پل تصویر کو دیکھا پھر اُس کا ذہن چلنے لگا۔
"ہاں یہی تھا وہ"
"افف یہی سالہ سارے فساد کی جڑ ہے۔یوں سمجھ لے کہانی کا مرکزی کردار ہی یہی ہے۔نہ ہی یہ ہم سب کی زندگیوں میں آتا،نہ تیرا یہ حال ہوتا اور نہ آج میں اپنی ڈگری سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہوتا"علی کے لہجے میں طیش واضع تھا۔راحم حیران ہوا۔
"تو یہ وہ لڑکا تھا جس نے تجھے سسپنڈ کروایا تھا؟"راحم نے سوال کیا جس پر علی نے اثبات میں سر ہلایا۔راحم بس اُسے سوچ کر رہ گیا۔
"میں اب کی بار اسے نہیں چھوڑوں گا آئی سویئر!! پہلے میرا کیریئر تباہ کیا اور اب تیری زندگی۔۔۔۔"
"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو تو نے اپنا کیریئر خود تباہ کیا ہے اور میری زندگی۔۔ہنہ۔۔۔میرا سوا بھلا اور کس کا اہم کردار ہوگا اسے تباہ کرنے میں۔میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو آگ لگائی ہے سو یہ تپش،دھواں بھی تو نصیب میں آنا تھا"راحم نے طنزاً کہا جبکہ علی خاموش ہوگیا۔
"نہیں میرا کیریئر اسی نے ہی تباہ کیا ہے۔۔"علی اپنی غلطی نہیں مان رہا تھا جبکہ راحم نے اُس کی جانب دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
"کبھی انسان کو اپنی غلطی بھی مان لینی چاہیے۔میں تُجھے ہرگز اس سب کا قصوروار نہیں ٹہرا رہا بٹ بیلیو می اس کہانی کی شروعات تو نے کی تھی۔تیری انٹینشنز چاہے جو بھی تھیں لیکن تو لڑکی کے ساتھ غلط کر رہا تھا۔اور پھر قسمت کا کھیل بھی کیسا نکلا وہ لڑکی نکلی بھی تو کون!؟چل چھوڑ اس سب کو۔۔۔میرے خیال میں اب مجھے چلنا چاہیے!!"چوٹ لگی تھی تو وہ بول پڑا جبکہ جانے انجانے میں وہ علی کو اس سب کا قصوروار ٹہرا رہا تھا۔اور پھر وہ رکا نہیں واپسی کے لیے پلٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلے آسمان پر بادل روئی کے گولوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے اور سورج ان کے بیچ چھپن چھپائی کھیل رہا تھا۔موسم کافی خوشگوار معلوم ہورہا تھا۔
سائڈ ٹیبل پر پڑا فون کب سے الارم بجا رہا تھا۔لیکن وہ اس سے بے خبر سو رہا تھا۔الرم بیچارہ بج بج کر تھک گیا لیکن وہ کافی گہری نیند میں تھا۔اب کوئی چوتھی بار الارم بجا تو اُس کی آنکھ کھلی۔اگر اُس نے الارم رپیٹ موڈ پر سیٹ نہ کیا ہوتا تو وہ تو آفس سے رہ جاتا۔
آج تقریباً اُسے دو ہفتے ہونے کو تھے آفس جوائن کیے۔وہ اٹھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا گھڑی اور ٹائم دیکھا تو ابھی آدھا گھنٹا تھا آفس ٹائمنگ سٹارٹ ہونے میں۔الارم کو سٹاپ کیے وہ سیدھا ہوا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا،اونگھا اور پھر فریش ہونے باتھروم میں گھس گیا۔
شاور لے کر وہ باہر آیا بریک فاسٹ آرڈر کیا اور اب کمرے میں موجود آئینے کے سامنے کھڑے اپنی شرٹ کے بٹن بند کیے اور بالوں میں برش پھیرنے لگا۔خود پر پرفیوم سپرے کر کے ٹیبل پر پڑی اپنی گھڑی پہنی اتنی دیر میں ناشتہ آچکا تھا۔
سکون سے ناشتا کرنے کے بعد ریسیپشن پر اپنا کمرہ صاف کرنے کا کہے وہ ہوٹل سے باہر نکل گیا۔
اب ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی تھی۔گاڑی میں دھیمی آواز سے موسیقی لگائے وہ اپنا سفر انجواۓ کر رہا تھا۔رات میں جو اس کی حالت تھی اب قدرے بہتر لگ رہی تھی اور شکل سے بھی وہ کافی فریش محسوس ہورہا تھا۔اور انسان میچور کب ہوتا ہے جب اپنے اندر کے دکھ،اذیّت اور تکلیف کو خود تک ہی محدود رکھے اور اپنے اندر ہی سلگھنے دے اور دفن کر دے۔اور زارون میچور ہوچکا تھا۔
دوسری جانب جمال الدین منشن میں بھی ناشتے کا دور چل رہا تھا۔دادا سائیں اور احمر ایک ساتھ ہی دادا سائیں کے کمرے سے نکلے تھے جب کہ باقی سب حیران ہوئے تھے۔
رات کو احمر دادا سائیں کے ساتھ اُن کے کمرے میں ہی چلا گیا تھا اور پھر بتائیں کرتے جانے اُس کی کب آنکھ لگی اُسے پتا نہیں چلا تھا۔وہ باہر آیا اور اپنے کمرے میں فریش ہونے چلا گیا۔جبکہ دادا سائیں اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئے۔ان کے چہرے پر اطمینان تھا۔ناشتا شروع کیا گیا اور احمر بھی تب تک فریش ہوئے آچکا تھا جبکہ حلیہ اُس کا رف ہی تھا۔
"احمر تیار نہیں ہوئے کالج نہیں جانا؟"عائشہ بیگم نے سوال کیا جبکہ اُس کی بجائے دادا سائیں نے جواب دیا۔
"نہیں بہو! آج مجھے احمر سے کوئی کام ہے تو آج یہ نہیں جائے گا"جبکہ اُن کے یہ کہنے پر سب خاموش ہو گئے اور ناشتہ کرنے لگے۔
سب ناشتا کیے جب اپنے اپنے کاموں کی طرف بڑھ گئے تو دادا سائیں اور احمر باہر آئے۔
احمر ڈرائیور سے ایڈریس لے چکا تھا۔اُس سے گاڑی باہر نکالنے کا کہے وہ اندر گیا اور دادا سائیں کو باہر آنے کا کہے گاڑی میں آگیا جبکہ ڈرائیور کو اُس نے اترنے کا کہہ دیا تھا۔
دادا سائیں آئے اور گاڑی کی اگلے نشست پر بیٹھ گئے اور ان کے بیٹھتے ہی احمر نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
ایک عجیب سی خوشی اُس کے اندر دوڑ رہی تھی۔اور دادا سائیں کے چہرے پر بکھرے طمانیت کے رنگ دیکھ کرنے اُسے اندر تک سکون ملا۔
تقریباً آدھے گھنٹے کا سفر طے کر کے وہ اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ڈرائیور ابھی گاڑی باہر نکال رہا تھا۔احمر نے گاڑی پیچھے روک لی اور باہر نکلا۔
ڈرائیور سے کچھ پوچھا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ واپس گاڑی کی جانب آیا۔دروازہ کھولا اور اندر کو ہوا۔
"دادا سائیں گھر پر ہی ہیں"اُنہیں اطلاع دی تو دادا سائیں بھی باہر نکل آئے۔احمر نے گاڑی کی چابی نکالی،دروازہ بند کیا اور لاک کر کے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
اندر ملازمہ کام کر رہی تھی۔اُنہیں آتا دیکھ کر اُس نے اُنہیں لاؤنج میں جانے کا راستہ بتایا تو آگئے۔
وہ اُنہیں دیکھ کر حیران ہوئے۔بھلا یہ لوگ کون تھے؟وہ پہلی بار انہیں دیکھ رہے تھے۔گل جو یونیورسٹی کے لیے تیار ہوئی تھی نیچے آئی اور سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر چونکی۔
"آپ؟"حیات صاحب نے سوال کیا جبکہ بزرگ شفیق آدمی کے ساتھ کھڑے لڑکے نے جواب دیا۔
"میں زارون بھائی کا چھوٹا بھائی ہوں اور یہ ہیں دادا سائیں"اُس نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ دادا سائیں کا سن کر حیات صاحب کشمکش کا شکار ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
KAMU SEDANG MEMBACA
مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)
Fantasiمراسمِ دل کہانی ہے دل سے بنے رشتوں کی اور ضروری نہیں تمام رشتے ناطے صرف خونی ہوں بعض اوقات دل سے بنے ہوئے رشتے بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔