قسط:۱۹ (مہندی اسپیشل)

26 5 0
                                    

ستارے بھی خوش ہوئے ہوں گے__!

وقت جانے کیسے پنکھ لگا کر اڑ گیا اور پتا بھی نہ چلا۔زارون کا کنٹریکٹ ختم ہو چکا تھا۔اُس کی بہترین کارکردگی پر اُس کے آفس کے بوس نے اُس کی صلاحیتوں کی قدرے تعریف کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اُنہیں بہت اچھا محسوس ہوتا اگر وہ مزید اُن کے لیےp کام کر سکتا۔
اور آج وہ دن بھی آگیا جب اُس کی مہندی تھی۔گھر میں ہر طرف افرا تفری مچی ہوئی تھی۔
جمال الدین منشن کو دلہن کی طرف سجایا گیا تھا۔مہندی کا فنکشن اکٹھا تھا کیوں کہ نکاح ان دونوں کا پہلے ہی ہو چکا تھا۔سب کے چہروں سے خوشی صاف چھلک رہی تھی۔
دوسری طرف حیات صاحب کے گھر بھی رونق لگی ہوئی تھی۔چند گیسٹس تھے اور ان کے گھر کو بھی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
مہندی کا فنکشن حال میں منعقد کیا گیا تھا۔
سب حال میں جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔باقی سب جا چکے تھے اب بس احان،احمر اور زارون ہی گھر بچے تھے۔
"زارون کہاں ہو یار جلدی آجاؤ!"احان نے اُسے آواز دی جو جانے کیا لینے کمرے میں گیا تھا۔
"سوری برو میری گھڑی رہ گئی تھی کمرے میں اور یہ احمر کہاں ہے؟"اُس نے سیڑھیوں سے اترتے کہا اور ساتھ میں سوال کیا۔
"آج کہنا پڑے گا تو بہت ہینڈسم لگ رہا ہے"احان نے اُس کی جانب دیکھتے مسکراتے ہوئے کہا۔
زارون مسکرا دیا۔اس نے گریئش بلیو کلر کی شلوار قمیض کے ساتھ ڈارک بلو ویسٹ کوٹ پہن رکھا تھا اور ساتھ میں ہلکے گھنگھرالے بالوں کا ہلکا سا سٹائل بنایا گیا تھا لیکن کچھ کرلز اُس کی پیشانی کو بھی چھو رہے تھے۔
کانچ سی آنکھوں میں آج پہلے کی نسبت زیادہ چمک تھی۔ ایک ہاتھ میں اُس نے گھڑی ڈال رکھی تھی.
دوسری طرف باقی لڑکوں نے ڈارک براؤن شلوار قمیض کے ساتھ زارون جیسا ہی ویسٹ کوٹ پہن رکھا تھا اور بڑوں نے کالی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔
عائشہ بیگم،مریم بیگم اور زینب نے گرے اور بلیک کامبینیشن کی ایک جیسی ساڑھی باندھ رکھی تھی جبکہ زارا،مسیره اور آمائرہ نے لہنگے زیبِ تن کیے تھے۔
"بھائی آجائیں باہر میں کب سے انتظار کر رہا"احمر نے اندر آکر دونوں کو مخاطب کرتے کہا جس پر دونوں لاؤنج سے باہر نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہندی کی یہ رات" کی تھاپ پورے حال میں گونج اٹھی۔
شہنائی،پھولوں و اُبٹن کی ملی جلی خوشبو سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔
بچے بھاگ کر کبھی ادھر تو کبھی اُدھر بھاگ رہے تھے جبکہ اُن کے قہقوں کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔
وہیں سب گھر والے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے جبکہ مرد حضرات مردوں کا ویلکم کر رہے تھے۔
مسی،میرہ اور زارا بھی مریم بیگم نے حکم کے مطابق ایک ایک ٹیبل اور جا کر سب سے مل رہی تھیں۔
"میرہ بیٹا یہ زارون کہاں ہے اُن سے پوچھو کب تک آئیں گے؟"عائشہ بیگم نے پریشانی سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے فون تھامے ایک کونے پر آگئی اور زارون کا نمبر ملانے لگی۔
"ہیلو! بھائی کہاں ہیں آپ؟امی غُصہ ہو رہیں؟"
"یہ جو دو عدد شیطان ہیں نہ ان کا ابھی تو بالکل ارادہ نہیں لگ رہا پہنچنے کا"اُس نے خفگی سے کہا۔
"ہیلو بھائی آواز نہیں آرہی؟"میرہ کو شور کی وجہ سے سنائی نہیں دے رہا تھا۔
"آرہے ہیں ہم"اب کی بار زارون نے اونچا بولا تاکہ میرہ کو سمجھ لگ جائے میرہ نے اوکے کہے فون رکھ دیا اور عائشہ بیگم کو اطلاع دینے لگی۔
"امی بھائی لوگ آرہے ہیں اور میں اب گل کے پاس جا رہی ہوں"اُس نے کہا اور گل کو جس کمرے میں ابھی بتایا گیا تھا اُس کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
دوسری جانب احان گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور زارون ساتھ والی سیٹ پر جبکہ احمر پیچھے بیٹھا تھا۔
زارون کی گھورتی نظریں کبھی احان پر جاتیں تو کبھی احمر پر جو اُسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے۔
"احان قسم سے اگر اب تو نے گاڑی کی سپیڈ تیز نہیں کی تو میں ٹیکسی لے کر چلا جاؤں گا"زارون نے اُسے وارن کرتے کہا۔
"ابے یار اتنی بھی کیا جلدی ہے تجھے جا تو رہے ہیں اب گاڑی ہواؤں میں تو اڑانے سے رہا میں"احان نے اُس کی جانب دیکھتے کہا اور ہلکا سا مسکرایا جیسے اُس کی حالت کو قدرے انجواۓ کر رہا ہو۔
"ہواؤں میں نہیں اڑا سکتے تو کم از کم کچھوؤں کی طرف بھی مت چلاؤ۔دس سے زیادہ تو تم سے سپیڈ ہو نہیں رہی ہے۔۔۔"زارون کی پیشانی پر شکنیں در آئیں۔
اُس کی یہ حالت دیکھ کر احمر اور احان قہقہ لگا کرنے ہنس دیے جبکہ اُن کی اس حرکت پر وہ مزید تپا۔
"ہائے اللہ! پتا نہیں وہ کون سی منہوس گھڑی تھی جب ان دو منہوسوں کے ساتھ آنے کی حامی بھر لی تھی میں نے"اُس نے بے بسی کے ملے جلے تاثرات سے کہا۔
"بھائی آپ کو نہیں یاد ابھی آدھا گھنٹا پہلے ہی تو یہ سب ہوا ہے"احمر نے اپنی آنکھیں پٹپٹائے معصومیت سے کہا جس پر زارون نے اُسے گھورا۔
"بکو مت!! اس وقت زہر سے بھی بدتر لگ رہے ہو تم مجھے"زارون نے اُسے گھورتے ہوئے خفگی سے کہا جس پر احمر نے اپنی مسکراتے ہونٹ فوراً دبائے۔
"احمر میں سوچ رہا ہوں موسم بھی کافی اچھا ہے تو کیوں نہ لونگ ڈرائیو پر چلیں؟"احان نے مرر سے پیچھے احمر کی جانب دیکھتے کہا جبکہ اُس کی شکل سے لگ رہا تھا کہ وہ بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکے ہوئے ہے۔
"امیزنگ آئیڈیا! قسم سے دل کی بات کہی ہے آپ نے ویسے بھی شادی پر کافی شور شرابا ہوگا اور یو نو مجھے بلکل شور شرابہ نہیں پسند"احمر نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"او ہیلو!! یہ کسی کی نہیں بذاتِ خود میری شادی ہے"ایک ایک لفظ پر اُس نے زور دے کر کہا تھا۔
"اوہ سوری زارون! احمر تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا کہ زارون کی ہی مہندی کا فنکشن ہے؟"احان نے بظاھر سنجیدگی سے کہا جبکہ احمر کھسیانہ سا ہنس دیا۔اُس کے دیکھا دیکھی احان بھی ہنسنے لگا۔
"نہایت زہر لگ رہے ہو تم دونوں مجھے اس وقت میرا بس نہیں چل رہا کے ایک توپ لوں اور اُس کے آگے تم دونوں کو رکھ کر اڑا دوں تاکہ تم جس شیطانی دنیا سے تعلق رکھتے ہو وہیں چلے جاؤ یہاں تم جیسوں کی کوئی ضرورت جو نہیں ہے"زارون نے طنزاً کہا جبکہ اب کی بار وہ دونوں بھی اُسے مزید تنگ کرنے سے بعض رہے اور احان نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔اب وہ اُس کا دن تو نہیں خراب کر سکتے تھے نہ😜
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بیٹا کہاں رہ گئے تھے تم لوگ؟سب لوگ پوچھ رہے تھے دولہے کہاں ہے اور تم لوگ کی پتا نہیں کون سی تیاریاں تھیں جو ختم ہونے کو نہیں آرہی تھیں؟"اُن کے آتے ہی دادا سائیں نے خفگی سے کہا۔
"سوری دادا سائیں وہ نہ اصل میں راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی"احمر نے جھوٹ بولا اس وقت وہ اپنی شامت تو نہیں لگوا سکتا تھا جبکہ زارون نے ہونقوں کی طرح اُس کی جانب دیکھا کر احان مسکرا دیا۔
"چلو اب میں بتا دوں کہ دولہے صاحب تشریف لیے آئے ہیں رسم بھی شروع کرنے ہے پھر"انہوں نے کہا اور عورتوں کی جانب بڑھ گئے تاکہ بہوؤں کو اطلاع دے دائیں زارون کی آمد کی۔
پہلے لڑکے کی طرف سے مہندی لائی گئی تھی۔مسی،میرہ اور زارا نے بڑا سا تھال پکڑا ہوا تھا جس کے کونوں اور بیچ میں موبتی جل رہی تھی جبکہ لڑکوں نے دوپٹے کے چاروں کونے تھام رکھے تھے جس کے نیچے زارون تھا۔
لڑکیاں آگے بڑھ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ گانے کے بول بھی بول رہی تھیں جبکہ مووی والا ایک ایک سین کی مووی بنا رہا تھا۔
اسٹیج کے قریب آکر انہوں نے تھال زمین پر رکھا اور زارون اسٹیج کی جانب بڑھ گیا۔حیات صاحب نے اُسے گلے لگایا اور زوبیہ بیگم نے اُسے پیار دیا اور وہ مسکراتا اسٹیج پر بیٹھ گیا۔
اب لڑکی والوں کی طرف سے مہندی لائی جارہی تھی لیکن زارون کی نظر دوپٹے کے نیچے کھڑے وجود پر ٹھہر سی گئیں۔اُس کا اور گل کا جوڑا اکٹھے لیا گیا تھا اس لیے جوڑوں کے رنگ بھی ایک جیسے ہی تھے۔
گل نے لہنگا پہن رکھا تھا جس کی چولی گریئش بلیک کلر کی تھے جبکہ نیچے لہنگا ڈارک بلو اور ساتھ میں اسی کا ہمرنگ دوپٹہ تھا۔پھولوں سے سجے زیورات میں اُس کا روپ تو مزید نکھارا ہوا لگ رہا تھا اور مہندی کے لحاظ سے میک اپ ہیوی نہیں تھا۔
ہاتھوں میں لگی مہندی کا رنگ دور سے بھی پتا چل رہا تھا اور زارون کی نظریں اُس پر سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔
گل کو اسٹیج تک لایا گیا زارون بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور چلتا آگے آیا گل کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
زارون نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور گل نے اُس کی جانب دیکھا۔نظروں کا ارتکاز ہوا،دونوں کی دھڑکنیں پل بھر کو تھمیں اور پھر دل زور و شور سے دھڑکنے لگے۔
گل نے اپنا کپکپاتا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا جیسے زارون نے مضبوطی سے تھام لیا۔مسی اور میرہ نے اُس کا لہجہ پیچھے سے اٹھایا تاکہ وہ باآسانی اسٹیج پر چڑھ سکے۔
زارون کے ہمراہ چلتے وہ آئی اور پھر دونوں اسٹیج پر رکھے صوفے پر بیٹھ گئے۔گل کا ہاتھ ابھی بھی زارون کی گرفت میں تھا اور زارون کا ارادہ بالکل بھی چھوڑنے کا نہیں لگ رہا تھا۔
"آپ میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔۔"گل نے خود پر قابو رکھے ہمت مجتمع کیے کہا۔
"یہ ہاتھ تو میں ساری زندگی کے لیے تھام چکا ہوں۔کچھ اور کہنا چاہتی ہو تو وہ کہو"زارون نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ گل اپنی جگہ کانپ اٹھی۔
"دیکھیں ایسے برا لگتا ہے سب ہیں یہاں پر جانے کیا سوچتے ہوں گے"اُس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائے جھجھکتے ہوئے کہا اور زارون دل کھول کر مسکرایا۔تبھی عائشہ بیگم مسکراتے اسٹیج پر آئیں تو زارون کو اُس کا ہاتھ چھوڑنا پڑا۔انہوں نے دونوں کی نظر اتاری پھر مہندی کی رسم کا آغاز کیا۔
باری باری لوگ آتے اُن کے مہندی،تیل اور اُبٹن لگاتے،سر پر سے پیسے وارتے مٹھائی کھلاتے اور چلے جاتے۔
"امی میں مٹھائی کھا کھا کر تھک گیا ہوں پلیز اب کوئی مجھے مٹھائی نہ کھلائے"زارون نے عائشہ بیگم سے کہا جبکہ عائشہ بیگم اُس کے اس انداز پر ہنس دیں۔
"جھلے سب خوش ہورہے ہیں اسی لیے کھلا رہے ہیں"
"تو امی جس کو خوشی ہے وہ خود کھائیں نہ میرا اور گل کا اس سب میں کیا قصور جو بلاوجہ جانے کون کون سی مٹھائی کھائے جائیں"اُس نے منہ بناتے کہا جبکہ گل کے ہونٹوں پر دھیمی سے مسکان آئی۔
"شادی کا لڈو قسمت والوں کو ہی کھانا نصیب ہوتا ہے تو چل کر برو!"احان نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھ دباتے کہا۔
"لیکن فلوقت تو میں خود کو مٹھائی کی دکان لگ رہا ہوں جو آتا ہے جتنا دل چاہتا ہے اتنی مٹھائی کھلا دیتا ہے جیسے میرے چہرے پر لکھا ہے "feed me with the sweets" ہنہ!"
جبکہ احان ہنس دیا۔
"کیا ہورہاہے بھئی؟"تبھی مسی،میرہ اور زارا اسٹیج پر آئیں اور مسی نے سوال کیا۔
"پلیز ڈونٹ ٹیل می کہ تم لوگ بھی مٹھائی کھلانے آئے ہو؟"زارون نے منہ بناتے کہا۔
"ظاہر سی بات ہے اور تمہاری آرتی اتارنے سے تو رہے ہم"مسی نے ہنستے ہوئے کہا۔
"چلیں بھائی جلدی جلدی منہ کھولیں اور مٹھائی کھائیں"میرہ نے زارون کے آگے مٹھائی بڑھاتے کہا۔
"میرہ۔۔۔۔"
"بھائی نو ایکسکیوز!! میں تو یہ رسم کروں گی اور آپ کو یہ مٹھائی کھانا ہوگی"میرہ بھی بضد تھی۔
"بھائی۔۔۔۔۔"میرہ کی پیشانی اور شکنیں در آئیں تو زارون نے گندی سے شکل بناتے اپنا منہ کھولا اور میرہ نے پوری مٹھائی کا پیس اس کے منہ میں ڈال دیا۔زارون نے بمشکل اُسے اپنے اندر انڈیلا پھر میرہ نے پلیٹ سے مٹھائی اٹھائی اور گل کی جانب بڑھائی جسے وہ خاموشی سے کھا گئی۔
"کچھ سیکھیں بھائی بھابھی سے دیکھیں وہ بغیر کچھ کہے کھا گئ ہیں مٹھائی"زارا نے گل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"بھئی اس بات پر تو اسے کریڈٹ دینا پڑے گا۔ہمت ہے اس کی"زارون نے اپنا سر نفی میں ہلاتے کہا۔
"بھابھی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں"زارا نے گل کی جانب دیکھتے کہا جس پر وہ جھینپ کر مسکرا دی اور اُس کا شکریہ کہا۔
"یہ تو زارون بھائی سے پوچھنا پڑے گا کہ گل کیسی لگ رہی ہے؟"میرہ نے شرارت سے کہا۔
"ہاں بھئی بتاؤ زارون کیسی لگ رہی ہیں ہماری بھابھی!؟"مسی نے بھی شرارت سے سوال کیا۔
"ابھی تو میں نے غور سے دیکھا ہی نہیں ایسے تو میں تعریف نہیں کر سکتا اور جو تعریف میں نے کرنے ہوگی وہ میں آپ کی بھابھی سے ہی کہہ دوں گا"زارون نے بھی شرارت سے کہا جبکہ گل کا دل کانپا اور پلکیں لرز کر گال پر گر گئیں۔
زارون کے یہ کہنے پر انہوں نے شرارت سے بھر پور "اوہ" کہا تھا جس پر گل کی رہی سہی قصر بھی جواب دے گئی۔بس اُسے لگ رہا تھا کہ ابھی وہ بیہوش ہو جائے گی۔
"سہی ہے بھئی تم لوگ انجواۓ کرو ہم کباب میں بلکل ہڈی نہیں بنیں گے"احان نے اپنی آنکھ دباتے کہا اور وہ سب ہنس دیے پھر باری باری اسٹیج سے اُتر گئے۔
ان کے اترتے ہی زارون نے اپنے ساتھ بیٹھی نفوس کی جانب نظر اٹھائی جس نے اپنی آنکھیں جھکائی ہوئی تھیں جبکہ وہ اس کی ہچکچاہت محسوس کر سکتا تھا سو دھیرے سے مسکرا دیا۔
"آپ میری سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی ہیں"زارون کی مسکراتی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔گل کا دل زور و شور سے دھڑکنے لگا۔
"ویسے تو سب نے آپ کی تعریف کی ہے لیکن میں خاص انداز میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کیسی لگ رہی ہیں۔تو کیا آپ مجھے صرف پانچ منٹ دے سکتی ہیں؟"زارون نے کہا جبکہ گل نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا۔زارون اسی کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے دیکھنے اور مسکرایا گل فوراً نظریں پھیر گئی۔
"آپ نے جواب نہیں دیا؟"زارون نے شرارت سے بھرپور لہجے میں پھر سے سوال کیا وہ اس کے تاثرات سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
"دیکھئے یہ۔۔یہ جو آپ کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔"اُس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔زارون اس کا جھجھکنا بھانپ کر دوبارہ گویا ہوا۔
"سوچ لیں آپ پھر کل آپ کے پاس فرار کے کوئی راستے نہیں ہوں گے"زارون نے ریلیکس سے انداز میں کہا جبکہ گل تو ان الفاظ پر کانپ کر رہ گئی اور ہونقوں کی طرح اُس کی جانب دیکھنے لگی جو بڑے مزے سے بیٹھا ہوا اُسے ہی دیکھ رہا تھا اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی یا زارون کوئی سوال کرتا دادا سائیں اسٹیج پر آئے دونوں کو خوشیوں کی دعا دیتے انہیں چلنے کا کہا۔
فنکشن ختم ہو چکا تو سب اپنے گھروں کی جانب بڑھ گئے۔ گل تو زارون کے الفاظ سوچ سوچ کر ہی خوفزدہ ہوئی جارہی تھی۔
رات رفتا رفتا پگھلنے لگی تھی لیکن حالات بتا رہے تھے اسے نیند نہیں آنے والی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now