قسط:۲

80 7 0
                                    

زندگی حسین ہے__!

گاڑی اس وقت پہاڑوں کے بیچ چل رہی تھی جبکہ اس کے شیشے نیچے گرے ہوئے تھے اور ٹھنڈی ہوا باہر کے ساتھ ساتھ اندر بھی ٹھنڈک پیدا کر رہی تھی۔
زارون ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ احمر،میرہ،احان اور مسی سو چکے تھے۔گل کھڑکی پر بازو ٹکائے اُس پر سر رکھے آنکھیں بند کیے باہر کا ماحول محسوس کر رہی تھی۔زارون نے بڑی دلچسپی سے اُسے دیکھا تھا تو کہے بنا نہ رہ سکا۔
"لگتا ہے آپ کو پہاڑ بہت پسند ہیں؟"زارون نے بیک ویو مرر سے پیچھے دیکھتے سوال کیا جس پر گل نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہوئی۔
"میں ان پہاڑوں کی دیوانی ہوں"اُس نے پہاڑوں کو دیکھتے کہا جبکہ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھی بھی تھی۔"میرا دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر ان پہاڑوں اور وادیوں میں آکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا بسیرا جما لوں۔رات میں چاند چمکتا ہوا میرے سامنے ہو،جب اٹھوں تو سورج کو قریب سے نکلتا دیکھوں،وادیوں کے پھول میرے سامنے بہار میں مختلف رنگ اوڑھیں اور خذاں میں میرے سامنے پتے جھڑیں،اور جب سرما آئے تو برف ہر طرف پھیلی ہو اور گرما میں میرے سامنے پگھل کر دریاؤں میں گرے،سب کچھ مجھے بہت پسند ہے"وہ کہہ رہی تھی اور اُس کی مسکراہٹ،آنکھوں میں چمک اُس کی دیوانگی بیان کر رہی تھی۔
"آپ کو پتا ہے مجھے ہمیشہ سے چشمے سے پانی لانا بہت پسند ہے۔فلٹرڈ پانی ایک طرف لیکن چشمے کے پانی کی بات ہی الگ ہے"وہ ہنسی تھی۔"جب وہ تیزی سے پہاڑ سے نکل رہا ہوتا ہے بہت اچھا لگتا ہے،ٹھنڈا،صاف اور شفاف!"وہ دیوانہ وار کہہ رہی تھی اور زارون اُس کے دلچسپی سے تاثرات دیکھ رہا تھا۔
"کیا آپ کو یہ سب پسند نہیں ہے؟"اُس نے اچانک سوال کیا جس پر زارون دھیرے سے مسکرایا۔
"کبھی میں نے ان سب چیزوں کو اس نظر سے نہیں دیکھا۔ بس انجوائمنٹ کے لیے ہی آتا تھا جب بھی آتا تھا لیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ ان سب چیزوں کو اب محسوس کرنا پڑے گا۔"وہ ہنسا جس پر گل واپس اپنے حواس میں آئی۔اور مزید کچھ کہے یا سوال کیے وہ باہر دیکھنے لگی۔زارون بھی مسکرا دیا اور نظریں سڑک پر جما لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ سب لاؤنج میں بیٹھے تھے۔گھر میں خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔
"ویسے بابا سائیں! گھر میں بچوں کے جانے سے کتنی خاموشی ہوگئی ہے نا؟"مصطفیٰ صاحب جمال الدین صاحب سے مخاطب ہوئے۔
"ہاں بیٹا یہ تو ہے۔وہ گھر پر ہوتے ہیں تو رونق لگائی رکھتے ہیں"بابا سائیں مسکرائے تھے۔
"ویسے فون تو کر کے پوچھیں وہ لوگ پہنچ گئے ہیں؟"مریم نے کہا۔جس پر غضنفر صاحب اُنہیں فون ملانے لگے۔
دوسری بیل پر دوسری جانب سے احان نے فون اٹھا لیا اور اسپیکر پر اُس کی سوئی ہوئی آواز گونجی۔
"سلام بابا سائیں!"
"وعلیکم السلام برخوردار! سو رہے تھے؟"
"جی بابا سائیں بس ابھی آنکھ لگ گئی تھی۔"احان مسکرایا جس اور زارون نے چور نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔
"اچھا تو کہاں تک پہنچے ہو؟"
"بس بابا سائیں ہم پہنچنے ہی والے ہیں"
"میں نے ہٹ بک کروا دیا ہے میں ابھی تمہیں لنک بھیج دیتا ہوں"
"بہت بہت شکریہ بابا سائیں!"احان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"چلو اب میں رکھتا ہوں!"انہوں نے کہا اور کال کاٹ دی۔
"جھوٹا کہیں کا سارا راستہ سورہا تھا اور اب کہہ رہا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے آنکھ لگی تھی"فون بند ہوتے ہی زارون نے احان سے کہا جو ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہا تھا۔
"چل چھوڑ تو تھک گیا ہوگا اب میں ڈرائیو کر لیتا ہوں"
"بہت بہت نوازش! ہم پہنچ چکے ہیں۔بیٹا تو ٹینشن نہ لے جاتے وقت سارا راستہ تو ڈرائیو کرے گا اور میں آرام کروں گا"
اُن کی باتیں سن کر پیچھے وہ لوگ بھی اٹھ گئے تھے۔
"گل تم سوئیں نہیں؟"میرہ نے اٹھتے ہی اُس سے سوال کیا۔گل کے بولنے سے پہلے ہی زارون کہنے لگا۔
"وہ تمہاری جیسی تھوڑی نہ ہے کہ گاڑی میں بیٹھتے ہی سو جائے؟"
"بھائی۔۔"میرہ نے کہا جس پر سب ہنس دیے۔
"زار بھائی مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔جلدی چلائیں گاڑی"احمر نے ہانک لگائی۔
"سوری احمر میں تو کب کا سو رہا تھا مجھے خیال ہی نہیں آیا گاڑی چلانے کا"زارون نے طنز کیا۔
"ہیں؟آپ سو رہے تھے؟"احمر نے اچھنبے سے سوال کیا جس پر زارون اُسے گھورنے لگا۔
"اچھا اچھا اب کچا نہ چبا جائیں ہمیں!"احان نے ہنستے ہوئے کہا۔"ویسے بابا سائیں نے ہٹ بک کروا دیا ہے"احان نے کہا اور لوکیشن کھولنے لگا۔زارون نے لوکیشن کے مطابق گاڑی اُس جگہ پر روک لی۔
یہ ہٹ نہایت خوبصورت جگہ پر بنایا گیا تھا۔ہٹ کے سامنے پہاڑ تھے اور ہر طرف خوبصورت پودے اور پھول کھلے ہوئے تھے۔ہٹ کے سامنے ہی گرلز لگا کر ایک لان تھا جہاں سے سامنے سورج باآسانی نکلتا ہوا دیکھا جا سکتا تھا۔لان میں ہی کرسیاں اور ٹیبل لگائے ہوئے تھے اور ان پر مینوکارڈ رکھا ہوا تھا جبکہ سائڈپر بنچز بھی رکھے گئے تھے۔اس گرل کی چار دیواری سے اگر باہر نکلا جائے تو گرلز کے ساتھ نیچے کی جانب چھوٹے چھوٹے راستے بنے ہوئے تھے جو کہ یقیناً وادیوں میں لے جاتے تھے۔اور چھوٹے راستوں کے ساتھ ساتھ گہری کھائی بھی تھی۔
وہ گاڑی سے نکلے تو بیساختہ سب کے منہ سے الفاظ نکلے۔
"واؤ!!"سب یہ دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔
"یہ جگہ کتنی خوبصورت ہے"مسی نے گھوم کر اردگرد کا جائزہ لیتے کہا جس پر سب نے اُس کی بات دل سے تسلیم کی۔
"میں آتا ہوں کیز لے کر احمر تم گاڑی سے سامان نکالو۔"زارون نے کہا اور اپنے قدم منیجمنٹ آفس کی جانب بڑھا دیے۔
احمر اور احان گاڑی سے سامان نکالنے لگے اور لڑکیاں گرلز کی بنی چار دیواری تک آگئی جو کہ بڑی تو نہیں تھی لیکن جگہ محفوظ تھی۔
"ویسے مسی تمہارا کیا خیال ہے اس کھائی کی ڈیپتھ کتنی ہوگی؟"میرہ نے میں سے سوال کیا۔
"بھئی مجھے کیا معلوم میں کون سا اس کے اندر تک گئی ہوں"مسی نے جواب دیا۔
"پھر بھی! احان بھائی آپ کو پتہ ہوگا؟"احان اور احمر بھی سامان گاڑی نکالے ان کی جانب ہی آگئے تھے۔
"میرہ ایک طرح سے ہم اسکی ڈیپتھ جان سکتے ہیں"احمر نے بغور کھائی کو دیکھتے کہا۔
"کیسے؟"میرہ نے سوال کیا۔
"میں تمہیں دھکا دیتا ہوں پھر اگر تم گر کر مر گئی تو سمجھ لینا کافی گہری کھائی ہے اور اگر بس تمہاری ہڈیاں ٹوٹ گئیں تو مطلب اس کی گہرائی اتنی زیادہ نہیں ہے"احمر نے جیسے بڑے پتے کی بات بتائی۔
"میں تمہیں نہ دھکا دے دوں چول انسان!"میرہ غصے سے بولی جس پر گل ہنسنے لگی۔اور زارون جو کہ کیز لیے آرہا تھا اُس کی بیساختہ نظر گل پر گئی جو ہنس رہی تھی۔
"ویسے دیکھا جائے مشورہ بڑا عقلمندانہ ہے"مسی نے ہنستے ہوئے کہا۔
"سو فنی ہنہ! میں بھلا کیوں اس کی ڈیپتھ جاننے کے لیے خود ہی کہیں ڈیپتھ میں دفن ہوجاؤں"میرہ نے منہ بناتے ہوئے کہا اور واپس پلٹ گئی جس پر سب ایک بار پھر سے ہنس دیے۔زارون بھی واپس حواس میں آیا اور چلتا ان تک آیا۔
"آجاؤ سب فریش ہوجاؤ پھر لنچ کرتے ہیں"اُس نے کہا اور کیز سے انلاک کرنے لگا۔
یہ ہٹ دو کمروں،ایک کچن اور لاؤنج پر مشتمل تھا جبکہ دونوں کمروں کے ساتھ اٹیچیڈ باتھروم تھے اور خوبصورتی سے کی گئی سجاوٹ اپنی مثال آپ۔
"سر آپ کہ لگیج؟"
"یہیں پر ہی رکھ دیں"اُس نے کہا تو وہ سامان وہیں رکھے باہر نکل گیا۔
"بھائی آپ سامنے والا روم لے لیں اور ہم یہ والا لے لیتے ہیں"میرہ نے کمروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔پھر سب کمروں میں چلے گئے۔
"ہائے میں تو بہت تھک گئی ہوں"میرہ نے بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں کہا۔
"ہیں تم نے بھلا کیا کیا ہے جو تھک گئی؟"گل نے حیرانگی سے سوال کیا۔
"یار اب گاڑی میں سونا کوئی آسان کام تھوڑی ہے؟"میرہ نے منہ بناتے کہا جس اور گل ہنس دی۔
"کوئی حال نہیں ہے تمہارا"اپنا سر نفی میں ہلاتی وہ فریش ہونے چل دی۔
"کافی اچھا موسم ہے یہاں پر"مسی نے اپنا سامان کھولتے کہا۔
"ہاں مجھے تو لگ رہا رات میں ٹھنڈ ہوجائے گی"میرہ سیدھی ہو کر بیٹھی۔گل بھی فریش ہوئے باہر آگئی تھی۔
"ہاں چلو تم بھی فریش ہو جاؤ پھر باہر چلتے ہیں۔احمر کا آگے ہی بھوک سے برا حال ہورہا ہے"مسی نے کہا۔تینوں ہنس دیں۔
سب فریش ہوئے باہر نکل آئے تھے۔زارون نے گھر پر فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دے دی تھی۔
اس وقت وہ سب لان میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔سائڈ پر چیف بار بی کیو تیار کر رہا تھا جس کی خوشبو سارے میں پھیل چکی تھی۔
سب گپ شپ میں مصروف تھے جب گل کو کال آنے لگی۔وہ ایکسکیوز کیے اٹھی اور سائڈ پر آگئی۔اور فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
"سلام موم!کیسی ہیں؟"اُس نے خوشدلی سے کہا۔
"بیٹا میں ٹھیک ہوں۔۔"
"ڈیڈ کیسے ہیں؟"
"وہ بھی ٹھیک ہیں بیٹا ایک بات کرنی تھی تم سے"انہوں نے کہا جس گل پریشان ہوئی ایسی بھی بھلا کیا بات تھی کہ زوبیہ بیگم ایسے کہہ رہی تھیں۔
"موم کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے؟"اُس کے تاثرات فوراً پریشانی میں بدلے تھے۔دور بیٹھا زارون اُس کی ہر حرکت نوٹ کر رہا تھا۔
"بیٹا تم جانتی ہو تمہارے ڈیڈ کے فرینڈ غفور انکل وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔اُنہیں میجر ہارٹ اٹیک ہوا ہے"انہوں نے کہا جبکہ گل کے ہاتھ سے فون گرتے گرتے بچا۔
"ممی۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟وہ تو لندن گئے ہوئے تھے نا"اُسے ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
"بیٹا وہ اس وقت لندن میں ہی ایڈمٹ ہے ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں اُن کی حالت قدرے خراب ہے"
"تو ممی اب۔۔اب آپ کیا کریں گی؟"اُس نے سوال کیا جبکہ پریشانی اُس کے چہرے کے ساتھ ساتھ الفاظ میں بھی واضع تھی۔
"تمہارے ڈیڈ اور میں لندن جا رہے ہیں دو ویکس کے لیے۔۔آج رات کی فلائٹ ہے ہماری"انہوں نے کہا جبکہ وہ خاموش ہی رہی۔
"اوکے موم! خیال رکھیے گا اپنا"اُس نے اتنا کہا اور پھر دوسری جانب سے بھی فون کاٹ دیا گیا۔اُس نے گہرا سانس بھرا اور واپس آگئی جہاں کھانا لگ چکا تھا اور سب اسی کا انتظار کر رہے تھے۔اُس کا بھجا بھجا چہرہ دیکھ کر میرہ سوال کیے بنا نہ رہ سکی۔
"از ایوری تھنگ فائن؟"میرہ نے سوال کیا جس پر گل نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
کھانا شروع ہوچکا تھا اور ہنسی مذاق میں اُنہوں نے کھانا کھایا۔اس سب میں گل خاموش ہی رہی تھی۔وہ غفور انکل کے لیے پریشان تھی۔
"اپنی جیکٹس وغیرہ لے لو کیا پتا شام تک ٹھنڈ ہوجائے"احان نے اپنے اسنیکرز کے لسیز باندھتے ہوئے کہا اور وہ پہلے ہی اپنی جیکٹ اپنی شرٹ کے ساتھ نیچے کر کے باندھ چکا تھا۔
سب اندر کی جانب بڑھ گئے اور اپنی جیکٹس اور شال لے آئے۔سب کا ارادہ نیچے جانے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میری گل سے بات ہوگئی ہے حیات صاحب!"زوبیہ بیگم نے اُنہیں کہا۔
"ہمم کیا کہہ رہی تھی ٹھیک ہے وہ خیریت سے پہنچ گئی ہے؟"اُنہیں نے اپنے رعب دار لہجے میں سوال کیا۔
"جی پہنچ گئی ہے اور ٹھیک بھی ہے لیکن غفور بھائی کا سن کر پریشان ہوگئی تھی"زوبیہ بیگم نے جواب دیا۔
"اچھا! تو جانے کا بتا دیا ہے اُسے؟"
"جی لیکن حیات صاحب! ان کا ٹرپ ہفتے کا ہے اور ہمیں مزید ایک اور ہفتہ لگ جائے گا۔اور گل جو میں اکیلے گھر تو نہیں چھوڑ سکتی"زوبیہ بیگم نے کہا جس اور حیات صاحب کہنے لگے۔
"ہم کوشش کریں گے جلدی آنے کی آگے اللہ بہتر کرے گا"انہوں نے سادہ سے انداز میں کہا۔
"میرے خیال میں ہمیں سامان رکھنا چاہئے"انہوں نے مزید کہا تو زوبیہ بیگم خاموشی سے ضرورت کا سامان بیگ میں ڈالنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبز و ہرے درخت ہر سو پھیلے ہوئے تھے۔بھینی بھینی ہوا تھوڑی تیز ہو گئی تھی جبکہ اب اس میں ہلکی ہلکی سردی شامل ہوگئی تھی۔
"زار بھائی! ان درختوں کو پانی کون دیتا ہوگا؟یہ اتنے بڑے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کہ بہت خیال رکھا گیا ہے"وہ لوگ آگے بڑھ رہے تھے جب احمر نے اُن درختوں کو دیکھتے سوال کیا۔
"اوئے ڈفر! ان درختوں کو کوئی انسان پانی نہیں دے سکتا"احان نے ہنستے ہوئے کہا۔
"کیا مطلب انسان نہیں دیتے تو کون۔۔۔"
"وہی جو بیابانوں میں آباد ہوتے ہیں"اُس کا جملہ ابھی ادھورا ہی تھا جب میرہ نے اُس کی بات کاٹی۔احمر کے گلے میں گلٹی اُبھر کی معدوم ہوئی۔
"اور پتا ہے اُنہیں خوبصورت لوگ بہت پسند ہوتے ہیں۔وہ جان کر ان جگہوں پر اپنا بسیرا جما لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لوگ یہاں سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ چمڑ جاتے ہیں"مسی نے سنجیدہ لہجے میں کہا جس پر سب نے مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔
"جھوٹ مت بولو! اگر ایسی بات ہے تو پھر تو وہ سب سے پہلے زار بھائی پر آئیں گے"احمر نے اُس کو جھٹلانا چاہا۔
"میں بھلا کہاں آگیا اس سب میں؟"زارون نے سوال کیا۔لیکن اس کے جواب دینے سے پہلے ہی مسی نے فورا سے گل کو گفتگو میں شامل کیا۔
"گل اب تم ہی بتاؤ یہ صحیح ہے یا نہیں؟"اُس كے یوں اچانک مخاطب کرنے پر گل گڑبڑائی۔
"میں بھلا اس سب میں کیا کہہ سکتی ہوں"اُس نے سفید جھنڈا دکھایا۔احمر کی شکل دیکھنے لائق تھی۔
"اوئے کدو ذرا اپنی شکل دیکھ"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
"میرہ بری بات اگر ہمارا کدو اتنا ہی ڈر پوک ہے تو اسے کیوں مزید ڈرا رہی ہو؟"زارون نے اپنی ہنسی ضبط کیے کہا جس پر احمر نے منہ پھلائے اُن سب کی جانب دیکھا۔
"لگتا ہے آپ سب نہ میرا مذاق اڑانے کے لیے اپنے ساتھ لائے ہیں"اُس نے منہ پھلائے کہا جس پر سب ہنس دیے۔وہ اُنہیں نظرانداز کرتا تیز تیز آگے بڑھنے لگا۔
"اوئے کدو آرام سے"پیچھے سے احان نے ہانک لگائی اور اپنے قدم تیز كر لیے۔میرہ اور مسی بھی اُس کے پیچھے ہولیں۔
وہ اپنی ہی دھن میں چل رہی تھی اور اسے احساس ہی نہ ہوا کہ اس کے ساتھ بھی کوئی چل رہا ہے جب وہ ہلکا سا کھنکارا۔گل نے اُس کی جانب دیکھا وہ اپنی پینٹس کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اُس کے ساتھ ساتھ ہی چل رہا تھا جبکہ اُس نے پینٹ کے اوپر اپنی جیکٹ باندھی ہوئی تھی۔گل نے اپنا آنچل درست کیا۔اس کی اس حرکت پر زارون کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ رینگ گئی۔
"آپ پریشان لگ رہی ہیں؟سب ٹھیک تو ہے؟"زارون نے سوال کیا جس پر گل نے اُس کی جانب نظریں اُٹھائیں پھر جھکا دیں۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں"وہ پھیکا سا مسکرائی جس پر زارون نے اپنے کندھے اچکا دیے۔گل بھی سامنے کی جانب دیکھنے لگ گئی جہاں وہ چاروں اب کسی بات پر ہنس رہے تھے۔گل مسکرا دی۔
اُس نے اُس کی نظروں کے ارتکاز میں دیکھا۔
"آپ بھی دیکھ رہی ہوں گی کیسے پاگل ہیں یہ؟"زارون نے ہنستے ہوئے کہا جس پر گل فوراً سے کہنے لگی۔
"نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے بلکہ مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے۔آپ کے خاندان کے ساتھ رہ کر معلوم ہوتا ہے کہ اصل خاندان کیسے ہوتے ہیں۔انفیکٹ! لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم اس خاندان کا حصہ نہیں ہیں۔بہت اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔"گل مسکرائی تھی جس پر زارون بھی مسکرا دیا۔
"آپ کی فیملی میں کون کون ہے؟"
"موم،ڈیڈ اور میں۔ہماری چھوٹی سی ہی فیملی ہے!"گل نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا جب میرہ کی آواز اُن کی سماعت سے ٹکرائی۔
"گل! بھائی آپ لوگ کیا کر رہے ہیں جلدی آئیں"اُس نے دور سے ہی ہانک لگائی۔
وہ دونوں چلتے ان تک آئے۔
"لک! دس اس سو بیوٹیفل!!"مسی نے اشارہ کیا اور سب وہاں دیکھنے لگے۔
ہر طرف سبزہ پھیلا ہوا تھا۔درختوں پر مختلف پھل لگے ہوئے تھے اور ان کے رنگوں سے ہی اندازہ ہورہا تھا کہ یہ پک چکے ہیں جبکہ انکی میٹھی خوشبو اردگرد پھیلی ہوئی تھی۔
چھوٹے چھوٹے بنے گھر بہت خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔جبکہ ان کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور چھوٹے بچے اُن گھروں سے نکلے مل کر اپنا کھیلنے میں مصروف تھے اور اُن کے قہقوں کی آوازیں ہوا میں شامل ہو چکی تھیں۔
وہ لوگ بڑھتے آگے آئے اور اس خوبصورت منظر کو اپنے کیمروں میں قید کرنے لگے۔جبکہ گل چلتی ان بچوں تک آئی جو کھیل رہے تھے اور کھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔اُسے آتا دیکھ کرنے بچے رکے اور اُسے تکنے لگے جبکہ گل ان کی اس حرکت پر مسکرا دی۔اُسے مسکراتا دیکھ کر بچے شرما گئے جس پر گل نے مشکل سے اپنا قہقہ روکا تھا۔
وہ بچے بہت خوبصورت تھے۔سب کی لال لال پھولی گالیں تھیں جبکہ آنکھوں کے رنگ بھی مختلف تھے۔
"کیا کھیل رہے ہو آپ سب؟"گل نے اُن کے پاس زمین پر بیٹھتے سوال کیا۔
"ہم ٹاپو کھیل رہا ہے"اُس نے کہا اور اب گل کو یقین ہوگیا کہ وہ پٹھان ہی ہیں۔
"اچھا ٹاپو! وہ کیسے کھیلتے ہیں؟"گل نے سوال کیا جبکہ یہ لفظ وہ پہلی بار سن رہی تھی۔
"ہم بتاتا ہے!"اُن میں سے ایک بچہ آگے آیا اور کہنے لگا۔
"دیکھ ہم نے اس پتھر سے زمین پر لکیر لگایا ہے اب ہم میں سے کوئی آئے گا اور اس پتھر کو پھینکے گا لیکن اس پتھر کو ان لکیر سے باہر نہیں جانے دینا۔پھر وہ ایک ٹانگ پر اچھل کر آگے جائے گا۔۔۔"
"اوہ ہاپ اسکاچ!"گل کو سمجھ آگئی تھی کہ وہ اسی کی بات کر رہا ہے۔
"تم ہمارے ساتھ کھیلے گا؟"اسی بچے نے سوال کیا جس پر گل کو اُس پر بےانتہا پیار آیا۔اُس نے مسکراتے ہوئے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا جس پر وہ جھینپ گیا۔اور گل ہنس پڑی۔باقی بچے شرمائے شرمائے کھڑے اُسے دیکھ رہے تھے۔
اسے بچوں میں مصروف دیکھ کر زارون مسکرایا اور چلتا ان تک آگیا۔باقی سب اپنی ان سینز کے ساتھ اپنی تصویریں اُتار رہے تھے۔
"کیا ہورہا ہے یہاں پر؟"زارون نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔گل نے اُس کی جانب دیکھا جو اُسے ہی دیکھ کر مسکرا رہا تھا تو فوراً سے اپنی نظریں پھیر لیں۔
"تم اس کے ساتھ ہے؟"اس بچے نے گل سے سنجیدگی سے سوال کیا جس پر گل نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور اس بچے کو اس خوبصورت نوجوان سے جلن محسوس ہوئی تھی۔
"ہمیں یہ بالکل پسند نہیں آیا!"اُس نے منہ پھلائے کہا جبکہ زارون کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جبکہ گل ہنس دی۔
"بھلا میں تم کو پسند کیوں نہیں آیا؟"زارون نے بھی اسی کے لہجے میں سوال کیا جس پر وہ بچہ وہ پھلائے کہنے لگا۔
"بس نہیں پسند آیا تو نہیں پسند!"اُس نے کہا جبکہ زارون اُس کا جیلس ہونا سمجھ چکا تھا۔
"اوہ اب مجھے سمجھ آیا تم کو ہم کیوں نہیں پسند آیا"زارون نے کہا جس پر بچے اور گل دونوں نے بیک وقت اُس کی جانب دیکھا۔
"تم جیلس ہورہا ہے"زارون نے ہنستے ہوئے کہا جس پر بچے کی پیشانی پر شکنیں پڑیں۔
"ہم بھلا تم سے کیوں جیلس ہوگا۔بلکہ تمہیں ہم سے جیلس ہونا چاہیے کیونکہ ہم تم سے زیادہ خوبصورت ہے"اُس بچے نے بڑی شان سے کہا جبکہ اُس کا ہر انداز بہت خوبصورت تھا۔باقی چاروں بھی چلتے یہاں آگئے تھے۔
"اوئے ہوئے خان! بات تم بالکل صحیح کرتا ہے جیلس تو اس کو تم سے ہونا چاہیے!"احان نے اُس بچے کی ہاں میں ہاں ملائی جبکہ مسی اور میرہ ہنستی جارہی تھیں۔
"ہاں نہ کیوں کہ تم اس سے زیادہ خوبصورت ہے۔تم کی سبز آنکھیں ہیں لال گال ہیں اور گھنگھرالے بال! خوبصورت تو تم ہی ہو"احمر بھی اس سب میں شامل ہوا۔
"تم بتاؤ ہم میں سے کون خوبصورت ہے؟"اُس بچے نے گل کو بیچ میں شامل کیا جبکہ گل گڑبڑائی۔
"اوئے ہوئے!! سیمز لائک کوئی کسی کو پسند کرنے لگا ہے!"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا جس پر گل مزید جھینپ گئی۔
"بتاؤ ذرا ہم میں سے کون زیادہ خوبصورت ہے؟"زارون نے کہا جبکہ آنکھوں میں شرارت واضع تھی۔
گل نے اُس کی طرف دیکھا بلاشبہ وہ بھی بہت خوبصورت تھا کانچ جیسی آنکھیں،سفید رنگت جس پر ہلکی سنہری داڑھی اور بیچ میں چھپے گلابی ہونٹ،لمبا قد ہلکا سا بھرا ہوا جسم جیسے باقاعدگی سے جم جاتا ہو،اور اوپر سے اُس کا بات کرنے کا انداز،سب کچھ ہی تو پرفیکٹ تھا۔
"گل کیوں ویٹ کروا رہی ہو دیکھی ذرا کتنا بے چین کھڑا ہے یہ"مسی نے ہنستے ہوئے کہا جبکہ اشارہ اُس کا اُس بچے کی جانب تھا۔گل بھی واپس حواس میں آئی۔
"آپ"اُس نے اُس بچے کی جانب دیکھتے کہا جس پر وہ خوش ہوگیا اور فاتحانہ نظروں سے زارون کی جانب دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو "دیکھا ہم نے بولا تھا"
"تم ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلو"اُس بچے نے گل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"کہاں ہے ویسے تمہارا گھر؟"احمر نے سوال کیا جس پر اُس بچے نے احمر کی جانب دیکھا۔
"ہم نے صرف اس کو بولا ہے"بچے نے گل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو سب ہنس دیے جبکہ احمر منہ بنا کر رہ گیا۔
"بہت تیز چیز ہو تم!"احان نے اُس کے پھولے ہوئے گال کھینچے۔
"بولو تم چلے گی ہمارے ساتھ؟"اُس نے سوال کیا۔گل نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھا جہاں شام ہونے ہی والی تھی۔
"میں ضرور آتی لیکن ابھی بہت ٹائم ہوگیا ہے جانا بھی ہے پھر اندھیرا ہوجائے گا"گل نے اُس کی جانب دیکھتے کہا جس پر بچے کا منہ لٹک گیا۔
"میں کل ضرور آؤں گی پرومس!"گل نے کہا جس پر بچا بھی خوش ہوگیا۔
"ہاں اب میرے خیال سے چلتے ہیں"میرہ نے کہا۔اور بچے کے بال بگاڑے۔
گل بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور جانے کے لیے پلٹنے ہی لگی جب ایک بار پھر سے وہ کہنے لگا۔
"ہم تمہارا انتظار کرے گا"اُس نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر گل نے بے اختیار اپنے لبوں سے اُس کے گال چھوئے تو وہ شرما گیا۔
گل بھی مسکراتے ہوئے باقی بچوں کی جانب پلٹی اور اُنہیں ویو کرتے واپس پلٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات نے اپنے پر سارے میں پھیلا رکھے تھے۔جمال الدین منشن میں اس وقت ڈنر کی تیاری ہورہی تھی اور باورچی سے مختلف پکوان کی خوشبو آرہی تھی جبکہ گھر کے افراد سارے لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
"ہم سوچ رہے تھے کہ بچے اب بڑے ہوچکے ہیں شادی کی عمر ہے اُن کی اور ذیشان کی بھی انہی کی عمر میں شادی ہوئی تھی جتنی اب زارون کو احان کی ہے"دادا سائیں کہہ رہے تھے جبکہ سب اُن کی بات توجہ سے سن رہے تھے۔
"احان کے لیے تو نہیں لیکن زارون کے لیے میں ایک لڑکی کا انتخاب کر چکا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میرے اس فیصلے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا"اُن کا لہجہ قدرے سنجیدہ تھا۔
"سکندر میں چاہتا ہوں زارون کی شادی مصطفیٰ کی بیٹی مسیرا سے کر دی جائے"انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا جس پر سب پہلے چونکے پھر مسکرا دیے۔
"بابا سائیں یہ تو بہت اچھا فیصلہ کیا ہے آپ نے بھلا ہم میں سے کسی کو کیا اعتراض ہوگا"سکندر صاحب نے مکورتے ہوئے کہا جبکہ عائشہ بیگم کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا بھلا اعتراض ہوتا بھی کیوں گھر کے بچے تھے دونوں۔
"مصطفیٰ! زینب! تمہارا اس سب میں کیا خیال ہے؟"دادا سائیں نے اب ان سے سوال کیا۔
"بابا سائیں بھلا ہم کیا اعتراض کر سکتے ہیں"انہوں نے نظریں جھکائے کہا جس پر دادا سائیں مسکرا دیے۔
"ابھی اس متعلق بچوں سے کوئی بات نہیں ہونی چاہیے جب تک زارون کی پڑھائی مکمل نہیں ہوجاتی تب تک۔وقت آنے پر میں خود اُس سے پوچھ لوں گا"دادا سائیں نے مزید فیصلہ سنایا جس پر سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
زارا اپنے روم میں بیٹھی پڑھ رہی تھی جبکہ وہ اس سب سے انجان تھی۔
دوسری جانب جہاں رات سارے میں پھیلی تھی وہیں اُس نے پہاڑوں کو بھی اپنے بسیرے میں لے رکھا تھا۔جہاں جمال الدین منشن میں ان کی زندگیوں کے فیصلے ہوگئے تھے یہاں اس سب سے بے خبر وہ لوگ سو رہے تھے کیونکہ صبح کے تھکے ہارے تھے جبکہ گل ہٹ سے باہر نکل کر لان میں پڑے بینچز پر بیٹھی تھی جبکہ ہاتھ میں اُس کے کافی کا مگ تھا۔ٹھنڈ بڑھ چکی تھی اس لیے اُس نے اپنے گرد گرم شال اوڑھ رکھی تھی۔
وہ یونہی سامنے کھڑے پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی جو اندھیرے میں کافی خطرناک لگ رہے تھے۔اور اُن کے اوپر چند اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
نیند زارون کی آنکھوں سے بھی کوسوں دور تھی۔وہ اپنے دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے یونہی بیڈ پر آنکھیں کھولے لیتا چھت کو دیکھ رہا تھا۔اُس کے ذہن میں شام والے مناظر گھومنے لگے۔کس طرح وہ بچا زارون سے جیلس ہورہا تھا۔وہ ہنس دیا۔اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ چہرہ گھومنے لگا جو ان سب کے بیچ جھینپ کر بیٹھا تھا۔یہ تب کا منظر تھا جب اُس بچے نے سوال کیا تھا کہ کون زیادہ خوبصورت ہے۔
لیکن اسے تو اس سب میں وہی سب سے زیادہ خوبصورت لگی تھی جو بیچ میں جھینپ کر بیٹھی تھی۔
گلابی و سفید رنگت پر لمبی گھنی پلکیں ،پتلا سا خوبصورت ناک جس کی نوک گالوں کی طرح گلابی تھی جس میں اُس نے ہیرے کی نوز پن ڈال رکھی تھی اور گلے میں اُس کے گولڈ کی چین تھی جس پر گولڈ کا ہی چھوٹا سا گول شیپ کا پینڈینٹ لگا تھا۔جبکہ بالوں کو اُس نے آدھے کیچر میں ڈال کر باندھ رکھا تھا اورباقی بال آبشار کی طرح کمر پر بکھرے ہوئے تھے جو اوپر سے تو سیدھے تھے لیکن نیچے سے کرلز ہوجاتے تھے اور ان میں سنہری رنگ مزید واضع ہوجاتا جبکہ اُس نے گلے میں دوپٹہ ڈال کر سائڈ پر شال لے رکھی تھی۔اور اس وقت وہ اسے بہت اچھی لگی تھی۔
اپنے خیالوں کو جھٹکتے وہ اٹھ بیٹھا اور اپنے خیالات پر ہنس دیا۔نیند تو انہیں رہی تھی تو وہ کمرے سے باہر نکل گیا پیچھے احان اور احمر دونوں سورہے تھے۔وہ اوپن کچن میں آیا اور اُس کی کیبنیٹ کھولیں اور مگ ڈھونڈھنے لگا۔اُسے اس وقت کافی پینی تھی۔کچھ ہی دیر میں وہ کافی بنائے ہٹ سے باہر نکل آیا لیکن سامنے اُسے بیٹھا دیکھ کر چونکا۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس تک آیا اور اُس کےسامنے بیٹھ گیا۔اُسے دیکھ کر گل نے فوراً سےاپنا آنچل درست کیا جس پر زارون کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔وہ جب بھی اُسے دیکھتی تھی تو سب سے پہلے اپنا آنچل درست کرتی تھی۔
"آپ سوئیں نہیں؟"زارون نے کافی کا گھونٹ بھرتے سوال کیا۔
"نیند نہیں آرہی تھی"اُس نے مختصر سا جواب دیا اور دوبارہ پہاڑوں اور چاند کی جانب متوجہ ہوگئی۔زارون بھی اُس جانب دیکھنے لگا جبکہ ساتھ ساتھ وہ کافی کے گھونٹ بھی بھر رہا تھا۔
"ٹھنڈ ہورہی ہے میرے خیال سے اندر چلنا چاہیے"زارون نے اُس کی جانب دیکھتے کہا۔
"میں تھوڑی دیر اور یہاں بیٹھنا چاہتی ہوں"اُس نے دھیرے سے کہا جس پر زارون خاموش ہوگیا۔
"کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟"کافی دیر کی خاموشی کے بعد زارون نے اُس سے سوال کیا۔
"جی کہیے؟"وہ بھی اب اُس کی جانب متوجہ ہوئی۔
"میں نے جب بھی آپ کو دیکھا ہے کافی خاموش پایا ہے؟کیا آپ کی خاموشی کی وجہ جان سکتا ہوں؟"اُس نے سوال کیا جس پر گل اُس کی جنوب دیکھنے لگی۔
"مجھے خاموش رہنا پسند ہے"اُس نے دھیرے سے کہا جس پر زارون مسکرا دیا۔
"آپ کی طرح آپ کی پسند بھی قدرے مختلف ہے"اُس نے کہا جبکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قدرت کی دیوانی لڑکی ان چیزوں کی بھی شوقین ہوسکتی ہے۔
"اُمید کرتا ہوں کہ آپ یہ ہفتہ ہمارے ساتھ گزاریں گیں تو آپ کی یہ عادت بھی بدل جائے گی"زارون نے پیچھے کو ہو کر بیٹھتے کہا جس پر گل مسکرا دی۔
"عادت تو میں نے کبھی کسی چیز کی ڈالی ہی نہیں کیونکہ جب کسی چیز کی عادت ڈل جائے تو اُس سے چھٹکارا پانا قدرے اذیت ناک اور مشکل ہوتا ہے۔اس لیے میں نے خود کو اس لفظ "عادت" سے دور ہی رکھا ہے پھر وہ عادت چاہے چیزوں یا رشتوں کی ہی کیوں نہ ہو"وہ اپنے مخصوص سنجیدہ لہجے میں کہہ رہی تھی جس پر زارون خاموش ہی رہا۔یہ لڑکی اُس کی سوچ سے بھی زیادہ مختلف تھی اور یہی اُسے سب سے زیادہ منفرد بناتی تھی۔
"میرے خیال میں اب مجھے چلنا چاہیے"وہ کہے اٹھی اور اپنا آنچل درست کیے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
رات رفتا رفتا پگھلنے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now